سلطانُ الہند کے زیر سایہ
دسمبر1971ء
کے اوائل میں میجر احسن بیگ کی پوسٹنگ کشتیہ (مشرقی پاکستان) ہوگئی۔ 1971 ء کی لڑائی کے بعد انہیں انڈیا منتقل کیا گیا تو دورانِ سفر فرار
کا منصوبہ زیرِ غور آیا۔ استخارہ کیا تو دیکھا کہ احباب کی ایک جماعت مسجد میں درس
و تدریس میں مصروف ہے۔ یہ اشارہ تھا کہ احباب کے ساتھ رہ کر ان کی تربیت کا کام کیا
جائے۔
اتفاق
سے ان کے پاس دلائل السّلوک کا ایک نسخہ بھی
تھا۔ انڈین چھاؤنی ‘‘گیا’’ کے کیمپ نمبر 93 میں
مختلف آفیسرز کو یکسوئی کے عالم میں اس نادر کتاب کے مطالعہ کاموقع ملا تو حضرت
جؒی کا پیغام ان کے دل میں اتر گیا اور آفیسرز کی ایک کثیر تعداد نے اجتماعی ذکر
شروع کر دیا۔ قید کے ابتر حالات میں سکونِ قلب عطا ہوا، کیفیات نصیب ہوئیں اور بعض احباب کو قوی مشاہدات
بھی حاصل ہوئے۔
انہی میں ایک صاحب، میجر رشید تھے۔ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے
تو قرآن میں مذکور واقعات نگاہِ بصیرت سے دیکھتے۔ سورة انفال پڑھتے تو غزوہ بدر کا
نقشہ سامنے آجاتا، اصحابِ کہف کے حالات، حضرت موسیٰu اور حضرت خضرؒ کے واقعات قلب پر منکشف ہو جاتے۔ اسیرانِ جنگ کو
پاکستان میں خط و کتابت کی اجازت ملی تو حضرت جؒی
سے خط و کتابت شروع ہوگئی۔ اس طرح خطوط کے ذریعہ انہیں آپؒ کی براہِ راست
توجہ بھی نصیب ہوئی۔
ایک
مرتبہ میجر رشید نے کشفاً حضرت جؒی کی زیارت کی تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ آپؒ کے
دائیں بازو کے بال مکمل طور پر سفید ہیں جبکہ بائیں بازو کے بال زیادہ تر سیاہ ہیں۔
انہوں نے ایک خط میں حضرت جؒی کی خدمت میں یہ مشاہدہ بیان کیا تو آپؒ نے جواباً
تحریر فرمایا:
‘‘واقعی میری دا ہنی جانب
کے بال سفید ہیں۔ بندہ بوجہ استغراق، ماہ ہاڑ (جون) دھوپ میں صبح سے دوپہر تک جنگل
میں پڑا تھا۔ اس پر لقوہ ہو گیا مگر حضورﷺ نے ہاتھ مبارک پھیرا
جس سے تین دن کے اندر اچھا ہو گیا مگر بال سفید ہو گئے، دا ہنی جانب کے۔’’
مردان کے ایک کرنل صاحب نے اپنے بھائی کو خط لکھا کہ وہ
چکڑالہ جائے اور حضرت جؒی کی زیارت کے بعد اس بات کی تصدیق کرے کہ آپؒ کے جسم کے ایک
طرف کے بال سفید ہیں۔ اس شخص نے حضرت جؒی سے ملاقات کی تو آپؒ نے بتایا کہ مراقبات
کرتے ہوئے وقت کا دھیان نہ رہا اور جس جانب لیٹا ہوا تھا، اس طرف پورا بدن بے جان
ہو گیا۔ مسجد نبوی کے مراقبہ میں تکلیف بیان کی تو یہ تکلیف رفع ہو ئی لیکن اس طرف
کے بال سفید ہو گئے۔
توجہ
کی صورت میں روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ حضرت جؒی ان کیمپوں میں درپیش مختلف فقہی
مسائل بھی حل فرماتے۔ ایک خط میں آپؒ سے زمانۂ قید میں نمازِ قصر اور جمعۃ
المبارک کے متعلق دریافت کیا گیا۔ آپؒ نے جواباً تحریر فرمایا :
‘‘حالت ِقید میں جمعہ فرض
نہیں ہے لیکن اگر پڑھا جائے تو ہو جائے گا۔ نماز البتہ پوری پڑھی جائے، چار رکعت
نہ کہ دوگانہ۔ کیونکہ قصر نماز تو ان فوجوں کی ہے جو ملک ِ کفار میں داخل ہوں،
مسافرت میں ہوں اور ان کو علم نہ ہو کہ 15 دن ایک جگہ قیام ہو گا۔جب ایک جگہ ملک ِہند
میں ہیں، آپ کو یقیناً معلوم ہے کہ قید 15 دن سے زائد ہوگی، پھر قصر کا کیا مطلب۔’’
حضرت
جؒی کے اس خط کے بعد کیمپ 93 ‘‘گیا’’ میں
تو نمازیں مکمل ادا کی جانے لگیں لیکن بہت سارے دوسرے کیمپوںمیں تذبذب کا عالم رہا
اور ایک بہت بڑی تعداد تقریباً 2 سال سے
زائد عرصہ تک نمازیں قصر ہی ادا کرتی رہی جن میں راقم کا کیمپ 54 ‘‘ساگر’’ بھی شامل تھا۔
روحانی طور پر حضرت جؒی نے اسیرانِ ہند کی یہ جماعت سلطان
الہند حضرت معین الدین چشتیؒ کے سپرد فرمائی۔ ایک خط میں آپؒ نے تحریر فرمایا، یہ
جماعت حضرت سلطان الہندؒ کی نگرانی میں ہے، وہ ہر طرح کی روحانی امداد فرما رہے ہیں،
معمول میں شریک ہوتے ہیں، القاء کرتے ہیں۔ ایک اور مکتوب میں تحریر فرمایا:
‘‘آپ کو بمعہ پوری جماعت
برائے توجہ حضرت سلطان الہند حضرت معین الدین چشتیؒ کے سپرد کیا گیا ہے۔ مشائخ ِ
برزخ سے گفتگو کی تھی، فرمایا آپ بے فکر رہیں۔ ہماری توجہ ان کے ہمراہ ہے۔ خاص کر
سلطان الہندؒ نے فرمایا، یہ جماعت جب تک اس ملک میں ہے میری جماعت ہے، آپ بے فکر
رہیں۔ خود حضرت صاحب (حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ ) نے فرمایا کہ میرا
خیال ان کی طرف پورا پورا ہے۔’’
ایک اور خط میں آپؒ نے حضرت سلطان الہندؒ کی طرف سے
دی گئی تشفّی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
‘‘یہ جماعت جب تک
ہندوستان میں ہے، میرے روحانی بچے ہیں، میری جماعت ہے۔ میں خود ان کی نگرانی کرتا
ہوں، باقاعدہ معمول میں شریک ہوتا ہوں، کبھی اپنی جگہ سے القاء کرتا ہوں۔’’
ساتھیوں
کے روحانی معاملات سے حضرت جؒی کو مسلسل آگاہ رکھا جاتا اور خطوط کے ذریعہ آپؒ
رہنمائی فرماتے کہ اب انہیں اگلے مقامات پر چلایا جائے۔ اپنے ایک مکتوب میں آپؒ نے
میجر احسن بیگ کو اجازت دی:
‘‘ جس ساتھی میں استعداد
دیکھیں اسے سالک المجذوبی اور مراقبہ ٔ مُوتُو کرا دیں اور اگر زیادہ استعداد سمجھیں
تو پھر منازلِ بالا تک مسجد (مسجدِ نُور) میں لے جائیں، آگے نہ لے جانا۔’’
ایک دوسرے خط میں آپؒ نے اجازت دی:
‘‘میجر رشید احمد صاحب کو
سالک المجذوبی اور مراقبہ ٔ موتو بھی کرادیں، اگر ان میں ظاہری استعداد سمجھیں کہ
اِتباع شریعت پوری ہے تو منازلِ بالا مسجد (مسجد ِ نُور) تک کرادیں۔ ’’
حضرت
جؒی نے تاکید فرمائی کہ ایسے ساتھی کو فنا فی الرسولﷺ
نہ کرائیں جس کی داڑھی پوری نہ ہو۔ نبی کریمﷺ پھر بندہ پر ناراض ہوتے ہیں۔
حضرت جؒی کی اجازت سے ستمبر 1972ء میں کرنل مطلوب حسین اور چند
دوسرے افسران کی ایک ٹیم نے اس کیمپ میں دلائل السّلوک کا انگریزی ترجمہ شروع کیا۔
اس ترجمے کو انتہائی باریک تحریر میں کاغذکے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر لکھاگیا جنہیں
پتلون کے پائینچوں میں سی کر مختلف احباب کے ذریعے پاکستان پہنچایا گیا۔
کیمپ نمبر 93 کے یہ احباب انتہائی خوش
نصیب تھے کہ انہیں ہمہ وقت حضرت جؒی،
حضرت سلطان الہندؒ اور مشائخ کرامؒ کی
توجہ حاصل رہی۔ حضرت جؒی ساتھیوں کے خطوط کا فرداً فرداً جواب دیتے لیکن ہر خط میں
دیگر احباب کا بھی تذکرہ ہوتا اور اس طرح پوری جماعت کو آپؒ کی شفقت اور توجہ ملتی۔
خطوط کے بارے میں آپؒ کے اہتمام کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؒ
نے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ گذشتہ دو ماہ میں اٹھائیس خطوط ارسال کرچکا ہوں۔
حضرت جؒی کا ہر مکتوب پند و نصائح کا
خزانہ اور دائمی اہمیت کا حامل ہے لیکن چند مکتوب ایسے ہیں جنہیں یہاں من و عن نقل
کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ ان سے مستقل طور پر استفادہ کیا جا سکے۔
کرنل قربان حسین کے نام
عزیزم شاہ صاحب! یہ دنیا فانی ہے۔ چند
روزہ ہے۔ ہمارا دنیا میں آنا اور رہنا اپنے اختیار سے نہیں۔ یاد رکھنا فانی کے پیچھے
باقی کو برباد نہ کرنا۔ بڑا بدبخت وہ شخص ہے جو مٹی کے پیچھے سونے کو ضائع کر دے۔
مگر خلفاءِ اربعہ کی نسل ِخاص سیّدنا علی المرتضیٰt
و خاص کر حضرت
فاطمۃ الزہرا r کی اولاد کا اولین فرض ہے
کہ وہ اپنی جدّی میراث کو سنبھالیں۔
عزیزم! میں بھی سیّدنا علی المرتضیٰt کی لڑی سے ہوں۔ چونکہ یہ مناصب، قطب ِ مدار،
قطب ِابدال، قطب ُ الاقطاب، قطب ِ ارشاد، غوث، افراد، قطب ِوحدت، صدیق یہ عموماً
ان خلفاء کی اولاد میں ہی رہتے ہیں، ہاں شاذ و نادر جس پر خدا کی مہربانی ہو جائے،
شیخ کی قلبی توجہ اس کی طرف ہو تو ان کو بھی مراتب سے حصہ مل جاتا ہے۔
عزیزم! نماز کی پابندی، تہجد تک نہ
جانے پائے۔ اِتباعِ شریعت، اِتباعِ سنت ِخیر الانامﷺ، ذکرِ دوام، مشائخ سے رابطہ قائم رکھنا۔ جن کو مشاہدات
ہوئے ہیں، یاد رکھنا، وارث الانبیاء جو لوگ ہوئے ہیں، ان کو فرعونی، قارونی اور شدّادی
میراث کی طرف توجہ نہیں کرنی۔ ولی اللہ کو ایک اللہ ہی کافی ہے۔ ولی اللہ کی
شان کے خلاف ہے کہ دوسروں کی یا دوسری چیز کی طرف توجہ ہی کرے۔
خلافِ طریقہ بوَد اولیا
تمنا کنند از خدا ناخدا
تمنا کنند از خدا ناخدا
آپ
لیفٹیننٹ کرنل ہیں۔ اگر پوری دنیا کی حکومت آپ کو مل جائے تو بھی ولی اللہ کی جوتی
کے برابر نہیں۔ آپ سے پہلے حضرت ذوالقرنین و سلیمانi پوری دنیا
کے حاکم گزرے مگر ان کو دنیا کی کسی چیز نے خدا سے نہ روکا۔ عزیزم! دنیا ہو مگر
خدا نہ بھول جائے۔ آپ طریقہ ٔ رسولﷺ،
اتباع ِرسولﷺ اور میراثِ رسولﷺ
کو نہ بھول جائیں۔
میں
آپ کو اور تمام روحانی اولاد کو سپردِ خدا کرتاہوں۔
عزیزو! قیدیوں کی رہائی کا سبب خدا کے نزدیک تم بنو گے۔ آپ کا
معاملہ اکثر دربارِ نبویﷺ میں پیش ہوتا ہے۔ آپ کی رہائی کا مسئلہ بھی
تمام مشائخ کے سامنے پیش ہوتاہے مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتاہے۔ روحانی طور پر آپ کے معمول میں کبھی کبھی
شریک ہوتا ہوں۔ آپ کے ذکر کے حالات بھی دیکھے جاتے ہیں۔
کرنل فتح کے نام
عزیزم! یہ زندگی چند روزہ ہے۔ ہم مسلمان، خاص کر عارفین، نائب
الانبیاء ہیں۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ خیال رکھیں کہ جس طرح آپ فوج کے ملازم ہیں،
اسی طرح آپ خدا اور اس کے رسولﷺ کی فوج کے ملازم بن گئے ہیں۔ پھر
آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے خاص انعام سے نوازا ہے۔ صحیح علم ہے۔
اب
آپ لوگوں نے غلط راستہ اختیار کیا تو پھر آپ لوگوں کو دوگنا عذاب ہو گا۔
جس طرح آپ کو ہماری ملاقات کی تڑپ ہے اس طرح ہم
کو بھی ہے مگر ہو گی وقت ِ مقرر پر جو خدا کی طرف سے ہے۔ وہی مشکلات حل کرنے والا
ہے۔
میں تمام جماعت کے رفقاء سے درخواست کرتا ہوں کہ چونکہ وقت
بہت ہی نازک ہے، دورالحادی ہے، بے حیائی بڑھ گئی ہے، نافرمانی کی کوئی حد نہیں رہی،
صلحاءِ اُمت آج کل سب سے زیادہ ذلیل و حقیر خیال کئے جاتے ہیں، اولادیں والدین کو
قتل کر رہی ہیں، مسلمان حلال حرام کا قائل ہی نہیں رہا، خدا کا خوف، رسولﷺ کا حیا دل سے نکل چکا ہے، لوگ
اخروی مؤاخذہ کے قائل ہی نہیں رہے۔ رسول ِخداﷺ سے جو روحانی تعلق تھا، وہ ختم ہو
چکا ہے، مسلمانوں کو صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے، ایک مال کی خواہ وہ قارون کے خزانہ
سے مل جائے یا شدّاد کے خزانہ سے آجائے، دوم عزت و کرسی کی، خواہ فرعون و نمرودکے
دربار ہی سے مل جائے۔
عزیزو! قیامت یقینی آئے گی اور مرنا یقینی ہے۔ زندگی پوری کا
حساب ضروری اور یقینی ہے، عقائد الکفر حد سے بڑھ چکے ہیں، دنیا قلبی امراض میں
مبتلا ہو چکی ہے حتیٰ کہ دلوں پر موت واقع ہو چکی ہے۔ موت بدنی سے موت قلبی بہت بری
ہے۔
یہ میجریاں، کرنیلیاں اور کپتانیاں اس میدان میں ہر گز کام نہ
آئیں گی نہ ان کا سوال ہو گا نہ ہی تم کو کرنیل، میجر، کپتان کہہ کر بلایا جائے
گا۔ یاد رکھنا! اعمالِ صالح کام آئیں گے۔ اوّل پیدائش کو دیکھیں۔ بعد موت کِرموں
کا لقمہ ہو گا’ مٹی کی غذا ہو گا۔
یاد رکھنا! دنیا ہمارا اصلی وطن نہیں، وطن جنت ہے یا جہنم
ہے۔ دنیا مسافر خانہ ہے، برزخ جانا ہے، برزخ سے نکل کر میدان ِحشر میں 50 ہزار برس قیام کرنا ہے۔ کوئی یارو مددگار نہ ہو گا۔ ان تمام چیزوں
کا واحد علاج یادِ الٰہی ہے۔
عزیزو! جس راستہ پر میں نے لگایا ہے، جو اولیاء اللہ اور عارفین
کا راستہ ہے اس پر پختہ رہیں۔ نیکیوں پر پھول کر، فخر کر کے، بھول کر خدا سے دور
نہ ہوجانا۔ یہ تمام کمالات تم کو خدا نے ہی دیئے ہیں، یہ تمہاری طاقت نہ تھی۔ اگر
زندگی ہوئی اور ملاقات ہوئی تو کچھ مدت بعد اِنْ شَاءَ اللّٰه دنیا داروں کے حالات اصحابِ کشف کو برزخ میں
دکھا دوں گا۔ مرزا غلام احمد و دیگر مرزائیوں کے برزخی حالات ایک ایک کر کے دکھاؤں
گا۔
مختتم
بات، مفسدین و فاسقین کے لئے آخرت نہیں، نہ اُخروی انعامات۔ آخرت صالحین کے لئے
ہے۔ یاد رکھو! خدا کے بن جاؤ۔ ولی اللہ کو ایک اللہ کی ضرورت ہے۔
تمام
رفقاء کو جمع کر کے سنادیں۔ خدا کرے یہ خط آپ کو مل جائے۔
کرنل مطلوب حسین کے نام
میں پوری جماعت کو عرض کروں گا کہ کمالات کے تمام
دروازے بند ہو چکے ہیں، سوائے اِتباعِ محمدیﷺ
کے، کوئی دروازہ کھلا ہوا نہیں ہے۔ ابدالیت، نجبائیت، اوتادیت، قطبیت، غوثیت، قیومیت،
فردیت، قطب وحدت، صدیقیت اور اس سے آگے بھی ایک مقام،........ زبانِ سلوک میں،
یہ تمام مناصب محمد رسول اللہﷺ کی جوتیوں کی خاک سے
ملتے ہیں۔ یاد رکھنا یہ مناصب جو میں نے بیان کئے ہیں ان کے حصول کی دو ہی شرطیں
ہیں: اول اِتباعِ شریعت ِمحمد رسول اللہﷺ
بمعہ اِتباعِ سنت ِرسول اللہﷺ،
دوم ذکرِ دوام بمعہ ربط باِلشیخ۔
چونکہ شیخ سے قلبی تعلق ہوتاہے اور بہت ہی نازک تعلق ہوتا ہے، اس کا خیال کیا جائے۔
ابلیس لعین نے اپنی پوری جماعت کو جماعت ِصوفیأ کے خلاف
مسلح کیا ہوا ہے اور صوفیاء کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ اس نے بڑے بڑے آدمی گمراہ
کر کے دنیا سے رخصت کئے۔ جو آدمی ذکر شروع کرنے کے بعد ترک کر دے اور طرح طرح کی
حجت بازی کرے،حقیقت میں وہ اس آیت قرآنی کامصداق ہے۔
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ
لَهٗ قَرِيْنٌ o
اور جو رحمٰن(اللہ) کی یاد (قرآن) سے آنکھیں
بند کر لے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں تو وہ (ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا
ہے۔(سورة زخرف۔36)
کیپٹن امان شاہ کے نام
اب آپ لوگ سلسلہ کی کڑی میں منسلک ہوئے اور اس جماعت میں آئے
جس کو دنیا عارفین، اولیاء اللہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ وہ نعمت ِ عظمیٰ ہے جس
کے لئے شاہانِ دنیا حسرت کرتے چلے گئے۔ محمود غزنوی کابل سے چل کر خرقان گیا۔ حضرت
ابوالحسن خرقانیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے تھوڑی سی جَو کی باسی روٹی دی جو
اس کے حلق سے نیچے نہ اترتی تھی مگر مارے ادب کھاتا تھا۔ آخر بوسیدہ کرتا لے کر
واپس آیا اور اس کو دنیا کی تمام نعمتوں سے عظمیٰ خیال کیا۔ عزیزو! دنیا ایک فانی
چیز ہے اور ولی اللہ کو صرف ایک اللہ کی ضرورت ہے۔ بس آپ لوگ کام کریں، ملازمت
کریں لیکن خدا کو نہ بھول جائیں۔ عزیزم! یہ خمیازہ جو آپ بھگت رہے ہیں، یہ تمہارے
بڑوں کے خدا کو بھول جانے کا نتیجہ ہے۔ نماز کی پابندی، ذکر پر دوام کرنا۔ نوافل ِ
تہجد ضائع نہ ہونے دینا۔ دل اور زبان پر یادِ خدا ہی ہو۔
مشاہدات
یکسوئی
اور ذکرِ دوام کی وجہ سے ان ذاکرین میں سے اکثر کو مشاہدات نصیب ہوتے تھے لیکن جو
احباب اس نعمت سے محروم تھے، حضرت جؒی نے ان کی تشفّی کے لئے ایک خط میں مشاہدات کی
حقیقت بیان فرماتے ہوئے لکھا:
‘‘آپ مشاہدات کا خیال نہ
کریں۔آپ ذکرِ الٰہی پر مشغول رہیں۔ یہ جہاد ہے، غنیمت جہاد کے تابع ہوتی ہے۔ کشف،
الہام انعامِ الٰہی ہے، ٹھیک ہے بندہ کو پورے سترہ سال کوئی علم نہ تھا۔ میں نے فیض
کا سلسلہ 24 سال بعد شروع کیا۔ آج تو میرے رب کا وہ انعام و فضل ہوا ہے کہ پوری
دنیا کی حکومت میری جوتی کی دُھول کے مساوی بھی میری نظر میں نہیں ہے۔ آج میں اپنے
رب سے پہاڑ طلب کروں کہ سونا بنا اے میرے مولیٰ، تو بندہ کو خدا کا یقین ہے کہ
پورا پہاڑ سونا بنا دے گا۔ یہ تمام کمال میرے رب کے ذکر کی برکت سے ہے۔ عزیزم! رب
العٰلمین سے وہ محبت پیدا ہوئی، اس کی یاد سے ایک منٹ غفلت حرام سمجھتا ہوں۔ آپ بھی
ذکر پر دوام کریں۔ تمام حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔’’
ایک اور خط میں مشاہدات کے بارے میں آپؒ نے خبردار کیا:
‘‘ہم دَورِ الحادی میں
زندگی بسر کر رہے ہیں، حرام روزی، زمانہ رسول اکرمﷺ سے دور ہو گیا۔ انوارات و تجلیاتِ
باری تعالیٰ منقطع ہو گئے۔ ہر طرف گمراہی ہی گمراہی ہے۔ اس بنا پر کشف و الہام پر
بھی ظلمت چھا جاتی ہے۔ اس واسطے کبھی کشف یا الہام پر پورا پورا بھروسہ نہ کرنا۔’’
چند خطوط سے اقتباسات
‘‘خدا کے خاص بندے بن جاؤ اورایسے بن
جاؤ کہ دنیا کی کوئی چیز تم کو خدا سے غافل نہ کرنے پائے۔ میری آخری نصیحت ہے کہ
عقائد اہل سنت و الجماعت پر قائم رہنا۔ نماز کی سخت پابندی کرنا۔ ذکر پر دوام
کرنا، موت ذکر پر ہی آئے۔ یاد رکھنا، تم کو برزخ والوں سے تعلق قائم ہوا، تم
کو ملائکہ سے مناسبت پیدا ہوئی، تم کو روحوں سے کلام ہوئی ہے۔ اس وقت ہوئی جب تم
روحانی بنے۔ روحوں سے مناسبت پیدا ہوئی ہے۔ اس دَورِ الحادی میں دربارِ رسالت مآبﷺ میں حاضری نصیب ہوئی۔ تمہیں
تمہارے مشائخ نے بفضل ِخدا دنیا سے نکال کر برزخ میں جو قیامت ِصغریٰ ہے، پہنچایا۔
اگر زندگی ہوئی تو آپ کو بقید ِ حیات پوری جنت کی سیر کراؤں گا۔ بیٹو! یہ تمام
برکات و کمالات ذکر کا نتیجہ ہیں اور اِتباعِ شریعت کا۔ یاد رکھنا! اگر تم ذکرِ
خدا سے دور ہو جاؤ تو یہ تمام کمالات آپ سے ختم ہو جائیں گے۔آپ ملازمت کریں، ڈیوٹی
پوری کریں ورنہ تنخواہ حلال نہ ہو گی مگر یہ نہ ہو کہ خدا بھول جائے، رسولِ اکرمﷺ کی محبت چلی جائے۔
یاد رکھنا!کمالات کے تمام
دروازے بند ہو چکے ہیں سوائےاِتباعِ محمدیﷺ کے دروازے کے۔
یاد رکھنا، یہ جاہل فقیروں کا قول ہے،
فقیری اور چیز ہے اور شریعت اور چیز، خیال کرنا!
کوئی شخص دربارِ رسالتﷺ
میں حاضر ہوا اور خلافِ سنت عمل بھی کرتاہے تو دربارِ
نبویﷺ میں جانا اس کا کمال نہ ہوگا، وہ لے جانے والے کا ہوگا مگر خلافِ سنت کی عزت
قلب ِاقدس رسول اللہﷺ میں نہ ہو گی۔
دنیا کو اپنا وطن نہ بنانا، وطن آپ
لوگوں کا جنت ہے یا جہنم ہے۔ خیال کرنا، دنیا میں مکان بنایا جا رہاہے جنت کا یا
جہنم کا۔
زبان کو کثرتِ کلام سے، خرافات سے
بچاؤ،جس کی نمازیں قضا ہو چکی ہیں، ان کی قضا ادا کرنا۔’’
اپنے
ایک خط میں حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘آپ لوگ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں، مسلمانوں کی
نسل سے ہیں مگر یاد رکھنا مسلمان قوم اور وطن کا نام نہیں،
مسلمان تو ایک صفت ہے جو اس سے موصوف ہو وہ مسلمان ہے۔’’
حضرت جؒی کو ہندوستان میں قید ان
احباب سے کس قدر محبت تھی، اپنے کئی خطوط میں آپؒ نے اس کا اظہار فرمایا:
‘‘دل آپ کی ملاقات کے لئے سخت بیتاب ہے۔ جس کی اتنی اولاد قید ہو وہ کب چین
سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔’’
‘‘بھلا بتاؤ جس شخص کی اتنی اولاد قید میں بند ہو، اس کو کیا چین مل سکتا
ہے۔ آپ لوگوں کا خیال پوری جماعت کو ہے خصوصاً عالمِ برزخ میں مشائخ کو بھی، مگر
بس کی بات نہیں۔ معاملہ طے ہو جاتا مگر کاش کوئی طے کرنے والا بھی ہوتا۔’’
آپؒ کی مندرجہ بالا تحریر سے یہ واضح
ہو تا ہے کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کے زمانۂ قید میں غیر معمولی طوالت کے ذمہ دار
ارباب ِاقتدار تھے جو اس مسئلے کوحل کرنے میں مخلص نہ تھے۔ یہاں حضرت جؒی نے اس
عام سوچ کی تائید فرمائی کہ ان جنگی قیدیوں کے زمانہ ٔ قید کی طوالت میں بھٹو
حکومت کا بھی ہاتھ تھا۔
آپؒ
نے اپنے ایک دعائیہ خط میں تحریر فرمایا:
‘‘میں خود بھی آپ کے لئے
دعا کرتا ہوں مگر آپ جانتے ہیں کہ دعا انبیاء کی بھی قبول نہ ہوئی، میں کیا، ولی کی
کیا ہستی! خدا سے دور نہیں کہ وہ رحم و کرم فرما دے۔
خدایا رحم فرما کہ ان کو آزاد فرما۔ آمین’’
پاکستان
آمدپر ان ذاکرین میں سے چند احباب مئی 1974ء میں حضرت جؒی کی خدمت
میں چکڑالہ میں حاضر ہوئے تو آپؒ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا:
‘‘مجھے اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیات سے نوازا
ہے:
(1) منازل بہت بلند عطا فرمائے، منصب کے ساتھ
ساتھ۔
(2) باطنی روحانی فیض میں یہ عطیہ ملا کہ جس روح
سے کہہ دوں کہ چلتی رہو، وہ چلتی رہے اور جس روح کوجہاں کہہ دوں، رک جاؤ تووہیں رک
جائے۔
(3) مجھ سے تعلق رکھنے والا کبھی فقیر نہیں رہے
گا، غنی ہوجائے گا، بِفَضْلِ اللّٰہ۔’’
جولائی1974 ء میں 93 کیمپ کے ذاکرین جماعت کی صورت میں حضرت جؒی کی
خدمت میں پیش ہوئے تو اس قدر کثیر تعداد میں باشرع افسروں کو دیکھ کر آپؒ بہت خوش
ہوئے۔ آپؒ نے انہیں مراقبات کرائے اور روحانی بیعت کی تجدید ہوئی۔ ان احباب میں سے
آپؒ نے پانچ صاحب ِمجاز بنائے۔ کیپٹن
امان شاہ کا تعلق کوہاٹ کے پیر گھرانہ سے تھا اور اس سے قبل اس خاندان کے دو
نوجوان حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہو چکے
تھے لیکن بطور صاحب مجاز سلسلۂ عالیہ کی خدمت بجا لانے کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔
کیمپ 54
ساگر:
ساگر میں کیمپ نمبر 54 آفیسرز کا سب سے بڑا کیمپ تھا جس میں
تین صد سے زائد پاکستانی آفیسرز تھے۔ اس کیمپ میں کیپٹن علی کے ذمہ روزانہ کا درسِ
قرآن تھا لیکن دو سال بعد جب درس کا سلسلہ مکمل ہونے کو تھا تو اسے احساس ہوا کہ
اس قدر پڑھنے اور پڑھانے کے باوجود دل میں ایک خلاء بدستور ہے۔ یہ دینی اور علمی
سرگرمیاں مصروف تو رکھتی ہیں اور ثواب بھی یقیناً ہوگا لیکن دردِ دل کا مداوا نہیں۔
ایسے میں حضرت امام غزا لیؒ کی تصنیف کیمیائے سعادت کا ایک نسخہ ہاتھ لگا جو 1911ء کا طبع شدہ اور متروک اردو زبان میں تھا لیکن کیفیات کا
امین، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے مصنف خود ہم کلام ہوں۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ دل کا
خلاء پر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ کیمیائے سعادت کے مطالعہ سے یہ بات تو سمجھ میں آگئی
کہ درد دل کا مداوا اولیائے کرام کے پاس ہے لیکن وہ قصۂ پارینہ ہو چکے، اب انہیں
کہاں تلاش کیا جائے۔
ایک موہوم سی طلب لیکن عطاء شانِ ربوبیت کے مطابق! اسی کیمپ
میں زندگی کے دو سال گزرنے کو تھے لیکن اولیاء اللہ کے دامن سے وابستگی کا خیال
آیا تو اللہ کی شان! ایک روز شیخ کامل کے حوالے سے بات چل نکلی تو ایک نیول افسر لیفٹیننٹ
نذیر نے بتایا کہ پاکستان میں ایک بزرگ مولانا اللہ یار خان
ہیں جنہوں نے تصوّف کے موضوع پر دلائل السّلوک کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے
اور وہ ذکرِ الٰہی کے ذریعے لوگوں کی باطنی تربیت کرتے ہیں۔
یہ
ذکر کیسے ہوتا ہے؟ لیفٹیننٹ نذیر کو حضرت جؒی کی چند محافل ِ ذکر میں شرکت کا موقع
ملا تھا۔ اس نے طریقۂ ذکر بتایا، لطائف بتائے اور مسجد نبویﷺ تک مراقبات کے بالترتیب
نام بتائے لیکن جب ذکر کرانے کے لئے کہا تو وہ کہنے لگا، میں ذکر کرانے کی استعداد
نہیں رکھتا، میں نے تو مولانا اللہ یار خان کی محافل میں لوگوں کو اس طرح ذکر اور
مراقبات کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
راستے کی نشاندہی تو ہو گئی لیکن اب رہبری کون کرے! صرف اتنا
معلوم ہوسکا کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی ایک برگزیدہ
ہستی مولانا اللہ یار خانؒ اس طرح اللہ تعالیٰ کاذکر کراتے ہیں، لطائف اور مراقبات
کراتے ہیں اور ان اسباق کے یہ نام ہیں۔ حضرت جؒی کے بارے میں کچھ علم نہ تھا کہ وہ
کون ہیں اور ان کی تعلیمات کیا ہیں؟ ان کا پتا کیا ہے کہ خط و کتابت سے ہی رابطہ
قائم ہو جائے۔ حضرت جؒی کے بارے میں کچھ نہ
جانتے ہوئے بھی دل میں ایک عقیدت پیدا ہوگئی جو اپنا کام کر گئی اور یہی نسبت اویسیہ
کا کمال ہے۔ کیمپ 54 کے چندآفیسرز بشمول میجر ابراہیم خلیل،
کیپٹن سرور اور کیپٹن علی نے مل کر ذکر شروع کر دیا۔
یہ نقل تھی لطائف کی، مراقبات کی لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو پسند آگئی اور کیفیات
کا ادراک ہونے لگا۔
عطا
کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ عقائد کی اصلاح ہونے لگی، نمازوں کی کیفیت بدل
گئی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا احساس ہونے لگا اور اُن افسروں تک حضرت جؒی کا فیض بطریقِ اویسی پہنچا اور خوب پہنچا۔
اس کی سب سے بڑی پہچان یہ تھی کہ ذکر پر استقامت ملی۔ بطریق اویسیہ برکات نصیب نہ
ہوتیں تو وہ دو چار دن ذکر کر لیتے یا چند ہفتے یہ عمل دہراتے رہتے لیکن یہاں تو اس
عالم میں ذکر کرتے ہوئے ایک سال بیت گیا کہ شیخ سے ملاقات نہ رابطہ کی کوئی صورت، اللہ
تعالیٰ قادر ہے۔ حضرت جؒی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو قادر سمجھتا
ہے وہ تصوف کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ ان ذاکرین تک بطریق اویسی ترسیل فیض بھی
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہی ایک مظہر ہے۔
کیمپ 54 کے ذاکرین پاکستان
پہنچے تو حضرت جؒی کے متعلق معلومات نہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر حاضر خدمت نہ
ہوسکے لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے بھی اسباب پیدا فرمائے اور انہیں فرداً
فرداً حاضری نصیب ہوئی۔ کیپٹن سرور کو حضرت جؒی کی طرف سے ‘‘سرور مجذوب’’ کا خطاب ملا۔ میجر ابراہیم خلیل نے کئی سال سلسلۂ عالیہ کے
مرکز دارالعرفان میں خدمات سرانجام دیں اور کیپٹن علی کو حضرت جؒی کی شفقت اور حضرت امیرالمکرم کی توجہ ملی
تو بطور ابوالاحمدین اس سوانح کو مرتب کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ الْحَمْدُ لِلّٰه!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔