ANTI-ADBLOCK JS SYNC کتب خانہ ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

کتب خانہ

کتب خانہ

          درس و تدریس، علمی تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لئے کتبِ حوالہ جات پر مشتمل ایک اچھا کتب خانہ ہر عالم کی ضرورت ہے۔ حضرت جؒی کے ذاتی کتب خانے کا ایک طائرانہ جائزہ لینے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپؒ نے اس ضرورت کو کس قدر مقدم جانا۔نایاب اور بلند پایہ علمی کتب کا حصول آپؒ کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ تکمیل مقصد کے لئے وسائل کی فراہمی کا درجہ رکھتا تھا۔ حضرت جؒی کی زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے جب آپؒ نے خود کو صرف کتب خانے تک محدود کر لیا اور انتہائی مختصر مدت میں ایسی کتب تصنیف فرمائیں جو آج اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
          حضرت جؒی کو علماء سے اکثر یہ شکوہ رہا کہ یہ لوگ مطالعہ کرتے ہیں نہ باطل عقائدونظریات سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ آپؒ فرمایا کرتے :
‘‘علم تودنیا سے نابود ہی ہو گیا ہے۔ علماء نہ تو محنت کرتے ہیں اورنہ ہی ان میں قوت ِخرید ہے کہ ذاتی کتب خرید کرمطالعہ کر سکیں۔’’
اپنے بارے میں فرمایا کرتے:
‘‘ میرے والدزمیندار تھے، وراثت میں زمین ملی۔ پھوپھی صاحبہ کی اولاد نہ تھی، انہوں نے بھی اپنی زمین میرے نام منتقل کرا دی ۔ اس طرح چار سوکنال زمین سے جو آمدنی ہوتی ہے، اس میں سے گھریلو ا خراجات سے زائد آمدنی کتابوں کی خرید پر صرف کر دیتاہوں۔’’
          آپؒ کے شوق ِمطالعہ کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف بر ِصغیر کے معروف چھاپہ خانوں سے کتب منگوا نے کا سلسلہ جاری رہتا بلکہ عرب ممالک، مصر، افغانستان اور بالخصوص ایران سے بھی کتب منگوایا کرتے۔اکثر یہ کام بیرون ملک مقیم احباب سرانجام دیا کرتے، جس کا تذکرہ ان کے نام آپؒ کے خطوط میں بکثرت ملتا ہے۔ دورانِ مطالعہ کسی مآخذ کا حوالہ نظر سے گزرتا تو آپؒ اس پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اصل کتاب خرید لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ کے ذاتی کتب خانے میں نہ صرف سلف صالحین کی مستند تصانیف کا وافر ذخیرہ موجود ہے بلکہ مذاہب ِباطلہ کے اصل مآخذ، جو خود ان کے ہاں بھی تلف کر دیئے گئے یا تحریف شدہ حالت میں ملتے ہیں، اپنی اصل صورت میں دستیاب ہیں۔ یہ کتب خانہ ہر مذہب وعقیدہ کی کتب، حتیٰ کہ ہندوؤں کے وید، سکھوں کے گرنتھ، انجیل کے نایاب نسخے، قادیانی لٹریچر اور مذہب ِ روا فض کے اصل مآخذ کا نایاب ذخیرہ ہے۔
          حضرت جؒی کا کتب خانہ کم وبیش چار ہزار کتب پر مشتمل ہے۔ اس میں قرآنِ حکیم کی تفسیر کے شعبہ میں329 کتب بشمول، التفسیر القیم، تفسیر قرطبی، النسفی، جلالین، کشاف، کشف الاسرار، الاکلیل، البحرالمحیط، ابن کثیر، مظہری، فتح القدیر، جامع البیان الطبری، خازن، مدارک، روح المعانی،                  فی ظلال القرآن، بیان القرآن اور معارفُ القرآن موجود ہیں۔ آپؒ نے اس شعبہ میں شیعہ مذہب کی مشہور تفاسیر کا بھی اضافہ کیا جن میں کتاب الصافی، تفسیر القمی اور تفسیر فرات الکوفی قابلِ ذکر ہیں۔
          شعبۂ حدیث 371کتب پرمشتمل ہے۔ اس شعبہ میں صحاح سِتّہ کے علاوہ کنزُ العمّال،  تہذیبُ التہذیب، مجمع ُالزوائد، لسانُ المیزان، مِرقاة، عمدةُ القاری، ارشادُ الساری، السنن الکبریٰ،       فتح الملہم اور اعلاء السنن جیسی مشہور و مستند کتب قابل ِ ذکر ہیں۔
          فقہ کے شعبہ میں 471 کتب ہیں جن میں فقۂ حنفی کے علاوہ دیگر فقہ کی مستند کتابیں بھی شامل ہیں۔ اس شعبہ کے طائرانہ جائزہ کے لئے صرف چند نام کافی ہیں، مثلاً المُغنی،  کتاب الخراج، القدُوری،فتاویٰ عالمگیری، در المختار، شرح الوقایہ، مالابدمنہ، کنزالدقائق، فتاویٰ قاضی خان، المبسُوط، تبیین الحقائق، ردّالمختار، بحرالرائق، ہدایہ، المدونۃ الکبری اور کتابُ الا ُم جنہیں فقہ میں کتب حوالہ کا درجہ حاصل ہے۔
          شعبہ تفسیر و حدیث اور فقہ کے علاوہ حضرت جؒی کے کتب خانہ میں دیگرشعبہ جات مثلاًصرف ونَحْو، مَنطِق، تصوف و سلوک، سیرت و تاریخ، ردِّ مذاہبِ باطلہ، طب،ادب اورمتفرقات میں کتب کی خاصی بڑی تعدادہے۔ صرف و نحو جیسے مختصرشعبہ میں کتابوں کی تعداد 93 ہے جس سے کتب خانے کی وسعت، جامعیت اور تنو ّ ُع کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔ اس کتب خانے کے ہر شعبہ کی بیش قیمت اور نایاب کتب، جن میں سے ہر کتاب ایک علمی فن پارہ اور تحقیقی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہے، حضرت جؒی کے حسن ِ انتخاب، ذوقِ مطالعہ اور تبحر ِعلمی کا دائمی ثبوت ہیں۔
           یہ کتب خانہ مختلفُ النوُّع کتابوں کا صرف ایک عمدہ ذخیرہ ہی نہیں بلکہ ہر کتاب پر حضرت جؒی کے تحریر کردہ حوالہ جات، حواشی اور مشکل مقامات کی تشریح، کہیں کہیں تبصرے اور بعض مقامات پر ذاتی آراء کا اظہار اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ آپؒ نے ان کتب کا بنظر ِعمیق مطالعہ بھی فرمایا۔ علماء کے ساتھ آپؒ کی نشست کے دوران یوں محسوس ہوتا کہ یہ کتب خانہ آپؒ کے حافظہ میں محفوظ ہے۔ کتابیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور آپؒ ایک ایک موضوع پر متعدد حوالے دئے چلے جارہے ہیں۔ سبحان اللہ! یہی وہ علم ہے جو چھن نہیں سکتا اور ایسے ہی عالم کے لئے فرمایا گیا:
موتُ العالِم موتُ العالَم
(عالم کی موت جہاں کی موت ہے)
           حضرت جؒی کے محدود وسائل اور نامساعد حالات کا خیال کریں تو یہ نادر کتب خانہ آپؒ کی جانفشانی اور کتابوں سے گہرے لگاؤ کا مظہر ہے۔ آپؒ کو نہ صرف یہ علم ہوتاکہ برِصغیر میں کون سی کتاب کس جگہ سے دستیاب ہو گی بلکہ بیرون ملک عربی اور فارسی میں شائع ہونے والی کتب کے متعلق بھی مکمل معلومات رکھتے تھے۔ مطلوبہ کتابوں کی تلاش بیرون ِملک احباب کے سپرد تھی۔ کتابیں منگوانے کی صورت میں حضرت جؒی اکثر ان کی قیمت خود ادا کرتے، بلکہ اس پر اصرار بھی فرماتے تاکہ احباب کے لئے بارِگراں نہ ہو لیکن بعض احباب سے کتابوں کا ہدیہ خندہ پیشانی سے قبول فرمالیا کرتے۔
          آپؒ کے متعلقین میں ایک مشہورنام مولوی فضل حسیؒن کا ہے جو لاہور سے مطلوبہ کتب تلاش کرنے کی ذمہ داری سرانجام دیا کرتے تھے۔ آپؒ نے ان کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:
‘‘مکتبہ علمیہ سے کتاب نسیم الریاض بمعہ شرح ملا علی قاری، شرح شفاء قاضی عیاض کی مطبع بیروت کی ہونی چاہیے نہ کہ مصر کی۔ مصر والے بڑی بے ایمانی سے کام لے رہے ہیں۔ کاغذ اخباری لگاتے ہیں جوبہت خراب ہے۔ کتاب آنے پر بندہ کو مطلع کریں اور اس وقت خریدیں جب میری رقم جناب کو مل جائے۔ ’’
          اپنے محدود وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت جؒی بعض اوقات احباب کو کتب کی قیمت سے بھی آگاہ فرما دیا کرتے تاکہ وہ لاعلمی کے باعث زیادہ ادائیگی نہ کردیں۔ایک خط میں آپؒ نے       مولوی فضل حسیؒن کو تحریر فرمایا:
‘‘رسالہ قشیریہ عبدالکریم بن ہوازن القشیری جس کی قیمت چار پانچ روپیہ تک ہو گی اور دوم قصیدہ نونیہ ابن قیم کا جس کی قیمت ڈھائی روپے ہے مگر مکتبہ علمیہ میں اور        علامہ سیوطی کا رسالہ عمل ُالیوم وَالیل، قیمت ایک روپیہ ہو۔’’
          مکتبہ علمیہ بیرونی مما لک سے کتابوں کے حصول میں اکثر تعاون کرتا،چنانچہ ایک اور خط میں آپؒ نے مولوی صاحبؒ کو تحریر فرمایا:
‘‘آپ مکتبہ علمیہ والوں کو کتاب نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض،            علامہ شہاب خفا جی کی بمعہ حاشیہ شرح ملا علی قاری کا آرڈر دے دیں۔ اگر وہ وعدہ کریں تو بندہ کو مطلع کریں۔ میں رقم اوّل آپ کے نام ارسال کر دوں گا۔ چونکہ عرب سے حاجی یہ کتاب نہیں لایا اس لئے رقم بچ گئی ہے۔ اس کو اسی کتاب پر لگانا۔’’
مولوی فضل حسیؒن ابوظہبی گئے تو انہیں ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
‘‘اب سہ بارہ عرض ہے کہ ان کی قیمت اوّل لے لو، تو بھی تیار ہوں۔ خرید کے بعد گھر فرماؤ تو دے دوں گا۔ وہ جس طرح آپ پسند فرمائیں گے ہو جائے گا ۔ یہ کتب تہران، نجف ِاشرف،  کاظمین وکربلا وغیرہ سے مل جاتی ہیں۔ جو بندہ جناب کے پاس کام کرتا ہے وہ رخصت پر عراق یا ایران کا ہو تو واپسی پر لائے۔ اس کو آسان ہو گا۔
-1       اصول کافی جلد اول صرف
-2       تفسیر قمی علی ابن ابراہیم کی
-3       تفسیر فرات ابن ابراہیم کی
-4       مجالس المومنین نور اللہ شوستری کی
-5       مشیر الاحزان الشیخ الجلیل ابن نما حلی کی
-6       تنقیح المقال فی احوال الرجال عبداللہ مامقانی کی۔
-7       مصائب النواصب علامہ نور اللہ شوستری کی۔
-8       علامہ محمد بن مکی کی لمعۃ دمشقیہ
           اگر مصباح السالکین مل جائے تو اچھا، ورنہ یہ آٹھ، جو عراق و ایران جائے، ضرور تلاش کرے۔ جو پاکستان آتا ہو، اس کو دے دیں۔’’
          مذہب شیعہ کی مآخذ کتب اپنی اصل حالت میں صرف ایران سے دستیاب تھیں لیکن ان کا حصول کوئی آسان کام نہ تھا۔ مولوی فضل حسیؒن نے حضرت جؒی کے نام ایک مکتوب میں ان مشکلات کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے حصول ِکتب کا یہ کام ایرانی قومیت کے ایک شخص کے سپرد کیا جو ایران سے گیس کے چولہے براستہ کراچی، ابوظہبی بھجوایا کرتا تھا۔ حضرت جؒی کی مطلوبہ کتب اس کے سامان میں پیک کی جاتیں جو ابوظہبی سے پاکستان آنے والے احباب کے ذریعے حضرت جؒی تک پہنچائی جاتیں۔ ایک مرتبہ حکومت ِایران کو شک گزرا تو اس شخص کے مکمل کوائف کی چھان بین کی گئی لیکن کوئی ثبوت نہ مل سکا۔
          حضرت جؒی کے یہ خطوط کتابوں سے آپؒ کی والہانہ لگن کے عکاس ہیں۔ چکڑالہ جیسی دورافتادہ جگہ پر بیٹھے ہوئے آپؒ کو معلوم تھا کہ کونسی کتاب کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے اور اس کی قیمت کیا ہوگی۔ کوئی جاننے والا حج کے لئے جاتا تو اس کے ذریعہ جدہ اور حرمین شریفین سے بھی نایاب کتب منگوانے کی کوشش کرتے۔سعودی عرب کے صوفی محمد افضل خانؒ، حضرت جؒی سے وابستہ ہوئے تو وہاں سے حصول ِکتب کی ذمہ داری آپؒ نے ان کے سپرد فرما دی۔ صوفی صاحؒب کے نام آپؒ کے صرف ایک خط میں 33 رسائل اور کتب کا تذکرہ ملتا ہے ۔
          حضرت جؒی نے اکتوبر 1983ء میں اپنی آخری تقریر میں ارشاد فرمایا تھا کہ  عقائد میں ہم    حضرت امام ابوالحسن اشعریؒ کے تابع ہیں۔ آپؒ کو ان پر لکھی گئی مشہور کتاب                         ‘‘تبیین کذب المفتری’’کی تلاش تھی جس کے متعلق اکثر علماء کا قول ہے کہ کوئی سنی عالم اس کتاب سے خالی نہ ہو۔ نیوی کے کچھ احباب مصر کے دورہ پر گئے تو آپؒ نے انہیں چند نایاب کتب کی فہرست دیتے ہوئے فرمایا کہ پرانے کتب خانوں سے تلاش کریں۔ اس فہرست میں مذکورہ کتاب بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ آپؒ نے حضرت امام ابوالحسن اشعریؒ کی مشہور کتاب ‘‘مقالات اسلامیین باختلافِ مُصلین’’ بھی دو جلدوں میں، مصر سے منگوائی۔
         حضرت جؒی کا کتب خانہ آپؒ کی جملہ تصانیف کے لئے ایک اساس اور حوالہ جات کے خزینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت جؒی کی رحلت کے فوراً بعد یہ کتب خانہ دارالعرفان منارہ منتقل کر دیا گیا تاکہ اس کی مکمل حفاظت کا انتظام ہو سکے۔ حافظ عبدالرزاقؒ نے اس کتب خانہ کو مختلف شعبہ جات میں ترتیب دیا اور کتب کی جامع فہرست تیار کی۔ اس وقت یہ کتب خانہ حضرت امیرالمکرم کی ذاتی نگرانی میں جدید سائنسی تکنیک کے مطابق محفوظ کر لیا گیا ہے اوراس میں مسلسل نئی کتب کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔


Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو