ANTI-ADBLOCK JS SYNC کارِ تجدید و احیائے دین ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

کارِ تجدید و احیائے دین

 

کارِ تجدید و احیائے دین

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحَافِظُوْنَO
بیشک یہ ذکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (الحجر۔9)
            اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اس اعلان کے بعد تحریف ِ قرآن تو شیاطینِ جن و اِنس کے بس کی بات نہیں لیکن ہر دور میں شیطانی قوتوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ تحریف ِمعنوی کے ذریعے تعلیماتِ قرآنی اور دین مبین کو اصل صورت پر باقی نہ رہنے دیا جائے۔ حفاظت ِقرآن کے اس اعلان کو اگر الفاظ تک ہی محدود سمجھ لیا جائے تو یہ صرف جزوی حفاظت ہو گی جو حفاظت ِالٰہیہ کے دعویٰ کو سزاوار نہیں۔اس دعویٰ سے مراد حفاظت ِکلی ہے جس میں الفاظ و معانی دونوں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک نہ صرف کلام ِالٰہی کے ایک حرف یا شوشہ میں دست برد ممکن نہ ہو سکی بلکہ قرآن حکیم کی عملی تشریح آقائے نامدارﷺ کی سیرت اور احادیث کی صورت میں بعینہٖ محفوظ ہے۔
تاریخ میں ایسی متعد ّد ہستیوں کا تذکرہ موجود ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے حفاظت ِدین کا کام لیا۔ جب کبھی فکری اور عملی آلائشوں کے ذریعے دین کو مسموم کرنے کی سازش ہوئی تو ان نفوس قدسیہ نے دین کو ہر ایسی آلائش سے پاک کیا۔ ہر دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کار ِتجدید و احیائے دین کی صورت مختلف نظر آتی ہے جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اسلام کے حقیقی نظامِ خلافت کا احیاء کیاتوحضرت امام غزالیؒ نے دین کو یونانی فلسفہ اور علوم ِعقلیہ کی دراندازی سے پاک کرتے ہوئے نہ صرف عقائد بلکہ جزئیات ِدین تک کو اپنی بلند پایہ تصانیف میں ضبط کر دیا۔ مجدّدین کے تذکرہ میں ائمہ اربعہ، عقائدِ اہل سنت کے امام حضرت ابوالحسن اشعریؒ اور حضرت غوثِ اعظمؒ جیسی ہستیوں کے اسمائے گرامی شامل ہیں لیکن جب برصغیر کا تذکرہ آتا ہے تو یہاں حضرت امام ربانیؒ کی دینی خدمات علمی اور عملی جہتوں میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ انہیں مکمل تجدید و احیائے دین کہا جا سکتا ہے۔ حضرت جؒی نے ان کے بارے میں فرمایا:
‘‘امام ربانی حضرت مجدّد الف ثانیؒ ، جن کی بدولت آج ہم مسلمان ہیں، اگران کو اللہ تعالیٰ ہندوستان کی سرزمین میں پیدا نہ کرتا، ہم بڑی بڑی لٹیں رکھ کر، رنگدار کپڑے پہن کر، دیویوں اور مورتیوں کے سامنے بیٹھ کر رام رام کر رہے ہوتے ۔’’
               دوسرا نام حضرت شاہ ولی اللہؒ  کا ہے جن کے کارِ تجدید کا تعلق علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ دین کے اس شعبہ سے ہے جسے احسان، سلوک، طریقت یا تصو ّف کہا جاتا ہے۔ اس اہم شعبہ کا دارومدار برکات ِصحبت ِنبویﷺ پر ہے جن کی تقسیم و ترسیل کے لئے ایک عظیم باطنی نظام ہمہ وقت مصروف ِکار ہے۔ آفتاب ِنبوتﷺ کی ضیاء پاشی ہمیشہ کی طرح آج بھی جاری ہے، فرق صرف اس قدر ہے کہ صحابہ کرام] کے قلوب براہ ِ راست منو ّر ہوئے تو آج نبی ٔ رحمتﷺ اور ہمارے درمیان برزخ کا پردہ حائل ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے تقسیم ِبرکات کے نظام کو بیان کیا، تکوینی امور کے اسرار سے پردہ اٹھایا اور ملاء اعلیٰ کی بات کی۔ انہیں آقائے نامدارﷺ سے کلام اور تعلیم کی سعادت نصیب ہوئی تو ہرخاص و عام کے سامنے اظہار کر دیا۔ اپنی تحریروںمیں وہ سربستہ راز افشا کر دیئے جنہیں اس سے قبل صرف خواص تک محدود رکھا گیا تھا اور یہ شاید آنے والے دور کی ضرورت تھی۔
            عصر ِحاضر میں مادہ پرستی کی روش نے سب سے زیادہ دین کے شعبۂ احسان کو متأثر کیا۔ دانشوری کے نام پر برکات کی نفی کی جانے لگی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی اپنی زبان میں ادائیگی ٔنماز اور مصحف ِقرآنی کے بغیر خود ساختہ تراجم کے مطالعہ جیسے ابلیسی نظریات کی تشہیر کی گئی۔ منبع ِبرکات چونکہ آقائے نامدارﷺ کی ذات ِاقدس ہے، نفی ٔبرکات کے ساتھ ساتھ حیات النبیﷺ کا بھی انکار کیا جانے لگا جو عصر ِحاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔
            حضرت جؒی ایک عالم بے بدل تھے۔ آپؒ نے اس غارت گر ِایمان فتنہ کے مضمرات کو دیکھتے ہوئے علمی اور عملی، دونوں میدانوں میں صرف دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ مقابلہ کیا۔ حضرت جؒی کی یہ جدوجہد تین جہتوں پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپؒ نے ملک بھر کے دورے کئے اور مساجد و مکاتب میں حیات النبیﷺ کے موضوع پر خطابات فرمائے۔ آپؒ کی نجی محافل میں اسی موضوع پر گفتگو ہوتی اور علماء کے ساتھ خصوصی مجالس میں علمی دلائل کے ذریعے ان کے اشکال دور فرماتے۔ مسئلہ حیات النبیﷺ کے بارے میں حضرت جؒی کی فکر اور ترجیح کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آپؒ نے شمالی علاقہ جات اور صوبہ سرحد و بلوچستان کے آخری دوروں میں، حتیٰ کہ لنگر مخدوم میں اپنی زندگی کے آخری خطاب میں جماعت کو وصیت کی صورت میں ہدایات دینے سے قبل اسی موضوع پر خطاب فرمایا۔ حضرت جؒی کی آخری تصنیف ‘‘حیاتُ النبیﷺ’’ بھی اسی موضوع پر ہے جس کے متعلق آپؒ کا فرمان ہے کہ یہ کتاب لکھنے کے لئے خاص طور پر مشائخ کی طرف سے آپؒ کو مامور کیا گیا۔ اس وقت حضرت جؒی کی یہ تصنیف اس موضوع پر سند اور ایک حوالہ جاتی کتاب (Reference Book) کا مقام رکھتی ہے۔
            تعلیمات کے ساتھ ساتھ جب تک عملی ثبوت پیش نہ کیا جائے، بات منوائی نہیں جا سکتی۔ ایک طرف حیات النبیﷺ کا انکار کیا جا رہا تھا تو اس کے مقابل حضرت جؒی نے اعلان کیا کہ میں نبی ٔکریمﷺ سے حدیث صحیح کرا سکتا ہوں۔ گذشتہ صفحات میں دو ایسی حدیثوں کا تذکرہ موجود ہے جن میں سے ایک حدیث کا مفہوم آپؒ نے نبی ٔ کریمﷺسے سمجھا تو آپؒ کی بیان کردہ دوسری حدیث کے مفہوم کی توثیق فرمائی گئی۔ایسے واقعات قرونِ ا ُولیٰ کی تاریخ میں شاذ ہی ملتے ہیں یا پھر حضرت جؒی کے ہاں نظر آئے۔
            1980ء میں حیات النبیﷺ کے موضوع پر سرگودھا میں آپؒ نے طویل خطاب فرمایا، مختلف کتابوں کے حوالے دیئے اور علمی دلائل کے بعد آخر میں فرمایا:
‘‘ اگر کوئی دلائل کو نہیں مانتا تو وہ میرے پاس آجائے۔ میں اس کو حلال و طیب غذا کھلاؤں گا، دو وقت ذکر کراؤں گا اور وہ چھ ماہ کے اندر خود دیکھ لے گا کہ حضورﷺ روضۂ اطہر میں زندہ ہیں اور امت کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔’’
            اس دور کی ضرورت بھی یہی تھی کہ حیات النبیﷺ کے اثبات میں قرآن، حدیث اور علمی دلائل کے ساتھ ساتھ اس کا عملی ثبوت بھی امت ِمرحومہ کے سامنے پیش کر دیا جائے تاکہ اس اعتقادی فتنہ سے ایمان محفوظ رہ سکے۔ حضرت جؒی کو دربار ِنبویﷺ میں مستقل حضوری نصیب ہوئی، اہم امور میں رہنمائی فرمائی گئی اور کلام کی سعادت ملی۔تاریخ ِتصو ّف کے دیگر واقعات کی طرح اسے بھی آپؒ کی ذاتی کرامت قرار دیا جا سکتا تھا لیکن تکمیل ثبوت کے لئے حضرت جؒی نے تقسیم ِبرکاتِ نبویﷺ کو اس طرح عام کیا کہ آپؒ کی صحبت میں حاضر ہونے والا ہر طالب نوازا گیا اور ولایت خاصہ کے ساتھ لوٹا۔ آپؒ نے احباب ِسلسلۂ عالیہ کی تربیت فرما کر ایسے افراد تیار کئے جنہیں عالم بیداری میں دربار ِنبویﷺ میں حاضری نصیب ہوئی اور وہ آقائے نامدارﷺ کے دست ِاقدس پر روحانی بیعت سے مشر ّف ہوئے۔ حضرت جؒی کے ذریعہ سلسلۂ عالیہ کا احیاء اور اس میں کثیر تعداد میں ایسے احباب کا وجود دورِحاضر میں حیاتُ النبیﷺ کا عملی ثبوت ہے۔
            دربار ِنبویﷺ سجا ہوا ہو، آپﷺ جلوہ افروز ہوں، جلیل القدر صحابہ کرامy اور            اکابر اولیاء کرام حسب ِمراتب مسند نشین ہوں، حضرت علیt روحانی ناظم الامور کا عہدہ سنبھالے نظر آئیں، دربان کے فرائض کی بجاآوری پر غوث مامور ہوں، اس کرۂ ارض پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کی طرف    آقائے نامدارﷺ کی توجہ نظر آئے، فیصلوں کا صدور ہو اور سلسلۂ عالیہ کے خدام عالم بیداری میں روحانی طور پر وہاں موجود اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ کیا اس کے بعد بھی حیاتُ النبیﷺ سے انکار کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے! کیا صدیوں میں حیات النبیﷺ کے عملی ثبوت کی اس عموم کے ساتھ یہ صورت کہیں نظر آتی ہے!  ایسے بلند مرتبت اہل اللہ کا تذکرہ تو ملتا ہے جنہیں یہ مقام حاصل تھا لیکن متبعین بھی نوازے جائیں! یہ حضرت جؒی کا خصوصی امتیاز ہے جو اس دور میں سلسلۂ عالیہ کے حصہ میں آیا۔
            اس دور میں جبکہ تصوف، جمود اور بے عملی کی علامت بن چکا تھا اور اسے دین کے نام پر زندگی کے حقائق سے فرار کا آسان ترین راستہ سمجھ کر اختیار کیا جا رہا تھا، حضرت جؒی نے اس عمومی غلط فہمی کو دور کیا اور دنیا کے سامنے حقیقی اسلامی تصوف پیش کیا جو سراپا عمل اور ابلیسی قوتوں کے خلاف جدوجہد کا نام ہے۔ آپؒ نے گوشہ نشینی کی بجائے اجتماعیت کا درس دیا اور تصوف کو عملی طور پر ایک تحریک کی صورت میں پیش کیا۔ حضرت جؒی نے جس تصوف کی تعلیم دی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق قائم کرنے کا نام ہے جس کے بعد انسان حق و باطل کے مقابلے میں وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى  کی عملی تصویر بن جاتا ہے۔ یہ سلسلۂ عالیہ کا تحریکی پہلو ہے جس کی بنیاد حضرت جؒی نے رکھی اور جو اس وقت ‘‘الاخوان’’ کی صورت اجاگر نظر آتا ہے۔
            حضرت جؒی نے تصوف کے بارے میں اس باطل نظریہ کی بھی تردید فرمائی کہ شریعت اور طریقت ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اس کے برعکس آپؒ نے یہ تعلیم عام کی کہ اتباع ِشریعت ِمطہرہﷺ کے بغیر حصولِ طریقت ممکن ہی نہیں۔ آپؒ نے تصوف و احسان کو شریعت کا نچوڑ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ شریعت بیج کی مانند ہے اور طریقت اس کا ثمر، جب بیج ہی نہ ہو گا تو پھل کہاں سے آئے گا! اس طرح حضرت جؒی نے تجدید و احیائے تصوّف کے ذریعے دین کے اہم ترین شعبہ ‘‘احسان’’  کا اصل نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔
            حضرت جؒی کی عملی زندگی میں ایک مجاہدانہ شان نظر آتی ہے جس کا آغاز عقائد رفض کے خلاف بھرپور جدوجہد سے ہوا۔ آپؒ نے مناظروں کے میدان میں قیادت فرمائی اور ‘فاتح اعظم ’ کہلائے۔             ردِّ عقائد باطلہ کے موضوع پر ایسی گرانقدر تصانیف تحریر فرمائیں جو علماء کے لئے مستقل رہنما حوالہ جاتی کتب کا درجہ رکھتی ہیں۔ اپنے علاقے میں قادیانیوں سے مقابلے ہوئے تو نہ صرف دلائل کی زبان سے بلکہ طاقت کے بھرپور مظاہرے سے ان کی بیخ کنی فرمائی۔ تبلیغی دوروں پر نکلتے تو مسلح سفر کرتے۔ تاریخ تصوف بھی یہی ہے کہ جب تک طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں اسلامی حکومتیں، علماء وقت اور عوام برسرپیکار رہے،                  اہل اللہ کی جماعت تزکیۂ نفس کا فریضہ انجام دیتی رہی لیکن جب یہ تمام حصار ٹوٹ گئے تو یہ مقدس جماعت باطل کے سامنے خود سینہ سپر ہوگئی۔ عصرِ حاضر کی بھی یہی ضرورت تھی۔ حضرت جؒی نے اپنی جدوجہد کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا:
‘‘یہ محض اس واسطے کر رہا ہوں کہ الحاد اور بے دینی جو کہ آقائے نامدارﷺ کے دین کو تباہ کرنا چاہتی ہے، الحاد اور بے دینی اور سوشلسٹ،(آپؒ نے ایک سیکولر سیاسی پارٹی کا بھی نام لیا)، ان کی روک تھام کے لئے ہمارے پاس جماعت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقبولان کی جماعت ایسی ہو جائے کہ دنیا کہے، ہاں ایسے مسلمان ہوتے ہیں۔’’
حضرت جؒی نے تجدید و احیائے تصوف کا جو کام سرانجام دیا، اس کے متعلق آپؒ کا فرمان ہے:
‘‘تصو ّف کا مالہٗ وماعلیہ، نفع نقصان، اچھائی برائی، ساری چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مطلع کر دیا ہے، میں سمجھتا ہوں۔ صحیح اسلامی تصوف چھانٹ کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ مشائخ سے جو چیز آرہی تھی، اس میں کچھ چیزیں میں نے دیکھی ہیں کہ نقصان دہ ہیں، ان کو کاٹ دیا ہے۔ رضائے الٰہی کا راستہ صحیح جو ہے، سارے کا سارا، وہ پیش کر دیاہے۔’’
            مادیت سے پریشان انسانیت اس وقت روحانیت کی تلاش میں ہے اور اس کے درد ِدل کا علاج بجز برکات ِنبویﷺ ممکن ہی نہیں۔جہاں کفر و الحاد کے گھٹا ٹوپ اندھیرے امڈتے چلے آرہے ہیں وہاں ذکر و فکر کی روشنی بھی روز افزوں ہے۔ حضرت جؒی نے سلسلۂ عالیہ کے احیاء کی صورت میں جو جماعت تیار کی وہ آج کرہ ٔارض پر برکات ِنبویﷺ کی ترسیل کا زندہ ثبوت ہے۔ مادیت کے اس دور میں تزکیہ ٔقلوب اور باطنی تربیت کا عمل مسلسل جاری ہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جب سلسلۂ عالیہ کے متو ّسلین کہیں نہ کہیں اللہ اللہ نہ کر رہے ہوں۔ حضرت جؒی کے قائم کردہ مرکز ‘‘دارالعرفان’’ سے سلسلۂ عالیہ کے شیخ انٹرنیٹ کے ذریعے سالکین کو ذکر کراتے ہیں جو دنیا بھر میں ایک ہی وقت میں برکاتِ نبوتﷺ سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔ اللہ اللہ کی یہ صدائیں اب بڑھتی ہی رہیں گی، اِنْ شَاءَ اللّٰه!  بقول حضرت جؒی :
‘‘اس مرکز کو ظہور مہدیؒ تک قائم رہنا ہے۔ یہ جماعت خوب پھیلے گی اور حضرت مہدیؒ کی نصرت کرے گی، اِنْ شَاءَ اللّٰه!’’
            ایک مرتبہ سید گل بادشاہؒ دِیروالے غوث حضرت جؒی سے روحانی کلام فرما رہے تھے۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے دور کے تذکرہ کے بعد انہوں نے فرمایا:
‘‘ایہہ دور ہور آگیا۔ ایہہ تہاڈے دور تائیں اے تے ایدھے پچھے اک دور ہور آنا، اے وخرے وخرے دور این۔ ایہہ دور ای وخرے وخرے این۔’’
یہ ایک اور دور آگیا۔ یہ آپ کے دور تک ہے اور اس کے پیچھے ایک دور اور آنا ہے۔ یہ الگ الگ دور ہیں، یہ دور ہی الگ الگ ہیں۔
            یہ روحانی کلام دنیائے تصوف کے ایک ایسے دور کی نشاندہی کر رہا ہے جس کا آغاز حضرت جؒی سے ہوا اور حضرت امام مہدیؒ تک ہوگا۔ اس روحانی کلام کی مزید وضاحت حضرت جؒی کے اس خواب سے بھی ہوتی ہے جس کا تذکرہ آپ نے 1976ء میں چکڑالہ میں فرمایا:
‘‘میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا حوض ہے جس کے گرد ایک جنگلہ ہے اور اسے تالہ لگا ہوا ہے۔ وہاں ایک شخص ملتا ہے جو مجھے اس تالے کی چابی دیتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ کون ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں، میں عبدالقادر جیلانیؒ ہوں۔ میں پوچھتا ہوں، میں یہ چابی کس کو دوں گا تو وہ کہتے ہیں، آپ اسے امام مہدیؒ کو دیں گے۔
       اس کے بعد میں وہاں بیٹھ جاتا ہوں اور لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک نے مختلف برتن اٹھایا ہوا ہے، کسی کے پاس پیالہ ہے تو کسی کے پاس مٹکا۔ میں حوض میں سے ان کے برتن بھرتا جاتا ہوں۔ میں یہ دیکھتا ہوں کہ برتن بھرتے ہوئے کبھی کبھی تھوڑا سا گر بھی جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے خلافِ سنت اعمال کی وجہ سے ہے جو کبھی کبھی سرزد ہو جاتے ہیں۔’’
            کار ِتجدید میں مجدد کے ساتھ اس کی جماعت بھی تسلسل کا ذریعہ بنتی ہے وگرنہ کسی مجدد کا کام خواہ کس قدر عظیم ہی کیوں نہ ہو، دیرپا اثرات کا حامل نہیں ہو سکتا۔ حضرت جؒی کے بعد گزرنے والی ربع صدی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ حضرت امیرالمکرم اور ان کے متوسلین نے تصوف کو دنیا کے سامنے ایک تحریک کی صورت پیش کیا۔ یہ ایک مستقل عمل نسل در نسل جاری رہے گا، یہاں تک کہ حضرت جؒی کے فرامین کے مطابق چشمۂ فیض کی کلید حضرت امام مہدیؒ  تک پہنچے گی، اِنْ شَاءَ اللّٰه!
            حضرت جؒی کے کارِتجدید و احیائے دین کے بارے میں یہ مختصر باب صرف تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موضوع پر وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہت کچھ لکھا جائے گا جس کا آغاز مختلف جامعات و اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیقی مقالوں کی صورت میں ہو چکا ہے۔ مستقبل کا محقق حضرت جؒی کے کارِتجدید واحیائے دین کی مزید جہتوں کا تعین کرتے ہوئے اس کی وسعتوں کا جائزہ لیتا رہے گا۔
وَمَا تَوْفِيْقِيْ اِلَّا بِاللّٰهِ ط عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو