بیوی کے حقوق اور شوہر کی لاپرواہیاں
نکاح ایک عظیم سنت، نسل انسانی کی بقاء نیز مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کا بہترین پاکیزہ طریقہءکار ہے۔ علاوہ ازیں ایک خوبصورت نظامِ زندگی بھی ہے۔
لیکن افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ازدواجی نظامِ زندگی شدیر ابتری کا شکار ہو رہا ہے؛ جس کا سب سے اہم سبب نوجوان نسل کی دین سے دوری اور بعداز نکاح میاں بیوی کے حقوق سے لاعلمی اور لاپرواہی ہے۔
والدین کی کافی تگ ودو اور سوچ بچار کے بعد جب ایک مرد و عورت رشتہءازدواج میں منسلک ہو جاتے ہیں تو اکثریت میں کچھ ہی دنوں کے بعد تلخ کلامی، کج ادائی اور بے توجہی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسکی کئی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن شوہر کی طرف سے جو منفی رویہ بیویوں کیساتھ روا رکھا جاتا ہے ہم اسکا ذکر کرنا اہم سمجھتے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت بھی ہے اور مرد عورت پر اختیار بھی رکھتے ہیں۔
اگر اختیار اور فضیلت دی گئی تو مرد کو فرائض بھی زیادہ دیے گئے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ان فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرنیوالے مرد بدقسمت سے بہت کم پائے جاتے ہیں۔ جسکی وجہ سے عورتیں اکثر خود کو بے سہارا سمجھنا شروع کر دیتی ہیں ۔
مرد حضرات کے کیا فرائض ہیں، اور اسے کیسے اپنی بیوی کو ہینڈل کرنا چاہیے ہم ان نکات پر بات کرتے ہیں۔
1-بہت سے مرد حضرات بالخصوص ہمارے دیہاتوں میں، بیوی بس اپنے بچوں کی ماں اور گھر کے کام کاج کرنیوالی ایک عورت تصور کرتے ہیں، نتیجتاً وہ عورت اس تصور سے تنگ آ کر وہی بن جاتی ہے جو وہ سمجھتا ہے۔
2-ہمارے مرد حضرات میں ایک بات بہت حد تک پائی جاتی ہے کہ عورت کے کام کاج میں اسکا ہاتھ بٹانا وہ اپنی نامردی تصور کرتے ہیں، حالانکہ یہ بیوی کی محبت و چاہت حاصل کرنیکا بہترین طریقہ کار بھی۔
3- بچے دونوں کی مشترکہ کمائی ہوتے ہیں، لیکن اس دولت کا خیال رکھنا گھر میں صرف بیوی کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، انکو نہلانا، کپڑے بدلنا، اسکول کے لیے تیار کرنا، کھلانا پلانا، حتیٰ کہ میڈیسن وقت پر دینا بھی بیوی کی ذمہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ شوہر بھی انکا والد صاحب ہوتا ہے، اور کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ وہ یہ سب کام کرنیکا ہرگز مجاز نہیں۔
4- اکثر مرد حضرات کھانے میں اپنی پسند کو ترجیع دیتے ہیں بیوی سے کبھی نہیں کہا گیا کہ یار آج آپ کا جو دل کہہ رہا ہے وہ بنالیں، حالانکہ یہ حق بیوی کا بھی ہے، کیونکہ اسکی زبان بھی خوشگوار ذائقے پسند کر سکتی ہے۔
5- بڑی محنت اور مشکل سے تیار کر کے کھانا سامنے رکھنے والی بیوی کے کھانے میں اکثر نقص نکالے جاتے ہیں، کبھی نمک نہیں تو کبھی مرچ تیز تو کبھی یوں کہہ دیا جاتا، مزہ نہیں آیا، اس سے بیوی کے دل میں بیزاری پیدا ہوتی ہے۔
6- اکثر امیر شوہر عورت کو مہنگے کپڑے، جوتی، زیور اور بہترین عمدہ گھر تو دیتے ہیں، لیکن محبت کا وہ احساس نہیں دیتے کہ جسے محسوس کر کے بیوی اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کر پائے۔
7- بہت سے مرد حضرات کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو دوسروں کی بیویوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں کی بیوی بہت سمجھدار ہے، فلاں کی بیوی بڑی تابعدار ہے فلاں کی بیوی ہر کام بہت اچھا کر لیتی ہے حتیٰ کہ کچھ صاحب تو دوسرے کی بیوی کے حسن کی اپنی بیوی کے سامنے تعریف کرنے سے بھی باز نہیں آتے، ایسا بارہا ہونے پر بیوی بھی ایک دن سوچ لیتی ہے کہ میں بری تو پھر بری ہی سہی ۔
8- بہت سے مرد حضرات ہمیشہ ہر جرم کا الزام اپنی بیوی پر ہی لگاتے ہیں، کیونکہ انکی نظر میں انکے والدین، بہنیں، اور بھائی گناہوں سے پاک فرشتے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں ہمیشہ بیوی ہی قصور وار ہوتی ہے۔
8- دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر مردوں کا رویہ گھر سے باہر تو بہت اچھا ہوتا ہے لیکن گھر میں قدم رکھتے ہی اس کے تیور بدل جاتے ہیں، اور اسکی زبان اور انداز گفتگو بیوی کیساتھ اخلاق کے دائرے میں بالکل نہیں ہوتے۔
9-کام سے واپسی پر شوہر اپنے بچوں کو تو گلے لگاتا ہے لیکن بیوی کو سلام تک نہیں دیتا۔
10- اپنے ذاتی مسائل اور منصوبہ بندی میں ہمیشہ والدین یا دوسروں سے رائے لی جاتی ہے، اور عمل بھی کیا جاتا ہے، جبکہ بیوی کو خبر بھی نہیں ہوتی، حالانکہ وہ عمر بھر کے لیے اسکی ساتھی ہوتی ہے۔
11- فلمی اداکاراؤں کی تو تعریف کی جاتی ہے لیکن بیوی کو کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ آج تم بہت حسین لگ رہی ہو بہت خوبصورت ہو،
شوہر حضرات کے یہ وہ کارنامے ہیں کہ جن کو سہتے سہتے بالآخر ایک عورت کے دل میں برداشت کی قوت ختم ہو جاتی ہے، اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر سائبان ہونیکے باوجود اپنے سر پر زندگی کی کڑتی دھوپ محسوس کرتی ہے، پھر آہستہ آہستہ فاصلے بڑھتے بڑھتے ایسی جدائی پر ختم ہوتے ہیں کہ وقتِ قربت کسی کو اسکا تصور بھی نہیں ہوتا۔
وہ مرد حضرات جن کو اﷲ نے یہ اہم ذمہ داری دے رکھی ہے، ہماری اس تحریر کا غور سے مطالعہ کریں، اور آج سے یہ کوشش کریں کہ ایسا کوئی عمل وہ نہ کریں۔
رب العزت ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے،
آمین ثم آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔