ANTI-ADBLOCK JS SYNC پیش لفظ ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

پیش لفظ

پیش لفظ

            کسی صاحب ِ عزیمت ہستی کے حالات و واقعات تاریخ کے سپرد کرنے کے لئے  فنِ سوانح نگاری کا وسیع تجربہ چاہیے۔ سوانح نگار کو اس شخصیت کا ذاتی تقرب حاصل رہا ہو اور اس کے متعلق براہ ِراست معلومات رکھتا ہو تویہ ایک اضافی خصوصیت ہوگی وگرنہ ان لوگوں سے استفادہ ضروری ہوگا جو مطلوبہ معلومات کے امین ہوں۔اب سوانح نگار اگر اپنے ذخیرۂ معلومات کو اس طرح صفحۂ قرطاس پر منتقل کر سکے کہ دورا نِ مطالعہ اس ہستی کی معیت کا احساس ہونے لگے تو شایدسوانح نگاری کا حق ادا ہو سکے۔یہ معیار تو ان شخصیات کی سوانح کے لئے ہے جن کاتعلق صرف ظاہری حالات و واقعات سے ہولیکن یہاں جس تاریخ سازہستی کی سوانح لکھنا مقصود ہے اس کی شخصیت حالاتِ ظاہری سے کہیں زیادہ باطنی احوال پرمحیط ہے جن کے ادراک کے لئے نگاہِ بصیرت بھی چاہیے۔
               حضرت العلّام مولانا اللہ یار خان : نے اہلِ خاندان اور عزیزواقارب کے درمیان عمربسر کی لیکن کیا وہ آپؒ کو پہچان سکے؟ ا ن لوگوں نے آپؒ   کا ظاہر تو دیکھا لیکن احوالِ باطن کو سمجھنا ممکن نہ تھا۔ یہاں اس ہستی کی پہچان کا معاملہ تھا جو مجدّدِ طریقت تھی، قلزمِ فیوض وبرکات تھی، جس نے اہلِ دل پیدا کئے اور ان کی قافلہ سالاری کی۔ جس کے احوال بارگاہِ الٰہی اور دربار ِنبویﷺ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں سوانح نگار کے لئے اصل آزمائش یہ ہوگی کہ ان باطنی احوال کو اس طرح الفاظ کا جامہ پہنائے کہ کیفیات و برکات بھی الفاظ کے ذریعے قاری کے دل تک پہنچ سکیں۔ یقیناً یہ کام ادب اور فن سے الگ چیز ہے۔ ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حضرت جؒی کی سوانح تاریخ کے سپرد  کرنا راقم کے بس کی بات نہ تھی لیکن جب شیخ المکرم نے اس کام پر لگا دیا تو اللہ تعالیٰ نے توفیق بھی عطا فرمائی۔
             دورانِ تحریر بارہا ایسے واقعات پیش آئے جو تائیدِ الٰہی کا مظہر تھے اور حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنے۔ حضرت جؒی کے شاگردِ اوّل قاضی ثناء اللہؒ (لیٹی والے) کا تذکرہ ‘‘خشت ِ اوّل’’ کے عنوان سے ایک الگ باب میں کیا گیا ہے۔ آپؒ سے ان کے رابطہ کا سال ایک غلط العام روایت کے مطابق 1952ء لکھ دیا گیا۔ اس باب کی   پروف ریڈنگ کے دوران اتفاقاً حضرت جؒی کی ایک نایاب کیسٹ آن کردی تو آپؒ اسی حوالے سے فرما رہے تھے:
‘‘ابتداء کا واقعہ ہے، تبدیلی ٔملک کے دوران’’
            اس طرح درست سال  کا تعین ہو گیا یعنی 1947ء۔ یہ کیسٹ 1978ء کی ریکارڈ شدہ تھی اور اسے آن کرتے ہوئے وہم وگمان بھی نہ تھا کہ موضوع سخن کیا ہو گالیکن دو عشروں سے زائد پرانی کیسٹ کا ٹھیک اس مقام سے آغاز کہ حضرت جؒی کی زبانِ مبارک سے غلطی کی تصحیح ہوگئی، یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تائید ِباری تعالیٰ کی ایک صورت تھی۔
            مشائخ سلسلۂ عالیہ کے حالات تحریر کرتے ہوئے حضرت ابو ایوب محمد صالحؒ  کے حالات تاریخ َتصوف میں تلاشِ بسیار کے باوجود نہ مل سکے ۔ ہرات (افغانستان) میں کونسل جنرل پاکستان کوذمہ داری سونپی گئی کہ وہ شیخِ ہرات مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ کے شاگردوں کی تاریخی سرگزشت میں تلاش کریں لیکن کامیابی نہ ہوئی۔محترم حافظ عبدالرزاقؒ سے ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ حضرت جیؒ نے حضرت ابوایوب محمد صالحؒ کے بارے میں چند معلومات قلمبند کرائی تھیں جو ان کی کسی ڈائری میں محفوظ ہیں۔ درجن بھر ڈائریوں میں سے ایک ڈائری اٹھائی تو اللہ کی شان، جو صفحہ سامنے آیا اس پر حضرت ابوایوب محمد صالح ؒ  کا ہی تذکرہ تھا۔
             ایسے کئی واقعات ہیں جنہیں قلمبند کرنے کے لئے ایک طویل باب چاہیے لیکن یہاں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہو گا جو قرآنِ حکیم کے ذریعہ تائید ِالٰہی کا مظہر ہے۔ باب ‘خشت ِ اوّل’تحریر کرتے ہوئے سورةُ الحشرکی اکیسویں آیت لکھنے کے بعد ترجمہ دیکھنے کے لئے قرآن حکیم کھولا توجس آیت پر پہلی نگاہ پڑی، وہ مطلوبہ آیت ہی تھی۔یہ کلام اللہ کا اعجاز تھااور نصرتِ الٰہی کا واضح اشارہ بھی۔
          اہلِ فن کے ہاں سوانح نگاری کا اسلوب کیا ہوتا ہے، اس سے قطع نظر اس سوانح کا اپنا ہی اسلوب ہے۔ حضرت جیؒ کے حالات اگرچہ واقعاتی ترتیب کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کئی مقامات پر ابواب کی مناسبت سے ایک طرح کے واقعات یا مضامین کو اکٹھا کر دیا گیاہے تاکہ ربط قائم کرنے میں دقّت نہ ہو۔  اصل مقصد چونکہ تاریخ رقم کرنا نہیں بلکہ حضرت جؒی کی دعوت پیش کرنا ہے، اس لئے واقعات کے ساتھ ساتھ آپؒ کی تعلیمات بھی نظر آئیں گی۔  برکات اور کیفیات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کے لئے حضرت جؒی اور حضرت امیر المکرم کے الفاظ ومفاہیم کا سہارا لیا گیا ہے جو ترسیلِ فیض اورتربیت ِ قلوب کا واسطہ بنیں گے ، اِنْ شَاءَ اللّٰه ۔
            سوانح میں حضرت جؒی کے چند مایۂ ناز شاگردوں کے حالات بھی الگ ابواب کے تحت بیان کئے گئے ہیں، بالخصوص حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی کا تذکرہ جا بجا نظر آئے گا۔ یہ اس لئے ضروری تھا کہ ایک مصور کے شاہکار اس کی عظمت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
             تصوف پر لکھی گئی اکثر کتب ِتصوف اپنے ا دوار میں ہدفِ تنقید بنیں۔ معتدل اندازِ گرفت یہ ہوا کرتا تھا کہ خواص کے معاملات کو عوام کے سامنے کیوں پیش کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ سلف نے احتیاط کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے احوالِ باطنی کو اشاروں کنایوں میں بیان فرمایا لیکن حضرت جؒی کی سوانح میں اس احتیاط کا دامن بارہا چھوٹتا نظر آئے گا۔ یہ انداز سلف کی محتاط تحریروں سے ہٹ کر ہے لیکن ایسا نہ ہوتا تو یہ حضرت جؒی کے مزاج کے خلاف تھا کیونکہ آپؒ نے اخفاء کی بجائے اظہار فرمایا۔
               تابعینِ کرام کے دور کے بعد حضرت جؒی کے ہاتھوں پہلی مرتبہ ولایتِ خاصہ کوبلا امتیاز خاص وعام میں بٹتے ہوئے دیکھا۔ جب ولایت لٹانے میں آپؒ نے کوئی امتیاز برتا نہ احوالِ باطنی کے اظہار کو خواص تک محدود رکھا تو آپؒ کے احوال بیان کرتے ہوئے خاص و عام میں تفریق اور حدودوقیود کا اطلاق کیوں ہو۔حضرت جؒی اکثر فرمایا کرتے:
‘‘کیا تصوف دین کا حصہ نہیں؟اگر ہے توکیا اس کا اخفاء دین کا اخفاء نہ ہوگا؟ اوراگر یہ دین کا حصہ نہیں تو اس پر عمل کیوں ہو؟ ’’
            احوالِ باطنی سمجھنے میں اشکال پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اسے انکار کی دلیل قرار نہ دیا جائے۔ بہت سے ظاہری امور ایسے بھی ہیں جو ہر کس و ناکس کی سمجھ سے بالاتر ہونے کے باوجود تسلیم کئے جاتے ہیں، پھر سمجھ نہ آنے کی صورت میں احوالِ باطنی کا ہی انکار کیوں؟ چونکہ ان احوال کا ادراک ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ علومِ باطنی اور قلبی بصیرت کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے اعتراض یا انکارکی بجائے اس شعبہ کے حاملین سے رجوع کیا جائے تو انشراحِ صدر کی امید کی جا سکتی ہے ۔ حضرت جؒی ایسے معترضین کے لئے فرمایا کرتے:
‘‘گھوڑا بھی حاضر اور میدان بھی، آؤ اور خودمحنت کرو۔ اللہ تعالیٰ باطنی امور کی سمجھ عطا فرما دے گا۔’’
            دورانِ مطالعہ فیضانِ سلسلۂ عالیہ کا ادراک نصیب ہوتو خیال رہے کہ اس کے بعد منبعٔ فیض سے روکنا شیطان کی اوّلین ترجیح ہوگی ۔اس صورت میں وساوسِ شیطانی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اِنْ شَاءَ اللّٰه سلسلۂ عالیہ سے ر ابطہ کی صورت برکاتِ صحبت نبویﷺ سے محروم نہ رہیں گے۔
            توفیق ِ باری تعالیٰ سے یہ کاوش پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عفوو کرم کا طلب گار ہوں کہ سند ِ قبولیت عطا ہو جائے۔اس کام میں برادرم انور علی شاہ نے قدم قدم معاونت کی، اللہ تعالیٰ ان کی محنت بھی قبول فرمائے۔آمین!
وَمَا تَوْفِیْقِی اِلاَّبِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ
ربیع الاول 1426ھ
 مئی 2005ء

پیش لفظ

( بار دوم)

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةًج وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَO
جوشخص نیک کام کرے وہ خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان ہوتو ہم ضرور اس کو (دنیا میں) پاک(اور آرام کی) زندگی عطا فرمائیں گے اور (آخرت میں) ان کے اعمال کا بہت اچھا صلہ عطا فرمائیں گے۔(سورۃ النحل۔آیت 97)
            بار دوم کی اشاعت سے قبل رہنمائی کے لئے حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی کی خدمت میں حاضر ہوا تو سورة النحل کی مندرجہ بالا آیت کے حوالہ سے آپ نے فرمایا کہ ایمان اور عمل صالح کی شرائط کے ساتھ مرد و عورت کے لئے حیات طیبہ کی بشارت میں عموم ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اصطلاح کو سیرت نبویﷺ کے ساتھ استخصاص حاصل ہو گیا۔ اگرچہ ماضی میں‘‘حیات طیبہ’’ کی اصطلاح کو بعض مشاہیر کی سوانح کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے لیکن ایسی کسی مثال کو جواز ٹھہرانے کی بجائے احتیاط کا تقاضا ہے کہ مجددِ طریقت حضرت العلام مولانا اللہ یار خان  : کی سوانح ‘حیات طیبہ حصہ اول’ اور مشائخ عظام رحمۃ اللہ علیہم کی سوانح ‘حیات طیبہ حصہ دوم’ کو بالترتیب حیات جاوداں حصہ اول اور حصہ دوم کے نام سے طبع کیا جائے۔ لہٰذا باردوم حضرت امیرالمکرم کے ارشاد کے مطابق ‘حیاتِ جاوداں حصہ اول’ کے نام کے ساتھ طبع کی جا رہی ہے۔
            بارِ اول کی اشاعت کے بعد مختلف احباب کی طرف سے چند مقامات پر ترامیم و اضافہ کے لئے کہا گیا لیکن صرف ان آراء پر عمل ہو سکا جن کی تصدیق ممکن ہوئی۔ مزید طوالت کے پیش نظر بعض واقعات کے بیان میں اختصار سے کام لیا گیا ہے لیکن حضرت جؒی کے تذکرہ میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ حیاتِ جاوداں حصہ اول کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے محمد نسیم ملک نے بیش قیمت معلومات بہم پہنچائیں جو بارِدوم میں شامل کر دی گئیں۔ مختلف مقامات پر جو ترامیم و اضافہ نظر آئے گا وہ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کی رہنمائی و اجازت سے کیا گیا ہے۔
            دینی اور ادبی حلقوں کی طرف سے بارِ اول کو جو پذیرائی حاصل ہوئی، اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور اظہارِ تشکر کے ساتھ قبولیت کی استدعا ہے۔ اس ضمن میں صرف دو خطوط بطور نمونہ شامل کئے گئے ہیں۔ کتاب کا سائز مزید صفحات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لئے بارِ دوم کو قدرے بڑی تختی پر شائع کیا جا رہا ہے۔

وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّابِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ


محرم 1434ھ
دسمبر 2013ء


Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو