پس منظر
سلسلۂ نبو ت، آقائے نامدارﷺ
پراختتام پذیرہوا لیکن کارِ نبوت تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ برکاتِ نبویﷺ
اور تعلیماتِ نبویﷺ کی حفاظت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے
ذمہ ہے لیکن ان کی ترویج وتقسیم کا فریضہ
مشائخِ عظام، اولیائے کرام اور علمائے حق کی مقدس جماعت کے سپرد ہوا۔ ان
نفوسِ قدسیہ نے مثلِ انبیاء بنی اسرائیل علیہم
السلام
اس کارِ نبو ت کی بجا آوری کاحق یوں
اداکیا کہ صدیوں کی دوری کے باوجودآج بھی امت کی زبان پر یہ اعترافِ حقیقت جاری
ہے۔
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْايْمَانِ
اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّاقصلے
اے ہمارے
پروردگار! بیشک ہم نے ایک پکارنے والے کو
سنا وہ ایمان کے لئے پکار رہا تھا کہ اپنے
پروردگار کے ساتھ ایمان لاؤ پس ہم ایمان لے آئے۔(آل
عمران۔193)
اس
آیت ِکریمہ کی تلاوت کرتے ہوئے ہر قاری کی زبان پر،خواہ اس کا تعلق کسی دور سے بھی
ہو،یہ اعترافِ حقیقت جاری ہے کہ دربارِ رسالتﷺ
کے ان نقیبوں نے اس
تک پیغامِ رسالت اس طرح پہنچایا گویاکہ اس نے یہ پیغام براہِ راست آقائے
نامدارﷺ سے سنا ہو ۔ یہی حال برکات ِنبویﷺ
کا ہے جن کی ترسیل اہل اللہ کے حصہ میں آئی۔ یہ باطنی دولت ان
کے منور قلوب کے ذریعے اس طرح تقسیم ہو ئی کہ صدیوں کے فاصلوں کے باوجود برکات ِ
صحبت ِنبویﷺ آج بھی قلوب کو منور کر رہی ہیں، تقربِ الٰہی کا واسطہ ہیں اوران برکات
کے دم قدم سے یہ جہاں آباد ہے ۔
جس طرح برکات کا وجود بقائے جہاں کی ضمانت ہے،اسی طرح کفر کے
مقابل برکات کے توازن سے دنیا میں امن قا
ئم ہے اور فسادفی الارض اسی توازن کے
بگڑنے کا نام ہے۔ تاریخ کے ادوار میں جب کبھی ظلمت و گمراہی انتہاکو پہنچی تو اس کے مقابلے میں اتنے ہی بلند مرتبہ عالمِ ربانی اور ولی ٔ
کامل کو نورِنبوت کے انعکاس پر مامور فرمایا گیا۔ سیّدعبدالقادر جیلانیؒ کے زمانہ پر نگاہ ڈالیں تو روا فض کے فرقۂ
باطلہ کی تاریکی شق کرنے کے لۓ یقیناً ایسے
ہی تابناک سورج کی ضرورت تھی۔ برصغیر میں حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کے ہاتھوں دین ِ
اکبری کا خاتمہ ہوا اور تجدید واحیائے دین کا عظیم فریضہ سرانجام دینے پروہ مجدد
الف ثانیؒ کہلائے۔ غرض جب کبھی کفر کی تیرگی حد سے بڑھی، اسی قدر صاحب ِ قوت و تصرف ہستی کے ذریعہ
نور ِنبوت کا تفوّق ظہور میں آیا۔یہی سنتِ
الٰہی تاریخ کے تسلسل کے ساتھ ہمیشہ جاری نظر آتی ہے۔
بقول علامہ
اقبالؒ :
ستیزہ کار
رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی ﷺ سے شرارِ بولہبی
چراغِ مصطفوی ﷺ سے شرارِ بولہبی
تاریخ ِ اسلام پہ نگاہ ڈالیں تو انیسویں صدی کے وسطِ آخر میں امت
ِمسلمہ مکمل طورپر باطل قوتوں کے نرغے میں نظر آتی ہے۔ آقائے نامدارﷺ کی پیش گوئی کے مطابق کفار
مجتمع ہو کر گروہ در گروہ اس طرح عالم
اسلام کے درپے تھے جس طرح بھوکے لوگ دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیسویں صدی کے
اوائل میں خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ، مسلم ریاستوں کا بٹوارہ اور چھوٹے چھوٹے جغرافیائی ٹکڑوں پر
اپنے گماشتوں کے ذریعے بالواسطہ مغرب کی حکمرانی کے ساتھ مسلم دنیا پر کفر کا تسلط
مکمل ہو چکا تھا جو امت ِمرحومہ کی تاریخ کا
بدترین دور تھا۔
اسی پُر فتن زمانے میں برصغیر
میں قادیانیت کے نام سے اجرائے نبوت کے شجرِ خبیثہ کا بیج بویا گیا جو بیرونی
آقاؤں کی آبیاری سے خوب پھلا پھولا۔ چکڑالوی مذہب
کے نام پر انکار ِسنت کے فتنہ نے سر اٹھایا جس کی ترقی یافتہ شکل بعد میں
پرویزیت کی صورت منظرِ عام پر آئی۔ اسی
زمانے میں روافض نے بھی زور پکڑا اور صحابۂ کرام] کی مقدس
جماعت کی کھلے عام کردار کشی ہونے لگی۔ ان
تمام فتنوں کا براہِ راست ہدف آقائے
نامدارﷺ کی نبوت کو
بنایا گیا تاکہ برکات نبویﷺ کے منبع سے امت کے تعلق کو کمزور کر دیا جائے۔ ان
فتنوں کے نتیجہ میں نہ صرف تعلیماتِ نبویﷺ کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلائے گئے بلکہ صوفیاء
کا خانقاہی نظام بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جو تقسیمِ برکاتِ نبویﷺ کا اہم شعبہ تھا۔
ماضی
میں امتِ مرحومہ میں جو بھی دینی خرابیاں
رونما ہوئیں،ان کا تعلق اکثر خرابی ٔاعمال
سے ہوا کرتاتھا لیکن دورِحاضر کے ان فتنوں کا تعلق فسادِعقائد سے تھا۔ خرابی
ٔاعمال کی صورت میں ایمان اور عقائد کی جڑ
تو سلامت رہتی ہے لیکن عقائد کا فساد قاطع ایمان ہے جس
کے بعد قلب کی حیات ممکن نہیں۔ اعتقادی مفسدات کے اس دورِ پر فتن میں اصلاح ِ احوال کا
معاملہ محض تبلیغ وتلقین اور درس وتدریس سے کہیں آگے نکل چکا تھا۔ایمان و یقین
متزلزل ہونے کی صورت میں اصلاحِ اعمال کی بجائے اصلاحِ قلوب کی ضرورت تھی جو بجز
نورِنبوت ﷺ
ممکن نہ تھی۔
ہر
دور میں اہل اللہ کی مقدس جماعت نورِ نبوتﷺ
کی امین ہوا کرتی ہے اور اہل اللہ اس نعمت کی ترسیل کا واسطہ بنتے ہیں۔یہ
حالات اسی نظامِ تربیت کو نہ صرف متحرک کرنے بلکہ دین کے اہم ترین شعبے ‘احسان’ یا سلف صالحین کے الفاظ میں طریقت یا تصوف کے احیاء و
تجدیدکے شدت سے متقاضی تھے تاکہ عقائد کی
اصلاح ہو سکے۔ اس کارِ عزیمت کے لئے اللہ سبحانہٗ
و تعالیٰ نے اپنے جس بندے کو منتخب فرمای،وہ تھے حضرت العلّام
مولانا اللہ یار خان :۔
حضرت جیؒ
دورِ حاضر میں معرفت ِ باری تعالیٰ اور برکاتِ نبویﷺ
کی بے پایاں وبے مثال تقسیم، اصلاحِ
عقائد ا ور درستگی ٔ اعمال کا ایسا واسطہ بنے جس کا انقطاع اب وقت
کے بس کی بات نہیں۔ آج آپؒ کے روحانی جانشین حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہٗ
العالی دنیا کے گوشے گوشے تک برکاتِ صحبتِ نبویﷺ کی تقسیم کا مقدس فریضہ سرانجام
دے رہے ہیں اور حضرت جؒی کے فرمان کے مطابق تقسیم برکات کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری
رہے گا، اِنْ شَاءَ اللہ ۔
ذٰلِكَ
فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُط
یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہیں عطا فرما دیں۔(
المآئدة ۔5
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔