ترویجِ سلسلۂ عالیہ
1958ء
تک حضرت جؒی کی زندگی چار مختلف ادوار میں منقسم نظر آتی ہے۔ 1904ء
سے 1924-25ء
تک لڑکپن، پہلی شادی اور ملازمت کا دور، جس کے متعلق بہت کم معلومات میسر ہیں۔ یہ
دور ایک نیک طبع دیہاتی نوجوان کی زندگی کا نقشہ پیش کرتاہے، پاک بازی اورغیرت و
حمیّت جس کا طرۂ امتیاز تھی۔ 1924-25ء
کے بعد قریباً ایک عشرہ حضرت جؒی کی ظاہری تعلیم کا دور ہے۔ اس دور میں آپؒ نے کسی
ایک جگہ مستقل قیام نہیں فرمایا بلکہ حصول ِعلم کے لئے مہاجرت کی صورت رہی۔ اُس دور میں جہاں کہیں کسی
جیّد عالم کی خبر ملی، آپؒ نے وہاں کا رخ
کیا۔ بالآخرمدرسہ امینیہ دہلی سے دورۂ حدیث کی تکمیل کے بعد 1934-35ء
میں آپؒ نے درس و تدریس کا آغاز فرمایا۔
حضرت جؒی کی باطنی تربیت 1942ء میں شروع ہوئی جس کے ابتدائی
تین سال آپؒ کا مستقل قیام لنگر مخدوم میں
رہا۔ اس کے بعد بھی کئی سال تک آپؒ کا یہ
معمول رہا کہ سال میں ایک ماہ اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر حضرت سلطان العارفیؒن کے
مزار پر ذکر و فکر میں گزارتے ۔ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی درس وتدریس اور
تصنیف و تالیف کی مصروفیات کے باوجود آپؒ
کا زیادہ وقت ذکر واذکار اور مراقبات میں ہی بسر ہوتا۔
مراقبہ
فنا فی الرسولﷺ کے دوران حضرت جؒی کو ناموسِ صحابۂ کرام] کے دفاع کا عندیہ ملا تو اس کے ساتھ ہی مناظرانہ
دور کا آغاز ہوا۔ یہ دور کم و بیش 1950ء سے 1960ء تک کے عشرہ پر محیط ہے۔ اس دور کے آخر میں
مناظرانہ استدلال کے ساتھ ساتھ حضرت جؒی کی زبانِ مبارک سے کبھی کبھار آپؒ کے
احوال ِباطنی بھی بطور دلیل ظاہر ہوجاتے۔ 1957ء میں ملتان کے مناظرے میں پہلی مرتبہ اپنے خطاب کے
دوران آپؒ نے فرمایا:
‘‘ کوئی ہے جو دربار ِرسالتﷺ
میں ابوبکر و عمر و عثمان و علیy کو ہم
نشین دیکھنے کا طالب ہو؟’’
ملتان
کے اس مناظرے میں آپؒ کی شخصیت کے باطنی پہلو کا ادراک کسی کے نصیب میں تھا نہ کسی کو یہ دعوت قبول کرنے کی ہمت ہوئی۔
اس کے بعد 1958ء میں پدھراڑ ضلع خوشاب
کے مناظرے میں آپؒ نے یہی بات ایک دوسرے پیرائے
میں بیان فرمائی:
‘‘
طالب کی روح کو بارگاہِ نبویﷺ میں پیش کر کے اُسے نبی
ٔاکرمﷺ سے روحانی طور پر بیعت کرا سکتا
ہوں۔ اگر کسی میں طلب ہو تو آئے اور اپنا دامن اس دولت سے بھر لے۔’’
لیکن
اس مرتبہ یہ دعوت رائیگاں نہ گئی۔ حضرت امیر المکرم پدھراڑ کے اس جلسہ میں پہلی
مرتبہ حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ آپؒ کے یہ الفاظ سنے تو اُن کے سامنے حضرت
جؒی کی شخصیت کے باطنی پہلو سے حجاب اٹھ گیا۔ فوراً آگے بڑھے اور آپؒ کا دامن تھام
لیا جو ترویجِ سلسلۂ عالیہ کی نسبت سے ایک
نہایت اہم واقعہ تھا۔
حضرت جؒی سے قاضی جؒی کی ملاقات 1946ء میں ہوئی تھی اور پہلی ہی
نشست میں آپؒ نے ان کے ساتوں لطائف روشن کر دیئے۔ آپؒ کی ہدایت کے مطابق قاضی جؒی
ایک سال لطائف پر محنت کرتے رہے جس کے بعد وہ حاضر خدمت ہوئے۔ اس طرح قاضی جؒی شاگردِ اوّل تو تھے لیکن اسباق کے لئے دو
نشستوں کے درمیان سال بھر کا وقفہ، اسے رفاقت نہیں کہا جا سکتا۔ قاضی جؒی کا یہی
معاملہ آئندہ بھی رہا، حضرت جؒی اپنی ذات میں تنہا اور قاضی جؒی اپنے اسباق پختہ
کرنے میں مگن۔ کچھ یہی صورت حال حاجی محمد خانؒ (ڈھلی والے) کی بھی تھی جو 1950ء میں
حضرت جؒی سے وابستہ ہوئے۔ ان حضرات کے حلقہ ٔ ذکر میں آنے کے باوجود حضرت جؒی کو ایسا
کوئی رفیق نہ مل سکا جوترویجِ سلسلۂ عالیہ کے مرحلے میں آپؒ کا ممد و معاون بن
سکے۔ 1942ء
سے لے کر 1958ء
تک کے 16 سالہ عرصہ کو حضرت جؒی کی ذاتی محنت اور منازل سلوک طے کرنے کا طویل
دور کہا جا سکتا ہے۔
حضرت امیر المکرم پدھراڑ میں حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر
ہوئے تو ہفتہ بھر آپؒ کے ساتھ رہے۔ حضرت جؒی واپس لوٹے تو بمشکل چند روز گزرنے کے
بعد آپؒ کی خدمت میں دوبارہ چکڑالہ حاضری دی۔ اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ حضرت
جؒی خود انہیں اپنی مصروفیات سے مُطّلِع فرماتے۔ علاقائی دورہ ہوتا یادور دراز کا
سفر، وہ حضرت جؒی کے شریک ِسفر ہوتے، خادم بھی، رفیق بھی اور
محافظ بھی۔
1958ء سے 1960ء تک دو سال کا عرصہ اس
طرح گزرا کہ یہ کارواں انہی دو ہستیوں پر
مشتمل رہا۔ ابھی تک دعوت ِعام کا اذن نہیں
ملا تھا لیکن حضرت جؒی کے ساتھ حضرت امیرالمکرم کی مستقل رفاقت کی صورت ایک مختصر
ترین جماعت وجودمیں آ چکی تھی۔ یہ دور حضرت جؒی کی زیر ِ نگرانی اب حضرت امیر
المکرم کی تربیت کا دور تھا تاکہ وہ مستقبل میں آپؒ کی نیابت کی ذمہ داری سنبھال
سکیں۔ انہیں دو سال تک انفرادی طور پر حضرت جؒی کی خصوصی صحبت میسر آئی،کبھی سفر میں،کبھی حضر میں، کبھی حضر ت جؒی کے ہاں چکڑالہ میں اور
کبھی حضرت جؒی خود اُن کے ڈیرہ ڈھوک ٹلیالہ پر تشریف فرما ہوتے۔
حضرت
امیر المکرم یہ حقیقت جان چکے تھے کہ اللہ
تعالیٰ نے انہیں جس نعمت ِ عظمیٰ سے نوازاہے وہ صرف انہی کاحصہ نہیں بلکہ سب کے
لئے ہے۔ پدھراڑ کے جلسے سے واپسی پر راستے میں کچھ لوگوں نے جب حضرت جؒی کے متعلق
بے سروپا گفتگو شروع کی تھی تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں ان پر واضح کر دیا تھا کہ
اس عظیم انسان نے جو بات کہی ہے وہ ہم سب کی ضرورت ہے۔ حضرت جؒی کے دل میں عالم ِانسانیت کے لئے جو درد تھا، حضرت امیرالمکرم
اسے محسوس کر چکے تھے ۔ ان کا بس چلتا تو منارہ کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر، دامن ِ کوہ
سڑک سے گزرنے والی ہر سواری کوروک
کر اور اہل ِ دیہہ کو بلا کرڈنکے کی چوٹ پر
اعلان کرتے کہ اگر تم لوگ دنیا وآخرت کی
فلاح چاہتے ہو تو حضرت جؒی کا دامن تھام لو لیکن ابھی اس اعلانِ عام کاوقت
نہیں آیا تھا۔
حضرت
امیر المکرم تو اس انتظار میں تھے کہ کب انہیں اجازت ملے اور وہ آگے بڑھ کر اپنے
دل کی بات دنیا کے سامنے رکھ سکیں۔ جب اہل ِ دیہہ اور ہم نشینوں کوان کی زندگی کے
معمولات میں واضح تبدیلی نظر آئی تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح بغیر
کچھ کہے بات چل نکلی۔ حضرت جؒی کی طرف سے
ابھی تک دعوت ِعام کی اجازت نہ تھی لیکن ان سے رہا نہ گیا۔ ایک روزاپنے قریبی عزیز
ملک خدابخشؒ کو ساتھ لئے چکڑالہ حاضر
ہوئے۔ پہلے تو حضرت جؒی متردِّد تھے کہ خدا بخش ابھی کم عمر ہے، تصو ّف کو کیاسمجھ
پائے گا لیکن سفارش ایسی تھی کہ بالآخر اظہار ِشفقت فرمایا اور یہ نوجوان بھی
نوازا گیا۔
ایک روز حضرت جؒی
ذکر کرا رہے تھے کہ ملک خدا بخشؒ کی نگاہ ِبصیرت یک بارگی روشن ہو گئی۔ وفور ِانوارات کا نظارہ دیکھا تو یہ صورت ِحال
آپؒ کی خدمت میں عرض کی۔ قاضی جؒی کے بعد وہ دوسرے خوش نصیب تھے جنہیں حضرت جؒی کی توجہ سے قوت ِمشاہدہ نصیب ہوئی۔ اس کے
بعدانہیں بھی حضرت امیر المکرم کے ہمراہ چکڑالہ میں
حاضری کی اجازت مل گئی۔ اب وہ ذکر
میں حضرت امیرالمکرم کے ساتھی بھی تھے۔ ہر ایک لطیفہ پر ضربوں کا سلسلہ گھنٹہ بھر
جاری رہتا۔ مجاہدے سے بھرپور یہ ایسا طویل ذکر ہوتا جس سے درودیوار میں ارتعاش
محسوس ہوتا اور ذکر کے بعد لطائف کے مقامات توجہ کی شدت سے اس طرح درد کرتے گویا
ان میں میخیں ٹھونک دی گئی ہوں۔
حضرت امیر
المکرم کی وابستگی سے قبل حضرت جؒی ان ہزاروں عقیدت مندوں کے باوجود جو آپؒ کو صرف
ایک عالم اور مناظر کی حیثیت سے پہچانتے تھے، اپنے دوروں اور شب و روز کے معمولات
میں تنہا تھے۔ حضرت امیر المکرم 1958ء
میں جب حضرت جؒی سے وابستہ ہوئے تو اس کے بعد آپؒ کسی سفر میں تنہا نہ دیکھے گئے۔ حضرت
جؒی ہوتے اور حضرت امیر المکرم، مختصر ترین جماعت جس کے امام حضرت جؒی تھے ۔یہ ترویج
ِ سلسلۂ عالیہ کا آغاز تھا۔
1960ء میں مزید چند خوش نصیب بھی حضرت جؒی کے حلقہ ٔ
ارادت میں شامل ہوئے۔ ان میں چکوال کے حافظ عبدالرزاقؒ بھی تھے جنہیں ترویج ِ
سلسلۂ عالیہ کے لئے اپنی قلمی خدمات پیش کرنے کی سعادت ملی۔
چکڑالہ
اگرچہ حضرت جؒی کی جائے ولادت تھی لیکن یہاں کے لوگوں کو آپؒ کے احوال دیکھ لینے
کے باوجود سلسلۂ عالیہ میں آنے کی توفیق کم ہی نصیب ہوئی۔ ایک بار مقامی لوگوں سے
مسجد بھر گئی اور جب آپؒ نے توجہ دی تو وہ دیواروں سے ٹکریں مارنے لگے۔ اہل ِ محلہ
میں سے کچھ لوگوں کو مسجد کی سمت تیز روشنی نظر آئی تو سمجھے کہ آگ لگ گئی اور پانی کی بالٹیاں لے کر دوڑے۔ یہاں کا ایک
شخص غلام محمد چور اور اجرتی قاتل تھا۔ اس نے چند یوم آپؒ کے ساتھ ذکر کیا تو
جرائم سے توبہ کی اور آبادی سے دور ڈیرے
پر سکونت اختیار کر لی۔
اسی
طرح اونٹ چرانے والے ایک شخص بہادر خان اوٹھی نے حضرت جؒی کے ساتھ ذکر شروع کیا تو
چند ہی روز میں اس کی یہ حالت ہو گئی کہ آپؒ پر نظر پڑتے ہی بدن کا انگ انگ ذکر
الٰہی سے پھڑکنے لگتا اور وہ بے حال ہو جاتا۔ چونکہ جذب کی صلاحیت سے محروم تھا،
آپؒ نے اسے ہدایت فرمائی کہ چکڑالہ کی نواحی ڈھوک میں منتقل ہو جائے اور وہیں رہا
کرے۔ اس شخص نے بقیہ عمر تنہائی میں گزار دی لیکن جب صبر نہ ہوتا تو کبھی کبھار حضرت
جؒی کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔
ایک
عمر رسیدہ شخص بابا میاں احمد پرانے ذاکر
تھے اور کسی اللہ والے کی توجہ سے انہیں لطیفہ ٔ قلب حاصل تھا۔ لطیفہ ٔ قلب رک جاتا تو حضرت جؒی کی اقتداء میں فجر کی
نماز ادا کرتے اور قلب دوبارہ جاری ہو جاتا۔ ان باتوں کا گاؤں میں تذکرہ بھی ہوتا
لیکن مقامی لوگوں میں سلسلۂ عالیہ کی ترویج نہ ہوسکی۔
حضرت
جؒی اکثر فرمایا کرتے کہ خاندان کے لوگ تصو ّف کے مخالف تھے۔ آپؒ تفریحاً فرماتے، یہ
لوگ کہتے ہیں سب مل کر دوزخ کے راستے پر جا رہے تھے، درمیان میں اس نے راستہ کیوں
بدل لیا! اسی طرح ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا، دریا جس جگہ سے جاری ہوتا ہےاس زمین کو
کم ہی سیراب کرتا ہے لیکن بہت آگے جا کر میدانی علاقوں کو خوب سیراب کرتا ہے۔
اہلِ خاندان کے علاوہ چکڑالہ کے مقامی لوگوں کو بھی حضرت جیؒ
سے فیضیاب ہونے کی سعادت نصیب نہ ہوئی۔ چکڑالہ والوں کی محرومی کا ذکر چھڑ جاتا تو
حضرت جیؒ مویشیوں کے تھنوں سے خون چوسنے والے چیچڑوں کی مثال دیا کرتے۔ کسی نے چیچڑوں
سے کہا کہ ہم مویشیوں کے تھنوں سے دودھ حاصل کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ہم تو یہیں پیدا ہوئے لیکن
خون پیتے ہیں، دودھ کہاں؟ اس تمثیل کی روشنی میں آپؒ فرمایا کرتے کہ چکڑالہ والے
مجھے ایذاء پہنچاتے ہیں، ان کی قسمت میں دودھ کہاں! وہ میرا خون پیتے ہیں جبکہ
دودھ باہر والے آکر حاصل کر رہے ہیں اور فیضیاب ہو رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔