تلبیسِ ابلیس
مولوی
سلیمان کاسلسلۂ عالیہ سے اخراج 1978ء کاایک اہم واقعہ ہے لیکن
جلدہی اس کا تذکرہ ایام ِرفتہ کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو گیا۔ ‘حیاتِ
جاوداں’ میں بھی اس کا تذکرہ نظرانداز کیا جا سکتا تھا لیکن اس واقعہ کے پیرائے میں
تلبیس ِابلیس کی ایسی چالیں نظر آتی ہیں جوتاریخ ِتصوف میں شیطان کا مؤثر ترین ہتھیار
ثابت ہوئیں اورکئی صاحبانِ منصب و منازل ان کا شکارہوئے۔ ممکن ہے اس کا تذکرہ راہ
ِسلوک کے مسافروں کے لئے بروقت تنبیہ کاذریعہ ثابت ہو۔ یہی اس باب کی تحریر کا
مقصد ہے۔
مولوی سلیمان کاشمارحضرت جؒی کے ابتدائی شاگردوں میں ہوتا
تھا۔ اگرچہ 1955ء
سے مراسم تھے لیکن عرصہ دراز تک وہ آپؒ کو محض ایک عالم اورمناظرہی سمجھتا رہا۔1960ء
میں حضرت جؒی ایک مناظرے کے سلسلے میں بلکسر (چکوال) تشریف لے گئے تو وہ حاضر
ِخدمت ہوا۔ اس وقت آپؒ مراقبہ کی حالت میں تھے۔ نگاہ اٹھائی تو مولوی سلیمان نگاہ
ِپُرجلال کی تاب نہ لا سکا۔حضرت جؒی نے اُس کا ہاتھ تھام کر فرمایا:
‘‘آگئے
ہو، باہر چلو۔’’
حضرت جؒی نے گاؤں
سے باہر کھلی فضا میں لطائف کرائے اور ذکر جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔ خصوصی توجہ
سے نوازا تو انتہائی قلیل مدت میں اعلیٰ مدارجِ سلوک بھی نصیب ہوئے۔ 1961ء
میں چکوال کو سلسلۂ عالیہ کے مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی تو یہ مولوی سلیمان ہی کی
مسجد تھی ۔ اپریل1964 ء میں حضرت سلطان
العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ کی توثیق سے چار صاحب ِمجاز مقرر ہوئے تو مولوی سلیمان
بھی ان میں شامل تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سالکین کے لئے حضرت جؒی کی خدمت
میں حاضری سے قبل مولوی سلیمان کی خدمت میں حاضری اور ابتدائی تربیت
حاصل کرنا مقدم خیال کیا جانے لگا۔ مولوی سلیمان پر حضرت
جؒی کی شفقت کا عالم یہ تھا کہ حج ِثانی کے موقعہ پر بااصرار ساتھ لے گئے اور مالی
معاونت بھی فرمائی۔ آپؒ نے حضرت امیرالمکرم کے نام ایک مکتوب میں ہدایت فرمائی کہ
آپؒ کی ذاتی رقم میں سے مولوی سلیمان
کو ایک ہزار روپے فراہم کئے جائیں اور اس خصوصی اہتمام کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ
حج پر نہ جانے کی صورت میں اُس کا روحانی نقصان ہو جائے گا۔
حضرت جؒی کی مولوی سلیمان پر شفقت کا یہ عالم کہ اُس کے روحانی
نقصان کی فکر دامن گیر رہی۔ نہ صرف بے پایاں فیض سے نوازا بلکہ مقدور بھر مالی کفالت
بھی فرمائی۔ قرب اتنا بخشا کہ اپنا نائب بنا دیا۔ سلسلۂ عالیہ میں مولوی سلیمان کی
یہ عز و جاہ اور روحانی مقامات حضرت جؒی کی خصوصی نظر ِ عنایت کے رہین ِ منت تھے لیکن
افسوس کہ شیخ کی عطا کی بجائے وہ اسے ذاتی استحقاق سمجھ بیٹھا۔
سالک کی نگاہ جب شیخ کے قدموں سے اٹھ کرخودبینی میں ملوث ہو
جائے اور راہ ِسلوک میں عطا ہونے والے انعامات کو ذاتی استحقاق سمجھنے لگے تو یہیں
سے قدم بھٹکنے لگتے ہیں۔ خودبینی و خودنمائی جس روش کا نقطہ ٔ آغاز ہے، اس کی
انتہا ‘‘اَنَاخَیْرٌ مِنْہٗ’’
کا دعویٰ ہے۔ایسا شخص دعویٰ ٔ مشیخیت سے
کمتر کسی مقام پر نہیں رک سکتا اور جس ہستی نے راہِ سلوک میں قدم قدم چلنا سکھایا،
اسی کے مدمقابل کھڑاہونے کی جسارت کر گزرتا ہے۔شیطان اسے پوری طرح باور کرا دیتا
ہے کہ سلسلۂ عالیہ تو صرف اسی کے دم قدم سے چل رہا ہے۔ مولوی سلیمان کے طرز ِعمل
کے پیچھے ایک عرصہ سے یہی سوچ کارفرما تھی لیکن عقیدت کی وجہ سے احباب سمجھ نہ
پائے۔ گذشتہ ایک باب میں حضرت جؒی کے ایک ریکارڈ شدہ ذکر کا نقشہ پیش کیا جا چکا
ہے۔ اس میں مولوی سلیمان کا حضرت جؒی کی آواز کو دباتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنا،
بار بار مداخلت، جابجا شعر پڑھنا اور ساتھیوں کو پکار پکار کر مزید قوت سے ذکر کی
تلقین کا انداز نہ صرف آداب ِشیخ سے متضاد نظر آتا ہے بلکہ اس میں اپنی مشیخیت کا
اظہار بھی ہے ۔ مولوی سلیمان کی زبان سے بارہا یہ بھی سنا گیا:
‘‘
چھوڑیں جی، استاد تو سادہ ہیں۔’’
یہاں
مولوی سلیمان کے ان الفاظ کو من و عن اس لئے پیش کیا گیا کہ شیخ کے مقابلے میں جب
بھی کسی نے اپنی عقلمندی کا اظہار کیا تو کم و بیش انہی الفاظ میں شیخ کی ‘‘سادگی’’
کا رونا رویا۔ بھول جاتے ہیں کہ شیخ کی
صرف ِنظر ہم گنہ گاروں کے لئے اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے وگرنہ شیخ کے سامنے ہمارے
رذائل کھل جائیں۔ ایک بار حضرت جؒی نے ایک ساتھی کے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے خصوصی
توجہ فرمائی تو پشاور کے نواحی علاقہ کا ایک عمر رسیدہ خان بھی آگے بڑھا ۔ آپؒ نے
اس کے سینہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہاں سانپ اور بچھو بیٹھے ہوئے ہیں، ہاتھ
کہاں پھیروں! واپسی کے سفر میں اس شخص نے اعتراف کیا کہ وہ نامی قاتل رہ چکا تھا۔
راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ حضرت جؒی کی خدمت میں جب بھی کوئی معاملہ پیش کیا اور آپؒ
متوجہ ہوئے تو جلال کے سامنے خود کو تحلیل ہوتے
ہوئے
پایا۔ کانوں کی لو سے حرارت نکلتی ہوئی محسوس ہوتی۔ آپؒ فوراً معاملے کی تہہ تک
پہنچ جاتے اور پوری بات کہنے کی ضرورت پیش آتی نہ حوصلہ کر پاتے۔ اس ہستی کی بات
کوسادگی پر مبنی قرار دے کر نظر انداز کرنے کی جسارت اسی صورت ممکن تھی جب شیخ کے
ساتھ عقیدت و احترام میں کمی آجائے۔
شیخ کے ساتھ خلوص میں کمی آئی تو
مولوی سلیمان کی وفاداریاں تبدیل ہونے لگیں۔ لاہور میں اپنے ایک سابقہ استاد کے پیرخانہ
میں حاضری دینا شروع کردی اور حیلوں بہانوں سے احباب ِسلسلۂ عالیہ کو بھی ساتھ
چلنے کی دعوت دینے لگا۔ ساتھی احتراماً چلے جاتے کہ مولوی سلیمان کے استاد ہیں
اگرچہ متأثرنہ ہوتے۔ مولوی سلیمان نے سلسلۂ عالیہ کے شعبۂ نشرو اشاعت سے ان
صاحب کی ایک کتاب بھی شائع کرادی لیکن حضرت جؒی کی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت محسوس
کی نہ کتاب کی اشاعت کے بعد آپؒ کو اس کی خبر دی۔ کتاب کی تقسیم کے لئے درپردہ
ذرائع استعمال کئے لیکن حضرت جؒی اور عام احباب ِسلسلۂ عالیہ سے مکمل اخفاء برتا
گیا۔ ایک مرتبہ چکوال میں ان کے ہاں مذکورہ کتاب کی ترسیل کا تذکرہ چل رہا تھا لیکن
راقم نے جب کتاب کے متعلق پوچھا تو خاموشی چھا گئی ۔
سلاسل ِتصوف کا اپنے اپنے مشائخ عظام
کی تعلیمات کے مطابق اپنا اپنا طریقہ ٔ تربیت ہے جس کی وجہ سے ہر سلسلۂ تصوف
دوسرے سے منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ سلسلۂ نقشبندیہ کا
یہ طرۂ امتیاز ہے کہ ذکر ِخفی جو دیگر سلاسل میں منتہی درجہ کی حیثیت رکھتا ہے،
اس سلسلہ میں تربیت کا نقطہ ٔ آغاز ہے۔ حضرت جؒی نے بھی احباب کی تربیت فرماتے
ہوئے ذکر ِخفی کو ہمیشہ ابتدائی سبق قرار دیا جبکہ دیگر سلاسل میں عمومی طریقہ
ٔتربیت ذکر ِلسانی ہے تاکہ عوام الناس کے لئے سہل ہو۔ مولوی سلیمان نے حضرت جؒی کی
اجازت کے بغیر اجتماعی معمولات میں ذکر ِخفی سے قبل ذکر ِلسانی کو رواج دیا لیکن حضرت
جؒی کی موجودگی میں صرف ذکر ِخفی ہوتا تاکہ یہ تبدیلی شیخ سے مخفی رہے۔ مراقبات کا
شعبہ بھی مولوی سلیمان کی دستبرد سے محفوظ نہ رہا۔ یہاں اس نے مراقبۂ استحضاروضع
کیا جو صرف چند احباب کے لئے مختص تھا۔
مولوی سلیمان کویہ استحقاق کسی طرح بھی حاصل نہ
تھا کہ شیخ کی اجازت کے بغیر اس قدر اہم فیصلے کرتا۔ حضرت جؒی کا اپنا طریق تو یہ
تھا کہ زمانۂ قدیم سے مراقبہ ٔعبودیت میں آیت ِسجدہ تلاوت کی جاتی تھی لیکن آپؒ
نے اس کی جگہ ‘‘وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ
يَسْجُدَانِ ’’ کی تلاوت مشائخ کی توثیق کے
ساتھ شروع کی۔ اس کے برعکس مولوی سلیمان
نے طریقہ ٔذکر اور مراقبات میں بنیادی تبدیلیاں اس اہتمام کے ساتھ کیں کہ شیخ کو
خبر نہ ہونے پائے۔ چونکہ ان تبدیلیوں کے تانے بانے اُس کے سابقہ استاد سے جا ملتے
تھے، کیا اس کا مقصد یہ تو نہ تھا کہ ساتھیوں کو بھی رفتہ رفتہ اسی منزل تک پہنچا
دیا جائے جہاں مولوی سلیمان خود پہنچ چکا تھا؟یہ صورت ِحال صرف حضرت جؒی کے خلاف ہی
نہیں، سلسلۂ عالیہ کے خلاف بھی ایک درپردہ سازش تھی۔
مولوی سلیمان کے زیر ِاثر ایک طویل
عرصہ تک کم و بیش تمام احباب کے معمولات متأثر ہوئے لیکن اس عام روش کے برعکس
حضرت امیر المکرم اور چند دیرینہ ساتھی جو ان تبدیلیوں کو ذہنی طور پر قبول کر سکے
نہ ان پر کبھی عمل پیرا ہوئے۔ جہاں تک حضرت امیر المکرم کا معاملہ ہے، ان کی ہمیشہ
یہ عادت رہی کہ حضرت جؒی کے سامنے انتہائی بے تکلفی سے ایک خاص اپنائیت کے ساتھ،
جو صرف ان ہی کا خاصہ تھی، اظہار ِخیال کرتے لیکن جب کبھی کسی فرد سے اختلاف کا
معاملہ ہوا تو ہمیشہ خاموشی اختیار کی تاکہ معاملہ ذاتیات میں الجھ کر نہ رہ جائے
اور یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔ البتہ حضرت جؒی کے ایک صاحب ِمجاز نے ایک
روز ہمت پا کر سلسلۂ عالیہ کے نظام تربیت میں مولوی سلیمان کی درپردہ مداخلت کو آپؒ
کے سامنے بے نقاب کیا۔
ان دنوں حضرت جؒی کا پشاور میں قیام
تھا۔ آپؒ نے مولوی سلیمان کو پشاور طلب فرمایا اور اصلاح فرمانا چاہی لیکن اس کے
جواب سے مترشح ہوا کہ معاملہ اصلاحِ احوال سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ اس پر حضرت جؒی
نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تو مکمل اعتماد کرتے ہوئے پوری
جماعت تمہارے سپرد کر دی تھی لیکن تم نے اس مقدس جماعت کو کسی اور کی جھولی میں
ڈالنے کی کوشش کی۔ تم تو عورتوں سے بھی آگے بڑھ گئے کہ ذرا چمک نظر آئی تو ریجھ
گئے۔ مولوی سلیمان اس وقت اپنے اس طرزِ عمل کا کوئی جواز پیش نہ کر سکا، تاہم اسے رجوع
اور اصلاح کا موقع دیا گیا۔
منارہ کے سالانہ اجتماع میں ابھی کچھ
روز تھے۔ خیال تھا کہ شاید اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اصلاح کی صورت پیدا ہو
جائے لیکن مولوی سلیمان نے رجوع کی بجائے حضرت جؒی کی مخالفت کا راستہ اختیار کیا
اور اپنے تحفظ میں عامیانہ الزام تراشی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایک تین سالہ
پرانے زمین کے سودے کو اس کی بنیاد بنا لیا۔
حضرت جؒی چکڑالہ کے صاحب ِحیثیت زمیندار
تھے۔ دینی خدمات کے لئے کبھی کوئی معاوضہ قبول کیا نہ اعلائے کلمۃ اللہ کی راہ میں
کسی پابندی کو خاطر میں لائے۔ مناظرانہ دور میں آپؒ سے رہنمائی کے لئے علماء کا
تانتا بندھا رہتا۔ ذکر و فکر کی دعوت عام ہوئی تو چکڑالہ میں احباب کی آمدو رفت میں
کئی گنا اضافہ ہو گیا لیکن آپؒ نے ایک عرصہ تک ان کے قیام و طعام کے اخراجات ذاتی
وسائل سے پورے کئے۔ 1970ء میں احباب کی تعداد
جب بہت زیادہ ہو گئی۔
اس دور میں جن احباب کو چکڑالہ میں حاضری نصیب
ہوئی وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت جؒی نے کس طرح میزبانی کا حق ادا کیا۔ احباب کے لئے
اپنی کم سن بیٹی ام کلثوم کے ہمراہ خود کھانا لاتے جس میں صرف دال ساگ ہی نہیں،
گوشت کے علاوہ اکثر میانوالی کا مکھڈی حلوہ بھی ہوتا۔
حضرت
جؒی کے ہاں احباب کی آمدورفت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ حاضری پر پابندی تھی
نہ ہی کوئی دن مقرر تھا۔ احباب دور دور سے انفرادی اور اجتماعی صورت میں چکڑالہ
آتے اور مغرب اور تہجد کے ذکر میں شرکت کے لئے رات قیام پذیر بھی ہوتے۔ الگ سے کوئی
لنگر تھا نہ چندہ وغیرہ کے ذریعے تعاون کی کوئی صورت۔ حضرت جؒی کو ساتھیوں کے
خوردونوش کا اہتمام بھی خود ہی کرنا پڑتا جس پراٹھنے والے مصارف روزافزوں تھے۔
1975ء میں چکڑالہ کے ایک زمیندار
نے مزارعین سے تنگ آکر حضرت جؒی کو اپنی زمین فروخت کرنے کی پیشکش کی تو آپؒ نے
بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش ِنظر اسے قبول فرمایا۔ مقصد تو جماعت کے بڑھتے ہوئے
اخراجات سے عہدہ برآ ہونا تھا لیکن مزارعین نے مالکانہ حصہ ادا کرنے کی بجائے
مقدمہ بازی کا راستہ اختیار کیا۔ زمین کی آمدنی کو رشوت وغیرہ پر خرچ کرتے جس کی
وجہ سے مقدمات طول پکڑتے چلے گئے۔ زمینوں کی دیکھ بھال اور مقدمات کی پیروی ایک
ساتھی حکیم بشیر کے سپرد تھی جس کا آپؒ نے ماہانہ مشاہرہ مقرر کررکھا تھا۔ موقعہ
ملنے پر یہ شخص آپؒ کی ذاتی رقوم کے بے جا تصرف سے بھی نہ چوکتا۔ ایک خط میں آپؒ
نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے:
‘‘
باقی رقم بشیر کو میں نے دی تھی۔ تین ہزار کا یہ سودا لے کر آیا ہے وہ اب ملنی
مشکل ۔ میں نے خود بھی معاف کیا۔’’
ایک مرتبہ مقدمات کے سلسلہ میں اس شخص کے ساتھ
لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک غریب ساتھی کے ہاں کھانے پر گوشت مرغ وغیرہ نہ
ملا تو بلاجھجک کہنے لگا کہ آئے تو شیخ کے مقدمہ کے لئے ہیں لیکن کھانے میں سبزی
ترکاری۔ گویا شیخ کی خدمت اور وہ بھی تنخواہ دار ملازم کی حیثیت سے اس کا سلسلۂ
عالیہ پر احسان تھا جس کے عوض خاطر مدارت کی توقع کی جا رہی تھی۔ حکیم بشیر اپنی
خدمات کاعوضانہ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا استحقاق سمجھتا کہ نہ صرف خوب آؤ بھگت
ہو بلکہ اس کی مشیخیت بھی تسلیم کی جائے۔ یہی مرض مولوی سلیمان کا بھی تھا جس کی
وجہ سے دونوں خاصے قریب تھے۔ مولوی سلیمان کی زیر ِزمین منفی سرگرمیوں میں بھی یہ
شخص پوری طرح ملوث رہا۔ مولوی سلیمان کی پشاور میں جواب طلبی ہوئی توواپسی پر اس
نے حکیم بشیر کے ساتھ مل کرحضرت جؒی پر الزام تراشی کا لائحہ عمل اختیار کیا۔ ناظم
اعلیٰ کی خود نوشت ڈائری میں اتوار 9جولائی 1978ء کی تاریخ میں مولوی سلیمان کے مندرجہ ذیل الزام کا
ذکر ملتا ہے:
‘‘استاد المکرم دنیا دار
ہو گئے۔ زکوٰة اور عشر کے پیسوں سے زمین خریدی۔
اگر استاد زمین چھوڑ دیں تو ہم ان کے ساتھ رہ
سکتے ہیں۔’’
زمین کی خرید کا معاملہ تین سال پرانا
تھا لیکن جب زیر زمین سرگرمیوں پر گرفت ہوئی تو اسے جواز بنانے کی کوشش کی گئی۔ حضرت
جؒی نے مولوی سلیمان کو سالانہ اجتماع کے موقع پر منارہ طلب فرما کر رجوع کا موقع
دیا۔ آپؒ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے انتہائی دکھ سے فرمایا:‘‘تم چوپڑ کھیلتے تھے۔ میں
نے تمہیں وہاں سے اٹھایا اور انتہائی بلندیوں تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن تم نے میری
محنت کو ضائع کر دیا۔ تین سال سے برزخ کے مشائخ فرما رہے تھے کہ یہ جماعت کے لئے
نقصان دہ ہوگا۔’’اس موقع پر مولوی سلیمان نے حضرت
جؒی کے سامنے ایک معذرت خواہانہ تقریر بھی کی جس میں معذرت کم اور جواز زیادہ پیش کئے
گئے تھے۔ اس طرح اس بدقسمت شخص نے رجوع کا یہ آخری موقع
بھی
ضائع کر دیا۔
شیخ کے حضور زبان کھولنے کا یارا مرید کے بس کی
بات نہیں۔ اس کی خاموشی اعترافِ جرم ہوتا ہے، احساسِ ندامت بھی اور معافی کی التجا
بھی لیکن حجتیں اور دلیل بازی تو ابلیس کا وطیرہ ہے۔
اس
وقت مولوی سلیما ن حضرت جؒی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ آپؒ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے
انتہائی جلال کے عالم میں فرمایا:
‘‘خدا قادر ہے، تو ابھی
اٹھے گا نہیں کہ قلب نہ رہے گا۔ باقی منازل تو باقی منازل رہ گئے، قلب نہ رہے گا ۔
تم انہیں (ساتھیوں کو) گمراہ کرنا چاہتے تھے، یہ سارے یہاں سے اٹھیں گے نہیں کہ
تمہارا قلب نہ رہے گا۔ تم کیا کرنا چاہتے تھے ؟ یہ کوئی سیاسی جماعت ہے !’’
10جولائی 1978ء کو حضرت جؒی نے مولوی
سلیمان کے سلسلۂ عالیہ سے اخراج کا اعلان فرما دیا جب کہ اس کے دست ِراست حکیم بشیر
کو چند روز قبل خارج کیا جا چکا تھا۔ احباب نے بعد میں مولوی سلیمان کے لئے مہلت کی
درخواست کی تو حضرت جؒی نے فرمایا کہ آپ کے اصرار پر چھ ماہ کی مہلت دیتا ہوں لیکن
یہ شخص واپس نہ آئے گا۔ چنانچہ یہی ہوا، حضرت امیر المکرم اسے سمجھانے کے لئے دو
مرتبہ چکوال گئے لیکن مولوی سلیمان کو رجوع کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔
ایک
مرتبہ حضرت جؒی چند احباب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ مولوی سلیمان کا ذکر چھڑ گیا۔
آپؒ نے اس شخص کی گمراہی کے عواقب وعوامل تفصیلاً بیان فرمائے جو ایک کیسٹ کی صورت
میں محفوظ ہو گئے۔ آپؒ نے فرمایا:
‘‘صحابہ کرام] لسانِ نبوت ہیں، ان کے بعد تابعین، تبع تابعین۔ ان سے دائیں یا
بائیں ہم جائیں تو کافر ہو جائیں۔ یہ جو دین ہمارے پاس پہنچا، جو اس سیدھی لائن سے
دائیں یا بائیں ہٹے گا ہم اسے کافر کہیں گے، گمراہ۔ یہ ظاہری پہلو نبوت کا تھا
چاروں نے سنبھالا، شافعی، مالکی، حنبلی، حنفی۔ نبوت کا جو باطنی پہلو ہے، ہمارے
چار سلسلوں نے سنبھالا۔ اہل سنت والجماعت اسی کو کہتے ہیں۔ یہ چاروں سلسلے ہمارے ہیں،
جو ان سے کترا کر دائیں یا بائیں نکلتا ہے، ہم اس کو دیندار نہ کہیں گے۔’’
اس
کے بعد حضرت جؒی نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ کے شاگردوں
میں سے تھا۔ اس نے سلسلۂ طریقت کے نام سے ایک نیا سلسلہ وضع کیا اور بالآخر گمراہ
ہوا۔ مرتے ہوئے وصیت کر گیا کہ نہ اسے غسل دیا جائے، نہ جنازہ پڑھا جائے، نہ پڑھ
کر بخشا جائے، نہ دفن کیا جائے بلکہ مٹی کا تیل ڈال کر چارپائی سمیت جلا ڈالا
جائے۔ اس کے بعد حضرت جؒی نے مولوی سلیمان کے وضع کردہ مراقبہ ٔاستحضار کی بات کی۔
آپؒ نے فرمایا:
‘‘مولوی سلیمان کراتا تھا مراقبۂ استحضار۔ اس
سے پوچھو یہ باپ سے سیکھا، یہ ہے کہاں؟ کسی صوفی نے لکھا ہے، چاروں سلسلوں میں جو
گزرے ہیں؟ مراقبات کے متعلق کتابیں بھری پڑی ہیں، تم بتاؤ! یہ کہیں کسی نے لکھا ہے،
کسی نے کروایا ہے ؟ یونہی خیالات ہوتے۔ دل پر دیکھتے رہیں توکچھ شے تو نظر آنے لگتی
ہے۔ اب کہو استحضار کراؤ۔’’
راہ
ِطریقت میں سلف صالحین سے الگ راستہ متعین کرنے کی جسارت سلسلۂ عالیہ سے غداری کے
مترادف تھی لیکن جب اس پر گرفت ہوئی تو مولوی سلیمان نے بطور دفاع حضرت جؒی پر
الزام تراشی کی راہ اپنائی۔ حضرت جؒی نے اس وقت تو کسی الزام کا جواب دینا مناسب خیال
نہ فرمایا لیکن کچھ عرصہ بعد ایک نشست میں پہلی مرتبہ ان الزامات کا جواب بھی دیا:
‘‘اب بات سنو! سب سے
پہلی چیز یہ ہے کہ میں ابتدا سے تجارت کرتا ہوں، اب بھی تجارت کرتا ہوں۔ پاکستان
بننے سے پہلے میں نے یہ تجارت اشتراکی طور پر شروع کی۔ میرا اپنا مال مویشیوں کا
وافر ریوڑ تھا ۔ساتھ ساتھ اکرم (حضرت امیر المکرم) نے میرا حصہ دو آنہ روپیہ (12.5%)مائینوں میں رکھ دیا (حضرت جیؒ سے رقم لی نہیں تھی، یونہی حصہ مقرر کیا تھا)۔ یہ جو بتایا ہے یہ کس
کو معلوم ہے؟ کبھی مجھے سات ہزار مہینہ مل جاتا، کبھی چھ ہزار، کبھی پانچ ہزار،
کبھی تین ہزار، دو ہزار سے کم کبھی نہ ملا۔ اس کے بعد اکرم میرے ساتھ تھا، میں گھر
جا رہا تھا۔ اس نے زمین کا پوچھا، میں نے کہا پیسے کچھ کم ہیں۔ اس نے کہا کتنے کم
ہیں۔ میں نے کہا معلوم نہیں کتنے کم ہیں۔ اس نے 53ہزار روپے کا چیک کاٹ
کر میرے نام بھیج دیا ..... .....دنیا میں رہتے ہیں، دنیا کے اسباب بھی اختیار
کرنے پڑتے ہیں۔ اکرم کوئی شے دے دیتا ہے وہ میری ملک ہو گئی۔ وہ میری مملوکہ، میں
کنویں میں پھینک دوں۔ اس کے بعد وہ کتا ہے جو اس پر بات کرتا ہے، صحاح ستہ بھری پڑی
ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے جو پہلے صدقہ دے یا کوئی چیز دے دیتا ہے، پھر اس کا ذکر
کرے یا اس میں عود کرے وہ کتا ہے جو قے کرنے کے بعد چاٹنا شروع کردے۔ پہلے بھی جب
پاکستان نہیں بنا تھا، 186بیگھہ زمین خریدی،
پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ 186بیگھہ زمین جو میں نے
خریدی اس وقت کوئی ساتھی پاس نہ تھا۔ قاضی جی بھی بعد میں آئے۔ اس وقت وہ زمین میں
نے خریدی، کوئی چار روپے کنال،16روپے بیگھہ، کوئی 20روپے۔ اس سے زائد نہیں۔ 186بیگھہ 20روپے بیگھہ سے زائد نہیں خریدی۔ پھر اس کے بعد یہ
ہوا کہ میری ساس جو حقیقی پھوپھی تھی اور اس کی دو ہی لڑکیاں تھیں تو سارا سلسلہ ہی
تمام۔’’ (جیسا کہ گزشتہ ایک باب میں ذکر ہوا، پھوپھی صاحبہ نے اپنی تمام زمین حضرت
جؒی کے نام منتقل کر دی تھی)۔’’
اس محفل میں حضرت جؒی نے اپنی تمام جائیداد کے متعلق یہ
تفاصیل ازخود بیان فرمائیں اگرچہ ساتھیوں نے کبھی اس بارے میں استفسار کیا نہ اس کی
ضرورت محسوس کی۔ 1978ء
میں منارہ کا سالانہ پروگرام جاری تھا کہ حضرت جؒی کو زمین کے مقدمہ کے سلسلہ میں
لاہور جانا پڑا۔ آپؒ واپس تشریف لائے تو دورانِ گفتگو ایک ساتھی کو یہ جان کر تعجب
ہوا کہ کئی سو کنال زمین کا جھگڑا ہے اور ہائی کورٹ کے جج نے حضرت جؒی کے نام کے
ساتھ لینڈ لارڈ کا لفظ بھی لکھا ہوا ہے، اللہ کے ولی کے پاس اتنی جائیداد! ابھی یہ
سوال ذہن میں آیا ہی تھا کہ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘ شریعت میں زمین کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔’’
شیخ کے جائز فعل کے
بارے میں بھی شکوک وشبہات اور شیطانی وساوس کا شکار ہو جانا اور پھر اس پر اصرار
کرنا صرف اسی صورت ممکن ہے جب اعتماد علی الشیخ کا رشتہ مجروح ہو چکا ہو۔ بدگمانی
وہ مہلک شیطانی ہتھیار ہے جو غیر مرئی طور پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان کو پتہ
بھی نہیں چلتا کہ وہ کب گناہ کا مرتکب ہوا، کب رشتۂ فیض سے محروم ہوا اور کب متاع
ِایمان گنوا بیٹھا۔ بدگمانی کے ان مہلک اثرات سے بچاؤ کی خاطر مومنین کو متنبہ
فرما دیا گیا:
يَا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا
مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا
يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ط
اے ایمان والو! بہت سے
گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور (ایک دوسرے کا) تجسس نہ کیا
کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کیا کرو۔ (الحجرات۔12)
باہم
بدگمانی کی روش گناہ ہے لیکن خدانحواستہ اگر یہ انبیاءعلیہم السلام تک جا پہنچے تو ایمان
سلب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شیخ سے بدگمانی صرف گناہ ہی نہیں، قاطع فیض بھی ہے اور
اگریہ بڑھ کر مخالفت کی صورت اختیار کر لے تو ایمان بھی محفوظ نہیں رہتا۔ مولانا
اشرف علی تھانویؒ کے بقول:
‘‘اولیاء اللہ کی مخالفت
کفر تو نہیں لیکن ایسے لوگوں کا خاتمہ اکثر کفر پر ہوتا ہے۔’’
حضرت جؒی نے اسی تلبیس ِابلیس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘بات یہ ہے مولوی سلیمان کو گمراہ کیا اس موذی
نے، لالے نے۔ بھلا اس سے پوچھو، جس درخت کو اللہ تعالیٰ نے پانی دیا اور دے رہا ہے،
سرسبز ہے، اس پر جو سینکڑوں دانے پھل کے لگے ہوئے ہیں، ہزاروں دانے، تو نے اس میں
سے ایک توڑ لیا تو کیا ہوا۔ چور بھی لے جاتے ہیں، گیدڑ بھی کھا لیتے ہیں، کوّے بھی
کھا جاتے ہیں۔ اگر کوئی دیندار ہو تو یہ دیکھے کہ یہ جماعت کیا کر رہی ہے۔ دین کا
کام کر رہی ہے تو ہمارا ساتھ دے، ہمارا ہاتھ بٹائے۔ جو بھی جماعت دین کا کام کر رہی ہے، مسلمان کا فرض ہے کہ اس کے ساتھ تعاون کرے۔ کیا ہم
نے یہ برا کیا ہے کہ اتنے بڑے بڑے افسروں کو، تھئیٹر وں، کلب گھروں اور شراب خانوں
سے نکال کر مسجد میں رلا دیا۔ اگر یہ (ہم) بے دین تھے تو یہ بے دین ہمارے ساتھ دیندار
بنتے! مشائخ کا یہ بھی فرمان ہے کہ تھوڑی مدت کے اندر جماعت اس سے دگنی تگنی ہو
جائے گی اِنْ شَاءَ اللّٰه۔ زیادہ پھیلے گی، اور
نقص جو پیدا ہو رہا ہے وہ بھی اس شخص کا درمیان میں وجود ہے۔ تین سال سے مجھے سمجھ
آ رہی تھی کہ شیطان نے اس پر ڈورے ڈال دیئے۔ یہ میرے پاس آتا نہیں تھا، میرے پاس بیٹھتا
تو یہ منتر اتنا نہ چلتا۔ میرے پاس نہیں آتا تھا۔’’
تلبیسِ ابلیس کے بارے میں بطور حرفِ آخر حضرت جؒی نے
فرمایا:
‘‘پہلے شریعت سے بدظن کرتا ہے۔
اگر
اس میں کامیاب نہ ہو تو شیخ سے بدظن کرتا ہے۔
اس کا
پہلا حملہ ہی یہ ہے۔ شیخ سے بدظن ہوا،تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ قلبی معاملہ ہوتا ہے۔ شیخ سے جب قلبی تعلق
نہ رہا تو فیض گیا، منقطع ہو گیا۔’’
اللہ
کریم سے دعا ہے وہ اپنی حفظ وامان میں رکھے اور اپنے ان بندوں میں شامل رکھے جن پر شیطان کا
بس نہیں چل سکتا۔ آمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔