علم غیب خاصہ ذات باری ہے
غیب
کسے کہتے ہیں ؟ ایسا علم جو انسان کے جاننے کے ذرائع سے پوشیدہ ہو۔وہ غیب
ہو گا۔ غیب کا اصل مفہوم کیا ہے؟جسے غیب کہتے ہیں اسے جاننا صرف اﷲ کا خاصہ
ہے۔ اگر اسے جاننے کیلئے کوئی ذریعہ درمیان میں آ گیا تو وہ غیب نہیں رہے
گا۔جیسے کرکٹ کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں کیا پتہ کس نے چھکا مارا؟کس نے
چوکا مارا؟ اور کس نے گیند پھینکی؟ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ ایک ذریعہ
درمیان میں آ گیاہمیں غیب پہ اطلاع ہو گئی ۔درمیان میں سبب ہے۔اﷲ کا علم
اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے کا اسے علم ہے اور درمیان میں
کوئی سبب نہیں۔ وہ ذاتی طور پر جانتا ہے اور یہ ہے غیب جو صرف اﷲ جانتا
ہے۔غیب مخلوق کے حوالے سے ہے۔لیکن اﷲ کے سامنے ہر چیز حاضر ہے۔اس لئے کہتے
ہیں کہ غیب جاننا خاصہ ذات باری ہے۔
دنیا کے مخفی احوال جاننے کے لئے لوگوں نے کچھ تحقیق اور جستجو کی اور چند اندازے بنا لئے ان میں دو طرح سے کام ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو شیطان سے مصاحبت ہو جاتی ہے اور شیطان کچھ نہ کچھ باتیں ان کے دلوں میں ڈالتا رہتا ہے۔قرآن کریم میں آتا ہے (سورۃالانعام 121 ) شیطان اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں۔ایک واقعہ کہیں ہوا ایک شیطان نے دوسرے کو بتایا ،اس نے اپنے کسی ساتھی کو بتایا اس نے یہاں بات کر دی کہ فلاں جگہ یہ ہوا ہے۔ لوگوں نے سمجھا یہ بڑا غیب دان ہے۔غیب کی ایک قسم یہ ہے لیکن یہ سارے غیب آسمان کے نیچے نیچے ہیں اور شیطان جس سے بات کرتا ہے اس کا مطلب ہے اس بندے کا کردار بھی شیطانی ہو گا۔اس کا کھانا بھی حلال نہیں ہو گا۔اس کے اعمال بھی کافرانہ ہوں گے۔وہ بدکار اور غلیظ بھی ہو گا۔
دوسری قسم علم جفر،رمل ،دست شناسی اور چہرہ شناسی وغیرہ انسانوں کی ایجاد کرد ہ مشقیں ہیں ۔علم نجوم کیا ہے؟ یہ ایک فن ہے جیسے دست شناسی کہ بعض خاص لکیریں خاص باتوں کی عماض ہوتی ہیں۔اسی طرح ستاروں کی روش بھی بعض باتوں کو ظاہر کرتی ہے۔جیسے نبض کی حرکت حکیم کو مرض کے بارے اندازہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔اگریہاں تک بات رہے تو حرج نہیں ہاں اگر اسی پر بھروسہ کرنے لگے اور اسے موثر بالذات ماننے لگے تو یہ خیال مشرکانہ ہے۔ اﷲ اس سے پناہ میں رکھے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان علوم پر اگر کوئی یقین کر لے تو اس کا اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔یہ محض اندازے ہیں جس میں غلط اور صحیح دونوں کے ہونے کا احتمال ہے۔یہ حتمی نہیں ہوتے ان سے زندگی کی راہیں مقرر نہیں کی جا سکتیں ہندو راجاؤں میں ان جوتشیوں اور نجومیوں سے ہدایات لینے کا رواج بہت تھا بعد میں ملکی حکمرانوں میں در آیااور اب شایدہی کوئی ایسا پاکستانی حکمران ہو جس نے جوتشی ورملی نہ رکھے ہوئے ہوں ۔آج کے صدر اوروزیراعظم نے اپنے اپنے محلوں میں جبکہ وزرأ نے اپنے نجومیوں اورجوتشیوں کو اعلیٰ ہوٹلوں میں مقیم رکھاہوا ہے۔ان سے راہنمائی لے کر چلتے ہیں جس کا نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے ملکی وسائل تباہ ہو رہے ہیں عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اور ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ہر نبی دنیا میں جس کام کے لئے مبعوث ہوتا ہے۔اس کے لئے جتنے علوم، قوتوں اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا کئے جاتے ہیں۔یہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ کس نبی کو کتنا غیب بتایا گیا۔یہ مالک جانے اور نبی جانے لیکن جتنے امور غیبیہ پر تمام انبیاء علیہم السلام ،رسل اور اولیاء اﷲ کو مطلع کیا گیا۔ان میں اﷲ کے بعد سب سے زیادہ جاننے والی ہستی محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔حضورﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو ساری انسانیت کے لئے اور تا قیامت سارے زمانوں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ان زمانوں کی نسبت،اس انسانی وسعت کی نسبت حضورﷺ کے علوم غیبیہ کی وسعت بھی بے پناہ ہے۔ یہ علم کسی ذریعے سے پہنچتا ہے کشف،الہام،القا،وجدان یا پھر انبیاء کو سب سے مضبوط ذریعہ جو نصیب ہوتا ہے وہ وحی الہٰی کا ہے۔ نبی کا کشف والہام تو کیا نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔لیکن یہ سب علم غیب نہیں کہلائے گا۔اﷲ کی ذات سب سے بڑا غیب ہے۔حضور ﷺ نے کائنات کو اﷲ سے آشنا کر دیا۔فرشتے غیب ہیں ،رسول اﷲ ﷺ نے فرشتوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔جنت و دوزخ غائب ہے ہمارے سامنے نہیں ہے۔لیکن حضور ﷺ نے ہر کلمہ گو کو اس کے بارے بتا دیا۔ لہٰذا نبی کا علم اﷲ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔آپ اسے علم غیب نہ کہیں۔اسے اطلاع عن الغیب کہیں۔نبی کو غیب عطا کیا جاتاہے،اﷲ کو کوئی بتاتا نہیں،نبی کو بتا دیا جاتا ہے۔یہ فرق ہے اور یہ بڑی مناسب اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔حضرت موسی ؑ کی والدہ کواﷲ نے بتا دیا کہ بچے کو دریا میں ڈال دو۔میں اسے تمہیں واپس بھی دوں گااور اسے اپنا رسول بناؤں گا وہ غیب تھا۔اسی طرح حضرت موسی ؑ کی والدہ کواﷲ نے بتا دیا کہ بچے کو دریا میں ڈال دو۔میں اسے تمہیں واپس بھی دوں گااور اسے اپنا رسول بناؤں گا وہ غیب تھا۔اسی طرح عیسٰی ؑ کی والدہ کو حکم دیا کہ بولنا نہیں اور بچے کو لے کر جاؤ یہ خودبات کر لے گا۔انہوں نے عرض کی یااﷲ یہ تو بچہ ہے اﷲ نے فرمایا اسے لے جاؤ یہ بات کر لے گا۔وہ لائیں تو لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی اور آپ مسجد میں پلی بڑھی تھیں۔ یہ بچہ کہاں سے لیا ؟ انہوں نے کہا میرا تو چپ کا روزہ ہے اس بچے سے بات کر لو۔لوگوں نے کہا (سورۃ مریم آیت 29 ) اس سے ہم کیا بات کریں ؟یہ تو چھوٹا بچہ ہے ایک دن کا پینگھوڑے میں پڑا ہے۔حضرت عیسٰی ؑ نے فرمایا انی عبداﷲ ۔اﷲ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ۔حضرت مریم ؑ کو تو یہی فرمایا تھا کہ بچے کو لوگوں کے سامنے لے جاؤ یہ خود بتا دے گا یہ بھی تو غیب تھا۔ لیکن اﷲ نے حضرت مریم کو غیب کی اطلاع دے دی۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے سامنے زمینوں اور آسمانوں کی کائنات کو کھول کر رکھ دیالیکن جب انہیں حکم دیا کہ بیٹے کو میرے سامنے ذبح کرو تو آخر تک نہیں بتایا کہ تیرے بیٹے کو بچا لوں گا۔بسم اﷲ اﷲ اکبر چھری چلا دی خون بہہ نکلاجسم تڑپ کرٹھنڈا ہو گیا اور ابھی تک حضرت ابراھیم علیہ السلام سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کر دیا ۔آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کھڑے مسکرا رہے ہیں او ر دنبہ ذبہ ہوا پڑا ہے۔گھبرا گئے ۔میں نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا تھا۔کیا میری قربانی ضائع گئی؟ فوراً اﷲ کی طرف سے یہ وحی آئی (سورۃ الصٰفٰت آیت 105) میرے حبیب علیہ السلام ! تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔بچے کو بچا لینا اوردنبہ رکھ دینا یہ میرا کام تھا۔ قرآن کریم میں حضرت یوسف ؑ کے واقعے میں ملتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کو مصر میں اپنا کرتہ عطاء کیا اورکہاکہ یہ میرے والد کی آنکھوں پر لگانا ان کی بینائی لوٹ آئے گی اور وہ شخص کرتہ لے کر جب مصر سے نکلا کنعان میں بیٹھے ہوئے حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا (سورۃ یوسف 94 ) آج مجھے یوسف ؑ کی خوشبو آرہی ہے۔ایک سوال کرنے والے نے کہاکہ آپ ؑ نے یوسف ؑ کی خوشبو مصرسے سونگھ لی اورجب یوسف ؑ یہاں کنعان کے کنوئیں میں پڑے رہے
توآپ ؑ کوپتہ نہیں چلاانہوں نے فرمایانبیوں اوررسولوں کاحال برق تپاں کی طرح ہوتاہے کہ جب چمکتی ہے تو ذرہ ذرہ روشن کر دیتی ہے کبھی تو ہماری نظر عرش عُلیٰ پر ہوتی ہے اور کبھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ سامنے والی چیز کیا ہے؟
مشرکین مکہ کو بہت سے اعتراضات تھے جن میں یہ باتیں بھی تھیں کہ آپﷺ اگر اﷲ کے رسول ﷺ ہیں تو پھر یہ عام آدمی کی طرح کیوں رہتے ہیں؟ اﷲ کے خزانے ان کے پاس ہوتے۔ انہیں علوم غیبی پر دسترس ہوتی اور لوگوں کو بتاتے کہ تمہارا کیا سنور رہا ہے اور کیا بگڑ رہا ہے؟ یاپھر یہ فرشتہ صفت ہوتے نہ کھاتے نہ پیتے نہ نیند آتی۔(سورۃ الانعام 50) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے میرے حبیب ﷺ انہیں کہہ دیجیئے میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ اﷲ کے خزانے میرے قبضے میں ہیں۔ میں کوئی غیب کی خبریں دینے کے لئے مبعوث نہیں ہوافرمایادنیا کے امور طے شدہ ہیں خالق جانے اس کی مخلوق جانے اور میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ میں فرشتہ ہوں۔حالانکہ فرشتے آپ ﷺ کے در کے غلام ہیں۔(سورۃ الاعراف 188)آپ ﷺ ان سے فرما دیجئے کہ نفع اور نقصان صرف اﷲ کریم کے دست قدرت میں ہے۔میں خود اپنے نفع یانقصان پر اختیار نہیں رکھتا۔یہ رب جلیل کی پسند ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟اور یہ بھی سن لو کہ میں علم غیب بھی نہیں رکھتا اور اگر غیب کا علم میرے پاس ہوتا یا نفع و نقصان کا اختیار تو مجھے کبھی کوئی دنیاوی دکھ نہ پہنچتا۔غیب سے اسے سمجھ لیتا اور نفع کا پہلو چن لیتا۔مگر میری زندگی تمہارے سامنے ہے کہ دکھ برداشت کرتا ہوں اوردنیا کے نقصان بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔ہاں میرا مقام یہ ہے کہ میں تمہاری نگاہوں کو وہ جلا دے دوں تمہارے علم کو وہ وسعت دے دوں کہ تمہیں برائی کا انجام اور نیکی کا انعام نظر آئے اور فروائے قیامت پر یقین کامل نصیب ہو جائے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کا موضوع ہی غیب سے متعلق ہے کہ فرشتے،برزخ،آخرت اور خود ذات باری جو سب سے بڑا غیب ہے۔ تمام غیوب سے ساری مخلوق کو مطلع فرماتے ہیں اورآپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں علم غیب نہیں رکھتا۔ یہ سب باتیں اﷲ کی طرف سے انبیاء کو بتائی جاتی ہیں اور جتنی بھی کسی کو بتائی گئیں سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کو بتائی گئیں ۔آپﷺکا علم اولین وآخرین کے علوم سے بھی زیادہ ہے۔مگر اس کو غیب پر اطلاع دینا کہاگیا۔یعنی اطلاع عن الغیب اور علم غیب وہ ہے جس کے حصول میں کوئی واسطہ نہ ہو۔یہ صرف اﷲ کریم کو سزاوار ہے۔ شان نبوت یہ ہے کہ نیک وبد بھلائی و برائی کانہ صرف پتہ چل جائے بدی سے بچنا نصیب ہو۔جنت کی بشارت نصیب ہو جائے اور یہی ولی کا کمال ہے کہ عقیدے اور عمل کی اصلاح نصیب ہو جائے ہاں یہ نعمت یقیناً انہی کو نصیب ہو سکے گی جو ایمان لائیں گے کہ نبی سے اخذ فیض کی بنیاد ایمان پرہے۔
از افادات : حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالیٰ
شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ دارلعرفان منارہ ضلع چکوال
دنیا کے مخفی احوال جاننے کے لئے لوگوں نے کچھ تحقیق اور جستجو کی اور چند اندازے بنا لئے ان میں دو طرح سے کام ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو شیطان سے مصاحبت ہو جاتی ہے اور شیطان کچھ نہ کچھ باتیں ان کے دلوں میں ڈالتا رہتا ہے۔قرآن کریم میں آتا ہے (سورۃالانعام 121 ) شیطان اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں۔ایک واقعہ کہیں ہوا ایک شیطان نے دوسرے کو بتایا ،اس نے اپنے کسی ساتھی کو بتایا اس نے یہاں بات کر دی کہ فلاں جگہ یہ ہوا ہے۔ لوگوں نے سمجھا یہ بڑا غیب دان ہے۔غیب کی ایک قسم یہ ہے لیکن یہ سارے غیب آسمان کے نیچے نیچے ہیں اور شیطان جس سے بات کرتا ہے اس کا مطلب ہے اس بندے کا کردار بھی شیطانی ہو گا۔اس کا کھانا بھی حلال نہیں ہو گا۔اس کے اعمال بھی کافرانہ ہوں گے۔وہ بدکار اور غلیظ بھی ہو گا۔
دوسری قسم علم جفر،رمل ،دست شناسی اور چہرہ شناسی وغیرہ انسانوں کی ایجاد کرد ہ مشقیں ہیں ۔علم نجوم کیا ہے؟ یہ ایک فن ہے جیسے دست شناسی کہ بعض خاص لکیریں خاص باتوں کی عماض ہوتی ہیں۔اسی طرح ستاروں کی روش بھی بعض باتوں کو ظاہر کرتی ہے۔جیسے نبض کی حرکت حکیم کو مرض کے بارے اندازہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔اگریہاں تک بات رہے تو حرج نہیں ہاں اگر اسی پر بھروسہ کرنے لگے اور اسے موثر بالذات ماننے لگے تو یہ خیال مشرکانہ ہے۔ اﷲ اس سے پناہ میں رکھے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان علوم پر اگر کوئی یقین کر لے تو اس کا اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔یہ محض اندازے ہیں جس میں غلط اور صحیح دونوں کے ہونے کا احتمال ہے۔یہ حتمی نہیں ہوتے ان سے زندگی کی راہیں مقرر نہیں کی جا سکتیں ہندو راجاؤں میں ان جوتشیوں اور نجومیوں سے ہدایات لینے کا رواج بہت تھا بعد میں ملکی حکمرانوں میں در آیااور اب شایدہی کوئی ایسا پاکستانی حکمران ہو جس نے جوتشی ورملی نہ رکھے ہوئے ہوں ۔آج کے صدر اوروزیراعظم نے اپنے اپنے محلوں میں جبکہ وزرأ نے اپنے نجومیوں اورجوتشیوں کو اعلیٰ ہوٹلوں میں مقیم رکھاہوا ہے۔ان سے راہنمائی لے کر چلتے ہیں جس کا نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے ملکی وسائل تباہ ہو رہے ہیں عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اور ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ہر نبی دنیا میں جس کام کے لئے مبعوث ہوتا ہے۔اس کے لئے جتنے علوم، قوتوں اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا کئے جاتے ہیں۔یہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ کس نبی کو کتنا غیب بتایا گیا۔یہ مالک جانے اور نبی جانے لیکن جتنے امور غیبیہ پر تمام انبیاء علیہم السلام ،رسل اور اولیاء اﷲ کو مطلع کیا گیا۔ان میں اﷲ کے بعد سب سے زیادہ جاننے والی ہستی محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔حضورﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو ساری انسانیت کے لئے اور تا قیامت سارے زمانوں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ان زمانوں کی نسبت،اس انسانی وسعت کی نسبت حضورﷺ کے علوم غیبیہ کی وسعت بھی بے پناہ ہے۔ یہ علم کسی ذریعے سے پہنچتا ہے کشف،الہام،القا،وجدان یا پھر انبیاء کو سب سے مضبوط ذریعہ جو نصیب ہوتا ہے وہ وحی الہٰی کا ہے۔ نبی کا کشف والہام تو کیا نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔لیکن یہ سب علم غیب نہیں کہلائے گا۔اﷲ کی ذات سب سے بڑا غیب ہے۔حضور ﷺ نے کائنات کو اﷲ سے آشنا کر دیا۔فرشتے غیب ہیں ،رسول اﷲ ﷺ نے فرشتوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔جنت و دوزخ غائب ہے ہمارے سامنے نہیں ہے۔لیکن حضور ﷺ نے ہر کلمہ گو کو اس کے بارے بتا دیا۔ لہٰذا نبی کا علم اﷲ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔آپ اسے علم غیب نہ کہیں۔اسے اطلاع عن الغیب کہیں۔نبی کو غیب عطا کیا جاتاہے،اﷲ کو کوئی بتاتا نہیں،نبی کو بتا دیا جاتا ہے۔یہ فرق ہے اور یہ بڑی مناسب اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔حضرت موسی ؑ کی والدہ کواﷲ نے بتا دیا کہ بچے کو دریا میں ڈال دو۔میں اسے تمہیں واپس بھی دوں گااور اسے اپنا رسول بناؤں گا وہ غیب تھا۔اسی طرح حضرت موسی ؑ کی والدہ کواﷲ نے بتا دیا کہ بچے کو دریا میں ڈال دو۔میں اسے تمہیں واپس بھی دوں گااور اسے اپنا رسول بناؤں گا وہ غیب تھا۔اسی طرح عیسٰی ؑ کی والدہ کو حکم دیا کہ بولنا نہیں اور بچے کو لے کر جاؤ یہ خودبات کر لے گا۔انہوں نے عرض کی یااﷲ یہ تو بچہ ہے اﷲ نے فرمایا اسے لے جاؤ یہ بات کر لے گا۔وہ لائیں تو لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی اور آپ مسجد میں پلی بڑھی تھیں۔ یہ بچہ کہاں سے لیا ؟ انہوں نے کہا میرا تو چپ کا روزہ ہے اس بچے سے بات کر لو۔لوگوں نے کہا (سورۃ مریم آیت 29 ) اس سے ہم کیا بات کریں ؟یہ تو چھوٹا بچہ ہے ایک دن کا پینگھوڑے میں پڑا ہے۔حضرت عیسٰی ؑ نے فرمایا انی عبداﷲ ۔اﷲ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ۔حضرت مریم ؑ کو تو یہی فرمایا تھا کہ بچے کو لوگوں کے سامنے لے جاؤ یہ خود بتا دے گا یہ بھی تو غیب تھا۔ لیکن اﷲ نے حضرت مریم کو غیب کی اطلاع دے دی۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے سامنے زمینوں اور آسمانوں کی کائنات کو کھول کر رکھ دیالیکن جب انہیں حکم دیا کہ بیٹے کو میرے سامنے ذبح کرو تو آخر تک نہیں بتایا کہ تیرے بیٹے کو بچا لوں گا۔بسم اﷲ اﷲ اکبر چھری چلا دی خون بہہ نکلاجسم تڑپ کرٹھنڈا ہو گیا اور ابھی تک حضرت ابراھیم علیہ السلام سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کر دیا ۔آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کھڑے مسکرا رہے ہیں او ر دنبہ ذبہ ہوا پڑا ہے۔گھبرا گئے ۔میں نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا تھا۔کیا میری قربانی ضائع گئی؟ فوراً اﷲ کی طرف سے یہ وحی آئی (سورۃ الصٰفٰت آیت 105) میرے حبیب علیہ السلام ! تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔بچے کو بچا لینا اوردنبہ رکھ دینا یہ میرا کام تھا۔ قرآن کریم میں حضرت یوسف ؑ کے واقعے میں ملتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کو مصر میں اپنا کرتہ عطاء کیا اورکہاکہ یہ میرے والد کی آنکھوں پر لگانا ان کی بینائی لوٹ آئے گی اور وہ شخص کرتہ لے کر جب مصر سے نکلا کنعان میں بیٹھے ہوئے حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا (سورۃ یوسف 94 ) آج مجھے یوسف ؑ کی خوشبو آرہی ہے۔ایک سوال کرنے والے نے کہاکہ آپ ؑ نے یوسف ؑ کی خوشبو مصرسے سونگھ لی اورجب یوسف ؑ یہاں کنعان کے کنوئیں میں پڑے رہے
توآپ ؑ کوپتہ نہیں چلاانہوں نے فرمایانبیوں اوررسولوں کاحال برق تپاں کی طرح ہوتاہے کہ جب چمکتی ہے تو ذرہ ذرہ روشن کر دیتی ہے کبھی تو ہماری نظر عرش عُلیٰ پر ہوتی ہے اور کبھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ سامنے والی چیز کیا ہے؟
مشرکین مکہ کو بہت سے اعتراضات تھے جن میں یہ باتیں بھی تھیں کہ آپﷺ اگر اﷲ کے رسول ﷺ ہیں تو پھر یہ عام آدمی کی طرح کیوں رہتے ہیں؟ اﷲ کے خزانے ان کے پاس ہوتے۔ انہیں علوم غیبی پر دسترس ہوتی اور لوگوں کو بتاتے کہ تمہارا کیا سنور رہا ہے اور کیا بگڑ رہا ہے؟ یاپھر یہ فرشتہ صفت ہوتے نہ کھاتے نہ پیتے نہ نیند آتی۔(سورۃ الانعام 50) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے میرے حبیب ﷺ انہیں کہہ دیجیئے میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ اﷲ کے خزانے میرے قبضے میں ہیں۔ میں کوئی غیب کی خبریں دینے کے لئے مبعوث نہیں ہوافرمایادنیا کے امور طے شدہ ہیں خالق جانے اس کی مخلوق جانے اور میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ میں فرشتہ ہوں۔حالانکہ فرشتے آپ ﷺ کے در کے غلام ہیں۔(سورۃ الاعراف 188)آپ ﷺ ان سے فرما دیجئے کہ نفع اور نقصان صرف اﷲ کریم کے دست قدرت میں ہے۔میں خود اپنے نفع یانقصان پر اختیار نہیں رکھتا۔یہ رب جلیل کی پسند ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟اور یہ بھی سن لو کہ میں علم غیب بھی نہیں رکھتا اور اگر غیب کا علم میرے پاس ہوتا یا نفع و نقصان کا اختیار تو مجھے کبھی کوئی دنیاوی دکھ نہ پہنچتا۔غیب سے اسے سمجھ لیتا اور نفع کا پہلو چن لیتا۔مگر میری زندگی تمہارے سامنے ہے کہ دکھ برداشت کرتا ہوں اوردنیا کے نقصان بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔ہاں میرا مقام یہ ہے کہ میں تمہاری نگاہوں کو وہ جلا دے دوں تمہارے علم کو وہ وسعت دے دوں کہ تمہیں برائی کا انجام اور نیکی کا انعام نظر آئے اور فروائے قیامت پر یقین کامل نصیب ہو جائے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کا موضوع ہی غیب سے متعلق ہے کہ فرشتے،برزخ،آخرت اور خود ذات باری جو سب سے بڑا غیب ہے۔ تمام غیوب سے ساری مخلوق کو مطلع فرماتے ہیں اورآپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں علم غیب نہیں رکھتا۔ یہ سب باتیں اﷲ کی طرف سے انبیاء کو بتائی جاتی ہیں اور جتنی بھی کسی کو بتائی گئیں سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کو بتائی گئیں ۔آپﷺکا علم اولین وآخرین کے علوم سے بھی زیادہ ہے۔مگر اس کو غیب پر اطلاع دینا کہاگیا۔یعنی اطلاع عن الغیب اور علم غیب وہ ہے جس کے حصول میں کوئی واسطہ نہ ہو۔یہ صرف اﷲ کریم کو سزاوار ہے۔ شان نبوت یہ ہے کہ نیک وبد بھلائی و برائی کانہ صرف پتہ چل جائے بدی سے بچنا نصیب ہو۔جنت کی بشارت نصیب ہو جائے اور یہی ولی کا کمال ہے کہ عقیدے اور عمل کی اصلاح نصیب ہو جائے ہاں یہ نعمت یقیناً انہی کو نصیب ہو سکے گی جو ایمان لائیں گے کہ نبی سے اخذ فیض کی بنیاد ایمان پرہے۔
از افادات : حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالیٰ
شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ دارلعرفان منارہ ضلع چکوال
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد علم الغیب کا مسلئہ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںآج یھ تحریر پڑھنے سے مجھے علم الغیب کا پتا چلا کھ اصل میں علم الغیب کسے کھتے ھیں۔۔
جواب دیںحذف کریں