ناموسِ
صحابۂ
کرام]
حلقہ
احباب کے لئے حضرت جیؒ کی ذات اس قدر مجسم شفقت تھی کہ آپؒ سے تعلق رکھنے والا ہر
شخص یہی سمجھتا کہ آپؒ سب سے زیادہ شفقت اسی سے فرماتے ہیں۔ یہ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ کا پرتو تھا لیکن جہاں ناموسِ صحابہ] پر آنچ آتی نظر آئی، آپؒ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ کی صورت میں سخت گرفت فرماتے۔ اکثر فرمایا کرتے :
‘‘جو کچھ ملا ہے ناموسِ صحابۂ کرام] کی وجہ سے، کیونکہ حضورﷺ کو اپنے صحابہ]
سے بڑی محبت تھی۔
صحابۂ کرام] ہی رسالت مآبﷺ
کی زبان ہیں۔ وہی آپﷺ کی نبوت کے عینی شاہد ہیں اور فرمودات نبیﷺ کے امین ہیں۔
سارے کا سارا دین صحابۂ کرام] کی معرفت امت کو
پہنچا۔ اگر درمیان سے انہیں ہٹا دیا جائے، ان پر سے اعتماد اٹھ جائے تو رسالت مآبﷺ پر
ایمان کی کوئی سند اور دلیل باقی نہیں رہتی۔
اعتماد، دین کی بنیاد
ہے۔ جبرائیلu اللہ تعالیٰ کا کلام، حضورﷺ اور آپﷺ سے پہلے انبیائے
کرام
علیہم
السلام
تک پہنچاتے۔ انبیا علیہم
السلام
کا فرشتہ پر اعتماد اور پھر امت کا
نبی پر اعتماد کہ جو بتائیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اسی خبر ِ واحد پر اعتماد سے
دین ہم تک پہنچا ہے۔
جب خلف کا سلف سے
اعتماد ختم ہو جائے تو دین باقی نہیں رہ سکتا۔ اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک
کی تمام تر کوششیں صحابۂ کرام] کے خلاف ہی
رہی ہیں کہ ان کی مقدس جماعت کو بدنام کیا جائے، ان کی عیب جوئی کی جائے، مخلوقِ
خدا کو کسی طرح ان سے بدظن کیا جائے کیونکہ دین کی بنیادیں صرف اسی صورت میں منہدم
کی جا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے خلاف ایسی جرأت کرنا مشکل تھا، البتہ
نبوت کے عینی شاہدوں سے ہی اگر اعتماد اٹھا دیا جائے تو ان کا یہ باطل مقصد
پورا ہوسکے گا۔
نفوسِ مقدسہ کی یہ
جماعت اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہے کہ
دنیا میں جو بھی بڑی سے بڑی قوت ان سے ٹکرائی، پاش پاش کر دی گئی ۔ دنیا سے پردہ
فرما جانے کے بعد جنت کے ان باسیوں کی عیب جوئی یا ان کو کسی طرح کا گزند پہنچانے
کی کوشش کرنے والوں کے ایمان اور روحانی صلاحیتوں کو ربِ قہاّر و جباّر نے ریزہ
ریزہ کردیا۔ آج تک کوئی بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی شخص صحابۂ کرام] کی مخالفت کے باوجود دنیا سے ایمان سلامت لے گیا
ہو۔’’
دربارِ نبویﷺ سے ناموسِ صحابۂ کرام]
کے دفاع کے لئے حضرت جیؒ کو جو فریضہ
سونپا گیا، آپؒ نے اپنی تمام صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس
کی بجا آوری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ آپؒ کے ہر خطاب میں صحابۂ کرام] کا تذکرہ ہوتا، اس مقدس جماعت
کے خلاف ہر وار اپنے سینے پر برداشت کرتے اوراس دردِ دل کی ہر ٹیس آپؒ کے خطبات
میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
حضرت
جیؒ مدح صحابہ] پر اپنے خطاب
کا آغاز سورة الفتح کی آخری آیات سے کرتے۔
هُوَ
الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى
الدِّيْنِ كُلِّهٖط وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًاOط مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰهِط وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ
رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ
وَرِضْوَانًاز سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِط
ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ جصلے وَمَثَلُهُمْ
فِي الْانْجِيلِ جصلے كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَآزَرَهٗ
فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلَى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ
الْكُفَّارَط وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًاO
ایک
مرتبہ خطبہ مسنونہ اور سورة الفتح کی ان آیات کی تلاوت کے بعد آپؒ نے مدح صحابہ] بیان کرتے ہوئے اور بالخصوص حضرت امیر معاویہt کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ہم اہل سنت والجماعت
ہیں۔ حنفی نہیں، شافعی نہیں، مالکی نہیں، حنبلی نہیں، اہل سنت والجماعت میں وہ بھی
داخل ہیں۔ یہ سمجھ لو! اہل سنت والجماعت ہیں۔ جس دن سے صوفیأ کرام کا سلسلہ شروع ہوا ہے، سب کے
سرتاج، اولیاء اللہ کے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی پیر بغدادیؒ ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے
منازل کے لحاظ سے کوئی آدمی ان سے آگے ہو لیکن ان کی جوشخصیت ہے، اس کا مقابلہ
کوئی شخص نہیں کر سکتا۔ بہت مشکل ہے۔ صدیقؓ سے کئی آدمی عابد زیادہ ہوں گے، لیکن
شخصیت جو صدیقؓ کی ہے، وہ صدیق کوئی نہیں بن سکتا، فاروقؓ کوئی نہیں بن سکتا،
عثمانؓ کوئی نہیں بن سکتا، علیؓ کوئی نہیں بن سکتا۔ سید عبدالقادر جیلانیؒ سے یہ
مسئلہ پوچھا گیا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ، جس کو ثانی عمر کہتے ہیں، بہت بڑا
عادل حکمران گزرا۔ ان کے عدل کے متعلق ایک
شخص نے بیان کیا کہ میں کسی کے ساتھ ایک پہاڑی سے گزرا تو دیکھا کہ بھیڑوں اور
بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ بھیڑیے گھوم رہے ہیں لیکن کسی بھیڑ اور بکری کو نقصان نہیں
پہنچاتے۔ یہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے عدل کی دلیل تھی۔ عمر بن عبدالعزیزؒ بہت بڑی
ہستی گزری، تابعی تھے۔ کسی نے پیر صاحبؒ سے یہ پوچھا کہ حضرت امیر معاویہt
کی شان زیادہ ہے یا عمر بن عبدالعزیزؒ کی شان زیادہ ہے؟ فرمانے لگے، کہ راستے پر
برہنہ سر بیٹھا ہوں اور حضرت امیر معاویہt گھوڑا دوڑاتے ہوئے یہاں سے گزریں تو اس گھوڑے کی سموں سے اڑنے
والی مٹی اگر میرے سر میں پڑ جائے تو میں اس وقت کہہ دوں گا کہ میں جنتی ہو چکا
ہوں۔
یہ ہے شانِ
صحابیت!پھرفرمایا حضرت امیر معاویہt کے گھوڑے کے ناک کی جو مٹی ہے، اس کی شان بھی عمر بن عبدالعزیزؒ
سے زیادہ ہے۔ آپ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں حضرت امیرمعاویہt کی شان زیادہ ہے یا عمر بن عبدالعزیزؒ کی۔ لڑائیاں بھڑائیاں ہم
میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ہم اگر قتل کریں، لڑیں، بھڑیں، پھر بھی جنتی ہیں، صحابہ
کیوں نہیں؟
قرآنِ حکیم کی جو آیت تلاوت کی گئی اس میں
صحابہ کرام کی تعریف یوں کی ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کون؟ اللہ کا رسولﷺ، آگے کچھ نہیں
بیان کیا، اس لئے کہ رسالت سے بڑھ کر اور کوئی منصب ہے ہی نہیں۔ کوئی فضیلت ہے ہی
نہیں، کوئی ایسا مرتبہ نہیں جسے بیان کیا جائے۔ پھر ساتھ والوں کو بیان کیا، وَالَّذِیْنَ
مَعَہٗ جو ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے دو وصف بیان کئے اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ
بَیْنَہُمْ آپس میں بہت رحمدل ہیں۔ رحیم ہیں، کریم ہیں اور کفار پر بہت سخت۔ یہی
صفت چونکہ قوت غضبیہ، قوت ِشہوانیہ ان کے لئے اپنے ہاتھ میں ہے، یہ نہیں کہ ناجائز
طریقے سے اسے استعمال کریں رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ
اور جو قوت ِشہوانیہ ہے، اپنے محل
پر استعمال کرتے ہیں، تجاوز نہیں کرتے۔ اگر یہ عقیدہ ہمارا نہ ہوتا کہ انبیاء علیہم السلام کے بغیر کوئی معصوم
نہیں ہوتا تو ہم یقینا کہہ دیتے کہ محمد رسول اللہﷺ کے صحابی سارے کے سارے معصوم
ہیں۔ پھر فرمایا۔ تَرَاهُمْ
رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا۔ پہلے دو قوتیں بیان
کی ہیں، یہ غیرمحل میں استعمال نہیں کرتے۔ پہلی چیز ان کی یہ بیان کی ہے کہ آپس
میں تعلقات، کفار سے یا ایمان والوں سے ان کے یہ تعلقات ہیں۔ محبت اپنے محل پر
استعمال کرتے ہیں۔ قوت ِغضبیہ کو بھی اپنے محل پر استعمال کرتے ہیں، یہ تو ہیں
معاملات۔ باقی رہ گئی عبادت، سب سے بڑی عبادت ہے نماز، نماز کا ذکر کیا۔ نماز میں
اعلیٰ چیز ہیں رکوع و سجود، پھر ان کا ذکر کیا۔ تَرَاهُمْ
رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا۔دیکھتے ہیں آپ دیکھنے
والے، وہ سجدہ کر تے ہیں اور رکوع کرتے ہیں،ان کا سجدہ اور رکوع مجھے پسند ہے اور
میرے نزدیک مقبول ہے اور محبوب ہے۔ پھر اس پر بھی صبر نہیں ہوا، فرمایا: یہ میرے
آج کے محبوب نہیں بلکہ محبوب ِابدی ہیں۔ میں نے ان کا ذکر تورات، انجیل، زبور اور
سابقہ کتابوں میں بھی کر دیا۔ آج کی بات نہیں،یہ
نہیں کہ میرے محبوب آج سے ہیں، نہیں بلکہ محبوبِ ازلی ہیں۔ جس وقت محمد رسول اللہﷺ
کا وجود تجوید ہوا، دنیا میں پیدا ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہﷺ کے
صحابہ کا بھی بیان کردیا، اور ان کی بھی یہی شان تھی جو قرآن ِکریم میں بیان کر
دی۔ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ جصلے
وَمَثَلُهُمْ فِي الْانْجِيلِجصلے۔ان
کی مثالیں میں نے تورات و انجیل میں بیان کردیں۔ حضرت امیر معاویہt بھی ان میں سے ہیں۔’’
اس طویل خطاب کے اختتام پر آپؒ نے فرمایا:
‘‘خیال رکھنا! بہت بری چیز ہے نیکوں کی دشمنی، صلحاء کی دشمنی، سب
سے پہلا نقصان یہ پہنچاتی ہے کہ ان کے فیض سے، جو کچھ اس نے حاصل کرنا ہے دین، اس
سے محروم ہو جائے گا۔ اس کے بعد دوسرا خاتمہ کا خطرہ ہے۔ مولانا تھانویؒ نے فرمایا
تھا کہ کسی عالم ربانی یا ولی اللہ کی توہین کوئی کفر نہیں، کسی ولی اللہ کی توہین
انسان کرے، اسے گالی دے، مگر مرتے کفر پر ہی ہیں۔ یہ کفر نہیں مگر دیکھا گیا ہے،
مرتے کفر ہی پر ہیں۔ نیکوں کی دشمنی سُوئے خاتمہ کا خطرہ پیدا کر دیتی ہے، اس لئے
بڑا خیال رکھنا، صحابہ کرام کا بہت بڑا پاس ہے
ربّ العٰلمین کو۔ میں مولویوں کو
کہتا ہوں، میاں! صحابہ کرام] کی مدح
کریں۔ ان کے اوصاف بیان کریں۔ ان کے جہادوں کو بیان کریں۔ ان کی قربانی کو بیان
کریں۔ وہ رازدار محمد رسول اللہﷺ کی نبوت کے تھے۔ وہ عین چشم دید گواہ محمد رسول
اللہﷺ کی نبوت کے تھے۔ وہ وحی الٰہی کے چشم دید گواہ تھے۔ اسلام کے چشم دید گواہ
تھے۔ اگر وہ مجروح ہو جائیں، جس مقدمے کے گواہ مجروح ہو جائیں یا جھوٹے ثابت ہوں،
مقدمہ جھوٹا۔ اگر صحابی جھوٹا ہو جائے، محمد رسول اللہﷺ العیاذ بااللہ نبی ثابت
نہیں ہو سکتے۔ اسلام حق ثابت نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ خدا کی توحید بھی ثابت نہیں ہو
سکتی۔ یہ عقیدہ رکھیں۔’’
اکتوبر 1983 میں لنگر مخدوم
کے اجتماع کے موقع پر حضرت جیؒ نے جمعۃ المبارک کا خطاب فرمایا تو یہ درد نمایاں
طور پر دیکھنے میں آیا۔ مدحِ صحابۂ کرام ] کے بعد جب ناقدینِ صحابہ پر گرفت فرمائی تو
آپؒ پر انتہائی جلال کی کیفیت طاری ہو گئی۔ آپؒ کے الفاظ تھے:
‘‘سمجھ لو! صحابہ کا معاملہ بہت دور تک پہنچ چکا۔
سول جج نے، مجسٹریٹ نے فیصلہ کر دیا۔ سیشن
کورٹ سے فیصلہ ہو گیا۔ ہائی کورٹ سے فیصلہ ہو گیا۔ سپریم کورٹ سے فیصلہ ہو گیا۔
سپریم کورٹ، ربّ العٰلمین کا کلام۔
ہائی کورٹ، محمد رسول اللہﷺ کی زبان۔
فیصلہ کر دیا اور وجود ہدایت سے لے کر مثال
نبوت تک صحابۂ کرام] کو پیغمبرﷺ نے فرمایا۔
سمجھ لو! صحابۂ کرام زبان ہیں، محمد رسول
اللہﷺ کے بازو ہیں۔بڑے سے بڑا عالم ہو، بڑے سے بڑا فاضل ہو، کچھ بھی ہو لیکن اس کی
زبان کاٹ دو، اس کے بازو کاٹ دو، اس کا علم سب ضائع ہو جائے گا۔
آج ایک شخص اٹھتا! بازار میں بیٹھ جاتا!آپ ہی مدعی ٔ
اِستغاثہ، آپ ہی وکیلِ استغاثہ بن جاتا!
صحابہ کا مقدمہ پیش ہو جاتا، وہ ملزم ہیں!
ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد چوہڑا
چمار اٹھ کر بازار میں کرسی لگالے!
استغاثہ کا وکیل بھی آپ! مدعی بھی آپ!
شہادتیں
کون سی پیش ہوئی ہیں؟ واقدی، ابو مخنہ،
نون بن یحییٰ!تینوں رافضی۔
یہ گواہ پیش ہوتے
ہیں، سبحان اللہ! فیصلہ کر رہا ہے، چوہڑا چمار!
جہاں
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو چکا، ہائی کورٹ کا فیصلہ ہو چکا۔
آج تُو
از سر نو مقدمہ لے بیٹھا ہے!
یہ
خیال رکھنا، سوادِ اعظم کی اتباع نہیں چھوڑنی ۔
قرآن
نے بتایا، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا
عَنْہ۔
مقدمہ
کا فیصلہ ہو چکا ہے! رضا مندی کا اعلان ہو
چکا ہے!
آج اٹھ
کر چوکیدار مقدمہ قائم کرے؟
ابوبکرؓ،
عثمانؓ، سیدنا امیر معاویہؓ ملزم؟’’
فرائض منصبی کی
بجا آوری پر انعام عطا کرنا مالک پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جیؒ کو جو مناصب جلیلہ اور مقامات عالیہ عطا فرمائے،
وہ ایک ایسا انعام ہے جس سے یہ باور کرنا مشکل نہ ہوگا کہ آپؒ نے کس قدر احسن طریقے سے فرائض منصبی کی
بجا آوری کا حق ادا کیا۔اس دوران آپؒ کی شبانہ روز محنت، مسلسل تڑپ اور جنون کی حد
تک کارِ منصبی سے لگاؤ کی شہادت تو مصحف ِ
شب و روز میں رقم ہو چکی، ان اوراق میں اس
کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آرزو ہے کہ حضرت جیؒ کے مناظرانہ دور کے
چند واقعات، جووقت کے دُھندلکوں میں اوجھل ہو چکے تھے، حوالۂ تاریخ کرنے کی نسبت سے گواہوں میں شمار ہو جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔