آخری اجتماعات
جون
1981ء میں تکمیل ِمنازل کے بعد حضرت جؒی نے سلسلۂ عالیہ
کے مستقبل کے بارے میں مستقل نوعیت کی ہدایات کا آغاز فرما دیا تھا لیکن کسی دل میں
یہ خیال تک نہ گزرا کہ معاملات کو سمیٹا جا رہا ہے اور اب جدائی کی گھڑی قریب ہے۔ 1983ء کے سالانہ اجتماع میں کوئی روحانی بیعت نہ ہوئی
البتہ اسی سال لنگرمخدوم کے اجتماع میں چھ احباب کی روحانی بیعت ہوئی۔ یہ ایک خلاف
ِمعمول صورت تھی لیکن اس کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا گیا اگرچہ اب خیال آتا ہے کہ یہ
آخری چھ خوش قسمت حضرات تھے جن کی حضرت جؒی کی وساطت سے روحانی بیعت ہونا تھی جو
بوجوہ سالانہ اجتماع میں نہ ہو سکی تو لنگرمخدوم میں ہوئی۔ 1983 ء
کے یہ دونوں اجتماعات حضرت جؒی کی مبارک زندگی کے آخری اجتماعات تھے ۔
لنگرمخدوم
کے اس اجتماع میں حضرت جؒی نے خطاب ِجمعہ میں جماعت کے بارے میں ہدایات دیتے ہوئے
فرمایا کہ مستقبل میں شاید اس کا موقع نہ مل سکے۔ اس خطاب کا اہم ترین اعلان حضرت امیر المکرم کو
بطور روحانی جانشین مقرر فرمانا تھا جو آپؒ کے وصیت نامہ اور سابقہ فرامین کی توثیق
تھی لیکن حضرت جؒی نے اس سے قبل اس بات کا کبھی اظہار نہیں فرمایا تھا کہ ‘‘مستقبل
میں شاید اس کا موقعہ نہ مل سکے’’۔ حضرت
جؒی کے ان معنی خیز الفاظ سے جو اشارہ ملتا ہے اسے شاید ہی کوئی سمجھ پایا ہو لیکن
حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کو یہ سن کر آبدیدہ دیکھا گیا۔
حضرت جؒی کی مبارک زندگی اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت امیرالمکرم
کو جماعت میں ہمیشہ آپؒ کے نائب کی حیثیت حاصل رہی۔ ابتدائی دور میں موہڑہ کورچشم
کے ایک صاحب ِکشف ساتھی کا یہ مشاہدہ نقل کیا جا چکا ہے کہ اجتماعی ذکر میں
انوارات کا دھارا حضرت جؒی کے قلب سے نکلتا اور حضرت امیرالمکرم کے سینہ سے ہوتا
ہوا تمام احباب کے قلوب کو منور کر رہا ہے۔ اجتماعات میں یہ صورت نظر آتی کہ حضرت
جؒی شمع محفل ہیں اور حضرت امیرالمکرم اجتماع سے خطاب فرما رہے ہیں۔ ابتدائی دور
سے ہی اس بات کے واضح اشارے ملنے لگے تھے کہ مستقبل میں سلسلۂ عالیہ کی باگ ڈور
حضرت امیرالمکرم کے سپرد ہو گی۔ حضرت جؒی نے 1964ء کے ایک مکتوب میں حضرت امیرالمکرم
کے متعلق حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ کے ایک ارشاد کا حوالہ دیتے
ہوئے تحریر فرما یا تھا:
‘‘قو ت ِتوجہ بندہ کے بعد آپ کو عنایت فرمائی
ہے۔’’
اس
خط کا تفصیلی ذکر ‘‘اجتماعات’’ کے باب میں کیا جا چکا ہے۔
ایک اور موقع پر آپؒ نے حضرت امیر المکرم کی قوتِ
توجہ کے متعلق فرمایا:
‘‘وہ روحانی قوت جو اللہ
تعالیٰ نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو عطا فرمائی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس دور میں
وہی قوت محمد اکرم کو عطا فرمائی ہے۔ اس سلسلۂ عالی کو وہ شخص میرے بعد چلا سکے
گا جس میں روحانی قوت سب سے زیادہ ہو گی۔’’
اسی
طرح لنگر مخدوم سے واپسی پر حضرت جؒی کوٹ میانہ میں ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما
تھے تو اثنائے گفتگو آپؒ نے فرمایا :
‘‘ میری توجہ میں جتنا اثر ہے، اس کے بعد مولوی
اکرم صاحب کی توجہ جس قدر قوی ہے، اتنی کسی اور کی توجہ نہیں ہے۔’’
حضرت جؒی کے ان
اشاروں سے واضح تھا کہ مستقبل میں سلسلۂ عالیہ کی باگ ڈور حضرت امیرالمکرم کے سپرد ہو گی ۔
ابتدائی
دور میں حضرت امیر المکرم نے ایک خط کے ذریعے اپنی ایک استغراقی کیفیت حضرت جؒی کی
خدمت میں بیان کی جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ جنات ان کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں۔
حضرت جؒی نے جواباً تحریر فرمایا:
‘‘آپ کے استغراقی واقعہ
سے آپ کی آنے والی حالت و شخصیت کے کمال کی دلیل مترشح ہوتی ہے۔ جب آپ کے ہاتھ میں
سلسلۂ عالیہ کی باگ ڈور ہو گی تو اس وقت آپ کی شخصیت کی عزت جنات کے دل میں بھی
قوی ہو گی۔’’
حضرت
جؒی کے اس مکتوب میں سلسلۂ عالیہ کے مستقبل کے حوالے سے جو حقیقت بیان ہوئی، اس
کے مطابق آپؒ نے مختلف مواقع پر حضرت امیرالمکرم کی بطور جانشین تقرری کا نہ صرف
اعلان فرمایا، بلکہ 1982ء میں ایک قانونی وصیت
بھی رجسٹرڈ کرا دی۔
ابتدائی دور سے ہی حضرت جؒی کے اس واضح عندیہ کے باوجود
سلسلۂ عالیہ میں کچھ ایسے عناصر بھی موجود تھے جو حضرت امیر المکرم کے اس مقام کو
حسد کی نگاہ سے دیکھتے اور موقع کی تلاش میں رہتے کہ کب اور کس طرح ان کے خلاف حضرت
جؒی کے سامنے شکایت کر سکیں۔ 1976ء
میں حضرت امیرالمکرم نے لاہور میں
ایک خطاب کے دوران بھٹو حکومت کی بداعمالیوں کا ذکر کیا تو حضرت جؒی کی خدمت میں
شکایت پر مبنی خطوط لکھے گئے کہ انہیں روکا جائے، ہماری نوکریاں خطرے میں ہیں۔ حضرت جؒی نے صرف اس قدر کہا کہ احتیاط کے پیش
نظر ‘‘اکرم’’ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور ادھر شاگرد ِرشید کی زبان بندی ہوگئی
کیونکہ خطابت کے اس سیل ِرواں کا منبع تو آپؒ ہی کی توجہ تھی۔ حضرت جؒی پر صورت
حال واضح ہوئی کہ آپؒ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کا یہ اثر ہوا ہے تو توجہ فرمائی
اور پھر سے خطابات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ایسے بے شمار واقعات ہیں لیکن
ان کا تفصیلی تذکرہ مقصود نہیں۔ بطور جملہ معترضہ یہ تمہید ضروری تھی کیونکہ حضرت جؒی کے آخری
اجتماعات سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ راقم کی نظر سے ان حاسدین کے چند ایسے خطوط بھی
گزرے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دسمبر 1982ء سے ان درپردہ سازشوں میں تیزی
آگئی تھی۔ ایک شخص نے اپنے ایک رازداں کے نام اپنے خط میں دارالعرفان کی بجائے میانوالی
میں مرکز بنانے کے لئے زمین منتخب کرنے کا بھی تذکرہ کر ڈالا۔ یہ لوگ عام اجتماعات
کے بعد الگ سے چکڑالہ آکر اکثر حضرت جؒی کے جانشین کی تقرری کا ذکر شروع کردیتے
اور ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اپنے ہی ساتھیوں کا نام پیش کرتے۔ شاید ان
لوگوں کو دنیا سے حضرت جؒی کے رخصت ہونے کی جلدی تھی۔
1983ء
میں حضرت جؒی چکڑالہ سے پشاور کے دورہ کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت امیرالمکرم ساتھ
تھے۔ گاؤں سے نکلتے ہوئے آپؒ فرمانے لگے:
‘‘ان فوجیوں نے مجھے بڑا تنگ کر رکھا ہے، کبھی
کہتے ہیں فلاں کو اپنا جانشین بنا دو،
کبھی کہتے ہیں فلاں کو
بنا دو، تمہاری کیا رائے ہے؟’’
حضرت امیرالمکرم نے عرض کی:
‘‘حضرت! میں خطاکار ہوں،
آپؒ کی خدمت میں اصلاح کیلئے حاضرہوا تھا۔ ہوئی یا نہیں، یہ الگ بات ہے لیکن تسلی
ہے کہ آپؒ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر نہیں ہوئی تو یہ میری کوتاہی ہوگی۔ آپ سے
بہت کچھ ملا، پچیس برس بیت گئے آپؒ کی خدمت میں۔میں پیر بننے کیلئے حاضر ہوا تھا
نہ خلافت کیلئے۔ جس مقصد کیلئے حاضر ہوا تھا، اللہ کرے وہ پورا ہوگیا ہو۔ میں جس
طرح آپؒ کی خدمت کرتا رہا ہوں، اسی طرح جب تک میں موجود ہوں، احباب سلسلہ کی اور
آپ کے نامزد کردہ جانشین کی خدمت کرتا رہوں گا۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں پتہ کہ
آپ نے کس کو بنانا ہے، کم از کم میرے گلے یہ مصیبت نہ ڈالیں تو آپ کا بڑا احسان ہو
گا۔’’
چند ماہ گزرے ہوں
گے کہ حضرت جؒی نے لنگر مخدوم کے آخری اجتماع میں امیرالمکرم کو روحانی جانشین
مقرر کر دیا۔ حضرت امیرالمکرم کی بطور روحانی جانشین تقرری کے بعد حاسدین نے سمجھ
لیا کہ اب ہر حربہ بروئے کار لایا جائے وگرنہ موقع نہ مل سکے گا۔ دسمبر1983ء
میں حضرت امیرالمکرم صوبہ سرحد کے دورہ پر تھے۔ ربیع الاوّل کے حوالے سے کوہاٹ ایئربیس
میں خطاب کے بعد پشاور میں ریڈیوپاکستان کے ایک مذاکرے میں شرکت اور خطابات کے پروگرام
تھے لیکن خبر ملی کہ ایک مفسد نے بے پر کی اڑائی ہے کہ حضرت جؒی کے بعد حضرت
امیرالمکرم آپؒ کے ناخلف بیٹے عبدالرؤف سے صلح کر لیں گے جسے خاندان کے لئے خطرہ
سمجھا جاتا تھا۔ فطری امر تھا کہ حضرت جؒی کو اس موہوم خدشہ سے دکھ پہنچا۔ حضرت امیرالمکرم
تک اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے راقم سے فرمایا کہ چکڑالہ میں حضرت جؒی کی
خدمت میں اس کی تردید کریں اور ان کی طرف سے عرض کریں کہ وہ خود بھی اجتماع کے بعد
خدمت میں حاضر ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت امیرالمکرم نے پشاور میں تمام پروگرام
موقوف کر دیئے۔
8،9 دسمبر 1983ء
کو چکڑالہ میں اجتماع منعقد ہوا جو یہاں کے آخری اجتماع سے قبل کا ماہانہ اجتماع تھا۔
حضرت جؒی نے 9 دسمبر کو صبح ساڑھے چھ بجے اپنے حجرہ میں سیّد بنیاد حسین شاہ اور میجر
احسن بیگ کو لنگرمخدوم کے اجتماع میں اعلانات کے مطابق خلافت نامے عطا کئے جن میں
انہیں روحانی بیعت کی اجازت بھی دی گئی۔ عادت مبارکہ کے مطابق آپؒ اشراق کے وقت
ہال کمرہ میں تشریف لائے اور احباب قریباً ڈیڑھ گھنٹہ صحبت شیخ سے فیض یاب ہوئے۔
دعا کے ساتھ اجتماع برخواست ہوا تو اکثر احباب اٹھ گئے۔ راقم نے حضرت جؒی کی خدمت
میں الگ سے کچھ عرض کرنے کی درخواست کی تو آپؒ نے احباب کو کمرہ خالی کرنے کے لئے
فرمایا۔ حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کیا کہ عبدالرؤف کے ساتھ صلح کی توقع میرے جیسے
ایک مبتدی شاگرد سے بھی ممکن نہیں کجا کہ اسے حضرت امیرالمکرم سے منسوب کیا جائے
جو آپؒ کے مزاج آشنا ہیں اور گھریلو حالات کو خوب جانتے ہیں۔ آپؒ نے فوراً ارشاد
فرمایا:
‘‘میں بھی کہوں، یہ کس
طرح ممکن ہے! اکرم ہُوا...، (چند اور نام لئے جن میں راقم کا نام
بھی شامل تھا) تم تو میرے گھر کے آدمی ہو۔ جاؤ، اکرم سے کہو، تقریریں کرے اور ریڈیو
پر بھی تقریر کرے۔’’
اس سے قبل کہ راقم پشاور پہنچتا، حضرت امیر
المکرم اپنے تمام پروگرام منسوخ کرتے ہوئے واپس منارہ جا چکے تھے۔یہ حربہ ناکام
ہوا تو ایک دوسری چال چلی گئی۔
12، 13 جنوری 1984ء
کو چکڑالہ کا آخری ماہانہ اجتماع منعقد ہوا۔ اس روز 9 بجے شب حضرت جؒی
نے بعض احباب کو خصوصی مشاورت کے لئے طلب فرمایا جن میں سیّد بنیاد حسین شاہ، میجراحسن
بیگ، میجر ناصر، مولوی غلام مصطفیٰ (شنکیاری) اور ناظم اعلیٰ شامل تھے۔ ناظم اعلیٰ
کی 13جنوری
1984ء
کی تحریر کردہ ڈائری کے مطابق یہ مشاورت اراضی کُنڈ میں حضرت جؒی کے مجوزہ مرقد کے
نواح میں مرکزتعمیر کرنے سے متعلق تھی۔ میجر ناصر اور مولوی غلام مصطفیٰ کی رائے
تھی کہ مرقد کے ساتھ مرکز ٹھیک ہے۔ حافظ غلام جیلانیؒ نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔
ناظم ِاعلیٰ نے رائے دی کہ تجویز دربار ِنبویﷺ میں پیش کی جائے۔ سیّد بنیاد حسین
شاہ نے کشفاً جائزہ لیتے ہوئے عرض کیا، ‘‘شروع میں معاملات واضح نہیں بعد میں ٹھیک۔’’
حضرت جؒی نے اس رائے کی توثیق فرمائی۔یوں مرقد کے ساتھ مرکز کی تعمیر کے بارے میں
اس وقت کوئی فیصلہ نہ ہو سکا اور حضرت جؒی کے سابقہ فرامین کی روشنی میں
دارالعرفان ہی سلسلۂ عالیہ کا مرکز رہا۔
بعد میں پیش آنے والے واقعات نے ثابت کر دیا کہ سیّد
بنیاد حسین شاہ نے جو اشارہ دیا تھا یعنی ‘‘شروع
میں معاملات واضح نہیں، بعد میں ٹھیک’’ اور حضرت جؒی نے بھی اس کی توثیق فرمائی تھی،
وہ حرف بحرف پورا ہوا۔ وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ مرکز گریز عناصر مرکز سے ٹوٹتے رہے لیکن دارالعرفان کی مرکزیت روز ِاوّل
کی طرح آج بھی قائم ہے۔ حضرت جؒی کا مقرر کردہ مرکز دارالعرفان آج دنیا بھر کے
متوسلین سلسلۂ عالیہ کے لئے ہر دم فعال مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جسے حضرت جؒی کے
فرمان کے مطابق اسلام کی نشأة ِثانیہ تک قائم رہنا ہے۔ اسی مرکز سے حضرت امیرالمکرم
مشرق و مغرب میں احباب کو روزانہ سلسلۂ عالیہ کے فیوض و برکات سے بھرپور ذکر
کراتے ہیں۔
اس سے قبل حضرت جؒی کو ان عناصر نے یہ باور کرادیا تھا کہ
آپؒ کے وصال کے بعد مولانا (حضرت امیر المکرم) آپؒ کے جسد ِخاکی کو اہل ِخانہ سے
چھین کر تدفین کے لئے منارہ لے جائیں گے۔ عمرکے
آخری حصہ میں اس موہوم خدشہ سے حضرت جؒی کو کس قدر دکھ پہنچا ہوگا! لیکن یہ حاسدین
حضرت جؒی کے ذہنی سکون کو تہہ و بالا کرنے سے بھی نہ چُوکے۔
حضرت جؒی کو جو دلی رنج ہوا اس کا کچھ اندازہ آپؒ کی وصیت کے مندرجہ ذیل الفاظ سے
لگایا جا سکتا ہے جو آپؒ نے ان لوگوں کے زیرِاثر تحریر کی:
‘‘خدارا مرنے کے بعد
مجھے میرے اہل ِخانہ سے جدا نہ کیا جائے۔’’
یہ وصیت 12 جنوری 1984 ء کو لکھی گئی لیکن 13 جنوری کو اشراق کے وقت جب حضرت جؒی اپنے حجرہ سے باہر تشریف لا
رہے تھے، آپؒ نے اپنے خادم ِخاص ملک احمد نواز کو ہدایت فرمائی کہ ان لوگوں کو بتا
دو کہ جو کاغذات لے گئے ہو، اسے تقسیم مت کرو۔ آپؒ کے اسی فرمان کے پیش نظر یہاں
اس وصیت کے تفصیلاً ذکر سے اجتناب کیا جار ہا ہے۔
وثوق
کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ 12 جنوری 1984ء کو رات 9بجے حضرت جؒی کے ساتھ اس
خصوصی مشاورت کا پس منظر کیا تھا؟ یقیناً اسے بھی ان حالات کے تناظر میں دیکھنا
ہوگا جن کے تحت چند مخصوص عناصر نے حضرت جؒی سے مذکورہ بالا وصیت ریکارڈ کرائی جسے
آپؒ نے اگلی ہی صبح منسوخ فرما دیا۔ حضرت جؒی کو جو موہوم خدشات باور کراتے ہوئے
شدید ذہنی کوفت پہنچائی گئی تھی، آپؒ کے وصال کے بعد وہ سراسر باطل ثابت ہوئے۔
حضرت امیرالمکرم نے حضرت جؒی کے وصال کی اطلاع کے لئے احباب کو بشمول راقم چکڑالہ
روانہ کرتے ہوئے تدفین کا معاملہ چکڑالہ میں اہل خانہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا
اور اس ضمن میں دارالعرفان کا ذکر تک نہ آیا۔ آخری سفر میں حضرت امیر المکرم نے آپؒ
کے جسد ِمبارک کو ایک امین کی حیثیت سے اسلام آباد سے مرشد آباد میں آپؒ کی آخری
آرام گاہ تک پہنچایا۔ البتہ یہاں یہ بات جواب طلب ہے کہ ناظم ِاعلیٰ نے 12 جنوری 1984ء کی اس مشاورت میں شریک
ہونے کے باوجود جس میں حضرت جؒی نے اپنے مرقد
کا ذکر فرمایا تھا، حضرت امیر المکرم کو شیؒخ کی اس خواہش کے برعکس دارالعرفان میں
تدفین کا بار بار مشورہ کیوں دیا؟
حضرت جؒی نے کبھی مراقبہ فنا فی الشیخ نہیں کرایا لیکن شیخ سے
قلبی تعلق کے نتیجے میں بارہا اپنی پسند و
ناپسند کو مرضیات شیخ میں فنا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت جؒی اکثر فرمایا کرتے کہ
مرید کا معاملہ شیخ سے ایسا ہونا چاہیے جیسا مردہ بدست غسال کہ جس طرح چاہے میت کا
پہلو بدلتا رہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوا کہ دل میں ایک خواہش رکھتے ہوئے جب شیخ کا
عندیہ معلوم ہوا تو خواہش نہ صرف معدوم ہو گئی بلکہ اس کے برعکس شرح صدر ہونے لگی۔
یہاں ان لوگوں کے طرز عمل پر انتہائی حیرت ہوتی ہے جنہوں نے ایک زمانہ حضرت جؒی کے
ساتھ گزارا اور آپؒ کی زبان مبارک سے حضرت امیرالمکرم کی تقرری بطور جانشین اور
دارالعرفان کی مرکزیت کے متعدد اعلانات سنے لیکن دلی طور پر وہ ان فیصلوں کو قبول
کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ اتباعِ شیخ میں اپنی خواہشات پر تکبیر کی چھری چلانا اگر
ان کے دل پر گراں تھا تو یہ کیسا تصوف تھا اور کیسی طریقت!
13 جنوری 1984ء کی صبح حضرت جؒی حسب
ِمعمول احباب کے درمیان تشریف فرما ہوئے۔ آپؒ نے اس موقع پر بیعت کی مختلف اقسام
پر روشنی ڈالی۔ دعائے خیر کے ساتھ اجتماع برخواست ہوا تو احباب رخصت ہونے لگے۔
کمرہ سے باہر نکلنے والے احباب میں قاضی جؒی بھی تھے جنہیں اچانک حضرت جؒی نے طلب
فرمایا۔ قاضی جؒی اس حال میں تھے کہ ایک پاؤں میں جوتا پہن رکھا تھا اور اپنے عصا
پر وزن ڈالے دوسرے پاؤں میں جوتا پہننے کی کوشش کر رہے تھے۔ حضرت جؒی کا پیغام نہ
سن پائے تو ایک ساتھی نے ان کے کان میں زور سے کہا،استاد بلا رہے ہیں۔ قاضی جؒی کے
بدن میں جیسے بجلی سی کوند گئی۔ عصا زمین پر پھینک دیا اور ایک نوجوان کی طرح اس
قوت سے حضرت جؒی کی طرف بڑھے کہ جوتا تیزی سے اٹھنے والے قدم کا ساتھ نہ دے سکا
اور خود بخود پاؤں سے اتر گیا۔ قاضی جؒی حضرت جؒی کے قدموں میں بے حس و حرکت بیٹھ
گئے۔ حضرت جؒی کچھ دیر تک خاموش رہے اور پھر فرمایا:
‘‘قاضی جی آپ نے تین سوال پوچھے تھے ذکر میں۔
ان میں سے دو کا آپ کو ذکر میں جواب مل گیا ہے، تیسرے سوال کا جواب بھی اِنْ
شَاءَ اللّٰه جلد ہی مل جائے گا۔’’
قاضی جؒی نے گذشتہ شب ذکر میں حضرت جؒی سے روحانی رابطے کے
دوران یہ سوال کئے ہوں گے جن میں سے دو کا جواب تو اسی وقت مل گیا تھا جس کی حضرت
جؒی نے خود تصدیق فرمائی۔ تیسرا سوال کیا تھا اور اس کا جواب کب ملا؟ غالباً اس
سوال کا تعلق حضرت جؒی کے وصال سے تھا، جس میں صرف پانچ ہفتے باقی تھے اور اس کا جواب حضرت جؒی کے الفاظ میں‘‘جلد
ہی’’ مل گیا۔
20 جنوری 1984 ء آخری
جمعہ تھا جب حضرت جؒی چکڑالہ میں احباب کے درمیان حسب معمول تشریف فرما ہوئے۔ اس روز راقم نے حاجی الطاف احمؒد
امیرصوبہ سرحد اور ڈاکٹر عظمت بٹر کے ہمراہ حضرت جؒی سے پیشگی اجازت کے ساتھ حاضری دی۔ ایک صاحب ِمجاز کی چند مذموم
حرکات کا معاملہ پیش کرنا مقصود تھا جو پشاور میں احباب کے لئے پریشانی کا باعث تھیں۔
ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ حضرت جؒی نے
راقم پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی۔ آپؒ
کی آنکھوں میں وہ جلال تھا کہ تاب لانا ممکن نہ تھا۔ بدن کے روئیں روئیں پر کپکپی
طاری ہوگئی اور کانوں کی لویں جلنے لگیں۔ گھبرا کر عرض کیا، میجر سرور ‘‘مجذوب’’
سے دریافت فرما لیں جن سے یہ معاملہ تعلق رکھتا ہے۔ حضرت جؒی مزید کچھ سنے بغیر ہی
صورت حال بھانپ چکے تھے، آپؒ نے فرمایا:
‘‘میں بھی کہوں، مشائخ منع کیوں فرماتے تھے۔’’
کچھ ہی عرصہ پہلے حضرت جؒی نے لنگر مخدوم کے اجتماع میں
اعلان فرمایا تھا کہ یہ شخص وزیرستان میں ظاہری بیعت لے سکے گا کیونکہ فاصلہ کی
وجہ سے وہاں کے لوگ میرے پاس نہیں آسکتے۔ ناگزیر حالات میں اس کا معاملہ جب حضرت
جؒی کی خدمت میں پیش کیا تو آپؒ پر تمام صورت ِحال واضح ہوگئی اور ارشاد فرمایا کہ
اب معلوم ہوا ہے کہ اس شخص کے بارے میں لنگرمخدوم کے اعلان پر مشائخ کے تحفظات کی
وجہ کیا تھی، یعنی وہ معاملات جو آپؒ کی
خدمت میں پیش کئے گئےتھے۔
حضرت جؒی نے فرمایا کہ اس شخص کو ذکر کرانے کی اجازت نہیں،
اسے کہہ دو کہ وہ صرف احباب کے ساتھ ذکر میں شریک ہو سکتا ہے۔ چونکہ وہ دور دراز
علاقے سے تعلق رکھتا تھا اس لئے فکر تھی کہ اس تک حضرت جؒی کا یہ حکم کس طرح پہنچایا
جائے؟ پشاور پہنچے تو اللہ کی شان! اُس کا فون آگیا اور یوں آپؒ کا حکم کسی تاخیر کے
بغیر اسے مل گیا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے بے پر کی اڑائی تھی کہ حضرت جؒی کے وصال کے بعد حضرت
امیرالمکرم مدظلہ العالی آپؒ کے ناخلف
بیٹے سے صلح کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ اس شخص کے بارے میں حضرت جؒی کا لنگر مخدوم
کا اعلان آپؒ کا ذاتی فیصلہ تھا جس میں مشائخ کی
رائے نہ صرف شامل ہی نہ تھی بلکہ تحفظات بھی تھے۔ اسی طرح لنگرمخدوم میں حضرت جؒی
نے جب خلفاء کی تقرری کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی آپؒ نے وضاحت فرمادی:
‘‘میں اس چیز کو اپنے بعد، یہ بنیاد سمجھ لو۔
میں چار آدمی مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ چوتھا ابھی نہیں، تین میرے ذہن میں آچکے ہیں،
چوتھے کی جستجو میں ہوں، خلفاء اربعہ کی شکل میں۔ حضرت صاحب (حضرت سلطان العارفین
خواجہ اللہ دین مدنیؒ) سن رہے ہیں۔ میں نے مشورہ کسی سے نہیں کیا۔ مشائخ سے بھی
نہیں کیا لیکن بات میں ان کے سامنے کر رہا ہوں، چار آدمی۔’’
گویا چار خلفاء کی تقرری میں بھی مشائخ کی رائے شامل نہ تھی۔
اس سے قبل 13 اکتوبر 1980ء کو یہ اعلان فرماتے ہوئے کہ آپؒ کے بعد مولانا محمد اکرم
سلسلۂ عالیہ کے سربراہ ہوں گے، حضرت جؒی نے واضح کیا تھا کہ یہ مشائخ کی طرف سے
ہے۔ اس اعلان کا اعادہ آپؒ نے 14نومبر 1980ء کو
چکڑالہ کے ماہانہ اجتماع میں بھی فرمایا تھا کہ یہ مشائخ کا فیصلہ ہے۔ سلسلۂ عالیہ کے آئندہ سربراہ کی تقرری کے
بارے میں حضرت جؒی کے 1964ء سے جنوری 1984ء تک کے ان
اعلانات کی روشنی میں مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
(۱) حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی واحد شخصیت ہیں جنہیں سلسلۂ
عالیہ کے آئندہ سربراہ مقرر کئے جانے کے متعلق حضرت جؒی نے متعدد زبانی اور تحریری
اعلان فرمائے۔
(ب) حضرت
امیرالمکرم مدظلہ العالی کے بارے میں کئے جانے والے اعلانات میں کبھی کوئی تبدیلی
نہ کی گئی اور انہیں ہمیشہ اولیت حاصل رہی۔
(ج) بعض موقعوں
پر ثانوی حیثیت میں جو نام لئے گئے وہ تبدیل ہوتے رہے اور حضرت جؒی نے یہ کبھی نہ
فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی مشائخ کی تائید حاصل ہے۔
(د) حضرت
امیرالمکرم مدظلہ العالی واحدشخصیت ہیں جنہیں سلسلہ عالیہ کے آئندہ سربراہ مقرر
کئے جانے کے بارے میں حضرت جؒی کے متواتر فیصلوں کے ساتھ ساتھ مشائخ کی تائید بھی
حاصل ہے۔
خصوصیاتِ شیخ
حضرت جؒی کی خدمت میں 20 جنوری 1984ء کی حاضری کے دوران آپؒ نے
ازخود لنگر مخدوم کے اعلان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے حضرت امیر المکرم
کو اپنا روحانی جانشین مقرر فرمایا ہے کہ وہ علم رکھتے ہیں اور مقامِ شیخ کو
سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد آپؒ نے سیّد بنیاد حسین شاہ اور میجر احسن بیگ کا نام لیا
اور اس ترتیب کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ ایک کے بعد دوسرا ذِمّہ داری سنبھال سکے،
جو مشروط حالات کے تحت ایک متبادل صورت تھی۔ اس موقعہ پر شیخ کی خصوصیات بیان کرتے
ہوئے آپؒ نے فرمایا:
٭ شیخ ِسلسلہ کو زمین کی طرح ہونا چاہیے
تاکہ ہر کوئی اس میں پناہ لے سکے۔
٭ شیخ ِسلسلہ کو پہاڑ کی طرح ہونا چاہیے
تاکہ کوئی چیز اسے ہلا نہ سکے۔
٭ شیخ
ِسلسلہ کو اونٹ کی طرح ہونا چاہیے تاکہ جس قدر بوجھ بھی ہو’ وہ اسے اٹھا سکے۔
اور یہ تمام صفات میرے
بعد‘‘ اکرم ’’میں موجود ہیں۔
آئندہ جمعہ 27 جنوری 1984ء کو چند احباب ملاقات
کے لئے چکڑالہ حاضر خدمت ہوئے لیکن شدید علالت کی وجہ سے حضرت جؒی گفتگو کرنے سے
قاصر تھے۔ آپؒ کی علالت کے بارے میں کرنل بشیر احمد چوہدری کو اطلاع دی گئی تو اُسی
روز آپؒ کو بغرض ِعلاج اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔