آخری سفر
اللہ
تعالیٰ کے مقبول بندوں کے جسمانی عوارض بلندیٔ درجات کا سبب ہوتے ہیں اور بسا
اوقات بلندی ٔمنازل کے ساتھ ساتھ جسمانی عوارض کی صورت اضطراری مجاہدوں سے بھی
گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت جؒی کی مبارک زندگی میں تین انتہائی شدیدبیماریوں کا تذکرہ
ملتا ہے۔ 1947ء میں حضرت جؒی طویل
بخار میں مبتلا ہوئے جس کے بعد کھانا پینا موقوف ہو گیا اور شدید نقاہت کے سبب بغیر
سہارے کے اٹھنا بیٹھنا محال تھا۔ مشائخ نے اس بیماری کے متعلق فرمایا کہ منازل
بالا کے لئے استعداد پیدا کی گئی ہے۔
اسی
طرح حضرت جؒی نے جون 1980ء کے ایک مکتوب میں تحریر
فرمایا تھا :
‘‘دائرہ شمسیہ اور دائرہ زحل کی گرمی کا اثر
بدن پر ہے۔ علاج سے اس وجہ سے فائدہ نہ ہوا۔’’
انتہائے
سلوک کی منازل طے کرتے ہوئے حضرت جؒی کا تمام بدن حِدَّت سے اس قدر متاثر تھا کہ
جلد خشک ہو جاتی، اس پر چھلکے سے بن جاتے جو اترتے رہتے۔ جلد پر تلخی محسوس کرتے
تو خدام کو خارش کے لئے کہتے۔ حضرت جؒی کے جسم کی یہ مستقل حالت تھی۔ بچپن میں بیری
سے گرنے کی وجہ سے دائیں کولہے میں عمربھر درد کی شکایت رہی۔ غرض کئی عوارض تھے جو
حضرت جؒی کو مستقل لاحق رہے۔
مارچ
1983ء میں حضرت جؒی بخار اور سینہ میں درد کی وجہ سے شدید
بیمار ہوئے تو محمد نسیم ملک نے
انہیں راولپنڈی منتقل کیا جہاں 22 مارچ سے
26 مارچ تک ملٹری ہسپتال کے سی سی یو میں زیر علاج رہے۔ بوقت داخلہ
کوائف لکھے گئے تو محمد نسیم ملک کے منہ سے بے ساختہ نکلا، ‘‘والد میجر محمد نسیم
ملک’’ اور اسی طرح کاغذات میں اندراج بھی ہوا۔ کیوں نہ ہو، روحانی والد کا رشتہ
خونی رشتوں سے کہیں افضل ہے! یہاں کے میڈیکل سپیشلسٹ کے مطابق یہ سینہ کا مرض (Bronchitis) تھا۔ ابتداء
میں ڈاکٹر محمد دین نے خادم کی ڈیوٹی دی لیکن بعد میں حضرت جؒی کے خادم خاص ملک
احمد نواز کو بلا لیا گیا۔ حضرت جؒی ہسپتال کے ماحول سے بہت پریشان تھے،
خاص طور پر خواتین سٹاف کے بے حجابانہ لباس کو انتہائی ناپسند فرماتے۔ آپؒ نے ملک احمد نواز کو ہدایت فرمائی کہ وہ
خود ان سے ادویات لے لیا کریں۔ دو تین روز بعد خواتین سٹاف نے ازخود کمرہ میں داخل
ہونے سے پہلے سر ڈھانپنے شروع کر دیئے۔
23 مارچ 1983ء
کو یوم ِپاکستان کی پریڈ تھی جس میں آپؒ کے شاگرد ِعزیز کرنل
سلطانؒ کی یونٹ بھی شرکت کر رہی تھی۔ کرنل صاحؒب علی الصبح تمغوں سے سجی ہوئی وردی
پہنے حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؒ دیر تک ان کی طرف دیکھتے رہے، پھر زیرِ
لب کچھ پڑھا اور کرنل صاحؒب پر پھونک دیا۔ اس روز پریڈ میں کرنل سلطانؒ کی یونٹ
اوّل آئی۔ وہ ابھی حضرت جؒی کی خدمت میں بیٹھے
تھے کہ ایک نرس نے ٹیسٹ کے لئے سرنج میں آپؒ کا
خون لیا اور زائد خون ایک گلاس میں ڈال دیا۔ نرس کے جانے کے بعد کرنل سلطانؒ
نے گلاس دھونے کے لئے اس میں پانی ڈالا لیکن گرانے کی بجائے بے ساختہ خون آلود پانی
پی لیاجو ایک غیر ارادی فعل تھا اگرچہ شریعت میں اس کا قطعاً جواز نہ تھا۔ 26 مارچ 1983 ء کو حضرت جؒی کی صحت قدرے بحال ہوئی تو آپؒ ملٹری ہسپتال سے فضل
کریم بٹ کے ہاں اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں کچھ روز آرام کے بعد چکڑالہ واپسی
ہوئی۔ اسلام آباد سے چکڑالہ جاتے ہوئے حضرت جؒی کے ساتھ ملک مختار احمؒد اور محمد نسیم
ملک شریک سفر تھے۔
احترامِ شیخ
دورانِ
سفر ڈھوک پٹھان کے قریب حضرت احمد بن حنبلؒ کے ایک مرید کا ذکر آگیا جن کے جرأت
مندانہ کردار کو حضرت جؒی بہت پسند فرماتے اور اکثر ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ آپؒ
نے ارشاد فرمایا:
‘‘مختار! دیکھو تو برزخ میں کس حال میں ہیں؟’’
مختار صاحؒب نے عرض کیا:
‘‘حضرت وہ تکلیف میں ہیں۔’’
حضرت جؒی نے حیرت کا اظہار فرمایا:
‘‘ اتنے بڑے شیخ کا مرید اور تکلیف میں! پوچھو،
کیا وجہ ہوئی؟’’
مختار صاحؒب نے عرض کیا:
‘‘حضرت! وہ کہتے ہیں کہ
برزخ میں آئے تو ربِِّ کریم نے فرمایا کہ اپنے اعمال کا بدلہ برزخ میں لینا ہے یا
آخرت میں؟ عرض کیا، بارِ الٰہا! یہیں قبر میں ہی دے دیں، حشر میں شیخ کے سامنے
رسوا نہ کرنا۔’’
حضرت
جؒی یہ سن کر آبدیدہ ہو گئے کہ شیخ کے ساتھ اس قدر قوی تعلق! پھر انہیں توجہ دینا
شروع کی۔ کچھ دیر بعد اللہ کریم نے ان کی تکلیف رفع کردی تو انہوں نے حضرت جؒی سے
عرض کیا:
‘‘آپ کا بہت شکریہ لیکن یہ سب میرے شیخ کی دعا
کا نتیجہ ہے۔’’
حضرت
جؒی اس واقعہ سے بہت متاثر ہوئے کہ شیخ کا اس قدر احترام!
حضرت جؒی کی یہ عادت تھی کہ جب کبھی کسی ساتھی نے آپؒ کو کسی
دوا کے استعمال کا مشورہ دیا یا کوئی دوا خود سے پیش کی، آپؒ بلاتردّد استعمال کر
لیتے اور کچھ عرصہ سے یہی ہو رہا تھا۔16 جنوری 1983ء
کو ایک صاحب نے حضرت جؒی کے لئے فاسفورس والی ایک دوا بھجوائی جس کی خوراک کے بارے
میں بتایا گیا کہ ناشتہ، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے بعد دوا کا ایک بڑا
چمچ استعمال کریں۔ ہومیوپیتھک معالج جانتے ہیں کہ فاسفورس والی ادویات کی بہت کم
خوراک استعمال کرائی جاتی ہے۔ اسی طرح میانوالی کے کچھ احباب نے بھی آخری ایام میں
آپؒ کو ہومیوپیتھک ادویات کی وافر مقدار استعمال کرائی۔ کہا جارہا تھا کہ حضرت جؒی
پرکسی دوا کا ردّ ِعمل ہوا۔
12، 13 جنوری 1984ء کو چکڑالہ میں آخری ماہانہ اجتماع کے بعد حضرت جؒی
کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ دو ہفتے تک آپؒ نے کسی کو خبر نہ کی۔ 20جنوری 1984ء چکڑالہ میں آخری موقع
تھا جب چند احباب بشمول راقم، حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؒ نے حاضرین میں
سے صوبیدار سکندر کو پشت پر خارش کے لئے کہا۔ صوبیدار صاحب نے دیکھا کہ آپؒ کے جسم
کے بال مسلسل حرکت میں ہیں، ہر سانس کے ساتھ کھڑے ہوتے اور پھر بیٹھ جاتے گویا
پورا وجود پاس ِانفاس کی صورت، حالت ِذکر میں ہے۔ وہ بالوں کی اس حرکت پر غور کر
رہے تھے کہ حضرت جؒی نے ازخود فرمایا:
‘‘جب انوارات آتے ہیں تو یہ حالت ہوتی ہے۔’’
آپؒ
نے بازو پر خارش کرنے کے لئے کہا تو سکندر نے دیکھا بازو اس قدر کھردرے ہیں جس طرح
مچھلی کی کھال’ حضرت جؒی نے پھر فرمایا:
‘‘کثرت ِانوارات سے چمڑہ جل گیا ہے۔’’
جب تکلیف بہت بڑھ گئی تو راولپنڈی میں ساتھیوں کو اطلاع دی
گئی۔ 27 جنوری 1984ء
کو کرنل بشیر احمد اور میجر احسن بیگ نے حضرت جؒی
کو فضل کریم بٹ کے ہاں راولپنڈی منتقل کیا۔ آپؒ کے منہ سے مستقل خون جاری تھا۔
بمشکل گفتگو فرما سکتے جو چند دنوں بعد موقوف ہو گئی اور آپؒ صرف تحریری صورت میں
اظہار ِخیال فرماتے۔
حضرت
جؒی ہسپتال میں بے پردگی کی وجہ سے داخلہ پسند نہ فرماتے تھے تاہم تکلیف بڑھ جانے
کی وجہ سے آپؒ کو ملٹری ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ 6
فروری 1984ء سے آپؒ کی حالت کو
انتہائی مخدوش قرار دے دیا گیا۔ ہسپتال میں معائنہ اور مختلف ٹیسٹ ہوتے رہے، ادویات
تجویز کی جاتیں لیکن اصل مرض کی تشخیص نہ ہو سکی اگرچہ آپؒ کے معالج فوج کے وہ
ڈاکٹر تھے جو ان دنوں صدر پاکستان کے بھی نامزد معالج تھے۔
ہسپتال
میں ٹیسٹ مکمل ہوئے اور آپؒ کے معالجوں نے حتمی ادویات تجویز کر دیں تو حضرت جؒی
کے مزاج کے خلاف آپؒ کو ملٹری ہسپتال میں مزید ٹھہرانا مناسب نہ تھا۔ اس وقت آپؒ
کے ذاتی معالج ڈاکٹر عظمت بٹر ملٹری ہسپتال کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق
دن رات آپؒ کی نگہداشت میں لگے ہوئے تھے۔ یہ کام فضل کریم بٹ کے ہاں بھی ممکن تھا
چنانچہ حضرت جؒی کی حالت قدرے بہتر نظر آئی تو آپؒ کو اسلام آباد میں بٹ صاحب کے
ہاں لے آئے۔ ان دنوں آپؒ اشاروں کے ذریعے یا تحریری صورت میں بات کر سکتے تھے۔
زبان پر زخم تھے اور پورے بدن سے خون رستا رہتا۔ کپڑے بار بار تبدیل کیے جاتے۔
پانچ دن بعد مرض کی شدت میں کمی آئی۔
حضرت
جؒی کی خدمت میں چکڑالہ ہر ماہ کی دوسری جمعرات کو حاضری ہوا کرتی تھی۔ حضرت جؒی
اس شدید بیماری میں بھی ماہانہ اجتماع کے لئے متفکر تھے۔ ساتھیوں کی چائے کے لئے
گھر میں گڑ تو موجود تھا لیکن چینی ختم ہو چکی تھی۔ راقم حاضر خدمت ہوا تو آپؒ نے
کاغذ قلم اٹھایا اور تحریر فرمایا:
‘‘9/2 کو اگر
گڑ نہ لائیں تو کار میں ایک من کھانڈ یا 25 سیر
ضروری لانا۔’’
حضرت
جؒی کی اس تحریر کا عکس ملاحظہ ہو۔
راقم
نے جب یہ پیغام پڑھ لیا تو آپؒ نے چینی کی قیمت پیشگی ادا کرنے کے لئے جیب کی طرف
ہاتھ بڑھایا۔ عرض کیا، حضرت! بعدمیں لے لوں گا لیکن حضرت جؒی مصر تھے کہ اُسی وقت
ادائیگی کردیں۔
معاملات
کے بارے میں حضرت جؒی اپنے آخری ایّام اور شدید بیماری کی حالت میں بھی کس قدر
متفکر تھے! افسوس کہ آج دین پر عمل کرنے والے حضرات بھی معاملات کا خیال نہیں
کرتے۔ حضرت جؒی اکثر فرمایا کرتے کہ اس دور میں عذاب ِقبر کا بڑا سبب معاملات کی
خرابی ہے۔
آپؒ
کے خادم ملک مختار احمؒد ان دنوں میانوالی ایئربیس میں تعینات تھے۔ بدھ جمعرات کی
درمیانی شب مغرب کے ذکر کے بعد مراقبۂ دربار ِنبویﷺ میں مختار صاحؒب کو حضرت جؒی
کے لئے ایک پیغام ملا۔ وہ اگلی صبح 16 فروری
کو سیدھے حضرت جؒی کے پاس اسلام آباد پہنچے اور ایک کاغذ پر مندرجہ ذیل پیغام لکھ
کر آپؒ کے سامنے رکھ دیا:
دربار ِرسالتﷺ
سے پیغام حضرت جؒی کے نام:
-1 انگریزی دوا کا علاج
چھوڑ دیں۔
-2 اِنْ شَاءَ اللّٰه صحت ہوجائے گی۔
-3 آج کے بعد نیا دَور شروع ہو گا۔
حضرت
جؒی نے یہ پیغام دیکھا تو مختار صاحؒب کو پاس بلا کر تیسری بات کی وضاحت چاہی۔
خاموشی پر آپؒ نے موجود صاحب ِکشف حضرات کو بلا کر پوچھا لیکن اس وقت کوئی بھی
وضاحت نہ کر سکا اگرچہ حضرت جؒی سمجھ چکے تھے اور احباب آپؒ کی رحلت کے بعد سمجھ
پائے کہ نئے دَور سے کیا مراد ہے۔
9 فروری1984ء کا ماہانہ اجتماع
منعقد نہ ہو سکا لیکن فضل کریم بٹ کے ہاں اسلام آباد میں روزانہ اجتماع کا سماں
ہوتا۔ یہ فیض لٹانے کے دن تھے۔ جو بھی آپؒ کی خدمت ِعالی میں حاضر ہوا، اسے آپؒ کی
بھرپور توجہ ملی۔ ان دنوں ایک خاص بات یہ دیکھنے میں آئی کہ آپؒ کی آنکھوں میں ہر
ساتھی کے لئے محبت کے سمندر موجزن تھے۔ اپنی شدید تکلیف کے اظہار کی بجائے آنکھوں
میں شفقت اور پیار کی شمعیں فروزاں نظر آتیں۔ جو سامنے آیا، محبت کے خزینے سمیٹتا
ہوا واپس لوٹا جو یادوں کی صورت ابد ہو گئے۔
حضرت امیر المکرم 16
فروری کو ملاقات کے لئے آئے تو عرض کیا:
‘‘حضرت! آپ کا چلہ پورا ہو چکا ہے۔ میری ناقص
رائے میں آپ کی آخری منازل کا تقاضا تھا کہ من ِجانب اللہ آپ سے مجاہدہ کرایا گیا۔’’
اگر
حضرت جؒی کی اس بیماری کی طوالت کا جائزہ لیں جو غالباً چکڑالہ کے آخری ماہانہ
اجتماع سے بھی کچھ روز قبل شروع ہوئی تھی تو حضرت امیرالمکرم کے الفاظ کے مطابق
ّچلہ مکمل ہو چکا تھا۔ مرض کی علامات کو دیکھیں اور میڈیکل رپورٹوں کا جائزہ لیں
تو اس چالیس روزہ بیماری کی بجائے وفات کے سرٹیفکیٹ میں بالکل مختلف وجہ بیان کی
گئی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت جؒی کا طویل مرض ایک چلہ ّکے بعد ختم ہو چکا
تھا۔ یہ آپؒ کی مبارک زندگی کا آخری مجاہدہ تھا جس کے مکمل ہونے کے بعد آپؒ 17 فروری 1984ء کو مکمل طور پر صحت یاب
نظر آرہے تھے۔ اسی روز حضرت جؒی کے اہل خانہ آئے۔ آپؒ اب گفتگو فرما سکتے تھے، انہیں
خوب تسلی دی اور جلد واپسی کا بتایا۔
حضرت
جؒی کی عادت مبارکہ تھی کہ مختلف صاحب ِبصیرت خدام کا مشائخ سے رابطہ کراتے اور ان
سے ایک سوال یہ بھی پوچھتے کہ آپؒ کس روز گھر جا رہے ہیں۔16
فروری کو جواب ملا کہ آپؒ اگلے اتوار گھر لوٹ جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ آپؒ کا
جسد ِمبارک 18 فروری
کو چکڑالہ پہنچا، ایک جلوس کی صورت، احباب کے کاندھوں پر سوار، آنسوؤں کی برسات
اور آہوں اور سسکیوں کے جلو میں!
راقم
17 فروری کو تین احباب کے ہمراہ آخری مرتبہ حضرت جؒی کی خدمت میں
حاضر ہوا تو آپؒ نے شفقت سے رخصت کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘بسلامت روی و
بازآئی’’
ایک مجذوب ساتھی رخصت ہونے کے باوجود اٹھنے کا نام نہ لے رہا
تھا۔ اسے بلانے کے لئے حضرت جؒی کے کمرے کے دروازے میں کچھ دیر کے لئے رکنا پڑا تو
حضرت جؒی کی نگاہیں چہرے پر جم گئیں، یہاں تک کہ احساس ہونے لگا کہ آپؒ مسلسل توجہ
فرما رہے ہیں۔ وہ آخری نگاہیں تو نہ ہٹیں البتہ راقم خود ہی پیچھے ہٹ گیا، ان
نگاہوں میں پنہاں محبت کی یادوں کو دل میں بسا کر!
18 فروری 1984ء کوحضرت جؒی پر دوپہر
کے بعد سے استغراق کی کیفیت طاری تھی۔ حضرت جؒی کے خادم ِخاص ملک احمد نواز کے
مطابق آپؒ نے نماز ِظہر ایک سے زائد مرتبہ ادا کی۔
حضرت
جؒی کی استغراقی کیفیت کو دیکھتے ہوئے خادم ِخاص نے احباب کو ملاقات سے منع کر دیا۔
نماز ِعصر کے بعد جب سانس کی آواز میں تبدیلی محسوس ہوئی تو احباب فکر مند ہوئے۔
نبض پر ہاتھ رکھا تو ساتویں نبض ڈوب رہی تھی۔ ملٹری ہسپتال سے فلائنگ سکواڈ منگوایا
لیکن اس کی آمد سے قبل حضرت جؒی اپنے رفیقِ اعلیٰ کے پاس پہنچ چکے تھے۔
اِنَّا
لِلّٰهِ وَاِنَّا
اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ
طبی
رپورٹ کے مطابق حضرت جؒی کا وصال حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوا۔
حضرت
امیر المکرم کے الفاظ میں:
‘‘یہ ساڑھے چھ بجے شام کا وقت تھا کہ بارگاہ
ِنبوتﷺ سجی تھی۔ مجھے تقریباً پچیس
سال ہوئے ہیں کہ میں بارگاہِ نبوتﷺ کی حاضری سے مشرف ہوں۔ اَلْحَمْدُ
لِلّٰه مجھ بے نوا پر اللہ کا یہ احسان ہے کہ شیخ ِکامؒل کو
وسیلہ بنا کر میری جوانی کی طویل راتوں کو محفل ِنبویﷺ سے چراغاں کر دیا۔ غالباً یہ
شعر اگر میں اپنے شیؒخ کے لئے عرض کروں تو سب سے زیادہ مناسب ہوگا۔
جزاک اللہ کہ چشمم باز
کردی
مرا با جانِ جاں ہمراز کر دی
مرا با جانِ جاں ہمراز کر دی
میں
نے اس طویل حاضری میں اس طرح کا اجتماع نہ دیکھا تھا، خصوصاً شیخین کریمین امیر
المومنین سیّدنا ابوبکر صدیقt اور سیّدناعمر فاروقt کو بہت زیادہ متوجہ پایا اور خصوصی اہتمام میں حضرت جؒی کو گھرا پایا۔ میں بے نوا، ہم رکاب تھا۔ بہت شاندار اور
عجیب طرح کا لباس حضرت کے زیب ِتن تھا۔ سرپر تاج جگمگا رہا تھا۔ خصوصی نشست بنی تھی
اور نبیٔ رحمتﷺ تبسم کناں، ابر ِرحمت برسا رہے تھے
اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ عزت افزائی جو ایک بالکل انوکھی طرز پر ہے، غالباً حضرت
جؒی کو کوئی بہت ہی خاص منصب عطا ہو رہا ہے اور یہ کیفیت ساڑھے چھ بجے سے لے کر
پونے آٹھ بجے تک رہی۔ میں نے حضرت جؒی سے بارہا سنا تھا کہ مراقبہ فنا فی الرسولﷺ
اگر مضبوط ہو تو ایسے لوگوں کی ارواح قبض کر کے پہنچائی نہیں جاتیں
بلکہ روح تو دربار ِنبویﷺ میں حاضر ہوتی ہے اور ملک الموت جسم سے دنیوی زندگی والا
تعلق ختم کر دیتا ہے لیکن اس کا مشاہدہ اس روز ہوا اور حضرت جؒی کے وصال پہ ہوا کہ
جن مبارک ارواح کو حضوری حاصل ہوتی ہے، انہیں کس طرح شرف ِباریابی حاصل ہوتا ہے۔’’
مغرب کی نماز سے قبل راقم کو پشاور میں میجر بیگ نے اطلاع دی
کہ حضرت جؒی کی طبیعت بہت خراب ہے، آپؒ کے ذاتی معالج ڈاکٹر عظمت بٹر کو راولپنڈی
بھجوائیں۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے حضرت جؒی کی علالت کے دوران زیادہ وقت آپؒ کی خدمت
میں ہی گزارا تھا لیکن ایک روزقبل آپؒ کی صحت یابی کے خیال سے پشاور لوٹ آئے تھے۔
احباب کو حضرت جؒی کی مخدوش حالت کی اطلاع دیتے ہوئے نماز ِمغرب ادا کی۔ نماز کے
بعد پریشانی کی حالت میں بیٹھا تھا کہ دل میں خیال گزرا، اگر حضرت جؒی دنیا سے
رخصت ہو گئے! معاً جواب ملا:
‘‘جماعت توہے۔’’
واپس گھر لوٹا تو میجر بیگ کے دوبارہ فون کے ذریعے حضرت جؒی
کے وصال کی خبر ملی۔ امیر ِجماعت صوبہ سرحد حاجی الطاف احمؒد کی معیت میں راولپنڈی
پہنچا تو احباب جمع تھے لیکن ایک قیامت کا سماں تھا۔ کوئی کسی کو دلاسا دینے والا
نہ تھا۔ اتنے میں حضرت امیر المکرم کی آمد ہوئی۔ سیدھے حضرت جؒی کی چارپائی تک گئے
اور چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھا کر حضرت ابوبکر صدیقt
کی سنت کے
مطابق پیشانی پر بوسہ دیا۔ پیکر ِصبر و سکون، ہر ایک کو سینے سے لگایا اور حوصلہ دیا۔
حضرت
امیرالمکرم نے حاجی الطاف احمؒد اور دیگر احباب کے ہمراہ راقم کو حضرت جؒی کے اہل
ِخانہ کو اطلاع کرنے کے لئے چکڑالہ روانہ فرمایا تو چلتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ رات
کو اطلاع نہ کریں اور انہیں آرام کرنے دیں۔ جائے تدفین کے متعلق صرف مشورہ دیں کہ
اہل اللہ جس جگہ پوری عمر ذکر و فکر میں بسر کرتے ہیں، وہی جگہ ان کی اخروی آرام
گاہ بنتی ہے۔ اگر مناسب سمجھیں تو حضرت جؒی کی تدفین آپؒ کے حجرہ مبارک میں کی
جائے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت جؒی اپنی جائے تدفین کا تعین فرما چکے ہیں
جس کا علم قبل ازیں ہمیں تھا نہ حضرت امیر المکرم کو، وگرنہ وہ حجرہ مبارک میں تدفین
کا مشورہ نہ دیتے۔
راولپنڈی
سے حضرت جؒی کا آخری سفر رات دو بج کر پچاس منٹ پر شروع ہوا۔اس کی روداد حضرت امیر المکرم کے الفاظ میں:
‘‘جسد ِمبارک اپنے کمرے میں
محو ِاستراحت تھا اور روح مبارک اعلیٰ علیین میں متوجہ الی اللہ۔ احباب پروانہ وار نچھاور ہو رہے
تھے۔ پشاور سے لاہور تک آنے والے آرہے تھے کہ دو بجے رات حضرت کے جسد ِمبارک کو
غسل دیا گیا۔ بیگ صاحب، زاہد صاحب،
باباقادر بخش خصوصی خدمت پر مقرر تھے اور باقی جملہ احباب بھی اپنا اپنا فرض ادا
کر رہے تھے۔ سحری کو تین بجے وہاں سے نکلے۔ میں زندگی میں آخری بار حضرت جؒی کی
سواری کی موٹر چلا رہا تھا۔’’
سوا چھ بجے یہ قافلہ دارالعرفان پہنچا تو حضرت جؒی کا جسد
ِمبارک آپؒ ہی کے کمرہ میں رکھا گیا۔ اس وقت حضرت امیرالمکرم کے اہلِ خانہ موجود
تھے۔ مقامی احباب کی ایک بڑی تعداد ہال میں جمع تھی۔ ایک بار پھر ضبط کے تمام بند
ٹوٹ گئے اور دارالعرفان کا ہال آہوں اور چیخوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ کچھ دیر بعد
نماز ِفجر کے لئے قدرے سکون ہوا لیکن یہ نماز بھی آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ادا ہوئی
کہ یہاں حضرت جؒی امامت فرمایا کرتے تھے جس کا نقشہ بار بار آنکھوں کے سامنے آجاتا
۔
حضرت امیرالمکرم کے الفاظ میں:
‘‘یہاں میں نے روح ِپُرفتوح
کو دارالعرفان کی طرف متوجہ پایا۔ کرنل مطلوب حسین صاحب مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ
حضرت جؒی سے اجازت کیوں حاصل نہیں کرتے کہ جسد مبارک کو دارالعرفان میں دفن کیا
جائے۔ میں نے پوری کوشش کی، عرض کیا! ‘‘ حضرت! آپ کے اہل ِخانہ کو یہاں گھر بنا کر
پیش کر دیں گے اور ہرطرح سے آرام میں ہوں گے اِنْ شَاءَ
اللّٰه، مگر نہیں۔فرمایا: زندگی میں بے شمار افراد کو مجھ پر بھروسہ تھا اور اللہ
نے مجھے ان کا آسرا بنا دیا تھا، تم سب کو یہاں نہیں لا سکتے۔ اب میری قبر ان کے
لئے ایسا ہی آسرا ہوگی جس طرح زندگی میں میری ذات تھی اور آپؒ نے حرف حرف ارشاد حق
فرمایا۔ سُبْحَانَ اللّٰہ! کیا لجپال لوگ تھے۔
اللہ ان پر کروڑوں کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین!’’
قریباً
دس بجے حضرت جؒی کا جسدِ مبارک چکڑالہ پہنچا جہاں ملک کے گوشے گوشے سے احباب کی ایک
بڑی تعداد جمع ہو چکی تھی۔ اہل ِدیہہ کثیر تعداد میں اپنے مربی و محسن کے آخری دیدار
کے لئے جمع تھے کہ آپؒ نے ہر مصیبت زدہ کی سرپرستی فرمائی۔ احباب مسلسل جمع ہوتے
رہے یہاں تک کہ نماز ِظہر کے بعد جنازہ اٹھا۔ حضرت جؒی کی آرام گاہ گھر سے تین
کلومیٹر کے فاصلہ پر تھی۔ اس فاصلے کے باوجود لوگ بھاگ بھاگ کر کندھا دے رہے تھے لیکن
اژدہام کی وجہ سے بمشکل موقع مل رہا تھا۔ حضرت امیرالمکرم اس جنازہ کی روداد بیان
فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:
‘‘پچھلے پہر جنازہ اٹھا، پہلے عصر کی نماز اور
پھر نماز ِجنازہ مجھ بے نوا نے پڑھائی۔ لحد میں اتارا۔ اک ہجوم ِعاشقاں تھا جسے
سنبھالنا میرے بس سے نکل نکل رہا تھا۔ اپنا دل درد سے پھٹنے کو آگیا تھا لیکن
مجبور تھا کہ مجھے بے شمار یتیموں کے سرپر ہاتھ رکھنا تھا۔ اگرچہ میں خود یتیم ہو
چکا تھا مگر بحمد ِاللہ بالغ تھا، مجھ سے چھوٹے میرے ساتھ لپٹ رہے تھے۔ سو بحمد
ِاللہ تمام مراحل طے ہوئے اور یہ اتوار کی شام تھی جس کے بارے میں مشائخ ِکرام نے
اطلاع دی تھی کہ آپ گھر پہنچ جائیں گے۔ اس سے مراد دنیا کا گھر تھا تو بھی اور
برزخ کا مکان تھا تو بھی، دونوں طرح سے درست ثابت ہوئی۔
میں
نے خود قبر کو سنوارا۔ خود پتھر اپنی گاڑی پر لاد کر ڈھوئے۔ حضرت کا جنازہ پڑھایا
اور اپنے شیخ اپنے بزرگ، اپنے مربی ّاور اپنے استاد کو لحد میں اتارا۔ وجود ِ
مبارک، بیگ صاحب’ زاہد صاحب اور کرنل سلطان کے ہاتھوں میں
تھموایا۔پھر مٹی ڈالی اور قبر بنادی۔
میں
نے، جو احباب صاحب ِبصیرت مجھے مل سکے، سب کو جمع کر کے قبر شریف کے پاس بٹھایا کہ
جو سمجھ آئے مجھے بھی اطلاع کرنا، لیکن واللہ، واللہ !جیسے ہی قبر پہ مٹی ڈالی گئی
تو ایک تجلّی تھی، ایک جلوہ تھا۔ ایک چمک تھی جو ایک آن میں لپکی اور حضرت بھی اسی
کے ساتھ منازل بالا کو تشریف لے گئے۔ اگر فرشتے تھے تو اسی چمک میں تھے اور اگر
سوال و جواب ہوئے تو اسی میں ہوئے ہوں گے۔ اگر بارگاہ ِرب العزت میں پیشی ہوئی تو
اسی میں ہوئی ہوگی، ہم ناکارہ تو اس سے آگے کچھ نہ دیکھ سکے۔’’
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔