مکتب
ِ طریقت
ضلع سرگودھا کے ایک زمیندار مولوی محمد اکبرؒ زمانہ ٔطالب
علمی سے حضرت جؒی
کے د وست تھے۔ دوسری جنگ ِعظیم کے دوران
لام بندی ہوئی تو وہ بھی فوج میں بھرتی ہو
گئے لیکن مقررہ تاریخ پر رپورٹ نہ کی۔ وارنٹ جاری ہوئے تو گرفتاری سے بچنے کے لئے
چک 13(خانیوال) کا رخ کیا تاکہ حضرت جؒی کے ہاں روپوش رہیں۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ کچھ ہی عرصہ
پہلے حضرت جؒی کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا اور ان کی تدفین کے بعد آپؒ بچوں کو لے کر چکڑالہ منتقل ہو چکے ہیں۔
مولوی محمد اکبؒر نے اب چکڑالہ کا رخ کیا۔
حضرت جؒی سے تعزیت کے دوران تذکرہ کیا کہ وہ آپؒ کی اہلیہ محترمہ کی قبر پر بھی
گئے تھے جہاں مشاہدہ ہوا کہ فرشتے انہیں اٹھائیسواں پارہ پڑھا رہے ہیں۔
آپؒ نے حیرت کا اظہار کیا:
‘‘فرشتے اٹھائیسواں
پارہ پڑھا رہے ہیں؟’’
مولوی صاحب نے جواب دیا:
‘‘میں
نے قبر میں دیکھا، آپ سے تصدیق کرنا چاہتا
تھا۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘بات تو ٹھیک ہے،
اٹھائیسواں پارہ پڑھتے ہی فوت ہوئی تھی۔’’
اس
واقعہ کا ذکر حضرت جؒی کی ریکارڈ شدہ ایک
کیسٹ میں محفوظ ہے جس کے بعد آپؒ وضاحت فرماتے
ہیں :
‘‘جو آدمی قرآن پڑھتے
ہوئے فوت ہو گیا، مثلاً پندرھویں یا سولھویں سیپارے کے دوران فوت ہوا اور نجات ہو گئی تو فرشتے پورا کرا دیں
گے، نجات شرط ہے۔ وہی سبق پڑھتے رہتے ہیں۔’’
حضرت
جیؒ نے اہلیہ کو شادی کے بعد قرآن پڑھانا شروع کیا تھا اور ابھی اٹھائیسواں پارہ
مکمل نہ ہوا تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ بات صرف حضرت جیؒ کے علم میں تھی۔
اٹھائیسویں پارے کے متعلق یہ انکشاف باعثِ حیرت تھا۔ آپؒ نے یہ واقعہ بیان کرنے کے
بعد اپنے متعلق فرمایا:
‘‘میں اس وقت حضرت صاحب کے حلقے میں نہ آیا
تھا، پرانی بات ہے میں تو ان باتوں کو نہیں جانتا تھا، کشفِ قبور ہوتا ہے یا اس طرح کی کوئی بات ہوتی ہے۔ بس اس کے بعد
میرے خیال بدل گئے، یہ چیز حاصل کرنی چاہئے۔’’
‘‘تاں میں ہولے ہولے حضرت صاحب کی خدمت میں گیا۔’’
حضرت
جؒی کا یہ ارشاد کہ ‘‘اس کے بعد میرے خیال بدل گئے، یہ چیز حاصل کرنی چاہئے۔’’
دراصل اظہارِ انابت تھا جو علومِ باطنی کے حصول کے لئے پہلی شرط ہے۔ آپؒ کی والدۂ
ماجدہ کے خواب میں آپؒ کے لئے دو تھیلیاں عطا
ہوئی تھیں، یعنی علوم ظاہر و باطن اور علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد باطنی علوم کا
آغاز اب نوشتۂ تقدیر کا اگلا ورق تھا۔
1942ء
میں اہلیہ کی وفات کے بعد حضرت جیؒ نے چکڑالہ کی چِٹی مسجد کو درس و تدریس اور علمی
سرگرمیوں کا مرکز بنا یا۔ اس دوران مزید علمی تحقیق کے لئے آپؒ نے علماء کرام اور
اساتذہ سے روابط کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ حضرت جیؒ اپنے اساتذہ کرام میں سے چک
نمبر 10
شمالی (سرگودھا) کے استاذِ محترم کا خاص طور پر ذکر فرمایا کرتے کہ وہ بہت فاضل اور انتہائی سادہ تھے اور آپؒ کو
ان سے بہت انس تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں
ان کے بیٹے بھی حضرت جیؒ کے ہم مکتب رہ
چکے تھے۔ آپؒ چک نمبر 10 آتے تو یہاں کئی روز قیام فرماتے اور ساتھ ہی علمی تحقیق کا سلسلہ
بھی جاری رہتا۔
ایک
مرتبہ یہاں قیام کے دوران حضرت جؒی کے استاذِ محترم کے بیل چوری ہو گئے۔ اس علاقے
کا مخدوم خاندان اپنی علم دوستی اور خدمتِ خلق کے لئے مشہور تھا چنانچہ مشورہ ہوا
کہ بیلوں کی بازیابی کے لئے مخدوم حضرات سے
رابطہ کیا جائے۔ حضرت جیؒ اپنی تعلیم کے ابتدائی دور میں کچھ عرصہ لنگر مخدوم میں بھی گزار چکے تھے اور اس
علاقے سے خوب واقف تھے۔بیلوں کی تلاش کی مہم حضرت جیؒ کے سپرد ہوئی تو آپؒ لنگر مخدوم روانہ ہو گئے۔
یہاں
ایک مرتبہ پھر حضرت جؒی کے حالات زندگی میں سیّدنا موسیٰu کی زندگی کے ایک اہم واقعہ کی جھلک نظر آتی ہے۔
اِنِّي
اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ
النَّارِ
تم (یہاں) ٹھہرو مجھے
آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے تمہارے پاس (راستے کا) کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا
انگارہ لے آؤں۔ (القصص۔29)
حضرت موسیٰu کو اس وقت کیا خبر تھی کہ
بظاہر آگ کی تلاش وصل ِ الٰہی کا سبب بن جائے گی۔ اسی طرح حضرت جؒی کا بیلوں کی تلاش میں نکلنا دراصل راہِ سلوک
پر اٹھنے والا پہلا قدم تھا جس کی منزل بھی
وصالِ باری تعالیٰ ہے۔ بظاہر یہ ایک عام
سا واقعہ تھا جو آپؒ کی زندگی کا اہم ترین موڑ ثابت ہوا۔ حضرت جؒی کے لنگر مخدوم کی
سمت اٹھنے والے قدموں کے ساتھ ہی ایک نئے باب کا آغاز
ہوا جو نہ صرف آپؒ کی زندگی میں وصالِ باری تعالیٰ
کی روشنیاں بکھیرگیا بلکہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کے ان لاکھوں بندوں کی تقدیر
سنورانے کی تمہید بھی تھا جن تک سلسلۂ عالیہ کی نسبت سے یہ دولت پہنچنا تھی۔
حضرت جؒی کی زندگی میں یہ واقعہ کب پیش آیا؟ اس ضمن
میں بعض تحریروں میں 1936ء یا 1937ء کا ذکر ملتا ہے جو آپؒ کے حالاتِ زندگی کی زمانی
ترتیب کے مطابق درست نہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت جؒی کی شادی کو تھوڑا ہی عرصہ
گزرا تھا او ر آپؒ اپنی اہلیہ اور
کم سن بچوں کے ہمراہ چک13 (خانیوال) میں درس و تدریس کے سلسلہ میں قیام پذیر تھے۔ 1939ء میں بیٹے عبدالرؤف کی پیدائش ہوئی اور 1942ء میں اہلیہ کا انتقال ہوا جو خانیوال کے اسی چک میں
آسودۂ خاک ہیں۔ اس زمانے میں حضرت جؒی
کابیوی بچوں کو ایک دورافتادہ چک میں چھوڑ کر لنگر مخدوم میں مسلسل تین
سالہ قیام، جو ان روایات کے مطابق 1937ء سے 1940ء کا دَور ہونا چاہیٔے، قرائن اور واقعات
کے لحاظ سے ممکن ہی نہیں۔
حضرت
جؒی کی زندگی کے اس اہم ترین واقعہ کے درست سن کے تعین کے لیٔے حضرت جؒی کی ریکارڈ شدہ گفتگو، جو اس باب کے شروع میں مذکور ہے،
قولِ فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؒ نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ جب اہلیہ کی وفات ہوئی، اس وقت تک آپؒ
حضرت صاحب کے حلقہ میں نہ آئے تھے۔اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؒ نے چار عالمی
واقعات کا بھی ذکرفرمایا تھا:
‘‘دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کا فرانس پر حملہ، میزو لائن اڑائی، برطانیہ
فرانس کی مدد کے لئے آیا اور ہندوستان میں عام لام بندی کے ذریعے لاکھوں فوجیوں کی
روانگی۔’’
میزو
لائن عبور کرنے اور فرانس پر جرمنی کا حملہ وسط 1941ء کے واقعات ہیں جبکہ
ہندوستان سے فوجیوں کی وسیع پیمانے پر نقل و حرکت اکتوبر 1941ء سے شروع ہو کر مارچ 1942ء میں مکمل ہوئی۔ اسی دوران جو ریکروٹ بھگوڑے ہوئے
ان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ گرفتاری سے بچنے کے لئے مولوی محمد اکبرؒ نے خانیوال کا رخ کیا لیکن حضرت جؒی اہلیہ کی وفات کے
بعد چکڑالہ منتقل ہو چکے تھے۔ تعزیت کے لئے مولوی محمد اکبرؒ نے چکڑالہ حاضری دی
اور حضرت جؒی سے آپؒ کی اہلیہ کے بارے میں اپنے انکشافات کا ذکر کیا۔ حضرت جؒی فرماتے ہیں: ‘‘تاں میں ہولے ہولے حضرت
صاحب کی خدمت میں گیا۔’’ حضرت جؒی کی
اس ریکارڈ شدہ گفتگو کے مطابق اس واقعہ کے بعد حضرت جؒی کا حضرت مولانا عبدالرحیمؒ
سے رابطہ ہوا جس کا زمانہ وسط 1942ء
ہو سکتا ہے۔
بیلوں کی تلاش میں
حضرت جؒی لنگر مخدوم پہنچے اور مخدوم شیر محمد سے آنے کامدعا بیان کیا ۔ حسبِ توقع
ان کی طرف سے مثبت جواب ملا۔ مزید پیش رفت کے لئے وقت درکار تھا چنانچہ آپؒ گاؤں کے چوپال میں چلے آئے۔ اس
زمانے میں گاؤں کاچوپال مرکزی نشست گاہ ہوا کرتاتھا۔ دوپہر کے وقت لوگ آرام بھی
کرتے اور گپ شپ بھی جاری رہتی۔ عجیب زمانہ تھا کہ دیہات کے چوپالوں میں بھی دینی
مسائل زیربحث آتے۔
حضرت جؒی
لنگر مخدوم کے چوپال میں پہنچے تو
وہاں ایک بڑا نازک دینی مسئلہ زیر بحث تھا، سماع موتیٰ اور برزخی زندگی۔ حضرت جؒی اس وقت تک سماع موتیٰ کے قائل نہ تھے اور وہاں زورِ
استدلال کچھ اسی نہج پہ تھا، چنانچہ آپؒ
بھی گفتگو میں شریک ہو گئے۔ چوپال کے ایک گوشے میں اس بحث سے بظاہرلاتعلق ایک بزرگ
محو ِاستراحت تھے لیکن سماع موتیٰ کے انکار میں جب بات بہت آگے نکل گئی تو وہ اٹھ
کر بیٹھ گئے۔ احتراماً سبھی خاموش ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ فرمانے لگے:
‘‘آپ
کہتے ہیں مردے سنتے نہیں، میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ مجھ سے تو وہ
باتیں کرتے ہیں۔’’
یہ سنتے ہی حضرت جؒی نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا:
‘‘
کیا فرمایا، آپ سے باتیں کرتے ہیں؟’’
انہوں نے جواب دیا:
‘‘ہاں
بیٹا مجھ سے تو باتیں کرتے ہیں۔’’
اس پرحضرت جؒی نے عرض کیا:
‘‘کیا
آپ ہمیں بھی ان کی باتیں سنوا سکتے ہیں؟’’
انہوں نے فرمایا:
‘‘کیوں
نہیں۔’’
کیا واقعی یہ بزرگ اہلِ برزخ سے بات
کروا سکیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ یقین نہ
آرہا تھا کہ ایسا ہو سکے گا لیکن بات اب قیل وقال اور دلیل سے آگے عملی ثبوت تک جا
پہنچی تھی۔ وہ بزرگ اعتماد کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھے، حضرت جؒی کو ساتھ لیا اور
آبادی سے کچھ دور درختوں کے ایک جُھنڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ درختوں کے سائے میں مٹی
کے ٹیلہ پر ایک کچی قبر تھی۔ یہاں پہنچ کر صاحب ِقبر کو مسنون سلام کیا، حضرت جؒی
کو اپنے ساتھ قبر کے سامنے بیٹھنے کی ہدایت
کی اورخود مراقب ہو گئے۔ اب وہ بزرگ کسی
اور ہی عالم میں ڈوبے ہوئے تھے اور ادھر گومگو کی وہی کیفیت، یقین نہیں آرہا تھا
کہ صاحبِ قبر سے گفتگو ہو سکے گی۔ حضرت جؒی اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اکثر فرمایا
کرتے:
‘‘ کھچ مارنے گئے، یعنی شَغْلاً گئے، محض پرکھنے کے لئے، اس وقت تک عقیدت و
ارادت کی صورت نہ تھی۔’’
اچانک سکو ت ٹوٹا
اوروہ بزرگ گویا ہوئے:
‘‘حضرت (صاحب ِ قبر) پوچھتے ہیں، مولوی صاحب امتحاناً آئے ہیں یا
ارادةً؟’’
تجسّس اور امتحان ! یہ حالت تو دل کی
تھی لیکن اس ایک سوال نے دل کی حالت ظاہر کر دی اور سوال بھی ایسا کہ دل میں پیوست
ہو گیا۔ کیا نیّت لے کر آئے ہو؟ وہی پاؤ
گے جس کی طلب ہے۔ کیا امتحان مقصود ہے جو ایک مشقِ لاحاصل ہے یا
ارادت کا کشکول لائے ہو جسے بھرنامطلوب
ہے؟
بندوں کے دل رحمٰن کی دو انگلیوں میں ہیں،
وہ جس طرف چاہتاہے ان کو پھیر دیتا ہے۔
حضرت عمرt شمشیر بکف، حالت ِکفر میں
گھر سے نکلے تو دل میں پیغمبرِاسلامﷺ کے قتل کا ارادہ تھا لیکن بہن سے قرآنِ حکیم
کی تلاوت سنی تو دل کی حالت بدل گئی۔ حبیب ِکبریاﷺ کی محفل میں پہنچے اور وہیں کے ہو رہے۔ گئے تو دل میں کفر کی حمیّت تھی، پلٹے تو دل ایمان سے لبریز!
حضرت جؒی کے ساتھ بھی اس وقت کچھ ایسا
ہی معاملہ پیش آیا۔ گئے تو تھے ‘‘کھچ
مارنے’’ شَغلاً اورامتحاناً لیکن ایک ہی سوال کے ساتھ دل کی حالت بدل گئی ۔ فوراً
عرض کیا:
‘‘ارادةً حاضر ہوا ہوں۔’’
ارادت نام ہی خودسپردگی کا ہے۔ کہاں
حضرت جؒی کے ہاں علمی مباحث، خود اعتمادی اورمناظرانہ رنگ اورکہاں اب مکمل
خودسپردگی اور سمع واطاعت!
ارشاد ہوا:
‘‘مولوی صاحب، کوئی نئی زبان سیکھنے کے لئے ایک
وقت چاہیٔے اور دوسرے، محنت کی ضرورت ہے۔ یہ حال تودنیا کی زبانوں کا ہے اوروہ زبان جو آپ سیکھنا
چاہتے ہیں وہ برزخ کی زبان ہے۔ وہ جہان اور ہے، وہاں کی زبان لفظی نہیں، نفسی ہے۔ کیا آپ اس کے لئے وقت دے
سکتے ہیں اور محنت کا دم خم ہے؟’’
ارادت
کی دنیا میں ردّوکد کی گنجائش کہاں! یہاں تو حالت پہلے ہی بدل چکی تھی، بلا تامل
خود کو پیش کر دیا۔ اُنہوں نے ذکر شروع کیا
تو حضرت جؒی آنکھیں کھولے بیٹھے رہے۔ جب مراقبہ شروع ہوا تو ان کی زبان سے بے
ساختہ نکل گیا:
‘‘جس کا انتظار تھا وہ
آگئے۔’’
مراقبہ ختم ہوا تو حضرت جؒی نے دریافت کیا :
‘‘آپ نے کیا فرمایا
تھا؟’’
انہیں کچھ یاد نہ تھا، لاعلمی ظاہر کر
دی۔ حضرت جؒی کے لئے یہ جواب باعث ِ حیرت تھا ۔ عالم تھے،فوراً سمجھ گئے کہ
مراقبات میں پیش آنے والی واردات کا تعلق ایک اور ہی دنیا سے ہے۔اب علم کا ایک نیا باب کھلا ا ور وہ طالب ِعلم، جو ظاہری تعلیم مکمل
کرچکا تھا، مکتب ِطریقت میں ایک نو وارد طالبعلم کی حیثیت سے نئے سبق کا آغاز
کرتاہے۔ یہ مکتب ِ عشق ہے اور ذکر ِاسمِ
ذات سبحانہ ٗ وتعالیٰ یہاں کا پہلا سبق۔
ذکر
ِ اسمِ ذات
اللہ
تعالیٰ کے ننانوے صفاتی ناموں کا ذکر قرآنِ حکیم اور احادیث ِ مبارکہ میں ملتا ہے لَہُ
الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰیط یعنی
اس کے لئے خوبصورت نام ہیں لیکن اس کاذاتی نام ایک ہی ہے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جل
جلالہٗ وعم نوالہٗ۔ قرآنِ حکیم
میں اسمِ ذات کا تعارف جس نسبت سے کرایا گیا ہے، اس کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے
چشمِ تصور سے ماضی کے دریچوں میں ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
غارِ
حرا کی تنہائیاں اور حبیبِ کبریاﷺ کے شب وروز، اس عالم کا تصور محال، صرف اتنا پتہ
چلتا ہے کہ جب پیمانۂ شوق و وارفتگی لبریز ہونے کو تھا توربِِّ کائنات کے
حکم سے حجابات اٹھنے لگے اور بارگاہ ِ جلالت مآب سے اس کے پیامبر حضرت جبریل امینu کے ذریعے غارِ حرا کے مکینﷺ
کو پہلا پیغام ملتا ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ
رَبِّکَ
(اے حبیبﷺ!)اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھیں(العلق۔1)
ابتدائے سخن تعارف کے ساتھ اور اس
تعارف کا واسطہ خود آپﷺ کی ذات ِ اقدس قرار پائی۔ روح الامینu کی
آمد اورنزولِ وحی کے ساتھ یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰr
کے حریمِ ناز، غارِ حرا کے مکین اور مکہ والوں
کے امین، حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ ہیں، ازل تا ابد، سرورِ
انبیاء اور ختم الرسلﷺ، لیکن
تعارف کا یہ انداز بھی کیا خوب ہے۔
‘‘پڑھیۓ! اس نام کے ساتھ جو آپﷺ
کے رب کا نام ہے۔ ’’
رب
کے نام سے تو عرب کا بچہ بچہ واقف تھا لیکن اب پہچان کا واسطہ آپﷺ
ہی ٹھہرے۔ وہ نام جو آپﷺ کے رب کا نام ہے، اللہ! یہ تھا غارِ حرا کا درسِ اوّل، اللہ تعالیٰ کا تعارف آقائے نامدارﷺ
کے واسطے سے۔
اِقْرَاْ
بِاسْمِ رَبِّکَ … اور اس کے ساتھ نزول
وحی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اسی مبارک نام کے حوالے سے ایک
اورحکم ملتاہے۔
وَاذْكُرِ اسْمَ
رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًاO
اور
اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کریں اور سب سے یکسو ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو
جائیں۔ (المزمل۔8)
اللہ اللہ کی تکرار کریں اور اس قدر
کریں کہ اس ذکر میں محویت کی کیفیت حاصل ہو جائے۔ یہ خطاب براہ ِراست آپﷺ
سے ہے۔ آقائے نامدارﷺ کے اس ذکر کی صورت اورتبتّل کی کیفیت کیا ہو گی؟ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہr اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں۔ کَانَ
یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہٖ کہ آپﷺ ہرآن اللہ کا ذکر کرتے ہیں
یعنی ذکر کی مستقل حالت، ذکر ِدوام۔
زبان
سے کچھ دیر اللہ اللہ کہنا ذکر ِلسانی کہلاتا ہے جو صرف ان ساعتوں پر موقوف ہو گا
جب زبان ذکرِالٰہی میں مصروف ہو لیکن ذکرِدوام ایک مستقل کیفیت ہے جواس وقت حاصل
ہوتی ہے جب اللہ کا نام نہاں خانۂ دل میں اتر جائے۔ قلب اللہ اللہ کرنا
شروع کر دے اور پھر یہ ذکر قلب کا مستقل وظیفہ بن جائے۔ اٹھتے، بیٹھتے، سوتے،
جاگتے دل کی ہر دھڑکن میں اللہ کا ذکر ہو۔
اَلَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰامًا وَّقُعُودًا
وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ
وہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں)۔ (آل
عمران۔191)
یعنی کوئی ساعت ذکرِ الٰہی سے خالی نہ ہو
اور یہ بجز ذکرِ قلبی ممکن نہیں۔ اسی ذکر کی بابت ارشاد ہوا۔
اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ O
یاد رکھو! اللہ کے ذکر
سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔ (الرعد۔28)
قلب
جسمِ انسانی میں دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو حیاتِ جسمانی کو رواں دواں رکھتاہے۔ خون
کی ترسیل کا ایک چھوٹا سا پمپ جس کی حرکت سے رگوں میں خون موجزن ہے اورجب یہ رک
جائے تو زندگی کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔ جس طرح بدن کے اعضائے رئیسہ میں دل سب سے
اہم عضو ہے اورہر جاندار کی حیات اسی کی حرکت کی رہینِ منت ہے، اسی طرح جب روح کی
بات ہو گی تو یہاں دل کی بجائے قلب مراد ہے جو روح کے اعضائے رئیسہ یعنی قلب، روح،
سری، خفی اور اخفیٰ میں سے اہم ترین
ہے۔قرآنِ حکیم میں قلب کا ذکر ایک دوسرے پیرایہ میں فرمایا گیا ہے۔ وہ قلب جو لطیفۂ
ربانی ہے، جو سنتا ہے اوردیکھتا ہے حالانکہ سمع وبصر کانوں اور آنکھوں کے فعل ہیں۔
وہ قلب جو باشعور ہے، تَفَقُّہ اور تدبر کرنے والا، جو ایمان کا مخزن ہے۔ جب
منور ہوتا ہے تو ا س کے سامنے سورج کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔ وہ قلب جو اللہ تعالیٰ
سے کلام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا گھر
بن جاتا ہے۔ یہی قلب جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی
پر اتر آئے تو زنگ آلود ہو جاتا ہے اور
نافرمانی اگر اس قدر بڑھ جائے کہ کفر کی حدوں کو پار کرنے لگے تو اس پر مہر لگ جاتی
ہے۔
یہ سب افعال محض گوشت کے لوتھڑے کے نہیں ہو سکتے۔ بات جب اس قلب کی ہو گی جو
تجلیاتِ باری تعالیٰ کو وصول کر سکتاہے، جو برکاتِ نبویﷺ
کا امین بن سکتاہے تو اس سے مراد گوشت اور رگوں سے لطیف اور مادی آلات کی گرفت
سے ماوریٰ لطیفۂ قلب ہو گا۔ قلب کا مقام
جسمِ انسانی میں بظاہر وہ گوشت کا لوتھڑا ہی ہے جو جوفِ سینہ میں بائیں سمت ہمہ وقت متحرک رہتا ہے
لیکن اس کا مکین وہ لطیفۂ قلب ہے جو محشر کے بازار میں کام آنے والا واحد سکہ ہے۔
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَoلا اِلَّا
مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ o
جس دن نہ مال ہی کوئی فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔ ہاں مگر
جو شخص اللہ کے پاس (کفر و شرک سے) پاک دل لے کر آیا (اس کی نجات ہو گی)۔ (الشعرآء
88-89)
آقائے نامدارﷺ
کے الفاظ میں:
قَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ
اِنَّ فِیْ الْجَسَدِ لَمُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ
وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ
اَ لَا وَھِیَ الْقَلْبُ
‘‘حضورﷺ
نے فرمایا، جسمِ انسانی میں
گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم درست ہو گیا اور اگر وہ
بگڑا تو سارا جسم بگڑا۔ سنو! وہ قلب ہے۔’’
جب
قلب بن جائے تو انسان سنور جاتاہے، جب یہ بگڑ جائے تو قسمت بگڑ جاتی ہے اور بدن سے
وہ اعمال سرزد ہو نے لگتے ہیں جو سراسر بگاڑ ہوتے ہیں۔ قلب بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ، یہ سنورتا
ہے تو صرف اس کی یاد کے ساتھ، یہ منوّر
ہوتا ہے تو تجلیات ِباری تعالیٰ کے ساتھ یہاں تک کہ اس کی ہر دھڑکن، چاہت، سبھی جذبے اور محبتیں اللہ تعالیٰ کے لئے وقف ہو جاتی
ہیں۔
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ
مجھے کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے تیری فکر سے تیری یاد سے تیرے نام سے
تیرے ذکر سے تیری فکر سے تیری یاد سے تیرے نام سے
یہ کیفیت تب نصیب
ہوتی ہے جب لطیفۂ قلب جاری ہو جائے جس کا
واحد ذریعہ ذکرِ قلبی ہے۔
ذکر قلبی
ذکرِ
قلبی مکتبِ طریقت کا پہلا سبق ہے اور حضرت جؒی کا یہ
مکتب بھی کیا خوب تھا ۔ دریائے چناب کے غربی کنارے، موٹروے کے پل سے جنوب کی سمت
آٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر اس زمانے میں کیکر اور پھلاہی کے درختوں کا ایک گھنا
جُھنڈ تھا۔ اس کے پہلو میں دریا کی پرانی گزرگاہ جو سیلاب کے دنوں پانی سے بھر جاتی اور پھر ایک وسیع وعریض تالاب کی صورت سال بھر یہ
پانی موجود رہتا۔ اسی تالاب کے کنارے مٹی کے ٹیلہ پر درختوں کے سائے میں ایک کچی
قبر تھی جو حضرت جؒی کا مکتبِ طریقت تھا۔ علومِ ظاہری کے بعد اب یہاں ایک نئے سبق کا آغاز ہو رہا ہے۔
ذکر
اسمِ ذات بطریق پاسِ انفاس یعنی ذکر اسمِ ذات اللہ، اللہ قلب میں کیا جائے لیکن
اس تسلسل کے ساتھ کہ کوئی سانس اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہویعنی ہر سانس کے ساتھ ذکر قلبی
کا ربط قائم رہے۔ مکمل یکسوئی اور توجہ کے ساتھ
ہر سانس کی آمدورفت پر اس طرح گرفت ہو کہ ہر داخل ہونے والے سانس کے ساتھ
اسمِ ذات اللہ دل کی گہرائیوں میں
اترتا چلا جائے اور خارج ہونے والے ہر سانس کے ساتھ قلب پر ھُو کی چوٹ لگے۔ اس طرح سانس
کی آمد و رفت کے ساتھ قلب میں اللہ
ھُو کا ذکر ایک تسلسل کے ساتھ شروع ہو جائے۔ ابتداء میں شعوری طور پر ہر سانس کی
نگرانی کی جائے حتیٰ کہ مسلسل مشق کے بعد ہر سانس کے ساتھ غیرشعوری طور پر قلب میں
اللہ ھُو کا ذکر جاری ہو جائے۔
سانس کی نگرانی کے اس عمل کو پاسِ انفاس کہتے ہیں۔ ذکر کے دوران سانس تیزی اور قوت سے لیا جائے اور
ساتھ ہی جسم کی حرکت بھی ہو جو سانس کے تیز عمل کے ساتھ خود بخود شروع ہو جاتی ہے۔
کوئی سانس اللہ کے ذکرسے خالی نہ ہو،
توجہ قلب پرمرکوز رہے اور ذکر کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے۔
قوت اور تیزی کے ساتھ کچھ دیر ذکر کرنے کے بعد اب پھر
سانس طبعی طور پر لیا جائے لیکن توجہ بدستور قلب پر مرکوز رہے۔ پاسِ انفاس کی صورت
اس حال میں بھی برقرار رہے یعنی کوئی سانس اللہ کے
ذکر سے خالی نہ ہو۔کچھ دیر شعوری طور پر اللہ ھُو کے اس ذکر کے بعد محسوس ہو گا کہ اب قلب خودبخود
سانس کی آمدورفت کے ساتھ اللہ ھُو کہہ
رہا ہے، گویا اسے جو سبق دیا گیا تھا اب وہ خودبخود اسے دہرا رہا ہے۔ چند یوم صبح شام مسلسل ذکر کے بعد ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ذکر اسمِ ذات یعنی اللہ شعوری
اور غیرشعوری، ہر دو حالت میں قلب کا مستقل وظیفہ بن جائے گا۔ ذکر کی یہ کیفیت
ذکرِدوام کہلاتی ہے اور صوفیاء کی اصطلاح میں اسے قلب کے جاری ہونے سے تعبیر کیا جاتاہے۔قلب کا جاری ہو جانا صرف
محنت اور مجاہدوں پر موقوف نہیں، یہ ایک کیفیت ہے جس کے حصول کے لئے اہل اللہ کے
سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا ضروری ہے۔
حضرت جؒی بھی اس کچی قبر کے پہلو میں بیٹھے ذکرِ قلبی سے
طریقت کے درسِ اوّل کا آغاز کرتے ہیں۔ وہ بزرگ آپؒ کے ساتھ دائیں طرف بیٹھے ہیں
اور مسلسل ذکر ہو رہا ہے ، اللہ ھُو،
اللہ ھُو، اللہ ھُو، بطریق
پاسِ انفاس لیکن اس عمل کے دوران صاحب ِ قبر کی توجہ شاگردِ رشید کے قلبِ باصفا پر
مرکوز ہے۔ اس سارے عمل میں توجہ ہی وہ مؤثر اور فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کے
بارے میں بجا طور پر کہا گیا:
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
توجہ
غار
ِحرا کا پہلا سبق تھا، اِقْرَاْ یعنی پڑھو لیکن آقائے نامدارﷺ نے حضرت جبرائیل امینu کو جوا ب دیا، مَا اَنَا
بِقَارِی۔
(میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) حضرت جبرائیلu نے آپﷺ کو سینے
سے لگا کر زور سے بھینچا اور کہا ، اِقْرَاْ جواب اس مرتبہ بھی وہی تھا۔ حضرت جبرائیلu نے ایک
بار پھر آپﷺ کو سینے
سے لگا کرزور سے بھینچا اورکہا، لیکن جواب
اس مرتبہ بھی وہی ملا یعنی مَا اَنَا بِقَارِی،
حتیٰ کہ جبرائیل امینu نے تیسری
مرتبہ آپﷺ کو سینے سے لگا کرخوب زور سے
بھینچا اور اس کے بعد اِقْرَاْ سے مَالَمْ یَعْلَمْ تک پیامِ حق کی ترسیل مکمل کی۔
یہ تھی پہلی وحی! تین مرتبہ سینے سے لگا کر بھینچنے کے متعلق
مفسرینِ کرام نے کمالِ ادب اور احتیاط سے کلام کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ
بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ یعنی اللہ تعالیٰ ہی حقیقت حال کا
علم رکھتے ہیں لیکن اسی سنت کے مطابق اہل اللہ
کے ہاں تین بار توجہ دینے کا عمل ملتاہے۔
توجہ وہ قوت یا تصرف ہے جس کے
ذریعہ مکتبِ طریقت کے مبتدی طالب علم کے قلب کو اخذِ فیض کے
لئے تیار کیا جاتا ہے۔ عقل ودانش کے پیمانوں سے تصوف وسلوک کے اسباق کا احاطہ ممکن
نہیں۔ اس مکتب کا طالبعلم قلب ہے جو القائی اورانعکاسی عمل کے ذریعہ یہاں کے اسباق
لیتاہے۔ توجہ کا منبع قلبِ شیخ ہوتا ہے اور اس کانقطۂ ارتکاز سالک کا قلب۔ تین
بار توجہ کے ذریعہ سالک کے قلب میں وہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ راہِ
سلوک پر اپنے سفر کا آغاز کر سکے ۔ شیخ
کامل ہوگا تو اس کی توجہ میں قلوب کو
متأثر کرنے کی صلاحیت ہو گی جو ما و شما
کا کام نہیں۔
ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ
يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُط
یہ اللہ کا فضل ہے جس
کو چاہیں عطا فرمادیں۔( المآئدة ۔54)
توجہ کا مقصد اصلاح ِباطن ہے لیکن شیخِ کامل کی توجہ
سے مستفید ہونے کے لئے قلب کا طالب ہونا بھی ضروری
ہے ۔ انابت سے محروم قلب کے لئے شیخِ کامل کی توجہ بھی پتھریلی چٹان پر برسنے والی
بارش کی طرح بے اثر ثابت ہو تی ہے۔شیخ کی یہ باطنی قوت یا توجہ دراصل صحبت
ِبرکاتِ نبویﷺ کی ایک انعکاسی جھلک ہے۔ ایمان کے ساتھ جو شخص بھی صحبتِ نبویﷺ
میں حاضر ہوا، ایک نگاہ کے ساتھ
برکات ِصحبت اس کے قلب میں اتر گئیں اور وہ ولایت کے بلند ترین مقام، صحابیت پر
فائز ہوا۔ صحابۂ کرام] کی نگاہ ِپُراثر
سے تابعین بنے اور پھر تابعین کی نگاہ سے تبع تابعین کی جماعت تیار ہوئی۔ اس کے
بعد اہل اللہ کے ذریعہ یہ ولایت بٹتی چلی
گئی ۔ جس کسی نے بھی برکاتِ صحبتِ نبویﷺ کے منبع
سے جاری کسی بھی دھارے سے رابطہ جوڑا، اسے اس کی استطاعت کے مطابق یہ برکات نصیب
ہوئیں۔ برکاتِ صحبت ِ نبویﷺ کی ترسیل کے یہ مختلف
دھارے سلاسلِ تصوف کہلاتے ہیں۔
سلاسلِ تصوف
آج باطنی تربیت کے جس مکتب کی بات کریں، خواہ وہ نقشبندی ہویا
قادری، چشتی ہو یا سہروردی، اس کے پیچھے اولیائے کرام
کا ایک سلسلہ تواتر کے ساتھ نظر آتا ہے اور منبعٔ فیض آقائے
نامدارﷺ کی
ذاتِ اقدس تک پہنچتا ہے۔مختلف سلاسلِ تصوف کے ذریعہ برکاتِ نبویﷺ
کی یہ ترسیل ہمہ وقت جاری ہے۔ ایک چراغ سے کئی چراغ جلے اور بعض قلوب ایسے بھی
تھے جو بیک وقت سینکڑوں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں قلوب کو منور کرنے کا ذریعہ بن
گئے۔
آج دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی قلب منور نظر
آتا ہے، اس کی روشنی اسی ضیا ء پاشی کی رہینِ
منت ہے جس کا منبع قلبِ اطہر رسول اللہﷺہے
اور درمیان میں تابعین، تبع تابعین اور اہل اللہ کے سلاسل ہیں جواس قلب تک یہ روشنی
منعکس کرنے کا واسطہ ہیں۔ تمام سلاسلِ تصوف حضرت علیt تک پہنچتے ہیں سوائے
سلسلۂ نقشبندیہ کے، جس کی پہلی کڑی جنابِ صدیق اکبرt ہیں۔
سلسلۂ نقشبندیہ میں
ایک سلسلۂ تصوف ایسا بھی ہے جس میں روحانی تسلسل برقرار رہتاہے لیکن زمانوی
اعتبار سے توجہ دینے والی ہستی اور سالک کے درمیان بعض اوقات صدیوں کے فاصلے بھی حائل ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلۂ عالیہ میں ترسیلِ
فیض کے لئے زمانہ کی قید ہے نہ باہمی نشست وصحبت کی، جس طرح حضرت اویس قرنی : کو آقائے نامدارﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے بغیرروحانی طور پر فیض حاصل
ہوا۔ حصولِ فیض کے اس طریق کی مطابقت
چونکہ حضرت اویس قرنیؒ کے طریقۂ حصولِ فیض
سے ہے، اس لئے یہ طریق ِ اویسیہ کہلاتا ہے۔
حضرت جؒی کی روحانی تربیت کی ابتداء بھی بطریق اویسیہ ہوئی۔
صاحب ِ مزار سلسلۂ اویسیہ کےشیخ حضرت سلطان العارفین خواجہ
اللہ دین مدنی : تھے جن کی براہِ راست توجہ سے حضرت جؒی نے راہِ سلوک پراپنے سفر
کا آغاز کیا اور ان سے رابطہ کا ذریعہ جو ہستی بنی، وہ حضرت خواجہ عبدالرحیم : تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔