ANTI-ADBLOCK JS SYNC اوائل زندگی ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

اوائل زندگی

اوائل زندگی

حضرت جیؒ 1904ء میں ضلع میانوالی کے ایک دور افتادہ گاؤں چکڑالہ میں پیدا ہوئے جو فتنۂ چکڑالویت کے بانی عبداللہ چکڑالوی کے حوالے  سے برصغیر میں خاصہ متعارف ہے۔ کوہِ سلیمان کی ایک شاخ کے دامن میں  مشرق کی جانب یہ گاؤں  تلہ گنگ میانوالی روڈ کے اڈہ ‘بَن حافظ جی’ سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ زمین چٹیل اور ریتلی ہے، اگر بارش ہوجائے  تو کچھ پیداوار ہو جاتی ہے وگرنہ خشک سالی  یہاں کا مقدر ہے۔  فطرت کے مقاصد کی نگہبانی اور دین ِ  فطرت کے احیاء کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس بندہ  ٔ صحرائی سے کام لینا تھا، اس کی تربیت، پختگیٔ    کردار، ہمت و عظمت اور جفاکشی و مردانگی کے لئے شاید ایسی ہی سنگلاخ  اور چٹیل زمین کی ضرورت تھی جو زرخیز تو خو ب تھی لیکن  ابر ِرحمت کی منتظر۔    حضرت جؒی کی ذات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو بے پناہ صلاحیتوں سے خوب نوازا تھا جو اوائل عمر میں تو ظاہر نہ ہوئیں لیکن  ابرِ کرم کی پہلی پھوار پڑتے ہی یوں چمک اٹھیں کہ دنیائے تصوف کے راہ نوردوں کے لئے شمع ہدایت فروزاں کر گئیں۔
          آپؒ کے والدِ گرامی کا نام ذوالفقار خان تھا اور تعلق قبیلہ اعوان سے، جس کے جد امجد حضرت علیt  ہیں۔ آپؒ   کا خاندان سرجال اعوان کے نام سے مشہور تھا اور کچھ  ہی عرصہ پہلے کالا باغ سے چکڑالہ منتقل    ہوا تھا۔  آپؒ کے والد بہت جری تھے اور علاقہ بھر میں سرجال قبیلہ کی ایسی دہشت تھی کہ نووارد ہونے کے باوجود کوئی شخص مخالفت کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ مضافاتِ چکڑالہ میں حضرت جیؒ  کا ڈیرہ خاندانی تعارف کی نسبت سے  ڈھوک سرجال کے نام سے مشہور ہوا۔ یوں  تو چار سو کنال زرعی اراضی بھی تھی لیکن زمین بارانی ہونے کی وجہ سے پیداوار بہت کم تھی جو بمشکل کفالت کرتی۔ اس طرح     حضرت جؒی نے قناعت وسادگی  ورثے میں پائی ۔آپؒ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ دین اورعلم سے یکسر خالی تھا۔ یہ لو گ مسلمان تو کہلاتے لیکن نام کی حد تک، دین سے ناواقف اور عمل سے دور۔ کسی بڑے بوڑھے کی ذات تک صوم وصلوٰة کی پابندی خال خال نظر آتی لیکن اکثریت کا شغل لڑائی جھگڑا، چوری چکاری، دشمنی اور قتل، جس کا نتیجہ جیل اور پھانسی گھاٹ۔
          اسی پس منظرمیں حضرت جیؒ کا بچپن پروان چڑھا لیکن شروع سے ہی آپؒ کی شخصیت میں فطرت ِ صالحہ نمایاں تھی۔ حقہ اور سگریٹ جیسی خرافات سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر برائی سے دل میں نفرت پیدا فرمادی۔ وہ لڑائی جھگڑے اور جاہلانہ تفاخر جو اس ماحول میں بڑائی کی علامت تصور کئے جاتے، آپؒ کے مزاج کے خلاف تھے۔ دل کا میلان ہمیشہ دینِ حق کی طرف رہا اور جب سے ہوش سنبھالا کبھی نماز قضا نہ ہوئی۔ چکڑالہ کے ماحول سے الگ تھلگ اڑھائی تین میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے ڈیرے پر قیام تھا۔ کھیتی باڑی میں والد کاہاتھ بٹاتے۔ کچھ بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ ایک مرتبہ بیری کے درخت سے ان کے لئے شاخیں کاٹ رہے تھے کہ پاؤں پھسلا  اور درخت سے گر گئے۔ دائیں ٹانگ پر چوٹ لگی جس کا اثر پوری عمر رہا اور موسم سرما میں اکثر درد محسوس کرتے۔ ٹانگ کی چوٹ کی وجہ سے عمربھر عصا  کا ساتھ رہا۔اس طرح بکریاں  چرانے کے مشغلے اور عصا کی بنا پر نہ صرف موسوی نسبت پائی بلکہ آپؒ کا مزاج بھی موسوی تھا۔ کھرا پن  اورغضب کا جلال، یہ رنگ آپؒ   کی شخصیت  میں  اوائلِ عمر سے ہی جھلکتا   نظر آیا۔
            حضرت جیؒ  دس برس کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپؒ کے دو  بھائی تھے جن میں سے  ایک کا تو جوانی میں ہی انتقال   ہو گیا۔ بہادر نامی دوسرا بھائی چکڑالہ کے ماحول کی تصویرتھا جو  علاقہ کی  با اثر شخصیات کی پشت پناہی سے  آپؒ کے لئے ہمیشہ ایذاء رسانی کا موجب بنا رہا۔  سامنے آنے کی  جرأت  تو کبھی نہ کر پایا لیکن اس کی درپردہ سازشوں سے عمر بھر  آپؒ   اس سے نالاں رہے۔ اکثر فرمایا کرتے، شکر ادا کرو، اگر میں بھی اپنے بھائی کی طرح جاہل ہوتا تو یہاں کمزور لوگوں کا رہنا محال ہوتا۔
            حضرت جیؒ  کا اپنے بھائی سے اختلاف زمین، جائیداد یا کسی دنیوی مفاد کی وجہ سے نہیں بلکہ فکر و عمل کے تضاد کے باعث  تھا۔ حضرت جیؒ نے اصلاح کی کوشش کی تو سرکشی پر اتر آیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ لڑائی تک نوبت آپہنچی۔ یہ شخص بدطینت عناصر کے ہمراہ ہمیشہ آپؒ  کی مخالفت پر تلا رہا خواہ یہ الیکشن کا میدان ہوتا یا مقامی تنازعات۔ چکڑالہ میں حضرت جؒی کی ذات ہر مظلوم کا سہارا تھی۔ آپؒ جب بھی کسی مظلوم کی دادرسی کے لئے ظالم کے مدِّمقابل کھڑے ہوتے تو اکثر اپنے بھائی سے ہی واسطہ پڑتا۔ 
            جوانی کے ابتدائی ایام میں حضرت جؒی   کی شادی ہو گئی۔ بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے معاشی حالات اچھے نہ تھے جو  پہلی عالمی جنگ کے بعد  مزید خراب ہو گئے اور ملازمت کی ضرورت  پیش آئی۔ آپؒ کے ماموں پشاور پولیس میں تعینات تھے، انہوں نے آپؒ کو پولیس  میں بھرتی کرا دیا لیکن مزاجِ باصفا کو یہ ملازمت پسند نہ آئی۔ ایک سال بعد ملازمت چھوڑ دی اور گھر چلے آئے۔ بعد میں وارنٹ جاری ہوئے تو خود پشاور پہنچ گئے۔ افسرانِ بالا نے نوکری  پربحال کرنا چاہا تو  آپؒ نے انکار کر دیا اور قید کاٹنا منظور کیا لیکن پولیس کی ملازمت کے لئے طبعاً آمادہ نہ ہو سکے۔
          ماموں دوبارہ پشاور لے گئے اوراس مرتبہ جیل کے عملہ میں بھرتی   کرادیا۔ ملازمت کی ابتداء کوہاٹ جیل میں بطور گارڈ ہوئی۔ یہاں آپؒ نے  ذاتی شوق اور محنت سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے بلاکی ذہانت اور قوتِ حافظہ سے نوازا تھا،  نہایت مختصر وقت میں پرائمری کا مروّجہ نصاب مکمل کر لیا ۔ اس زمانے میں جیل کا اکثر عملہ اَن پڑھ ہوتا تھا چنانچہ آپؒ کی قابلیت اور تعلیم کی بنا پر جیل منشی کی ڈیوٹی سونپ دی گئی۔ اس ڈیوٹی کے دوران  مطالعہ کے لئے وافر وقت ملا تو حضرت جیؒ نے دینی تعلیم کا بھی آغاز کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد مزید ترقی ہونے والی تھی کہ داروغہ جیل سے اَن بَن ہو گئی۔ یہ شخص ہندو تھا اور قیدیوں کا راشن خردبرد کرنے کا عادی۔  بطور جیل منشی حضرت جؒی کی ذمہ داری میں قیدیوں کے راشن کا حساب لکھنا بھی شامل تھا۔ روزانہ خرچ کے مطابق  آپؒ ہر چیز کی درست مقدار تحریر فرماتے جس کی وجہ سے  داروغہ جیل کے لئے راشن کی ہیرا پھیری ممکن نہ رہی ۔ اس نے ساتھ ملانے کے لئے  مختلف حربے استعمال کئے لیکن جب کامیابی نہ ہوئی تو سخت گیری پر اترآیا۔ایک روز ناحق رعب جماناچاہا لیکن مزاجِ موسوی ہندو  داروغہ کی سینہ زوری برداشت نہ کر سکا۔ اس وقت آپؒ کے ہاتھ میں جیل کی چابیوں کا بھاری گچھا تھا، وہی داروغہ کے سر پر دے مارا۔یہ صورت تو کچھ ایسی ہی تھی:
فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِ قز
تو موسیٰ(u) نے ایسا گھونسا مارا   سو اس کا کام تمام کردیا۔( القصص ۔15)
          البتہ حضرت جیؒ کے معاملے میں نتیجہ قدرے مختلف نکلا۔چابیوں کی ضربِ کاری کے باوجود داروغہ جیل سخت  جان ثابت ہوا، چکرا کر گرا  لیکن بچ گیا۔ حضرت جیؒ پر مقدمہ قائم ہوا۔ جرم  تو سنگین تھا لیکن آپؒ کی سابقہ کارکردگی او ر اچھے کردار کے باعث جیل سپرنٹنڈنٹ نے نرم روّیہ اختیار کیا اور بغیر مقدمہ چلائے آپؒ  کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔بعد میں جیل حکام کو احساس ہوا کہ ایک سنگین جرم پراس قدر کم سزا کے ساتھ چھوڑنا غلطی تھی۔قرار واقعی سزا دینے کے لئے وارنٹ گر فتاری جاری ہوئے اور پولیس نے چکڑالہ کا رخ کیا لیکن حضرت جیؒ اس وقت تک دشت ِ  علم کی سیّاحی میں ان لوگوں کی دسترس سے بہت دور نکل چکے تھے۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو