ANTI-ADBLOCK JS SYNC تحصیلِ علم ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

تحصیلِ علم

·       تحصیلِ علم

o      حضرت جؒی کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا لیکن گاؤں کے ایک دور افتادہ ڈیرے سے روزانہ پرائمری سکول تک بھیجنے کا تردّد کون کرتا۔ ا وائلِ عمر میں والد ماجد کی وفات کے بعدکھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانا اور بکریوں کے گلہ کی نگہبانی خاندان کی اولین ترجیح تھی۔ اس طرح آپؒ ابتدائی تعلیم سے محروم رہے ۔ جیل کی ملازمت کے دوران پرائمری تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملا تو اس کے ساتھ ہی آپؒ دینی کتب کے مطالعہ  میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ جیل میں بعض اوقات مذاہب ِ باطلہ پر بات چل نکلتی، بالخصوص قادیانیت پر بحث ہوتی جو اس دور کا ایک بڑا فتنہ تھا۔ چونکہ آپؒ  کے مزاج میں دینی حمیّت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے ان مباحث میں خوب حصہ لیتے اور کسی غلط بات کو برداشت نہ کرتے۔
            ماہِ صیام آیا تو صلوٰةُ التّراویح کے لئے تلہ گنگ کے قصبہ مصریال  سے مولانا عبدالرحمٰن کو بلایا گیا۔ کوہاٹ میں مولانا کے مختلف مساجد میں ختمِ قرآن کے پروگرام ہوتے۔ جیل منشی ہونے کی وجہ سے حضرت جؒی راتوں کو فارغ ہوتے اور مولانا کے ہر پروگرام میں باقاعدگی سے شریک ہوا کرتے۔  دورانِ نشست آپؒ مولانا سے خوب سوالات کرتے جو اکثر ادیانِ باطلہ سے متعلق ہوا کرتے۔ یہ سوالات مشکل نوعیت  کے ہوتے اس لئے تنگ آکر ایک روز مولانا  نے حضرت جؒی سے کہا:
‘‘ عزیز! گل ایہہ وے۔ اگر توں انج کرنا ایں تے پڑھ’’
 (عزیز! بات یہ ہے کہ اگر تم نے سوال  کرنے ہیں  تو خود علم حاصل کرو)
             حضرت جؒی فرمایا کرتے تھے کہ جیل میں جب مختلف فرقوں بشمول مذاہب ِ باطلہ کا لٹریچر پڑھتا تو اپنی وافر تحقیق و تعلیم نہ ہونے کی بنا پر جو کچھ پڑھتا، اسے درست سمجھنے لگتا۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبدالرحمٰن کے درجات بلند فرمائے،  انہوں نے حضرت جؒی کو رغبت  دلائی کہ اگر مذہبی تحقیق کرنی ہے تو خود علم حاصل کرو، ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔
            یہ حضرت جؒی کی زندگی کانہایت اہم موڑ تھا جب دورانِ ملازمت آپؒ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی اثناء میں داروغہ جیل سے جھگڑا ہوا  تو ملازمت سے جان چھوٹی، گویا آپؒ  کے ارادے کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے حالات کا رخ موڑ دیا۔ حضرت جؒی کا بچپن اور لڑکپن، جو تحصیلِ علم کازمانہ ہواکرتا ہے، تعلیم کے بغیر گزرا۔ پرائمری تعلیم کی تکمیل اوائلِ جوانی میں ہوئی اور جب عمرِ عزیز کے دو عشرے مکمل ہوچکے تھے تو آپؒ  نے  ملازمت سے فراغت کے بعددینی تعلیم کے حصول کا ارادہ فرمایا۔
          اکثر سوانح میں بطور فضیلت یہ تذکرہ ملتاہے کہ فلاں بزرگ کی پیدائش مسجد کے حجرہ میں  ہوئی، چلنا شروع کیا تو پہلا قدم صحنِ مسجد میں رکھا اور ظاہری علوم کی تکمیل تک  باہر کی دنیا کی خبر نہ ہوئی۔ یہ عظمت کا ایک پہلوہے۔  بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے کان میں پڑنے والی پہلی آواز قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَقَالَ الرَّسُوْلُ ہو لیکن اس  کے  مقابل  اس شخص کی عظمت کا کیا کہنا جو بچپن  سے ان روح  پرور جملوں کو ترسا کرے مگر اس کی تڑپ میں وہ شدت اور طلب  میں اس قدر خلوص ہو کہ زندگی کا ایک حصہ گزر جانے کے بعدجب یہ آواز سنے  توبرسوں کی مسافت چند روز میں طے ہو جائے اور ابتدائی  چند  دروس میں ہی  قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَقَالَ الرَّسُوْلُ اس کا حال بن جائے۔ حضرت جؒی کے ہاں عظمت کا یہ دوسرا  پہلو نظر آتا ہے۔
            جیل کی ملازمت ختم ہونے کے بعد حضرت جؒی نے چکڑالہ میں اٹھائیس دن مختصر قیام فرمایا جس  کے بعد والدۂ ماجدہ سے دینی تعلیم کے لئے مسافرت کی اجازت چاہی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس بزرگ ہستی پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے جس نے بصد شوق اجازت  مرحمت فرما دی۔ آپؒ کے ایک قریبی عزیز اور بچپن  کے ساتھی نورمحمؒد بھی ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ ایک رات آپؒ  کی والدۂ ماجدہ  نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ ان کے ہاں تشریف لائے اور دو تھیلیاں  سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہارے بیٹے کے لئے ہیں۔ حضرت  جؒی کی والدہ نے نور  محؒمد کے لئے بھی طلب کیں  تو انہوں نے گھر کے صحن میں زمین پر عصا مارتے ہوئے فرمایا:
            ‘‘ کیا یہاں بھی کچھ  اُ گ سکتا ہے؟’’
             دو تھیلیوں سے مراد علومِ ظاہر وباطن تھے اور حضرت جیؒ نے ان دونوں علوم میں کمال حاصل کیا۔
بابا نور محمدؒ
          حضرت جیؒ کے بچپن کے دوست بابا نور محمؒد علم حاصل کرنے میں تو  حضرت جؒی کا ساتھ نہ دے سکے لیکن ان کے نصیب میں آپؒ کا مستقل ساتھ لکھ دیا گیا ۔ زندگی میں دوستی کا حق  اس طرح ادا کیا کہ حضرت جؒی کا مہمان بننے کی سعادت جس کو بھی ملی، وہ باباجیؒ کے حسنِ سلوک اور پُر خلوص خدمت کو فراموش نہ کر سکا۔
          قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے ان کا حضرت جؒی کے ہاں آنا جانا تھا اور احباب کی میزبانی کے فرائض بھی ان کے سپرد تھے۔ حضرت جؒی کے ہر مہمان کے آرام اور کھانے پینے کا خیال رکھتے اور ضروریات سے حضرت جؒی کو مطلع کرتے۔ایک مرتبہ کرنل محبوبؒ  چکڑالہ میں حضرت جیؒ  کے ہاں قیام پذیر تھے ۔ رات کے کھانے میں کرنل صاحؒب کو دو روٹیاں ملیں تو انہوں نے سحری کی نیت سے ایک روٹی تکیے کے نیچے سنبھال لی۔ بابا نور محمؒد یہ دیکھ رہے تھے۔ پوچھنے پر روزے کی نیت کا پتا چلا تو حضرت جؒی کو اطلاع کی۔ آپؒ   نے کرنل صاحؒب کے لئے خاص طور پر سحری کے لئے چائے اور پراٹھے بھجوائے اور اس طرح بابا نور محؒمد کو سحری کے وقت پھر خدمت کا موقعہ مل گیا۔ اس بے لوث خدمت کا یہ صلہ پایاکہ حضرت جؒی کو ملتان کے دورہ کے دوران 20 نومبر 1983ء کو بابا نورمحؒمد کے وصال کی اطلاع کی گئی  تو ہدایت فرمائی کہ انہیں آپؒ کی مزروعہ زمین میں فلاں درخت کے سایہ میں دفن کیا جائے جس سے متصل آپؒ کی بھی آخری آرام گاہ ہو گی۔  اب اسی جگہ حضرت جؒی بھی آرام فرما ہیں اور بابانورمحمدؒ  کو آپؒ کی دائمی رفاقت نصیب ہے۔
            بابا جیؒ انتہائی کم گو تھے۔ زندگی میں ان کے جذبات کی ترجمان وہ زیرِ لب مسکراہٹ ہوا کرتی جو  حضرت جؒی  کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کے لئے پیغامِ محبت تھی۔بابانور محمؒد آج بھی خاموش ہیں اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ حضرت جیؒ کے قرب میں کون آسودۂ خاک ہے لیکن بابا جؒی کی  قبر  یہاں حاضری دینے والے ہر زائر کو زبانِ حال سے یہ پیغام دے  رہی ہے کہ ان عظیم ہستیوں کا دامن جو ایک بار تھام لے وہ اسے چھوڑا نہیں کرتے۔
ھُمُ الْجُلَسَاءُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔
اَوْکَمَا قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ
ان کی مجلس میں بیٹھنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔
دینی تعلیم کا آغاز
          اس دور  میں آج کی طرح باقاعدہ دینی مدارس نہ تھے۔ انگریز کے ہاتھوں اسلامی ریاستوں کی بربادی کے بعد مسلم سلاطین کے زیرِکفالت چلنے والا نظامِ درس وتدریس بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ اساتذہ منتشر تھے اور کتابیں نابود ہوگئی تھیں۔ ان حالات میں علم کے متلاشی جہاں کہیں کسی عالم کی خبر پاتے، اس کے پاس پہنچ جاتے۔ جس صنفِ علم کا وہ ماہر ہوتا، اسے حاصل کرتے اور بقیہ علوم کی تحصیل کے لئے تلاش کا سفر جاری رہتا۔ حصولِ علم کی لگن   حضرت جؒی  کو بھی  قریہ قریہ لے گئی۔
            حضرت جؒی نے تحصیل ِعلم کی ابتداء غالباً 1925ء یا اس سے ایک دو سال بعد بھیرہ سے کی۔ اس کے بعدکئی ایک مقامات پر مختلف اساتذہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ اس ضمن میں حضرت جؒی نے اپنے ایک ریکارڈ شدہ انٹرویو میں ضلع سرگودھا میں لنگر مخدوم، چک نمبر10، موضع شاہر، کوٹ فتح خان، ڈیرہ جاڑہ اور جلہ مخدوم کا تذکرہ کیا ہے۔
            جن دنوں آپؒ   جلہ مخدوم میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، کوہاٹ میں جیل حکام کو خیال آیا کہ داروغہ جیل پر حملہ ایک سنگین جرم تھا جس پر حضرت جؒی کو نوکری سے برخواست کرنے کی سزا کافی نہ تھی۔ دوبارہ وارنٹ جاری ہوئے اور پولیس آپؒ کی گرفتاری کے لئے جلہ مخدوم پہنچی لیکن آپؒ کے استاذِ محترم کو بروقت اطلاع ہو گئی۔ انہوں نے آپؒ کو فوراً رخصت کیا اور اس طرح حضرت جؒی پولیس کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ جلہ مخدوم سے حضرت جؒی  پنڈی گھیب آ گئے لیکن یہاں صرف  چند روز قیام فرمایا۔
          حضرت جؒی کو جہاں کہیں کسی عالم کی خبر ملتی، ادھر کا رخ کرتے۔ چکوال کے نواح میں موہڑہ کورچشم کے مولانا محمد اسمٰعیل علاقہ بھر میں اپنی علمی پہچان رکھتے تھے۔ آپؒ 1928-29 ء میں ان کی درسگاہ میں پہنچے اور مولانا کے سامنے صحیح بخاری کی ایک حدیث  بیان کرتے ہوئے گذارش کی کہ میں اس کا مطلب سمجھنا چاہتا ہوں، کئی علماء کے سامنے اِشکال پیش کئے ہیں لیکن کوئی بھی شافی جواب نہ دے سکا۔ مولانا نے آپؒ کو اس وقت تو کوئی جواب نہ دیا لیکن تہجد کے وقت آنے کے لئے کہا۔ تہجد کی نشست میں حدیث مبارکہ پر جامع گفتگو ہوئی۔ شاگرد ِرشید نے استاذ کو پہچانا اور استاذِ جو ہر شناس کو اندازہ ہوا کہ یہ نوجوان کوئی عام طالب علم نہیں۔ تہجد کے وقت کی یہ علمی گفتگو دراصل اس فیصلہ کی بنیاد تھی کہ آپؒ  کا اگلا مکتب موہڑہ کورچشم  ہوگا۔ یہاں حضرت جیؒ     نے مسلسل تین برس قیام فرمایا اگرچہ علمی مباحث کے لئے اس کے بعد بھی موہڑہ کور چشم  تشریف لاتے رہے۔
          کوٹ فتح خان میں حضرت جیؒ نے دیوبند سے فارغ التحصیل ایک استاذ  المعروف بہ ‘رام پور والے مولوی صاحب’ سے صرف ونحو کی تراکیب سیکھنے کے لئے استفادہ کیا۔ فارسی کتب بھیرہ اور سرگودھا کے قریب چک نمبر10 اور لنگر مخدوم میں پڑھیں۔ نحوی ترا کیب سیکھنے کے لئے موضع شاہر اور چک نمبر10  میں زیادہ وقت لگایا۔ اسی مقصد کے لئے پنڈی گھیب بھی گئے لیکن مطمئن نہ ہوسکے  اور    چند روز   بعد واپس لوٹ آئے۔
            لنگر مخدوم میں تعلیم کے دوران حضرت جؒی کا تعلق مولانا محمد مخدوم سے رہا۔ یاد رہے کہ لنگر مخدوم میں صدیوں سے مخدوم خاندان کی زیر سرپرستی درس وتدریس کا سلسلہ جاری تھا۔ گیارھویں صدی ہجری کے اوائل میں یہاں مخدوم عبدالکریمؒ سے لاہور کے مشہور بزرگ خواجہ محمد اسمٰعیل سہروردیؒ (میاں وڈؒا) نے بھی ظاہری تعلیم حاصل کی تھی۔
          1932ء میں حضرت جیؒ نے دورۂ حدیث کے لئے مسجد خواجگان، ڈلوال (نزد کلر کہار) میں قیام فرمایا۔ یہاں مولانا سید امیؒر فاضل دیوبند سے دورۂ حدیث مکمل کیا جس کے بعد آپؒ کی دستار بندی ہوئی۔ مولانا سید امیؒر انتہائی متقی بزرگ تھے۔ آخر عمر میں تپ دق کے عارضہ میں مبتلا ہوئے۔ ایک صاحبِ ثروت عقیدت مند علاج کے لئے لاہور لے آئے لیکن  ہسپتال میں بے پردہ نرسوں کو دیکھا   تو  بغیر  علاج  واپس چلے گئے  ۔
            ڈھلوال میں قیام کے دوران حضرت جؒی کو ڈھیری سیّداں کے مقام پر  اپنی زندگی کے پہلے مناظرہ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ا س مناظرہ کے لئے آپؒ پہلے سے تیار نہ تھے لیکن جب آپؒ نے اہلِ سنت کے مناظرکو  لاجواب ہوتے دیکھا تو مناظرہ میں شریک ہونا پڑا۔اس مناظرے میں زبردست کامیابی کے بعد حضرت جؒی    پہلی بار عوامی سطح پر متعارف ہوئے۔
             حضرت جؒی  نے مختلف اساتذہ  سے استفادہ کیااور سالہاسال کی محنت ِ شاقہ کے بعد درس نظامی اور عربی  وفارسی کی جملہ کتب کی تکمیل کے علاوہ علومِ دگر، صرف ونحو، منطق، تفسیر و حدیث، فنِ مناظرہ اور ردِمذاہب ِباطلہ میں بھی کمال حاصل کیا۔ اساتذہ آپؒ کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ حافظہ کا یہ عالم تھا کہ استاذ سے ایک مرتبہ سبق لینے کے ساتھ ہی از بر ہو جاتا اور دہرانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ کبھی کبھار طلباء کے ساتھ مل کر دہراتے تو انہیں گمان ہوتا کہ آپؒ نے ساری کتابیں پہلے سے پڑھ رکھی ہیں اور اب محض دہرائی کر رہے ہیں۔ چونکہ دوسرے طالب علموں کی نسبت عمر  میں بھی کافی فرق تھا اس لئے اکثر طلباء یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ ان کی طرح آپؒ بھی یہ اسباق  پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہیں۔
مدرسۂ امینیہ
          مسجد خواجگان ڈھلوال میں 1932ء میں دستار بندی کے بعد حضرت جیؒ دورۂ حدیث کے اعادہ کے لئے اوائل  1933ء میں مدرسۂ امینیہ دہلی تشریف لے گئے۔ ان دنوں اس مدرسہ کے سرپرست مفتی کفایت اللہؒ تھے۔ تحریک ریشمی رومال اور اس کے بعد  سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مدرسہ دیوبند بری طرح متاثر ہؤا تھا۔ صدر مدرس مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ مدرسہ دیوبند کو خیرباد کہہ چکے تھے اور اس کے اکثر اساتذہ مدرسہ امینیہ ہی میں درس وتدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ حضرت جؒی نے ان اساتذہ کی قابلیت سے خوب استفادہ کیا جن میں مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ بھی شامل تھے۔ مفتی کفایت اللہؒ سے آپؒ نے بیضاوی، طحاوی شریف اور ہدایہ پڑھیں۔ دورانِ اسباق حضرت جیؒ اور مفتی کفایت اللہؒ کے درمیان خوب علمی مباحث ہوا کرتے۔ آپؒ نے اس علمی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار فرمایا:
‘‘میں جب بھی سوال کرتا، مفتی کفایت اللہؒ بہت توجہ سے سنتے۔ سوال ٹھوس ہوتا اور وہ فرماتے، آپ قانون باندھ کر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ قانون آپ نے کہاں سے سیکھا ہے؟’’
            مدرسۂ امینیہ سے دورۂ حدیث مکمل کرنے کے بعد یہاں سے جانے کو دل نہ چاہتا تھا۔  روانگی کے وقت انتہائی افسردگی کے عالم میں مدرسۂ امینیہ کی دیوار پر اپنے دل کی حالت ان الفاظ میں تحریر فرمائی:
ز دھلی بروں آمدم نادمم

کہ دھلی بہشت است و من آدمم


(میں دہلی سے تأسف کے ساتھ واپس لوٹ رہا ہوں گویا دہلی بہشت ہے اور میں      حضرت آدمu کی طرح یہاں سے رخصت ہو رہا ہوں۔)
          حضرت جؒی کی طبیعت میں تحقیق و جستجو کا مادہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا  ہوا تھا۔ مختلف اساتذہ سے تبادلۂ خیال کرتے اور جب تک کسی مسئلہ کی تہہ تک نہ پہنچ جاتے، چین سے نہ بیٹھتے۔ حدیثِ جبریل کے بارے میں آپؒ نے فرمایا کہ تقریباً گھنٹہ دو گھنٹہ میں نے استاذ ِ محترم کو  آگے نہ بڑھنے دیا، جب تک صحیح مفہوم سمجھ میں نہ  آگیا۔اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا بے حد احترام کرتے اور طرز ِتکلم میں بحث  و تمحیص کی بجائے ادب  اور تلمیذانہ رنگ غالب رہتا۔
سیّد انور شاہ کشمیری :
            زمانۂ طالب علمی کے آخری دور میں حضرت جؒی کی سید انور شاہ کشمیریؒ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت جؒی اکثر حضرت بایزید بسطامیؒ کے اس قول کا حوالہ دیا کرتے:
‘‘جس نے مجھے دیکھا بد بختی اس سے دور  ہو گئی’’
یعنی وہ کفر وشرک سے محفوظ ہو گیا۔
          ایک مرتبہ شیخ ابوالحسن خرقانیؒ نے حضرت بایزید بسطامؒی کا یہی قول سلطان محمود غزنوی کے سامنے بیان کیا تو سلطان نے  اعتراض کیا کہ حضرت بایزید بسطامؒی   کا مرتبہ حضورﷺ سے بلند کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ حضورﷺ کو ابوجہل اور ابولہب جیسے منکرین نے دیکھا لیکن ان سے بدبختی دور نہ ہوئی۔ حضرت ابوالحسن  خرقانیؒ  نے فرمایا کہ حضور اکرمﷺ کو خلفائے اربعہ اور دیگر صحابہ کرام]  کے سوا کسی نے دیکھا ہی نہیں جس کی دلیل یہ آیت ہے:
وَتَرَاهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ O
اور آپ انہیں دیکھتے ہیں (گویا) آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ نہیں دیکھتے۔(الاعراف۔198)
          حضرت بایزید بسطامؒی کو دیکھنا بھی اسی معنی میں ہے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت جؒی فرمایا کرتے:
‘‘اگر روزِ محشر یہ سوال ہوا کہ کیا لائے ہو تو عرض کروں گا: بارِ الٰہا! تیرے نیک بندے سید انور شاہ کشمیریؒ کی زیارت کا موقعہ ملا، یہی ایک عمل تیرے حضور پیش کر سکتا ہوں۔’’
          حضرت جؒی کی ریکارڈ شدہ گفتگو میں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ  سید انور شاہ کشمیریؒ  سے آپؒ کی یہ ملاقات کب اور کن حالات میں ہوئی؟ سید انور شاہ کشمیریؒ 1927ء سے  1932ء تک دبھیل(انڈین گجرات)میں قیام پذیر رہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب حضرت جؒی کی تعلیمی مصروفیات ضلع جہلم (بشمول موجودہ ضلع چکوال) اور ضلع سرگودھا تک محدود رہیں جس کے بعد 1933ء میں آپؒ دورۂ حدیث کے اعادہ کے لئے مدرسہ امینیہ، دہلی چلے گئے۔ اوائل 1933ء میں سید انور شاہ کشمیریؒ بغرض علاج دیوبند روانہ ہوئے تو دہلی ان کے سفر کی اہم منزل تھی۔ مدرسہ امینیہ میں انہوں نے 1897ء سے 1901ء تک تدریسی فرائض بھی سرانجام دیئے تھے۔ سید انور شاہ کشمیریؒ کی دہلی آمد پر جب اس مدرسہ کے اساتذہ اور طلباء نے ان سے ملاقات کی تو انتہائی وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت جؒی بھی ان طلباء میں شامل تھے۔ اس واحد موقع کے علاوہ حضرت جؒی اور سید انور شاہ کشمیریؒ کی باہم ملاقات کی کوئی اور صورت ممکن ہی نہیں۔ اس ملاقات سے اس بات کی بھی توثیق ہو جاتی ہے کہ مدرسہ امینیہ دہلی میں حضرت جؒی کے دورۂ حدیث کے اعادہ کا سن 1933ء ہی ہے۔ جس کے ساتھ ہی آپؒ کا دورِ طالب علمی مکمل ہوا۔
          حضرت جیؒ نے قریباً دس برس دشت ِعلم کی راہ نوردی میں بسر کر دیئے۔ کسی ایک جگہ ٹھہرے نہ کسی ایک استاذ پر قانع  ہوئے۔جو اسباق سالوں پہ محیط تھے ان کی تکمیل مہینوں میں فرمائی۔ آپؒ  کی بے مثال ذہانت، غیر معمولی حافظہ، عمر ِعزیز کے دس برس کی محنت ِ شاقہ اور اساتذہ میں مفتی کفایت اللہؒ   اور مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ  جیسی ہستیاں، اس سے آپؒ کے   تبحّرعلمی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت جؒی  کا مقصدِتعلیم محض دستار بندی اور سندِ فراغت ہی نہیں، بلکہ حصولِ علم تھا جس کی کوئی انتہا نہیں۔ چنانچہ مروجہ تکمیل نصاب کے بعد بھی علماء کے ساتھ روابط اور مطالعہ کتب کی صورت تحصیل علم کا سلسلہ عمر بھر جاری رہا۔ 
علمِ طب
          اُس دور میں اکثرطلباء دینی علوم کی تکمیل کے بعد کچھ وقت علم طب کے حصول میں صرف کرتے تاکہ کسبِ معاش میں کسی کے دست نگر نہ ہوں اور درس و تدریس کا سلسلہ بغیر کسی لالچ اور معاوضہ کے محض رضائے الٰہی کے لئے جاری رکھ سکیں۔ ماضی کے بہت سے جید علماء کے ہاں یہ قدر مشترک پائی جاتی   تھی کہ وہ درس و تدریس سے فارغ ہو کر کچھ وقت طبابت بھی کرتے اور یہ مشغلہ ان کے گزران کا ذریعہ ہوا کرتا۔ مسلم سلاطین کی سوانح میں قرآنِ حکیم کی خطاطی اور ٹوپیاں سینے کے مشاغل کا تذکرہ ملتا ہے لیکن افسوس کہ اب یہ روایات معدوم ہو چکی ہیں۔ آج بھی اگر دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مدارس میں فنی تعلیم کا اضافہ کر دیا جائے تو نہ صرف دینی حلقوں کے وقار میں اضافہ ہو گا بلکہ ہر سال دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں طلباء ملک کے انتہائی  کار آمد شہری بن سکیں گے۔
          حضرت جیؒ نے اسلاف کی اس روایت کے تحت دینی علوم کی تکمیل کے بعد علمِ طب کا مطالعہ شروع کیا اور صرف چھ ماہ کے عرصہ میں اس فن میں خوب مہارت حاصل کر لی۔ آپؒ نے دہلی میں قیام کے دوران حکیم اجمل خان سے بھی ملاقات کی اور ان سے تین شافی نسخے حاصل کئے۔ علمی شہرت کے ساتھ ساتھ علاقہ بھر میں آپؒ بطور حکیمِ حاذق  بھی مشہور تھے لیکن بعد میں دینی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ کے باعث طبابت جاری نہ  رکھ سکے ۔
            حضرت جؒی بعض اوقات احباب کے پیچیدہ امراض کی نہ صرف تشخیص فرماتے بلکہ علاج کے لئے نسخہ بھی تجویز کرتے۔ خود راقم کو دورانِ علالت آپؒ نے یرقان کا نسخہ تحریر کرایا جس سے احباب آج تک استفادہ کر رہے ہیں۔ ایک اور موقع پر جب انتہائی جدید ٹیسٹوں کے باوجود مرض کی تشخیص نہ ہوپائی تو حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری دی۔ نبض دیکھنے کے لئے آپؒ فجر کا وقت موزوں خیال فرماتے چنانچہ نماز فجر کے بعد جائے نماز پر بیٹھے ہوئے نبض پر ہاتھ رکھا، مرض کی تشخیص فرمائی اور آپؒ کے تجویز کردہ نسخے کے چند ہفتے استعمال کے بعد مکمل افاقہ ہوا۔ علاج کے ساتھ ساتھ حضرت جؒی کسی وظیفہ کی بھی تلقین فرمایا کرتے۔ اس وقت آپؒ نے ہدایت فرمائی کہ ہر نماز میں فرائض کے بعد اور دعا سے پہلے دائیں ہاتھ کو سرپہ رکھ کر سات مرتبہ یہ پڑھیں۔ اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً۔اس عمل سے بھی اَلْحَمْدُ لِلّٰه  بہت احباب کو فائدہ    ہوا۔
درس وتدریس
          ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد 1934 ء میں حضرت جؒی چکڑالہ واپس تشریف لائے تو اس وقت آپؒ کی عمر قریباً 30سال تھی۔ والدہ ٔماجدہ کی خواہش کے مطابق آپؒ نے عقدِ ثانی کیا۔ موہڑہ کور چشم میں زمانۂ طالب علمی کے ساتھی حبیب خان کو معلوم ہوا کہ حضرت جؒی  تعلیم مکمل کرنے کے بعد چکڑالہ واپس آگئے ہیں تو اس نے درخواست کی کہ آپؒ اس کے گاؤں چک 66  جنوبی بھلوال میں درس وتدریس کے فرائض سرانجام دیں۔  حبیب خان کے اصرار پر حضرت جؒی زوجۂ محترمہ کے ہمراہ اس کے گاؤں منتقل ہو گئے۔ یہاں آپؒ کی رہائش کے لئے باپردہ جگہ کا اہتمام کیا گیا ۔ چک 66میں حضرت جؒی کے قیام کا زمانہ  1935-36 ء ہے۔
            حضرت جؒی ڈھلوال میں زمانۂ طالب علمی کے دوران عوامی سطح پر متعارف ہو چکے تھے۔ اس علاقے کے زمیندار ملک حاکم خان نے، جس کی زمین چک نمبر13 (خانیوال) میں بھی تھی، حضرت جؒی سے استدعا کی کہ آپؒ اس کے چک میں فروغِ دین کی ذمہ داری قبول فرمائیں۔ حضرت جؒی نے یہ  استدعاقبول فرمائی اور اہلیہ کے ہمراہ خانیوال کے اس چک میں منتقل ہو  گئے۔ یہاں آپؒ کی بڑی صاحبزادی غلام صغریٰ 1937ء میں پیدا ہوئی۔ 1939ء میں آپؒ کے بیٹے عبدالرؤف کی پیدائش ہوئی۔1941-42ء میں زوجۂ محترمہ کا انتقال ہوا  تو  چک نمبر 13( خانیوال ) میں ہی ان کی تدفین کے بعد حضرت جؒی واپس چکڑالہ تشریف لے آئے اور کم سن بچوں کی پرورش والدہ ٔماجدہ کے سپرد ہوئی۔
            حضرت جؒی چکڑالہ واپس آئے تو دیکھا کہ یہ جگہ باطل نظریات کا گڑھ بن چکی ہے۔ اگر کوئی عالم باہر سے آکر حق بیان کرتا ہے تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ آپؒ ایک عالم ہی نہیں بلکہ مقامی زمیندار بھی تھے۔ چکڑالہ پہنچے تو باطل کے خلاف محاذ قائم کیا اور جامع مسجد المعروف بہ ،چٹی مسجد، کو اپنا مرکز بنایا۔ یہاں آپؒ ظہر تک درس وتدریس میں مشغول رہتے۔ بقیہ نمازیں اپنے گھر سے متصل کچی مسجد میں ادا کرتے لیکن طلباء یہاں بھی حاضر ہو جاتے اور اس طرح سلسلۂ تدریس نماز مغرب تک جاری رہتا۔ جمعۃ المبار ک کا خطاب ،چٹی مسجد، میں فرماتے۔ باطل  نظریات کی تردید میں آپؒ  کا بیان انتہائی مدلّل اور مؤثرہوتاجو سیدھے سادھے لیکن بھٹکے ہوئے مسلمانوں کے لئے رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ بنتا۔
           چکڑالہ میں اصلاحِ عقائد کے لئے آپؒ کی یہ تحریک گمراہ فرقوں کے لئے ناقابلِ برداشت تھی چنانچہ مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس موقع پرآپؒ کی برادری اور قبیلے نے بھر پور حمایت کی۔ اس ضمن میں حضرت جؒی   اکثر سلطان سرخرو نامی ایک بدمعاش مگر دلیرشخص کا تذکرہ فرمایا کرتے جس نے اپنے ساتھیوں سمیت آپؒ  کی  حمایت کی اور مخالفین کو  سرنہ اٹھانے دیا۔ سرخرو آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو قدموں میں بیٹھتا۔ حضرت جیؒ چارپائی پر بیٹھنے کے لئے کہتے  تو وہ عرض کرتا  ‘‘مولوی صاحب! آپ عالم باعمل ہیں، ہم بے دین اور جاہل، بھلا آپ کے برابر کس طرح بیٹھ سکتے ہیں۔ بس آرزو ہے کہ میری زندگی آپ کے دفاع میں خرچ ہو جائے ۔’’ حضرت جؒی   کا انتہائی عقیدت مند تھا اور اکثر آپؒ کے ساتھ رہتا۔1963ء میں پرانی دشمنی کی وجہ سے کسی نے اسے میانوالی میں گولی مار دی۔حضرت جؒی اس کا ذکر کرتے ہوئے اکثرفرمایا کرتے:
‘‘بے دینوں نے بھی دین کے لئے میری مدد کی ہے۔’’
            حضرت جؒی تعزیت کے لئے سلطان سرخرو کے گھر تشریف لے گئے تو وہاں چکڑالوی مذہب کے چند پیروکار بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ ایصال ثواب کے خلاف فتویٰ ہر وقت جیب میں رکھتے تاکہ دعا کرنے والوں کو زچ کر سکیں۔ حسب عادت انہوں نے یہ فتویٰ حضرت جؒی کی خدمت میں پیش کیا تو آپؒ نے اس پر ایک نظر ڈالتے ہوئے فرمایا:
‘‘تم نے اپنے مطلب کے لئے فرضی سوال بنا کر مطلوبہ جواب حاصل کر لیا ہے۔ میں خود مفتی ہوں اور جانتا ہوں کہ میت کو  ایصال ثواب ہوتا ہے۔’’
            حضرت جؒی کی کوششوں سے چکڑالہ سے جنم لینے والا  ،چکڑالوی   فتنہ،  بھی  اسی زمانے میں  نیست  و  نابود ہوا۔ عبداللہ چکڑالوی کے آخری جانشین کا عبرتناک انجام بیان کرتے ہوئے حضرت جؒی فرمایا کرتے کہ وہ آخری عمر میں ہوش وحواس کھو بیٹھا،  اچھے برے کی تمیز نہ رہی اور مرنے سے پہلے اکثر کہا کرتا کہ اس کی لاش کو دفن کرنے کی بجائے جلا ڈالا جائے۔
فَاعْتَبِرُوْا يَآ اُولِي الْاَبْصَارِO
تو اے بصیرت رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔ (الحشر۔2)
          حضرت جؒی کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ آپؒ   کا تحصیل ِعلم کا زمانہ عمر ِعزیز کے فلاں سال سے فلاں سال تک محیط ہے یا ظاہری علوم کی تکمیل میں آپؒ نے اتنی مدت صرف کی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؒ کی پوری عمر تحصیل ِعلم میں بسر ہوئی۔ کتب آپؒ کی بہترین رفیق ہوا کرتیں ۔ بار ہا دیکھنے میں آیا کہ کسی شخص  نے آپؒ کی خدمت میں کوئی کتاب پیش کی تو آپؒ نے ایک ہی نشست میں نہ صرف پوری کتاب پڑھ ڈالی بلکہ اس پر سیر حاصل گفتگو فرمائی اور کتاب کے مندرجات سے بکثرت حوالے بھی دیئے۔ حافظہ کی ایک صورت انگریزی میں فوٹو میموری (Photo Memory) کہلاتی ہے، یعنی جو چیز نگاہ سے گزرے وہ ذہن میں تصویر کی صورت محفوظ ہو جائے۔ حضرت جؒی کے ہاں یہ خصوصیت اس سے کہیں بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ خصوصی کرامت کی ایک صورت تھی جسے دیکھ کر علماء بھی دنگ رہ جاتے۔


Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو