سفر ِمسلسل
حضرت جؒی کی مبارک زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو ایک
سفر ِمسلسل کی صورت نظر آتی ہے۔ اس مسافرت کا آغاز حصول ِتعلیم کے لئے ہوا۔ 1925ء
سے 1933ء
تک کے آٹھ سالہ دور میں آپؒ نے مختلف اساتذہ سے تعلیم پائی۔ دورۂ حدیث کے اعادہ
کے لئے دہلی کے مدرسہ امینیہ میں آپؒ کا دو سال قیام رہا جس کے دوران مفتی کفایت
اللہؒ سے بھی استفادہ کیا۔ حصول ِتعلیم کا دور ختم ہوا تو ایک نئے سفر کا آغاز ہو
گیا جو راہ ِطریقت کا سفر تھا۔ مسلسل تین سال گھر سے دور لنگر مخدوم، ضلع سرگودھا
میں مسافرت کی صورت گزارے۔ واپس لوٹے تو اب دربار ِنبویﷺ سے ناموس ِصحابہ] کے
تحفظ کی ڈیوٹی پر مامور فرمائے گئے۔ ادائیگی ٔفرض میں اب حضرت جؒی ملک کے طول و
عرض کے دورے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نہ صرف پنجاب بلکہ آپؒ نے سندھ اور کشمیر کے
طویل سفر کئے اور یہ ایسا دور تھا کہ بمشکل زاد ِراہ کا انتظام ہو سکتا۔ اس دور کے
وسائل کو دیکھیں تو یہ سفر خاصے کٹھن تھے لیکن راہ ِحق کے مسافر کے لئے آرام کہاں!
یہ آپؒ کی زندگی کا مناظرانہ دور تھا جس کی ابتدا میں آپؒ تنہا نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ
بعد حضرت جؒی اور آپؒ کے ہمعصر علماء کی تربیت سے مناظرین کی ایک منظم ٹیم تیار ہو
گئی تو آپؒ نے سلسلۂ عالیہ کی ترویج کے لئے خود کو وقف کر دیا۔
حضرت
جؒی نے شبانہ روز محنت کرتے ہوئے برکاتِ نبویﷺ کو ایک ایک طالب تک پہنچایا اور چند
ہی سالوں میں ذاکرین کی ایسی جماعت تیار کی جنہیں صبح وشام دربار ِنبویﷺ کی حاضری
نصیب تھی۔ آپؒ نے یہ کام کسی خانقاہ یا کسی مرکز میں بیٹھ کر نہیں کیا بلکہ اس کے
لئے مسلسل سفر کئے جن کی طوالت آپؒ کی سابقہ مسافرت کے مقابل کہیں زیادہ تھی۔ عمر
کے ساتھ ساتھ صحت کی پہلی سی حالت بھی نہ رہی۔ مختلف عوارض لاحق تھے لیکن خرابی ٔ
صحت آپؒ کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکی۔آپؒ کی عادت مبارکہ تھی کہ جہاں کہیں کوئی
بھی ذکر وفکرکے لئے بلاتا، دعوت رد نہ
فرماتے اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے احباب کے پاس خود پہنچتے۔ جس شخص میں
بھی طلب نظر آئی، اس کی تربیت فرما کر بشرط ِاستعداد دربارِ نبویﷺ میں پیش کر دیا۔
حضرت جؒی فرمایا کرتے:
‘‘تم سب میرے مرید نہیں،
مراد ہو۔ مرید ہوتے تو تم میرے پاس آتے۔
میں تمہارے پاس چل کر
آتا ہوں، تکلیف اٹھاتا ہوں۔’’
اوائل
دور میں آپؒ کے اکثر سفر چکڑالہ سے منارہ، چکوال اور لنگر مخدوم تک محدود تھے لیکن
جماعت میں وسعت کے ساتھ ساتھ سفر بھی طویل ہوتے چلے گئے۔ 1960ء کی دہائی میں آپؒ نے
لاہور، ملتان، کراچی اور کوئٹہ کے متعدد سفر کئے، جن میں سے چند ایک کا تذکرہ
گذشتہ ابواب میں گزرچکا ہے۔ ابتدائی دور میں وسائل کی کمی کی وجہ سے حضرت جؒی نے پیدل
سفر بھی کئے۔ 1969ء میں روات (راولپنڈی) کے
ایک دور دراز گاؤں پھلینہ میں آپؒ نے چار روزہ دورہ رکھا جس کے لئے تقریباً گیارہ
کلومیٹر پیدل چلنا پڑا۔ اسی دورہ کے دوران آپؒ نے ایک ساتھی کو مشاہدہ کرایا کہ
قارون روزانہ اپنے قد کے برابر زمین میں دھنس رہا ہے اور اس وقت تک اس کی پہلی زمین
طے نہیں ہوئی تھی۔
ان
سفروں کے دوران حضرت جؒی جمعہ کا خطاب بھی فرمایا کرتے۔ ملاقات کے لئے آنے والے
احباب کو خوب وقت دیتے اور ان کی تشفی فرماتے۔ حضرت جؒی علم کا خزانہ تھے۔ آپؒ کے
دوروں کی مقامی علماء کو خبر ہوتی تو ملاقات کے لئے حاضر ہو جاتے۔ آپؒ انہیں خصوصی
وقت دیتے اور سیر حاصل علمی گفتگو ہوتی۔ ان علمی مجالس کی قدر و منزلت سے وہ احباب
بخوبی آگاہ ہیں جنہیں کبھی ان میں شرکت کا موقع مل سکا۔
ان
تمام مصروفیات کے ساتھ احباب کی تربیت کا عمل بھی جاری رہتا۔ حضرت جؒی احباب کی
فرداً فرداً تربیت کا خیال رکھتے۔ بعض اوقات آپؒ تبدیلی ٔلطیفہ کے متعلق صرف خیال
ہی فرماتے اور سالک کی توجہ اگلے لطیفہ پر چلی جاتی جبکہ آپؒ کا ارشاد بعد میں
سنائی دیتا۔ آج بھی حضرت امیرالمکرم کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے احباب کے ساتھ بارہا یہی
صورت پیش آتی ہے لیکن یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب شیخ سے قلبی ربط بھی انتہائی درجہ
کا ہو۔ بعض اوقات سالک یہ خیال کرتا کہ حضرت جؒی اسے اگلے اسباق میں چلانے والے ہیں
اور ایسا ہی ہوتا۔ ایک مرتبہ راستے میں راقم کی سواری خراب ہوگئی تودل میں آیا، آج
ہر صورت پہنچنا ہے کہ حضرت جؒی سالک المجذوبی میں چلائیں گے۔ یہی ہوا، آپؒ نے تین
احباب کے ہمراہ الگ بٹھا دیا اور مراقبات میں نام لے کر اس مقام میں چلایا۔ پیچھے
رہنے پر متنبہ کیا اور پھر فرمایا ‘‘اب ٹھیک ہے۔’’ احباب کے لئے ایسے واقعات روز
مرہ کا معمول تھے۔
1970ء کی دہائی میں صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات کے
دوروں کا آغاز ہوا۔ حضرت جؒی صوبہ سرحد اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے سرحدی
علاقے سے خاصے پُرامید تھے۔ فرمایا کرتے:
‘‘مجھے ان پہاڑوں سے روشنی[1]
نظر آتی ہے۔’’
ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا:
‘‘مشائخ کا فرمان ہے کہ اب ریت چھاننے کے
بجائے پہاڑوں کا رخ کریں۔’’
یہی
وجہ ہے کہ آپؒ نے حیات مبارکہ کے آخری دور میں کثرت سے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے
دور افتادہ علاقوں کے دورے فرمائے۔
1975ء میں حضرت جؒی صوبہ سرحد کے دورہ پر تشریف لائے تو
پشاور میں مرکزی دارالقراء جامع مسجد نمک منڈی میں دورۂ ِحدیث کا افتتاح کیا۔ آپؒ
نے بخاری شریف کی حدیث پاک اِنَّمَا الْاَعْمَالُ
بِالنِّیَّات کے ترجمہ اور تشریح سے کتاب ُالوحی کا آغاز کیا۔
افغان سرحد پر
جون 1976ء
میں حضرت جؒی نے صوبہ سرحد کا دورہ فرمایا تو قبائلی علماء اور عمائدین نے آپؒ کو
لنڈی کوتل مدعو کیا۔ اس وقت افغانستان پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ بغرض ِدعا
احباب آپؒ کو طورخم بھی لے گئے۔ حضرت جؒی نے طورخم پوسٹ سے شمال کی جانب دو تین سو
گزافغان سرحد پر چہل قدمی فرمائی۔ دیر
تک افغانستان کی سمت دیکھتے رہے، پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ احباب نے عرض کیا،
حضرت پورے ملک پر توجہ فرماتے ہوئے دعا کریں۔ احباب کی درخواست پر آپؒ نے دوبارہ
دعا کی۔ اسی دورے میں حضرت جؒی پشاور میں خالد باغ سے متصل کور ہیڈکوارٹر کی مسجد
کے ایک اجتماع میں شریک ہوئے جہاں حضرت امیر المکرم نے خطاب کے دوران فرمایا کہ
روس لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے
بدلے افغانستان کو سب کچھ دینا چاہتا ہے لیکن وہاں کے غیور مسلمانوں نے اس پیشکش
کو ٹھکرا دیا ہے جبکہ روس اس کلمہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ جنگ اب اس کلمہ کے
بقا کی جنگ ہے۔
پشاور کے دوروں میں حضرت جؒی کی میزبانی ہمیشہ صوبہ سرحد کے
امیر حاجی الطاف احمدؒ کے حصہ میں آتی۔ 1977ء میں حضرت
جؒی صرف ایک دو روز کے لئے پشاور تشریف لائے لیکن دو ہفتے مسلسل قیام فرمایا۔ صرف
ایک جوڑا زیبِ تن تھا جسے دھونے کے لئے حاجی الطاف احمدؒ نے اپنا لباس پیش کیا تو
وہ آپؒ کے لئے خاصا بڑا تھا۔ حضرت جؒی کی خدمت میں نیا جوڑا تیار کرنے کی درخواست
کی تو فرمایا، خیال رکھنا شلوار کا سائز بڑا نہ ہو ورنہ پائنچوں سے کاٹنی پڑے گی۔ یہ
جوڑا تیار کرنے کی سعادت راقم کی والدہ کو نصیب ہوئی۔ آپؒ کے قیام کے دوران میزبان
گھرانہ اس بات کا خیال رکھتا کہ کھانا تیار کرنے والوں میں کوئی بے نماز ی نہ ہو،
بصورت ِدیگر یہ کھانا تناول فرمانے سے آپؒ کو بخار کی شکایت ہو جاتی۔
دارالعلوم حقانیہ کا دورہ
حضرت
جؒی نے مارچ 1978ء میں صوبہ سرحد کا
دورہ فرمایا تو نوشہرہ میں قیام کے دوران دارالعلوم حقانیہ کے شیخ الحدیث مولانا
عبدالحؒق کی علالت کی خبر ملی۔ حضرت جؒی نے فرمایا کہ اگلے روز دورانِ سفر آپؒ
اکوڑہ خٹک میں شیخ الحدیث کی عیادت کے لئے کچھ دیر رکیں گے۔ حضرت جؒی اکوڑہ خٹک
تشریف لے گئے تو دارالعلوم حقانیہ کے دفتر میں شیخ الحدیثؒ کے ساتھ طویل نشست
ہوئی۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے حضرت جؒی نے حضرت مولانا عبدالحؒق سے فرمایا:
‘‘آپ کی شخصیت اسلام کا نمونہ ہے، بڑے دنوں سے
ملاقات کی خواہش تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت بڑا کام لے رہے ہیں۔ یہ دارالعلوم
بزرگوں کی یادگار ہے۔’’
حضرت شیخ الحدیثؒ نے اس کے جواب میں حضرت جؒی کے
متعلق فرمایا:
‘‘حضرت! آپ بہت اصلاحی کام کر رہے ہیں۔ آپ کی
شفقت ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ میں خود بہت گناہگار ہوں۔’’
کچھ عرصہ قبل مولانا
بنوریؒ کا انتقال ہوا تھا۔ اب حضرت شیخ الحدیثؒ کی علالت کے بارے میں حضرت جؒی نے
پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء
عطا فرمائے، آپ کا وجود باعث برکت ہے۔ مولانا بنوریؒ کے انتقال سے جو خلاء پیدا
ہوا ہے اس کا پورا ہونا بہت مشکل ہے۔ علمائے حق کا وجود عنقاء ہو رہا ہے، جو جاتا
ہے اس کا بدل مشکل ہے۔’’
حضرت شیخ الحدیثؒ نے تائید کی:
‘‘بالکل! دراصل قلت علماء قیامت کی نشانی ہے
اگرچہ برائے نام علماء تو ہوں گے۔’’
حضرت جیؒ نے فرمایا:
‘‘ابھی تو سرحدمیں دین کا
کچھ احساس ہے، مجھے سال دو سال کے بعد
یہاں آنا ہوتا ہے۔ یہاں کے طلباء کو بھی علم سے لگاؤ ہے۔ ہمارے علاقہ میں طلباء کی
یہ حالت ہے کہ فلم دیکھنا، سگریٹ پینا عام ہے۔ نماز کی پابندی نہیں۔ بڑوں کا
احترام اور اساتذہ اور کتب کا ادب باقی نہیں رہا۔ الحمدللہ! یہ دیکھ کر دل بہت خوش
ہوا کہ آپ کے یہاں بزرگوں کا فیض خوب جاری
ہے۔’’
حضرت شیخ الحدیثؒ نے فرمایا:
‘‘ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ آپ تشریف لائے۔ آپ
نے بہت شفقت فرمائی، اللہ تعالیٰ آپ بزرگوں کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔ بحمدہٖ
تعالیٰ آپ سے خوب فیض جاری ہے، خدا اس میں برکت دے۔’’
حضرت جؒی نے انکساری سے فرمایا:
‘‘حضرت! ہم خوش قسمت ہیں کہ آپ سے ملاقات کا
شرف نصیب ہوا ورنہ ہم بہت گناہگار ہیں، ہم
اس قابل نہیں۔’’
حضرت شیخ الحدیثؒ:
‘‘من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ
(جو اللہ تعالیٰ کے لئے انکساری اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا
فرماتے ہیں)۔ بزرگوں کا یہی طریقہ ہے۔’’
حضرت جؒی نے اپنے بارے میں پھر انکساری کا اظہار کیا:
‘‘صاحب البیت ادریٰ بما فی البیت
(گھر کا مالک خوب جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے۔)’’
حضرت شیخ الحدیثؒ:
‘‘حضرت بنوریؒ کے انتقال
سے بڑا صدمہ ہے کہ علوم قدیمہ و جدیدہ پر ان کی وسیع نظر تھی۔’’
حضرت جؒی:
‘‘اسی لئے تو میں نے عرض کیا تھا کہ اس خلاء
کا پر ہونا مشکل ہے۔اس طرح مفتی اعظم مولانا محمد شفیؒع کا خلاء پر ہونا بھی مشکل
ہے۔ ان سے پہلے بزرگوں کا تذکرہ کیا کریں، ان کی نظیر اب نہیں ملتی۔ درس و تدریس
کا کام بھی کرتا رہا لیکن میرا زیادہ وقت ردِرفض کے کام میں خرچ ہوا۔ یہ رفض بہت
بڑا فتنہ ہے۔’’
حضرت شیخ الحدیثؒ نے فرمایا:
‘‘آپ سے اللہ نے بڑا کام لیا، واقعی یہ بہت
بڑا فتنہ ہے۔’’
حضرت جؒی نے جواب دیا:
‘‘یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ فتح الباری
تیرھویں حصہ میں ہے کہ جملہ کمالات
نبی کریمﷺ پر مکمل ہیں۔ پھر یہ
کمالات ان کے خلفائے راشدین اور ائمۂ ھدیٰ میں آئے اور اب کسی کے ذمہ کوئی اور
کسی کے ذمہ کوئی کام لگا دیا گیا۔ ہمارے لئے خوشی اور شکریہ کا مقام ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے ہم سے کام لیا ورنہ ہم تو اس کے اہل نہیں۔’’
حضرت شیخ الحدیثؒ:
‘‘اللہ تعالیٰ دین کا محافظ ہے، انتظام فرما
دیتے ہیں۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘رفض کی وجہ سے صحابہ و
سلف صالحین کے مسلک پر پانی پھر جاتا ہے۔ اب تک ردِ شیعیت میں کتب لکھی ہیں، اس کے بعد
عقائد اہل سنت پر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اللہ کریم رفض کی تردید کے لئے ہر صدی میں دو
چار اشخاص کو خصوصی طور پر پیدا فرماتے ہیں۔ دارالعلوم کو دیکھ کر یہاں کے حالات
کا پتا چلا تو بہت خوشی ہوئی۔’’
حضرت
شیخ الحدیث مولانا عبدالحؒق کی علالت کے باوجود علمی گفتگو کا یہ سلسلہ کافی دیر
تک جاری رہا۔ اس موقعہ پر حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی اور
حافظ عبدالرزاقؒ بھی شریک محفل تھے لیکن بطور سامعین اور یہی آدابِ
شیخ کا تقاضا ہے۔ ایسا نہیں کہ شیخ کی موجودگی میں اپنی علمیت کا اظہار کیا جائے جیسا کہ صحبت شیخ کے دوران بعض
اوقات دیکھنے میں آتا ہے۔ ہم کیا اور ہمارا مبلغ علم ہی کیا! اس علمی محفل کے
اختتام پر شیخ الحدیؒث کے فرزند مولانا سمیع الحق نے حضرت جؒی سے درخواست کی کہ
آپؒ دارالعلوم کا معائنہ فرمائیں۔ اٹھنے سے قبل حضرت جؒی نے حضرت شیخ الحدیثؒ سے
دعا کی درخواست کی۔ شیخ الحدیؒث کا اصرار تھا کہ دعا حضرت جؒی فرمائیں۔ اس اصرار
کو دیکھتے ہوئے حضرت جؒی نے فرمایا کہ میں تو دعا کے حصول کے لئے حاضر ہوا ہوں،
دعا آپ فرمائیں میں اس پر آمین کہوں گا۔ بالآخر حضرت شیخ الحدیثؒ نے بہت رقت اور
والہانہ انداز میں قنوت نازلہ والی مسنون دعا مانگی۔ دعا کے ساتھ ہی نشست برخواست
ہوئی تو حضرت جؒی نے دارالعلوم کا معائنہ کیا اور معائنہ بُک پر اپنے تاثرات تحریر
فرمائے۔ دورانِ سفر حضرت جؒی دارالعلوم حقانیہ کے بارے میں اظہارِ خوشی کے ساتھ
ساتھ دعائے خیر بھی کرتے رہے۔
مولانا عبدالحؒق نے اس ملاقات کے متعلق اپنے تاثرات ان
الفاظ میں بیان کئے:
‘‘پہلی بار کسی پیر سے اس
قدر مدلّل رَد سنا ہے فرق ِباطلہ کا، صوفی رد نہیں کیا کرتے۔ مناظر بھی ہو، صوفی
بھی ہو، بڑی عجیب بات ہے!’’
اسی
دورہ کے تسلسل میں آپؒ واہ کینٹ تشریف لے گئے۔ 17
مارچ 1978ء سوات روڈ کی جامع
مسجد میں حضرت امیرالمکرم کے خطاب کے بعد آپؒ نے نماز ِجمعہ کی امامت فرمائی لیکن
خرابی ٔ صحت کی بنا پر ظاہری بیعت کا پروگرام مؤخر کر دیا۔ نماز کے فوراً بعد آپؒ
نے راقم کے عقد کے پروگرام میں شرکت فرمانا تھی لیکن خرابی ٔصحت کے پیش ِنظر یہ
ممکن نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسجد سے نکلتے ہوئے ناظم اعلیٰ نے یاد دلایا تو آپؒ نے
فرمایا، چلو۔ علالت کے باوجود تشریف لے گئے اور خود نکاح پڑھایا جبکہ حضرت
امیرالمکرم راقم کے وکیل تھے۔
احباب
کی خواہش ہوا کرتی کہ حضرت جؒی سے نکاح پڑھانے کی سعادت حاصل کریں۔ عمومی طریقہ یہ
تھا کہ اس کے لئے فریقین حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ یا منارہ حاضر ہوتے۔ نکاح
پڑھنے سے پہلے آپؒ دلہن کے وکیل اور گواہوں سے مختلف سوالات کے ذریعے تسلی فرماتے
کہ دلہن سے ایجاب و قبول شرعی تقاضوں کے مطابق حاصل کیا گیا ہے۔اگر کبھی نکاح والے
گھر خود جانے کا اتفاق ہوتا تو ولی یا وکیل اور گواہوں کو دلہن کے پاس ایجاب و
قبول کے لئے بھیجتے ہوئے تاکید فرماتے کہ اوّل سلام مسنون پیش کریں۔ واپسی پر گواہوں
سے تسلی کرنے کے بعد ولی سے ہمیشہ اجازت طلب کرتے، مجھ کو اجازت ہے میں نکاح پڑھا
دوں؟
حضرت
جؒی خطبہ نکاح درج ذیل ترتیب کے مطابق پڑھا کرتے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ
وَنُوْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ
اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَآتِ اَعْمَالِنَا۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ
لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہٗ۔ وَنَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ
اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَ مَوْلَانَا
مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ
وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن۔
اَمَّا بَعْد فَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ
يَآ اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّنْ
نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا
كَثِيرًا وَّنِسَاءً ج وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ
وَالْاَرْحَامَط اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًاO وَآتُوا الْيَتٰمٰى اَمْوَالَهُمْ وَلَا
تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِص وَلَا تَاْكُلُوْآ اَمْوَالَهُمْ
اِلٰى اَمْوَالِكُمْط اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًاO
وَاِنْ خِفْتُمْ اَ لَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى
فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَج
فَاِنْ خِفْتُمْ اَ لَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْط
ذٰلِكَ اَدْنٰى اَ لَّا تَعُوْلُوْاO
وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ
يَآ اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ
وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيدًاO يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ
وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْط وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًاO
وَقَدْ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ
اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ ۔ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ
بَارَکَ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ فِیْ الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَنَفَعَنَا
وَاِیَّاکُمْ بِالْاٰیَاتِ وَالذِّکْرِالْحَکِیْمِ۔ اِنَّہ تَعَالٰی جَوَّادٌ
مَلِکٌ قَدِیْمٌ کَرِیْمٌ بَرُّرَّؤُفُ رَّحِیْم۔
اس کے بعد حضرت جؒی دولہا کا نام لے کر ا س سے مخاطب
ہوتے:
‘‘........ فلاں (دلہن کا نام)،دختر ......
فلاں (دلہن کے والد کا نام) بمقابلہ ...... (حق مہر) روبرو ان گواہوں کے تمہیں قبول ہے۔
(صرف ایک مرتبہ فرمایا کرتے۔)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الْاَنْبِّیاءِﷺ۔ اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ
بَیْنَھُمَا کَمَا اَلَّفْتَ بَیْنَ آدَمَ وَحَوَّاء۔ اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَھُمَا
کَمَا اَلَّفْتَ بَیْنَ اِبْرَاھِیْمَ وَسَارَةَ۔ اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَھُمَا
کَمَا اَلَّفْتَ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ
و عَائِشَةَ الصِّدِیْقَة ........ اَجْمَعِیْن۔’’
ستمبر 1978ء
میں حضرت جؒی نے کوئٹہ کا دورہ فرمایا۔ 29 ستمبر جمعہ کا روز تھا۔ اس دورہ میں حضرت امیر المکرم اور حافظ عبدالرزاقؒ نے
کوئٹہ کی مختلف مساجد میں جمعہ کا خطاب فرمایا۔ ہفتہ کو آپؒ سٹاف کالج کوئٹہ تشریف
لے گئے جہاں کمانڈنٹ اور چیدہ چیدہ اساتذہ سے ایک خصوصی نشست ہوئی۔ کوئٹہ میں قیام
کے دوران حضرت جؒی نے ایک دن مستونگ میں مولانا عبدالغفور کے مدرسہ میں علماء کے
ساتھ گزارا۔
اس دورہ کے تسلسل میں حضرت جؒی تین دن کے لئے کراچی تشریف
لے گئے جہاں احباب ِسلسلہ ٔعالیہ کے ساتھ ذکر و فکر کی مصروفیات کے علاوہ ہوٹل
انٹرکانٹی نینٹل (پی سی) کے سٹاف سے بھی خطاب فرمایا۔
3 اکتوبر 1978ء کو حضرت جؒی ملتان
تشریف لائے۔ یہاں آپؒ حضرت غوث بہاؤالدین زکرؒیا کے مزار پر گئے اور 5 سگنلز بٹالین کے افسران اور جوانوں سے خطاب فرمایا۔ اسی روز آپؒ
کا ایک خطاب اسٹیشن ہیڈکوارٹر کی مسجد میں ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ ذکر و فکر اور
صحبت ِشیخ کے خصوصی پروگرام بھی چلتے رہے۔
فرشتوں سے آگے
ملتان
کے دورہ کے بعد حضرت جؒی پشاور تشریف لائے۔ یہاں 19
اکتوبر 1978ء کو علماء اور احباب کی
ایک محفل میں آپؒ نے فرمایا:
‘‘شیخ شہاب الدین سہروردیؒ
نے ‘عوارف المعارف’ میں لکھا ہے کہ تصو ّف کو صرف وہ آدمی جان سکتا ہے، مان سکتا
ہے یا سمجھ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو قادر ِمطلق سمجھتا ہو۔ وہ قادر ہے جو ایسا
کرا سکتا ہے۔ جس کا یقین پختہ نہ ہو وہ اِسے نہیں مان سکتا۔ عالم ہو، جاہل ہو سب
اس معاملے میں برابر ہیں۔ عقل حیران رہ جاتی ہے، اوروں کی باتیں چھوڑیں، میرا اپنا
معاملہ یہ ہے کہ انتہائی کتابیں پڑھتا تھا۔ قاضی مبارک، خیالی، تفسیر بیضاوی۔ اس
وقت استادوں نے یہ فرمایاکہ مجد ّد صاحب لکھتے ہیں کہ جب بیت المعمور کا طواف کیا
تو فرشتوں نے کہا کہ انسان ہو کر ہم سے آگے بڑھتے ہو۔ میں نے کہا حضرت کیا کہہ رہے
ہیں؟آپ نے امام ربانیؒ کو بیت المعمور کا
طواف کرا دیا، یہ کیا بات ہے، یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب سمجھ آتی ہے۔ فرشتے
طواف کرتے ہیں۔ جب ہم مل کر کرتے ہیں، آگے بڑھ جاتے ہیں، وہ اتنا تیز نہیں کرتے
جتنا ہم کرتے ہیں۔’’
اہل اللہ کے وجود کا اثر
اس دورہ میں حضرت جؒی کی پشاور تشریف آوری کے موقع پر راقم
شدید علالت کی وجہ سے CMH میں داخل تھا۔ آپؒ CMH تشریف لائے، کچھ دیر کمرہ میں رہے اور مرض کی
مناسبت سے خوراک کے متعلق ہدایات دیں۔ طویل علالت کی وجہ سے پریشانی کا اظہار کیا
تو فرمایا ‘‘اللہ صحت دے گا اور آپ سے کام لے گا۔’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰه!
ان
دنوں سلسلہ نقشبندیہ مجد ّدیہ کے ایک صاحب ِکشف بزرگ جنہوں نے حضرت مجدد الف ثانیؒ
کے مزار پر چلہ کشی کے دوران صاحب قبر سے فیض حاصل کیا تھا، اپنے مریدین کے ہاں
پشاور آئے ہوئے تھے۔ راقم کی خبرگیری کے لئے وہ روزانہ CMH
آتے۔ حضرت جؒی کے جانے کے بعد معمول کے مطابق تشریف لائے تو اسی کرسی پر بیٹھ گئے
جہاں کچھ دیر قبل آپؒ تشریف فرما تھے۔ وہ اچانک حیرت کے عالم میں کرسی سے اٹھے،
دائیں بائیں دیکھا اور کہنے لگے:
‘‘کیا
بات ہے، آج کمرے کی فضا بدلی ہوئی ہے؟’’
راقم نے عرض کیا:
‘‘حضرت!
ابھی میرے شیخ یہاں تشریف فرما تھے۔’’
فرمانے لگے:
‘‘میں بھی کہوں، بات کیا ہے!’’
حضرت
جؒی کے بابرکت وجود کا یہ اثر تھا کہ آپؒ کے تشریف لے جانے کے بعد ایک صاحب بصیرت
نے کمرے کی فضا کو بدلا ہوا پایا لیکن بعض قلوبِ کی سختی کا یہ عالم ہے کہ نگاہِ
مردِ مومن سے کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ اسی شقاوت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے
فرمایا، پتھروں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت۔
پشاور
ہی کے ایک دورہ کا ذکر ہے کہ مشہور محقق ڈاکٹر کے۔بی۔ نسیم، جو ان دنوں پشاور یونیورسٹی
کے شعبہ فارسی کے صدر تھے، حضرت جؒی سے ملاقات کے لئے آئے۔ آپؒ سے تعارف کرایا گیا
کہ ڈاکٹر صاحب نے حضرت سلطان باہؒو پر تحقیقی کام کیا ہے اور کئی ایک کتابوں کے
مصنف بھی ہیں۔ اس وقت حضرت جؒی کی خدمت میں آپؒ کے معتمد علیہ، صاحب ِکشف شاگرد
مختار احمؒد بھی حاضر تھے۔ حضرت جؒی ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، میرے قلب پر
خیال کریں اور دیکھیں کہ حضرت سلطان باہؒو کس جگہ دفن ہیں۔
ڈاکٹر
صاحب نے کچھ عرصہ قبل اس محفل کی روداد سناتے ہوئے اعتراف کیا کہ اس وقت میں نے دل
میں سوچا تھا کہ اب تو یہاں ‘‘بچہ جمورا’’ والا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ مختار صاحؒب
کہنے لگے، حضرت! مزارتو خالی ہے اور حضرت سلطان باہؒو کی قبر دریا کے درمیان ایک ٹیلے
پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب حضرت جؒی کے پوچھنے پر مختار صاحؒب نے حضرت
سلطان باہؒو کا حلیہ بیان کرنا شروع کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ اس قدر درست اور
تفصیل کے ساتھ حلیہ بیان کرنا ممکن ہی نہ تھا جب تک کہ مکمل طور پر حقیقت ِحال سے
آگاہی نہ ہو۔
حضرت جؒی کی صحت تیزی سے انحطاط پذیر تھی۔ بذریعہ کار سفر
کرتے ہوئے جھٹکے لگنے سے اختلاج ِقلب کی شکایت ہو جاتی اور طویل سفر کے دوران
تھکاوٹ سے بخار ہو جاتا۔ آپؒ کی عمر 75سال
سے متجاوز تھی اور گرتی ہوئی صحت ان دوروں کی اجازت نہ دیتی تھی لیکن اس کے باوجود
آپؒ کی مسافرت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا۔
گلگت کا پہلا دورہ
1979ء
میں چکڑالہ کے ایک ماہانہ اجتماع میں گلگت کی جماعت حاضر ہوئی اور حضرت جؒی سے
استدعا کی کہ آپؒ شمالی علاقہ جات کا بھی دورہ فرمائیں۔ آپؒ نے توقف کے بعد فرمایا:
کس کے پاس جاؤں، صرف چھلت (ہنزہ) میں ایک شخص لطائف والا نظر آتا ہے۔ بعد میں تحقیق
سے معلوم ہوا کہ یہ شخص کوئی مسافر تھا جو چین جاتے ہوئے یہاں پہنچا تو وقت ِآخر
آگیا۔ ایک ساتھی نے عرض کیا، اسی راستے میں حضرت سیّد اسماعیل شہیؒد بھی بالاکوٹ میں
آرام فرما ہیں۔ ان کا تذکرہ چھڑ گیا تو ایک صاحب کہنے لگے کہ شاہ صاحؒب کے بارے میں
اکثر متشد ّدانہ رویہ کی شکایت ملتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر نماز پڑھنے کے
دوران نبی کریمﷺ کا خیال آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن اگر فلاں چیز کا خیال آئے
تو نہیں ٹوٹتی۔ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘شاہ صاحؒب کے مزاج میں
تشدد تھا اور یہ اس تشدد مزاجی کی وجہ سے ہے۔ شاہ صاحبؒ سے اب بھی ملاقات ہوئی تو
اس طرف نہ گئے (اس ضمن میں بات نہ کی) اور فرمانے لگے کہ میں نے فنا بقا طے کیا
اور سالک المجذوبی کی اوّل منزل میں فوت ہوا ہوں۔ آپ مجھے سالک المجذوبی کرا دیں،
چنانچہ حکم کی تعمیل کی ناچیز نے۔’’
حضرت جؒی نے گلگت کے دورہ کے لئے احباب کی درخواست قبول
فرماتے ہوئے 24 اکتوبر 1979ء
سے 28 اکتوبر 1979 ء تک گلگت کا دورہ فرمایا۔ یہ دورہ تین روزہ تھا لیکن ایک دن کا
اضافہ فلائٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہوا۔ اس دورہ میں آپؒ نے DC گلگت کے ہاں قیام فرمایا۔مقامی علماء کا ایک
وفد ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور اہل ِتشیع کے حوالے سے علمی گفتگو ہوئی۔ حضرت جؒی
نے مآخذ کتب سے حوالہ جات دیئے جو علماء کے لئے باعث ِحیرت تھے۔ آپؒ نے جمعہ کا
خطاب مرکزی جامع مسجد گلگت میں فرمایا جس میں مسئلہ حیاتُ النبیﷺ پر بات ہوئی۔ آپؒ نے اس خطاب کے دوران
اَلْمُھَنَّدْ عَلَی الْمُفَنَّد
کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایاکہ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ اور تمام اکابر دیوبند
علماء مسئلہ حیاتُ النبیﷺ پر متفق تھے جس کے ثبوت میں ان کی دستخط شدہ تحریر بھی
موجود ہے۔ بعدمیں صرف اُن علماء نے حیات النبیﷺ کا انکار کیا جن کا تصو ّف و سلوک
سے کوئی واسطہ نہ تھا۔
گلگت
سے واپسی کے سفر میں عبدالجبار صاحب (فیصل آباد) کی حضرت جؒی کے دست ِمبارک پر
ظاہری بیعت ہوئی جو اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہوائی سفر میں یہ پہلی اور آخری بیعت
تھی۔گلگت کے اس دورہ کے چند روز بعد حضرت جؒی نے نومبر 1979ء میں ملتان، کراچی، لاہور، اوکاڑہ اور جہلم کا دو
ہفتہ کا دورہ فرمایا۔
تکمیل منازل
مئی
1980ء میں حضرت جؒی نے کراچی کا دورہ فرمایا اور واپسی
پر ملتان کے احباب کو وقت دیا۔ دورہ ملتان کے بعد فیصل آباد اور گلگت کا پروگرام
تھا لیکن مشائخ کے فرمان کے تحت حضرت جؒی سرگودھا تشریف لائے اور باقی پروگرام
منسوخ کر دیا۔ سرگودھا میں حضرت جؒی نے 20
جون 1980ء کو انتہائے سلوک کی
منازل طے کیں۔ پروگرام میں تبدیلی اس لئے کی گئی کہ حضرت سلطان العارفیؒن کی خواہش
تھی کہ جس طرح حضرت جؒی نے سلوک کی ابتدا ان کے ہاں کی، تکمیل منازل بھی ان کے
علاقہ میں ہو۔
حیات النبیﷺ
حضرت
جؒی سرگودھا میں تشریف فرما تھے کہ شہر کی جامع مسجد کے خطیب مفتی احمد سعید جو
دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے، حاضر ہوئے اور عرض کی، حضرت! یہاں کے علماء
حیات النبیﷺ کے قائل نہیں۔ وہ انہیں علمی دلائل دے کر تھک گئے ہیں مگر وہ مان نہیں
رہے اور لوگوں کے عقائد خراب کر رہے ہیں، آپؒ اس اہم موضوع پر خطاب فرمائیں۔طویل
دورہ کے بعد حضرت جؒی کی صحت ٹھیک نہ تھی لیکن معاملہ چونکہ حیات النبیﷺ کا تھا، خطاب
کے لئے فورا تیار ہو گئے۔ سارے شہر میں منادی کرا دی گئی کہ عشاء کے بعد حضرت جؒی
حیات النبیﷺ کے موضوع پر خطاب فرمائیں گے۔
حضرت
جؒی نے اپنے طویل خطاب میں مختلف کتابوں کے حوالے دیئے اور سیرحاصل گفتگو کے بعد
آخر میں فرمایا، فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص حضورﷺ
کی حیات کو نہیں مانتا، وہ مسلمان نہیں ہے۔ یہ فتویٰ پانچ صد علماء کی طرف
سے لکھا گیا ہے جن کی صدارت حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد فرما رہے تھے۔
علمی
دلائل کے بعد حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘ اگر کوئی دلائل کو نہیں مانتا تو وہ میرے
پاس آجائے۔ میں اس کو حلال و طیب غذا کھلاؤں گا، دو وقت ذکر کراؤں گا اور وہ چھ ماہ کے اندر خود
دیکھ لے گا کہ حضورﷺ روضہ اطہر میں زندہ ہیں اور امت کی
رہنمائی فرما رہے ہیں۔’’
حضرت
جؒی کے اس چیلنج کے بعد سرگودھا میں عرصہ دراز تک حیات النبیﷺ کے خلاف کسی کو بات
کرنے کی جرأ ت نہ ہوئی۔
راولپنڈی کا اعزاز
راولپنڈی کی یہ خوش قسمتی رہی کہ مرکزی شہر ہونے کی وجہ سے حضرت
جؒی نے اپنے بیشتر دوروں کے آغاز یا اختتام پر یہاں قیام فرمایا۔ 1980ء میں
آپؒ یہاں تشریف لائے تو آپؒ کی محفل میں مشہور قانون دان اے کے بروہی حاضر ہوئے۔
راقم نے انہیں قریب سے دیکھا کہ ابتدا میں وہ زمین پر آلتی پالتی مارے آرام سے بیٹھے
ہوئے تھے لیکن کچھ ہی دیر بعد سمٹنے لگے، دوزانو بیٹھ گئے اور پھر کمال ِادب کی
تصویر بن گئے کیونکہ حضرت جؒی جو کچھ فرما رہے تھے وہ ان کے حسب ِحال تھا۔یہی حال
ا فواج کے سینئر افسران کا بھی اکثر دیکھا۔ جو بھی آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا،اس
مرد ِدرویش کے جلال سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
ذکر الٰہی اور سلوک
اسی دورہ میں 20 اپریل 1980ء
کو مولانا ریاض احمد اشرفی کی ایماء پر راولپنڈی کے علماء کی حضرت جؒی کے ساتھ دو
نشستوں میں طویل محفل ہوئی۔ علماء نے تصوف اور طریقۂ ذکر کے بارے میں وہ سوال
پوچھے جو دورِ حاضر میں خاصے معروف ہیں اور ہمیں روز مرہ زندگی میں ان سے سابقہ
پڑتا ہے۔ حضرت جؒی نے حاضرین کی علمی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے سیرحاصل
جواب دیئے جو مستقل افادیت کے حامل ہیں اور احبابِ سلسلہ کی راہنمائی کے لئے نقل کئے
جاتے ہیں۔ حضرت جؒی نے ذکر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ذکر الٰہی تمام عبادات سے افضل ہے۔ قرآن مجید
میں ذکر الٰہی کے صلہ میں ایک ایسی نعمت کا وعدہ کیا گیا ہے جس سے بڑی نعمت مومن
کے لئے اور کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاذْكُرُوْنِي اَذْكُرْكُمْ (البقرہ۔152) یہ وعدہ صرف ذکر الٰہی کے ساتھ مختص ہے اور ظاہر ہے
جسے اللہ تعالیٰ یاد کرے اس سے زیادہ خوش نصیب کون ہو سکتا ہے! اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ وَلَذِكْرُ
اللّٰهِ اَ كْبَرُ
(عنکبوت۔45)اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔ واقعی اگر ذکر الٰہی سب
سے بڑی نعمت نہ ہوتی تو اس سلسلے میں اَذْكُرْكُمْکی نعمت غیر مترقّبہ کیوں
کر مل سکتی تھی۔ حضور اکرمﷺ ہر وقت ذکر
الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کَانَ
النَّبِیﷺ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ
اَحْیَانِہ۔ (حضور اکرمﷺ ہر
وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔) لفظ احیان جمع ہے اور
قاعدہ ہے کہ اضافت جمع کی اپنے مابعدکی طرف استغراق حقیقی کا فائدہ دیتی ہے اور
پھر اس پر محیط الافراد لفظ ‘‘کل’’ بھی ہے۔ لہٰذا تمام اوقات میں بول و براز، جماع،
اکل و شرب و نیند اور دوسرے مشاغل بھی شامل ہیں۔ کُلِّ
اَحْیَانِہ سے مراد ذکر قلبی ہی ہو سکتا ہے اور استغراق حقیقی کی
وجہ سے اپنے اوقات میں ذکر لسانی کو بھی شامل ہوگا۔ علماء کرام تشریف فرما ہیں، یہاں
استغراق عرفی یا اضافی نہیں کیونکہ قرینہ مخالطۃ الجنب موجود ہے۔ کیونکہ ایسی حالت
میں ذکر لسانی ناجائز ہے اس لئے لازماً ذکر قلبی مراد ہوگا۔
حضور اکرمﷺ
نے فرمایا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتا دوں جو سب سے افضل ہو جس کا ثواب اللہ کے ہاں
سب سے زیادہ ہو، جو تمہارا درجہ سب سے بلند کر دے اور وہ عمل سونا چاندی خرچ کرنے
سے بھی زیادہ پسندیدہ ہو اور جو دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں قتل کرنے سے بھی
افضل ہو۔ صحابہ کرام] نے عرض کیا
کہ حضور اکرمﷺ ضرور فرمائیں۔ آپﷺ
نے فرمایا، اللہ کا ذکر سب سے افضل ہے۔ ایک دوسری جگہ فرمایا میں تمہیں حکم دیتا
ہوں کہ اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو، اس کی مثال ایسی ہے کہ آدمی کے تعاقب میں
دشمن تیزی سے آرہا ہو اور وہ آدمی اس سے بچنے کے لئے قلعہ میں پناہ گزیں ہو جائے،
اس طرح شیطان سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ صرف اللہ کا ذکر ہے۔ ذکر الٰہی
سے غفلت شیطان کے ہاتھ پر بیعت کے مترادف ہے۔ فرمایا: جو شخص ذکر الٰہی سے روگردانی
کرے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔’’
ایک
مولوی صاحب امام مہدی رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل حضرات شیخینy کے مقابلے میں
بیان کرنے لگے تو حضرت جؒی نے جواب دیا:
‘‘میاں! ہوش کی دوا کرو،
بیشک امام مہدیؒ بہت بڑی ہستی ہو گی، باکمال ولی اللہ ہی ہوگا مگر کہاں صحابیt براہِ راست شمس نبوت سے کسب فیض کرنے والا اور
پھر ابوبکر صدیقt اور فاروق اعظمt جو صحابہ کرام] کے بھی سردار ہیں! صحابہ کرام] کی شان بہت عظیم ہے مگر اس عظمت و شان کے باوجود
قرآن مجید کا اصول موجود ہے کہ خبردار! اگر کوئی بھی، باپ ہو یا بیٹا، بیوی ہو یا
بھائی، مال و زر ہو یا جائیداد، اللہ تعالیٰ اس کے رسولﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے بڑھ کر
عزیز ہیں تو منتظر رہو، اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس کے مخاطب اول
صحابہ کرام] ہیں یعنی اگر یہ جرم کسی صحابیt سے بھی (معاذ اللہ) ہو جائے تو محبت رسولﷺ سے محروم کر دیا
جائے گا چہ جائیکہ ہم اس دور کے انسان! دل ایک ہے اور ایک ہی کے لئے رہے گا۔ اگر
دوسرا آ گیا تو اضطراب پیدا ہوگا، سکون نہیں ہو سکتا جس دور میں ہم ہیں یہ اور بھی
نازک ہے، اس لئے خوب سمجھ لیں۔ بیوی، بچے، اونٹ، گھوڑے، گاڑیوں، مال و جائیداد سے
تعلق حفاظت کا ہونا چاہیے اور اس کی محبت کی بھی ایک حد ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے
ساتھ تعلق عبادت کا ہو اور محبت غیر محدود اور ہر الفت پر غالب ہو۔ اگر اس رتبے کو
حاصل نہ کر سکے تو پھر چھوڑ بھی نہ دے اور اس کے حصول کا ذریعہ ذکر الٰہی ہے۔ یہ
جب آتا ہے تو تمام کجی دور کر دیتا ہے اور تمام رذائل کو نکال باہر کرتا ہے جیسے
حضرت سلیمانu کا مکتوب پا کر ملکہ سبا بلقیس نے امراء سے
مشورہ طلب کیا تھا تو سب نے کہا تھا کہ ہم طاقت میں کسی سے کم نہیں اور لڑنے کی قوت
بھی رکھتے ہیں مگر حکم تو آپ ہی کا ہوگا۔ کہنے لگی، تم نہیں جانتے کہ جب بادشاہ بحیثیت
فاتح کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں، ہر چیز برباد کر دیتے ہیں، امراء اور بااثر لوگ
ذلیل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ذکر الٰہی بھی بہت بڑا بادشاہ ہے، حاکم ہے، جب یہ کسی
دل کو فتح کرتا ہے تو تکبر و غرور، لالچ و حرص، ہوا و ہوس جو وہاں سردار بنے بیٹھے
ہوتے ہیں، انہیں ذلیل کر کے نکال دیتا ہے۔ تب جا کر دل قلب سلیم بنتا ہے اور
کشف کی استعداد پاتا ہے۔ رجال اللہ کو کوئی تجارت ذکر الٰہی، قیام نماز اور ادائیگی
زکوٰة سے مانع نہیں یعنی جن کو دنیا اللہ سے دور کر دیتی ہے، وہ مرد نہیں۔
مردان خدا پر دنیا کا جادو نہیں چلتا۔ دنیا وہ چیز ہے جو اللہ سے اور اس کے
احکامات کی ادائیگی سے روک دے۔ اللہ کی یاد سے غفلت کا نام دنیا ہے۔ لباس، بیوی،
بچے، مال و دولت اگر خدا سے غافل نہیں کرتے تو یہ دنیا نہیں۔ فرمان نبیﷺ ہے، مومن
وہ اچھا ہے جو لوگوں میں زندگی بسر کرتا ہے اور ان کے ایذا پر صبر کرنا چاہتا ہے۔
خواہشات نفسانی کو رضائے باری پر قربان کر دینا یہ منزل ہے، فنا فی اللہ کی اور جب
اللہ سے جڑ گیا، اس سے تعلق کلی قائم کر لیا، یہ منزل بقاباللہ کی ہے۔’’
طریقۂ
ذکر پر ایک سوال ہوا کہ ‘‘ھو’’ کی ضربات قلب، روح وغیرہ مقامات پر لگانا اور اس کی
تفصیل، کیا یہ حضور اکرمﷺ کی سیرت طیّبہ سے ثابت
ہے؟ اس پر حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘اس سوال کے جواب کو
سمجھنے کے لئے چند تمہیدی باتیں جو مسلّمات کی حیثیت رکھتی ہیں، سمجھنا ضروری ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ جن حضرات کو ہم اولیاء اللہ کہتے ہیں ان میں اور دوسرے لوگوں میں
یہ فرق ہوتا ہے کہ ان حضرات نے برسوں مجاہدہ اور ریاضت کر کے اپنا تزکیہ کر لیا
ہوتا ہے۔ ان کی شان امتیازی ہوتی ہے۔ ہاں جو عبادات منصوص اور مقرر ہیں، ان میں تو
وہ عام مسلمانوں ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا سارا مجاہدہ ذکر الٰہی کی صورت میں
ہوتا ہے۔ یہ مسلّمات میں سے ہے کہ دنیا بھر کے اولیاء اللہ کے مدارج اکٹھے کئے جائیں
اور ان کا ایک مینار بنایا جائے تو جہاں اس کی بلندی ختم ہوگی، وہاں سے ایک ادنیٰ
صحابیt کے مدارج
شروع ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحابی ہونے سے جو تزکیہ ہوتا ہے وہ اولیاء اللہ
کے زندگی بھر کے مجاہدوں سے نہیں ہوپاتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابی بننے
کے لئے کتنا مجاہدہ کرنا پڑا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ
کی صرف ایک نگاہ میں صحابیt بن گیا یعنی
اس ایک نگاہ میں اتنی قوت تھی کہ اعلیٰ درجے کا تزکیہ ہوگیا۔ پھر یہاں دو ضمنی
سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا صحابہ] کو ذکر الٰہی
کی ضرورت نہیں تھی اور وہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ذکر بیمار دلوں
کی دوا ہے، یہ دوا اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمائی ہے۔ اَلَا
بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد۔28) خبردار دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہے اور ظاہر ہے کہ دل کی
بڑی بیماری بے چینی اور بے اطمینانی ہی ہے۔ دوسری حیثیت غذا کی ہے اس کی نشاندہی
بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دی۔ اَلَّذِينَ
يَذْكُرُونَ اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُودًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ (آل عمران ۔191) وہ اللہ کو کھڑے، بیٹھے
اور لیٹے یاد کرتے ہیں۔ پس صحابہ کرام] کا تزکیہ
تو نگاہِ مصطفیٰﷺ سے ہوگیا مگر ذکر الٰہی ان کی
غذا تھی جیسے کہ حضورِ
اکرمﷺ کے متعلق صدیقہ
کائناتr نے فرمایا کَانَ النَّبِیﷺ
یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہ۔ یعنی حضور اکرمﷺ
زندگی کے ہر لمحے اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ ذکر الٰہی کی ضرورت تو ارشاد ربانی اور
حضور اکرمﷺ کے عمل سے واضح ہوگئی مگر اس کی اہمیت کا
اندازہ آپ علمائے کرام اس امر سے لگائیں کہ قرآن مجید میں 160
مقامات پر ذکر الٰہی کا کسی نہ کسی رنگ میں بیان ہوا ہے اور اس کی تائید کی گئی
ہے۔
رہی آپ کی بات کہ ذکر الٰہی کا کوئی خاص طریقہ بھی قرآن و
سنت سے ثابت کریں تو اس سلسلے میں ایک اصول پیش نظر ہے، وہ یہ کہ شریعت نے کچھ
عبادتیں ایسی فرض کی ہیں جن کے اوقات، مقدار، ہیئت سب مقرر کر دی ہیں جیسے نماز،
روزہ، حج، زکوٰة اور کچھ عبادتیں ایسی فرض کی ہیں جن کا حکم دے کر فرض قرار دیا
مگر وقت، مقدار اور صورت متعین نہیں فرمائی۔ مثلاً دین کا ضروری علم حاصل کرنا، دین
کی تبلیغ، جہاد کرنا، ذکر الٰہی کرنا وغیرہ۔ آپ جانتے ہیں حضور اکرمﷺ کے عہد میں دین کا علم حاصل کرنا
ضروری تھا چنانچہ حضور اکرمﷺ خود معلم تھے۔ مسجد نبوی کا صحن مدرسہ بھی تھا
اور یونیورسٹی بھی تھی، دارالعلم بھی تھا اور نصاب تعلیم صرف قرآن مجید تھا۔ اب آپ
دیکھتے ہیں کہ ہر شہر میں دارالعلوم کھلے ہیں اور نصاب تعلیم میں صرف و نحو، منطق،
فلسفہ، ادب، فقہ، حدیث، تفسیر وغیرہ تمام علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ کتابوں کی ایک طویل
فہرست ہے، ہدایہ، نحو، قدوری، کافیہ، بخاری،
ترمذی، بیضاوی، جلالین وغیرہ۔ اب اگر کوئی شخص ان دارالعلوم والوں سے مطالبہ کرے
کہ کیا ان کتابوں کی تعلیم دینا نبی کریمﷺ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے۔ مستند کتب
تواریخ یا حدیث کا حوالہ مانگے تو آپ ہی فرمائیں کہ اسے کیا جواب ملے گا! اسی طرح
حضور اکرمﷺ کے عہد میں
تبلیغ دین فرض تھی اور اب بھی فرض ہے۔ اس وقت حضور اکرمﷺ خود مبلغ تھے، صحابہ کرام] مبلغ تھے اور تبلیغ
کا طریقہ کار زبانی تقریر اور قرآن کا مفہوم بتانا تھا۔ اب بھی تبلیغ ہو رہی ہے جیسے
تقریریں، کتابیں، ریڈیو اور تبلیغی جماعت کے دورے وغیرہ۔ اب اگر کوئی آپ سے پوچھے،
کیا حضور اکرمﷺ بستر لے کر
گھرسے نکلتے، جماعت بناتے، دوسرے شہر میں
رات گزارتے اور عصر کے بعد گشت کرتے، مغرب کے بعد بیان کرتے اور بیان کے بعد کاغذ
پنسل لے کر کھڑے ہو جاتے کہ لکھاؤ کتنا وقت دو گے؟ آپ خود ہی فرمائیں اسے کیا جواب
ملے گا؟ اسی طرح حضور اکرمﷺ اور صحابہ کرام] تیر،
تلوار اور نیزہ سے جہاد کرتے تھے۔ اب اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ کیا حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے جہاد کے لئے کلاشنکوف استعمال کی یا
صحابہ کرام] نے میزائل چلائے تو آپ ہی فرمائیں، کیا جواب ملے
گا؟
ان
سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ایک ہوتا ہے مقصد اور ایک ذریعہ۔ پھر کبھی تو حصول
مقصد کے ذرائع مقرر ہوتے ہیں اور کہیں ذرائع کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی۔
لہٰذا مقاصد بدلتے نہیں، ذرائع بدل سکتے ہیں۔ ذکر الٰہی مقصد ہے، اس کی کوئی خاص
صورت شریعت میں متعین نہیں۔ لہٰذا اس میں اہل فن جس صورت کو حصول مقصد کے لئے مفید
سمجھیں اور شریعت میں اس کی ممانعت نہ ہو، وہی درست ہوتی ہے۔ ذکر الٰہی کے لئے اہل
ذکر نے جو صورتیں اختیار کی ہیں وہ حصول مقصد کے لئے مفید بھی ہیں اور شریعت میں
ان کی ممانعت بھی نہیں تو ان کے متعلق یہ سوال کرنا ہی بے محل ہے کہ آیا یہ صورت
حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ سے ثابت
ہے۔
آپ علمائے کرام تشریف رکھتے ہیں، اس بات سے بخوبی
واقف ہیں کہ علمائے دیوبند جب فارغ التحصیل ہوتے تھے تو اس پایہ کے لوگ تھے کہ بعض
مفسر بنے، بعض محدث بنے، بعض فقیہہ مگر وہ سب کے سب کچھ بننے کے بعد حاجی امداد
اللہ مہاجر مکیؒ کی خدمت میں شاگرد بن کر حاضر ہوتے۔ آخر آپ ہی بتائیں کیوں،
حالانکہ حاجی صاحؒب کوئی بڑے عالم بھی نہ تھے؟ حاجی صاحؒب کے پاس وہ چیز تھی جو
دارالعلوم کے فارغ علماء کے پاس نہ تھی اور وہ تھا تزکیہ کا فن۔ یعنی تمام اکابر دیوبند
حاجی صاحؒب کو اس فن کا امام سمجھتے تھے تو ہم عامیوں کو تو لازماً انہیں امام تسلیم
کرنا چاہیے۔ اگر آپ بھی اس سے متفق ہیں توان کی کتاب ‘‘ضیاء القلوب’’ کا مطالعہ
ضروری فرمائیں۔ اس کتاب میں انہوں نے تزکیہ کے فن کے تمام ائمہ متقدمین کی آراء کا
نچوڑ دے دیا ہے۔’’
یہ حافظ غلام قادری کے ہاں دعوت ولیمہ کا موقع
تھا، میز پر کھانے چن دیئے گئے تو محفل برخواست ہوئی۔ حضرت جؒی اپنی جگہ تشریف
فرما رہے اور ان کے لئے ساگ کے ساتھ گھر کی پکی ہوئی خشک روٹی آگئی کیونکہ آپ دعوتی کھانوں سے
پرہیز فرماتے۔
مشائخ کنونشن
جنرل
ضیاء الحق نے پاکستان میں نفاذ ِاسلام کے سلسلہ میں پیش رفت کے لئے22 ستمبر 1980ء کو اسلام آباد میں ایک
مشائخ کنونشن کا انعقاد کیا۔ ان دنوں
منارہ کا سالانہ اجتماع جاری تھا۔ دعوت نامہ موصول ہوا تو حضرت جؒی نے اس میں شرکت
سے بیزاری کا اظہار فرمایا تاہم ساتھیوں کے اصرار پر راولپنڈی تشریف لے گئے۔
کنونشن میں تقاریر کا عمومی انداز یہ تھا کہ ہم صدر ِصاحب کے پروگرام سے مکمل
اتفاق رکھتے ہیں، ہمارے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے جو ضرورت پڑنے پر جان تک کی
بازی لگانے کو تیار ہیں۔ یہ خوشامدانہ تقاریرحضرت جؒی کے مزاج پر گراں تھیں۔ آپؒ
کچھ دیر اضطراب کے عالم میں پہلو بدلتے رہے لیکن جب مزید برداشت نہ ہوا تو اٹھ
کھڑے ہوئے اور منارہ روانہ ہو گئے۔ حضرت جؒی کی عدم موجودگی میں حضرت امیرالمکرم نے آپؒ کی نمائندگی
کی۔ کنونشن ختم ہوا تو جنرل ضیاء الحق ہال سے گزرتے ہوئے شرکاء سے ہاتھ ملانے لگے۔
اس موقع پر حضرت امیرالمکرم ان کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ جنرل صاحب نے سر اٹھا کر ان
کی طرف دیکھا تو حضرت امیرالمکرم نے فرمایا، صدر صاحب اتفاق کی باتیں خوب ہوئیں لیکن
اگر کسی کو اختلاف ہو تو وہ کیا کرے؟
جنرل صاحب نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا کہ اختلاف سے کچھ
فرق نہیں پڑتا۔ کوئی دیوبندی ہے، بریلوی ہے، اہل ِحدیث ہے لیکن نفاذ ِاسلام پر سب
متفق ہیں۔
حضرت
امیرالمکرم نے جواب دیا کہ یہ مسلک کا اختلاف نہیں، آپ کے طریقہ کار سے اختلاف ہے۔
جنرل صاحب نے ایک مرتبہ پھر بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا،
مولانا! آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے؟جب بتایا گیاکہ چکوال سے ہے تو صدر صاحب نے اپنے
سٹاف سے کہا، ان کا پتا نوٹ کر لو اور تفصیلاًگفتگو کے لئے بعد میں بلاؤ۔ اس طرح
وہ موقع ٹال گئے اور نہ ہی بعد میں بلایا البتہ حضرت جؒی کے وصال کے بعد جب صدر
پاکستان جنرل ضیاء الحق دارالعرفان آئے تو ایک الگ نشست میں حضرت امیرالمکرم نے ان
کے سامنے دو سوال رکھے:
‘‘اوّل :نفاذ ِاسلام کے لئے آپ کا طریق ِکار
سست روی کا شکار کیوں ہے؟
دوم: اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے آپ نے کس
شخص یا ٹیم کو تیار کیا ہے؟’’
پہلے سوال کا تو صدر صاحب نے یہ جواب دیا کہ وہ ایک وقت میں
بہت سے محاذ کھولنے کے لئے تیار نہیں، افغانستان کے محاذ پر قابوپانے کے بعد
اندرونی محاذ پر توجہ دیں گے (جس کا انہیں موقع نہ مل سکا)۔ دوسرے سوال کا ان کے
پاس کوئی جواب نہ تھا اور وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کے حاشیہ برداروں کو نفاذ
ِاسلام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
کنونشن سے حضرت جؒی کی
اچانک واپسی ساتھیوں کے لئے غیر متوقع تھی۔ اتفاقاً یہ اجتماعی ذکر کا وقت تھا اور
ذکر کرانے والے صاحب بآواز بلند شعرگوئی اور
تلاوت آیات سے ذکر میں جوش و خروش پیدا کرنے کی کوشش کر رہے
تھے۔ حضرت جؒی نے اس طرزعمل پر تعجب اور سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، یہ
ذکر کرانےکا کونسا طریقہ ہے؟ حضرت
امیرالمکرم مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ کیفیات توجہ اور ذکر سے حاصل ہوں نہ کہ
شعرگوئی اور خوش الحانی سے وجد کی صورت پیدا کی جائے۔
حضرت
جؒی نے واپسی پر مشائخ کنونشن کے بارے میں
اپنے تاثرات کا یوں اظہار فرمایا:
‘‘ظلمت اس قدر تھی کہ لطائف مدھم پڑ گئے۔’’
مارچ اور اپریل 1981ء
میں حضرت جؒی نے پنجاب اور کراچی کا تین ہفتوں کا طویل دورہ فرمایا۔ ان دنوں حضرت
جؒی کی صحت ان طویل دوروں کی متحمل نہ تھی۔ آپؒ کی عادت مبارکہ تھی کہ اپنے دوروں
کا آغاز چکڑالہ کے ماہانہ اجتماع سے کرتے۔ کراچی کے دورہ پرروانگی سے پہلے چکڑالہ کے
اجتماع کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے تو بہت تکلیف سے چل رہے تھے اور ایک ساتھی
کا سہارا لے رکھا تھا۔ مسجد کے دروازہ سے باہر قدم رکھا تو شدید تکلیف کے عالم میں
منہ سے اف نکل گیا اور فرمانے لگے:
‘‘ میری صحت اچھی نہیں، اب میرے لئے بیرونی
دوروں پر جانا مشکل ہے۔ مجھے دربار نبویﷺ سے ہدایت کی گئی ہے کہ اب یہ کام مولانا
اکرم کے حوالے کر دوں اور خود گھر میں رہوں لیکن کرنل صاحب میری جان نہیں چھوڑتے۔’’
اس
پر کرنل مطلوب نے کہا، حضرت! لوگوں کا فائدہ ہو جائے گا، کراچی پہنچ کر دوائی بھی
لے لیں گے۔ ڈاکٹر بٹر ساتھ جا رہا ہے، راستہ میں خیال رکھے گا۔
13مارچ سے 18 مارچ تک
آپؒ نے راولپنڈی، کھاریاں، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے احباب کو وقت دیا۔ سیالکوٹ
سے گوجرانوالہ آتے ہوئے چیمہ ہسپتال ڈسکہ میں نظر کا معائنہ کرایا تودائیں آنکھ میں
موتیا کی تصدیق ہوئی۔ 18 مارچ کو
حضرت جؒی لاہور پہنچے۔
مساجد میں قیام
حضرت جؒی نے تحصیل ِعلم کے دور میں ایک زمانہ مساجد میں بسر
کیا تھا۔ اپنے دوروں میں بھی امراء کے ہاں قیام کی بجائے مساجد کو ترجیح دیتے۔ لاہور
کے اوائل دوروں میں اکھاڑہ بوٹامل کی مسجد میں متعدد بار قیام فرمایا۔ کوئٹہ میں
مسجد ڈیری فارم، مولانا عبدالقادر ڈیرھوی اور قاری عبدالرحمٰن کی مساجد میں قیام
فرمایا کرتے۔ آخری دوروں میں ساتھیوں کی سہولت اور آپؒ کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے
احباب کے ہاں قیام کا انتظام کیا جاتا۔
1981ء
کے اس تین روزہ دورہ لاہور میں حضرت جؒی کا قیام مسجد نور میں تھا۔یہاں آپؒ نے
جمعہ کا خطاب بھی فرمایا۔ اس دورہ کے ساتھ آپؒ نے شاہ کوٹ اور فیصل آباد کا بھی تین
روزہ دورہ فرمایا جس کے بعد مزید ایک رات مسجد اکھاڑہ بوٹا مل میں گزاری۔ اس موقع
پر آپؒ نے اپنی تصنیف ‘‘تحریف القران’’ کتابت
کے لئے دی۔ دوبارہ لاہور آمد کا مقصد بھی اس کتاب کی اشاعت تھا۔ لاہور کے دورہ کے
بعد حضرت جؒی فیصل آباد واپس چلے گئے جہاں
سے بذریعہ پی آئی اے کراچی روانگی ہوئی۔
چکڑالہ کا زمیندار
کراچی میں ایک ہفتہ قیام کے بعد حضرت جؒی ملتان تشریف لائے۔
یہاں آپؒ نے تین روزہ قیام فرمایا۔ اس دوران آپؒ حضرت غوث بہاؤالدین زکرؒیا کے
مزار پر بھی گئے۔ حضرت غوثؒ کے مزار سے اٹھے تو حضرت شاہ رکن ِعالمؒ کے مزار سے
آگے گزر گئے۔ اس وقت آپ کے خادم ملک مختار احمؒد نے عرض کیا، حضرت! شاہ رکن عالمؒ بھی
آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس اثناء میں گاڑی آگے گزر چکی تھی۔ آپؒ نے واپسی کے لئے
کہا اور مزار پر گئے۔ مزار پر مراقبہ کے بعدآنکھیں کھولیں تو حضرت امیرالمکرم کی
طرف دیکھا اور پوچھا، آپ کوکونسی ناراضگی ہے؟ حضرت امیرالمکرم نے عرض کیا، میں کس
قابل ہوں، بہت عرصہ پہلے حاضر ہوا تھا تو انہوں نے توجہ نہیں فرمائی تھی۔ اس وقت
عرض کیا تھا کہ میں کچھ لینے نہیں آیا، فیض حاصل کرنے کے لئے چکڑالہ کا زمیندار ہی
کافی ہے۔ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘ہم ابھی عالم ِابتلا میں
ہیں، ایک عام صاحب ِنجات بھی افضل ہے، ہمارا شاہ رکن ِعالمؒ سے
کیا مقابلہ!’’
ملتان
میں ہی حضرت جؒی سے امارات اور عمرہ کے پروگرام کی منظوری حاصل کی گئی۔ حضرت امیرالمکرم نے فرمایا:
‘‘آپ لوگ پروگرام تو بنالیں لیکن اس پر عمل نہ
ہو سکے گا۔ کیا تمہیں مدینہ منورہ سے حضرت جؒی کی واپسی کا نظارہ یاد نہیں۔’’
مدرسہ کبیر والاکا دورہ
ملتان میں دورانِ قیام مدرسہ کبیر والا کے علماء نے ایک وفد کی
صورت میں حضرت جؒی سے ملاقات کی اور مدرسہ کے دورہ کی دعوت دی۔ آپؒ ان کی دعوت پر 2اپریل
1981ء
کو مدرسہ کبیر والا تشریف لے گئے۔ آپؒ کی آمد پر مدرسہ میں روزمرہ کی تعلیمی سرگرمیاں
موقوف کر دی گئیں اور تمام اساتذہ اور طلباء استفادہ کے لئے ہال کمرے میں جمع ہو
گئے۔ محفل شروع ہوئی تو کسی صاحب نے تنقیدی رنگ میں حضرت جؒی سے سوال کیا:
‘‘ سنا ہے کہ آپ پہلی ہی محفل میں ایک شخص کو
نبی کریمﷺ سے بیعت کرا دیتے ہیں۔’’
آپؒ نے نہایت تحمل سے جواب دیا:
‘‘ہم لوگ کوئی بات سنتے ہیں
تو فوراً اس پر یقین کر لیتے ہیں حالانکہ صرف دس پیسے کا خط لکھ کر حقیقت ِحال
معلوم کی جا سکتی ہے۔ بات اس طرح نہیں ہے۔ میں سالک کی تربیت کرتا ہوں اور جب اہلیت
دیکھتا ہوں، اسے دربار ِ نبویﷺ میں پیش کر دیتا ہوں۔ جہاں تک روحانی بیعت کا تعلق
ہے، اس کا تذکرہ تو خود علمائے دیوبند کی کتب تذکرة الرشیدیہ اور قول ِجمیل میں
موجود ہے۔’’
حضرت جؒی نے علماء اور طلباء سے خطاب فرماتے ہوئے ادیان
ِباطلہ کے مطالعہ پر زور دیا۔ آپؒ نے فرمایا کہ اس دورمیں خارجیت زوروں پر ہے اور
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ خارجیت کیا ہے؟ معتزلہ کا عقیدہ کیا ہے؟ قادیانیوں کے
عقائد کیا ہیں؟ ہمیں مذاہب ِباطلہ کے عقائد معلوم نہ ہوں گے تو دفاع کس طرح کر سکیں
گے۔
اپنا واقعہ بیان فرمایا کہ میرے پاس کچھ خارجی آگئے اور تاریخ
ابن ِکثیر کی ایک جلد رکھ کر کہنے لگے کہ امام حسینt کا خروج حکومت کے خلاف بغاوت تھا۔ حضرت جؒی نے فرمایا کہ مجھے ان
پر انتہائی غصہ آیا، کتاب ان کے ہاتھ سے لی
اور کہا:
‘‘تمہیں شرم نہیں آتی یہ آگے کیا لکھا ہے۔ شہید
حسین، کیا شہید باغی ہوتا ہے! اسے باغی
کون کہتا ہے جو شہید ہوتا ہے۔ آپ کو شرم و حیا نہیں آتی کہ آپ امام حسینt پر اعتراض کرتے ہیں، یزید کی دھڑ پر۔ امام حسینt رسول اللہﷺکے
نواسے اور رسول اللہﷺ کے بیٹے ہیں۔’’
اس
واقعہ سے حضرت جؒی نے بتایاکہ اگر آپؒ نے خود تاریخ ابن ِکثیر کا مطالعہ نہ کیا
ہوتا تو ان لوگوں کے اعتراض کا جواب کس طرح دے سکتے تھے۔
مدرسہ
کبیر والا میں علم کے متلاشی اساتذہ اور طالب علموں کے ساتھ حضرت جؒی کی یہ محفل
دو گھنٹہ جاری رہی جس کے آخر میں طے پایا کہ حضرت جؒی کی کتب ‘‘الدین الخالص’’ اور
‘‘تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین’’ منتہی طلباء کے نصاب میں شامل کردی جائیں گی۔
اس محفل کے بعد مدرسہ کے مہتمم نے آپؒ سے بیعت ِطریقت کے لئے درخواست کی تو آپؒ نے
فرمایا:
‘‘آپ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اس ضعف ِپیری میں
توجہ سے روح کو منازل نہیں کرائے جا سکتے۔ یہ اس وقت تک ممکن ہے جب تک قوت موجود
ہے۔ جو تعلیم و تعلم کا کام آپ کر رہے ہیں، کرتے رہیں۔ اسی پر اللہ تعالیٰ آپ کو
نوازے گا۔’’
ملتان
سے واپسی پر حضرت جؒی لاہور کی مسجد نور پہنچے۔ یہاں مخلوق کا جم غفیر پہلے سے
موجود تھا۔ یہ سیّدالایام تھا، حضرت امیر المکرم کے خطاب کے بعد آپؒ نے نماز ِجمعہ
کی امامت کی۔ بہت سے نئے احباب حلقہ میں آئے اور حضرت جؒی سے بیعت کی۔ راستے میں ایک
رات سرگودھا میں ساتھیوں کے ساتھ قیام فرمانے کے بعد 4
اپریل 1981ء کو چکڑالہ مراجعت بخیر
ہوئی۔
اگست
1981ء میں حضرت جؒی نے بلوچستان کا دورہ فرمایا جس کی
خاص بات منگچر میں علماء کے ساتھ آپؒ کی طویل نشست اور تاریخی خطاب ہے۔ آپ 9 اگست کو بذریعہ فوکر طیارہ کوئٹہ پہنچے اور یہاں کی ریلوے کالونی
میں قاری عبدالرحمٰن کی مسجد میں قیام فرمایا۔ اگلی رات مستونگ میں قیام رہا۔ یہاں
آپؒ کی ملاقات کے لئے ژوب سے علماء آئے جن کی دعوت پر ژوب کا بھی پروگرام بن گیا۔
12 اگست1981ء کو آپؒ منگچر میں
مولوی حبیب اللہ کے مدرسہ میں تشریف لے گئے جہاں 76احباب، جن میں اساتذہ اور طلباء
بھی شامل تھے، حلقہ ٔبیعت میں آئے۔ بعد میں منگچر کی نواحی آبادی کلی جامی غلام جان میں
علماء کے ساتھ ایک نشست میں چالیس منٹ خطاب فرمایا۔ موجودہ دور میں علماء چونکہ
تصوّف کو محض ایک اضافی چیز خیال کرتے ہیں، آپؒ نے اس محفل میں تصوّف ہی کو موضوع
ِسخن بنایا۔ آپؒ نے نبوت کے باطنی پہلو پر بات کرتے ہوئے حدیث ِجبریل کے حوالے سے یہ
ثابت کیا کہ تصوّف دین کا حصہ ہی نہیں بلکہ دین کی روح ہے۔ حیات ِانبیاء علیہم
السلام کے متعلق بات ہوئی، اس ضمن میں آپؒ نے مختلف کتب بالخصوص تفہیمات الٰہیہ
اور فیوض الحرمین، الفوز الکبیر کے حوالوں سے تصوّف کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپؒ
نے علماء پر زور دیا کہ وہ مذاہب ِباطلہ کو بھی اپنے مطالعہ میں شامل کریں تاکہ ان
کا مؤثر تدارک کر سکیں۔
علم ِلد ُنّی
حضرت جؒی عالم ِبے بدل تھے۔ سالہا سال متواتر تحصیل ِعلم میں
صر َف کئے جس کے بعد عمر بھر تحقیق اور تصنیف و تالیف کا عمل جاری رہا۔ ہم عصر
علماءِ حق آپؒ کے علمی مرتبے کے معترف تھے اور استفادہ کے لئے حاضر ہوتے لیکن اللہ
تعالیٰ نے آپؒ کو ایک ایسی خصوصیت سے بھی نوازا تھا جو قرون ِاُولیٰ کے چند خاص
الخاص علماء میں نظر آتی ہے۔ علم کی روشنی کے ساتھ ساتھ نگاہ باطن یا ِبصیرت صورت
سے گزر کر حقیقت تک پہنچ جائے تو اس باطنی رہنمائی کو علم لَدُنیّ کہا جاتاہے جو
اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے اور صرف اس کے مقبول بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ حضرت جؒی کی
اس خصوصیت کا متعدد علمی مجالس میں اظہار ہوا۔
حضرت
جؒی کو بارگاہ ِنبوتﷺ میں حضوری کی وہ کیفیت
حاصل تھی کہ ایک مرتبہ عالمِ جلال میں آپؒ کے منہ سے نکل گیا:
‘‘میں
نبی کریمﷺ سے حدیث
صحیح کرا سکتا ہوں، پوچھ سکتا ہوں۔’’
چودہ
صدیوں بعد حضرت جؒی کا یہ فرمانا ایک بہت بڑی بات تھی۔ آپؒ چکڑالہ کی مسجد میں
طلباء کو مشکوٰة شریف پڑھا رہے تھے۔ حدیث بیان ہوئی کہ جو شخص نوافل بیٹھ کر پڑھے
اسے نصف ثواب ملتا ہے، کھڑا ہو کر پڑھے تو پورا۔
آگے
ذکر ہوا کہ نبی کریمﷺ بیٹھ کر بھی پڑھتے تھے۔
طالبعلموں نے دونوں حدیثوں میں مطابقت کی بات کی تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘نبی کریمﷺ بیٹھ کر پڑھیں
تو بھی ثواب پورا اور کھڑے ہو کر پڑھیں تو بھی ثواب پورا۔’’
طالبعلم نادانی سے پوچھ بیٹھے،یہ کیسے؟ جلال کے عالم
میں حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘چلو تصحیح کرا لیتے ہیں۔’’
اپنی
بات تو اپنی تھی، مبادا کسی کے دل میں شائبہ رہ جاتا۔ ایک صاحب ِبصیرت ساتھی بھی
اس موقع پر موجود تھے، ا ُن سے کہا! نبی کریمﷺ سے پوچھ کر بتائیں۔ جواب ملا کہ آپؒ
نے جو کہا وہ درست ہے۔
منگچر
میں علماء سے گفتگو کے دوران بھی اس منبع علم کی بات چل نکلی۔ حضرت جؒی نے فرمایا
کہ کشف مقصودی چیز نہیں اور نہ ہی ہم اسے مقصودی چیز سمجھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ
کا انعام ہے جس پر ہو جائے۔ شرعی
دلائل صرف چار ہیں، کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ،
اجماع امت اور قیاس۔ کشف اور الہام شرعی دلائل میں داخل نہیں، ہاں
ان سے رموز اور اسرار ِشریعت حاصل ہوتے ہیں۔
اس
کی مثال پیش کرتے ہوئے حضرت جؒی نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا۔ چکوال میں ایک مولوی
صاحب نے آپؒ سے سوال کیا تھا کہ تجلّی ٔباری تعالیٰ سے پہاڑی تو ریزہ ریزہ ہو گئی
لیکن موسیٰu صرف بے ہوش ہوئے، اس کی کیا وجہ ہے؟
حضرت جؒی نے فرمایا! مجھے یاد تو نہیں مفسرین کرام نے کیا
لکھا ہے، چلو دیکھتے ہیں۔ جب دیکھا تو ان دونوں پہاڑوں کے درمیان وادی ہے۔ جس پہاڑ
پر موسیٰu کھڑے ہیں، وادی کے اِس پار ہے۔ وادی کے اُس
پار دوسری پہاڑی پر تجلی کا نزول ہوا ہے۔
صرف
حضرت جؒی پر ہی کچھ موقوف نہیں، آپؒ کے شاگردوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ عطا
کر رکھا تھا۔ آپؒ کے ہمراہ 1977ء میں حضرت امیرالمکرم نے
عمرہ ادا کیا تھا۔ ان کے قلم سے اس کی روئیداد ‘‘دیار ِحبیبﷺ میں چند روز’’ پہ
نگاہ ڈالیں تو غزوہ ٔاُحد اور اس بابرکت سفر کے واقعات نگاہ ِباطن کے سامنے منکشف
ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپؒ کے ایک شاگرد میجر رشید کا یہ حال تھا کہ تلاوت ِقرآن
کے دوران غزوات کا ذکر آتا تو ایک ایک واقعہ منکشف ہونے لگتا۔
کشف
کو پرکھنے کے لئے شریعت ِمطہرہ کا علم لازم ہے وگرنہ شیطان اس منبع علم میں تصرف
کرتے ہوئے گمراہی کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ حضرت جؒی ایک بار مراقبہ ٔسیر ِکعبہ کی
حالت میں تھے کہ آپؒ کو ایک پالکی نظر آئی جس میں سے ایک پاؤں نمودار ہوا۔ آپؒ کو یہ
تأثر دیا گیا کہ یہ حضورﷺ کا پاؤں ہے، اسے
آگے بڑھ کر بوسہ دو۔ حضرت جؒی کے سامنے فوراً حقیقت ِحال واضح ہو گئی اور
آپؒ نے لاحول پڑھا تو وہ پالکی غائب ہو گئی۔ حضرت جؒی فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضورﷺ
کی عادت ِ مطہرہ کے خلاف تھا کہ آپﷺ
بوسہ کے لئے کسی کے سامنے پاؤں بڑھائیں۔ اگر مزاجِ اقدسﷺ
سے آگہی نہ ہوتی، جو حدیث اور سیرت کے مطالعہ کے بغیر ممکن ہی نہیں تو شیطان کے
اس وار سے بچنا محال تھا۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپؒ فرمایا کرتے کہ اگر میں
بوسہ دینے کے لئے آگے بڑھتا تو میرا سب کچھ سلب ہو جاتا ۔
منگچر
سے حضرت جؒی رات کوئٹہ واپس آئے اور 13 اگست کی
صبح 5بجے ژوب کے لئے روانہ
ہوگئے۔ ساڑھے چھ گھنٹے سفر کے بعد گاڑی کے دونوں ٹائر پنکچر ہو گئے تو متبادل
انتظام ہونے تک تین گھنٹے قر یب ہی ایک کچے کوٹھے میں شدید گرمی کے عالم میں بغیر
پنکھے کے گزارے۔ اگلے روز کوئٹہ واپسی ہوئی۔ سڑک انتہائی خستہ حالت میں تھی اور یہ
ایک طویل تھکا دینے والا سفر تھا۔
14 اگست کو نوشکی کا دورہ ہوا۔ کوئٹہ سے 15
اگست کو واپسی تھی لیکن پی آئی اے کا ٹکٹ ملا نہ ٹرین کے ایئرکنڈیشنڈ ڈبے میں سیٹ
مل سکی۔ بذریعہ چلتن ایکسپریس فرسٹ کلاس میں ساڑھے دس بجے دن کوئٹہ سے روانگی ہوئی۔
انتہائی گرم موسم میں بلوچستان اور سندھ سے گزرتے ہوئے ایئرکنڈیشن کے بغیر
کمپارٹمنٹ میں تیس گھنٹے سفر کے بعد 16 اگست کو
بوقت عصر لاہور پہنچے۔ یہاں رات کا قیام مسجد نور میں تھا۔ 17
اگست 1981ء کو چکڑالہ واپسی کے
ساتھ یہ دورہ مکمل ہوا۔ خرابیٔ صحت اور اَسی سال کی عمر میں اس طویل دورہ کی تفصیلات
سے حضرت جؒی کی ان تکالیف کا بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے جو آپؒ نے ساتھیوں کی
روحانی تربیت کے لئے مسلسل سفر کرتے ہوئے برداشت کیں۔
مرکزی دارالقراء پشاور
نومبر1981ء میں حضرت جؒی صوبہ سرحد کے دورہ پر آئے تو راستے میں
پنجاب رجمنٹل سنٹر مردان میں دو گھنٹے گزارے اور وہاں کے افسران اور سٹاف کے ساتھ
خصوصی نشست فرمائی۔ اسی دورہ میں آپؒ نے اسٹیشن کمانڈر نوشہرہ بریگیڈیئر افضل
جنجوعہ کی استدعا پر یہاں ہسپتال کی مسجد کا سنگ ِبنیاد رکھا۔ پشاور آئے تو یہاں کے علماء انفرادی ملاقاتوں کے لئے حاضر ہوتے
رہے۔ ان کی استدعا پر آپؒ نے مرکزی دارُالقراء جامع مسجد نمک منڈی میں پشاور کے
علماء کے ساتھ ایک خصوصی نشست بھی فرمائی۔ مسجد میں مذاکرہ کی صورت میں
علماء کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ نماز عصر تا مغرب جاری رہا۔ علم کا ایک سمندر
ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ حضرت جؒی نہ صرف علمی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار فرما رہے
تھے بلکہ اس کی تائید میں مستند کتب کے حوالے بھی دے رہے تھے۔ یہ نشست ختم ہوئی تو
بعد از نماز ِعشاء حضرت امیر المکرم نے محرم الحرام کی نسبت سے واقعہ کربلا کے
حوالہ سے ‘‘پیغام ِشہدائے اسلام’’ کے عنوان پر مسلسل تین گھنٹے خطاب فرمایا۔ طویل
دورانیہ کے اس خطاب میں سامعین ہمہ تن گوش جم کر بیٹھے رہے۔
کوہاٹ میں علماء کے ساتھ نشست
اسی دورہ کے تسلسل میں حضرت جؒی کوہاٹ پہنچے تو آپؒ کی طبیعت
ناساز تھی۔ آپؒ کی قیام گاہ پر مقامی علماء ملاقات کے لئے آئے تو اس وقت آپؒ تکیہ
سے ٹیک لگائے استراحت فرما رہے تھے۔ علماء کو دیکھا تو فرمایا، مجھے چارپائی سے نیچے
بٹھا دو۔ علماء نے اگرچہ اصرار کیا کہ آپؒ چارپائی پر ہی تشریف رکھیں لیکن آپؒ نے
فرمایا:
‘‘علم کا احترام لازم ہے، میں آپ احباب کے
ساتھ زمین پر ہی بیٹھوں گا۔’’
حضرت
جؒی علماء کا بے حد احترام فرماتے۔ آپؒ کے متوسلین میں جید علماء اور مفتی حضرات
بھی تھے، جن میں مفتی غلام صمدانی، مفتی عبدالاوّل (حال بنگلہ دیش)، مفتی شعیب
احمد، مفتی عبدالقدوس، مولوی
محمد اکبر، شیخ الحدیث مولانا عبدالباقی (افغانستان)، مولانا خان محمد (ایرانی)،
مولوی عبدالغفور اور مولانا ریاض احمد اشرفی وغیرہ شامل ہیں۔ ہم نے
اکثر دیکھا کہ علماء اور بالخصوص مفتی غلام صمدانی اور مولوی محمد اکبر جب بھی حاضرخدمت ہوئے تو حضرت
جؒی نے کمال شفقت سے انہیں چارپائی پر اپنے ساتھ جگہ دی۔ کوشش فرماتے کہ آپؒ علماء
کے ساتھ بیٹھیں خواہ اس کے لئے زمین پر ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔
کوہاٹ
میں علماء کی اس محفل میں علالت کے باوجود آپؒ نے زمین پر بیٹھ کر گھنٹہ بھر گفتگو
فرمائی۔ اس دوران پیشاب کی چھینٹوں کی وجہ سے تنگی ٔقبر کے بارے میں مشکوٰة شریف کی
ایک حدیث، روح اور اس کی استعداد، حقیقت ِقبر، علیین، سجین اور کئی دوسرے موضوع زیر
بحث آئے۔
آپؒ کی یہ عالمانہ گفتگو ریکارڈ کر لی گئی جو ‘المرشد’ میں
بھی شائع ہوئی۔ علماء کے ساتھ یہ علمی محفل ختم ہوئی تو کرنل سلطانؒ جنہیں بعد میں
‘‘امام’’ کے نام سے عالمی شہرت ملی، حضرت جؒی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ ان کے رخصت
ہونے پر آپؒ نے فرمایا!
‘‘ آج علی احمد میرے پاس ایک ہیرا لے کر آیا
ہے۔’’
بعد
میں جہاد ِافغانستان کے حوالے سے کرنل امام شہیؒد کے اہم کردار سے مترشح ہے کہ حضرت
جؒی نے کچھ دیکھ کر ہی یہ بات کہی تھی۔
کوہاٹ
میں حضرت جؒی نے 27 نومبر 1981ء کو عسکری مسجد میں خطاب جمعہ فرمایا جبکہ حضرت امیرالمکرم نے مسجد نور میں خطاب فرمایا
اور نماز پڑھائی۔
جنوبی وزیرستان
نومبر 1981ء
کے اس دورہ ٔسرحد میں جنوبی وزیرستان کا دورہ بھی شامل تھا۔ حسب ِپروگرام کوہاٹ
اور کرک میں ایک ایک رات قیام فرمانے کے بعد حضرت جؒی 29 نومبر1981ء کو میرعلی تشریف لائے جبکہ
حضرت امیرالمکرم نے آپؒ کے ایماء پر میرانشاہ کا دورہ کیا۔ حضرت جؒی میر علی کے بازار
سے گزر رہے تھے کہ رش کی وجہ سے گاڑیوں کا قافلہ رک گیا۔ اسی اثنا ءمیں ساتھ والے
ہوٹل سے ایک شخص نے آپؒ کی خدمت میں چائے کی پیالی پیش کی۔ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی
مرمت شدہ پیالی جس کی شرعی کراہت اپنی جگہ، لیکن اس کے ساتھ بازار کی
نحوست واضح تھی۔
پیالی حضرت جؒی کے ہاتھ میں تھی اور ہم حیرت زدہ تھے کہ آپؒ
خوراک کے بارے میں اس قدر محتاط ہیں، یہ چائے کس طرح پئیں گے! حضرت جؒی نے اس شخص
کا دل رکھنے کی خاطر اپنی عادت مبارکہ کے خلاف چند گھونٹ لئے اور
ٹریفک چلنے کے ساتھ ہی شکریہ کے ساتھ پیالی واپس لوٹا دی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے ایک اور شخص نے آپؒ کی خدمت میں دم کرنے کے لئے پانچ روپے کا نوٹ پیش کیا۔ حضرت جؒی نے اس کی خواہش کے مطابق نوٹ پر دم کیا تو اس نے
انتہائی خوشی سے اپنے پرس میں محفوظ کر لیا۔ اظہار ِعقیدت کے اپنے اپنے انداز ہیں
اور اپنی اپنی طلب۔ حضرت جؒی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے لئے
بستی بستی سرگرداں تھے اور کوئی نوٹ دم کرانے پر ہی خوش تھا۔
جنوبی وزیرستان کے دورہ کے بعد حضرت جؒی نے دو روز ڈیرہ اسمٰعیل خان میں قیام فرمایا اور 3دسمبر
1981ء
کو چکڑالہ واپس تشریف لائے۔
خاتمہ بالایمان کی فکر
پشاورمیں سلسلہ ٔنقشبندیہ مجددّیہ کے حکیم صغیر احمد، صاحب
ِنسبت اور صاحب ِکشف بزرگ تھے۔ ان کے ہاں احباب کو جانے کا اتفاق ہوتا تو ہاتھ چوم
لیتے منع کرنے کے باوجود ان کی یہی کوشش ہوتی۔ خوب معلوم تھا کہ یہ اکرام حضرت جؒی
کے ساتھ نسبت کی وجہ سے ہے۔ ایک مرتبہ حضرت جؒی کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے اس خواہش
کا اظہار کیا کہ حضرت جؒی کے آئندہ دورۂ پشاورپر انہیں مطلع کیا جائے۔ آپؒ پشاور
تشریف لائے اور واپس بھی چلے گئے لیکن سہواً حکیم صاحب کو اطلاع نہ کی جا سکی۔ کچھ
ہی عرصہ بعد حکیم صاحب کا وصال ہو گیا تو انتہائی قلق ہوا کہ ان کی خواہش کو پورا کرنے
میں کوتاہی ہو گئی۔حضرت جؒی اسلام آباد آئے تو موقع پا کر حکیم صاحب کا تذکرہ کیا
تاکہ آپؒ کی توجہ سے انہیں رو حانی فائدہ ہو اور اس کوتاہی کا ازالہ ہو سکے۔ حضرت
جؒی نے حکیم صاحب کے بارے میں پوچھا:
‘‘وہ
جو جھک کر کھڑے ہوتے ہیں؟’’
حکیم
صاحب کی ایک ٹانگ میں عارضہ تھا اس لئے سیدھے کھڑے نہ ہو سکتے تھے۔ راقم نے تصدیق
کی تو حضرت جؒی فرمانے لگے:
‘‘بڑی
روشنیاں ہیں، خدا خبر ہمارا کیا ہوگا؟’’
حکیم
صغیر احمد کی قبر میں نورانیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت جؒی نے خاتمہ بالایمان کے
بارے میں جس فکر کا اظہار فرمایا، یہی وہ فکر تھی جو جلیل القدر صحابہ ٔ کرام]
کو بھی آخر دم تک لاحق رہی اور یہی
سوچ آخر وقت تک اہل اللہ کے ہاں نظر آتی ہے۔
1982ء کے اوائل میں حضرت جؒی نے فیصل آباد، کراچی، ملتان
اور لاہور کا دورہ فرمایا۔ آپؒ کے اس دورہ کے دوران حضرت امیرالمکرم نے کراچی میں
پاکستان میرین اکیڈمی میں خطاب فرمایا۔ دورہ کے اختتام پر حضرت جؒی لاہور تشریف
لائے تو ایک رات کا قیام حسب ِمعمول مسجد ِنور میں فرمایا۔ 4 مارچ کو آپؒ منٹوپارک
(اقبال پارک) تشریف لے گئے اور شاہی قلعہ والے غوث حضرت سید علی ہجویریؒ کے مدفن
کے قریب پہنچ کر ان سے روحانی رابطہ کیا اور کلام فرمایا۔
6 مارچ 1982ء کو آپؒ نے جامعہ اشرفیہ
کا دورہ کیا اور یہاں کی لائبریری میں خاصی دیر تک بڑے انہماک سے کتب کا جائزہ لیتے
رہے۔
7 مارچ 1982 ء حضرت
جؒی نے مسجد اقصیٰ (سمن آباد)میں صبح کی تعلیمی مصروفیات دیکھیں جس کے بعد سرگودھا
تشریف لے گئے۔ یہاں ساتھیوں کے ساتھ ایک رات قیام فرمایا اور 8 مارچ کو چکڑالہ روانہ ہوگئے۔ اس پندرہ روزہ دورہ کے اختتام پر
چکڑالہ پہنچے تو ایک ایسی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا جو نہ صرف حضرت جؒی بلکہ احباب
کے لئے بھی انتہائی تکلیف دہ تھی۔
کٹھن آزمائش
محبوب
اولاد جسے خون ِجگر دے کر سینچاگیا ہو، اگرگمراہی کے راستے پر چل پڑے تو یہ والدین
کے لئے کٹھن ترین آزمائش ہوتی ہے جس میں پیغمبر کا دل بھی لرز اٹھتا ہے۔ حضرت نوحu
نے جب اپنے ناخلف بیٹے کو غرقاب ہوتے ہوئے دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھے:
‘‘اللہ! میرے بیٹے کو بچا لے کہ میرے ساتھ میرے
اہل کو بچانے کا بھی وعدہ فرمایا ہے!’’
لیکن جب بتایا گیا کہ یہ ناخلف بیٹا اہل میں شامل ہی نہیں تو
فوراً اپنی دعا سے رجوع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عفوو کرم کی درخواست کی۔
حضرت جؒی کو بھی ایک ایسی ہی آزمائش سے گزرنا پڑا۔9مارچ سے 12 مارچ 1982ء تک یہ آپؒ کا ایک مختلف نوعیت کا چار روزہ سفر تھا۔ آپؒ کا اکلوتا بیٹا عبدالرؤف ایک عرصہ سے دیکھ
رہا تھا کہ چکڑالہ میں شب و روز احباب ِسلسلہ ٔعالیہ کی آمد و رفت رہتی ہے جس میں
مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت جؒی کی حیثیت چکڑالہ کے متمول زمینداروں سے کسی طرح
کم نہ تھی لیکن آپؒ ان کے برعکس فقروفاقہ کی زندگی بسر کر رہے تھے، عالی شان مکان
نہ شان ِامارت۔ اسے یہ فکر دامن گیر تھی کہ حضرت جؒی اپنی زمینوں کی آمدنی کو، جس
کا وہ خود کو اکلوتا وارث سمجھتا تھا،ساتھیوں پر صَرف کر رہے ہیں۔
فروری
1982ء میں اس نے حضرت جؒی کے خلاف میانوالی سیشن جج کی
عدالت میں ایک درخواست دائر کی کہ آپؒ فاترالعقل ہو چکے ہیں اور اپنی جائیداد کو
جماعت (سلسلۂ عالیہ) کے لوگوں پر ضائع کر رہے ہیں جو اس کے مالک بن جائیں گے،
لہٰذا اسے عدالتی طور پر اپنے والد کی جائیداد کا نگران مقرر کیا جائے۔ اس مقدمہ کی
ایک کڑی کے طور پر عبدالرؤف نے 9 مارچ 1982ء کو صبح ساڑھے چھ بجے ساٹھ، ستر افراد کے ہمراہ حضرت
جؒی کے گھر پر دھاوا بول دیا اور انہیں اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گیا تاکہ حضرت جؒی
کی ذہنی صلاحیت کو ادویات کے ذریعے متأثر کرنے کے بعد بطور ثبوت آپؒ کی میڈیکل
رپورٹ عدالت میں پیش کر سکے۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ عبدالرؤف کے لاہور مینٹل
ہسپتال کے چند ڈاکٹروں سے تعلقات تھے جنہیں وہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال
کرنا چاہتا تھا۔ اغوا کے موقع پر حضرت جؒی کی حفاظت کرنے والے افراد کے خلاف طاقت
کا استعمال کیا گیا لیکن جہاں تک آپؒ کی ذات کا تعلق تھا، کسی نے آپؒ کے خلاف کوئی
نازیبا حرکت نہ کی۔ اس موقع پر آپؒ نے اپنے عصا سے عبدالرؤف کو زدوکوب بھی کیا لیکن
اس نے ہاتھ نہ اٹھایا۔ حضرت جؒی کو اغوا کرنے کے بعد ایک نامعلوم مقام تک پہنچادیا
گیا اور عبدالرؤف کے ساتھی گھر پر قابض ہو گئے۔
اس سانحہ کی اطلاع سے احبابِ سلسلہ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔
تلاش کے لئے مختلف پارٹیاں تشکیل دی گئیں۔ جن میں صاحب ِکشف ساتھی مختار احمؒد کی
سرکردگی میں ایک پارٹی صاحب ِکشف حضرات کی بھی تھی۔ دندہ شاہ بلاول سے گزرتے ہوئے
حضرت لال شاہؒ سے، جن کے علاقے میں یہ معاملہ پیش آیا تھا،رابطہ کیاگیا تو فرمایا
کہ آج تمام مشائخ ِبرزخ حضرت جؒی پر سایہ کئے ہوئے ہیں اور چاندنی چوک (میانوالی)
کے علاقہ میں جمع ہیں، میں بھی ادھر جاتا ہوں، مجھ سے ادھر رابطہ کریں۔
مقامی پولیس نے ابتدا میں مخالفانہ رویہ اختیار کیا لیکن حضرت
جؒی کی بین الاقوامی شخصیت کی وجہ سے جب ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور افسران
بالا کی طرف سے غیر معمولی دباؤ پڑا تو آپؒ کی بازیابی کے لئے بھرپور کوشش کی گئی۔
12مارچ
کو صاحب ِکشف حضرات چاندنی چوک کے نواح میں ایک ڈیرہ تک پہنچے جہاں آپؒ کو دو روز
قبل رکھا گیا تھا۔یہاں سے صحرا کے اندر جانے کا اشارہ ملا۔ کافی دور جا کر نماز
عصر کے قریب ایک احاطہ نظر آیا جس کے اندر داخل ہوئے تو حضرت جؒی وضو فرماتے ہوئے
نظر آئے۔ اس وقت آپؒ دائیں پاؤں کو دھو چکے تھے۔ بایاں پاؤں مختار صاحؒب نے دھلوایا۔
حضرت جؒی نے وضو مکمل کرنے کے بعد خاتون ِخانہ سے کہا، وڈھکی، اللہ دے حوالے۔ آپؒ
اس روز صبح کے وقت ہی بتا چکے تھے کہ آج میرے شاگرد پہنچ جائیں گے۔حضرت
جؒی سے بعدمیں معلوم ہوا کہ آپؒ پر جو پہریدار مقرر کئے گئے تھے، انہوں نے آپؒ کے
آرام کا خاص خیال رکھا، یہاں تک کہ وضو بھی خود کراتے تھے۔
عبدالرؤف نے میانوالی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں جائیداد
کے نگران مقرر کئے جانے کے لئے جو مقدمہ کیا ہوا تھا، اس میں 25 اکتوبر 1982ء
کو حضرت جؒی کا بیان ہوا۔ حضرت جؒی کی عدالت میں تشریف آوری پر میانوالی کی ضلعی
عدالتوں کا کام رک گیا۔ جج صاحبان، عدالتی عملہ اور وکلاء کی بڑی تعداد کمرۂ
عدالت میں جمع ہو گئی۔ کمرے میں جگہ نہ رہی تو لوگوں نے دروازے کے سامنے باہر کھڑے
ہو کر آپؒ کی مدلّل علمی گفتگو سنی۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ جج نے حضرت جؒی سے مخاطب ہو
کر کہا کہ عدالتی کارروائی تو اپنی جگہ لیکن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپؒ سے ایک
اہم قانونی اِشکال میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں، قرآن میں زنا کی سزا تو 100 کوڑے ہیں لیکن شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا کے پیچھے کیا
سند ہے؟ حضرت جؒی نے رجم کی سزا پر سیر حاصل دلائل دینے کے بعد فرمایا، تعامل ِامت
یعنی وہ فعل جس پر آقائے نامدارﷺ کے بعد امت میں مسلسل عمل ہوا،
یہ بھی ایک مآخذ قانون ہے۔ حضرت جؒی کے اس محققانہ بیان کی بنیاد پر ڈسٹرکٹ اینڈ
سیشن جج نے یہ مقدمہ 26 اکتوبر 1982ء
کو خارج کر دیا۔
حضرت
جؒی کا اغوا ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ 9 مارچ سے
12 مارچ تک کا عرصہ احباب سلسلۂ عالیہ کے لئے قیامت سے کم نہ تھا۔ حضرت
جؒی تین دن تک محصور رہے، گھر پر قبضہ ہو گیا اور اہل ِخانہ دربدر ہوئے لیکن آپؒ
نے اگلے ہی ماہ پھر سے اپنے سفرمسلسل کا آغازکر دیا۔
گلگت بائی روڈ
حضرت
جؒی 13 اپریل 1982ء کو گلگت کے دورہ کے لئے اسلام آباد پہنچے۔ اس سے
قبل گلگت کے ساتھیوں کے پرزور اصرار پر 1980ء اور 1981ء میں بھی حضرت جؒی کا دورہ ترتیب دیا گیا تھا لیکن
خرابی ٔ موسم کی بنا پر فلائٹ نہ جا سکی اور گلگت کی بجائے آپؒ کا دورہ ایبٹ آباد،
مانسہرہ اور سم الٰہی منگ تک محدود رہا۔ 15اپریل 1982ء کو گلگت کے لئے فلائٹ روانہ ہوئی لیکن حضرت جؒی نے
شریک سفر حاجی عبداللہ سے فرمایا کہ چل تو پڑے ہیں لیکن پہنچیں گے نہیں۔ یہی ہوا،
فلائٹ گلگت وادی میں مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے واپس لوٹ آئی۔ آپؒ اگلے روز بھی ایئرپورٹ
گئے لیکن فلائٹ نہ جاسکی۔ اس طرح راولپنڈی میں چھ دن گزارنے کے بعد حضرت جؒی
چکڑالہ واپس لوٹ گئے۔
حضرت جؒی نے جب دیکھا کہ مسلسل تین سال سے گلگت کا دورہ
ملتوی ہو رہا ہے اور ادھر گلگت کے ساتھیوں کی بے تابی بھی روزافزوں ہے تو گاڑی کے
ذریعے گلگت کے سفر کے لئے تیار ہو گئے، اگرچہ صحت اور عمر اس طویل سفر کی متحمل نہ
تھی۔ آپؒ 14مئی
1982ء
کو چکڑالہ سے روانہ ہوئے اور پہلی رات اٹک میں قیام فرمایا۔ اگلے روز ایبٹ آباد
پہنچے تو سابقہ وزیر زراعت صوبہ سرحد محمد ہارون بادشاہ بمعہ چند دیگر احباب
استقبال کے لئے حاضر ہوئے کیونکہ ان کا گاؤں سم الٰہی منگ آپؒ کی اگلی منزل تھی۔ ظہر کے بعد علماء اور
ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد حاضر خدمت ہوئی اور ایک طویل نشست میں آپؒ نے علماء کے
علمی اشکال دور فرمائے۔ سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کے بارے میں بات چلی تو فرمانے
لگے:
‘‘دس بارہ روز قبل راولپنڈی میں ایک جنرل صاحب نے مجھ سے
استفسار کیا کہ سلسلۂ اویسیہ تو روحانی ہے جس میں ظاہری بیعت نہیں لیتے لیکن آپ
اس سلسلہ میں ہونے کے باوجود ظاہری بیعت بھی لیتے ہیں؟ میں نے انہیں بتایا کہ
سلسلہ اویسیہ روحانی ہے۔ اس میں روح سے فیض لیا بھی جاتا ہے اور روح کو فیضیاب کیا
بھی جاتا ہے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے کہ پہلے روح سے تعلق اور رابطہ ہو۔ یہ رابطہ
کوئی زندہ صاحب حال و کمال، کشف و کلام کا ماہر جو سلوک کے منازل میں کم از کم ‘فنا
فی اللہ’ اور ‘بقا باللہ’ تک ہو، وہی پہلے لطائف و مراقبات کے بعد کسی کو برزخ تک
پہنچا کر کسی بزرگ سے تعلق و رابطہ کرا سکتا ہے۔ ہمارے اور برزخ کے درمیان ہزارہا
حجابات حائل ہیں گویا اس ربط کے بغیر کسی
فوت شدہ بزرگ سے فیض حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ میں نقشبندی سلسلہ سے تعلق رکھتا ہوں،
اویسی اس کی شاخ ہے۔ ظاہری بیعت اب اس لئے لیتا ہوں کہ تجربہ میں آیا ہے کہ تعلق و
نسبت سے کم از کم عقائد و اعمال درست ہو جاتے ہیں۔ روحانی فیض کی تو سب میں اہلیت
نہیں، میں بھی پہلے ظاہری بیعت نہیں لیتا تھا بلکہ منازل سلوک طے کروا کر نبی اکرمﷺ، حضرات صدیق اکبر و سیدنا علی
المرتضیٰy کے ہاتھ پر روحانی طور پر بیعت کرواتا تھا۔ اب
چونکہ عوام الناس میں اس کی اہلیت نہیں، ہاں کوئی ایسا قابل ہو تو اس کو اب بھی
کرواتا ہوں۔ پہلے صوفیاء کم ہی کسی کو یہاں تک پہنچاتے تھے، یا تو خود تخلیہ میں
رہتے یا زیادہ سے زیادہ کسی کو قلب پر انگلی رکھ کر اللہ اللہ کرنے کو کہہ دیتے
تھے۔’’
عالم برزخ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘عالم برزخ اور ہمارے درمیان ہزارہا حجابات ہیں۔ موت کے
فوراً بعد عالم برزخ شروع ہو جاتا ہے، گو میت چارپائی پر ہے لیکن عالم برزخ میں ہے،
قبر پر تھوڑی مٹی کے نیچے کا فاصلہ نہیں بلکہ برزخ کے ہزارہا حجابات ہیں۔ برزخ ایسا
پردہ ہے جو وہاں سے پہنچ جانے والوں کو واپس نہیں آنے دیتا۔ کسی زندہ انسان کی
رسائی وہاں تک آسان نہیں، برزخ کا رخ قیامت کی طرف اور پشت ہماری طرف ہے۔ برزخ میں
پہنچا ہوا شخص خود تو ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں،
ہاں کوئی زندہ شخص اس کے درجات کی بلندی و ترقی کا موجب بن سکتا ہے۔ اعمال و صدقات
کا ثواب ان کو بخشیں تو انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔ دنیا کا سارا حساب تو میدان حشر میں
ہوگا، پل صراط کے بعد پھر دارالقرار ہے۔’’
دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘یہ وطن ہمارا نہیں، ہم چند روز کے لئے بطور
مسافر آئے ہیں۔ آخرت کے لئے زادِ سفر تیار کرنے کا اب وقت ہے، دنیا کا حصول ہی اصل
مقصد نہیں ہے۔ موت کے وقت دنیا کی زندگی خواب کی طرح محسوس ہوگی۔ روئے زمین پر
بسنے والے سب سے طویل العمر حضرت نوحu تھے،یہ ان کا معجزہ اپنی ذات کے بارے تھا، دانت گرے نہ نظر کمزور
ہوئی، بال سفید ہوئے نہ پاؤں وغیرہ اعضاء میں کمزوری ہوئی۔ کانوں کی شنوائی بالکل
درست تھی۔ جب ان کی روح قبض ہوئی تو فرشتے نے ان سے پوچھا: اے لمبی عمر پانے والے
نبی(u) آپ نے دنیا کو کیسا پایا؟ جواب میں فرمایا،
دنیا کے دو دروازے ہی دیکھے، ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے نکل گیا۔ حضرت نوحu کی قبر منیٰ میں ہے۔ طوفانِ نوح(u) کے بعد بیت اللہ کی تعمیر کے لئے یہاں آئے
لیکن نصیب نہ ہوا۔’’
ایک صاحب نے سوال کیا، مستشرقین حضرت نوحu کی
عمر تسلیم نہیں کرتے۔ آپؒ نے جواب میں فرمایا:
‘‘
مستشرقین سے پوچھا جائے کہ حضرت عیسیٰu کی عمر کتنی تھی؟ یہ تو سب کچھ عقل کی کسوٹی سے ناپتے ہیں،
حالانکہ عقل ان سب چیزوں سے عاجز ہے۔’’
سرسید
نے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو خط لکھا، یہ صحابہ] بڑے کملے تھے، کبھی انہوں نے
پوچھا نہیں کہ یہ کام کیوں کرنا ہے اور کیسے؟ انہوں نے جواب دیا،
پیغمبر
آسمانی کتاب اور عقل و حکمت لے کر آتا ہے۔ صحابہ] کامل ایمان تھے، تیرے اور میرے
جیسے نہ تھے کہ وہ کیوں اور کیسے پیغمبرﷺ سے پوچھتے اور تب اتباع کرتے۔’’
آخرت کے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘برزخ میں جس قدر لوگ عذاب میں ہیں، زیادہ تر معاملات کی
وجہ سے ہیں۔ مسلمانوں نے معاملات کو دین کا جزو ہی سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ خرید و
فروخت، آپس کا لین دین سب معاملات ہیں۔’’
سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘اس
کے دو رکن ہیں۔ یہ کمرہ چار دیواروں اور چھت سے مرکب ہے، اگر چھت اتار لیں تو یہ
کھولا (کھنڈر) رہ جائے اور اگر ایک دیوار گرا دیں تو برآمدہ۔
سلوک
کے دو رکن، پہلا شریعت آقائے نامدارﷺ، جو کام
کیا جائے حضورﷺ سے پوچھ کر کہ حضورﷺ کا اس بارے میں کیا فرمان ہے۔ حضورﷺ
کی مخالفت کر کے کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ ہم کمزور ہیں، غلطی ہو سکتی ہے
لیکن کبھی ارادتاً غلطی نہیں کریں گے۔ تمام کمالات کے دروازے اب بند ہو چکے ہیں
سوائے
اتباعِ محمدیﷺ کے۔ حضورﷺ
کی اتباع سے کوئی مستثنیٰ نہیں، یہ جہلاء کا مقولہ ہے کہ شریعت اور چیز اور
طریقت اور چیز۔
شریعت
تین چیزوں سے مرکب ہے، عقائد، اعمال اور خلوص۔ شریعت کو ایک درخت تصور کریں تو
عقائد اس کی جڑیں، اعمال اس کا تنا اور شاخیں ہیں اور اس پہ لگنے والے پھل کو خلوص
کہتے ہیں جس کے حصول کانام تصوف ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فرمایا: شیخ سے عقیدت اور قلبی اُنس
ضروری ہے۔ دل میں ذرا سی کدورت آئی تو فیض رکنے لگتا ہے اور شریعت میں خلل سے ایمان
کمزور ہو جاتا ہے۔’’
درود شریف کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘کسی ولی اللہ پر قرض زیادہ ہوگیا، قرض خواہ نے مقدمہ کر دیا
لیکن اس کے پاس تو ادائیگی کے لئے کچھ نہ
تھا۔ رات مراقبۂ فنافی الرسولﷺ میں حضورﷺ سے اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا۔
آقاﷺ نے فرمایا:
عراق کے فلاں وزیر کو کہو، وہ قرض چکانے کو رقم دے دے گا۔ عرض کیا، حضورﷺ! یہ کیسے ممکن ہے جب تک
کوئی نشانی نہ ہو، وہ اعتبار کیسے کرے گا! فرمایااس کو میرا سلام کہنا اور بتانا
کہ روزانہ جو تمہارا درود کا تحفہ مجھے پہنچتا ہے، فلاں روز نہیں پہنچا، یہی نشانی
ہے۔
وہ شخص گیا، نبی کریمﷺ کا سلام کہا اور قرض کا واقعہ بیان کیا۔
وزیر رونے لگا اور اس نے بتایا کہ روزانہ صبح میں ایک ہزار مرتبہ درود پڑھتا ہوں،
اس روز کچھ حکومتی کاموں کی وجہ سے چھوٹ گیا اور فرصت نہ ملی۔ گھر سے رقم لا کر
قرض اور خرچ کے لئے دی اور کہا، آئندہ جب بھی ضرورت درپیش ہو مجھے مطلع کرنا۔ اگلی
تاریخ پیشی پر جب اس مردِ خدانے ادائیگی کے لئے رقم نکال کر رکھی تو قاضی نے کہا،
چند روز قبل تو تم افلاس کا ذکر کرتے تھے، آج بھلا یہ رقم کہاں سے آئی۔ اس نے سارا
واقعہ کہہ سنایا۔ قاضی نے رقم لوٹا دی اور کہا یہ قرض میں ادا کرتا ہوں لیکن مدعی
نے کہا، میں تو اب معاف ہی کرتا ہوں۔
درود شریف کی کثرت سے حوادث و مصائب کم ہوجاتے ہیں اور رزق و اولاد میں برکت ہوتی ہے۔ اِلا ماشاء اللہ اور میدانِ
حشر میں قربِ رسول خداﷺ نصیب ہوتا ہے۔
سید
الانبیاءﷺ کی خدمت میں درود پیش ہونے کی کیفیت کا ذکر فرمایا کہ اس کی تین حالتیں
ہیں، (الف) تازہ کھلا ہوا پھول،(ب) دو تین روز کا ٹوٹا ہوا پھول (ج) مسخ شدہ کلیوں
کی صورت میں، یہ فرق محض پڑھنے والے کی طرف سے محبت و خلوص کا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کے بارے میں فرمایا:
‘‘حضرت امام احمد بن حنبلؒ صدیق ہوئے ہیں۔ خلق قرآن کے
مسئلے پر بہت تکالیف برداشت کیں۔ انہیں خواب میں اللہ کا دیدار نصیب ہوتا تھا۔ ایک
مرتبہ رب کریم سے پوچھا، قبر کے عذاب سے بچنے کے لئے کیا وظیفہ ہے؟ جواب ملا قراءۃ القرآن من فہم او من غیر فہم (قرآن،
خواہ سمجھ کے پڑھے یا بغیر سمجھے) آخری نجات کے لئے یہ موثر ذریعہ ہے۔’’
بیعت ہونے والے احباب سے فرمایا:
‘‘سورة
الملک مغرب سے سونے کے درمیان ایک دفعہ پڑھ لیا کریں، رات سوتے وقت دس مرتبہ لَآاِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہ، دس دفعہ سُبْحَانَ
اللّٰہ، دس دفعہ الْحَمْدُ لِلّٰه، سورة اخلاص تین دفعہ پڑھ لیا کریں، سورة
الکافرون چار مرتبہ پڑھنے سے اور سورة اخلاص تین مرتبہ پڑھ لینے سے پورے قرآن مجید
کا ثواب ملتا ہے، نماز کی پابندی، تہجد، اوابین یعنی رات دن میں فرائض و سنن کو
ملا کر پچاس رکعت پوری کر لینی چاہیئے۔،،
عذاب قبر کے متعلق فرمایا:
‘‘اس
کا ملاحظہ یوں ہوا کہ عذاب پہلے سر کی طرف سے آتا ہے اور یہ حساب و کتاب کے فوراً
بعد شروع ہو جاتا ہے۔ سر کی طرف سے قرآن مجید، دائیں طرف سے نماز، بائیں طرف سے حج
یا صدقات عذاب کو روکتے ہیں۔
اِستِغْفار
کی مثال جھاڑو کی سی ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ سے کسی نے پوچھا، درُود پڑھوں یا اِستِغْفار؟
فرمایا درُود عطر ہے اور اِستِغْفار جھاڑو۔ صفائی نہ ہو تو عطر بے کار ہے لہٰذا
دونوں عمل ضروری ہیں۔
اسسٹنٹ
کمشنر یار محمد نے سوال کیا:
کسی شخص نے آپ کو والد کے عذاب کے بارے
میں لکھا تھا،
آپؒ نے جواب دیا کہ تخفیف
ہو گئی۔ یہ علم کس ذریعہ سے ہوا؟
جواب میں فرمایا:
’’یہ نورِ نبوت سے پتا
چلتا ہے۔ سلوک میں عام طور پر یہ علم حاصل ہو جاتا ہے لیکن نہ یہ مقصد ہے اور نہ
قرب کی دلیل و ذریعہ، لطائف منور ہوجاتے ہیں تو یہ محسوس ہونے لگتا ہے فَاِنَّمَا
لاَتَعْمَی الْاَبْصَار وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِی فِی الصُّدُور۔
حضرت نوحu کی قوم کو فرمایا: اِنَّھُمْ کَانُوا
قَوماً عَمِیْن۔
کافروں کو صُمٌّ بُكْمٌ فرمایا
حالانکہ وہ حواس رکھتے تھے لیکن دل کے اندھے تھے۔ حدیث میں کتنے واقعات موجود ہیں۔
ملّاعلی قاریؒ لکھتے ہیں، حضورﷺ نے معراج میں فرشتے دیکھے حالانکہ ان کا لباس و
کلام لطیف ہے، کان ان کی بات نہیں سن سکتے
لیکن وہ ہماری کلام سنتے ہیں۔ راستے میں حضورﷺ کی انبیاء سے ملاقات ہوئی۔
بخاری و مسلم میں روایت ہے، بیت المقدس میں اذان و جماعت ہوئی۔ قیامت کا مسئلہ پیش
ہوا۔ حضرت آدمu سے ملاقات ہوئی۔ آپﷺ نے سلام کیا، جواب میں حضرت آدمu نے فرمایا: ‘میرے بیٹے خوش آمدید’۔ حضرت
ابراہیمu کا امت محمدیہﷺ کے لئے سلام کہنا اور یہ کہنا
کہ جنت چٹیل میدان ہے۔
لہٰذا
یہ بھی علم نبوت میں سے ہے۔ کوئی تو ایسا بھی ہو جو اس علم کا حامل و ماہر ہو۔ اس
فن کے لوگ دراصل نابود ہو چکے ہیں اس لئے آج اس کا انکار ہے، جیسے پرانا کفر، اسلام اور پرانا اسلام، کفر بن جاتا ہے۔ اسی طرح
آج ہم پر تنقید ہوتی ہے۔‘‘
مولانا
محمد ایوب اخوندزادہ ناظم مدرسہ عزیزیہ کاکول نے پوچھا، مدارج النبوة میں حدیث درج
ہے، انا مدینة العلم و ابوبکر اساسھاو عمر جدارھا و عثمان سقفہا وعلی بابھا۔
ابوبکر بنیاد، عمر دیوار،
عثمان چھت اور علی اس کا دروازہ ہیں ]
لیکن صرف ’’انا
مدینة العلم و علی بابھا ‘‘
ہی مشہور ہے۔آپؒ نے جواب میں فرمایا:
‘‘ہمارے لئے مستند کتاب
اللہ، پھر بخاری و مسلم اور اس کے بعد ابوداؤد، ترمذی و نسائی، یہ جامع اصول ہیں۔ اکثر
مصنفین نے سب کی روایات کو جمع تو کیا کہ پھر چھانٹ لیں گے، اصل سے نقل جدا ہو
جائے گی لیکن اللہ ان پر رحم فرمائے، یہ انہیں موقعہ نہ ملا۔
اس کے بعد چوتھے درجے میں رافضی، خارجی، معتزلہ ہر قسم کے
لوگ مصنفین میں شامل ہیں۔ حضرت علیt کے بارے میں جتنی روایات بنائی گئی ہیں، اللہ ان سے پناہ ہی دے۔ نوراللہ
شوستری جس کو ایران سے ملکہ نورجہاں نے بلوایا تھا اور اکبرآباد میں قاضی القضاة رہا، اس نے مصائب
النواصب اور احقاق الحق یہاں لکھی ہیں۔ بعد میں اس کو قتل کر دیا گیا۔
میں نے ہر مذہب کی کتاب کا مطالعہ کیا ہے، گرومکھی کو بھی
اردو کی طرح سمجھتا ہوں۔ ہر مذہب کے بانی کو غلطی لگی لیکن شیعہ مذہب کی بنیاد
عداوت اسلام پر ہے۔ ان کا اصول ہے جو مسئلہ کتابوں میں نہ ملے اہل سنت کے خلاف عمل
کرو، بس یہی حق ہے۔ عارفین باللہ ہمیشہ ان کے خلاف لگے رہے ہیں۔ مرزا مظہر جانِ جاناںؒ
انہی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ شاہ ولی اللہؒ کی ‘‘ازالۃ الخفاء’’ لکھنے کے بعد دہلی کا گورنر جو شیعہ تھا، اس نے
انگلیاں کٹوا دیں، مکانات تک ضبط کر لئے اور انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ شاہ عبدالعزیؒز
کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں، آخر انہیں بھی جلاوطن کر دیا گیا۔ امام ربانی
مجدد الف ثانیؒ نے ان کے مقابل بڑا کام کیا، جیلوں میں بند رہے، مصائب برداشت کئے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے دور میں ان کے خلاف کافی کوشش کی اور ان کی روک
تھام کی۔
مرزائیوں سے تو ہمارا اختلاف دو چیزوں میں ہے، حیات مسیح اور
اجرائے نبوت ورنہ بقایا مسائل میں
وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ مرزا نے خود لکھا ہے جب کوئی مسئلہ مجھ سے نہ ملے تو فقہ حنفی
سے مسائل دیکھ لیا کرو۔ اس نے آقائے نامدارﷺ کا ختم نبوت کا تاج اتارنا چاہااور
یہ اصولی مسئلہ ہے۔ صحابہ] نے کسی داعی نبوت سے دلائل طلب
نہیں کئے۔ اسود عنسی، سباح، مسیلمہ کذّاب کسی سے نبوت کی دلیل طلب نہیں کی کیونکہ
مدعی نبوت سے دلیل طلب کرناگویا ختم نبوت میں شک کرنا ہے۔ شیعہ
کا ہم سے ہر مسئلہ میں ہی اختلاف ہے، پیدائش سے جنت دوزخ جانے تک۔
آخر میں فرمایا:
‘‘حضورﷺ
سے علومِ نبوت اور نورِ نبوت دونوں چیزیں چلی آرہی ہیں۔ علومِ نبوت حدیث و قرآن تو سکھ، یہودی، قادیانی
بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن نورِ نبوت صرف مومن کو حاصل ہے، حتیٰ کہ گنہگار و بدکار
مومن بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ چیزوں کی حقیقت تو صرف نورِ نبوت سے حاصل ہوتی ہے لہٰذا
اس کا حصول ضروری ہے۔
برزخ سامنے دکھائی دیتا ہے۔ راستہ لمبا اور معاملہ دشوار ہے۔
اقارب اور رشتہ دار تو مُردے کو نہیں اپنے فائدے کو روتے ہیں۔ تن تنہا حساب و کتاب
ہونے والا ہے، آباؤاجداد کی قبور تک کا ہمیں اب علم نہیں۔ حساب ہمارا ہوگا، خصوصاً
آخر عمر میں اللہ کی طرف متوجہ رہیں۔ جوان سب کام کریں، ڈیوٹی ٹھیک کریں، سب چیزیں
ٹھیک کریں، بیوی بچے غرضیکہ ہر کام کریں لیکن خدا کو نہ بھولیں۔ مولانا رومؒ
فرماتے ہیں:
چیست دنیا از خدا غافل
بدن
نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
دنیا
ہر وہ چیز ہے جو خدا سے غافل کرے۔ بیوی بچے دنیا کے مال و دولت خدا سے غافل کریں
تو دنیا ورنہ نہیں۔
قرآن مجید کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اعظم السور سورة الاخلاص، اعظم الآیات، آیة الکرسی
من
آیت اللہ
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُO وَمَنْ
يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُO
16 مئی کو
سات بجے صبح حضرت جؒی کا قافلہ سم الٰہی منگ روانہ ہوا۔ بفہ میں آپؒ کا زبردست استقبال ہوا اور وہاں سے جلوس کی
صورت آپؒ سم الٰہی منگ (ضلع مانسہرہ) پہنچے۔ یہاں دوران ِقیام 156 مردوں نے بیعت کی جبکہ 42 خواتین حلقہ ٔارادت میں داخل ہوئیں۔
حضرت
جؒی کا یہ سفر کشمیر اور سوات کے مابین تھا جس کی نسبت سے حضرت غوث سیّد نذیر علی
شاہؒ (کشمیر والے) اور حضرت غوث گل بادشاہؒ (سوات والے) روحانی طور پر آپؒ کی
مصاحبت فرما رہے تھے۔ ان جلیل القدر ہستیوں کے ہمراہ حضرت غوث سیّد نذیر علی شاہؒ
کے ایک شاگرد بھی تھے جو منصب کے لحاظ سے اپنے وقت کے قطب ِمدار تھے۔ حضرت جؒی کے ہر
سفر میں برزخ کی متعدد جلیل القدر ہستیوں کی روحانی معیت آپؒ کے پروٹوکول کا حصہ
ہوا کرتی۔
17مئی
کو سم الٰہی منگ سے صبح چھ بجے روانگی ہوئی۔ کوہستان کے صدر مقام داسو پہنچے تو یہاں
ساتھیوں کے ساتھ کچھ دیر ٹھہرے۔ رات کا قیام احباب ِسلسلۂ عالیہ کے ساتھ جگلوٹ میں
فرمایا اور اگلے روز سہ پہر گلگت آمد ہوئی۔ یہ ایک تھکا دینے والا سفر تھا جس نے حضرت
جؒی کی صحت کو متأثر کیا اور بخار کی شکایت ہوگئی۔ تاہم معمول کے مطابق احباب سے
ملاقاتوں اور ذکر و فکر کا سلسلہ جاری رہا۔ 21 مئی کو حضرت جؒی نے گلگت کی جامع مسجد میں
جمعہ کا خطاب فرمایا۔ ماہِ رجب اور معراج النبیﷺ کی مناسبت سے آپؒ نے سورة
بنی اسرائیل کی آیت سُبْحَانَ الَّذِيْ.....
سے تقریر کا آغاز کیا۔ اگرچہ مرکزی موضوع واقعہ معراج النبیﷺ تھا لیکن اس آیت کی
رو سے آپؒ نے مسئلہ حیات النبیﷺ ثابت کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح آقائے
نامدارﷺ کا یہ سفر روحِ مقدسہ اور بدنِ
مطہرہ کے ساتھ تھا، اسی طرح حضورﷺ کی
اقتداء میں انبیاءi نے بھی ارواح مع ابدان مبارکہ نماز ادا کی۔
حضرت جؒی نے گلگت کے دونوں دوروں میں مسئلہ حیات النبیﷺ
کو بالخصوص موضوع بنایا۔ علماء سے نشست کے دوران بھی زیادہ تر اسی موضوع پر بات
ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے میں ان علماء کا زیادہ اثر تھا جو مسئلہ حیاتُ
النبیﷺ کے انکار میں متشدد تھے لیکن اس کے باوجود کسی نے حضرت جؒی کے دلائل کے
مقابل زبان کھولنے کی جرأت نہ کی۔
پروگرام کے مطابق حضرت جؒی کی واپسی 23مئی کو بذریعہ پی آئی اے تھی لیکن
موسم خراب ہونے کی وجہ سے جہاز گلگت میں لینڈ کئے بغیر واپس لوٹ گیا۔ اس غیر یقینی
صورت حال کو دیکھتے ہوئے آپؒ بذریعہ گاڑی گلگت سے روانہ ہوئے اور ساڑھے آٹھ گھنٹے
کے مسلسل سفر کے بعد رات گئے ایبٹ آباد پہنچے۔ یہاں کچھ دیر سستانے کے بعد سفر
دوبارہ شروع ہوا اور رات 2 بجے اسلام آباد آمد ہوئی۔ 600 کلومیٹر کا یہ دشوار گزار
سفر، اس پر مستزاد پیرانہ سالی اور گرتی ہوئی صحت لیکن مقصد کے ساتھ والہانہ لگن
کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکی۔
پشاور سے اسلام آباد کے ایک سفر کے دوران حضرت جؒی کے ہمراہ
حافظ عبدالرزاقؒ شریک سفر تھے جو اوائل عمر میں حضرت پیر مہر علی شاہؒ سے بیعت
ہوئے تھے۔ گولڑہ کے پاس سے گزرے تو حافظ صاحؒب نے عرض کیا کہ سامنے میرے شیخ ہیں۔ حضرت
جؒی نے کہا، دیکھو ان کا کون سا مقام ہے۔ مختار صاحبؒ نے، جو اسی گاڑی میں تھے عرض
کیا، سیر ِکعبہ تک محسوس ہوتا ہے۔ آپؒ نے مسجدِ نبویﷺ تک پہنچا کر ارشاد فرمایا،
ان کی یہ خواہش تھی، اب یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ خیال کیا تو وہ مسجد نبویﷺ میں بیٹھے
ہوئے تھے۔
ایک
مرتبہ حضرت جؒی اٹک سے اسلام آباد آرہے تھے کہ راستے میں حسن ابدال کے قریب کچھ
لوگ نظر آئے جو ڈالیاں اٹھائے ننگے پاؤں، ڈھول کی تھاپ پر اسلام آباد کی طرف رقص
کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ یہ ڈالیاں ایک مشہور عرس کے لئے لے جائی جار ہی تھیں۔ حضرت
جؒی نے تعجب سے دیکھا تو عرض کیا گیا، حضرت! یہ تصوّف ہے۔ حضرت جؒی اس پر بہت
محظوظ ہوئے۔
بلوچستان کا آخری دورہ
مئی 1982ء
میں گلگت کے انتہائی دشوار گزار بائی روڈ سفر کے صرف دو ہفتے بعد 11جون
کو حضرت جؒی نے دورۂ بلوچستان کا آغاز فرمایا۔ آپؒ 13 جون کوکوئٹہ پہنچے اور حسب ِسابق ریلوے
کالونی کوئٹہ کی مسجد میں قیام فرمایا۔ 14 جون سے 17 جون تک آپؒ نے نوشکی، مستونگ اور منگچر کا
دورہ فرمایا۔
نوشکی سے قبل راستہ انتہائی خراب تھا ۔ سفر جیپ کا تھا، ایک
دو مقامات پر سخت جھٹکے لگے تو آپؒ نے فرمایا! ‘‘عبدالرؤف ہی میرا دشمن نہیں، تم
لوگ بھی میری جان کے دشمن ہو۔’’ بہت دیر تک خاموشی طاری رہی۔ آخر کسی نے جنرل ضیاء
الحق کا ذکر چھیڑا تو آپؒ نے فرمایا ‘‘میانی گاں، نہ ہوں نہ ہاں’’ (انتہائی شریف آدمی، نہ ہاں میں نہ ناں میں)۔ کسی نے کہا کہ اس کے بدلے کوئی اور
آدمی نہیں آسکتا تو آپؒ نے فرمایا: ‘‘حضرت سلطان الہندؒ سے عرض کریں۔’’ ان سے کلام
ہوا تو کہنے لگے، حضرت جؒی سے کہو درمیان سے ہٹ جائیں تو ہم دُعا کرتے ہیں۔ آپؒ نے
فرمایا: پھر کوئی دوسرا آدمی بتاؤ۔ اس پر ساتھی خاموش رہے۔
اس دورہ میں سلسلہ ٔقادریہ کے اپنے زمانہ کے ایک قطب روحانی
طور پر گاڑی کے ساتھ چلتے رہے۔ منگچر سے
روانہ ہوئے تو برزخ سے ایک ولی اللہ نے حضرت جؒی کو متوجہ کیا جن کے اسباق چوتھے
عرش تک تھے۔ آپؒ نے انہیں ساتویں عرش تک اسباقِ سلوک طے کرادیئے۔ حضرت
جؒی کی معیت میں شریکِ سفر سلسلہ قادریہ کے قطب نے یہ عطا دیکھ کر ترقیٔ منازل
کے لئے درخواست کی تو آپؒ نے انہیں
پانچویں عرش سے مقام خلہ تک پہنچایا۔ نویں عرش سے حضرت معین الدین چشتیؒ اور حضرت مجدّد الف ثانیؒ کو بھی ساتھ لے لیا۔ پھر بھیرہ والے غوث سیّد
عبدالہادی شاہؒ کو ساتھ لیا اور مقام خلہ تک پہنچایا۔یہ سفر بھی کیا خوب تھا۔ اہل
ِبرزخ کو بھرپور توجہ مل رہی تھی۔ پھر گوادر کی جانب سے اللہ تعالیٰ کے ایک بندے
نے متوجہ کیا تو حضرت جؒی نے انہیں بھی تیسرے عرش تک سلوک طے کرایا۔ یہ دورہ آٹھ
روز بعد 19 جون 1982 ء کو لاہور واپسی اور چکڑالہ مراجعت بخیر کے ساتھ اختتام کو
پہنچا۔
حضرت عیسیٰu کے حقیقی وارث
1982ء میں حضرت جؒی نے پشاور کا آخری
دورہ فرمایا۔ اس موقع پر آپؒ نے وہاں کی مشہور مسجد درویش میں خطاب ِجمعہ کے دوران
مسئلہ حیاتُ النبیﷺ پر پُرزور دلائل دیئے۔اس مسجد کے ساتھ پشاور صدر کا بڑا گرجا
بھی ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اس کی عمارت پر نگاہ پڑی تو آپؒ نے اپنے خطاب کا
آغاز مغرب کے مشہور عیسائی مناظر پادری فنڈر کے تذکرہ سے فرمایا جسے خصوصی طور پر
برصغیر میں بھجوایا گیا تھا تاکہ عیسائیت پھیلائی جا سکے۔ اُسے حضرت حاجی امداد
اللہ مہاجر مکیؒ کے ایماء پر چیلنج کیا گیا تھا کہ وہ خود کو حضرت عیسیٰu کا حقیقی وارث ثابت کرے اور عملی ثبوت کے طور پر مردہ کو زندہ کر کے
دکھائے جو حضرت عیسیٰu کا معجزہ تھا اور بطور کرامت حقیقی وارث سے صادر ہونا چاہیئے۔ اگر
وہ ایسا نہ کرسکے توعلمائے ربانی کی معیت میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ خود
یہ عملی ثبوت پیش کریں گے لیکن ہارنے کی صورت میں اس کے لئے تبدیلی ٔ مذہب لازم ہو
گا۔ پادری فنڈر اس چیلنج کے بعد مقابلے سے دستبردار ہو گیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔