حیاتِ جاوداں
حضرت جؒی کے سانحہ ارتحال کے بعد
حالات قدرے معمول پر آئے تو 9اپریل
1984ء کو حضرت جؒی کی جگہ حضرت
امیر المکرم مدظلہ
العالی کے سالانہ دوروں کے پروگرام کو حتمی شکل دی گئی اور 13 اپریل کو حضرت جؒی کے مرقد ِپُرنُور پر حاضری کے ساتھ صوبہ
سرحد کے دورہ کا آغاز ہوا۔ حضرت جؒی کی توجہ اور دعاؤں کے جلو میں مرشد آباد سے
سفر شروع ہواتو قافلے کی اوّلین گاڑی حضرت امیر المکرم کی جیپ تھی جسے وہ خود چلا
رہے تھے جبکہ ان کے عقب میں راقم کی گاڑی تھی۔ قریباً ایک گھنٹہ سفر کے بعد حضرت
امیرالمکرم اچانک رک گئے، جیپ ڈرائیور کے سپرد کی اور خود راقم کی گاڑی میں آ گئے۔
کافی دیر تک سکوت کا عالم رہا گویا حضرت امیر المکرم کسی اور ہی دنیا میں کھوئے
ہوئے ہوں، پھر فرمایا:
‘‘وفور ِانوارات کا یہ عالم ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنا
مشکل ہو گیا تھا، حتیٰ کہ سڑک بھی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگی۔’’
یہ سفر اپنی نوعیت کا ایک منفرد سفر
تھا۔ اس سے قبل حضرت امیر المکرم نے بارہا حضرت جؒی کی معیت میں سفر کیا تھا لیکن
آج کا سفر آپؒ کی نیابت کا پہلاسفر تھا جس کی کیفیات ہی جدا تھیں۔حضرت جؒی کا ذکر
ہواتو راقم نے جسارت کرتے ہوئے عرض کیا کہ بقول قاضی ثناء اللہؒ (لیٹی والے)، حضرت
جؒی نے فلاں دائرہ میں وصال پایا۔ حضرت امیر المکرم نے فرمایا، یہ بات درست نہیں۔
حضرت جؒی کے مقامات اس سے کہیں آگے ہیں لیکن قاضی جؒی ان کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوا کہ قاضی جؒی خود اس دائرہ تک سیر نظری رکھتے ہیں۔
آئندہ بھی لوگ اسی طرح حضرت جؒی کے مقامات کا اندازہ لگانے لگیں گے۔ کیا خبر کوئی
شخص حضرت جؒی کو مقام اقربیت پر دیکھے تو کہنے لگے کہ یہی آپؒ کا مقام ہے۔ ضرورت
ہے کہ اب حضرت جؒی کی منازل کاتفصیلاً ذکر کر دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو اشتباہ
نہ ہو۔
بات جب حضرت جؒی کی منازل کی ہو تو یقیناً
اس موضوع پر حضرت جؒی کے اپنے الفاظ سند کا درجہ رکھتے ہیں یا پھر حضرت امیر
المکرم کا یہ مقام ہے
کہ وہ اس موضوع پر کچھ کہہ سکیں۔ صوبہ سرحد کے دورہ سے واپسی پر حضرت امیر المکرم
نے حضرت جؒی کے مناصب و منازل کے بارے میں
تفصیلاً رقم فرمایا تاکہ یہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں۔ حضرت
جؒی کی سوانح کے اس اہم ترین باب کا بیشتر حصہ حضرت امیرالمکرم کے الفاظ ہی میں ہے
یا کہیں حضرت جؒی کے الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے جو مستند روایات یا آپؒ کی تحریر
وں کی صورت میں حاصل ہوئے۔ حضرت جؒی کی منازلِ سلوک کے متعلق حضرت امیر المکرم
رقمطراز ہیں:
‘‘گذشتہ کئی روز سے دل اور دماغ آپس میں اُلجھ رہے
تھے۔ دل چاہتا تھا کہ حضرتؒ کے وصال مبارک کے وہ حالات جو صرف اللہ کی خاص عطا سے
اور کشفاً ہی معلوم ہو سکتے ہیں اور جو واقعات دیکھنے کی سعادت اللہ کریم نے مجھ
بے نوا کو بخشی ہے اس میں احباب کو بھی شریک کر لوں مگر ذہن نہیں مان رہا تھا کہ
اوّل تو یہ اَسرار ِالٰہی ہیں اور ان کا اظہار مناسب نہیں، دوم یہ دورجہالت کا ہے
اور قحط الرجال ہے۔ ایک طرف لوگ حیات ِانبیاء
کا انکار کئے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف سلوک کی ابجد سے بھی ناآشنا کچھ لوگ جبہ و
دستار پہنے لوگوں کو نہ صرف بدعات بلکہ مشرکانہ رسومات میں دھکیل رہے ہیں۔ اس
افراتفری میں بحث کا ایک نیا دروازہ کیوں کھولا جائے۔ لیکن آخر دل کی بات ماننا پڑی
اور اس لئے بھی ماننا پڑی کہ جس زور سے حیات بعد الموت کا انکار ہے،ضروری ہے کہ
اثبات بھی علی الاعلان کیا جائے۔ رہی بات بحث کی تو حضرت استاذنا المکرم ومحترم،
بحر العلوم، قلزم ِفیوض، مجدد ِطریقت، امام الاولیاء : نے اس قدر جامع تصنیفات چھوڑی ہیں کہ اس باب کو بند کر دیا ہے ۔
اب اگر کوئی کج بحثی کرے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔
حضرت
جؒی کا تعارف بحیثیت ایک ولی ٔ کامل مقامات ِ تصوف و سلوک بیان کئے بغیر ممکن نہیں۔
اس راہ میں ابتدا یا ابجد فنا و بقا ہے۔ مراقبات ِفنا فی اللہ اور بقاباللہ والا
اس قابل ہو جاتا ہے کہ راہ ِسلوک پر قدم رکھے۔ آگے کی پہلی منزل سالک المجذوبی ہے
جس کی سات منازل ہیں۔ اور ان سات منازل میں تقریباً سوا لاکھ نورانی حجابات ہیں جو
سالک کو طے کرنے پڑتے ہیں اور پھر دریائے رحمت عبور کرنے کے بعد پہلے عرش کی منازل
شروع ہوتی ہیں۔ پہلے عرش کے اندر تقریباً سوالاکھ منازل ہیں اور یہ شمار حتمی نہیں
ہے بلکہ ہم نے اندازہ اسی طرح لگایا تھا کہ حضرت جؒی نے فرمایا۔
‘‘میں نے ایک سال پہلے عرش کی منازل شمار کیں تو اوّل سے لے
کر سولہ ہزار تک طے کر سکا۔ پھر تین سال اور لگے تب جا کر عرش طے ہوا۔’’
یاد
رہے کہ جوں جوں روح آگے بڑھتی ہے اس کی قوت اور ر فتار بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سو کوئی
صاحب حساب کے قاعدوں میں نہ الجھیں بلکہ مجھ بے نوا پر ہی بھروسا کریں کہ میں نے
حضرت جؒی کی خدمت میں بیٹھ کر، مختلف چیزوں کا جائزہ لے کر حساب جوڑا تھا تو
اندازاً سوا لاکھ شمار ہوا تھا۔ ان منازل کے درمیان فاصلہ اس قدر ہے کہ ہر نیچے
والی منزل سے اوپر والی منزل اس قدر بلند ہے کہ اگر نگاہ کی جائے تو یوں لگتا ہے
کہ جیسے زمین پر سے کوئی انتہائی دُور ستارہ، جو معمولی سا ٹمٹماتا ہوا نظر آتا
ہے۔ اب پورے عرش کی اندرونی وسعت کا خیال خود کر لیں کہ سمند عقل یہاں تھک تھک کر
گرتا ہے۔عرش کی تعداد 9 ہے۔
آنکہ آمد نو فلک معراجِ او
انبیاء
و اولیاء محتاجِ ا ُو
پہلے
اور دوسرے عرش کے درمیان کا فاصلہ عرش اوّل کی موٹائی سے زیادہ ہے۔ پھر دوسرے عرش
کی موٹائی اس فاصلے اور خلاء سے زیادہ، علیٰ ہذا لقیاس۔ ہر عرش کے بعد خلاء بھی ہے
اور اسی نسبت سے خلاء اور عرش کی موٹائی بڑھتی بھی جاتی ہے، حتیٰ کہ نویں عرش کی انتہا عالم ِامر کی ابتدا
ہے جسے عالم حیرت بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے وہ دائرے شروع ہوتے ہیں جن میں سے ایک
ایک کی وسعت میں جہان گم ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ اوّل تو بے شمار طالبوں کے
نزدیک فنا بقا ہی انتہائے سلوک ہے لیکن بعض خوش نصیب جو اس سے آگے چلے، سالک
المجذوب بمشکل بن پائے۔ پھر عرش کی وسعتوں میں خلقِ خدا سرگرداں رہی۔ ان میں برصغیر
کے ایسے نامور حضرات بھی شامل ہیں جن کے نام اس غرض سے نہیں گنوا سکتا کہ نااہل یہ
کہیں گے کہ اپنے آپ کو ان سے اعلیٰ شمار کرتا ہے حالانکہ یہ مقصد ہر گز نہیں۔ میں
اپنے آپ کو ان کی خاکِ پا جانتا ہوں، پھر وہ اپنی منزل پا گئے اور ہم عالم ابتلاء
کے گرداب میں ہیں۔ اللہ ہمیں بعافیت ان کے پاس پہنچائے۔ آمین!
ان
دائروں کی تعداد 36ہے
اور ان کی وسعت بے کراں۔ پہلا دائرہ مقامِ تقرب ہے جس کی پنہائیوں کا اندازہ
اس بات سے لگا لیں کہ نوعرش اور دنیا و مافیہا اس کے مقابلہ میں اس طرح ہیں جیسے
کسی صحرا میں ایک مندری۔ اس دائرے میں حضرت
علی ہجویریؒ اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کی وفات ہوئی۔ یہاں سے آگے کے بعض دوائر کی
بات حضرت مجدد صاحؒب نے ارشاد فرمائی ہے مگر وہ سیر نظری ہے جہاں تک ان کی نگاہ نے
کام کیا۔
بہرحال
چوتھا دائرہ مقامِ تسلیم ہے جہاں مقاماتِ ولایت ِاولیاء کی انتہا ہے۔ اس دائرے میں
ایک ایسی ہستی ملتی ہے جو بھیرہ میں دفن ہے۔ اپنے زمانے کے غوث تھے ظلماً شہید کئے
گئے۔ اب ان کے اوپر آبادی اور مکان بنے ہوئے ہیں۔ یہ بے نوا ایک بار کسی کام سے بھیرہ
گیا تو ملاقات اور حاضری نصیب ہوئی۔ فرماتے تھے کہ ان مکانوں کے رہنے والے اچھے
لوگ نہیں ہیں، ان کی عورتیں بدکار ہیں۔ عرض کیا کہ حضرت! نشاندہی ہو جائے تو ممکن
ہے کہ لوگ جگہ خالی کر دیں تو فرمایا، میں ہر صاحبِ کشف کو بھی اپنی جگہ دیکھنے کی
اجازت نہیں دیتا کہ اگر نشاندہی ہو گئی تو دنیا بھر کے بدکار یہاں جمع ہوں گے۔ اس
سے یہ چند بہتر ہیں۔
خیر،یہ
جملہ ٔ معترضہ تھا، مقامِ تسلیم کے بعد ولایت انبیاء شروع ہوتی ہے جو نبیؑ کو وہبی
طور پر حاصل ہوتی ہے اور قبل نبوت بھی حاصل ہوتی ہے جس میں امتی صرف اتباع پیغمبر
کی بنا پر باریاب ہوتا ہے ورنہ یہ منازل امتی کے لئے نہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح
شاہی محل میں بادشاہ کے ساتھ خدام بھی رہتے ہیں۔
یہاں
سے چھ دائرے عبور کرنے کے بعد ساتواں دائرہ مقام ِ رضا ہے جس کے آخر میں ایک ایسی
ہستی ہے جو سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے خلیفہ اوّل تھے۔ دائرہ مقامِ رضا سے آگے پانچواں دائرہ
حقیقت ِرسالت ہے جس کی ابتدا میں حضرت
سیّدنا نذیر علی شاہؒ (ان کا مدفن کشمیر میں ہے اور غیر معروف ہے) کی وفات ہوئی
اور اس دائرہ کی انتہا میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ عالم ِبقا کو سدھارے۔ اللہ تعالیٰ
ان سب پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین!
اور
بے شمار ہستیاں ہوں گی۔ اُمت ِمحمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام کو اس گزرگاہ میں
نقش ِکف ِپائے حبیبﷺ پہ بوسے دیتے
چودہ سو سال بیت چکے ہیں۔ میں نے صرف ایک دو نام تبرکا ً گنوانے کی جسارت کی ہے۔
آگے
چھٹا دائرہ مقام ِافراد ہے جس میں اکثر صحابہ کرام]
ملتے ہیں۔ یہاں
ایک بات یاد رہے کہ یہ بہت نازک مقام ہے۔ حضرت مجددؒ نے جب بات کی تو ان پر فتویٰ
لگا تھا کہ یہ اپنے آپ کو صدیق اکبرt سے افضل جانتا ہے لیکن یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے
کہ جب نبی ان مقامات سے گزرتا ہے تو بحیثیت نبی کے گزرتا ہے ۔ صحابی گزرتا ہے تو
بحیثیت صحابی کے گزرتا ہے اور ولی گزرتا ہے تو ان کا کفش بردار ہو کر۔ ورنہ قرونِ
ثلٰثہ مشہودلہا بالخیر کا مرتبہ شانِ ولایت کی رسائی سے بالاتر ہے۔ رہی بات فتوؤں
کی تو وہ لوگوں کا مزاج بن چکا ہے۔ جب معاملہ عند اللہ درست ہو تو فکر کی بات نہیں۔
ممکن ہے فتویٰ لگانے والے بھی خلوص سے کام لے رہے ہوں مگر حالات کو نہ سمجھ سکنے کی
وجہ سے معذور ہوں۔ اللہ کریم ہم سب کو ہدایت پر رکھے۔ آمین!
اس
سے اگلا دائرہ قطب ِوحدت کا ہے اور اس کے بارے میں مناسب ہو گا کہ میں حضرت جؒی کے
مبارک الفاظ نقل کردوں:
‘‘یہ وسیع دائرہ ہے۔ ڈیڑھ
سال بندہ اس میں سرگرداں رہا۔’’
اس
مبارک روح کی قوت ِپرواز اور رفتار کا اندازہ کر کے اس دائرے کی وسعت کا خیال کیا
جائے تو بات حساب و شمار کی حدود کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔
اگلا
مقام دائرہ ٔصدیقیت ہے جس کے بعدبارہ دائرے ہیں قربِ نبوت، قرب ِرسالت، قرب
ِاولوالعزمی، قرب ِ محمدیﷺ، وصال ِمحمدیﷺ، رضائے الٰہی، قربِِ الٰہی، وصالِ الٰہی،
قرب ِرحمت، بحرِرحمت، خزانۂ رحمت اور
منبعِ رحمت۔ ان کی وسعتیں اللہ ہی
بہتر جانتا ہے۔ حضرت جؒی فرمایا کرتے تھے کہ قریباً ایک چوتھائی سلوک یہاں طے ہو
جاتا ہے۔ میری ناقص رائے میں جو اصحاب یہ لکھ دیتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے سلوک مکمل
طے کر لیا شاید وہ کچھ اندازہ کر سکیں۔
اس
سے آگے حجابات ِالوہیت ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ یہ اکتوبر 1966ء کی بات ہے کہ حضرت جؒی نے
فرمایا تھا کہ یہ بدکار (حضرت جؒی نے کسرِنفسی سے اپنے متعلق یہ لفظ استعمال کیا)
سوم حجاب میں ہے۔’’
حضرت جؒی کی منازل کی یہ صورتحال تو 1966ء
تک تھی۔ اس کے چودہ سال بعد منازلِ سلوک کی تکمیل کا ذکر حضرت جؒی کے دو خطوط میں
ملتا ہے جو آپؒ نے حضرت امیرالمکرم کے نام تحریر فرمائے۔ 29جون 1980ء کے مکتوب میں آپؒ نے تحریر
فرمایا:
‘‘فیصل آباد اور گلگت جانے سے روکا گیا کہ فوری
سرگودھا اترے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلوک کے منازل پورے ہوگئے۔ اس پر انعام کا ملنا،
ان کی تکمیل کا سہرا حضرت صاحبؒ(خواجہ
اللہ دین مدنیؒ) کے سرپر تھا۔ ان کی مرضی یہ تھی کہ یہ انعام میرے علاقہ میں ملے،
نہ کسی دوسرے علاقہ میں۔ مجھے بتایا گیا کہ حجابات ِالوہیت تم کو 15/16 سال میں طے کرائے گئے۔ امت ِمحمدیہﷺمیں ایک امام حسن بصریؒ نے
سوم حجاب کی ابتدا میں وفات پائی۔ باقی نری آگ ہیں۔ مصائب کا انبار اور وختوں کا
خزانہ ہیں۔ ان کے طے ہونے کے بعد دائرہ ٔعطاردیہ طے ہوا، پھر دائرۂ قمریہ طے ہوا،
پھر دائرۂ زہریہ طے ہوا، پھر دائرۂ شمسیہ
طے ہوا، پھر دائرۂ زحل طے ہوا۔ دائرۂ شمسیہ اور دائرۂ زحل کی گرمی کا آپ (حضرت جؒی)کے
بدن پر اثر ہے، علاج سے اس وجہ سے فائدہ نہ ہوا۔ اب آگے دائرۂ مشتریہ شروع ہوا۔
بتایا گیا کہ اس دائرے کے طے کرنے کے بعد سلوک انبیاء کا بھی ختم۔ یہ دائرہ انتہا
سلوک کی ہے۔ آگے تیز و سخت تجلیات ہیں جن سے انسان جل جاتا ہے۔ دائرۂ مشتری میں
اکثر انسانی اوصاف سلب ہو جاتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس میں مصائب ہیں۔ اللہ اچھا
جانتا ہے۔ پرسوں دائرۂ زحل سے نکلنے کے بعد بندہ کو غسل دیا گیا۔ آگے جانے کے لئے
پوری سمجھ نہیں آئی۔ ملتان میں جناب شیخ عبدالقادرؒ اور غوث ملتانیؒ
کی گفتگو یوں تھی کہ جب دائرۂ مشتریہ میں داخل ہوگے تو کیا اس وقت بھی ہماری طرف
توجہ و خیال کرو گے۔ ان کے کلام سے تو پتا چلتا ہے کہ مخلوق سے لاتوجہی ہو جاتی ہے
مگر اب تو میل جول میں ہوں۔
نوٹ: دائرۂ قربِ عبودیت سے آگے منازلِ نبوت شروع ہوتے
ہیں نہ ولایت ِنبوت ۔ ولایت ِنبوت میں امتی جا سکتا ہے مگر منازل ِنبوت میں اس طرح
جا سکتا ہے جس طرح کسی کوٹھی میں ماشکی، دھوبی، خاکروب جا تا ہے۔’’
اس
خط کا پس منظر یہ ہے کہ یکم جون 1980 ء کو حضرت جؒی کراچی سے ملتان پہنچے۔ اس کے بعد فیصل آباد اور
گلگت جانے کا پروگرام تھا لیکن حضرت سلطان العارفیؒن نے منع فرما دیا اور آپؒ 20جون
1980ء
کو سرگودھا تشریف لے گئے جہاں منازل سلوک کی تکمیل ہوئی۔
جیسا کہ ایک سابقہ باب ‘‘راہ نوردِ
شوق’’ میں تفصیلاً ذکر ہوا، حضرت جؒی کا روحانی سفر لنگر مخدوم، ضلع سرگودھا میں
حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ کے مرقد ِپُرنورپر 1942ء
میں حاضری کے ساتھ شروع ہوا۔ تقریباً 38سال
بعد جب یہ سفر مکمل ہونے کو تھا تو حضرت سلطان العارفیؒن نے خواہش فرمائی کہ اب
تکمیلِ منازل کا اعزاز بھی ان ہی کے علاقہ میں حاصل ہو جس کی وجہ سے گلگت کا
پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔
حضرت جؒی نے حضرت امیرالمکرم کے نام 27جون
1980ء
کے تحریر شدہ خط میں تکمیل منازل کا ذکر کیا ہے۔ 1980ء کے اس اہم واقعہ کے بعد حضرت
جؒی نے ان امور کے بارے میں ہدایات کا آغاز فرمایا جن کا تعلق آپؒ کے بعد مستقبل میں
سلسلۂ عالیہ کے انتظام و انصرام سے تھا۔
منازل کے متعلق حضرت جؒی کے اس طویل
خط کا عکس پیش کیا جاتا ہے۔ اس خط کو پڑھنا اگرچہ انتہائی مشکل ہے اور مفہوم کو
سمجھنا کارے دارد، ممکن ہے قاری الفاظ کی ہیئت اور قوسوں پرتوجہ کے دوران برکات سے
مستفید ہوسکے۔
یہاں تک تو حضرت جؒی کے مقامات و
منازل کا ذکر تھا، دوسرا پہلو مناصب کا ہے جس کے بارے میں حضرت امیر المکرم مدظلہ
العالی یوں رقمطراز ہیں:
‘‘اب
اس کا دوسرا پہلو مناصب کا ہے۔ اقطاب، غوث، اور یاد رہے کہ غوث رُوئے زمین پر ایک وقت میں ایک ہوتا ہے،
گاہے ترقی پا کر قیوم بنتا ہے اور پھر فرد۔ اگر اسے ترقی نصیب ہو تو قطب ِ وحدت
اور قطب ِوحدت اگر ترقی کرے تو صدیق بنتا
ہے۔
خدا
کے لئے ان الفاظ کو خار زار ِلغت میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کیجئے گا کہ یہ اسماء ہیں
مراتب ولایت کے اور مناصب ِاولیاء اللہ کے نام ہیں۔ پھر میں عرض کردوں کہ نبی کے
مناصب و منازل بحیثیت نبی، صحابی کے بحیثیت
صحابی اور ولی کے بحیثیت ولی ہوتے ہیں۔
منصب
ِصدیقیت کے بعد ایک اور صرف ایک مقام ہے یا منصب ہے جسے قرب ِعبدیت کہتے ہیں اور
وہ حضرت جؒی ، اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں برسائے، کو نصیب تھا۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکْ۔’’
حضرت جؒی نے حضرت امیر المکرم کے نام 1976ء
کے ایک مکتوب میں منصب ِقرب ِعبدیت کو منصب ِعبودیت بھی کہا ہے اور منصب ِقربت بھی
۔آپؒ نے اس منصب کے متعلق حیرت کا اظہار فرماتے ہوئے لکھا :
‘‘اس منصب پر کسی صوفی نے کیونکر قلم نہیں اٹھائی نہ بیان
کیا۔آخر فتوحات ِمکیہ شیخ اکبر میں اشارہ ملا، منصب ِقربت بھی ہے۔’’
بطور تبریک اس
خط کا عکس یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
حضرت جؒی ملتان میں احباب کے ساتھ
تشریف فرما تھے۔ دورانِ گفتگو اپنی روحانی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘میری حالت ایسی ہے جیسا
کہ میں ہر وقت اپنے آپ کو براہ ِراست ذات ِربانی کے انوارات میں لپٹا ہوا محسوس
کرتا ہوں جیسے کوئی تندور کے اندر ہو۔ اس کیفیت کو برداشت کرنا انسان کے بس کی بات
نہیں۔ یہ وہ مقامِ عبدیت ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ کے روبرو ہوتا ہے اور براہِ
راست اس کی تجلیات کا مہبط بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی زندگی مرضیات ِباری
تعالیٰ میں مقید ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ مقامِ عبدیت، نبی کریمﷺ کو حاصل تھا جو معراجِ انسانیت
ہے۔ سُبْحَانَ الَّذِيْ اَسْرٰى....یہ
مقامِ عبدیت امتی ہونے کی نسبت سے حضرت
صدیق اکبرt کو نصیب ہوا۔ یہ مقام بھی ایک شعبۂ نبوت اور
بلند ترین شعبہ ٔنبوت تھا اس لئے امت میں بھی منتقل ہونا تھا جس کی متحمل صحابہ میں
حضرت صدیق اکبرt کی ذاتِ عالی مقام تھی۔’’
یہاں تک حضرت جؒی کے مقامات و مناصب
کا تذکرہ آپؒ کے اپنے الفاظ میں تھا یا حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کے
الفاظ میں لیکن اس کا ادراک ھما شما کے بس کی بات نہیں۔ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی ان مقامات
و مناصب کے بارے میں ایک عام قاری کی رہنمائی کے لئے رقمطرازہیں تاکہ وہ کسی
اشتباہ کا شکار نہ ہو۔
‘‘یہ جملہ امور دلائل ذوقیہ
سے متعلق ہیں اور صرف صاحبِ ذوق و احوال
حضرات ہی جان سکتے ہیں یا پھر اعتماد ہو بیان کرنے والے پر، مگر ایک دلیل ایسی بھی
پیش کرنا چاہوں گا جسے ہر صاحب ِعقل بھی سمجھ سکے اور وہ یہ کہ برکاتِ نبویﷺ میں ایک
کمال یہ تھا کہ ہر آنے والا صحابی بن جاتا تھا۔ مرد، عورت، بچہ، بوڑھا، عالم، جاہل،
شہری یا بدوی، گورا ہو یا کالا، ہر آنے والا ایک نگاہ میں درجۂ صحابیت حاصل کرلیتا
تھا۔ پھر خود صحابہ کرام] کے اندر جو مدارج ہیں وہ علیحدہ بات ہے۔ صحابہ] میں بھی یہ کمال منعکس اور منتقل ہوا کہ ان کی
صحبت اور زیارت سے مشرف ہونے والا تابعی بن جاتا تھا۔ تابعین کو بھی یہ کمال حاصل
ہوا کہ ان کی نگاہِ شفقت تبع تابعی بنا دیتی۔ خیر القرون کے بعد امت ِ مرحومہ میں بے
شمار جلیل القدر ہستیاں آئیں اور اللہ نے ہر دور اور ہر ملک میں بہت اعلیٰ مدارج کے
حامل اولیاء اللہ پیدا فرمائے لیکن پوری تاریخ میں کوئی ایسی ہستی نہیں مل سکتی جس
کے پاس حاضر ہونے والے تمام آدمیوں کے دل منور ہو جائیں، لطائف روشن ہو جائیں اور
ولایت ِخاصہ سے کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے بلکہ بے شمار افراد آتے جن میں سے چند
مخصوص حضرات ایسے خوش نصیب ہوتے جو سینہ روشن لے کر جاتے۔ باقی سب لوگ ظاہراً بیعت
اور تعلیمات تک ہی رسائی پاتے اور بس!
یہ حقیقت کسی ایک یا دو
یا چند حضرات کے بارے میں عرض نہیں کر رہا
بلکہ یہ چودہ صدیوں پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور جب اس کے ساتھ نگاہ قلزمِ فیوض،
بحر العلوم، حامل قربِِ عبدیت حضرت استاذی المکرم و محترم کی جانب اٹھتی ہے تو وہی
بہار لٹتی نظر آتی ہے یعنی خدمت میں آنے والے ہر آدمی کا سینہ منور ہو جاتا ہے۔ اک
نگاہ میں لطائف چمکنے لگتے ہیں۔ کوئی بھی فیوضات و برکات ِروحانی و قلبی سے محروم
نہیں رہتا۔ یہ اور بات ہے کہ جس کا جتنا ظرف ہے یا جتنا نصیبہ ہے اتنا ہی پا سکتا
ہے لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ ‘‘لا یشقٰی جلیسھم’’
اور اس گئے گزرے دور میں بارگاہ ِنبویﷺ میں کشفاً اور روحانی طور
پر باریاب ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک بڑھ جاتی ہے۔ سبحان اللہ!
یہ
چند سطور بطور تعارف لکھ دی ہیں کہ احباب کو کسی حد تک اپنے شیخ کی عظمت کا اندازہ
نصیب ہو۔’’
وَمَا تَوْفِيْقِيْ اِلَّا
بِاللّٰهِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔