ANTI-ADBLOCK JS SYNC خشت ِ اوّل ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

خشت ِ اوّل

خشت ِ اوّل

            زمیندار ہونے کی حیثیت سے حضرت جؒی معاشی طور پر خود کفیل تھے۔ آپؒ نے علمی اور دینی خدمات کو کبھی ذریعۂ معاش نہ بنایا۔ آپؒ کی بے لوث دینی خدمات اور دیانت و صداقت کو دیکھتے ہوئے لوگ آپؒ پر اعتماد کرتے اور اکثر اپنے ذاتی مسائل میں رہنمائی کے خواستگار ہوتے۔ چکڑالہ اور اس کے گردونواح کے اکھڑ دیہاتی مسلمان اگرچہ عملی طور پر دین سے دور تھے لیکن شرعی مسائل، بالخصوص نکاح اور طلاق کے معاملات میں انہیں ایک ایسے منصف کی ضرورت تھی جو نہ صرف شریعت کے علم پر عبور رکھتا ہو بلکہ بلاکم وکاست ا ور بغیر کسی رعایت وطرفداری کے جرأتمندانہ فیصلے بھی کر سکے۔ حضرت جؒی بطور ایک جیّد عالم علاقہ بھر میں متعارف ہوئے تو اس کے ساتھ ساتھ آپؒ کو ایک ایسی غیر متنازعہ عدالت کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی جس کے فیصلے واجب الاحترام اور نفاذ کے لئے کسی قوت ِنافذہ کے محتاج نہ تھے۔
               قیا مِ پاکستان سے کچھ عرصہ قبل طلاق کے ایک مقدمے کی سماعت کے لئے حضرت جؒی کو میال (تلہ گنگ میانوالی روڈ) کے علاقہ میں جانا پڑا۔ یہاں لڑکی سے تنہائی میں پوچھ گچھ کی ضرورت پیش آئی تاکہ وہ خاندان کے اثر سے آزاد ہو کر اپنی مرضی سے بیان دے سکے۔ حضرت جؒی نے اکیلے میں خود یہ بیان لینے کی بجائے اپنے ساتھ ایک متقی بزرگ کی موجودگی کو ضروری خیال فرمایا تو یہ ذمہ داری میال اڈہ کی نواحی ڈھوک لیٹی کے   قاضی ثناء اللہؒ کے سپرد ہوئی۔ حضرت جؒی کی عمر اس وقت چالیس برس سے زائد تھی اور داڑھی میں ایک بال بھی سفید نہ تھا جب کہ قاضی جؒی کی داڑھی میں ایک بال بھی سیاہ نہ تھا۔ یہ غالباً اوائل 1946ء کا زمانہ تھا۔
            قاضی جؒی زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے، تین صد رکعت نوافل روزانہ کا معمول تھا جس پر زندگی بھر کاربند رہے۔ اپنی زمین میں فصل خود کاشت کرتے، بکریاں خود چراتے تاکہ غیر کی فصل سے ایک تنکا بھی نہ کھائیں۔ ان بکریوں کے دودھ اور خود کاشت فصل کے اناج پر گزارا تھا۔ انتہائی عسرت کے باوجود دو حج کئے ۔ 1944ء کے حج میں ڈھلی کے ہیڈ ماسٹرمحمد خانؒ شریک سفر تھے ۔ ان کی روایت کے مطابق،قاضی جؒی نے پورے سفر میں بحری جہاز کے عملے کے ہاتھوں کا پکا ہوا کھانا نہ کھایا بلکہ صرف پانی اور گھر کے توشہ پر گزارا کیا کیونکہ عملہ کے اکثر لوگ بے نمازی تھے۔
            قاضی ثناء اللہؒ ایک عرصے سے حضرت جؒی کے علمی مرتبہ کے معترف اور زورِ خطابت کے مداح تھے۔ جہاں کہیں آپؒ کے جلسے کی اطلاع پاتے، میلوں پیدل سفر کرتے ہوئے آپؒ کا خطاب سننے پہنچ جاتے۔ دیگر عقیدت مندوں کی طرح قاضی جؒی بھی اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان جلسوں کے روحِ رواں اور مسند ِ عدالت پر فائز اس منصف کی خلوتیں کیونکر بسر ہوتی ہیں۔ اس حالت میں کہ ‘‘ایک میں ہوں، ایک میرا ربّ ہو اور درمیان میں کوئی دوجا حائل نہ ہو یا پھر مراقبۂ فنا فی الرسولﷺ میں درِاقدس کی چوکھٹ پر رات بسر ہو جاتی۔’’
            مقدمہ ختم ہوا تو حضرت جؒی نے واپسی کی راہ لی۔ آپؒ گھوڑے پر سوار تھے جب کہ عمائدینِ بستی کچھ دور تک پیدل ساتھ آئے جن میں قاضی جؒی بھی شامل تھے۔ اس دوران گھوڑے کی رکاب تھام کر حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کیا:
‘‘مولوی جی!دندہ والے شاہ صاحب سے لطائف سیکھتا تھا۔ شیخ فوت ہو گئے تو اب کوئی بندہ نہیں ملتا جو آگے سبق دے۔’’
اس پیرانہ سالی میں طلب کا یہ حال دیکھا تو حضرت جؒی کی زبان سے نکل گیا:
‘‘ اگر وہ بندہ میں ہی بن جاؤں تو!’’
            قاضی جؒی کچھ دیر کے لئے تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے۔ یہ جواں سال مولوی صاحب اور مناظر جو وضع قطع سے میانوالی کے دبنگ زمیندار تو نظر آتے تھے لیکن کہاں اللہ اللہ کرانے والے بوریانشین اور کہاں لوگوں کے مقدمات نپٹانے والے عوامی عدالتوں کے یہ منصف! قاضی جؒی نے سوچا، غرض آم کھانے سے ہے، وضع قطع سے کیا غرض! موقع ملا تو چند روز بعد چکڑالہ حاضرِخدمت ہوئے۔
            قاضی جؒی دندہ شاہ بلاول میں سیّد محمد شاہؒ سے بیعت تھے۔ سال بعد جاتے تو پہلے لطیفہ پر ہی ایک سال مزید محنت کا حکم ملتا۔ اس طرح لطیفۂ قلب کرنے میں بائیس سال صَرف ہوئے۔ اب وہ حضر ت جؒی کی خدمت میں پہنچے تو ایک ہی صحبت میں ان کے ساتوں لطائف جاری ہو گئے۔ آپؒ نے قاضی جؒی کو ایک سال تک ساتوں لطائف پر محنت کے بعد دوبارہ چکڑالہ آنے کی ہدایت فرمائی۔ سال گزرنے کے بعد اوائل 1947ء میں حضرت جؒی کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے تو آپؒ نے دریافت کیا:
‘‘قاضی جی، وہ سبق یاد بھی ہے یا بھول گئے ہیں؟’’
            یہاں شاگرد کا یہ حال تھا کہ سال بھر حضرت جؒی کا دیا ہوا سبق وردِجاں بنا رکھا تھا۔ آپؒ نے اک نگاہ ڈالی تو ان کے ساتوں لطائف کو خوب روشن پایا۔ ادھر زمین تیار تھی اور حضرت جؒی کے ہاں بھی کمال کی فیاضی، ایک ہی صحبت میں مراقباتِ ثلاثہ طے کرادیئے۔ چند روزہ تربیت سے بیت اللہ اور روضۂ اطہر کے مراقبات کے بعد قاضی جؒی کو مجلسِ نبویﷺ کی حاضری بھی نصیب ہوئی۔
اللہ اللہ! کہاں بیسویں صدی کا الحادی دور، کہاں زمانی ومکانی فاصلے اور کہاں عالمِ آب وگل میں ہوتے ہوئے برزخ میں درِمصطفیٰﷺ پر حاضری!
            قاضی جؒی دیدۂ بینا رکھتے تھے ۔ روح کو احدیت، معیت اور اقربیت کی منازل طے کرتے ہوئے دیکھا اور جب ان کے لئے درِرحمتﷺ وا ہوا تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ سو سالہ یہ بزرگ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔
            اس کرم کا واسطہ کون بنا؟ بظاہر ایک دبنگ زمیندار جس نے ہاتھ تھاما تو حجابات حائل رہے نہ ذاتی کمزوریاں رکاوٹ بنیں۔ یہ کیسی ہستی ہے جس کا پروانہ اس دربارِ عالی میں حاضری کا اجازت نامہ قرار پایا۔ یہ کیسی پذیرائی ہے کہ ادھرحضرت جؒی نے کہا آگے بڑھو اور ساتھ ہی دامنِ مصطفیٰﷺ میں جگہ مل گئی، اور کن لوگوں کو؟ ہم جیسے گنہگار، بدکار اور عصیاں میں ڈوبے ہوئے ، جو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
            اس ہستی کا مقام کیاہو گا جو اس عطا کا باعث بنی، جس نے عاصیوں کے نصیب سنوارے۔ جو بھٹکے ہوئے تھے انہیں راستے پہ ڈالا، انگلی پکڑ کر چلایا اور سلسلۂ عالیہ کی صورت میں ایک ایسی جائے سکوں عطا فرمائی جہاں ایمان و یقین کو تحفظ ملا۔ یہ جائے سکوں، سلسلۂ عالیہ کی یہ عمارت جسے حضرت جؒی نے پھر سے استوار کیا،    قاضی جؒی اس کی خشت ِاوّل تھے۔
            قاضی جؒی کے معمولات ماضی کے اہل اللہ سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔ کثرتِ نوافل، ذکرواذکار، ورع وتقویٰ، ریاضت ومجاہدہ، ان سب میں قاضی جؒی کے ہاں قرونِ اولیٰ کے اولیائے کرام کی جھلک نظر آتی ۔ قاضی جؒی کا زادِ راہ ایک جائے نماز، قرآنِ حکیم اور کتب ِوظائف کے لئے کپڑے کا بستہ نما ایک تھیلا اور سلور کا ایک لوٹا جس کے اوپر ٹین کا ڈھکن ڈوری سے بندھا ہوتا۔ نوافل اور تلاوت کا سلسلہ جاری رہتا۔ کچھ دیر کے لیے پیوند شدہ جائے نماز پر لیٹ جاتے لیکن جلد ہی اٹھ بیٹھتے، وضو کرتے اوردوبارہ معمولات شروع کر دیتے۔ ایک مرتبہ احباب کے دریافت کرنے پر بتایا:
‘‘نفل تین صدپڑھ لیتا ہوں لیکن گنتی نہیں کرتا۔ ایک دفعہ گنتی کر رہا تھا کہ آواز آئی، تمہیں نعمتیں گن کر دی ہیں جو نوافل گن رہے ہو! اب نہیں گنتا۔’’
            ایک مرتبہ ساتھیوں کے سوال پر کہ نوافل کی گنتی کس طرح کرتے ہیں، قاضی جؒی نے بہت اصرار کے بعد بالآخر جواب دیا:
‘‘جائے نماز بتا دیتا ہے۔’’
          اس مجاہد ے کے ساتھ حضرت جؒی کی توجہ نصیب ہوئی تو انتہائی سرعت سے مناز لِ سلوک طے ہونے لگیں۔
حضرت جؒی نے قاضی جؒی کے روحانی سفر کا ذکر اپنے ایک مکتوب میں فرمایا ہے۔ آپؒ کے الفاظ میں:
‘‘قاضی جی نے اپنی حالت بیان کی کہ میں ایک کشتی میں سفر کرتا ہوں۔ ایک سبز رنگ کا پرندہ کشتی سے آگے اڑتا ہے اور بولتا جاتا ہے، میں کشتی میں اس کے پیچھے چلا جاتا ہوں۔ پھر ایک مدت کے بعد پانچ نہریں نظر آتی ہیں۔ میں حیران تھا کہ کس نہر میں چلوں۔’’
میں(حضرت جؒی) نے رہنمائی کی:
‘‘آپ دائرۂ حقیقت صلوٰة میں چل رہے ہیں۔ پانچ نہریں، وہ اوقاتِ نماز ہیں۔ آپ جس میں بندہ کو دیکھیں اس میں چلنا، باقی جس میں چلیں اس میں کوئی حرج نہیں۔’’
            قاضی جؒی کو ایک مرتبہ حضر ت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ قاضی جؒی نے بارہا اس واقعہ کا تذکرہ کیا جو ایک مرتبہ کیسٹ کی صورت ریکارڈ بھی ہوگیا۔ قاضی جؒی نے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کو حالت ِ مراقبہ میں پایا تووہ بھی ان کے ساتھ مراقب ہو گئے۔ حضرت لاہوریؒ بہت قوی مشاہدات رکھتے تھے، قاضی جؒی کو ساتھ دیکھا تو ان کی عمر اور وضع قطع سے سمجھے کہ وہ برزخ کے کوئی بزرگ ہیں جو روحانی پرواز میں شامل ہو گئے ہیں۔ مولانا لاہوریؒ منازل سلوک طے کرتے ہوئے اپنے مقام تک پہنچے تو وہاں رک گئے۔ قاضی جؒی نے کہا، آگے چلیں تو فرمایا، میرے شیخ نے یہیں تک پہنچایا ہے۔ قاضی جؒی نے اللہ ھُو کی ضرب لگائی اور آگے نکل گئے۔ مراقبات ختم ہوئے تو مولانا لاہوریؒ نے قاضی جؒی کو مسجد کے ایک کونے میں موجود پایا۔ ان سے حال احوال پوچھا۔ شیخ کے متعلق بات ہوئی تو قاضی جؒی نے حضرت جؒی کا ذکر کیا۔ انہوں نے دریافت کیا، یہاں کیسے آئے ہو تو قاضی جؒی نے جواب دیا، آنکھوں کا علاج کرانے آیا ہوں۔ مولانا فرمانے لگے، آپ کو بھی آنکھوں کا علاج کرانے کی ضرورت ہے! اس کے بعد انہوں نے ایک روپیہ کا چاندی کا سکہ نکالا اور قاضی جؒی کی ہتھیلی پر رکھ کر مٹھی بند کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘میری طرف سے قبول فرمائیں۔’’
             مولانا لاہوریؒ کی رحلت کے بعد ایک مرتبہ حضرت جؒی لاہور میں قبرستان میانی صاحب کے پاس سے گزرے تو محسوس ہواکہ اہل ِ قبور میں سے ایک صاحب توجہ فرمانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ رابطہ قائم کرنے پر معلوم ہوا کہ مولانا احمد علی لاہوریؒ ہیں۔ حضرت جؒی نے فرمایا، آپ تو میرے متعلق جان چکے تھے،      صاحب ِ بصیرت بھی تھے، پھر رابطہ کیوں نہ کیا!
            قاضی جؒی کی سادہ اور قلیل خوراک کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے، حضرت جؒی انہیں فرمایاکرتے:
‘‘قاضی جی!نفس کا بھی حق ہے۔ قیامت کے روز یہ آپ کے خلاف مدعی ہو گا۔’’
            حضرت جؒی کے فرمانے پر کبھی کبھار کسی پھل کی ایک آدھ قاش کھا لیتے لیکن کچھ دیر بعد نفس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے:
‘‘لالو!( قاضی جؒی نے یہ اپنے نفس کا نام رکھا ہوا تھا) ابھی تو خوش ہو جاؤ لیکن آج پوری رات نوافل پڑھنا ہوں گے۔’’
            قاضی جؒی کے اندازِ گفتگو میں سادگی اور معصومیت کے پیرایہ میں کبھی شگفتہ مزاجی کی جھلک بھی نمایاں ہوتی۔ قاضی جؒی کو ایک آنریری کپتان کی فوتیدگی کی اطلاع ملی جو حج کے موقع پر ان کا شریکِ سفر تھا۔ قاضی جؒی کا فرمانا ہے کہ ابھی لفافہ کھولا بھی نہ تھا کہ تپش کا احساس ہونے لگا۔ تعزیت کے لئے گئے تو پسماندگان کے اصرار پر قبرستان بھی جانا پڑا۔ اس نئے آباد قبرستان میں چند ہی قبریں تھیں لیکن سبھی معذّب۔ قاضی جؒی کی زبان سے بے ساختہ نکلا ، یہاں تو سارے کپتان ہی نظر آتے ہیں۔
            قاضی جؒی ذکر کے لئے بیٹھتے تو احباب کو اکثر ہدایت کرتے:
‘‘ذکر شروع کرتے ہو تو بغیر منازل کی طلب، بغیر کشف کی طلب، بغیر بڑا بننے کی طلب، بغیر پیر بننے کی طلب، صرف اللہ کی رضا کے لئے کرو۔’’
            ذکر سے پہلے تصحیح ِ نیت ضروری ہوتی ہے۔ کئی احباب اسی طرح کی خواہشات لے کر ذکر میں شریک ہوتے ہیں اور جب کچھ حاصل نہیں ہوتا توالٹا ذکر اور سلسلۂ عالیہ پر الزام دھرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پہلے اپنی قلبی حالت کا جائزہ تو لے لیا کریں، قلب اللہ کی رضا کا طالب ہے یا اپنی بڑائی اور بزرگی کا سکہ جمانا چاہتا ہے؟
            قاضی جؒی ذکر کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے:
‘‘جب ذکر شروع کرتے ہیں اور لفظ اللہ دل سے اٹھاتے ہیں تو اللہ کی الف میں اتنے انوارات ہوتے ہیں کہ ساری کائنات ان سے بھر جاتی ہے۔ انوارات کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی تو پکار اٹھتی ہے، اللہ، اللہ! اور ہر چیز سے خشوع و خضوع ٹپک رہا ہوتا ہے۔’’
            ذکر کے دوران بعض اوقات ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ زبان سے بے اختیار اللہ ،اللہ نکل جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر شیخ کی طرف سے یہی ہدایت ملتی ہے کہ زبان بند رکھیں اور انوارات کو جذب کریں۔ اس سے قلب ِ انسانی کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ کی توجہ سے گھنٹوں ذکر کے دوران انوارات جذب کرتا ہے، جب کہ کائنات کی حالت یہ ہے کہ کسی اللہ والے کی پہلی ضرب کے ساتھ ہی ہر چیز اللہ اللہ پکار اٹھتی ہے ا ور انوارات کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ط
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب) تُو اس کو دیکھتا کہ اللہ کے خوف سے دب جاتا (اور) پھٹ جاتا۔ (الحشر۔ 21)
            انوارات و تجلیات، خواہ کلامِ الٰہی کی صورت ہوں یا ذکرِ الٰہی کی صورت، انہیں برداشت کرنا سوائے توفیق ِ باری تعالیٰ ممکن نہیں۔ پوری کائنات میں یہ قلب ِ مومن ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس قدر وسعت عطا فرما دی ہے کہ وہ نہ صرف انوارات کو جذب کرتا ہے بلکہ ان کے انعکاس کا واسطہ بن جاتا ہے۔ منازلِ بالا طے کرتے ہوئے قاضی جؒی حالت سکر میں پکار اٹھتے:
‘‘ایہہ اوہ سمندراے جس وچ انبیاء و رسل وتنے (پھرتے) رہے۔’’
پھر اپنے بارے میں کہنے لگے:
‘‘کتیاں بلیاں نی کیہڑی جاوے( تو کتوں اور بلیوں کی کون سی جگہ ہے) ایہہ سلوک ختم نہیں ہونا (یہ سلوک ختم نہیں ہوتا)۔’’
            قاضی جؒی کی ڈھوک لیٹی کے اطراف و اکناف کے ڈیروں سے لوگ بارہا اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل لئے دعا کے لئے حاضر ہوتے۔ ایک مرتبہ ایک شخص قاضی جؒی کے پاس گائے کو دم کرانے آیا اور شکایت کی کہ دودھ دوہتے ہوئے ٹانگیں بہت مارتی ہے۔ قاضی جؒی گائے کے پاس گئے، اس کے کان میں کچھ کہا اور فوراً الٹے پاؤں واپس بھاگے۔ قاضی جؒی سے پوچھا گیا تو وضاحت کی:
‘‘میں نے گائے سے کہا تھا کہ مالک تیرا کس قدر خیال رکھتا ہے، تجھے چارہ کھلاتا ہے، تیری خدمت کرتا ہے اور تو اس کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہے؟ اچانک خیال آیا کہ وہ یہی سوال مجھ سے نہ کر بیٹھے، اس لئے الٹے پاؤں واپس بھاگا۔’’
            ایک ساتھی نے قاضی جؒی سے دعا کے لئے کہا۔ دعا کے بعد انہوں نے اس ساتھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
‘‘آپ کی بڑی مہربانی جو مجھے دعا کے لئے کہا اور اللہ تعالیٰ سے میرا تعلق جوڑنے کا ذریعہ بنے۔’’
            قاضی جؒی تیز قوتِ مشاہدہ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے مسواک پیش کی تو اسے استعمال نہ کیاکیونکہ وہ خود رو درخت کی بجائے کسی شخص کے ملکیتی درخت سے کاٹی گئی تھی۔ اس تیز قوتِ مشاہدہ سے متأثر ایک غیرملکی نے کہا:
''He is a very dangerous man. You cannot hide yourself from him. ''
(یہ بہت خطرناک ہیں۔ آپ ان سے خود کو چھپا نہیں سکتے۔)
            حضرت جؒی کے سامنے ایک شخص نے اپنا خواب بیان کیا کہ وہ دریا میں ڈوبا ہوا جا رہا ہے ا ور صرف اس کے بازو پانی سے باہر ہیں۔ حضرت جؒی نے قاضی جؒی کو بلا کر فرمایا کہ اس خوا ب کی تعبیر حضرت ابن سیرینؒ سے پوچھ کر بتائیں۔ قاضی جؒی نے عرض کیا، حضرت!کچھ سمجھ نہیں آتا وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘ان سے کہو میں پنجابی ڈَھگا (بیل) ہوں مجھے پنجابی میں بتائیں۔’’
            فوراً بولے، حضرت! سمجھ آ گئی۔ یہ شخص مرنے کے بعد شہرت پائے گا۔
            ایک اجتماع کے دوران ذکر شروع ہو چکا تھا لیکن بعض احباب پیچھے رہ گئے تھے۔ حضر ت جؒی نے ہدایت فرمائی کہ ذکر میں جلدی شامل ہوں۔ قاضی جؒی بھی کہیں پاس ہی وضو کر رہے تھے۔ آپؒ کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی تو اسی حالت میں لوٹے کو چھوڑا ا ور بغیر وضو کئے، بھاگتے ہوئے ذکر میں شامل ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر 125سال سے کم نہ ہو گی لیکن حضر ت جؒی کے حکم کی بجا آوری میں، جو اگرچہ ان کے لئے نہ تھا، قاضی جؒی کا دوڑتے ہوئے ذکر میں شامل ہونے کا منظر قابل ِ دید تھا۔
            شیطان نے بھی قاضی جؒی کا احترام کیا۔ ایک مرتبہ قاضی جؒی نے شیطان سے مکالمہ شروع کر دیا:
‘‘او مردودا! توبہ کیوں نہیں کرتا؟ توبہ کر لو اللہ تعالیٰ کی ذات تو بڑی ہی کریم ہے۔’’
شیطان نے جواب دیا:
‘‘قاضی جی! میں تو ازل کا مردود ہوں، توبہ کس طرح کروں؟’’
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت جؒی فرمایاکرتے:
‘‘شیطان نے بھی ‘قاضی جی’  کہہ کر ان کا احترام کیا۔’’
            قاضی جؒی نے اپنی زمین میں ایک قبر تیار کر رکھی تھی جہاں پہروں ذکروفکر میں مشغول رہتے۔ ان کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد وہ اسی قبر میں دفن ہوں لیکن 1970ء میں جب اہلیہ کی وفات ہوئی تو یہ قبر اسے نصیب ہوئی۔ حضرت جؒی احباب کے ہمراہ لیٹی تشریف لے گئے اور دو روز تک وہیں قیام فرمایا۔قاضی جؒی کو تشفی دیتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
‘‘الْحَمْدُ لِلّٰه، آپ کی آزمائش ختم ہوئی۔آپ نے شب و روز بہت خدمت کی تھی۔’’
قاضی جؒی نے روتے ہوئے عرض کیا:
‘‘حضرت! بیوی اپاہج تھی۔ رات بھر جاگتا، اس کی خدمت بھی کرتا اور اللہ تعالیٰ کی تسبیحات کا بھی موقع مل جاتا۔ پچیس سال تک یہی معمول رہا لیکن اب شاید راتوں کو اس طرح اٹھ کر اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کر سکوں۔’’
            لیکن اس کے بعد بھی قاضی جؒی کے مجاہدوں میں کوئی کمی نہ آئی۔
            قاضی جؒی اگرچہ انتہائی عسرت کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن احباب کی آمد پر ان کی مہمان نواز ی کا سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا۔ کئی مرتبہ اہل ِ خانہ کے ہمراہ ان کے گھر حاضری دی اور دھواں اگلتے ہوئے چولہے کے سامنے ان کے ساتھ بیٹھ کر مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ یہ دعو ت کیا ہوتی!تنور کی روٹی، بکری کا دودھ اور اس میں دیسی شکر۔ ایک بار گھر میں دودھ نہیں تھا تو ایک پوتی یا شاید پڑپوتی کو آواز دی جو قریب ہی بکریاں چرا رہی تھی۔ اس نے قاضی جؒی سے برتن لیا اور ایک بکری کا دودھ دوہنے کے بعد ان کو پیش کیا جس سے ہمارے لئے چائے تیار ہوئی۔
            قاضی جؒی کی عظمت کے تمام پہلو اپنی جگہ، لیکن ان کے لئے حضرت جؒی کے الفاظ سے بڑھ کر اور کوئی اعزاز نہیں ہو سکتا۔ آپؒ نے متعدد بار فرمایا:
‘‘اگر روزِ حشر اللہ کریم نے مجھ سے پوچھا، کیا لائے ہو تو میں اس کے حضور قاضی جی کو پیش کر دوں گا۔’’
            حضرت جؒی کی ایک محفل میں قاضی جؒی مراقب بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت امیر المکرم بھی اس موقعہ پر موجود تھے۔ آپؒ نے حضرت امیر المکرم سے فرمایا:
‘‘قاضی جی کی منازل کا خیال کرو، وہ ہر وقت اپنے ہی اسباق میں گم رہتے ہیں۔’’
حضرت امیر المکرم نے عرض کیا:
‘‘قاضی جی چھڑی پکڑے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ اپنے سبق سے دھیان نہیں ہٹاتے۔ قرونِ اُولیٰ کے حضرات کی مثال ہیں۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘ساری جماعت ایک طرف اور قاضی جی ایک طرف، پھر بھی ان کا پلڑا بھاری ہوگا۔’’
             قاضی جؒی کو سلسلۂ عالیہ کی ترویجِ نو میں خشتِ اول کی حیثیت حاصل ہے۔ حضر ت جؒی ان کے ہاں لیٹی تشریف لے جاتے، کئی مرتبہ قیام بھی فرمایا اور آبادی سے دور اس مقام پر اللہ اللہ کرنے کی خاطر ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر کرائی۔ قاضی جؒی کو اللہ تعالیٰ نے بلند منازل عطا فرمائیں لیکن ان سب خصوصیات کے باوجود حضرت جؒی نے ترویج ِسلسلہ کی ذمہ داری کبھی ان کے سپرد کی نہ انہیں صاحبِ مجاز بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قاضی جؒی اکثر اپنے روحانی اسباق میں گم رہتے جس کی وجہ سے احباب کی تربیت ممکن نہ تھی۔
            حضرت جؒی نے قاضی جؒی کی حالت کے بارے میں فرمایا:
‘‘یہ شخص پڑھا لکھا ہوتا تو میرے ساتھ چلتا۔ بس انوارات میں ڈوبے رہتے ہیں، منازل پرچلتے ہیں لیکن منصب کے اہل نہیں۔’’
            یہی وجہ ہے کہ مجاذیب یا وہ اہل اللہ جو اکثر حالت ِسُکر میں رہتے ہیں، ان سے مخلوقِ خدا کی تربیت کا کام نہیں لیاجاتا اور بلندیٔ منازل کے باوجود انہیں منصب عطا نہیں کئے جاتے جو دراصل باطنی نظام کے مختلف عہدے اور ذمہ داریاں ہیں۔
            ایک مرتبہ حضرت جؒی انتظامی امور کے متعلق حضرت امیر المکرم کو ہدایات دے رہے تھے جبکہ قاضی جؒی قریب ہی بیٹھے مراقبات میں گم تھے۔ حضرت جؒی نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
‘‘قاضی جی، جماعت کی یہ ذمہ داریاں آپ پر نہ ڈال دیں!’’
قاضی جؒی نے عرض کیا:
‘‘اونٹوں کا بوجھ اونٹ ہی اٹھا سکتے ہیں،اسے مرغوں پر نہ ڈالیں۔’’
            حالت ِ جذب میں قاضی جؒی کے مشاہدات اکثر ان کی اپنی کیفیات سے متأثر ہوتے۔ ایک مرتبہ حضرت جؒی نے مٹی کی ایک ڈھیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قاضی جؒی کو اس طرف متوجہ فرمایا تو قاضی جؒی نے عرض کیا:
‘‘حضرت! بہت تیز انوارات ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے کسی خاص ولی کا مرقد ہے۔’’
 حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘قاضی جی، وہاں تو کچھ بھی نہیں۔ آپ کو اپنی توجہ سے وہ جگہ منو ّر نظر آتی ہے۔’’
            ایک مرتبہ ایک فوجی افسر نے قاضی جؒی کو بتایا کہ جہاں ان کا کیمپ ہے اس علاقے میں سانپ وغیرہ کی کثرت ہے، کوئی وظیفہ بتائیں۔ قاضی جؒی کے بتائے ہوئے وظیفہ پر عمل شروع کیا تو اگلی صبح خیمے کے چاروں طرف حفاظتی کھائی میں سانپ، بچھو اور کئی دوسرے حشرات الارض جمع دیکھے۔ یہی ماجر١ بار بار پیش آیا تو وظیفہ چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت جؒی کی خدمت یہ واقعہ عرض کیا تو آپؒ متبسم ہوئے اور فرمایا:
‘‘تو بھی سادہ تے قاضی جی بھی سادہ۔ قاضی جی نے جو وظیفہ بتایا تھا اس سے کشتیٔ نوح والی صورت پیدا ہو گئی یعنی حشرات الارض اکٹھے تو ہو گئے لیکن سلامتی کے ساتھ، وہ ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچاتے تھے۔ سانپوں سے وعدہ کرتے ہو کہ تمہیں امن اور سلامتی ملے گی اور جب وہ سلامتی کی امید پر آتے ہیں تو تم انہیں مار دیتے ہو۔ قاضی جی سے وظیفے پوچھو گے تو یہی حال ہو گا۔’’
قاضی جؒی ایک مرتبہ سیرِکعبہ کے مراقبہ کے دوران حالتِ سُکرمیں اللہ تعالیٰ سے کہنے لگے:
‘‘میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ! میں تجھ سے راضی ہوں۔ تو نے بہت فضل کیا، بڑی عمر دی، اپنا نام لینے کی توفیق دی لیکن ایک عرض ہے۔ جس طرح میں تجھ سے راضی ہو گیا،  ہنج ہی بار میرے تھیں راضی تھی ونجیں(اسی طرح تو بھی مجھ سے راضی ہو جا)۔’’
پھر کہا:
‘‘میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ ساری مخلوق جو تونے بنائی ہے، اس میں سب سے بری چیز میرا نفس ہے۔’’
            حضرت جؒی کے وصال کے بعد ایک مرتبہ قاضی جؒی راقم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے حالت استغراق میں تھے۔ اچانک گویا ہوئے:
‘‘ کائنات کو اپنی پوری وسعت کے ساتھ میرے سامنے منکشف کردیا گیا۔ اچانک یہ سمٹنے لگی اور پھر سمٹتے سمٹتے رائی کے ایک دانے کے برابر ہو گئی جسے میں اپنی ہتھیلی پر دیکھ رہا تھا۔’’
پھر فرمایا گیا:
‘‘تو نے جو کچھ دیکھا ہے میرے علم کے سامنے اس کی رائی کے برابر بھی حیثیت نہیں۔’’
            حضرت جؒی سے قاضی جؒی کا رابطہ کب ہوا؟ اس کے متعلق مختلف روایات ہیں لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ قیامِ پاکستان سے کچھ ہی عرصہ قبل کا واقعہ ہے۔ حاجی محمد خانؒ کی روایت کے مطابق جب وہ 1944ء کے حج میں قاضی جؒی کے شریکِ سفر تھے، اس وقت قاضی جؒی کا حضرت جؒی سے رابطہ نہ ہوا تھا۔ وہ حضرت جؒی سے 1947ء سے کچھ عرصہ قبل وابستہ ہوئے۔ حضرت جؒی کی 1978ء کی ریکارڈ شدہ گفتگو سے اس کی توثیق بھی ہوتی ہے جس میں آپؒ نے فرمایا:
‘‘حضرت صاحب(حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنی) دی جا تے قاضی ہوراں پیش کیتا۔ دو ساتھی ہور پیش کیتے، ابتداء دی گل اے، تبدیلی ملک دوران....’’
          اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ 1945ء میں حضرت جؒی کے صاحبِ مجاز بننے کے بعد 1947ء میں قاضی جؒی کو آپؒ کا پہلا براہِ راست شاگرد بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کے بعد ڈھلی کے حاجی محمد خانؒ 1950ء میں آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس ضمن میں وہ روایات جن میں حضرت جؒی سے قاضی جؒی کی پہلی ملاقات کا زمانہ 1952ء بتایا جاتا ہے، درست نہیں۔
حاجی محمد خان :
            حاجی محمد خانؒ کی حضرت جؒی سے پہلی ملاقات کا پس منظربھی قاضی جؒی سے بہت حد تک مماثلت رکھتا ہے۔حضرت جؒی ایک شرعی مقدمہ کے فیصلے کیلئے ڈھلی تشریف لائے جو تلہ گنگ میانوالی روڈ پر ایک قصبہ ہے۔ حاجی محمد خانؒ کا یہاں کے عمائدین میں شمار ہوتا تھا ۔ وہ نہ صرف مقدمہ میں حضرت جؒی کے مشیر تھے بلکہ تین روز تک انہیں حضرت جؒی کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت جؒی نے جس طرح اس پیچیدہ شرعی مسئلہ کو حل کیا اور مقدمے کا فیصلہ فرمایا، اس سے حاجی محمد خانؒ بہت متأثر ہوئے۔حضرت جؒی رخصت ہونے لگے تو انہوں نے عرض کیا:
‘‘مولوی صاحب آپ پرانے آدمی(جہاندیدہ) ہیں۔ تزکیۂ نفس کا کوئی حیلہ بتائیں۔ کسی ایسے بندے کا پتہ دیں جو تزکیہ کر سکے۔’’
حضرت جؒی نے حاجی محمد خانؒ کو بھی وہی جواب دیا جو انہوں نے قاضی جؒی کو دیا تھا۔ فرمایا:
‘‘میں بندہ بن جاتا ہوں۔ واپس جا کر خط لکھوں گا، اس پر عمل کریں۔’’
          مہینہ بعد حضرت جؒی کا خط ملا جس میں آپؒ نے لکھا تھا کہ قاضی ثنا ء اللہؒ کی ڈھوک لیٹی میں مسجد بناؤں گا تو وہاں پہنچیں۔ کچھ عرصہ بعد مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو حاجی محمد خانؒ نے حضرت جؒی کے ساتھ لیٹی میں ایک ہفتہ قیام کیا۔ پھر سکول میں تعطیلات ہوئیں تو آپؒ نے دو ہفتے کے لئے انہیں چکڑالہ بلایا جہاں صبح شام حضرت جؒی کے ساتھ ذکر نصیب ہوا۔
            حاجی محمد خانؒ پر حضرت جؒی کی خصوصی شفقت تھی۔ ایک مرتبہ آپؒ کو ان کی علالت کاپتہ چلا تو خیریت معلوم کرنے ڈھلی تشریف لے گئے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ حاجی محمد خانؒ صحت یاب ہو چکے ہیں اور کسی کام کے سلسلے میں کچھ روز کے لئے ڈھلی سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ شام ہو چکی تھی اور حضرت جؒی کے لئے چکڑالہ واپسی ممکن نہ تھی، چنانچہ آپؒ کو مجبوراً ڈھلی میں ہی قیام کرنا پڑا۔
            گرمیوں کا موسم تھا، گھر والوں نے عام دستور کے مطابق چھت پر چارپائی ڈال دی۔ حضرت جؒی نے رات قیام فرمایا اور علی الصبح چکڑالہ روانہ ہو گئے ۔ دو ایک روز بعد حاجی محمد خانؒ واپس لوٹے تو حضرت جؒی سے ملاقات نہ ہونے کا بہت افسوس ہوا۔ بیوی نے باتوں باتوں میں تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
‘‘آپ تو کہتے تھے کہ حضرت بہت بڑے بزرگ ہیں، رات بھر عبادت کرتے ہیں لیکن یہاں تو انہوں نے تہجد بھی نہیں پڑھی اور فجر کی نما ز ادا کی ہے تو وہ بھی اس قدر تاخیر سے جب سورج نکلنے میں تھوڑا سا وقت رہ گیا تھا۔’’
            حاجی محمد خانؒ نے اس وقت تو کوئی جواب نہ دیا لیکن جب حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بیوی کی یہ بات بھی عرض کی۔ حضرت جؒی نے تبسم فرمایااورکہنے لگے:
‘‘تمہاری بیوی سچ کہتی ہے، چھت پر پانی نہیں رکھا تھا اور میرے لئے مناسب نہ تھا کہ نیچے اتر کر صحن سے پانی لوں جہاں باقی اہلِ خانہ سو رہے تھے۔’’
            حضرت جؒی کا یہ طرزِ عمل مزاجِ شریعت کے عین مطابق تھا۔ ایک مرتبہ آقائے نامدارﷺ اپنی ایک زوجہ ٔ محترمہ کے ساتھ کھڑے تھے کہ پاس سے دو اصحاب کا گزر ہوا۔ اس وقت مکمل روشنی نہ تھی۔آپﷺ نے ان اصحاب کوبلا کر فرمایا، میرے ساتھ میری زوجہ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، اگر آپﷺ یہ نہ بھی فرماتے تو دل میں کوئی اور خیال نہیں آ سکتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا، شیطان دل میں شکوک بھی پیدا کر سکتا ہے اس لئے بتانا ضروری سمجھا۔ حضرت جؒی اگر رات کے پچھلے پہر وضو کے لئے گھر کے صحن میں آتے تو شیطان کو وساوس پیدا کرنے کا موقع مل جاتا۔ ایسے میں حضرت جؒی نے سنت نبویﷺ کے مطابق احتیاط کے پہلو کو مدِّنظر رکھا اور چھت سے اس وقت اترے جب اجالا پھیل چکا تھا اور اہلِ خانہ بھی جاگ چکے تھے۔
            حاجی محمد خانؒ نے اٹھارہ سال تک محنت کی لیکن کشفاًکچھ نظر نہیں آتا تھا۔ حضرت جؒی سے مایوسی کے عالم میں اپنی یہ حالت بیان کی تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘نظر نہیں آتا تو ذکر چھوڑ دو۔’’
عرض کیا:
‘‘ثواب ہے، بے حساب ہے۔ نہیں چھوڑتا، کچھ نظر آتا ہے یا نظر نہیں آتا لیکن یہ تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں نہیں ہوں۔ روح اس مزاج کی نہیں کہ نظر آئے۔ توجہ رکھتا ہوں خواہ نظر نہ آئے۔’’
            و ہ حضرات جو سلوک طے کرتے ہوئے اس قسم کے مخمصوں کا شکار ہیں کہ کچھ نظر نہیں آتا، ان کے لئے حاجی محمد خانؒ کا حضرت جؒی کے ساتھ یہ مکالمہ رہنمائی اور تشفی کا باعث ہو گا۔
            حضرت جؒی نے حاجی محمدخانؒ کو تیسرے عرش تک مقامات کرائے۔ چونکہ انکشافات نہیں تھے اس لئے اکثر خواہش کرتے کہ حضرت جؒی انہیں خوب توجہ دیں۔ حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ جاتے ہوئے ایک مرتبہ دندہ شاہ بلاول میں حضرت لال شاہؒ کی خدمت میں حاضرہوئے اور کافی دیر تک ان کی خدمت میں عرض کرتے رہے کہ وہ سفارش کریں کہ حضرت جؒی انہیں خصوصی توجہ دیا کریں۔ حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہاں قاضی جؒی بھی موجود تھے۔ دورانِ ذکر حضرت جؒی خصوصی طور پر قاضی جؒی کو مخاطب کرتے ہوئے مقاماتِ سلوک پر چلاتے رہے۔
            حضرت جؒی کی عاد ت مبارکہ تھی کہ جب کسی پر خصوصی توجہ فرماتے تو لطائف اور مراقبات کے درمیان اس کا نام لے کر ہدایت فرماتے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ دل تساہل او ر عدم ِتوجہی کا شکار ہوا تو حضرت جؒی نام لے کر فرماتے، ‘‘اور توجہ کے ساتھ۔’’ کچھ اسی طرح کے معاملات قاضی جؒی کے ساتھ چلتے رہے۔ ادھر حاجی محمد خانؒ پریشان تھے کہ حضرت لال شاہؒ سے سفارش کے لئے درخواست تو وہ کرتے رہے لیکن توجہ قاضی جؒی کو مل رہی ہے۔ ذکر کے بعد حضرت جؒی سے یہ صورت حال بیان کی تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘مغالطہ لگا، سفارش توانہوں نے کی تھی لیکن میں سمجھا یہ قاضی جی کے لئے ہے، اچھا تو وہ آپ کے لئے کہہ رہے تھے۔’’
            کچھ عرصہ بعد حضرت جؒی کے ایماء پر ڈھلی میں حاجی محمد خانؒ نے ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ آپؒ اس کی مالی معاونت بھی فرماتے اور ڈھلی تشریف آوری پر اسی مدرسہ میں مختصر قیام بھی فرماتے۔ ان دنوں حضرت امیر المکرم بھی سلسلۂ عالیہ میں شامل ہو چکے تھے اور جب کبھی حضرت جؒی کی ڈھلی میں آمد کی اطلاع ملتی تو آپؒ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ ایک مرتبہ ڈھلی میں حضرت جؒی کے ساتھ ایک محفل میں شریک تھے کہ ایک پیر صاحب مورس گاڑی میں حاضر خدمت ہوئے اور سلوک طے کرنے کی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ آپؒ نے کچھ عرصہ ساتھ رہنے کے لئے کہا اور چند روز میں مراقبات ثلاثہ کرا دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے مشاہدات عطا کردیئے اور وہ اپنے اسباق کو خود دیکھتے۔ یہ بات حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کے لئے حیران کن تھی کہ وہ تو ایک عرصہ سے محنت کر رہے ہیں لیکن اس شخص نے دو تین روز میں ہی مراقبات طے کر لئےاور اسے مشاہدات بھی حاصل ہو گئے۔ پیر صاحب رخصت ہونے لگے تو حضرت جؒی نے فرمایا، قبر کی کمائی کھانا چھوڑ دو، یہ حرام ہے۔ لوگ قبر پر جو رقم رکھ جاتے ہیں، صاحبِ قبر اس رقم کا مالک نہیں بن سکتا اور وہ بدستور اُن لوگوں کی ہی ملکیت رہتی ہے۔ پیرصاحب کے لئے یہ کام مشکل تھا کہ گاڑی بھی جاتی اور مفت آمدنی کا ذریعہ بھی، چنانچہ انہیں حضرت جؒی کی خدمت میں دوبارہ نہ دیکھا گیا۔ اس کے جانے کے بعد آپؒ نے فرمایا، تم لوگ حیران تو ہو گے کہ اسے اتنی جلدی مراقبات ثلاثہ کرا دیئے۔ اگر نہ کراتا تو یہ شخص جا کر بات کرتا کہ تصوف وغیرہ کوئی چیز نہیں۔ اب یہ تو نہ کہہ سکے گا البتہ اس کے اسباق نہ رہیں گے کیونکہ قبر کی کمائی چھوڑ نہ سکے گا۔  
            ایک مرتبہ حاجی محمد خانؒ نے ایک شخص کی فوتیدگی کا ذکر کیا تو حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘اللہ بخشے نیک آدمی تھا۔’’
قاضی جؒی کہنے لگے:
‘‘حضرت !نماز روزہ کرتے تو اسے کبھی ہم نے دیکھا نہیں، کیسا نیک آدمی تھا!’’
 حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘قاضی جی وہ زمانے گئے جب نیک آدمی نماز روزہ کیا کرتے تھے، اب تو فحاشی اور بدکاری سے بچے رہنا بھی نیکی ا ور دینداری ہے۔’’
            حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی کے الفاظ میں، قاضی جؒی، حضرت جؒی کا وہ شاہکار تھے جو قرونِ اولیٰ کے اہل اللہ سے کسی طور بھی کم نہیں۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو