ANTI-ADBLOCK JS SYNC اجتماع لنگر مخدوم ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

اجتماع لنگر مخدوم

اجتماع لنگر مخدوم

(1983ء)
            ابتدائی دور میں حضرت جؒی کو لنگر مخدوم کے اجتماعات میں لانے کی ذمہ داری حضرت امیرالمکرم سرانجام دیتے رہے لیکن آخری چند سالوں میں یہ ذِمّہ داری ناظمِ اعلیٰ کے سپرد تھی۔ زہے نصیب کہ سالانہ اجتماع لنگر مخدوم 1983ء کے لئے یہ سعادت راقم کے حصہ میں آئی۔ حضرت جؒی19اکتوبر بروز بدھ صبح کی چائے کے بعد حسب معمول حویلی میں تشریف فرما ہوئے۔ مقامی لوگوں سے بات چیت ہوئی، گھریلو امور پر ہدایات دیں اور عزم سفر فرمایا۔
            ابھی چکڑالہ کے مضافات میں ہی تھے کہ اچانک یاد آیاکہ ایک اہم مقدمہ کی فائل مسجد میں رہ گئی ہے جو حضرت جؒی سے رہنمائی کے لئے راقم ساتھ لایا تھا۔ ایک ساتھی کو ہدایت کی کہ وہ یہ فائل لے کر میانوالی پہنچے۔ اس مقدمہ میں چھ ملزمان کو سزائے موت ہوئی تھی جن میں سے دو کے بارے میں راقم تردّد کا شکار تھا۔
            چکڑالہ میں مقدمہ کی فائل حضرت جؒی کی خدمت میں پیش کی تو آپؒ نے فرمایا، دو آدمی بے گناہ نظر آرہے ہیں لیکن لنگر مخدوم میں یہ معاملہ مشا ئخ ؒ  کی خدمت میں بھی پیش کیا جائے۔ اس ضمن میں آپؒ نے فرمایا کہ قاضی، ظاہر کا مکلف ہے۔ اس کے سامنے مقدمہ کی فائل اور گواہوں کی شہادت کی روشنی میں جو صورت واضح ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے،اصل صورت حال اس سے مختلف ہو تو وہ قابل ِمو ٔاخذہ نہ ہوگا۔ جب مشائخ کی خدمت میں یہ مقدمہ پیش کیا گیا تو انہوں نے بھی سزائے موت پانے والوں میں سے دو آدمیوں کی بے گناہی کی تصدیق فرمائی۔
            حضرت جؒی کی نگاہ ِبصیرت اور مشائخ کی رہنمائی سے حقیقت حال تو واضح ہو چکی تھی لیکن اب اس فیصلے کا کیا ِکیا جائے جس کے تحت دو بے گناہ پھانسی کے پھندہ پر جھول جاتے۔ چند روز بعد مقدمہ کے چشم دید گواہ اور مقتولین کے وارث نے ان دو میں سے ایک شخص کی برأت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے معاف کر دیاجبکہ دوسرے شخص کی سزا پر عمل کرنے میں قانونی سقم حائل ہوگئے۔ اس طرح یہ دونوں بے گناہ سزائے موت سے بچ گئے۔
            حضرت جؒی کے حوالے سے مقدموں کی بات چل نکلی ہے تو یہاں ایک اور مقدمہ کا ذکر بھی کر دیاجائے جس میں سزائے موت کے بعد ایک بے گناہ شخص کی برأ ت ہوئی۔ بٹ خیلہ کے یوسف کو ناکردہ قتل میں سزائے موت ہوئی جس کی توثیق بھی ہوگئی۔راقم کو اس مقدمہ کی فائل پڑھنے کا موقع ملا تو صریحاً ناانصافی نظر آئی۔ نظرثانی کے لئے ایوان صدر تک کوشش کی گئی لیکن وزارت قانون نے راقم کی رائے سے اتفاق نہ کیا۔
            اسی مقدمہ کے سلسلہ میں ایک روز ایک لمبا تڑنگا نوجوان راقم کے دفتر میں آیااور کہنے لگا کہ وہ لوگ میانوالی کے ایک پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جنہوں نے ایک وظیفہ دیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ تمہارے ماموں بے گناہ ہیں اور وظیفہ مکمل ہونے تک بری ہو جائیں گے۔ اسے پیرصاحب کا نام یاد تھا نہ میانوالی میں ان کے گاؤں کا نام۔ وظیفہ پوچھنے پر اس نے جو تحریر پیش کی اسے دیکھ کر خوشگوار تعجب ہوا کہ یہ حضرت جؒی کی تحریر تھی البتہ مسلسل جیب میں پڑا رہنے کی وجہ سے کاغذ بوسیدہ ہو رہا تھا۔ نوجوان کی اجازت سے راقم نے وہ کاغذ خود رکھ لیا اور اسے ایک نئے کاغذ پر وہی تحریر دوبارہ لکھ دی۔ کچھ عرصہ بعد اطلاع ملی کہ صدر مملکت نے یوسف کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے جو بعد میں مکمل برأ ت کی صورت میں ختم ہوئی۔
            قارئین کے لئے حضرت جؒی کی اس تحریر کا عکس پیش ہے۔

(مکان پاک ہو قدرے خوشبو چھڑک دینا ایک لاکھ 91 ہزار یہ پورا کرنا جتنے دنوں میں ہو جائے یقیناً اِنْ شَاءَ اللّٰه چھوٹ جائے گا یَا حَلِیْمُ یَا عَلِیْمُ یَا عَلِیُّ یَا عَظِیْمُ)
            چکڑالہ سے میانوالی تک سنگل روڈ تھی اور جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی۔ کراسنگ کے لئے سڑک سے نیچے اترنا پڑتا۔ جھٹکے لگنے سے حضرت جؒی کو اکثر اختلاجِ قلب کی شکایت بھی ہو جاتی۔ اس عالم میں آپؒ کی گاڑی چلانا گویا دودھ سے لبریز پیالے کے ساتھ سفر کرنے کے مترادف تھا کہ یہ پیالہ کہیں چھلک نہ جائے۔ سفر میں حضرت جؒی اکثر وقت حالتِ مراقبہ میں رہتے، اس سفر کا بیشتر حصہ مکمل سکوت میں گزرا۔
          رات کا قیام میانوالی میں تھا۔ یہاں ساتھیوں کی ایک کثیر تعداد حضرت جؒی کی آمد کی منتظر تھی۔ رات گئے تک احباب آتے رہے، اس طرح اذکارِ شب میں اجتماع کی صورت پیدا ہو گئی۔ 20اکتوبر صبح آٹھ بجے لنگرمخدوم کے لئے روانگی ہوئی۔ رخصت کرنے والوں میں کرنل سلطانؒ بھی تھے جو رات کے پچھلے پہر میانوالی پہنچے تھے۔ حضرت جؒی نے ایک نگاہ کرنل سلطانؒ پر ڈالی اور پھر راقم کی طرف دیکھا،  کیا سلطان کے لئے جگہ بن جائے گی؟ اس طرح حضرت جؒی کی شفقت سے کرنل سلطانؒ کو بھی آپؒ کی معیت میں سفرنصیب ہوا۔
            خوشاب کے قریب ایک بے آباد جگہ پر حضرت جؒی نے گاڑی روکنے کے لئے کہا۔ خادمِ خاص ملک احمد نواز نے پانی کا برتن کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں رکھ دیا۔ آپؒ عصا کی نوک سے کچھ دیر تک زمین کی سخت سطح کریدتے رہے تاکہ وہ نرم ہو جائے اور پیشاب کے چھینٹے نہ اڑیں۔حضرت جؒی ساتھیوں کو اکثر پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کی ہدایت فرمایا کرتے کہ یہ عذاب ِ قبر کا موجب ہوتے ہیں۔
            خوشاب کے بعد راقم نے ازخود ڈاکٹر عظمت بُٹر کو ڈرائیونگ کے لئے کہا تاکہ اس کو بھی یہ سعادت مل جائے۔ قریباً دس بجے سرگودھا پہنچے تو یہاں بھی کثیر تعداد میں ساتھی موجود تھے۔ ڈھائی بجے لینڈکروزر پر لنگر مخدوم کے لئے روانگی ہوئی لیکن کچھ ہی دور جا کر جھٹکوں کی وجہ سے آپؒ دوبارہ راقم کی گاڑی میں تشریف لے آئے۔ قریباً چار بجے لنگر مخدوم پہنچے اور سیدھے حضرت سلطان العارفیؒن کے مرقد پر حاضر ہوئے جو آپؒ کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ اس مرتبہ حاضر ہوئے تو حضرت سلطان العارفیؒن نے ابتلاء کا دور ختم ہونے پر مبارک دی۔ یہ لنگر مخدوم میں حضرت جؒی کے دور کا سب سے بڑا اجتماع تھا جس میں ساتھیوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد تھی۔
          پنڈال کے دائیں حصہ میں ساتھیوں کے درمیان آپؒ کی چارپائی ہوا کرتی۔ اجتماعی پروگرام، نماز اور ذکر کے علاوہ باقی اوقات میں احباب کی ایک بڑی تعداد آپؒ کی خدمت میں حاضر رہتی۔ جن ساتھیوں کو قریب جگہ مل جاتی وہ گفتگو سے بھی مستفید ہوتے لیکن دور بیٹھے ہوئے احباب محوِ مراقبہ رہتے اور صحبت ِ شیخ سے فیض یاب ہوتے۔
          نمازِ جمعہ سے قبل قریباً 11بجے اسی طرح احباب حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر تھے۔ راقم کو اس قدر دور جگہ ملی کہ صرف زیارت ہی ممکن تھی۔ اسی اثناء میں دیکھا کہ حضرت جؒی نے خادم ِخاص    ملک احمد نواز سے دوا کے ساتھ پانی طلب کیا ہے ۔ دل میں حسرت اٹھی کہ اگر اس وقت حضرت جؒی کے قریب ہوتا تو آپؒ کے باقی ماندہ پانی کے لئے ملک احمد نواز سے درخواست کرتا۔ حضرت جؒی نے دوا لینے کے بعد پانی کا گلاس ملک احمد نواز کو تھماتے ہوئے کچھ کہا۔ ملک صاحب گلاس لئے سیدھے راقم کے پاس پہنچے اور فرمایا! ‘‘حضرت جؒی نے بھجوایا ہے’’۔
           تحدیث ِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ ایک مرتبہ روضۂ اطہرﷺکی جالی مبارک کے ساتھ بیٹھے ہوئے پیاس کی شدت حد سے بڑھی تو پانی مانگ لیا اور ایک بار نہیں، دوبار مانگا۔ درخواست تو مراقبہ کی حالت میں کی گئی تھی لیکن دونوں مرتبہ روضۂ اطہرﷺکے خادم خاص نے، جن کا اسم گرامی حسن تھا، ازخود زم زم کا گلاس پیش کیا۔ اس دنیا میں آپﷺ کی طرف سے پیاس کا درماں، حشر میں پیاسا کیونکر چھوڑیں گے جبکہ آپﷺ ہی ساقی ٔ کوثر ہوں گے!
          جمعہ کے خطاب سے قبل مسجد کا وسیع احاطہ ساتھیوں سے بھر چکا تھا۔ حضرت جؒی خطاب کے لئے تشریف لائے تو سرخ اور سفید، چھوٹے چھوٹے خانوں والا عربی رومال سرپر باندھ رکھا تھا۔ جمال ایسا کہ خطاب کے دوران چہرہ مبارک پر نگاہ نہ ٹھہرتی تھی۔ اس قدرانوارات کا وفورتھا کہ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو محسوس نہ کر پایا ہو، جس کے لئے کشف کی ضرورت تھی نہ کوئی خاص نظر درکار تھی۔ یہ حضرت جؒی کا خصوصی خطاب تھا۔
خطاب جمعۃ المبارک
            ایک حکم یا قانون کے شروع میں جس طرح مقصد بیان کیا جاتا ہے، اسی طرح حضرت جؒی نے اپنے خطاب کے شروع میں اس کا مقصد بیان فرماتے ہوئے ایک فتنہ سے متنبہ فرمایاجو اس دور کا سب سے بڑا مفسد ِعقائد ہے اور اس کی ہلاکت خیزی روزافزوں ہے، یعنی فتنۂ انکار ِحیات ُالنبیﷺ ۔ حضرت جؒی دیکھ رہے تھے کہ ایمان بالرسالت کو مجروح کرنے کے لئے قادیانیت کے بعد یہ دوسرا بڑا حملہ تھا جس کے تدارک کے لئے آپؒ نے حیاب مبارکہ کے آخری دور میں ‘‘حیاتُ الانبیاء’’ اور ‘‘حیاتُ النبیﷺ’’ کے نام سے معرکہ آرا کتب لکھیں اور اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش ِنظر اسے اپنے آخری خطاب کا موضوع بنایا۔ خطاب کے آخر میں حضرت جؒی نے سلسلۂ عالیہ کے مستقبل کے بارے میں اہم ہدایات بھی دیں۔ آپؒ کا یہ خطاب یہاں من و عن پیش کیا جاتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُوْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہ وَنَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ ۔ اَمَّا بَعْدُ فَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ فِی الْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ وَالْفُرْقَانِ الْحَمِیْدِ
فَانْطَلَقَاقف حَتّٰى اِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَاط قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَاج لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا اِمْرًاO قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًاO قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ اَمْرِي عُسْرًاO فَانْطَلَقَا قف حَتّٰى اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَهُ لا قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةًم بِغَيْرِ نَفْسٍ ط لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًاO قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًاO قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي ج قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّي عُذْرًاO فَانْطَلَقَا قف حَتّٰى اِذَا اَتَيَآ اَهْلَ قَرْيَةِ ن اسْتَطْعَمَا اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُّرِيدُ اَنْ يَنْقَضَّ فَاَقَامَهُ ط قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرًاO قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَج سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًاO اَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَهَا وَكَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًاO وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَآ اَنْ يُّرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًاO فَاَرَدْنَآ اَنْ يُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكوٰةً وَّاَقْرَبَ رُحْمًاO وَاَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلامَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَّهُمَا وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًاج فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ يَّبْلُغَآ اَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا قصلے رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ج وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِی ط ذَلِكَ تَاْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا O
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما!
اے دوائے نخوت و ناموسِ ما
اے دوائے نخوت و ناموسِ ما[1]
اے کہ افلاطون و جالینوسِ ما
تہی دستان قسمت را چہ سود از رہبرکامل
کہ خضر از چشمہ حیواں تشنہ می آرد سکندر را

            میں ایک مسئلہ بیان کرتا ہوں اور باقی کچھ ہدایات ہیں جماعت کے لئے ۔ مسئلہ اس وقت ہے تو کفرواسلام کا، لیکن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ فروعات سے ہے۔ مسئلہ حیاتُ النبیﷺ کے متعلق میں کچھ عرض کروں گا،یہ بہت چل چکا۔یہ ساتھیوں تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ اس سے پہلے یہ سمجھ لو کہ سبق کی طرح ہوگا۔ تقریر کی طرح نہیں۔ ہم اعتقادات میں، عقائد کے جتنے مسائل ہیں، اہل ِسنت والجماعت اعتقاد کے تمام مسائل میں اشاعرہ کے تابع ہیں، امام ابو الحسن اشعریؒ کے ہم تابع ہیں، مقلد اُن کے ہیں۔ عقیدہ کے جتنے مسائل ہیں،جن مسائل کا تعلق عقائد کے ساتھ ہے وہ اصولی مسائل ہیں جن پر مدار نجات کی ہے۔ ایسے مسائل میں ہم امام ابوالحسن اشعریؒ کے مقلد ہیں اور فروعات میں ہم تابع ہیں اور مقلد ہیں امام اعظم ابوحنیفہؒ کے، یہ مسئلہ یاد رکھیں۔
            پہلے یہ سمجھو، امام ابو الحسن اشعریؒ ہیں کون؟ حضرت ابو موسیٰ اشعریt مدینہ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، جلیل القدر صحابی ہوئے ہیں حضورﷺ کے، یہ ان کی اولاد میں سے ہیں۔ اشعری قبیلہ کے ہیں۔ زہد و ورع و تقویٰ کی یہ حالت ہے کہ بیس سال مغرب کے وضو کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔ ساری رات اللہ کے ذکر میں مشغول، کتابوں کی درس و تدریس یا ان کا مطالعہ، اس کے بعد توکّل علی اللہ اس قدر تھا کہ ان کے دادا یا جدّامجد کی بصرہ کے نواح میں کسی چھوٹی سی بستی میں کچھ اراضی تھی جو وہ اپنی اولاد کے لئے چھوڑ گئے تھے۔ اس بستی سے جو غلہ آتا تھا، اسی پر یہ اکتفا کرتے۔ان کے حق میں بہت سی باتیں ہیں جو میں نے بعد میں بیان کرنی ہیں۔
             ان کے حق میں جو سب سے عمدہ کتاب لکھی گئی۔ ان کے بارے میں جو بہتان تراشی ان کے بعد میں ہوئی ‘‘تبیین کذب المفتری’’  علماءِ کرام نے لکھا ہے کہ کوئی اہلِ سنت عالم اس کتاب سے خالی نہ ہو۔ یہ کتاب اس علاقے میں ملتی نہیں تھی۔ نیوی کے ہمارے کچھ ساتھی مصر گئے۔ میں نے ان سے کہا، پرانے کتب خانوں سے تلاش کریں۔ وہ کچھ کتابیں لے آئے جو ا ِس ملک میں ملتی ہی نہیں تھیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔ اس میں یہ لکھا ہے کہ کل سترہ درہم سارے سال میں ان کا خرچ تھا یعنی ایک درہم اور دوسرے کا کچھ حصہ مہینہ میں وہ خرچ کرتے تھے۔ توکل علی اللہ اس قدر تھا!
            مذہباً،ابتدا میں یہ معتزلہ تھے۔ عقیدہ ان کا معتزلہ والا تھا۔ خواب میں کئی بار نبی کریمﷺ کی زیارت ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا ‘‘مذہب وہ بہتر ہے جو نقلی ہے، مجھ سے نقل ہو کر پہنچا۔عقلیات کو چھوڑ دیں’’۔ چونکہ معتزلہ کا مذہب زیادہ تر عقلیات پرمبنی ہے، عقلی دلائل پیش کرتے ہیں، فلسفی اور منطقی۔ اگر یہ فلسفیوں اور معتزلہ کا خبیث ٹولہ نہ ہوتا تو دینی علوم میں فلسفہ اور منطق کا رواج نہ ہوتا۔ یہ پہلے اس پر تھے۔ نبی کریمﷺ  کی کئی بار زیارت سے مشرف ہونے کی وجہ سے، حضورﷺ کے ارشاد کے بعد یہ اہل ِسنّت و الجماعت کے مذہب پر آگئے۔ اس کے بعد یہ قہر ِالٰہی تھے باطل فرقوں کے واسطے۔ ایسا ہوا کہ عذاب ِالٰہی نازل ہو گیا باطل فرقوں کے واسطے۔ننگی تلوار تھے غیرمذہبوں کے واسطے۔
            اس دور میں انہوں نے ایک کتاب تصنیف فرمائی ‘‘مقالات اسلامیین بااختلاف مصلّین۔’’ وہ بھی ا ِس ملک میں نہیں ملتی تھی، بڑی کتاب ہے دو جلدوں میں۔ انہوں نے چھوڑا کوئی نہیں، اس دور میں جو مذہب نکلے ہیں، تمام کے تمام انہوں نے نقل کئے ہیں۔ مصر سے ایک ساتھی لے آیا۔ اُن کے حالات، میں اس بات پر حیران ہوں جس کی وجہ سے میں نے یہ بات شروع کی ہے۔
            امام ابوالحسن اشعریؒ کے اس تذکرہ سے دراصل میرا مقصد ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اس دور میں سب سے زیادہ زور فرقہ جہمیہ اور فرقہ کرامیہ کا تھا اور فرقہ کرامیہ کے لئے یہ ایک عذاب ِالٰہی کی مانند تھے۔ کرامیہ ان سے تنگ آگئے اور مجبور ہو گئے۔ آخر ان کے ذریعے انہیں زہر دے کر شہید کر دیا۔ کرامیہ کے بارے میں مقالات کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ کرامیہ فرقہ سلطان محمود غزنوی کے پاس وفد کی صورت میں پہنچا اور انہوں نے شکایت کی یہ شخص (ابو الحسن اشعریؒ) ہمیں بے ایمان اور بدعتی کہتا ہے حالانکہ یہ خود کفر یہ عقائد رکھتا ہے۔
            سلطان محمود غزنوی نے پوچھا کہ اس کا ایسا کیا عقیدہ ہے؟ بصرہ، عراق اور ایران اس زمانے میں سلطان محمود کی حکومت میں شامل تھے۔ اس کی بڑی وسیع حکومت تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ ہمیں بدعتی کہتا ہے، بدمذہب کہتا ہے اور اپنا عقیدہ کفر ہے جو بدعت سے بڑھ کر ہے۔کیا عقیدہ رکھتاہے؟ یہ شخص کہتا ہے کہ جناب محمد رسول اللہﷺجس وقت اس دنیوی زندگی کو ختم کر کے دنیا سے رخصت ہوئے، اس کے بعد وہ نبی نہیں رہے اور نہ ہی رسول رہے۔ پہلے بھی یہ حقیقی نبی نہیں، حکمی نبی تھے۔ (العیاذ با للہ)
             چند دن قبل ایک مولوی صاحب سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا   ‘‘حکم شے، اس کا قائم مقام ہوتا ہے’’۔ میں نے کہا غلط ہے ۔ اس نے مجھے کہا کہ عورت کو طلاق مل جائے تو تین حیض تک وہ حکم ِنکاح میں ہوتی ہے، عدت جو ہے وہ حکم ِنکاح میں ہے۔ میں نے کہا آپ کو مغالطہ ہوا ہے، آپ کو فقہ کی سمجھ نہیں۔ طلاق کے بعد عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں رہتی۔ بیوی کے متعلق جتنے احکام اس سے قبل تھے، وہ ختم ہو گئے۔ خاوند اس کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتا، وطی نہیں کر سکتا، اس کے ساتھ باقاعدہ الگ مکان میں نہیں رہ سکتا، عورت اس کے پاس رہ نہیں سکتی۔ عدت برأت ِرحم ہے، ممکن ہے کہ اس کے پیٹ میں کچھ ہو۔ یہ نکاح کے واسطے نہیں دی گئی۔ عدت برأت ِرحم کی ہے، اس لئے نہیں کہ ابھی نکاح کا حکم باقی ہے۔ میں نے کہا، یہ قاعدہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا کہ حکم شے، شے کا قائم مقام ہوتا ہے!
            غرضیکہ اس وفد نے سلطان محمود سے کہا کہ یہ شخص اس بات کا قائل ہے کہ آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہﷺ  دنیا سے برزخ منتقل ہوگئے، رسالت بھی ختم ہو گئی، نبوت بھی ختم ہوگئی۔ اگر یہ عقیدہ ہو تو محمدﷺ کے یہاں سے انتقال کرکے برزخ میں جانے کے بعد کوئی زندگی ان کو حاصل نہیں۔ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ بولتے ہیں، نہ جواب دیتے ہیں ۔(العیاذ با للہ)
            اہل ِسنت و الجماعت ہی نہیں، تمام کے تمام، سوائے معتزلہ کے، اس بات سے متفق ہیں اوراس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ جب روضۂ اطہرﷺپر صلوٰة و سلام عرض کیا جائے توآپﷺ اس کا جواب دیتے ہیں اور جو درود شریف دور سے پڑھا جاتا ہے تو اسے ملائکہ آپﷺ کی خدمت میں پہنچاتے ہیں۔ یہ اتفاقی مسئلہ ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں۔اب آکر اختلاف پیدا کیا گیا ہے۔
            اس موضوع پر ایک رسالہ لکھ کر میں نے حافظ صاحب کو دیا ہے جو عنقریب طبع ہو جائے گا۔ میں نے اس میں لکھا ہے، دنیا بھر میں کوئی ایک مفسر پیدا کر دو جو اس عقیدہ پر ہو کہ روضۂ اطہرﷺ پر جا کر صلوٰة و سلام پڑھیں تو آپ ﷺ نہیں سنتے۔ اسے چیلنج کیا ہے کہ کسی ایک مفسر، کسی ایک محدث، ایک شارح محدث، متکلمین میں سے کوئی ایک متکلم، فقہاء میں سے کوئی ایک فقیہہ، صوفیوں میں سے کسی ایک صوفی ہی کا قول پیش کر دیں جو اس کا قائل ہو کہ آپﷺ کے روضہ اطہر پر جا کر صلوٰة و سلام پیش کیا جائے تو نہیں سنتے۔ کوئی ایسا آدمی نہ ملے گا، دیدہ باید۔ میں نے لکھا ہے، کوئی مائی کا لال طاقت رکھتا ہے تو کوئی ایک قول پیش کر دے۔
            خوب سمجھ لو، موت کیا چیز ہے؟ موت کوئی عدمی چیز نہیں کہ وجود کو ختم کردیتی ہے۔ موت ایک ....... اَلْمَوْتُ جَسَر یُّوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ ۔ موت ایک پل ہے۔ دنیا ایک دریا ہے، سمجھ لو! اس کو عبور نہیں کرسکتے کہ آگے جائیں۔ موت ہمارے واسطے ایک پل رکھا گیا ہے کہ دنیا سے عبور کر کے آگے برزخ میں جائیں یا اسے ایک کشتی سمجھ لو، جہاز سمجھ لو، جس پر سوار ہو کر ہم آگے جا سکیں۔ موت ابدی چیز نہیں۔ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوْۃَ۔جس طرح زندگی کو پیدا کیا اسی طرح موت کو بھی پیدا کیا۔ وہ بھی مخلوق، یہ بھی مخلوق۔
            قانون یہ ہے کہ ایمان، نبوت، رسالت، علم، یہ صفات قائم بنفسہٖ نہیں کہ علیحدہ ہوں۔ مجھ میں علم ہے، میرے وجود میں ہی ہے، الگ علم نہیں کہ کہیں علیحدہ کھڑا ہو۔ میرا وجود نہ ہو، میرا علم کوئی نہیں۔ یہ صفات ایسی ہیں، رسالت، نبوت، ایمان، علم،یہ سماع، سننا،یہ چاہتی ہیں موصوف زندہ ہو۔ یہ ایسی صفات ہیں جو زندہ موصوف کی ہیں کیونکہ یہ قَائم لِغَیْرہٖ  ہیں، بنفسہٖ قائم نہیں، الگ نہیں ۔ کسی کے ساتھ ہی پائی جاتی ہیں۔
          اب امام ابوالحسن اشعریؒ پر جو سوال ہوا وہ اس وجہ سے ہوا۔ محمود غزنوی کے سامنے جب یہ چیز پیش کی گئی کہ وہ (امام ابوالحسن اشعریؒ)اس بات پر قائل ہیں کہ جب نبی کریمﷺ دنیا سے منتقل ہوئے تو ایمان بھی گیا، رسالت بھی گئی، نبوت بھی گئی، علم بھی گیا، ختم ہو گیا۔(العیاذ با اللہ)
            سلطان محمود نے کہا کہ اگر یہ بات جو تم کہتے ہو درست ہے تو لَاَ قْتُلَنَّہٗ،میں اس شخص کو قتل کر دوں گا کیونکہ یہ واجب القتل ہے، حلالِ دم ۔ اس نے               حضرت محمد رسول اللہﷺ کی توہین کی ہے۔ سلطان نے حکم دیا کہ اسے لایا جائے۔ پولیس گئی اور بصرہ سے لے آئی۔
            محمود غزنوی خود بڑا عالم فاضل آدمی تھا۔ اس نے غزنی میں ایک بہت بڑا دارالعلوم قائم کیا ہوا تھا۔ بڑے علماء وہاں پڑھاتے تھے، درس دیتے تھے۔ بہت بڑا کتب خانہ اس نے قائم کیا ہوا تھا۔ ہر مذہب کی ہر قسم کی کتابیں وہاں جمع کی ہوئی تھیں۔ دیندار آدمی تھا۔ علماء کا دوست تھا۔ اولیاء اللہ کا بڑا خادم تھا۔
            جب امام ابو الحسن اشعری پیش ہوئے تو سلطان نے پوچھا کہ نبی کریمﷺ کی رسالت و نبوت کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ مجھے آپ کے متعلق یہ کچھ بتایا گیا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا ‘‘ کَذَبَ عَلَیُّ النَّاقِلْ’’ ناقل نے جھوٹ بولا۔
میں جناب محمد رسول اللہﷺ کو علی الاطلاق نبی مانتا ہوں۔
            جب یہ بات مجھے پہنچی، میں نے دیکھی اور ہمارے بڑے مفتی ہیں ثقلین، جنوں اور انسانوں کے جو مفتی ہیں انہوں نے نقل کی تھی۔ یہ چیز دل میں کھٹکتی تھی کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر، جس کے ہم مقلد ہیں، اعتقادیات میں، یہ عقیدہ اس کا ہو تو ہم نے تقلید کس لئے کرنی ہے! مجھے اس کی جستجو پیدا ہوئی۔ مولویوں نے کوئی نہیں کی۔ مجھے آخر کار      ‘‘طبقات شافعیۃ الکبریٰ’’ میں یہ چیز مل گئی۔ ‘‘مقالات ِذلامی’’ میں مجھے یہ چیز مل گئی۔
            انہوں نے فرمایا: ‘‘ کَذَبَ عَلَیُّ النَّاقِلْ’’ ناقل نے مجھ پر جھوٹ بولا۔ میں   محمد رسول اللہﷺ کو علی الاطلاق نبی سمجھتا ہوں۔ علی الاطلاق کا مطلب کیا ہے؟ یہ نہیں کہ ازل میں نبی نہیں ہیں، یہ نہیں کہ دنیا میں نبی نہیں ہیں، یہ نہیں کہ وہ برزخ میں نبی نہیں ہیں، یہ نہیں کہ قیامت کے بعد نبی نہیں ہیں۔ میں ان کو ازل میں بھی نبی سمجھتا ہوں، دنیا میں بھی نبی سمجھتاہوں، برزخ میں بھی نبی سمجھتاہوں، رسول سمجھتا ہوں اور قیامت کے بعد جنت میں بھی ان کو نبی اور رسول سمجھتا ہوں۔ اور فرمایا: ھُوَحَیٌّ فِیْ قَبْرِہٖ ۔
             وہ قبرمیں، برزخ میں نبی ہیں۔ ان الفاظ کی کوئی قید لگائی؟ اس واسطے کہ وہ صفات جو میں نے پہلے بیان کی ہیں، وجودِ زندہ کو چاہتی ہیں۔ اگر زندگی نہیں؟ نبی کو اپنی نبوت کے علم کا ہونا فرض ہے۔ وہ نبی نہیں جسے اپنی نبوت کا علم نہیں، وہ رسول نہیں جسے اپنی رسالت کا علم نہیں۔ مومن، مومن نہیں جسے اپنے ایمان کا پتا کوئی نہیں۔ اس واسطے یہ صفات زندہ موصوف کو چاہتی ہیں۔ انہوں نے قید لگا دی کہ ھُوَحَیٌّ فِیْ قَبْرِہٖ آپﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں۔ یہ مسئلہ مجھے ان دو کتابوں سے ملا۔ خاص طور پر جو تفصیل ‘‘طبقاتِ شافعیۃ الکبریٰ’’ میں ملی۔ امام تاج الدین سبکی نے لکھا، عالمِ اطلاق زندہ موصوف کو یہ صفات چاہتی ہیں۔ نبی زندہ نہ ہو، زندہ نہیں نبوت کوئی نہیں، زندہ نہیں رسالت کوئی نہیں۔          (العیاذ با للہ)
            یہ سمجھ لو! حیاتِ نبیﷺ کا انکار کرنا، رسالت اور نبوت کا انکار کرنا ہے۔ آج بھی ایک ٹولہ جو یہ کہتا ہے ‘‘نبوت اور رسالت کا یہ انکار نہیں’’  میں کتابیں ساتھ لے کر آیا ہوں، یہاں موجود ہیں، جسے ضرورت ہو دیکھ سکتا ہے کہ ‘‘ایمان صفت، روح کی ہے’’۔ اب بات یہاں تک پہنچا دی ہے، ایمان صفت روح کی ہے،بالذات۔ نبوت بالذات،کہتے ہیں صفت روح کی ہے۔ جس ٹولے کی خاطراب میں یہ بات کر رہا ہوں، رسالت بالذات صفت روح کی ہے، علم بالذات صفت روح کی ہے۔ جس وقت روح جدا ہوا اور بدن الگ ہو گیا، گویا بدن ایک نوکر اور غلام ہے روح کا۔ جب تک وہ زندہ رہا اس وقت تک مزدوری لیتا رہا، رسالت کی، نبوت کی، ایمان کی، علم کی، اس وقت تک روح اس سے (مزدوری) لیتا رہا۔ روح اس سے جدا ہوا نوکری ختم ہوگئی، لہٰذا مزدوری ختم ہوگئی، نبوت ختم ہوگئی، رسالت ختم ہوگئی۔ سب کچھ ختم ۔ (العیاذ با للہ) یہ عقیدہ آج بنایا گیا ہے۔ (میز تھپتھپاتے ہوئے کہا) اس واسطے میں نے یہ بات کی ہے۔
            یہ سمجھ لو اچھے طریقے سے!
            ازلی نبی ۔ حضورﷺ نے فرمایا میں اس وقت نبی تھا، آدَمَ بَیْنَ الْمَاءِ وَالطِّیْنِ (او کما قال رسول اللہ) جس وقت آدمu مٹی اور پانی میں پڑے ہوئے تھے، اس وقت بھی محمد رسول اللہﷺ نبی تھے۔
            پھر میں نے دیکھا، تلاش کی، پڑتال کرنے کے بعد محد ّث ضیاء مقدسی اپنی کتاب ‘‘حدیث ِمختار’’ میں نقل کرتے ہیں۔ بَدِیْ  ُٔ الْخَلْقِ(او کما قال رسول اللہ) حضورﷺ نے فرمایا، مخلوق کی پیدائش کا سبب ہی میں بنا۔ پیدائش میں اوّل، بعثت میں آخر، سب سے پہلے۔ اس واسطے تمام انبیاءi بھی آپﷺ کی امت میں داخل ہیں۔ اس واسطے تاج الدین سبکی نے، اس سے پہلے کتابوں میں پڑھا ہے دیکھا ہے، انہوں نے ایک رسالہ لکھا ہے :
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ط قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِيط قَالُوۡۤا اَقْرَرْنَاط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشَّاهِدِينَ O
            اس آیت کی تفسیر انہوں نے لکھی۔ تاج الدین سبکی کا فتاویٰ سبکی تلاش کرتا رہا جو مجھے مصر سے ملا۔ اس کی پہلی جلد میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ محمد رسول اللہ ازل میں نبی تھے۔ اس کے بعد تمام نبی ان کے تابع تھے، انبیاءعلیہم السلام تمام کے تمام۔ اس واسطے آپﷺ نے فرمایا: لَوکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اِتِّبَاعِیْ
            اگر موسیٰu زندہ ہوتے، میری اطاعت کے بغیر ان کو بھی نجات نہ مل سکتی۔ یہ چیزیں، جس باطل عقیدہ کا ذکر گزرا، العیاذ باللہ، ثم العیاذ باللہ، کہ ایمان صفت بالذات روح کی بن جائے، نبوت بالذات صفت روح کی بن جائے، رسالت بالذات صفت روح کی بن جائے تو بدن کو کوئی چیز نہیں ملتی۔ پھر آج جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں:
لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ   مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ
            یہ کلمہ ہم پڑھ رہے ہیں۔ تو جس وقت نبی کریمﷺ دنیا سے رخصت ہوئے، آپﷺ کا وجود ِمقدس نبوت سے خالی، رسالت سے خالی، تو یہ حکم جو ہم پڑھ رہے ہیں، پھر غیر رسول کا پڑھ رہے ہیں؟ (میز تھپتھپاتے ہوئے فرمایا) تو اس لئے ہم کہتے ہیں کہ برزخ میں بھی پیغمبرﷺ زندہ ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں۔ ان آنکھوں سے آدمی نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں، مُردوں کے واسطے مُردہ، زندوں کے واسطے زندہ، اگر اس چیز کو تسلیم کر لوں۔
            حتیٰ کہ نیلوی صاحب ہیں سرگودھا میں، انہوں نے اپنی ‘‘ندائے حق’’ میں صفحہ چالیس پرلکھا ہے ‘‘یہ بدن انسان ہے ہی نہیں’’۔
             جسے ضرورت ہے، میں دکھا دیتا ہوں، یہاں پڑی ہوئی ہے۔ یہ بدن انسان ہی نہیں؟ گوشت پوست، ہڈی، رگ ریشہ، چمڑا، یہ ماس، یہ انسان ہی نہیں؟ کوئی پاگل آدمی ہے۔ ہم آدمu کی اولاد نہیں تو کیا ہم جنات کی اولاد ہیں؟ ہم کس کی اولاد ہیں؟ انسان نہیں؟ انسان کون ہے؟ روح ہے؟ پھر کوئی صحابی بن سکتا ہے؟ آپ ہی سے پوچھیں، جس نے محمد رسول اللہﷺ کو نہیں دیکھا وہ صحابی کیسے ہے؟ محمد رسول اللہﷺ کی زیارت باایمان زندگی میں، حیات کی قید، حیات میں نبی کریمﷺ موجود ہوں۔ اگر ایمان ہو اور اس حالت میں اگر آپﷺ کی زیارت ہو تو صحابی ہے۔ اگر وہ نہیں دیکھ سکتا، اندھا ہے مثلاً، نابینا ہے، محمد رسول اللہﷺنے دیکھا تو بھی صحابی ہے۔ خود ہو باایمان، یہ زندگی، حیات نبی کریمﷺ میں زیارت کر لی، صحابی ہے۔ اگر یہ نہیں کر سکتا، آنکھیں نہیں ہیں، نبی کریمﷺ نے اسے دیکھ لیا، صحابی ہے۔تو جس وقت روح ہوا نبی، انسان ہوا روح، تو انسان ہی نبی ہوتا ہے، غیر انسان تو نبی بھی نہیں ہوتا۔ جن تو نبی نہیں بن سکتے۔ غیر انسان جب بدن بن گیا، انسان، بدن نہ رہا تو نبی کی زیارت! کیا روح کو کسی نے دیکھا ہے؟ روح دیکھا جو کسی نے نہیں، نہ کوئی صحابی اور نہ کوئی تابعی۔ بلکہ اس چیز کو دیکھا جس میں نبی چھپا ہوا تھا۔ تو نے ماں کی زیارت کوئی نہ کی، باپ کی نہ کی۔ زیارت اس چیز کی کی جس میں ماں چھپی ہوئی تھی، باپ جس میں چھپا ہوا تھا۔ نہ کوئی صحابی، صحابی اور نہ آگے صحابہ کے دیکھنے والے تابعی، سارے ختم ہو گئے۔
            اب آگیا ‘‘جسم ِمثالی’’۔ بڑی لے دے اس پر ہوئی۔ جسم ِمثالی کے تسلیم کرنے کے ساتھ سب سے پہلے کیا چیز لازم آتی ہے؟ اُن سے پوچھیں، اس کا مادہ کیا ہے؟ تمام کائنات، جن، شیاطین، ملائکہ کو چھوڑ کر تمام کائنات مٹی اور پانی سے بنی۔ ملائکہ نور سے پیدا ہوئے،مسلم شریف میں موجود ہے۔ شیطان اور جن آگ کی پیدائش ہیں۔ روح کے متعلق سوال کرنے کے باوجود مادہ نہیں بتایا گیا، کس سے پیدا ہوا؟ یہ نہیں بتایا گیا لیکن جسم ِمثالی کا ہمیں پتا نہیں یہ کیا شے َہے اور کس سے پیدا ہوا؟ یہ الگ بات ہے۔ یہ میں نے جو اعتراض کی صورت میں سوال کئے ہیں، یہ میں نے کتاب میں درج کر دیئے ہیں۔ اعتراض میں نے کئے ہیں۔ کیا یہ جسم ِمثالی، روح کے بدن میں آنے سے پہلے زندہ تھا یا مردہ تھا؟ مردہ تھا تو کیا دفن تھا؟ زندہ ہے تو وہ روح تھا؟ بدن میں روح داخل کرنے کے بعد دوسرا روح داخل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ باتیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔
            حضرت جؒی نے عام لوگوں کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک باطل گروہ کے عقیدہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
 یہ مذہب کہتا ہے کہ سنی جو نیکی کرتے ہیں وہ ساری کی ساری اُن کو ملیں گی اور اُن کی جتنی برائیاں ہیں، جتنے گناہ ہیں وہ سنیوں کو ملیں گے اور ا ِن گناہوں کی وجہ سے وہ سارے دوزخ میں جائیں گے۔ یہ جنتی سنیوں کی نیکیوں کی وجہ سے اور سنی سارے دوزخی اُن کے گناہوں کی وجہ سے۔
            جسم مثالی کا نظریہ پیش کرنے والوں نے بھی کہا،کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ نمازیں یہ پڑھے، قرآن یہ پڑھے، روزے یہ رکھے، حج یہ کرے، پھر کیا؟ شہادتیں یہ حاصل کرے، تلوار یہ چلائے، مرے یہ اور شہید بن جائے جسم مثالی۔ جس نے اُس باطل مذہب کی بنیاد رکھی اس نے اعمال پر ضرب لگائی کہ وہ گناہ خوب کریں اور نیکی چھوڑ دیں، سنیوں کو یقین ہو جائے کہ ہماری تمام کی تمام نیکی اُن کو ملے گی تو کیوں نیکی کریں۔ اُن کو جب پتا ہے کہ گناہ جتنے ہیں، برائیاں جتنی ہیں تمام سنیوں کو ملیں گی تو خوب گناہ کیوں نہ کریں گے؟ یہ گناہ کرتے رہیں وہ نیکیاں نہ کریں۔ جسم مثالی والے نے ایسا ہی کیا کہ نیکی دنیا سے اٹھ جائے، گناہ خوب کریں کیونکہ عذاب تو جسم ِمثالی کو ہوگا، ہمیں کیا! حقیقتاً یہ مسلمانوں سے عمل چھڑانے کی کوشش ہے۔ یہ کبھی سنا ہے؟
            یہ جواب مجھے دیا گیا، جواب یہ دیا گیا کہ زنا جو کرتے ہیں، وہ کون کرتا ہے؟ لیکن پیٹھ پر کوڑے کیوں لگتے ہیں؟ جواب سنا ہے! یہ جواب دیا گیا کہ جسم ِمثالی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ میں نے کہا ارے پاگل! یہ کوئی الگ بدن ہے؟ مادہ منویہ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ  ہماری کمر سے نکل کر آتا ہے۔ یہ تمہیں کس نے بتایا ہے، یہ کوئی الگ چیز ہے؟ جسم مثالی تم الگ جسم بناتے ہو، یہ تو اسی بدن کا عضو ہے۔
            اچھا! تو محمود غزنوی کی دو چار باتیں میں نے یہاں اس لئے بیان کر دی ہیں تا کہ آپ کو پتا چل جائے، سمجھ آ جائے۔ اگر محمد رسول اللہﷺ کی زندگی کے قائل نہ ہوں، جو شخص منکر ہے وہ حضورﷺ کی رسالت کا قائل نہیں ہو سکتا۔ عبادت کون سی صورت کے ساتھ ہے۔ نبی کو اپنی نبوت کا علم نہ رہا، رسول کو اپنی رسالت کا علم نہ رہا، جس وقت یہ نہ رہا، نہ نبوت رہی نہ رسالت رہی، کوئی چیز نہ رہی۔ اس واسطے پھر لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھنا، اس سے مسلمان کوئی نہ بنے گا،  کافر رہے گا۔ العیاذ باللہ! یہ ایسا برا مذہب نکالا گیا کہ انبیاءعلیہم السلام کی توہین ہے۔
            یاد رکھیں! ہمارا اہل ِسنت ّو الجماعت کا یہ اجتماعی مسئلہ ہے۔ متواترات میں سے ہے۔ انبیاءعلیہم السلام  اپنی اپنی قبروں میں، برزخ میں، قبر کا معنی ہے برزخ، برزخ میں زندہ ہیں۔ دنیا سے چلے گئے۔ دنیا کی مثال دی ہے کہ پُل سے گزر کر دوسرے علاقے میں چلے گئے۔ اَلْمُؤمِنُوْنَ لَا یَمُوْتُوْنَ بَلْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنَ الدَّارِ اِلَی الدَّار۔ مومن مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک حویلی سے منتقل ہو کر دوسری حویلی میں چلے جاتے ہیں، تو نبی کی شان تو بہت بلند ہے۔
            پھر جسم ِمثالی کو تسلیم کرنا تناسخ کا قائل ہونا ہے۔ ہندوؤں سے یہ مذہب لیا گیا۔ ہم صور ِمثالی کے قائل ہیں۔ مثالی صورتیں ہیں۔ ادھر ایسے ساتھی کافی تعداد میں یہاں بیٹھے ہیں۔ عرب کے ساتھی، وہاں مجھے دیکھتے ہیں۔ جس وقت ذکر کرتے ہیں میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں، بتاتے ہیں۔ انہیں سے پوچھ لیں۔ استاد ساتھ ہوتے ہیں۔ انگلینڈ والوں سے پوچھو، کہتے ہیں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ جرمنی والوں سے پوچھو،کہتے ہیں،یہاں ہوتے ہیں۔ فرانس والے کہتے ہیں، یہاں ہوتے ہیں۔ صور ت مثالی شے دیدنی ہوتی ہے،      بودنی نہیں، دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کا وجود کوئی نہیں ہوتا۔ باتیں کرتا ہے لیکن اس کی بیوی کوئی نہیں، بچے کوئی نہیں، مکان کوئی نہیں، گھر کوئی نہیں، جائیداد کوئی نہیں۔ شے دیدنی ہوتی ہے بودنی نہیں ہوتی۔ اس کے ہم قائل ہیں۔ جسم ِمثالی جس کو ثواب ملے، عذاب ہو، باتیں کرے، سارے سوال و جواب ہوں، روح سے اس کا تعلق ہو جائے، روح کا دوسرے بدن سے تعلق ہو جانا۔ اسی کو تناسخ کہتے ہیں۔
            اس کا جواب دیا گیا، تناسخ اس چیز کو کہتے ہیں کہ دوسرے بدن میں روح داخل ہو اور وہی بدن دنیا میں آجائے۔ میں نے کہا، نہیں یہ غلط ہے، تناسخ کہتے ہیں روح کو دوسرا بدن مل جائے۔ اب اس کے بعد وہ دوسرا بدن برزخ میں چلا جائے خواہ دنیا میں آ جائے۔ تناسخ ہندوؤں کا مسلک ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے۔ اسی کو اپنا لیا اور مان لیا، جس وقت روح کے لئے دوسرا بدن تسلیم کر لیا گیا۔ بدن کے تسلیم ہونے کے بعد وہ بدن خواہ برزخ میں چلا جائے خواہ دنیا میں آ جائے، تناسخ اسی کو کہتے ہیں۔ یہی تناسخ ہے جو ہندوؤں کا وضع کردہ ہے۔ عقیدہ ان سے لیا گیا۔ یہ مسئلہ جسم ِمثالی کے عذاب ثواب کا، یہ شیعوں سے لیا گیا۔
  یہ سمجھ لیں! ہمارا اہل ِسنّت و الجماعت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے۔ انبیاءعلیہم السلام زندگی میں جس طرح رسول ہیں، وفات کے بعد دنیا سے منتقل ہو کر برزخ میں جانے کے وقت بھی ویسے ہی رسول ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے ۔دنیا میں بدن بالذات مکلّف ہوتا ہے۔ عمل یہ کرتا ہے، روح اس میں پوشیدہ ہے۔ برزخ میں جا کر بالذات روح مکلّف ہو جاتا ہے، بدن اس کے تابع ہوتا ہے۔ کام وہاں جتنے ہیں وہ روح کرتی ہے۔ مکلّف میں اور تکلیف میں فرق ہے۔ ادھر بدن بھی نبی، بدن بھی رسول، روح بھی نبی، روح بھی رسول، برزخ میں بدن بھی نبی، بدن بھی رسول، روح بھی نبی، روح بھی رسول، آخرت میں جا کر، جنت میں وہاں پہنچ کر بھی، بدن بھی نبی، رسول، اسی طرح روح بھی نبی اور رسول۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔
            جو شخص یہ کہتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام وہاں زندہ نہیں، وہ حقیقتاً انکار کر رہا ہے نبوت اور رسالت کا کیونکہ وجود زندگی چاہتا ہے۔ جس وقت مر گیا کچھ بھی نہیں،نہ نبی رہا نہ رسول رہا، کوئی کچھ بھی نہیں۔
            ایمان کس کو کہتے ہیں؟ ایمان کہتے ہیں تصدیقِ قلب، اقرار باللّسان۔         تصدیق باالقلب واقرار باللّسان، دل میں یقین ہو اور زبان پر اقرارہو کہ اللہ تعالیٰ        وحدہ ٗ لاشریک ہے، رسول برحق ہیں،  کتابیں برحق ہیں، ملائکہ برحق ہیں، جہان حادث ہے، تقدیر ٹھیک ہے، جنت دوزخ بھی موجود ہیں۔ یہ ہے ہمارا عقیدہ۔ عقیدہ تصدیقِ قلبی کو کہتے ہیں۔ اقرار باللّسان احکام بجا لانے کے واسطے۔ اگر ضروری ہے تو منہ سے کہے۔ جس وقت مر گیا وہ زندہ ہے ہی نہیں، تصدیقِ قلبی کس طرح کرے گا؟ نبی کو رسالت کا علم کس طرح ہو گا؟ نبوت کا علم کہاں سے آ گیا؟ جو شخص انبیاء علیہم السلام کی حیات کا قائل نہیں، وہ منکرِ نبوت اور منکرِ رسالت ہے۔
            محمود غزنوی نے جب ان سے یہ بات پوچھی، اس کے بعد کیا لکھتے ہیں؟ اس وقت یہ عقیدہ رکھنے والا کہ انبیاءعلیہم السلام ختم ہو گئے ہیں۔ دنیا سے گئے تو بس ختم ہو گئے ہیں۔ اس عقیدہ والے کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ اَقْتُلَنَّہٗ۔میں اس کو قتل کر دوں گا، یہ بات صحیح ہے۔
            دوسرا واقعہ موجودہے۔ سلاطین ِعثمانیہ حرمین شریفین کے جس وقت متکلّف تھے۔ کوفہ کا وکیع بن جراح ایک عالم آیا۔ کوفہ کا رہنے والا، وکیع بن جراح اس نے آکر مکہ مکرمہ میں تقریر کی۔ جس کو ‘‘طبقات ابن سعد’’ نے نقل کیا۔ ‘‘طبقات ابنِ سعد’’ اس وقت عالم اسلامی سے ختم ہو چکی تھی، یورپ میں طبع ہوئی۔ یورپ والے طبع کریں اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذات گرامی پر حملے کیوں نہ ہوں۔ اس نے تقریر میں یہ بات کہی کہ نبی کریمﷺ کو دیر سے دفن کیا گیا، تین گستاخانہ کلمات کہے، العیاذ باللہ۔ یہ بات خلیفۂ عثمانی تک پہنچی۔ وکیع بن جراح کوفے کا عالم آیا اور اس نے کہا یہ تقریر میں نے کی۔ اسی وقت مفتی ٔ حرمین، قاضی القضاة، چیف جسٹس جس کو کہتے ہیں، با دشاہ نے ان سے فتویٰ طلب کیا کیونکہ قانونِ اسلامی سے تو وہ واقف تھا۔ انہوں نے فوری فتویٰ دیا کہ اس کو سولی پر لٹکا کر قتل کردیا جائے لیکن سفیان بن عیینہ بڑا فاضل ہوا، اس نے بادشاہ سے جا کر سفارش کی۔ سفارش کے بعد بادشاہ سزا پر عمل درآمد کر نے سے رک گیا۔ الگ ہونے کے بعد اس نے فوراً اسے کہا کہ تو مکہ سے نکل جا اور مدینے چلا جا۔ پہلی جلد ‘‘نسیم الریاض، الشفا ء بتعریف حقوقِ المصطفیٰ’’ قاضی عیاض کی، ‘‘نسیم الریاض’’ شرح ہے، جس میں لکھا کہ اختلاف ہے۔ اختلاف اس بات میں کہ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قتل نہ کیا جائے۔ اس میں سرخی قائم کی کہ نبیﷺ کی موت کا کہنے والا، وہ واجب القتل ہے اور کافر ہے یا مسلمان ہے؟ وہ صرف یہ کہتا تھا کہ قتل نہیں ہو سکتا۔ جس وقت سفارش کی۔ اس کے بعد لکھا ہے ۔ ثُمَّ نَدَمَ۔ پھر پشیمان ہوا، میں نے کیوں معاف کیا! پھر تلاش کیا وہ کدھر گیا۔ وہ نکل چکا تھا۔ مدینے چلا گیا۔ پروانہ جاری کیا کہ اس کو فوری تلاش کیا جائے۔ اس کے بعد مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ فلاں آدمی آرہا ہے جس وقت وہ آئے تو اسے رَجم کر دیا جائے، اسے پتھر مار مار کر مار ڈالا جائے۔ اس کے بعد سفیان بن عیینہ جس نے پہلے سفارش کی تھی اسی نے ایک آدمی کو رقعہ دے کر بھیجا کہ مدینہ نہ جاؤ، کوفے واپس چلے جاؤ۔
            علماء کا اس پر کچھ اختلاف ہوا کہ آیا اس شخص کو کفر کی وجہ سے قتل کیا جا رہا تھا یا سزا ہی قتل تھی، اس مسئلے کو پہلے میں نقل کر چکا ہوں۔ لیکن یہ مسئلہ جس کی جستجو میں نے اس وجہ سے کی کہ حضرت ابو الحسن اشعریؒ پر جو بہتان تھا کہ وہ یہ بات کہتے ہیں، اس سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ پھر مجھے تلاش کرنی پڑیں تو ‘‘در المنتقا’’فتاویٰ ہے فقہ کا، اس میں لکھا ہے کہ امام ابو الحسن اشعریؒ پر بہتان اور افتراء ہے کہ انھوں نے یہ بات کہی کہ العیاذ باللہ نبی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد نبی حقیقی نہیں رہے۔ ایمان، رسالت اور نبوت ختم ہو چکی ۔ یہ بہتان تراشی کی گئی۔ علامہ شامی نے تیسری جلد شامی میں نقل کیا لیکن لیا انہوں نے بھی ‘‘درالمنتقا’’سے ہے۔ انہوں نے نقل کیا کہ نہیں، وہ اس بات کے قائل تھے کہ ‘‘ ھُوَحَیّ فِیْ قَبْرِہٖ’’ کہ اپنی قبر میں محمد رسول اللہﷺ زندہ ہیں۔
            تو اس وجہ سے میں نے یہ مسئلہ بتا دیا کہ کل کوئی اٹھے اور جسمِ مثالی پیش کرے تو اس سے کہو یہ عجیب ہے کہ گناہ کرے دادی اور چَٹی پڑ جائے پوتوں کو۔ قصور کوئی کرے اور بھرے کوئی۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ جب تک نبی دنیا پر مبعوث نہ ہو، قوم کو بتایا نہ جائے...... وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا...... ہم کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے جب تک رسول بھیج کر اس کو تنبیہ نہ کر دیں۔
وَلَوْ اَنَّا اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيٰاتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى O
            میں نے کیوں ان کو ہلاک نہیں کیا، قریش مکہ کو۔ اگر میں تیرے آنے سے پہلے، محمد رسول اللہﷺ کے آنے سے پہلے، ان کو ہلاک کر دیتا  تو  یہ کہتے اے رب کیوں نہیں رسول بھیجا،  ہم اس ذلت سے، خواری سے اور اس عذاب سے پہلے بچ جاتے۔
فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ آيٰاتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ اے اللہ!
            اس دن، قیامت والے دن، میں ان کو ہلاک پہلے کر دوں، عذاب دوں تو یہ کہیں گے فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ یہ مخلوق کہہ سکتی تھی کہ اے رب ہماری طرف رسول بھیجا ہوتا۔ فَنَتَّبِعَ آيٰاتِكَ۔ تیرے کلموں کی ہم اطاعت کرتے۔ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ ہم مومن بن سکتے تھے۔ ہماری طرف رسول نہیں آیا، اعتراض کرسکتے تھے۔
            میں پوچھتا ہوں آیا جسمِ مثالی دنیا پر آیا؟ دارِ تکلیف میں آیا؟ اس کی طرف نبی بھیجا گیا؟ اس کو خطاب کیا گیا؟ وہ مکلف ہے؟ پھر مکلف نہیں ہے تو عذاب اور ثواب کس بات کا، عجیب ہی بات ہے! اس وجہ سے کہ کل کوئی اٹھے، وہ جی، جسمِ مثالی کو سب کچھ ملتا ہے۔ جسم ِمثالی نہ کوئی شے ہے، نہ کوئی اس کا وجود ہے۔ صورِ مثالی ہیں، ہم ان کے قائل ہیں، تمام اہل سنت و الجماعت۔
            علامہ سیوطی نے ایک مستقل کتاب لکھی۔ اولیاء اللہ کی معاونت کے واسطے۔ ‘‘المثانی فی صور الولی۔’’ یہ چھوٹی بحث میں نے اس لئے کر دی کہ آج کل یہ مسئلہ بڑا چل رہا ہے۔ متنبہ رہیں، خیال رکھیں، ہمارا عقیدہ یہ ہے ۔
            قرآن کریم یہ کہتا ہے۔ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ یہ رسول کن کو کہا گیا؟آدمu سے لے کر عیسیٰu تک سب کو رسول کہا گیا۔ تِلْكَ الرُّسُلُ، یہ سارے رسول گزرے۔ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی۔ لَانُفَرِّقُ  بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۔ ہم نے کسی رسول کے درمیان فرق نہیں ڈالا، کس بات کا؟ کسے مانیں اور کسے نہ مانیں۔ ان کو قرآن، رسول کہتا ہے اور آج یہ اٹھ کر کہتا ہے، نہیں، بس ختم، ایمان صفت، نبوت صفت، رسالت صفت روح کی، روح لے کر الگ ہو گیا۔ نبیﷺ  اسی طرح پڑے ہیں۔ (العیاذباللہ)
            اس کے بعد دوسری چیز، جماعت کے متعلق جو میں نے عرض کرنی ہے، وقت تھوڑا ہے۔
            یہ سمجھ لو! زندگی موت کا کوئی پتا نہیں۔ سارے ساتھی، کسی کی پہلے اور کسی کی بعد، مانگی ہوئی چیز ہے، عاریۃً۔ یہ زندگی ہماری ذاتی چیز نہیں یہ وجود بھی ہمارا ذاتی نہیں۔ امانت ہے اللہ تعالیٰ کی۔ اس واسطے لکھا ہے کہ ایک پیوند لگانا، ایک عضو جدا کر کے، دوسرے کسی انسان کو دینا، یہ جائز نہیں۔ شرعاً کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان کو وہ عضو لگا دیا جو آج کل ڈاکٹر کرتے ہیں، یہ حرام ہے شرعاً۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وجود ہماری ذاتی چیز نہیں بلکہ یہ ایک امانت ہے ہمارے پاس، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی۔ اس کا ہمیں اعتبار کوئی نہیں۔ جس وقت چاہے، ہم سے واپس لے لے۔ اس واسطے میں یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں، ساتھیوں کو۔
          [2]میں اس چیز کو اپنے بعد، یہ بنیاد سمجھ لو۔ میں چار آدمی مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ چوتھا ابھی نہیں، تین میرے ذہن میں آچکے ہیں، چوتھے کی جستجو میں ہوں، خلفاء اربعہ کی شکل میں۔ حضرت صاحب (حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ) سن رہے ہیں۔ میں نے مشورہ کسی سے نہیں کیا۔ مشائخ سے بھی نہیں کیا لیکن بات میں ان کے سامنے کر رہا ہوں، چار آدمی۔
          ملک محمد اکرم، سیّد بنیاد حسین شاہ، میجر بیگ، تین میری نظر میں آگئے ہیں۔ ان تینوں کے واسطے وہی حکم ہو گا جو میرے واسطے ہے۔ منازل ِبالا ان کو طے کرانے کی اجازت ہو گی لیکن ان کو بھی میں یہ ہدایت کروں گا، اس آدمی میں استعداد دیکھو، اس کی اہلیت دیکھو، متبع شریعت ہے یا نہیں؟ متبع سنت ہے یا نہیں؟ اخروی علم اس میں ہے یا نہیں؟ وہ اس طاقت کا مالک بن بھی سکتا ہے یا نہیں بن سکتا؟ اس کو آگے چلا سکتے ہو، جہاں تک مرضی ہے، جہاں تک جا سکتا ہے۔ سلوک ختم ہونے والی چیز نہیں ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہاں پہنچایا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوحu کی عمر اگر میری ہو تو سلوک ختم نہیں ہوتا۔ یہ چلتا ہی رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی انتہا کوئی نہیں، اس کی انتہا کوئی نہیں۔ یہ میں تمہارے سامنے ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ سارے دماغ اس کے متحمل نہیں ہوتے کہ اس کو برداشت کر سکیں۔ معاملہ بہت عجیب ہے۔ اسی واسطے مولانا رومؒ دعا کیا کرتے تھے، اللہ اس بدن سے روح کو چھڑا کہ سیر کراؤں دنیا میں، جو ملک ہیں ان میں۔ چیز وہ کہ سکندر ذوالقرنین کی حکومت رکھنے والے، کسریٰ، قیصرِروم کی حکومت رکھنے والے بھی آرزو کرتے، کاش یہ چیز مل جائے! مجھے وہ چیز ملی۔
          ان میں سےتینوں، چاروں میں سے روحانی بیعت کی صرف اجازت ہو گی تو ایک اکرم کو ہوگی، اس کے پاس جانا پڑے گا۔ اور اس کے بعد اگر کسی کو کوئی دینی پڑی، کسی شخص کو اجازت دینی، خلافت دینی، وہ اس کے اختیار میں ہوگی۔ اس کے ساتھ مشورہ کیا جائے گا، آیا دیتا ہے یا نہیں دیتا ہے۔ نہ دے تو پھر نہ دے۔
          اگر خدانخواستہ اکرم نہیں رہتا تو اس کی جگہ پھر سیّد بنیاد حسین شاہ ہو گا۔ مشورہ اس کا مقدم ہو گا سب پر۔ وہ علم والا آدمی ہے، سمجھدار ہے۔ چوتھے کی میں تلاش میں ہوں، وہ ہے نہیں۔ میں خلفاء اربعہ کی شکل میں چھوڑنا چاہتا ہوں۔
          اس کے بعد اس طرح سے ہے، میں یہ دیکھ چکا ہوں۔ میری طاقت نہیں رہی کہ میں ملک میں پھروں۔ بڑی دنیا تڑپتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس چیز کی طلب ساری دنیا کو ہے۔ بندہ آگے سنبھالنے والا کوئی نہیں ملتا۔ اگر ہم نے منوایا ہے کسی کو، یہاں بڑی بڑی طاقتیں اگر جھک گئی ہیں، فلموں سے نکالے ہیں، کلب گھروں سے نکالے ہیں، شراب خانوں سے نکالے ہیں، بدکاری کے اڈوں سے نکال کر لائے ہیں اور مسجد کے تنکوں پر رُلائے ہیں، منارہ کے پتھروں پر رُلائے ہیں۔ سب نے برداشت کیا، ریشمی گدیلوں پر سونے والے!
           وہ کون سی چیز تھی؟ وہ اللہ کے نام کی برکت تھی جو کھینچ کھینچ کر لے آئی۔ یہ مناصب ہوتے ہیں۔ بعض منصب ایسے ہوتے ہیں کہ اس آدمی کے وجود میں اللہ تعالیٰ مقناطیسی قوت رکھ دیتا ہے جو کھینچ کھینچ کر، گھسیٹ گھسیٹ کر اپنی طرف لے آتی ہے۔
         اس کے بعد جو دور دور کے ملکوں میں رہتے ہیں۔ مثلاً ایران میں جو لوگ رہتے ہیں، ان میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہیں جو کرایہ بھی نہیں برداشت کر سکتے، جو آٹھ آنے کرایہ خرچ کر سکیں، تو میرے پاس کس طرح آئیں؟ اسی طرح یہ اگلا علاقہ جو پڑا ہے۔ اسی طرح وزیرستان کے جو علاقے ہیں، اس واسطے میں نے کچھ آدمی منتخب کئے ہیں جو میری زندگی میں میری طرف سے بیعت لیتے رہیں، میرے بعد مستقل لے سکتے ہیں۔ مولوی غلام مصطفیٰ شنکیاری والے، اس اوپر والے علاقے کے لئے۔ غازی مرجان، صوبیدار میجر غازی مرجان، وزیرستان کے لئے۔ بلوچستان کے لئے دو آدمی، ایک آدمی سیّد محمد حسن پہلے ہی سجادہ نشین ہیں۔ ریاست قلات واسطے               مولوی عبدالغفور اور ایران واسطے مولوی خان محمد، یہ آدمی ہیں۔ لیکن ان کو فنا بقا اور     سالک مجذوبی سے آگے کرانے کی اجازت کوئی نہ ہوگی۔ میں نے اب کہہ دیا تو نہ ہو سکے گی۔ یہ سارا زور لگا لیں، میرے منہ سے نکل گیا، نہ ہو سکے گی، بس نہ ہوگی۔ زور لگاتے رہیں آگے لے جائیں، آگے پہاڑ ہیں، اس سے آگے نہ ہو سکے گی۔ میرے منہ سے ہاں نکلی، ہاں ہوگی، نہ نکل گئی، نہ ہوگی۔
          ہوں تو میں بھی تمہاری طرح، لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ قوت دی ہے۔ میں نے جو بات کہہ دی، اس کے خلاف کیا گیا ذرہ برابر، اپنے مرتبے سے گر کر نیچے آجائے گا۔ پھر وہ ساری زندگی، وہ مرتبہ حاصل نہ ہو سکے گا۔ خلاف نہیں کر سکتے۔ ان کو سالک مجذوبی کرانے کی اجازت ہو گی، مراقبہ مُو تُو کرانے کی، فنا بقا کرانے کی۔ اس سے آگے اگر کرایا تو ان چاروں خلفاء، روحانی بیعت کرائی یا کرانا تو وہ آگے اکرم کے پاس لے جائیں۔
          یہ یاد رکھیں! یہ بات کیسٹ میں بھی آگئی، میں اس کو قلمبند بھی کردوں گا۔ ان سے نیچے جو لوگ ہیں، اور بھی تو صاحب ِمجاز ہیں، ان کو فنا فی الرسول تک کرانے کی اجازت ہو گی۔ فنا فی الرسول کرائیں، اس کے بعد ان کی استعداد دیکھیں پھر باقی ساتھیوں کے حوالے کریں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہے ہر آدمی نے!
         اس واسطے یہ بات کر دی کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ زندگی عاریۃً مانگی ہوئی، یہ اپنی ذاتی چیز کوئی نہیں۔ میری موجودگی میں، میں خود سنبھال لوں گا جو کچھ ہوا۔ کوئی ترمیم ان میں کرنی پڑی یا ان میں خدا نہ کرے، نہ کرے خرابی پیدا ہو جائے۔ میں نے یہ کیوں کہا چار آدمیوں کا۔ ایک میں خرابی پیدا ہو جائے، شیطان زندہ ہے، نفس ساتھ ہے، شیطان زندہ، نفس اس کا ایجنٹ ہے۔ کل ایک میں خرابی ہو اور ایک ہی کے سپرد ہو، ساری بیڑی، جو میری پچاس سال کی محنت ہے، ساری غرق کر کے رکھ دے۔ ایک خراب ہو دوسرا سنبھال لے گا، تیسرا سنبھال لے گا، چوتھا سنبھال لے گا۔ یہ چھوٹے جو ہیں، دوسرے پانچ چھ آدمی جو میں نے مقرر کئے ہیں۔ یہ ان کے لئے ہیں جو آ نہیں سکتے۔ ان کی بیعت میری طرف سے لیں، اس کے بعد مستقل لیتے رہیں اور جو نیچے درجہ کے آدمی ہیں، فنا فی الرسول سے آگے کچھ نہ کرائیں۔ بس، یہیں چھوڑ دیں، آگے جیسی استعداد ہو گی۔
وَآخِرُ دَعْوٰانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
            جناب صدیق ِاکبرt کی سنت کے عین مطابق جس کا اظہار غم و اندوہ کی صورت میں انہوں نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا، حضرت امیرالمکرم بھی اس حقیقت کو پا گئے کہ یہ حضرت جؒی کا آخری بڑا اجتماع ہے اور آخری اہم خطاب۔ اس سے قبل حضرت جؒی نے متعدد مرتبہ حضرت امیر المکرم کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا لیکن 21اکتوبر کے اس اعلان کے بعد کہ آنے والے دور میں سلسلۂ عالیہ ان کے سپرد کیا جا رہا ہے، وہ غم و اندوہ میں ڈوب گئے کہ یہ آپؒ کی روانگی کا اعلان بھی ہے۔ کھل کر تو اظہار نہ کر پائے لیکن دبی زبان میں ان سے یہ ضرور سناگیا کہ شاید اب جدائی کا وقت قریب ہے۔
          حسبِ پروگرام جمعہ، ہفتہ کی درمیانی شب حضرت جؒی نے لنگر مخدوم میں قیام فرمایا۔ مغرب اور تہجد کے بھرپور اذکار ہوئے۔ احباب کی کثیر تعداد رات بھر حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ کے مزار پر ٹولیوں کی صورت میں مصروفِ ذکر رہی۔ صبح چھ بجے لنگر مخدوم کا یہ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ حضرت جؒی روانگی سے قبل حضرت سلطان العارفیؒن اور حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے مزار پر الوداعی سلام کے لئے حاضر ہوئے تو یہ آپؒ کی آخری حاضری تھی۔ قاضی ثناء اللہؒ (لیٹی والے) حضرت جؒی کی روانگی کے وقت سے آگاہ نہ تھے۔ حضرت جؒی گاڑی میں بیٹھ گئے تو کچھ لوگوں نے مصافحہ کیا۔ قاضی جؒی بھی آگے بڑھے لیکن چلتی گاڑی میں وہ صرف آپؒ کے دست ِمبارک کو چھو سکے۔ اس وقت ان کی خوشی کا عالم دیدنی تھا۔ کہنے لگے ہمارا تو  کام ہو گیا۔
            یہ بات حضرت جؒی کو معلوم ہوئی تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘تاریخِ تصو ّف میں کسی کا ایسا شاگرد نہیں ہوا ہوگا۔’’
            لنگر مخدوم سے واپسی پر حسبِ معمول حضرت جؒی نے میانہ کوٹ میں مخدوم خاندان کے ہاں ایک رات قیام فرمایا۔ 23، 24 اکتوبر آپؒ کا قیام بھکر بار میں تھا۔ حضرت جؒی کا اکثر یہ معمول رہا کہ لنگر مخدوم سے واپسی پر اپنے خادمِ خاص ملک احمد نواز اور بھکر بار کے ساتھیوں کی دلجوئی کے لئے ایک رات یہاں قیام فرماتے۔ حضرت امیرالمکرم نے دورانِ قیام اہلِ دیہہ کے اجتماع سے خطاب فرمایا۔
            اگلی صبح حضرت جؒی کی چکڑالہ واپسی ہوئی۔



[1]ـ حضرت جؒی نے یہ مصرعہ دو بار پڑھا۔
[2] سلسلہ عالیہ کے بارے میں مستقبل کے لئے ہدایات

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو