ANTI-ADBLOCK JS SYNC مچھر میں خدا کی نشانیاں۔۔۔ ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

مچھر میں خدا کی نشانیاں۔۔۔



🦟
مچھر میں خدا کی نشانیاں۔۔۔
مچھر، جس کو ہم معمولی سا کیڑا سمجھتے ہیں لیکن حشرات الارض (Insects) میں سے سب سے زیادہ خطرناک جاندار ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ مرتے ہیں، سب سے زیادہ انسان جس جاندار کی وجہ سے مرتے ہیں وہ مچھر ہی ہے۔ اسی لئے اس کو Deadliest Animals on Earth کہا جاتا ہے۔ یہی مچھر سکندر اعظم (Alexander The Great) کی موت کا سبب بنا۔
مچھروں کی تقریبا 3500 سو انواع (Species) ہیں اور ان میں سے صرف 200 اقسام ایسی ہیں جن میں صرف مادہ مچھر(Female Mosquitoes) ہی خون پینے کے لئے کاٹتی ہیں اور یہ ہر قسم کے جانور کو کاٹتی ہیں۔ جیسے سانپ، مینڈک، پرندے،گھوڑے، گائے، انسان وغیرہ۔ باقی نر مچھر پھولوں پتوں وغیرہ سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ جدید تحقیقات کے مطابق مچھر کا وجود انسان کے وجود سے بھی پہلے کا ہے، یہ زمین پر دس کروڑ (100 Million) سال سے رہ رہا ہے۔
مچھر کی عمر 5 یا 6 ماہ تک ہوتی ہے۔اس کے تین دل، دو دماغ اور دو آنکھیں ہوتی ہیں اور ہر آنکھ میں تقریبا ایک ہزار (Lenses) ہوتے ہیں۔ جو آزادانہ طور پر(independently) مختلف سمتوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ مچھر ایک سیکنڈ میں ایک ہزار مرتبہ اپنے پر (Wings) مارتا ہے اس کے باوجود وہ ایک گھنٹے میں صرف ایک سے ڈیڑھ میل کا فاصلہ ہی طے کر پاتے ہیں۔ مادہ مچھر ایک ہی وقت میں 200 انڈے دیتی ہے۔
مچھروں میں سب سے زیادہ خاص بات ان کے خون چوسنے کا طریقہ ہے۔ مچھر کے منہ میں 6 سوئیاں (Six Needles) ہوتی ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہوتا ہے اور ان کی مدد سے وہ صرف مطلوبہ خون ہی چوستے ہیں۔ خراب یا غیر ضروری خون نہیں پیتے۔ مچھر جب انسان کے کسی حصے کو کاٹتا ہے تو اس حصے کو پہلے اپنے لعاب سے سن کرتا ہے۔ پھر اس حصہ میں اپنی چھ سوئیاں انجیکشن کی طرح ڈال کر خون پینا شروع کرتا ہے۔ اور اس کا لعاب Pain Killer کا کام کرتا ہے جس وجہ سے کاٹتے وقت دردمحسوس نہیں ہوتا۔ یہ پورا عمل ایک Device کی طرح ہوتا ہے جیسے Neural Implantation Device ہوتی ہے۔ انسان نے یہ Device بھی مچھر کو دیکھ کر بنائی ہے۔
مچھر میں انتہائی حساس حرارتی RECEPTORS ہوتا ہے۔ جس کی مدد سے کسی بھی جاندار کی موجودگی اور مختلف رنگوں میں خارج شدہ حرارت کو سمجھتا ہے اور اس حرارت کے اعتبار سے جاندار کو پہچان لیتا ہے۔ جس وجہ سے مچھر اندھیرے میں بھی جاندار کو پالیتا ہے۔ اور جسم کے اندر خون کی نالیوں کو بھی پہچان لیتا ہے۔
انسان کا خون صرف مادہ مچھر ہی پیتے ہیں اور یہی مادہ مچھر ہر سال لاکھوں انسانوں کی موت کا سبب بنتے ہیں۔ نر مچھروں کے مقابلے میں مادہ مچھروں کی یہی خاص بات ہے۔
اتنی چھوٹی حیران کن مخلوق کیا خودبخود اتفاق سے بن سکتی ہے؟ کیا اس کے جسم میں ایسا حیران کن نظام کسی اندھے ارتقائی عمل (Blind Evolutionary Process)کا نتیجہ ہوسکتا ہے؟
قرآن مجید میں جب مچھر وغیرہ کی مثال بیان کی جاتی تھی تو مشرکین اعتراض کرتے تھے کہ بھلا اگر یہ اللہ تعالٰی کا کلام ہے تو اس میں مچھر جیسی حقیر مخلوق کی مثال کیونکر ہے اس میں ایسا کیا خاص ہے۔
اس تفصیل کے بعد اب شاید آپ کو یہ آیت سمجھ میں آجائے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ
"ہاں، اللّٰه اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی مثال دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی مثالوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی مثالوں سے اللّٰه کو کیا سروکار؟ اس طرح اللّٰه ایک ہی بات سے بہت سوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہت سوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے، جو فاسق ہیں"
سورت البقرہ،آیت نمبر:26
Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو