ANTI-ADBLOCK JS SYNC حضرت خواجہ عبدالرحیم ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

حضرت خواجہ عبدالرحیم

حضرت خواجہ عبدالرحیم :

            حضرت خواجہ  عبدالرحیمؒ   عربی النسل تھے اور تعلق ہاشمی خاندان سے تھا۔ آباؤ اجداد  فاتح ہند   حضرت محمؒد بن قاسم کے ہمراہ برصغیر میں آئے اور پھر ملتان کو اپنا مسکن بنا کر تعلیم و تدریس میں مشغول ہو گئے۔  اسی خاندان کے ذریعہ ملتان کے گردونواح اور ضلع جھنگ میں دریائے چناب کے کنارے مختلف قصبات میں دینی تعلیم کو فروغ ملا۔
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے پردادا فتح محؒمد نے اپنے دادا شاہ محؒمد کے حکم پر پیر کوٹ سدھانہ ضلع جھنگ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جس کی ترویج کی سعادت بالآخران کے والد مولوی غلام نبیؒ کے حصہ میں آئی ۔اسی مقام پر 1855ء میں   خواجہ عبدالرحیؒم کی ولادت ہوئی۔
            تعلیم وتعلّم، تصنیف وتالیف اور دعوت دین حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ کے آباؤ اجداد کا طرۂ  امتیاز نظر آتا ہے۔ ان کے والد مولوی غلام نبی فقیر اللہؒ نے متعدد کتب قلمی نسخوں کی صورت محفوظ کیں جن میں ذوالفقارِ علی بر اعدا ئے  اصحابِ نبیﷺ، انتخابِ احادیث از استبصار اور ثمارُ التَّنکیث، شرح ابیات جلال الدین سیوطیؒ شامل ہیں۔ اسی طرح جلال الدین سیوطیؒ کی ایک اور کتاب شرح الصدور، شرح حال الموت فی القبور کا بڑی تختی میں قلمی نسخہ تحریر کیا جو 1309ھ میں مکمل ہوا۔ اسرارِ طریقت پر مبنی کتاب ‘آئینۂ اسرار’ کی کتابت 1302ھ میں مکمل کی۔ اس کتاب کے آخر میں اپنے خاندان کا ‘کرسی نامہ جدی’ بھی تحریر کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم  کا خاندان حضرت حسن بن حضرت علیy  کی نسل سے تھا:
          حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے بھائی مولوی عبدالصمدیارمحمؒد(المتوفی1930ء)  اپنے دور کے مشہور مناظر تھے۔ انہوں نے عربی کی مشہور کتاب قرة التجار کا پنجابی ترجمہ نورالابصار فی مناقب ائمہ اطہار 1338ھ بمطابق 1941ء میں تحریر کیا جو ایک ضخیم کتاب ہے۔آپؒ کے آباء میں علم کے ساتھ شاعرانہ ذوق کا بھی حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ ان کے جدامجد مولوی عبدالغفورؒ فارسی زبان کے صاحب ِدیوان شاعر تھے جن کا فارسی کلام قلمی نسخہ کی صورت میں محفوظ  ہے۔ ان کے بھائی مولوی عبدالصمد یار محمدؒ پنجابی اور فارسی کے نعت گو شاعر تھے۔ حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ نے ان کے بیالیس (42) اشعار کو انتہائی خوبصورت ترتیب سے لکھا جو فن کتابت کا اعلیٰ معیار ہیں۔
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم نے اپنی ذاتی ڈائری میں مختلف عزیز و اقارب کی تاریخ وصال لکھتے ہوئے اظہارِ جذبات کے لئے فارسی اشعار کا سہارا لیا ہے جو ان کے بلند پایہ شاعرانہ ذوق کے آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے اپنے والد ماجد کے وصال پر جو فارسی کتبہ تحریر فرمایا وہ حسن بلاغت اور حسن کتابت دونوں کا امتزاج ہے۔
            حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ نے نہایت شوق اور محبت سے انتہائی خوبصورت رسم الخط میں مکمل قرآن حکیم بڑی تختی میں دیدہ زیب حاشیہ کے ساتھ کتابت کیا۔ اس مصحف کی کتابت کم و بیش 1880ء میں ہوئی۔     حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ کے دو مزید قلمی نسخے دستیاب ہو سکے ہیں۔ ایک نسخہ  ‘جامع قوانین’ فارسی زبان میں310 صفحات پر محیط ہے جو  انہوں نے 6اکتوبر 1891ء کو مکمل کیا تھا اور دوسرا نسخہ حضرت مولانا عبدالرحمن جامؒی  کا فارسی کلام ‘لیلیٰ مجنوں’ ہے جو یکم   محرم 1312ھ میں مکمل ہوا۔ اس پر خواجہ عبدالرحیمؒ کے تحریر کردہ حاشیے جا بجا نظر آتے ہیں۔ حسنِ کتابت غماز ہے کہ یہ نسخہ حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامؒی کی محبت میں  ڈوب کر لکھا گیا۔
            قرآن حکیم اور یہ دونوں قلمی نسخے  اس وقت سلسلۂ عالیہ کے مرکز دارالعرفان منارہ  میں محفوظ ہیں۔ بعض نسخوں پر حضرت جؒی کے تحریر کردہ اشارات بھی ملتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نسخے آپؒ کی نظر سے بھی گزرے ہیں۔
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم اور ان کے خاندان کی بچی کھچی کتب کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جن میں فقہ، حدیث، طب اور تفسیر کے موضوع پر نہایت قدیم اور نایاب کتب شامل ہیں۔ اس وقت بھی اس لائبریری میں اکتالیس قلمی نسخے موجود ہیں جو ایک صدی یا اس سے بھی زائد عرصہ قبل تحریر کئے گئے۔
خواجہ عبدالرحیؒم کی روحانی تربیت
            ابتدائے طریقت میں خواجہ عبدالرحیؒم کی ظاہری نسبت والد ماجد مولوی غلام نبی فقیر اللہؒ سے تھی۔  حضرت جؒی کی ایک ریکارڈ شدہ آڈیو کیسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی غلام نبؒی کی نسبت سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے تھی اور مراقباتِ ثلاثہ تک مقامات تھے۔
            حضرت جؒی نے خواجہ عبدالرحیؒم کی روحانی تربیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ان کے والد چونکہ ذیابیطس کے مریض تھے اور بالعموم دیکھا گیا ہے کہ شیخ کوجو مرض لاحق ہو وہ کثرتِ توجہ سے سالک پر عود کر آتا ہے، اس لئے پہلے لطیفہ کے بعد خودتوجہ دینا چھوڑ دیا اور مزید اسباق کے لئے انہیں ملتان میں ایک دوست صوفی کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہ بزرگ محکمہ پولیس کی پراسیکیوٹنگ برانچ کے افسر اور صاحبِ بصیرت تھے۔  انہوں نے حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کو لطیفۂ قلب دوبارہ کرایا اور سال بھر محنت کے بعد اگلے سال آنے کی ہدایت کی۔ ایک سال بعد اگلے سبق کے لئے حاضر ہوئے تو مزید ایک سال لگانے کا حکم ملا۔ اس طرح دو سال میں صرف ایک لطیفہ کرایا اور چودہ سال میں سات لطائف مکمل ہوئے۔
            دورانِ تربیت خواجہ عبدالرحیؒم جب ملتان سے پیرکوٹ سدھانہ واپس لوٹتے تو دن علوم ظاہری کے اسباق میں گزرتے اور شب کی تنہائیاں اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں بسر ہوتیں۔اس طرح چودہ سالہ محنت شاقہ کے بعد لطائف میں پختگی حاصل ہوئی تو والد ماجد نے مراقباتِ ثلاثہ کرائے۔ مراقباتِ ثلاثہ کرانے کے لئے خرقۂ اجازت ضروری ہے اور جو شخص یہ منازل کرا سکتا ہو، یا جس نے یہ منازل کرائے ہوں، وہ اپنے سلسلۂ تصوف میں خرقۂ اجازت کا حامل ہوگا۔ حضرت جؒی کا یہ ارشاد کہ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم نے مراقباتِ ثلاثہ اپنے والد ماجد سے حاصل کئے جو سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے صاحب نسبت تھے، اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے والد سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے مجاز بھی تھے۔
روحانی تربیت بطریق اویسیہ
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم  ظاہری تعلیم کی تکمیل کے بعد محکمہ مال میں بھرتی ہو ئے اور 1880ء میں ان کا تبادلہ لنگر مخدوم ہوگیا۔ 1884 ء کا بندوبست اراضی شروع  ہوا تواس دوران گاؤں کے مضافات میں جانے کا موقع ملا اور حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنؒی کی قبر پر حاضری نصیب ہوئی۔ مٹی کے ایک چبوترے پر اس وقت یہ کچی قبر تھی جس کے اردگرد زائرین کے لئے جگہ ہموار کر دی گئی تھی۔ مقامی لوگ صاحبِ قبر سے عقیدت رکھتے تھے اور اکثر دعا کے لئے آجاتے۔
          حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کو یہاں ذکرواذکار میں کیفیات نصیب ہوئیں تو روز کی حاضری معمول بن گیا۔ مسلسل تین سال تک لطائف، مراقبات اور تلاوت ِقرآنِ حکیم کا معمول رہا جس کے بعد      حضرت سلطان العارفینؒ سے روحانی رابطہ قائم ہوا۔ مراقبات ِثلاثہ کے ساتھ ساتھ کچھ انکشافات بھی تھے جن کی بدولت روحانی کلام بھی نصیب ہوتا۔ حضرت جؒی  اس تذکرہ کے بعد اکثر فرمایا کرتے:
‘‘جس کو طلب ہو، سمجھ  آ ہی جاتی ہے’’
            پھر ایسی سمجھ آئی کہ یہیں کے ہو رہے۔ یہ 1887-88 سن عیسوی ہوگا جب حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کو حضرت سلطان العارفیؒن کے ساتھ نسبتِ اویسیہ نصیب ہوئی۔ سالہا سال کی محنت کے بعد فنا فی الرسولﷺ  تک منازل حاصل ہوئیں۔
            محکمۂ مال خواجہ عبدالرحیؒم کی قابلیت کا معترف تھا اور کئی نامور تحصیلدار اور قانون گو اُن کے شاگرد تھے۔ قابلیت کی بنا پر کئی مرتبہ ترقی کے مواقع بھی آئے لیکن انہوں نے حضرت سلطان العارفیؒن کے قرب کو چھوڑنے کی بجائے افسری کو ٹھکرا دیا اور جب ملازمت ختم ہوئی تو لنگر مخدوم میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لی۔
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم   عمر کے آخری حصہ میں تھے جب حضرت جؒی کا لنگرمخدوم آنا ہوا۔آپؒ انہیں استاد کہا کرتے تھے لیکن حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر ذکر کے دوران حضرت  خواجہ عبدالرحؒیم کو  توجہ دینے کی اجازت نہ تھی۔ اس وقت حضرت جؒی  کو براہِ راست صاحبِ مزار کی توجہ حاصل ہوتی۔ حضرت جؒی کا قول ہے کہ حضرت سلطان العارفیؒن کے علاوہ کسی اور نے  آپؒ  کو  توجہ دی ہی نہیں۔
            ایک مرتبہ نوشہرہ کا ایک عالم حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا:
‘‘کیا روح یا قبر سے بغیر زندہ شیخ کے فیض ممکن ہے؟’’
حضرت جؒی نے فرمایا، نہیں۔
            ‘‘پھر آپؒ نے کیسے حاصل کیا؟’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘آپ سے غلط کہا گیا ہے کہ مجھے بلاواسطہ قبر سے فیض حاصل ہوا ہے بلکہ میرے شیخ بھی ایک زندہ بزرگ (خواجہ عبدالرحیؒم) تھے جنہوں نے مجھے رابطہ کرا دیا۔ ارواح سے تعلق ہوا  اور وہی میرے کسب فیوض کا سبب بنے۔’’
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم وہ ہستی تھے جنہوں نے اس عالم آب و گل اور عالم برزخ کے درمیان ہزاروں حجابات کو اپنی توجہ سے چاک کرتے ہوئے حضرت جؒی کا حضرت سلطان العارفیؒن سے رابطہ کرایا اور ان سے اجرائے فیض کا سبب بنے۔ اس رابطے کے بعد حضرت جؒی کو براہِ راست حضرت سلطان العارفیؒن کی توجہ ملنے لگی۔ حصول فیض کے متعلق حضرت جؒی فرماتے ہیں:
‘‘میں نے اپنے شیخ مکرم (حضرت خواجہ اللہ دین مدنیؒ) کی روح سے فیض حاصل کیا۔’’
            ابتداء ہی سے حضرت جؒی کی تربیت حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ کے ہاتھ میں تھی۔  خواجہ عبدالرحیؒم صاحبِ بصیرت ہوتے ہوئے اس بات سے آگاہ تھے کہ حضرت جؒی کو براہِ راست مشائخ سے توجہ مل رہی ہے لیکن لطائف کی تبدیلی اور مقامات کی نشاندہی اُن  کے ذمہ تھی۔ حضرت جؒی نے یہ تذکرہ بھی فرمایا ہے کہ شروع کے دنوں میں بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ آپؒ کے ساتھ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم نے کسی پرانے ساتھی کو ذکر کے لئے بٹھادیا کہ وہ لطائف تبدیل کرتا رہے لیکن وہ بھی حضرت جؒی کے بائیں طرف بیٹھتا۔
               کچھ عرصہ بعد حضرت جؒی کو اس کی بھی ضرورت نہ رہی لیکن آپؒ نے حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے پاسِ ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ حضرت جؒی اگرچہ حضرت سلطان العارفیؒن کے قرب اور توجہ میں سلوک طے کرنے کے لئے سالہا سال لنگر مخدوم آتے رہے لیکن خواجہ عبدالرحیؒم کے احترام میں ان کے ساتھ بیٹھ کر ذکر کرنا لازم جانتے۔ 
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے شاگردوں میں سے لالیاں کے  تحصیلدار وزیر علیؒ بہت پرانے شاگرد تھے جو مسلسل ایک سال تک زیرتربیت رہے۔ اس کے بعد ان کا عمر بھر معمول رہا کہ پندرہ یوم کے بعد حاضر خدمت  ہوا کرتے۔  ابتدائی دور میں حضرت جؒی کبھی کبھار ان کے ہاں لالیاں بھی تشریف لے جاتے تاکہ اجتماعی ذکر کر سکیں۔ پرانے شاگردوں میں سے مولوی محمد اکبرؒ نے حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے وصال کے بعد حضرت جؒی سے عمر بھر تعلق رکھا۔  آخری عمر میں سندھ منتقل ہو گئے تھے لیکن حضرت جؒی کی خدمت میں سال میں ایک مرتبہ ضرور حاضر ہوا کرتے ۔  حضرت جؒی پرانے تعلق کی بنا پر ان سے انتہائی شفقت کے ساتھ پیش آتے اور اپنے برابر چارپائی پر بیٹھنے کے لئے اصرار فرمایا کرتے۔
               1978ء میں منارہ کے سالانہ اجتماع میں مولوی محمد اکبرؒ بھی حضرت جؒی سے ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ایک صبح بہت جوش کے عالم میں حضرت جؒی کے شاگردوں کی کیفیت کچھ ان الفاظ میں بیان کر رہے تھے:
‘‘یہ لوگ بھی عجیب ہیں ۔ نصف شب کو  اٹھتا   ہوں تو انہیں فرشِ خاک پر استراحت کرتے ہوئے اس حال میں پاتا ہوں کہ پاؤں تک سے نور کی شعائیں پھوٹ رہی ہوتی ہیں۔’’
            یہ کیفیت سلطان الاذکار کی ہو گی جس میں پورا بدن جب اللہ،اللہ کر رہا ہوتا ہے تو گوشت پوست اور بال بال سے انوارات پھوٹنے لگتے ہیں۔
            کوٹ میانہ کے مخدوم صدر الدیؒن بھی حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے شاگرد تھے۔ 1938 ء میں  مخدوم صاحب کے عزیزوں پر قتل کا جھوٹا مقدمہ بنا۔ انگریز سیشن جج کے سامنے پیشی ہوئی تو خواجہ عبدالرحیؒم کچہری کے ایک گوشہ میں مصلیٰ ڈالے دعا گو تھے۔ مقدمہ کا بنیادی گواہ پیش ہوا لیکن ناگہاں عدالت میں گر پڑا۔ ہوش آیا تو اول فول بکنے لگا جس سے اس کے بیان کی موقع پر ہی تردید ہو گئی اور اس طرح یہ جھوٹا مقدمہ خارج ہوا۔ مقدمات دیہی زندگی کا لازمہ ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ بھلا دئے جاتے ہیں لیکن 1938ء کا یہ مقدمہ مخدوم خاندان میں ایک عرصہ تک حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی کرامت کے طور پر یاد کیا جاتا رہا۔
            ریٹائرمنٹ کے بعد حضرت خواجہ عبدالرحیؒم پرتنگدستی کا زمانہ آیا تو مخدوم صدر الدیؒن کوان کی کفالت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کی ایک صاحبزادی کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ وہ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے شاگردوں میں شامل تھیں اور اپنے والد کے ہمراہ ذکر میں شریک ہوا کرتیں۔ انہوں نے محافل ذکر میں حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی یہ کیفیت بیان کی کہ ذکر کے دوران بے ساختہ ‘‘اللہ’’ پکارتے اور اس کے ساتھ ہی ان پر رقت طاری ہوجاتی۔
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے شاگردوں میں کوٹ میانہ کا خطیب منظور حسین شاہ بھی تھا ۔ یہ شخص بہت تیز صاحب کشف تھا۔ کھلی آنکھوں اسرار و رموز کا مشاہدہ کرتا۔ خود پر طرح طرح کی پابندیاں لگا رکھی تھیں اور دوسروں سے بھی توقع رکھتا کہ وہ راہِ سلوک پر چلنے کیلئے نارمل زندگی گزارنے کی بجائے خود کو مشقتوں کا عادی بنائیں۔ ایک مرتبہ حضرت جؒی نے اس کے پاس ایک شخص کو تربیت کے لئے بھیجا تو اسے دوسرے ہی روز  اس عذر پرچلتا کیاکہ وہ ایک وضو سے پورا دن نہیں گزار سکتا تھا۔ یہ شخص اپنے علم، کشف اور زُہد ِخشک کی بنا پر خاص مقام رکھتا تھا لیکن حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ سے حضرت جؒی کے تعلق کے بعد حسد کا شکار ہوا۔ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے وصال کے بعد حضرت جؒی سے لاتعلقی اختیار کرلی اور کچھ عرصہ بعد ذکر بھی چھوڑ بیٹھا۔ نماز روزہ  چُھوٹا، حتیٰ کہ ایمان سے بھی گیا۔ داڑھی، مونچھ، سر اور بھنویں منڈوا لیں اور مرتے ہوئے وصیت کر گیا کہ اسے دفن نہ کیا جائے بلکہ جلا ڈالا جائے۔ جلایا تو نہ گیا لیکن جہاں  اس کی موت واقع ہوئی، اسی کوٹھری میں مع ساز موسیقی بند کر دیا گیا۔ شیخ پر تنقید اور ترکِ تصوف سے اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے۔ راہِ سلوک کا مسافر ہواؤں  کے دوش پر اڑنے والا سوار ہے جس کا حادثے کی صورت میں بچنا محال ہے۔
فَاعْتَبِرُوْا يَآ اُولِي الْاَبْصَارِO تو اے بصیرت رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔ (الحشر۔2)
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم مسلک کے اعتبار سے اعتدال پسند اہل ِحدیث تھے۔ جہاں اعتدال ہو گا وہاں مسلک کی پابندیوں سے قطع نظر وسعتِ ظرف اورحق شناسی کی استعداد بھی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ  انہوں نے چار صدیوں کی دوری کے باوجود حضرت سلطان العارفیؒن سے روحانی طور پر اکتساب فیض کیا اور  حضرت جؒی   جیسے  جید عالم کو، جو اس وقت سماع موتیٰ  کے قائل نہ تھے، دلائل سے نہیں بلکہ عملی ثبوت سے قائل کیا۔
            حضرت جؒی کی صحبت میں بھی ہر مسلک کے لوگ آتے لیکن دل کی آنکھ روشن ہوتے ہی یہ حقیقت آشکار ہوجاتی کہ وہ عقائد جنہیں علماء مختلف صورت میں بیان کرتے ہیں اور لوگ لفظوں میں الجھ کر فرقوں میں بٹ جاتے ہیں، حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ اسی لئے حضرت جؒی کسی شخص کو اُس کے مسلک پر عمل کرنے سے نہ روکتے بلکہ صرف ذکراللہ کی تلقین فرماتے۔
وصال
            آخری چار سالوں میں حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی بینائی جواب دے گئی تھی۔ طویل علالت کے بعد آپؒ نے 30 جنوری 1957ء بروز منگل لنگرمخدوم میں رحلت فرمائی اور حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار کے ساتھ صحن مسجد میں دفن ہوئے۔ ان کے دو صاحبزادے تھے جن کا کم سنی میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ دو بیٹیاں تھیں جن کی اولاد اس وقت لنگر مخدوم میں رہائش پذیر ہے۔
            حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے مزاج میں بلا کی انکساری تھی۔ حضرت حسنt  کی اولاد ہونے کے باوجود اپنے نام کے ساتھ سیّد لکھتے نہ مولانا کہلاتے۔ اپنا نام اکثر ‘‘فقیر عبدالرحیم’’ لکھتے جو قلمی نسخوں اور مختلف کتبوں میں تحریر ہے۔ خط و کتابت میں اپنا نام ‘بندۂ اثیم عبدالرحیم’ بھی تحریر فرماتے۔ خاندان کے کئی بزرگوں کا لقب ‘‘خواجہ’’ بھی ہے لیکن انہوں نے ‘‘فقیر’’  کہلانا پسند فرمایا۔آپؒ  کا حلیہ مبارک سرخ و سپید چہرہ، گھنی و لمبی داڑھی، درمیانہ قد، جوانی میں خاصے جسیم لیکن آخری دور میں بدن دبلا ہوگیا تھا۔ بید کی چھڑی استعمال فرماتے جس کا آخری سرا نصف چاند کی شکل میں خم کھائے ہوئے تھا۔ ذکر و فکر کے لئے بیٹھتے تو چادر اوڑھ لیا کرتے۔
             اس وقت حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار کے پہلو میں کھلے آسمان تلے حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی سادہ قبر جہاں اس مرد ِدرویش کی زندگی کی تصویر نظر آتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ سبق بھی دے رہی ہے کہ شیخ سے تعلق ہو تو ایسا کہ موت بھی درمیان میں حائل نہ ہو سکے۔ شیخ کی خدمت میں پہنچے تو اس کے بعد دوری گوارا نہ ہوئی۔ خاندان چھوڑا، وطن سے ہجرت کی، محکمانہ ترقی قبول نہ کی اور شیخ کے قرب میں زندگی کے  72 سال گزار دیئے۔ اس تعلق کو نبھانے کا صلہ یہ ملا کہ شیخ کے پہلو میں دفن ہوئے لیکن ذرا قدموں کی جانب تاکہ قرینۂِ ادب بھی ملحوظ رہے۔اس باب کے آخر میں حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی خطاطی کا ایک عکس ملاحظہ ہو جو انہوں نے حبیب کبریاﷺ کی محبت میں ڈوب کر لکھا۔ 

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو