ANTI-ADBLOCK JS SYNC صبح نو ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

صبح نو

صبح نو

            چکڑالہ ضلع میانوالی کے نواح میں اراضی کُنڈ کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ حضرت جؒی کی آخری آرام گاہ بنی۔ یہ بے آب وگیاہ زمین حضرت جؒی کے نام پر آباد ہوئی اور مرشدآباد کہلائی۔ 19 فروری 1984ء کو حضرت جؒی کی تدفین کے ساتھ ہی کئی ساتھیوں نے اس جگہ کھلے آسمان تلے پڑاؤ ڈال دیا جبکہ روزانہ حاضر ہونے والے احباب کی تعداد بھی خاصی تھی۔ ان میں اکثریت ملک کے دور دراز گوشوں سے آنے والے ان احباب کی تھی جو وقت پر اطلاع نہ ملنے یا طویل فاصلوں کی بنا پر حضرت جؒی کے جنازے میں شرکت سے محروم رہے تھے اور اب اپنے شیخ کے مرقد پر آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرنے حاضر ہوئے تھے۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی صورت میں مرقد پر ذکر و فکر کا سلسلہ شب و روز جاری تھا۔
            حضرت جؒی اپنے مخالفین کے بارے میں وقتاً فوقتاً جن خدشات کا اظہار فرمایا کرتے تھے، ان کے مطابق چکڑالہ میں آپؒ کا آبائی گھر قطعاً محفوظ نہ تھا۔ ساتھیوں کی مسلسل آمدورفت کے باعث فوری شرانگیزی تو متوقع نہ تھی لیکن یہاں سے آپؒ کی بیش قیمت لائبریری کو منتقل کرنا وقت کا اہم تقاضا تھا۔ یہ لائبریری حضرت جؒی کی معرکہ آرا تصانیف کی مآخذ اور کتب ِحوالہ جات پر مشتمل تھی جن کا ضیاع سلسلہ ٔ عالیہ کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا۔
            تاخیر کی صورت لائبریری منتقل کرنے کی راہ میں مخالفین رکاوٹ بن سکتے تھے۔ یہ خدشہ حضرت جؒی کے اہل ِخانہ نے بھی محسوس کیا اور ان کے ایماء پر حضرت جؒی کی تدفین کے اگلے روز یہ لائبریری دارالعرفان، منارہ منتقل کردی گئی۔ آپؒ کی وصیت کے مطابق یہ لائبریری سلسلہ ٔعالیہ کی ملکیت تھی اور دارالعرفان ہی اس کے لئے محفوظ جگہ تھی۔ جناب حافظ عبدالرزاقؒ بھی دارالعرفان منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے شبانہ روز محنت کے بعد کتب کو مختلف شعبہ جات میں تقسیم کیا اور ان کی جامع فہرست تیار کی۔
            24 فروری بروز جمعہ حضرت جؒی کی اہلیہ محترمہ اور صاحبزادی سے تعزیت کے لئے خواتین کا دن تھا۔ راقم اہلِ خانہ کے ہمراہ پشاور سے روانہ ہوا تو چکڑالہ حاضری سے قبل شبِ جمعہ حضرت امیرالمکرم کے ہاں منارہ میں بسر کی۔ اس موقع پر امیر  صوبہ سرحد حاجی الطاف احمؒد بھی ہمراہ تھے۔ حضرت امیر المکرم کے ہاں ان کے مہمان خانے میں بیٹھے تھے کہ ایک عجیب صورتِ حال پیش آئی۔ حضرت جؒی کے وصال کے بعد تمام ساتھی غم سے نڈھال اس قدر ٹوٹ کر برسے تھے کہ سوائے حضرت امیرالمکرم، کسی میں سکت نہ تھی کہ ایک دوسرے کو حوصلہ دے سکے۔ اس عالم میں صرف ایک ہستی کو ثابت قدم دیکھا، وہ حضرت امیرالمکرم تھے۔ پرسکون چہرہ، استقامت کی تصویر، ہر ایک کو دلاسا دے رہے تھے، حوصلے بانٹ رہے تھے لیکن اس رات اچانک کیا ہوا! ان کی زبان پر حضرت جؒی کا ذکر آیا تو اس کے بعد حوصلہ نہ رہا۔ زبان گنگ ہوگئی، سبھی بند ٹوٹ گئے اور آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔ حضرت جؒی کے نام کے ساتھ آنسو تو آج بھی ان کے آنکھوں سے رواں ہوجاتے ہیں لیکن اس روز بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور ٹوٹ ٹوٹ کر برسے۔ ہچکیاں شروع ہوئیں تو رکنے میں نہ آئیں، یہاں تک کہ ِگھگھی بندھ گئی۔ اب تک شب کی تنہائیوں میں ان پر اکیلے میں جو گزری، سوگزری ہو گی لیکن آج شاید پہلی مرتبہ وہ کسی کے سامنے اس قدر روئے۔ معلوم ہوا کہ صبر کا وہ پہاڑ جو دوسروں کے لئے سہارا بنا ہوا تھا، حضرت جؒی کی جدائی کے غم سے اندرونی طور پر کس قدر ہل چکا ہے۔
            صبح چکڑالہ حاضر ہوئے تو حضرت جؒی کے حجرہ سے کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی وہ چٹائی بطور تبرک ملی جو عرصہ دراز سے آپؒ کی جائے عبادت پر مختلف جائے نمازوں کے نیچے بچھی ہوئی تھی۔ کھجور کی اس چٹائی پر کچھ دیر ذکر کرنے سے آج بھی پژمردہ کیفیات کو جلا ملتی ہے۔ احباب آتے رہے اور اہل ِخانہ کی اجازت سے اس چٹائی کے اوپر بچھے ہوئے جائے نماز لے جاتے رہے لیکن راقم کے حصہ میں وہ چٹائی آئی جس پر حضرت جؒی نے ذکر و فکر اور عبادت میں زیادہ وقت گزارا تھا۔ حضرت جؒی کی استعمال شدہ مختلف چیزیں احباب میں تقسیم ہوگئیں تو واپسی پر حضرت امیر المکرم کی اہلیہ محترمہ نے پوچھا، ہمارے حصہ میں حضرت جؒی کے تبرکات میں سے کیا چیز آئی ہے؟ حضرت امیر المکرم نے فرمایا، میں خود جو ہوں!
            حضرت جؒی ایک صوفی ٔ کامل کے علاوہ بطور عالم ِبے بدل ملک بھر میں معروف تھے۔ آپؒ کے وصال کا تذکرہ ملک کے سبھی اخبارات میں شائع ہوا۔ ان دنوں صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق ملک سے باہر تھے اور ان کی جگہ چیف جسٹس سپریم کورٹ، جسٹس عبدالحلیم بطور صدرِ پاکستان فرائض انجام دے رہے تھے۔ 24 فروری 1984ء بروز جمعہ قائم مقام صدر حضرت جؒی کی تعزیت کے لئے دارالعرفان آئے اور یہیں نماز ِجمعہ ادا کی۔ یہ دارالعرفان میں اوّل نماز ِجمعہ تھی۔
            یکم اور2 مارچ 1984ء دارالعرفان میں ایک اہم اجتماع ہوا جس میں ملک بھر سے احباب ِسلسلۂ عالیہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ قریباً تمام صاحب ِمجاز، ضلعی امراء اور اراکین مجلس منتظمہ موجود تھے جبکہ عام ساتھیوں کی تعداد ایک ہزار سے کم نہ تھی۔ حضرت جؒی کے ایصال ِ ثواب کے لئے احباب نے بیشتر وقت قرآن خوانی میں گزارا۔
            2 مارچ صبح ساڑے چھ بجے ایک خصوصی مشاورت ہوئی جس میں حضرت امیرالمکرم،  سیّد بنیاد حسین شاہ،  میجر محمد احسن بیگ اور چند دیگر احباب نے شرکت کی۔ اس موقع پر حضرت امیرالمکرم نے ایک مختصر خطاب میں شرکاء سے فرمایا کہ وہ ایک عرصہ سے ساتھیوں کی خدمت پر مامور ہیں، انہیں بدستور اس خدمت پر مامور رکھا جائے اور حضرت جؒی کی خلافت کے بارِ گراں کو دونوں خلفاء میں سے کوئی ایک سنبھال لے۔ اس بار ِعظیم کو اٹھانے کے لئے کوئی بھی تیار نہ ہوا بلکہ اصرار کیا گیا کہ حضرت امیرالمکرم ہی اس ذمہ داری کو سنبھالیں۔ حضرت امیر المکرم کی آمادگی کے بعد تجدید ِبیعت کا عمل شروع ہوا۔
            سب سے پہلے سیّد بنیاد حسین شاہ،  میجر احسن بیگ اور صاحب ِمجاز حضرات نے فردًافرداً تجدید ِبیعت کی۔ اس کے بعد دارالعرفان کے ہال میں جمع ساتھیوں سے میجر احسن بیگ نے خطاب کیا اور انہیں تجدیدِ بیعت کی دعوت دیتے ہوئے طریقۂ بیعت کی وضاحت کی۔ حضرت امیرالمکرم اس دوران حضرت جؒی ہی کے کمرہ میں تشریف فرما رہے جبکہ احباب ِسلسلۂ عالیہ قطار در قطار بیعت کے لئے اندر آتے رہے اور میجر بیگ اس سارے عمل کی نگرانی کے ساتھ ساتھ تجدیدِ بیعت کے عمل کے بارے ہدایات بھی دیتے رہے ۔ ساتھیوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے بیعت کا یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہا۔ بیعت کے دوران وہی کلمات دہرائے جارہے تھے جوکبھی حضرت جؒی کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ادا کئے گئے تھے اور حضرت امیرالمکرم بعینہٖ فرمارہے تھے۔ ‘‘میں نے آپ کو سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ میں بیعت کیا اور اس کی نسبت آپ کو عطا کی۔’’ احباب نہ صرف زبان سے بلکہ دل و جان سے بھی قبول کا لفظ ادا کر رہے تھے۔ چشم ِتصور میں صحابہ کرام]  کا وہ کٹھن وقت سامنے آجاتا جب آقائے نامدارﷺ کے اس عالم ِظاہر سے پردہ فرمانے کے بعد خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیقt  کے دست ِاقدس پر بیعت کی گئی۔ اس موقع پر بیعت کرنے والوںمیں وہ کبار صحابہ کرام]  بھی شامل تھے جو بیعت ِرضوان کی سعادت سے بہرہ ور تھے۔
            یہ ایک نئے دور کی صبح تھی ۔ یہ لمحات بہت بھاری تھے ۔ اس وقت آنے والے دور میں سلسلۂ عالیہ کے حوالے سے کٹھن ذمہ داریوں کو سنبھالنے کا عہد لیا جارہا تھا جبکہ حضرت جؒی کی صورت میں شفقت اور تحفظ کی چھتری سروں سے اٹھ چکی تھی۔ آپؒ نے ایک ایک ساتھی کو سنبھال رکھا تھا لیکن جب یہ سایہ سروں سے اٹھ گیا توکتنے لوگوں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے دیکھا’ اِلّا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استقامت نصیب ہو۔اللہ تعالیٰ سے آخر دم تک استقامت کی دعا ہے۔آمین!
            8،9 مارچ 1984ء کو حضرت جؒی کے دور کے بعد چکڑالہ میں پہلا اور آخری ماہانہ اجتماع ہوا۔ اس سے قبل 12،13 جنوری 1984ء کو یہاں معمول کے مطابق جنوری کا دوسرا جمعہ ہونے کی نسبت سے ماہانہ اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں حضرت جؒی ہمارے درمیان تھے۔ اگلا ماہانہ اجتماع 9،10 فروری کو منعقد ہونا تھا لیکن حضرت جؒی اس روز ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں زیرِ علاج تھے۔ مارچ کے دوسرے جمعہ کے اس اجتماع کے لئے چکڑالہ میں ساتھیوں نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ ان کے قیام کے لئے تمام قریبی مساجد ناکافی ثابت ہوئیں۔ حضرت جؒی کی مبارک زندگی کے دوران کسی بھی اجتماع میں اس قدر حاضری نہ دیکھی گئی تھی۔
            سحری کا ذکر کسی ایک جگہ ممکن نہ تھا اس لئے ہدایت کردی گئی کہ ساتھی جہاں ہیں، وہیں ذکر کریں۔ ساتھیوں کی یہ تعداد دیکھ کر واضح ہوگیا کہ مستقبل تو دُور کی بات ہے، یہ جگہ تو آج کے اجتماع کے لئے بھی ناکافی ہے اور آئندہ روزافزوں تعداد کے لئے وسیع و عریض کھلے میدان کی ضرورت ہوگی جس کا بندوبست اراضی کُنڈ کی صورت میں حضرت جؒی فرما گئے تھے۔ چنانچہ اپریل 1984ء سے ماہانہ اجتماعات مرشد آباد منتقل کردیئے گئے۔
            9 مارچ 1984ء علی الصبح حضرت امیرالمکرم نے احباب کے ہمراہ حضرت جؒی کے مرقد پر حاضری دی اور اجتماعی ذکر ہوا۔ اس کے بعد گروہ در گروہ یہاں پہنچنے والے احباب نے ذکر کا سلسلہ جاری رکھا۔ دس بجے حضرت امیرالمکرم نے احباب کے ہمراہ مرقد سے متصل مسجد کی حدود کی نشاندہی کی ۔ یہ ایک بڑا تعمیراتی منصوبہ تھا جس کے لئے وافر پانی کی ضرورت تھی۔ حضرت امیرالمکرم نے راقم کو ساتھ لیتے ہوئے فرمایا کہ اب پانی کا منبع تلاش کیا جائے۔ انہوں نے پورے علاقے کا بغور جائزہ لیا اور پھر مجوزہ مسجد کی مشرقی دیوار کی سمت کچھ فاصلے پر لکڑی کی چوب ٹھونکنے کے لئے فرمایا۔ بعد میں اسی جگہ ٹیوب ویل لگایا گیا جہاں سے نہ صرف تعمیراتی کاموں کے لئے پانی حاصل ہوا بلکہ قریبی اراضی بھی سیراب کی گئی۔
            حضرت جؒی کے مرقد کے نواح میں مستقبل کی جس بستی کی منصوبہ بندی کی گئی، حضرت امیرالمکرم نے اس کا نام مرشد آباد رکھا اور اسی روز ڈپٹی کمشنر میانوالی کو بھی اس سے آگاہ کردیا تاکہ متعلقہ ریونیو ریکارڈ میں اندراج کرلیا جائے ۔
            آئندہ جمعہ 16 مارچ 1984ء کو حضرت امیر المکرم نے مسجد کی بنیادوں کی کھدائی کا افتتاح فرمایا ۔ ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد نے مرشد آباد میں کھلے آسمان تلے کیمپ لگا لیا جس میں احباب قیام پذیر رہے اور حسب ِتوفیق تعمیراتی کاموں میں جوش و خروش سے شریک ہوئے یہاں تک کہ 12،13 اپریل 1984ء رات گئے چھت ڈالنے کا مرحلہ مکمل ہوا۔
            حضرت جؒی کے مرقد کے ساتھ مسجد اور آپؒ کے لواحقین کے لئے رہائش گاہوں کی تعمیر اس قدر تیزی سے ہوئی کہ انتہائی قلیل عرصہ میں جنگل کی جگہ ایک آباد بستی نظر آنے لگی۔ حضرت جؒی کے لواحقین کی مرشدآباد منتقلی کے بعد ڈی سی میانوالی سے طے پایا کہ چکڑالہ میں آپؒ کا آبائی گھر اور حویلی، اللہ یار خانؒ ہائی سکول برائے طالبات، کے لئے وقف کردیئے جائیں لیکن اس منصوبہ پر عمل درآمد سے قبل ہی اس جگہ پر مخالفین کا قبضہ ہوگیا۔ ماہ مئی اور اگست میں ڈی سی میانوالی اور اے سی تلہ گنگ نے مرشد آباد کے دورے کئے۔ حیرت کے عالم میں ان لوگوں کے ریمارکس تھے کہ وہ جماعت جو چند روز کے اندر اس جنگل میں ایک بستی بسا سکتی ہے، اس کے لئے کوئی کام بھی ناممکن نہیں۔ ان ضلعی افسران کی آمدورفت سے مرشدآباد کے لئے بجلی کی فراہمی کا مسئلہ بھی حل ہوا اور سڑکوں کی منصوبہ بندی کی گئی جس پر کام کا آغاز اگرچہ کئی سال بعد ہوا۔
            حضرت جؒی کے مرقد کےگِردہَشت پہلو احاطے کی کھدائی کا آغاز 28 جولائی 1984ء کو ہوا۔ حضرت امیرالمکرم کا ارادہ تھا کہ اس احاطے کے اطراف میں آٹھ ستونوں کی مدد سے اس طرح چھت ڈالی جائے کہ مرقد کا درمیانی حصہ خالی رہے۔ چند احباب کی طرف سے اس تجویز کی شدید مخالفت کی گئی اور بِنَاء عَلیَ القَبُور کی دلیل کا سہارا لیا گیا حالانکہ مرقد کے اوپر چھت ڈالنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اور اطراف میں ہشت پہلو چھت کا مقصد مرقد کے قریب بیٹھ کر ذکر کرنے والوں کو یہاں کی سخت سردی و گرمی، چلچلاتی دھوپ اور بارش سے محفوظ رکھنا تھا۔ ان احباب کی تشفی کے لئے یہ معاملہ جب دارالعلوم دیو بند کے سامنے رکھا گیا تو جواب واضح تھا کہ یہاں عمارت قبرکے لئے نہیں بلکہ بِنَاء عَلیَ القَبُور للِاستَفَادَہ ہے۔ چونکہ صاحب ِقبر سے حصول ِفیض مقصود ہے جس کے لئے یہاں بیٹھ کر ذکر کیا جاتا ہے، یہ عمارت ذاکرین کے استفادہ کے لئے ہے جس کی تعمیر میں کوئی قباحت نہ تھی۔ یہ بھی واضح تھا کہ یہاں روایتی مزار وغیرہ کی تعمیر مقصود نہ تھی لیکن مخالفت کرنے والے احباب جب اپنی رائے سے رجوع کرنے پر تیار نہ ہوئے تو حضرت امیرالمکرم نے مزار کے اطراف میں چھت ڈالنے کا ارادہ ترک کردیا۔
            اس وقت حضرت جؒی کا مرقد ِپرنور ایک چھوٹے سے احاطے میں ہے جہاں احباب کی آمد و رفت اجتماعی اور انفرادی صورت میں جاری رہتی ہے لیکن گرمی و سردی کی شدت، چلچلاتی دھوپ یا بارش میں احباب کے لئے مرقد کے سامنے بیٹھ کر طویل دورانیے کے لئے ذکر ممکن نہیں ہوتا جبکہ حضرت جؒی کے مرقد کے گرد اس احاطے اور یہاں بیٹھ کر ذکر کرنے کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔
            طریقِ اویسی کے مطابق حضرت جؒی سے رابطہ تو ہر جگہ قائم ہوسکتا ہے لیکن اس احاطے میں آپؒ کی خصوصی توجہ نصیب ہوتی ہے، گویا یہ احاطہ آپؒ کے اپنے گھر کی چاردیواری ہے۔ راقم پر گزرنے والاایک چھوٹا سا واقعہ شاید اس حقیقت کو مزید واضح کرسکے۔ ایک مرتبہ پشاور کے احباب کے ہمراہ رات گئے مرشدآباد پہنچے تو مسجد میں سونے کے لئے جگہ نہ ملی۔ مجبوراً احباب کے ہمراہ مرقد کے احاطے میں کچھ دیر کے لئے لیٹ گئے۔ سحری کے ذکر میں کیفیات ندارد، لطائف بجھے بجھے سے اور اندر کی دنیا زیروزبر محسوس ہونے لگی۔ معلوم ہواکہ اس کی وجہ مرقد کے احاطے میں رات کا قیام ہے، اگرچہ یہ پکڑ حضرت جؒی کی طرف سے نہ تھی۔آپؒ کی طرف سے تو ہمیشہ شفقت ہی ملی لیکن نادانستہ طور پر ہی کیوں نہ ہو، کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جائے جو قرینہ ٔادب کے خلاف ہو تو سلوک کی دنیا میں اس کے نتائج سے مفر ممکن نہیں۔ عرض کیا: آپؒ کے زمانہ میں بارہا آپؒ کے کمرہ میں سونے کی سعادت نصیب ہوئی تو جواب ملا: ‘‘جن لوگوں کو ساتھ لے آئے، انہیں تو یہ قرب حاصل نہ تھا۔’’ اِستِغْفار کیا اور مرقد کے سامنے طویل ذکر کے بعد کیفیات بحال ہوئیں۔
            مرقد کے گرد احاطے کا ایک اپنا تقدس ہے اور یہاں بیٹھیں تو غفلت اور عدم توجہی سوئے ادب ہوگی۔ یہاں کی حاضری کے متعلق حضرت جؒی کا فرمان ہے:
‘‘جن لوگوں نے مجھ سے فیض حاصل کیا، وہ میری قبر پر آئیں گے تو اس سے کئی گنا زیادہ پائیں گے۔’’


Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو