ANTI-ADBLOCK JS SYNC گوہرِ مراد ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

گوہرِ مراد

گوہرِ مراد

            ایک مردِ کوہستانی، عمر چوبیس سال، سروقد، وادیٔ ونہار کے عام باسیوں کے برعکس سرخ وسپید چہرہ، مردانہ وجاہت اور بانک پن، اس پر مستزاد شکاری لباس، نشانہ اتنا پختہ کہ ریوالور سے پرندوں کا شکار معمول کا کھیل تھا۔یہ نوجوان قطب شاہی اعوان ہونے کے ناطے ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس میں قتل مقاتلے برسوں کا معمول تھا۔
            جوانی کی اٹھان کے ساتھ ساتھ اس کی جوانمردی مخالفین کی نگاہوں میں کھٹکنے لگی۔ کئی مقابلے بھی ہوئے لیکن جلد ہی یہ حقیقت تسلیم کر لی گئی کہ اس جوان مرد سے نبردآزما ہونا کارے دارد۔سوا چھ فٹ قد کا یہ کڑیل جوان اور کینیڈا ساخت کی 280راس رائفل، دنیا کی طویل ترین مارکرنے والی واحد رائفل جو سٹیل بلٹ فائر کرسکتی ہے، یہ نوجوان اور اس کی رائفل مخالفین پر ہمیشہ بھاری ثابت ہوئے۔ ایک مرتبہ آتشیں اسلحہ سے لیس ایک گروہ نے پیش قدمی کی لیکن بروقت اطلاع ملنے پر اس نوجوان نے مخالفین کے سامنے اورعقب میں فائر کئے۔ رائفل کی دہشت ناک آواز اس بات کا اعلان تھی کہ اگر آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو خود ذمہ دار ہو گے۔ کلرکہار پولیس اسٹیشن کو مطلع کیا گیااور 15کلومیٹر سے پولیس نفری کی آمد تک وقفے وقفے سے اس کا فائر جار ی رہا تا کہ کسی کو بھاگنے کا موقع نہ مل سکے۔ اس پر کئی پوشیدہ وار بھی ہوئے لیکن مخالفین کی ہر تدبیر ناکام ہوئی یہاں تک کہ نہ صرف خاندان بلکہ پورے علاقے میں اس نوجوان کی دلیری کی دھاک بیٹھ گئی۔
            مخالفین جب ناکام ہو گئے تواس سے نبٹنے کے لئے علاقہ کے نامی لوگوں سے رابطہ کیا گیاجن میں سے ایک معروف نام محمد خان ڈھرنالی کا تھا۔ وہ مقابل آیا تو اس نوجوان کی طرف سے جواباً 280راس سے فائر ہوا جس کی منفرد آواز اپنی پہچان رکھتی تھی۔ محمد خان ڈھرنالی نے اس رائفل کی آواز کو پہچانا، یہ رائفل تو پنجاب میں ایک ہی شخص کے پاس تھی! خطہ ٔ ونہار کے موضع سیتھی کے ملک محمد اکرم اعوان کے پاس جو اس کا ذاتی دوست تھا، گویا دھوکے میں اسے اپنے ہی دوست کے مقابل لایا گیا تھا۔ اس طرح یہ نوجوان ناقابل تسخیر ہی رہا البتہ یہ دوستی محمد خان ڈھرنالی کے کام آگئی۔ قریباً چالیس سال بعد جب اس کا انتقال ہوا تو ملکی سطح کی شخصیات اور علماء کی موجودگی میں نمازِ جنازہ کی امامت کا فریضہ جس شخص کے سپرد ہوا، وہ یہی نوجوان تھا جس کی رائفل کی آواز سن کر پاسداریٔ تعلق نے محمد خان ڈھرنالی کے ہاتھ روک لئے تھے۔
            یہ نوجوان اگرچہ واجبی سی دینی تعلیم حاصل کر سکا لیکن حمیت ِ دینی سے مالامال تھا۔ بزرگانِ دین سے انتہائی عقیدت تھی ۔ قرب وجوار میں جب کسی معروف عالم یا بزرگ کی آمد کی خبر ملتی توملاقات کئے بغیر نہ رہتا۔ مشہور پیر صاحبان اور علماء سے ملنے کے لئے طویل سفر کئے، کئی خانقاہوں پر حاضری دی لیکن اسے جس مردِمومن کی تلاش تھی وہ کہیں نظر آیا نہ کوئی شخصیت اسے متأثر کر سکی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت جؒی ایک جیّد عالم اور جری مناظر کی حیثیت سے علاقہ بھر میں متعارف ہو چکے تھے۔
            اس نوجوان کے آبائی گاؤں موضع سیتھی سے چند کوس کے فاصلہ پر چکوال خوشاب روڈ کا مشہور قصبہ پدھراڑ واقع ہے۔ یہاں ہر سال اہلِسنت اور اہل ِتشیع مناظرانہ جلسے منعقد کرتے جسے علاقائی سطح پر بہت اہمیت دی جاتی۔ فریقین دور دراز کے دیہات سے جتھوں کی صورت شریک ہوتے لیکن راستے میں کوئی تصادم ہوتا نہ جلسہ گاہ میں بدامنی۔ 1958ء میں اہلِ تشیع نے اپنے جلسے کے لئے مولوی اسمٰعیل گوجروی کو بلایا تو اہلِ سنت کے جلسہ کے لئے حضرت جیؒ  کو مدعو کیا گیا۔
            حضرت جیؒ کے بارے میں اس نوجوان نے بہت کچھ سن رکھا تھا اور غائبانہ عقیدت بھی پیدا ہو چکی تھی لیکن اب تک ملاقات نہ ہوئی تھی۔ آپؒ کی تشریف آوری کا سنا تو جلسہ شروع ہونے سے پہلے پدھراڑ پہنچا اور آپؒ کی خدمت میں حاضری کی نیت سے قیام گاہ کا پتہ کیا۔ یہ لوہاروں کا ایک چھوٹا سا کچا گھر تھا۔ معلوم ہوا کہ آپؒ چھت پر ایک کوٹھری میں آرام فرما ہیں۔ چھت پر بمشکل چھ فٹ بلند ایک کوٹھری تھی جس کے دروازے کا ایک کواڑ کھلا تھا۔ اندر نگاہ ڈالی تو سادگی کا ایک عظیم پیکر دیکھنے میں آیا۔ مختلف آلاتِ کاشت کاری، ہلوں کے دستے، پھالے وغیرہ اور ٹوٹے پھوٹے ناکارہ سامان کے ساتھ ایک کھردری سی چارپائی پڑی تھی جس پر عام سے لباس میں حضرت جیؒ  آرام فرما تھے اور ململ کا ایک پٹکا سا چہرے پر ڈال رکھا تھا۔
            وہ نوجوان حیران کھڑا سوچتا رہا کہ اس وقت کا جید عالم اور مانا ہوا مناظر لیکن دستار نہ جبہہ، نزاکت نہ تفاخر۔ نہایت بے تکلفی سے آرام کا یہ انداز اسے بہت اچھا لگا لیکن جلال ایسا تھا کہ انہیں جگانے کی جرأت نہ کر پایا۔ آیا تو ملاقات کے لئے تھا لیکن دبے پاؤں واپس لوٹا اگرچہ اس کا مزاج اس طرح کے آداب وقیود کا عادی نہ تھا۔
            ظہر کی نماز کے بعد مسجد میں حضرت جؒی کی زیارت ہوئی لیکن یہاں ایک اور بات سامنے آئی۔ آپؒ نے ایک شخص کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اہلِ تشیع کا جلسہ جاکر سنے اور تقریر کے اہم نکات نوٹ کر لائے۔ آپؒ کا مطمعٔ نظر یہ تھا کہ اگر صرف ان کے اپنے مذہب کی بات ہوئی تو الجھنے کا فائدہ نہیں، ہاں اگر مذہب اہل ِ سنت و الجماعت پر اعتراضات کئے گئے تو مدلّل جواب دیا جائے گا۔ گویا جوابی تقریر دوسرے روز متوقع تھی اور وہ بھی شیعہ مناظر کے طرز عمل سے مشروط۔ حضرت جیؒ کی پہلے روز کی تقریر صرف اصلاحِ احوالِ امت کے موضوع پر تھی۔ نماز اور وضو کے مسائل کا بیان تھا، امت ِ مسلمہ کی حالت ِ زار کا ذکر فرمایا لیکن اس تقریر میں آپؒ کی زبان مبارک سے ایک ایسی بات بھی نکل گئی جو اس نوجوان نے پہلی مرتبہ سنی تھی۔ بیسویں صدی کے اس الحادی دور میں حضرت جیؒ پورے اعتماد کے ساتھ فرما رہے تھے:
‘‘ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ میں تزکیۂ باطن کی تربیت کر سکتا ہوں، حتیٰ کہ روحانی تربیت کرنے کے بعد طالب کی روح کو بارگاہِ نبویﷺ میں پیش کر کے اسے نبی اکرمﷺ سے روحانی طور پر بیعت بھی کرا سکتا ہوں۔ اگر کسی میں طلب ہے تو آئے اور اپنا دامن اس دولت سے بھر لے مگر یاد رکھو ! میں آنے والے کو اندھیری کوٹھری میں بند کر دوں گا، شب وروز ذکر ِ الٰہی کرنا ہو گا، خوراک سادہ اور محدود دوں گا اور وہ خود دیکھ لے گا۔’’
            کہاں آقائے نامدارﷺ کا مبارک دور اور کہاں کفروالحاد کا یہ زمانہ، درمیان میں صدیوں کے فاصلے حائل لیکن کس اعتماد کے ساتھ دعوت دی گئی تھی ۔ کوئی ہے جو ان فاصلوں کو پاٹتے ہوئے درِاقدسﷺ پر حاضری کا طلب گار ہو؟ لوگوں نے اس اعلان سے کیامطلب اخذ کیا؟ اسے حقیقت جانا یا استعارے کنائے کی زبان لیکن اس نوجوان نے اعتماد ویقین کے بلند ترین درجہ کو پا لیا۔ جو کہا گیا اسے تعلّی سمجھا نہ استعارہ۔ بارگاہِ نبویﷺ میں حاضری سے بڑھ کر اور کیا عالی مقام ہو سکتا تھا! حضرت جیؒ فرما رہے تھے، کوئی ہے جو اس مقام کا طالب ہو اور اس نوجوان کو خودسپردگی کا فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی۔ جلسہ کا ماحول تھا، اس روز علیحدگی میں بات کرنے کا موقع نہ مل سکا تو اگلے روز حاضری کے عزم کے ساتھ واپسی کی راہ لی۔
             راستے میں کچھ لوگ عادتاً اس روز کے جلسہ پر تبصرہ کرنے لگے۔ وہ تفنن ِ طبع کے لئے آئے تھے اور پھبتیوں کی توقع رکھتے تھے لیکن حضرت جیؒ کی خالصتاً اصلاحی تقریر سے ان کا یہ شوق پورا نہ ہوا توکہنے لگے:
‘‘ بھئی اس عالم کا کیا فائدہ! اس نے تو شیعوں کے مقابلے میں کوئی بات کی ہی نہیں، صرف نماز روزہ کی تلقین کرتا رہا اورمسائل بیان کرتا رہا، یہ کون سی بڑی بات ہے!’’
            حضرت جؒی کے خلاف یہ بے سروپا گفتگو وہ نوجوان زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور بولا:
‘‘ تمہارا اندازہ درست نہیں، یہ بہت عظیم انسان ہے۔ اس نے وہ بات کہی ہے جو اس وقت ہم سب کی ضرورت ہے۔’’
               وہ لوگ اس نوجوان کا مفہوم سمجھے نہ یہ ان کے بس کی بات تھی لیکن اس کے تیور دیکھ کر خاموش ہونا پڑا۔ حضرت جیؒ نے اس روز کی تقریر میں درِ اقدسﷺ کی حاضری کے متعلق جو کہا تھا وہ اسے کیاسمجھ سکتے! یہ بات شاید انہوں نے سنی ہی نہ ہو اور کیسے سن پاتے ! اس کے لئے تو قلب کی اہلیت درکار تھی اور پورے جلسے میں شاید ہی کوئی قلب حضرت جیؒ کے اس پیغام کو سمجھ پایا لیکن اس نوجوان کے دل میں یہ بات کُھب گئی۔ وہ اگلی صبح کا منتظر رہا کہ اسے کب دوبارہ حضرت جیؒ کی خدمت میں حاضری نصیب ہو تو اپنے دل کی بات کہہ سکے۔
            دوسرے روزحاضر ہوا تو حضرت جیؒ کی محفل کا رنگ بدلا ہوا پایا۔ معلوم ہوا کہ شیعہ مقرر نے اپنے جلسہ میں صحابۂ کرام]  اور اہل ِسنت پر تندو تیز اعتراضات کئے ہیں جن کا اس روز جواب دیاجائے گا۔ اہل ِ سنت کا یہ جلسہ ایک دوسری مسجدمیں تھا جوامام بارگاہ کے قریب تھی۔ آج حضرت جیؒ کے چہرے سے جذبات کی گرمی عیاں تھی۔ شیعہ مقرر کی حد سے بڑھی ہوئی گستاخی نے اس مردِ حُر کو جواب دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ جلسہ شروع ہوا تو حضرت جؒی نے ابتدائیہ کلمات میں فرمایا:
‘‘شیعہ حضرات کے مقرر نے بے ہودہ اعتراضات کر کے اپنی دانست میں بڑا تیر مارا ہے مگر خوب سن لو! میں بفضل اللہ ان کے جوابات بھی مدلّل طور پر دوں گا اور پھر مجھے حق ہے کہ سوال بھی کروں۔ شیعہ عالم کو چاہئے کہ وہ اپنے مذہب کو ثابت کرنے کے لئے ان کا جوا ب دے مگر خوب سن لو! یہ شیعہ عالم بھاگ جائے گا اورمیرے سوالات کا جواب نہ دے سکے گا۔ شیعہ حضرات کو چاہیٔے کہ اسے جانے نہ دیں۔’’
            جلسہ شروع ہونے کے ساتھ ہی حضرت جؒی  کا یہ اعلان ا س نوجوان کے لئے چونکا دینے والا تھا۔ کس اعتماد کے ساتھ کہا جا رہا تھا کہ شیعہ عالم بھاگ جائے گا، گویاحضرت جؒی اس کو مقابلے کے میدان سے فرار ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ جلسہ ختم ہوا تو اس کی تصدیق بھی ہو گئی کہ شیعہ مقرر ظہر سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔ حضرت جؒی نے اس کے اعتراضات کے بہت مدلّل جوا ب ارشاد فرمائے لیکن جو سوالات آپؒ نے کئے تھے وہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت کی طرح اپنی جگہ قائم رہے۔ ان کا جواب کسی کے بس کی بات تھی نہ اس شیعہ مقرر کے لئے ممکن جو حضرت جیؒ کے فرمان کے عین مطابق راہِ فرار اختیار کر چکا تھا۔
            مولوی اسمٰعیل یوں تو مانا ہوا شیعہ مناظر تھا لیکن خوب جانتا تھا کہ حضرت جؒی کے سوالات کا جوا ب دینا ممکن نہیں۔ مناظروں میں بارہا اس کا حضرت جیؒ سے سامنا ہوا اور ہر بار اسے لاجوا ب ہونا پڑا۔ یہاں بھی آپؒ کا چیلنج اس قدر جارحانہ تھا کہ مقابلے میں ٹھہرنے کی ہمت نہ ہوئی اور اس نے موقع پا کر فرار کی راہ لی۔
            پدھراڑ کاجلسہ ختم ہوا تو حضرت جیؒ منارہ تشریف لائے ۔ اس کے بعد علاقہ کے مختلف دیہات میں آپؒ کی اصلاحی تقاریر کا پروگرام ہفتہ بھر جاری رہا۔ اس دوران یہ نوجوان حضرت جیؒ کے ساتھ رہا۔ آمدورفت پاپیادہ تھی۔ وادی کی او نچی نیچی پگڈنڈیوں میں یہ نوجوان حضرت جیؒ  کا ہمسفر تھا لیکن دل کی بات زبان پر لانے کی ہمت نہ ہو سکی۔ آخر ایک روز موقع پا کر عرض کیا:
‘‘ حضرت! آپ نے جو دعوت تصو ّف کے لئے دی ہے، میں تو اس کا طالب ہوں۔’’
حضرت جیؒ نے فرمایا:
‘‘یہ مشکل کام ہے۔ زندگی بھر کی خواہشات نچھاور کرنا پڑتی ہیں۔’’
 پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
اِنَّ الْمُلُوكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوْآ اَعِزَّةَ اَهْلِهَا اَذِلَّۃً ج
بیشک بادشاہ جب (فاتح ہو کر) کسی شہر میں داخل ہوتے  ہیں تو اُسے تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں۔ (النمل۔34)
آپؒ نے مزید فرمایا:
‘‘یہ عشق ِالٰہی ہے اور بہت بڑا بادشاہ ہے۔ جب یہ دل کو فتح کرتا ہے تو بہت تباہی مچتی ہے اور خواہشات کی دنیا زیر و زبر ہو جاتی ہے۔’’
            اس کے ساتھ ہی بات ختم ہو گئی۔ حضرت جیؒ   کا دورہ مکمل ہوا تو انہیں بس پر سوار کرایا اور بوجھل دل سے رخصت کیا لیکن اس کے بعد دل کی بے قراری میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ منزل کی جھلک دیکھ لینے کے بعد اب مزید رکنا ممکن نہ تھا۔ چند روز گزرے تو حضرت جیؒ کی خدمت میں چکڑالہ حاضری کے ارادے سے روانہ ہوا۔ تلہ گنگ ـمیانوالی رو ڈپر دندہ شاہ بلاول تک بس کا سفر تھا ا ور وہاں سے چکڑالہ تک 13کلو میٹر پیدل راستہ لیکن دل کی ایک بے کلی تھی جو اسے اڑائے لئے جا رہی تھی۔ حضرت جؒی کی خدمت میں پہنچا تو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ حضرت جیؒ نے حالِ دل دیکھتے ہی فرمایا:
‘‘تم بہت بَروقت آئے ہو۔ دراصل اس کام کے لئے یہی عمر ہوا کرتی ہے۔’’
               پھر اس نوجوان نے عمر بھر کے لئے اسی کام کا بیڑا اٹھا لیا۔ شب و روز، ماہ و سال اس میں لگا دیئے۔ سفرو حضر میں حضرت جیؒ کے ساتھ ہوتا۔ دندہ شاہ بلاول سے چکڑالہ جاتے ہوئے آپؒ گھوڑے پر سوار ہوتے اور وہ رکاب تھامے، لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ساتھ چلتا۔ ایک ہفتہ سے زیادہ جدائی برداشت نہ ہوتی۔ بس کے اڈا سے چکڑالہ تک کا طویل پیدل سفر شوقِ زیارت کے دوش پر طے ہوتا اور دل کی دنیا کو حضرت جیؒ کے چشمۂ فیض سے سیراب کرنے کے بعد اگلے روز بوجھل قدموں واپسی کا سفر شروع ہوجاتا۔
            ایک مرتبہ واپسی پر علاقہ کے چند نامی لوگ بھی شریک سفر تھے۔ یہ لوگ طلاق کے ایک مقدمہ میں حضرت جیؒ کے فیصلہ سے ناخوش تھے جس میں ایک ہی موقع پر سات طلاقیں دینے پر آپؒ نے فرمایا تھا کہ تین طلاقیں تو وارد ہو گئیں اور باقی چار کا گناہ طلاق دینے والے پر۔ حضرت جیؒ کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے وہ لوگ اس نوجوان سے کہنے لگے، تم یہاں کیوں آتے ہو؟ اس نے جواب دیا،
‘‘طلاق کے بارے میں تو کوئی مفتی ہی بتا سکتا ہے اور حضرت خود مفتی ہیں،  میں تو یہاں دل کو اللہ کا ذکر سکھانے کے لئے آتا ہوں اور یہ سبق مجھے حضرت سے مل رہا ہے۔ اگر تمہاری نگاہ میں اس فن کا ان سے بڑا کوئی ماہر ہے تو بتاؤ!’’
            اس سوال کاان لوگوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔حضرت جؒی کے بارے میں ناقدانہ خیالات سننے کے بعد اس نوجوان کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ ان کے ساتھ مزید سفر جاری رکھ سکے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ہم ایک ساتھ نہیں چل سکتے، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ان سے کہیں آگے نکل گیا۔
            اسی طرح ایک مدت گزر گئی اور سلوک کی منزلیں طے ہوتی گئیں ۔ وہ اوروں کے لئے نشانِ منزل بنا۔ اس کے ڈیرہ کو حضرت جیؒ  کا مستقر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ موسم گرما میں چکڑالہ جب شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوتا، آپؒ وادیٔ ونہار کے اس پُرفضا مقام پر طویل قیام فرماتے۔ آپؒ کی صحبت میں اللہ تعالیٰ نے اسے علم لَدُنّی سے نوازا۔ قرآن فہمی عطا کی اور قوتِ بیان ملی۔ پھر اس نے خاندانی دشمنیوں کو صلح وآشتی میں تبدیل کیا۔ حالات بہتر ہوئے تو زمینداری کو سنبھالا۔ کاروبار میں ہاتھ ڈالا تو اس میدان میں بھی کامیابی عطاہوئی۔ اب حضرت جیؒ کے سفر کے لئے اس کی گاڑیاں حاضر تھیں۔ حضرت جیؒ کے متعلقین کے لئے اس کا گھر لنگر خانہ بنا۔ سالہا سال گزر گئے لیکن کبھی کبھی اس کے دل میں حضرت جیؒ کے پہلے روز کے الفاظ کی بازگشت گونج اٹھتی:
‘‘ مگر یاد رکھو! میں اندھیری کوٹھری میں بند کر دوں گا… خوراک سادہ ومحدود دوں گا… اور زندگی بھر کی خواہشات نچھاور کرنا پڑتی ہیں۔’’
            کھرے لوگوں کا ہر معاملہ کھرا ہوتا ہے ۔ ان کا ظاہر وباطن ایک ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے بھی معاملہ کرتے ہیں تو بالکل کھرا جس میں ذرہ بھر کھوٹ نہیں ہوتا۔ یہ نہیں کہ ہر توبہ کی تہہ میں ہوسِ گناہ کی تلچھٹ بھی موجود رہے۔ یہ نوجوان بھی بلا کا کھرا تھا،شیشے کی طرح شفاف۔ حضرت جیؒ کی خدمت میں صاف صاف اور کھری بات بلا کم وکاست کہہ ڈالی:
‘‘ حضرت !اچھی سے اچھی سواری کا شوق ہے۔ ایک نہیں دو بیویاں ہیں۔ اب اگر اس فقیری میں زندگی کی نعمتوں کو خیر باد کہنا ہے تو یہ فقیری ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہاں، آپ سے اس تعلق کو چھوڑنا بھی ممکن نہیں، فقیری نہ سہی تو اس تعلق کو نباہنے کی اجازت دیں۔’’
جواب میں حضرت جیؒ نے فرمایا:
‘‘ تم فقیری بھی کرو گے اور شاہی بھی۔ تم حضرت خواجہ عبیداللہ احراؒر کی مثل فقیری کروگے لیکن شاہانہ رنگ میں۔’’
               بظاہر یہ جملہ اس نوجوان کی تشفی اور دلجوئی کے لئے تھا لیکن آج سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ، حضرت امیر المکرم مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ العا لی حضرت جیؒ کے اس فرمان کی ہو بہو تصویر ہیں جسے حضرت جؒی ایک زمانہ قبل دیکھ چکے تھے ۔ آج شاہی بھی ہے اور فقیری بھی، حضرت جیؒ کے الفاظ کے عین مطابق:
‘‘ مثل ِ حضرت خواجہ عبیداللہ احراؒر’’
            ایک مرتبہ حضرت امیر المکرم کی شانِ امارت دیکھ کر قاضی جیؒ دبی زبان سے کہنے لگے:
‘‘آپ کی گاڑی بہت شاندار ہے۔ لباس بہت اچھا ہے۔ گھڑی بہت خوبصورت ہے۔’’
            شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہ چیزیں فقیری سے میل نہیں کھاتیں۔ حضرت امیر المکرم نے قاضی جیؒ کے درویشانہ لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
‘‘قاضی جی، اس بھگل (گلیم یا لبادہ) کے ساتھ تو فقیری آسان ہے لیکن امارت کے ساتھ فقیری نباہنا بہت مشکل ہے۔’’
            حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی نے خود کو حضرت جؒی کے رنگ میں رنگ لیا اور ان کی ذات اپنے عظیم المرتبت شیؒخ کی شخصیت کا پرتو بن گئی۔ آج حضرت جؒی کا تذکرہ شروع کریں تو بات حضرت امیرالمکرم تک جا پہنچتی ہے لیکن حضرت جؒی کے حوالے سے ان کی شخصیت کے تین پہلو ایسے ہیں جن کا تذکرہ یہاں ضروری ہو گا، تصدیق، تعلق بالشیخ اور تربیت۔
تصدیق
            شاید حضرت جیؒ کے ساتھ حضرت امیرالمکرم کی پہلی ملاقات کو صرف اسی تناظر میں دیکھا جائے کہ ایک دیہاتی نوجوان ایک مشہور ومعروف عالم کی تقریر سننے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو معمول کی یہ ملاقات آئندہ تعلق کی بنیاد بن گئی، بالکل اسی طرح جیسے کسی بھی نئے تعلق کے پیچھے کوئی عام سا واقعہ یاکوئی اتفاقی حادثہ ہوتا ہے۔ روز مر ّہ کا یہ معمول اس ملاقات پر صاد نہیں جو اپنے احوال اور واردات کے لحاظ سے حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی کا ایک منفرد اعزاز ہے۔ ان کا یہ امتیاز پہلی ہی ملاقات میں حق الیقین کی حد تک حضرت جیؒ کے اعلام کی وہ فوری تصدیق ہے جو صرف شانِ صدیقیت ہی کا ایک پرتَو ہے۔
            حضرت جیؒ کے شاگرد اول ہونے کا شرف قاضی ثناء اللہؒ (لیٹی والے) کو حاصل ہے لیکن ایک عرصہ تک وہ یہ باور کرنے سے قاصر رہے کہ انہیں جس رہبر کی تلاش تھی وہ حضرت جیؒ ہی توتھے۔ قاضی جؒی نے ایک عرصہ تک آپؒ کو صرف ایک عالم دین جانا لیکن آپؒ کی شخصیت کے باطنی پہلو کا اس وقت تک ادراک نہ کر پائے جب تک حضرت جیؒ نے خود اس پہلو کی پہچان نہ کرادی۔ ان کے بعد ڈھلی والے حاجی محمد خانؒ کا حضرت جیؒ سے تعلق قائم ہوا تو ان کے لئے قاضی جؒی کی ذات، جو علاقہ بھر میں اپنے ورع و تقویٰ کے لئے مشہور تھی، حضرت جیؒ پراعتماد کی دلیل بنی۔
            اسی طرح حضرت جیؒ کے ابتدائی متعلقین میں مولوی سلیمان بھی تھا۔ 1956ء میں بلکسر کے مناظرہ کے بعد حضرت جیؒ  کا جب کبھی چکوا ل سے گزر ہوتا، آپؒ مولوی سلیمان کے ہاں کچھ دیر ضرور رکتے۔ بعد میں یہ شخص بہت تیز صاحب کشف مشہور ہوا لیکن 1956ء سے 1960ء تک حضرت جیؒ کی شخصیت کا باطنی پہلو اس کی نگاہ سے اوجھل رہا۔ اسی طرح ہر بڑے نام کے ساتھ کچھ یہی صورت نظر آتی ہے کہ اس وقت مانا جب مانے بغیر چارہ نہ تھا۔حضرت جیؒ کے الفاظ میں:
‘‘میں نے بڑے بڑوں کو ڈنڈے کے زور سے منوایا ہے۔’’
             اس کے برعکس حضرت امیر المکرم کچھ دیکھ کر یاکسی اور کو دیکھ کر نہیں آئے۔ انہوں نے صرف ا ور صرف حضرت جیؒ  کو دیکھا،  کوئی دلیل نہ کرامت، کشف نہ مشاہدہ۔ حضرت جیؒ  کو دیکھا اور بلا تأمل مان لیا کہ یہ ہستی غلط بیانی نہیں کر سکتی۔ بارگاہِ رسالت مآبﷺ کی نسبت سے آپؒ نے جو فرمایا ہے وہ حقیقت ہے۔ اتنی بڑی بات کہ میں طالب کی روح کو بارگاہِ نبویﷺ میں پیش کر کے اسے نبی ٔ اکرمﷺ کے دست ِ اقدس پر روحانی طور پر بیعت کرا سکتا ہوں لیکن اسے ماننے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت محسوس کی نہ ذاتی مشاہدہ کی طلب ہوئی۔ بس شیخ کو دیکھا،پیغام سنا اور مان لیا۔ ان کا یہ دیکھنا دل کی نگاہ سے تھا۔ انہوں نے حضرت جؒی کو روزِ اول ہی سے ایک عالم یا ایک مناظر کی حیثیت سے نہیں بلکہ دربارِ نبویﷺ کے ایک ایسے سفیر کی حیثیت سے پہچانا جو زمان و مکان کے فاصلوں کو طے کرانے کے بعد ایک طالب کو روحانی طور پر آقائے نامدارﷺ کے حضور پیش کر سکتا تھا۔
               یہاں چشمِ تصور میں لنگر مخدوم کا وہ منظر سامنے آ جاتا ہے جب حضرت جؒی پہلی مرتبہ اپنے شیخ حضرت سلطان العارفیؒن کی قبر کے سامنے مؤدّب بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی آواز سکوت کو توڑتی ہے:
‘‘ حضرت دریافت فرما رہے ہیں کہ مولوی صاحب امتحاناً آئے ہیں یاارادتاً؟’’
             اس ایک سوال کے ساتھ ہی حضرت جیؒ اعتماد علی الشیخ کے بلند ترین مقام کو پا لیتے ہیں۔ اگرچہ امتحاناً آئے تھے لیکن دل کی کیفیت فوراً تبدیل ہو گئی اور دوسرے ہی لمحے ارادت کا اقرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
            اس تصدیق کی ایک نسبت صدیوں قبل کے اس واقعہ سے بھی ہے جب نبی ٔ آخر الزمانﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام دنیا بھر کے مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقt کے سامنے پیش کیا تو اس کی تصدیق میں لحظہ بھر بھی توقف نہ ہوا۔ فوری تصدیق کی ایک صورت اس واقعہ میں بھی نظر آتی ہے جب کفار نے صدیق اکبرt سے کہا، کیا تو نے ایک نئی خبر سنی ہے؟ تیرا دوست تو شب بھر میں بیت المقدس سے ہوتا ہوا آسمانوں کا چکر لگا آیاہے ؟ بغیر کسی توقف کے انہوں نے صرف اس قدر پوچھا، کیا یہ بات آپﷺ نے خود فرمائی ہے اور اگر ایسا ہے تو بلاشبہ درست ہے۔
             یہ مقامِ تصدیق حضر ت صدیق اکبرt ہی کا امتیاز ہے البتہ اس کا ایک پرتَو، ہلکی سی جھلک ان اہل اللہ کے ہاں بھی دیکھنے میں آتی ہے جنہیں مقامِ صدّیقیت نصیب ہوا۔ شاید اسی لئے حضرت جیؒ سے جب دریافت کیا گیا کہ آپ امتحاناً آئے ہیں یا ارادتاً تو امتحان کو ارادت اور شک کو یقین میں تبدیل ہونے میں لحظہ بھر بھی توقف نہ ہوا کیونکہ وہ مستقبل کے صدیق تھے۔ اسی طرح حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی نے روزِ اوّل ہی اعتماد علی الشیخ کا وہ اعلیٰ ترین مقام پا لیا جومستقبل کے صدیق کی شان کو لازم تھا اور حضرت جیؒ کے ہزاروںمتعلقین میں سے یہ صرف ان ہی کا اعزاز تھا۔
تعلق بالشیخ
            جس طرح اعتماد علی الرسولﷺ ایمان کی شرطِ اوّل ہے اسی طرح اعتماد علی الشیخ تصو ّف کا لازمہ ہے۔ اگر شیخ پر اعتماد کا واسطہ ذاتی کشف یاکسی اور شخص کا کشف ہے تو ان دونوں صورتوں میں اعتماد علی الشیخ بالواسطہ ہو گا۔ اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ جہاں شیخ پر اعتماد کی بنیاد کوئی درمیانی واسطہ ہو وہاں شیخ سے تعلق دیرپا نہ ہو سکا اور واسطے کے مجروح ہونے کے ساتھ ہی شیخ سے اعتماد بھی اٹھ گیا۔ شیخ کے ساتھ ابتدا ہی سے بلاواسطہ اعتماد ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا لیکن اسے حاصل کئے بغیر استقامت محال ہے۔ شیخ پر اعتمادکے مختلف واسطوں میں کمزور ترین واسطہ کشف ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ جہاں کشف، اعتماد کا ذریعہ بنا، شیخ سے تعلق زیادہ دیر تک شیطانی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس کی سب سے بڑی مثال مولوی سلیمان تھا جسے کشفاً حضرت جیؒ کے احوال دیکھ لینے کے باوجود کسی اور صاحب کے ہاں مراقبۂ استحضار کی صورت میں چمک دکھائی دی تو شیخ سے تعلق مجروح ہو گیا۔
            حضرت امیر المکرم کی ایک امتیازی شان یہ بھی ہے کہ ایک طویل عرصہ تک انہیں انکشافات سے محفوظ رکھا گیا۔ حضرت جیؒ اور ان کے مابین کبھی کوئی اور شخص درمیانی واسطہ نہ بنا۔اس طرح روزِ اوّل ہی سے ان کا اپنے شیخ سے تعلق بلاواسطہ تھا جو مضبوط چٹان کی طرح ہمیشہ غیرمتزلزل رہا۔ حضرت جؒی نے اپنے ایک خط میں حضرت سلطان العارفیؒن کے ان الفاظ کو نقل فرمایا:
‘‘یہ سلسلے کے لئے چٹان ہے۔ اِنْ شَاءَ اللّٰه اس چٹان کو ابلیس کی قوت نہ ہلا سکے گی۔’’
 اسی طرح حضرت جیؒ کے یہ الفاظ اُن کے مضبوط تعلق بالشیخ کے لئے سند کا درجہ رکھتے ہیں:
‘‘ اگر ساری جماعت بھی مجھے چھوڑ دے،  تو بھی یہ شخص مجھے کبھی نہ چھوڑے گا۔’’
            اعتماد اور محبت لازم وملزوم ہیں۔ اگر اعتماد کی گہرائی دیکھنا ہو تو دل سے گواہی لیں کہ محبت کس درجہ کی ہے۔حضرت امیر المکرم کی حضرت جیؒ سے بے پناہ محبت کا اظہار قدم قدم پر ہوا۔ یہاں صرف دو ایسے واقعات پیش کئے جاتے ہیں جن کا تعلق ابتدائی دور سے ہے۔
            حضرت امیر المکرم صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ پالتو جانوروں سے بھی اس طرح محبت کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجا سکتا ہے کہ دورۂ امریکہ کے دوران جب انہیں اپنے پالتو ہرن کی موت کی خبر ملی  تو ہزاروں میل دور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور پھر غبارِ راہ[1] میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے۔ اسی طرح انہوں نے ایک اڑیال پال رکھا تھا جو ان کی محبت کا اسیر تھا۔ بڑا ہوا تو سوچا کیوں نہ اسے سنتِ ابراہیمیu کے مطابق قربان کر دیا جائے۔ پھر خیال آیا کہ اس قدر محبوب تحفہ شیخ کی خدمت میں پیش کروں تا کہ وہ اسے قربان کریں۔ اڑیال کو حضرت جؒی کے پاس جب چکڑالہ پہنچا دیا تو اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ ایک روز حضرت جؒی کے داماد نے کیسٹ پر حضر ت امیرالمکرم کی تقریر لگا دی تو یہ آواز اڑیال کو مانوس لگی،  دیرتک سنتا رہا اور پھر چرنا شروع کردیا لیکن زیادہ عرصہ جدائی برداشت نہ کر سکا۔ ایک دن اچانک گرا اور مر گیا۔ اڑیال کی اس محبت سے اس کے مالک کی محبت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن اس کے مقابل شیخ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنے پالتو اڑیال کی گردن پر حضرت جیؒ کے ہاتھوں چھری چلنے کو اظہارِ محبت کا ایک انداز سمجھا۔
            مالی قربانی اس مادی دور میں بڑا مشکل کام ہے۔ حضرت جیؒ  کو ایک مرتبہ کچھ رقم کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت امیر المکرم کو معلوم ہوا تو اپنی گاڑی راولپنڈی بھجوا دی اور سودوزیاں کا حساب کئے بغیر ڈرائیور کو ہدایت کی کہ وہ اسے اتنی ہی رقم پر بیچ آئے جو حضرت جیؒ کی ضرورت تھی، کم نہ زیادہ۔ اصل قیمت تو کہیں زیادہ تھی لیکن مطلوبہ قیمت پر یہ گاڑی اسی روز فروخت ہو گئی۔ ڈرائیور جب حضرت جیؒ کی خدمت میں رقم لے کر حاضر ہوا تو آپؒ نے حسب ِعادت  پوچھا، کیا گاڑی احاطے میں کھڑی کر دی ہے تا کہ بچوں کی شرارتوں سے محفوظ رہے لیکن ڈرائیور خاموش رہا ۔ دو تین بار پوچھنے کے بعد صورتِ حال بتائی تو حضرت جیؒ نے ایک آہ بھری اور پھر دیر تک فضا میں دیکھتے رہے۔ کس قدر دعائیں ہوں گی جو آپؒ نے حضرت امیر المکرم کے لئے کی ہوں گی۔ آج ان کی فقیری میں امیری، ظاہر و باطن دونوں کی شہنشاہیت، یہ حضرت جؒی کی کون کون سی دعا ہوگی! حضرت امیر المکرم کو حضرت جیؒ کی بے پناہ شفقت ملی۔ آپؒ انہیں اپنا ، مخلص ومحبوب روحانی بچہ، کہا کرتے۔اس ضمن میں حضرت جیؒ فرمایا کرتے:
‘‘تم سارے میرے مرید ہو، صرف اکرم میری مراد ہے۔’’
            یعنی حضرت جؒی نے جیسا چاہا، حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کو اُسی کے مطابق پایا۔ مرید ہو تو ایسا، جیسا شیخ  کی مراد ہو اور اس میں حضرت امیرالمکرم کو اپنے شیؒخ کی طرف سے یکتائی کا خصوصی اعزاز ملا۔ حضرت جؒی نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ تم سارے میری مراد ہو، صرف اکرم ہی میرا مرید ہے۔ اس قول کی آپؒ نے وضاحت بھی فرمائی کہ مرید وہ جو شیخ کو تلاش کرے اور صرف اکرم نے مجھے تلاش کیا جبکہ تم سب میری دعاؤں کے نتیجے میں مجھ تک پہنچے ہو۔ کیوں نہ ہو، جب حضرت امیرالمکرم سے ان کے شیؒخ کی محبت کا یہ عالم تھا تو اس کا پرتَو حضرت مدظلہ العالی کی طرف سے کس طرح کم ہوتا!آج قدم قدم شیؒخ کے تذکرہ پر دل امڈ آتا ہے اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔
تربیت
            تصدیق اور تعلق  بالشیخ کے بعد اگلا مرحلہ تربیت کا تھا۔ اس میں بھی حضرت امیر المکرم کے ہاں حضرت صدیق اکبرt  کی سنت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حضرت جیؒ کے بعد سلسلہ عالیہ کا بارِ امانت انہیں تفویض ہوا اور اس ذمہ داری کے لئے انہیں اس طرح تیار کیا گیا کہ روزِ اوّل ہی سے حضرت جیؒ کی مستقل رفاقت کی صورت تربیت کا عمل شروع ہوا جو آخر وقت تک جاری رہا۔ اس وقت حضرت جیؒ اپنی ذات میں تنہا تھے لیکن جس شخص نے حضرت جیؒ کے بعد ان کے مشن کو سنبھالنا تھا، اسے نہ صرف تصدیق میں اوّلیت کا شرف ملا، اعتماد بالشیخ میں کمال حاصل ہوا بلکہ مستقل تربیت کے لئے روزِ اوّل ہی سے حضرت جیؒ کی رفاقت نصیب ہوئی جو حضرت صدیق اکبرt  کی سنت کے عین مطابق تھی۔ اس طرح ایک طویل مدت تک انہوں نے حضرت جیؒ کے زیرتربیت رہتے ہوئے نہ صرف تعلیمات نبویﷺ حاصل کیں بلکہ انعکاسی طور پر علم لَدُنّی سے بھی نوازے گئے۔
            مولانا محکم الدّین فاضل دیوبند حضرت مدنیؒ کے براہِ راست شاگرد تھے۔ حضرت امیر المکرم کا درسِ قرآن دو تین روز سنا تو پوچھنے لگے، یہ کہاں سے فارغ التحصیل ہیں؟ وہ یہ بات ماننے کو ہرگز تیار نہ تھے کہ انہوں نے کسی مدرسے میں باقاعدہ تعلیم نہیں پائی۔ اس قرآن فہمی کے باعث حضرت امیر المکرم کا مفسرین ِ کرام میں شمار ہوا جسے حضر ت جؒی کی ایک کرامت تسلیم کیا جاتا ہے۔
            ایک مرتبہ کسی کوتاہ عقل نے بنوری ٹاؤن سے حضرت امیر المکرم کے خلاف فتویٰ حاصل کر نے کے لیے یہ سوال لکھ بھیجا کہ حضرت جیؒ کے بعد، جو کہ ایک جید عالم تھے،  کیا وہ ان کی جگہ شیخ ِ طریقت کے منصب پر فائز ہو سکتے ہیں جبکہ انہوں نے کسی مدرسے میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہاں کے مفتی صاحب نے بغیر کسی لمبی چوڑی تشریح کے دو ٹوک جواب لکھ بھیجا کہ جو شخص پچیس سال تک مسلسل حضرت جؒی کے زیرِتربیت رہا جو اپنی ذات میں ایک عظیم یونیورسٹی تھے، اسے کسی اور مدرسے میں شاگردی کی ضرورت نہیں۔
            حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کا سب سے بڑا امتیاز ترویج سلسلۂ عالیہ کی نسبت سے ہے جس کا تذکرہ نہ صرف اگلے ابواب میں جابجا نظر آئے گا بلکہ آنے والی ہر نئی صبح اس کی شہادت دے رہی ہے۔


[1]ـ حضرت امیر المکرم کے بیرون ملک دوروں کی روداد جو ‘غبار راہ’ کے نام سے شائع ہوئی۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو