ANTI-ADBLOCK JS SYNC اِذنِ عام ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

اِذنِ عام

اِذنِ عام

            1981ء میں حضرت جؒی کا ایک انٹرویو ریکارڈ کرتے ہوئے سوال کیا گیا:
            ‘‘ حضرت! روحانی سلسلہ کی ترویج کس طرح ہوئی؟’’
آپؒ نے فرمایا:
‘‘ چکوال میں حافظ صاحب حلقہ ٔ ذکر میں آئے، حکیم فضل کریم، پٹواری صاحب، پھر اور لوگ آئے ۔ اُنہاں اَگوں بھنڈی پائی، اَگوں چکوالیاں شور مچایا۔ ( ان چکوال والوں نے اس کے بعد شور مچا دیا)۔’’
ایک اور موقع پر حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘ میں تو اطمینان سے اللہ اللہ کر رہا تھا، ان چکوالیوں نے مجھے نشر کر دیا۔’’
            پروفیسر حافظ عبدالرزاقؒ بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ انہوں نے دبی زبان میں عرض کیا:
آں روز کہ ماہ شدی نمی دانستی
کہ انگشت نمائے ہمہ عالمیاں خواہی شد

( جس روز تو چاند بنا تھا تجھے خبر نہ تھی کہ سارے عالم کی انگلیاں تیری طرف اٹھیں گی)۔
ایک مرتبہ یہی بات حضرت جؒی نے بھی ایک اور  رنگ میں فرمائی:
‘‘میں ایک زمیندار آدمی ہوں۔ اگر کوئی شخص باہر سے آکر میرے پاس بیٹھ جائے اور مجھے جانتا نہ ہو تو وہ مجھے مولوی بھی نہ سمجھے گا، صوفی تو دو رکی بات ہے۔ لباس، میری گفتگو، چال چلن، میں نے تصنع کبھی نہیں کیا۔ ظاہری نمود کا کبھی خیال نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حُسنِ ذاتی عطا فرمایا ہے۔ بڑی بڑی تسبیحیں، رومال، چوغے، ان میں فقیری نہیں، یہ پوشیدہ بھی نہیں رہ سکتی، خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے۔
نِکورو تابِ مستُوری ندارد
اگر بندی سرِرَوزن بر آرد

            مولانا جامی نے اپنی مشہور تصنیف ‘‘زلیخا’’ میں لکھا ہے، خوبصورت چہرہ ہو، دروازے بند کر دو تو روشندانوں سے ظاہر ہو جائے گا۔
            مولوی جو باتیں کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ میں زندہ ہوں، کئی کہتے ہیں کہ اس نے تصوف ظاہر کر دیا ہے۔
            کوئٹہ میں مولانا عبدالقادر ڈیرہوی سے ایک معروف گدی نشین نے میرے متعلق کہہ دیا کہ بات تو کوئی نہیں لیکن مولوی صاحب نے اظہار کچھ زیادہ ہی کر دیا ہے۔
مولانا زیرک ہیں، کہنے لگے حضرت! یہ تو بتائیں تصوّف کے آپ بھی قائل ہیں اور لوگوں کو بتاتے بھی ہیں۔ کیا یہ دین ہے یا دین سے علاوہ کوئی چیز ہے؟
جواب دیا: ہاں دین ہے۔
مولانا نے فوراً کہا کہ دین کو چھپانے والا تو لعنتی ہے۔ گویا پھر تو حضرت نے جو کیا ہے بہت اچھا کیا ہے۔’’
اس کے بعد حضرت جؒی نے قرآن حکیم کی یہ آیت پڑھی:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ o
اور اپنے پروردگار کی نعمت کا بیان کرتے رہیئے۔(والضحیٰ۔11)
‘‘تصوّف کے اس انعام کو بیان کرنے والے، اس نعمت کا اظہار کرنے والے کو شرحِ صدر ہو جاتاہے۔ ہم نے تبلیغ کی، مناظرے کئے، درس و تدریس کے رسالے شائع کئے۔ سارے حیلے کئے اور بے لوث کئے، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ طمع نہ تھا لیکن فائدہ کوئی نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ فائدہ ہوا ہے اور جس کو فائدہ نہیں ہوتا ہم کہتے ہیں پیچھے ہٹ جاؤ، ہمارے ساتھ چلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یا سیدھا مسلمان بن کر رہو،       محمد رسول اللہﷺ کے نقش ِ قدم پر چلو۔’’
            اللہ کے ذکر کی طرف بلاتے ہوئے حضرت جؒی کی دعوت کا انداز عام لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہوتا۔ طرزِ استدلال انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا جو دل پر اثر کرتا۔ ایک مرتبہ نئے لوگوں سے بات کرتے ہوئے حضرت جؒی فرمانے لگے:
‘‘ انسان دو اجزاء کا مجموعہ ہے، بدن اور روح۔ جس طرح بدن کو مختلف بیماریاں لگتی رہتی ہیں، اسی طرح روح کو بھی بیماریاں لگتی ہیں۔ جسمانی امراض کے علاج کے لئے انسان کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور اگر اس کی دوائی سے صحت یاب ہو جاتا ہے تو آئندہ بھی اسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور دوائی جاری رکھتا ہے لیکن اگر صحت نصیب نہ ہو تو کسی اور ڈاکٹر کو تلاش کرتا ہے۔ اسی طرح روحانی بیماریوں کے بھی حکیم ہیں۔ ہمارے پاس روحانی علاج کے لئے جو نسخہ ہے وہ ذکر اللہ ہے۔ جوشخص علاج کرنا چاہے وہ اللہ کا نام لے کر ہمارے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ ھو کا ذکر صبح شام شروع کر دے اور ایک ہفتہ کے بعد خود یہ فیصلہ کرے کہ کیا اس کو کوئی فائدہ ہوا ہے یا نہیں؟ اگر فائدہ ہوا ہے، مثلاً پہلے دو نمازیں پڑھتا تھا اور تین قضا ہوتی تھیں لیکن اب ہفتہ بھر ذکر کے بعد تین یا چار نمازیں نصیب ہو نا شروع ہو جاتی ہیں اور دل میں یہ خواہش پیدا ہونے لگتی ہے کہ کیوں نہ پانچوں نمازیں پوری کروں۔ ایسا ہے تو پھر روحانی علاج سے فائدہ ہے لہٰذا اسے جاری رکھا جائے لیکن اگر ایک ہفتہ ذکر کے بعد بھی نمازیں نصیب نہیں، نیکی کی بجائے برائی کی طرف رغبت زیادہ ہے تو پھر ہمارا نسخہ چھوڑ کر کسی اور حکیم کے پاس چلا جائے۔’’
چکوال میں ترویجِ سلسلۂ عالیہ
            چکوال میں مولوی سلیمان اور حافظ عبدالرزاقؒ کے مشاغل میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد ان کا حلقہ ٔ احباب حضرت جؒی کی طرف متوجہ ہوا۔ ان میں سے جو بھی طلب ِصادق لے کر آیا، آپؒ کی شفقت سے محروم نہ رہا۔ کچھ لوگ ناقدانہ نقطہ ٔنظر سے بھی قریب آئے لیکن یہاں اتباعِ شریعت اور تصوف کا اصل نقشہ دیکھنے کے بعد وہ بھی حلقہ ٔ ذکر میں شامل ہو گئے۔ ان دنوں حضرت جؒی کی ہدایت تھی کہ عام لوگوں سے سروکار نہ رکھا جائے اور صرف اپنی اصلاح پر توجہ دی جائے لیکن ا س کے باوجو د ذاکرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ اس طرح چکوال میں رفتہ رفتہ ترویجِ سلسلۂ عالیہ کے لئے حالات سازگار ہو تے چلے گئے۔
            بالآخر دربارِ نبویﷺ سے ہدایت ملی تو حضرت جؒی نے ذاکرین کی جماعت ترتیب دینے کا فیصلہ کیا جو ترویج سلسلۂ عالیہ کا باقاعدہ آغاز تھا۔ یہ فیصلہ غالباً 1960ء میں کیا گیا۔ حضرت خواجہ اللہ دین مدنیؒ کے بعد قریباً چار سو سال تک سلسلۂ اویسیہ زیرزمین پانی کی طرح مستور رہا۔ اب اذنِ عام ملا تو حضرت جؒی کے ذریعے اس کے احیاء کا عمل شروع ہوا۔ چکوال میں احباب کی خاصی تعداد ہر شام مولوی سلیمان کے ہاں ذکر کے لئے جمع ہو جاتی جن میں سے اکثر تہجد کے ذکر میں بھی شریک ہوتے۔ چکوال میں ان لوگوں کے اجتماعی اذکار کا خوب چرچا ہوا تو ایک قلیل عرصہ میں سلسلۂ ذکر عوامی سطح پر خاصا معروف ہو گیا۔
            چکوال کے مضافات میں موہڑہ کورچشم میں بھی حضرت جؒی کا وسیع حلقۂ اثر تھا جہاں آپؒ اپنے استاذ مولانا محمد اسمٰعیلؒ سے ملاقات کے لئے اکثر تشریف لے جاتے۔ ان کے فرزند مولانا اکرام الحق، جو صاحب ِ علم اور حضرت جؒی کے عقیدت مند تھے، حلقۂ ذکر میں شامل ہوئے توکچھ ہی روز بعد انوارات کو ایک دھارے کی صورت قلب میں داخل ہوتا ہوا محسوس کرنے لگے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر موہڑہ کورچشم میں ان کے حلقہ ٔ اثر میں بھی ذکر شروع ہو گیا۔ یہاں آپؒ کے زمانہ ٔطالب علمی کا ایک دوست سرور نامی دوکاندار تھا۔ یہ شخص موہڑہ کور چشم کی مسجد میں دورانِ ذکر احباب کی گریہ زاری پر اعتراض کرتا کہ تم لوگ ہماری نمازیں خراب کرتے ہولیکن کچھ عرصہ بعد جب اس پر حقیقت ِحال واضح ہوئی تو اس نے حضرت جؒی سے گلہ کیا کہ آپؒ نے اتنا عرصہ ا س نعمت کو اپنے تک کیوں محدود رکھا۔ جس روز اس نے خود ذکر شروع کیا،       نگاہِ بصیرت سے نوازاگیا۔ دورانِ ذکر اس پر اکثر حالت ِ گریہ طاری ہو جاتی جس پر احباب اسے یاد دلایا کرتے کہ ایک وقت تھا کہ ہمارے گریہ سے تمہاری نمازیں خراب ہوتی تھیں اور اب خود اس قدر گریہ زاری کرتے ہو کہ دورانِ ذکر ہماری توجہ بٹ جاتی ہے۔
            ذکر کی پہلی مجلس میں سرور کو اس قدر قوی مشاہدات نصیب ہوئے کہ ذکر ختم ہوا توبیان کرنے سے رہ نہ سکا۔ کہنے لگا کہ دورانِ ذکر حضرت جؒی کے منور قلب سے تیز روشنی کا ایک دھارا ریل گاڑی کے انجن کی لائٹ کی طرح ایک لمبے سے شخص کے سینے میں داخل ہوتا تھا اور وہاں سے بہت سی روشنیوں میں تقسیم ہو کر باقی احباب کے سینوں کو منور کرتا تھا۔ اس وقت سرور نہیں جانتا تھا کہ وہ ‘‘لمبا شخص’’ کون ہے۔ ذکر کے دوران حضرت جؒی کے قلب سے انوارات حضرت امیرالمکرم کے قلب سے ہوتے ہوئے دوسروں کے قلوب تک ان کی استطاعت کے مطابق منتقل ہوتے۔ انوارات کی ترسیل کا یہ مشاہدہ اس حقیقت کو ظاہر کر رہا تھا کہ عام لوگوں میں چونکہ حضرت جؒی کی توجہ کی براہِ راست تاب لانے کی ہمت نہ تھی، اس لئے شروع ہی سے     حضرت امیرالمکرم کی ذات کو ایک درمیانی واسطے کی حیثیت حاصل تھی۔ اس محفل میں مولوی سلیمانؒ اور حافظ عبدالرزاقؒ بھی موجود تھے لیکن واسطہ حضرت امیرالمکرم ہی بنے، گویا ابتداء ہی سے انہیں حضرت جؒی کی نیابت کی ذِمّہ داری سونپ دی گئی۔
            چکوال میں امداد حسین شاہ نے ذکر شروع کیا تو اس کے بھائی ظہور شاہ نے کبھی بدعت اور کبھی وہابیت کی تہمت لگا کر مخالفت شروع کر دی۔ امداد حسین شاہ نے حضرت جؒی کی تشریف آوری پر اپنے بھائی کو دعوت دی کہ ایک رات حضرت جؒی کے ساتھ قیام کرو اور اگر کوئی فعل خلافِ شریعت دیکھو تو بے شک گلے میں پٹکا ڈال دینا۔ ظہور شاہ امتحاناً رات کے ذکر میں آن بیٹھا۔ کچھ دیر تو ناقدانہ نگاہ سے جائزہ لیتارہا، پھر خود بھی ذکر میں شامل ہو گیا۔ جب محفل برخواست ہوئی تو امداد حسین شاہ نے بھائی سے پوچھا، سناؤ کیا خیال ہے؟ اس نے متأسف ہو کر جوا ب دیا:
‘‘ خیال کیا ہے، کچھ ساتھیوں کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، پھر کچھ ساتھیوں کو دربار ِنبویﷺ میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اب اس کے بعد کیا کہوں!’’
            یہ مشاہدہ نہ صرف ظہور شاہ کے لئے حلقہ ٔ ذکر میں شمولیت کا سبب بنا بلکہ کئی اور لوگ بھی اسے دیکھ کر اللہ اللہ کرنے لگے کیونکہ ایک عرصہ تک اس شخص کی مخالفت کے بعد اس کا اعترافِ حقیقت اور خود ذکر کا آغاز احباب کے لئے ایک قوی دلیل تھی۔
             اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود چکوال کے ان احباب کی تربیت حضرت جؒی کی اولین ترجیح تھی۔ کبھی آپؒ موہڑہ کورچشم تشریف لے جاتے تو چکوال سے احباب اس مضافاتی گاؤں میں حضرت جؒی کے ساتھ ذکر میں شامل ہوتے۔ حضرت امیر المکرم کے ہاں سیتھی میں ان کے ڈیرہ پر قیام فرماتے تو احباب کی خاصی تعدادوہاں بھی حضرت جؒی کے ہمراہ ہوتی۔ آپؒ کی غیرموجودگی میں بھی چکوال میں روزانہ صبح و شام مجلس ِ ذکر ہوتی۔ حافظ عبدالرزاقؒ ڈگری کالج جہلم میں تبدیل ہوئے تو آپؒ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ چکوال آئیں اور اجتماعی ذکر میں احباب کے سامنے ذکر اللہ کے موضوع پر بیان کریں۔ جس روز حافظ صاحؒب کا ہفتہ وار بیان ہوتا،نئے احباب کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا۔ حافظ صاحؒب کے مدلّل بیان کے بعد کیفیات سے بھرپور محافل ِ ذکر نئے احباب کے لئے دعوت کا مؤثر ذریعہ تھیں۔
            ہر ساتھی بذاتِ خود اپنے اہل ِخانہ کے لئے بھی ایک دعوت تھا جس کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کو دیکھ کرکسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ رفتہ رفتہ چکوال کے کئی گھرانوں میں سلسلۂ ذکر شروع ہوگیا۔ گھر کے سربراہ کے ہمراہ خواتین اور بچے ذکر میں شامل ہوتے تو قلبی صفائی کی وجہ سے ان میں سے اکثر کو مشاہدات نصیب ہو جاتے جو یقین و اعتماد کا سبب بنتے۔ مختلف مقامات پر اگرچہ انفرادی سطح پر خواتین کا ذکر شروع ہو چکا تھا لیکن موہڑہ کورچشم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہاں 1962-63ء میں خواتین کا پہلا حلقہ ٔ ذکر قائم ہوا جس میں خواتین کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ تھی۔
            چکوال کے حافظ غلام جیلانؒی ہائی سکول میں استاد تھے اوراپنے علمی پس منظر کی بنا پر لائبریری کے انچار ج بھی تھے۔ حافظ صاحؒب کئی سال سے ملک کے ایک معروف آستانے سے وابستہ تھے لیکن راہِ سلوک سے ناآشنا۔ 1963ء میں حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری نصیب ہوئی تو عرض کیا:
‘‘حضرت! کئی سال سے ایک جگہ بیعت کر رکھی ہے لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ اللہ اللہ سیکھنے کا شوق ہے۔’’
حضرت جؒی نے اک نگاہ اس طالب پر ڈالی تو طلب صادق موجود پائی۔ آپؒ نے فرمایا:
‘‘میں سنگریزے اکٹھے کر رہا ہوں۔ شاید ان میں سے کوئی ہیرا نکل آئے جو اپنی اور میری نجات کا ذریعہ بن جائے۔’’
کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا:
‘‘بیٹا دیکھو! ایک ہے علاج، دوسرا ہے پرہیز۔ علاج کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب پرہیز کیا جائے۔ علاج ہے اسمِ ذات، پرہیز ہے سنت خیر الانامﷺ۔ اگر آپ یہ کر سکیں تو میں وہ سمندر پیش کروں گا جو قیامت تک ختم نہ ہو۔’’
            جیلانی صاحؒب حلقہ ٔ ذکر میں آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تیز مشاہدات اور کلام باِلا َرواح سے نواز دیا۔ حضرت جؒی کو معلوم ہوا تو آپؒ نے اس میدان میں ان کی خصوصی تربیت فرمائی۔ چکڑالہ قبرستان میں ڈھیری والے فقیر سے کلام کروائی تو انہوں نے بتایا کہ دہلی سے فیض حاصل کرنے کے بعد یہاں آیا تھا۔ حضرت جؒی کے کم سن صاحبزادے امین الدین بھی یہاں دفن تھے جن سے آپؒ کو بے حد پیار تھا اور بعد میں نواسے کا بھی یہی نام رکھا تھا۔ روح چونکہ روزِ الست سے عاقل و بالغ ہے، برزخ میں ایک شیرخوار بچہ بھی کلام کر سکتا ہے کیونکہ وہاں جسم، روح کے تابع ہوتا ہے۔ حضرت جؒی کے صاحبزادے سے معلوم ہواکہ والدہ نے نہلا کر اچھے کپڑے پہنائے تو باہر سے ایک عورت آئی جس نے ایسی نظر ِ بد سے دیکھا کہ دل پھٹ گیا اور اچانک موت واقع ہوگئی۔
            حافظ غلام جیلانؒی دیرینہ تعلقات کی بنا پر کبھی کبھی سابقہ آستانے پر بھی حاضری دیا کرتے تھے تاہم ان کے دل میں عرصہ سے یہ خلش چلی آرہی تھی کہ یہ لوگ قبر کے تعویذ کو بوسہ کیوں دیتے ہیں۔           جیلانی صاحؒب نے آستانے کی لائبریری کے انچارج سے، جو خود بھی ایک معروف عالم تھے، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ‘دُرِّمختار’ کے حوالے سے اس عمل کی شرعی حیثیت بیان کی تو انہوں نے کہا:
‘‘کس وہابی سے مل کرآ رہے ہو، چلو اس مسئلے کی شرعی حیثیت خلیفہ صاحب سے پوچھ لیتے ہیں۔’’
جیلانی صاحؒب نے جوا ب دیا:
‘‘ ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ میں صاحب ِ مزار سے خود بھی دریافت کر سکتاہوں۔’’
یہ واقعہ حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کیا تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘ اپنے اندر وہ اہلیت پیدا کرو کہ صاحب ِ مزار کے ہاتھ کو بوسہ دے سکو۔ پتھر چومنے سے کیا فائدہ؟’’
            کتب ِ تصوف کے مطالعہ کے بعد فلسفہ طرازی تو ایک فیشن بن چکا ہے لیکن کچھ کہنے کی بجائے عملاً کر دکھانا اصل چیز ہے۔ حضرت جؒی کا یہ فرمان ایک حقیقت ہے جس کے سینکڑوں شاہد آج بھی موجود ہیں۔ جن خوش نصیبوں کو آقائے نامدارﷺ کے دست ِ اقدس پر روحانی بیعت کی سعادت نصیب ہوئی، وہ حضرت جؒی کے ان الفاظ کو کبھی نہیں بھول سکتے۔
‘‘ آگے بڑھو، حضورﷺ ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ دستِ اقدس کودونوں ہاتھوں سے تھام لو، بوسہ دو، آنکھوں سے لگاؤ...’’
          ان ایمان افروز لمحات کی یاد زندگی کا اثاثہ ہے۔ ان حسین گھڑیوں کاخیال آتے ہی روح میں آج بھی ارتعاش پیدا ہو جاتاہے اور آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں۔ ان احباب کی خوش بختی کا کیا کہنا جنہیں روحانی طور پر دستِ اقدس کو بوسہ دیتے ہوئے نگاہِ بصیرت سے آقائے نامدارﷺ کی زیارت بھی نصیب ہوئی ۔
            حضرت جؒی کے فرمان کے مطابق حافظ عبدالرزاقؒ جہلم سے ذکر کے سلسلے میں ہر ہفتہ چکوال تو آتے لیکن جہلم میں انہوں نے ذکر وفکر کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھا۔ 1963ء میں ڈگری کالج جہلم کے نئے پرنسپل اشرف صدیقی پشاور سے تبدیل ہو کر آئے تو حافظ صاحؒب کی ایک نئی ڈیوٹی لگ گئی۔ پرنسپل صاحب کی طرف سے حکم تھا کہ حافظ صاحؒب اپنا زیادہ وقت ان کے دفتر میں گزارا کریں۔ وجہ دریافت کی تو           صدیقی صاحب اشک بار ہوگئے اور کہنے لگے:
‘‘مجھے زندگی بھر سکون نہیں ملا لیکن جس روزتمہارے ساتھ ملاقات ہوئی، سکون کا پہلا جھونکا نصیب ہوا۔ اب جو وقت تمہارے ساتھ گزارتا ہوں، خود کو جنت میں محسوس کرتاہوں۔’’
حافظ صاحؒب نے حضرت جؒی کی خدمت میں یہ صورت حال عرض کی تو آپؒ نے فرمایا:
            ‘‘ اس کی وجہ سمجھ لینی چاہئے تھی۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا؟
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ط اَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ o
(مراد وہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ یاد رکھو! اللہ ٰ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔ (الرعد۔ 28)
          تو جس شخص کا دل ذاکر ہو، اس کے پاس بیٹھنے سے بھی یہی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ ذکرِ قلبی کا اثر ہے اورا یسا ضرور ہونا چاہئے تھا۔ تعجب کی بات تو تب تھی اگر ایسا نہ ہوتا۔’’
          پرنسپل صاحب کا معمول تھا کہ اتوار کی چھٹی لاہور میں بسر کرنے کے بعد پیر کی صبح ریل کارسے جہلم پہنچتے اور سیدھے کالج آکر اسمبلی میں شامل ہو جاتے۔ ایک مرتبہ وہ لاہور سے واپس لوٹے تو آتے ہی حافظ صاحؒب کا ہاتھ تھام لیا اور فرطِ جذبات سے سب کے سامنے اس پر بوسہ دینے لگے۔ حافظ صاحؒب انہیں دفتر میں لے آئے اور اس عجیب حرکت کی وجہ دریافت کی توپرنسپل صاحب نے شکایت بھرے لہجے میں کہا:
‘‘تم نے مجھے اب تک دھوکے میں کیوں رکھا؟ لاہور پہنچ کر ایک ٹیکسی لی تو اس کا ڈرائیور درویش شکل و صورت کا نظر آیا ۔ میں نے پوچھا، کیا تمہارا کسی اللہ والے سے تعلق ہے؟ تووہ بولا، پہلے آپ بتائیں کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ ڈگری کالج جہلم کا سن کر کہنے لگا، آپ کس لئے تلاش کر رہے ہیں، آپ کے پاس تو رہنمائی کے لئے پہلے ہی ایک شخص موجود ہے۔میں نے پوچھا کون ہے تو اس نے تمہارا نام لیا۔ اب تو راز فاش ہو گیا ہے لیکن اس سے پہلے تم نے کیوں نہیں بتایا’’؟
            اس کے بعد جہلم میں حافظ عبدالرزاقؒ کے ساتھ اشرف صدیقی بھی ذکر کرنے لگے۔ اس سے قبل وہ ذہنی دباؤ اور بے سکونی کی وجہ سے روزانہ پیتھوڈین کے انجکشن لگوایا کرتے تھے لیکن ذکر شروع کیا تو اس مصیبت سے نجات مل گئی۔ حافظ صاحؒب کا راز فاش کرنے والے ٹیکسی ڈرائیور مولوی فضل حسیؒن تھے جو کچھ عرصہ قبل لاہور میں پیر مانے جاتے تھے لیکن ان دنوں کسبِ معاش کے لئے ٹیکسی چلایا کرتے تھے۔ انہیں لاہور میں سلسلۂ عالیہ کی ترویج کی سعادت نصیب ہوئی۔
مولوی فضل حسینؒ
            مولوی فضل حسیؒن کا ابتدائی تعلق سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ سے تھا اورحضرت فضل علی قریشؒی کے خلفاء میں سے تھے جن کے متعلق حضرت جؒی نے فرمایا کہ اس زمانے (1963ء) میں پاکستان اور ہندوستان میں جو آدمی کچھ علم تصوف لئے پھرتے ہیں وہ بھی حضرت فضل علی قریشؒی کے فیض یافتہ ہیں ورنہ یہ چیز تودنیا سے نابود ہو چکی ہے۔ مولانا عبدالغفور مدنیؒ بھی حضرت فضل علی قریشؒی کے خلیفہ تھے۔ شیخ کے وصال کے بعد انہوں نے مولوی فضل حسیؒن کو سلسلۂ نقشبندیہ اور قادریہ، دونوں میں خلافت عطا فرمائی تو وہ پاکستان آکر لاہور (سلامت پورہ) میں آباد ہوگئے اور لوگوں کی اصلاح کا فریضہ سنبھال لیا۔
            کچھ عرصہ بعد ارادہ کیا کہ مدینہ منورہ چلا جاؤں اور بقیہ زندگی وہیں بسر ہوجائے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر مولانا عبدالغفور مدنیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھتے ہی فرمایا، واپس چلے جاؤ۔ اس حکم کی تعمیل میں تردّد تھا، دو تین روز گزر گئے تو پھر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس مرتبہ مولانا مدنیؒ کے لہجے میں سختی تھی۔ فرمانے لگے:
‘‘تم ابھی تک یہاں ہو؟ میں تمہیں واپسی کے لئے نہیں کہہ رہا،  نبی اکرمﷺ حکم فرما رہے ہیں۔’’
            اس وقت تو سمجھ نہ آئی کہ یہ حکم کس لئے دیا گیا تھا لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ واپسی پر ان سے لاہور میں سلسلۂ عالیہ کی ترویج کا کام لیا جانے والا تھا اور آگے چل کر متحدہ عرب امارات میں بھی انہوں نے یہی کام سرانجام دینا تھا۔
            پاکستان آئے تو مولوی فضل حسیؒن اکثر حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر اذکار و مراقبات میں مشغول رہتے۔ یہ 1963ء کا اوائل تھا اور سلسلۂ عالیہ، منارہ اورچکوال کے گردونواح میں خاصہ متعارف ہو چکا تھا۔ اس علاقے کے ایک شخص محمد امین نے مولوی فضل حسیؒن کے یہ معمولات دیکھے تو ان سے حضرت جؒی کا تذکرہ کیا جس کے بعد مولوی صاحؒب کی آپؒ سے براہِ راست خط وکتابت شروع ہو گئی۔ اپنے ایک مکتوب میں انہوں نے حقیقت قرآن تک روحانی مقامات طے کرنے کا ذکر کیا تو آپؒ نے جواباً تحریر فرمایا:
‘‘ جناب کے انوار سیرِ قرآنی تک بوجہِ توجہ جناب کے شیخ کے واصل ہوئے۔ آپ نے حقیقتِ قرآن بزرگانِ دین سے سنا ہے۔ اصل میں مقام حقیقتِ قرآن، حقیقتِ کعبہ، حقیقتِ صلوٰة، یہ منازل دائرہ ٔمحمدیہﷺ میں آتے ہیں جو ولایتِ مخصوص             رسولِ اکرمﷺ ہے۔ باقی انبیاء کا حصہ منازل اولوالعزمی تک ختم…’’
            مولوی فضل حسیؒن صاحبِ کشف تھے اور حقیقت آشنا۔ سمجھ گئے کہ بات وہی تھی جو حضرت جؒی نے بیان فرما دی، یعنی انوارات کی صورت انہیں صرف سیر نظری[1] حاصل تھی لیکن یہ مقامات ان کی پہنچ سے ماوریٰ تھے۔
            مولوی صاحب نے حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی لیکن آپؒ نے فرمایا کہ وہ فی الحال خط وکتابت جاری رکھیں، وقت آنے پر بعد میں بلایا جائے گا۔ اپنے بارے میں حضرت جؒی نے جس حد تک کسرِ نفسی کا اظہار فرمایا وہ ماشما کے لئے مقامِ فکر ہے جو راہِ سلوک میں دو قدم چلنے کے بعد اپنی بزرگی کے جھنڈے گاڑنے لگتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا:
‘‘ حضرت! میں پیر نہیں ہوں، نہ بیعت لیتا ہوں۔ بیعت اگر خدا کو منظور ہو تو             رسولِ خداﷺ سے کراتاہوں۔ نہ ہی دل میں کبھی کوئی خیال گزرا۔ میں تو اپنے آپ کو کتے سے زیادہ رذیل جانتا ہوں، پیری کے قابل نہیں۔’’
            مولوی فضل حسیؒن خود پیر تھے، بیعت لیتے تھے۔ اپنے متعلقین کو وعظ و تلقین کرتے، چند وظائف بھی بتا دیتے لیکن کیا وہ بیعت ِ طریقت کی اہلیت بھی رکھتے تھے؟ کیا وہ طالب کو سلوک بھی طے کرا سکتے تھے؟ یہ وہ سوال تھے جن کا جوا ب انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ یہی سوال، ہر وہ شخص جو پیر کہلاتا ہو اور بیعتِ طریقت کا دعویدار ہو، اپنے قلب پر پیش کرے اور اگر جواب نفی میں ہو تو اسے چاہیئے کہ لوگوں کو اپنے دَر کا پابند بنانے کی بجائے اس جگہ کا راستہ دکھائے جہاں یہ نعمت بٹتی ہے۔
            مولوی فضل حسیؒن نے بھی وہی کیا جو ہر ایسے شخص کو کرنا چاہئے جو پیری کے جھوٹے زعم میں مبتلا ہونے کی بجائے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو۔ جسے یہ ڈر ہو کہ روزِ محشر وہ ان متعلقین کو کیا جوا ب دے گا جو اس کے پاس اس جنسِ گراں مایہ کے طلب گار بن کر آئے جس سے وہ خود محر وم تھا لیکن اس نے اپنے آستانے کا بھرم قائم رکھنے کے لئے ان سادہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کئے رکھا۔
            مولوی فضل حسیؒن نے اپنے آستانے پر ایک اجتماع کا اہتمام کیا جس میں تمام مریدین کو شرکت کی ہدایت کی۔ وہ سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جب مولوی فضل حسیؒن ان کے سامنے آنسو ؤں کی شہادت کے ساتھ یہ اعتراف کر رہے تھے کہ منازلِ سلوک طے کرانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اگر ان کے مریدین   طلبِ صادق کے ساتھ اس راستے پر چلنا چاہتے ہوں تو وہ بھی اُن (مولوی فضل حسینؒ) کے ہمراہ حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوں، جو اُن کے بھی رہنما ہیں۔
            ہر آستانے کے پیچھے ایک بڑا نام ملتا ہے اور آباؤ اجداد کی شہرت پر یہ آستانے قائم ہیں لیکن آج ہے کوئی ایسا گدی نشین جو مولوی فضل حسیؒن کی طرح، جن کے پاس دو بڑی ہستیوں کا عطا کردہ خرقہ ٔ خلافت تھا، اپنے عقیدت مندوں کے سامنے اس اعتراف کی اخلاقی جرأت رکھتا ہو۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
          وہ جو دل کی دنیا کو سنوارنے کا ملکہ رکھتے تھے،  جن کی توجہ دردِ دل کا علاج ہوا کرتی تھی، جن کی صحبت صد سالہ طاعتِ بے ریا کا بدل تھی، آج ان کے نام پر آستانے تو چل رہے ہیں لیکن وہاں دوائے   دردِ دل بانٹنے والا کوئی نہیں ملتا۔
            حضرت فضل علی قریشؒی کے مزار پر سالانہ اجتماع میں مولانا عبدالغفور مدنیؒ بھی شریک ہوتے اور مولوی فضل حسیؒن بھی جنہیں ان دونوں ہستیوں کی خلافت حاصل تھی۔حضرت جؒی نے 1963ء کے ایک مکتوب میں مولوی فضل حسیؒن کو لکھا کہ جب وہ اپنے شیخ حضرت فضل علی قریشؒی کے مزار پراجتماع میں شریک ہوں تو مولانا مدنیؒ سے ملاقات کریں اور ان سے عرض کریں کہ اگر وہ بندہ کے پاس تشریف لائیں تو آپؒ ان کو بحیثیت خادم آگے چلانے کے لئے تیار ہیں۔ آپؒ نے یہ بھی فرمایا:
 ‘‘ کوئی آدمی جس کو صحیح تڑپ سلوک کی ہو اور استعداد بھی حصول کی رکھتا ہو تو اس کو میرا پتہ دینا۔ ہاں مولانا عبدالغفور سے بات کرنا کہ کیا یہ ناجائز ہے کہ جب اپنے سلسلہ میں سلوک حاصل نہیں ہو سکتا تو دوسری طرف جائیں؟’’
1964ء کے ایک مکتوب میں حضرت جؒی نے اپنے سابقہ مکتوب کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھا:
‘‘ باقی میں نے جو درخواست پیش کی تھی، حضرت عبدالغفور مدنی مدظلہ کی خدمت میں پیش کرنا، وہ مبنی برخلوص تھی کہ یہ چیز یعنی علمِ باطنی و سلوک دنیا سے اپنا مقام کھو بیٹھاہے، اس علم کا بازار بے رونق ہو چکا ہے، اس کے متلاشی وطالب نابود ہو چکے ہیں، اس کی دکانیں بند ہو چکی ہیں، اس بنا پر عرض کی تھی کہ اگر ان کو تلاش ہو یا طلب ہو تو ناامیدی نہ پیدا کریں مگر ہے محال۔’’
            حضرت مولانا عبدالغفور مدنیؒ کا مستقل قیام مدینہ منورہ میں تھا لیکن حضرت جؒی کو اس زمانے میں حرمین شریفین کی حاضری کا موقع نہ مل سکا۔ اس طرح ان سے آپؒ کابراہِ راست رابطہ تو نہ ہوا لیکن ان تک آپؒ کے احوال مولوی فضل حسیؒن کے ذریعے پہنچے۔ شاید یہ درمیانی واسطہ کافی نہ تھا چنانچہ حضرت جؒی کی اس دعوت کے جواب میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ مولانا مدنیؒ نے 1969ء میں رحلت فرمائی تو انہیں جنت البقیع میں سیّدنا عثمانt کے قدموں میں جگہ ملی۔ مولوی فضل حسیؒن نے حضرت جؒی کو ان کی رحلت کی خبر دی تو آپؒ نے برزخ میں خیال کرتے ہوئے فرمایا:
            ‘‘ حضرت مدنیؒ برزخ میں بہت خوش بیٹھے ہیں۔’’
            اسی طرح حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے ساتھ حضرت جؒی کے شاگرد قاضی ثناء اللہؒ (لیٹی والے) کی ملاقات کے بعد حضرت جؒی کے باطنی احوال مولانا لاہوریؒ پربھی منکشف ہوئے لیکن اس کے باوجود وہ آپؒ سے رابطہ نہ کر پائے۔یہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان ہستیوں تک حضرت جؒی کے احوال جن درمیانی واسطوں کے ذریعے پہنچے وہ ان کے مقام و مرتبت کے مطابق نہ تھے کیونکہ دعوت کی اثر پذیری کے لئے داعی کا موزوں ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ بات مندرجہ ذیل واقعہ سے کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔
            ڈاکٹر رابرٹ ڈی کرین جو اسلام قبول کرنے کے بعد امریکہ میں ڈاکٹر فاروق عبدالحق کرین کے نام سے متعارف ہوئے، معاشیات اور قانون کے پی ایچ ڈی تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک عرصہ تک مڈل ایسٹ میں امریکہ کے سفیر رہے جس کے بعد آٹھ سال تک وائٹ ہاؤس میں امریکی صدور کے مشیر رہے۔ ان کا امریکہ میں احبابِِ سلسلہ سے رابطہ ہوا تو فرمانے لگے کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت تو پاتا ہوں لیکن حضورﷺ کی نہیں، جبکہ یہ حدیث شریف مجھ تک پہنچی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ حضورﷺ سے محبت نہ کرے۔ان سے کہا گیا کہ وہ تصو ّف حاصل کریں جس کے لئے انہیں پاکستان جانا ہو گا۔ اگرچہ کچھ عرصہ بعد سلسلۂ عالیہ کے ایک وفد نے امریکہ کا تبلیغی دورہ کیا لیکن ان سے ڈاکٹر فاروق عبدالحق کی ملاقات کرانے کی بجائے     حضرت امیر المکرم کے دورۂ امریکہ کا انتظار کیا گیا تاکہ ڈاکٹر صاحب کی بلند پایہ شخصیت کے مطابق ان کی براہِ راست حضرت امیرالمکرم سے ملاقات ہو سکے۔اگلے سال ڈاکٹر فاروق عبدالحق کی حضرت امیرالمکرم کے دورۂ امریکہ کے دوران ملاقات ہوئی تو وہ پاکستان آئے اور دارالعرفان میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ براہِ راست حضرت امیرالمکرم کے زیر تربیت رہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی لگن کا یہ عالم تھا کہ اس عرصہ میں انہوں نے ایک دن بھی سیروسیاحت میں ضائع نہیں کیا اور پورا وقت ذکروفکر میں بسر کیا۔
            دورانِ تربیت ڈاکٹر فاروق عبدالحق کے مشاہدات شروع ہوئے تو وہ خاصے بے تاب تھے کہ اپنی اس حالت سے کسی کو آگاہ کریں لیکن جو صاحب ان کو ذکر کرانے پر مامور تھے،ان کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سیدھے حضرت امیر المکرم کے پاس پہنچے اور شکایت کی:
"Look Shaikh, I wanted to tell him that I had seen angels but he paid no response."
(شیخ دیکھئے! میں اسے یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں نے فرشتوں کا مشاہدہ کیا ہے لیکن یہ میری بات سنتا ہی نہیں)
حضرت امیر المکرم نے فرمایا:
"It is a routine matter here."
(یہاں یہ معمول کی بات ہے)
            آخر ایسا کیوں نہ ہوتا، آقائے نامدار کا فرمان ہے کہ ملائکہ اہلِ ذکر کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور جہاں کہیں انہیں ذاکرین کی کوئی جماعت مل جاتی ہے، اپنے ساتھیوں کو بلاتے ہیں کہ یہ ہے وہ چیز جس کی تمہیں تلاش ہے۔ پھر ملائکہ ذاکرین کو آسمانِ دنیا تک اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔            ڈاکٹر فاروق عبدالحق کو یکسوئی کے عالم میں ذکر و فکر نصیب ہوا تو ملائکہ کے ورود کا مشاہدہ کیا جو اس فرمان نبویﷺ کے عین مطابق تھا۔
            ڈاکٹر فاروق[2] عبدالحق کی علمیت اور مرتبے کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری خیال کیا گیا کہ ان کی حضرت امیر المکرم سے براہِ راست ملاقات ہونی چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ تصوف اور سلوک کی اصل دعوت صحبتِ شیخ ہے، بات چیت یا دلائل نہیں۔ یہ انعکاسی طور پر قلب کو متأثر کرنے والی کیفیات ہوتی ہیں جو صرف صحبتِ شیخ کے ذریعے ہی نصیب ہوتی ہیں۔بارہا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ محض صحبت شیخ نے وہ کام کر دکھایا جو کسی دلیل یا وکیل کے ذریعے ممکن نہ تھا۔
  جتنی قد آور کوئی شخصیت ہو گی اسی پایہ کا داعی بھی ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات دعوت کی حقانیت کے باوجود ایک قدآور شخصیت کے سامنے ایک عام شخص کی دعوت مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔    حضرت لاہوریؒ بلند پایہ عالم اور صوفی تھے لیکن ان سے حضرت جؒی کے تعارف کا ذریعہ قاضی جؒی بنے جن کے متعلق آپؒ اکثر کہا کرتے،  کاش یہ شخص عالم بھی ہوتا۔ اسی طرح حضرت عبدالغفور مدنیؒ سے حضرت جؒی کے تعارف کا        ذریعہ مولوی فضل حسیؒن تھے جو خود ان سے اجازت یافتہ تھے۔ اگر ان حضراتِ گرامی کو حضرت جؒی کی براہِ راست صحبت ملتی تویقیناً اثرات مختلف ہوتے۔ اصل بات عطائے الٰہی ہے، تقسیم کے فیصلے بھی اس کے اپنے ہیں، کسی خوش نصیب کو ایک نعمت عطا ہوتی ہے تو کسی کو دوسری۔
ذٰالِکَ  فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ ط
یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہیں عطافر ما دیں (المآئدہ۔54)
            مولوی فضل حسیؒن کے گرد عقیدت مندوں کا انبوہ بہت جلد چھٹ گیا لیکن اب مخلصین ان کی طرف متوجہ ہونے لگے۔انہوں نے ایک ایک فرد کو دعوت دی۔ شیخ محمد صدیق، حفظ الرحمٰن، حکیم محمد صادق اور کئی دوسرے عقیدت مند ان کے گرد اکٹھے ہوگئے جو شب بیدار تھے، صبح و شام ان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے اور قرآن وحدیث کے راستہ پر چلتے ہوئے قربِِ الٰہی کے متمنی تھے۔
            سلامت پورہ میں مولوی فضل حسیؒن کے آستانے پر اب مرغ پلاؤ نہیں بلکہ فاقہ مستی تھی۔ وہ راتوں کو اللہ اللہ کراتے اور دن کو لاہور کی سڑکوں پر ٹیکسی چلاتے۔ ذاکرین کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنے لگی یہاں تک کہ سلامت پورہ میں ان کے گھر کی جگہ ناکافی ہو گئی۔ لاہور میں ان احباب کا تعلق شہر کے مختلف حصوں سے تھا۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ عرصہ بعد مسجد حنفیہ اکھاڑہ بوٹا مل کو ذکر کا مرکز مقرر کیا گیا جو لاہور کے بہت سے مراکز ِ ذکر میں سے قدیم ترین مرکزہے۔ ابتدائی دور میں حضرت جؒی نے چکوال کے بعد لاہور کے دوروں کا آغاز فرمایا اور لاہور تشریف آوری پر اکھاڑہ بوٹا مل کی اسی مسجد حنفیہ میں قیام فرمایا۔
       1963-64ء میں لاہور کے حلقہ ٔ ذکر میں خاصی وسعت ہوئی ۔ مولوی فضل حسؒین، احباب کی وارداتِ قلبی سے حضرت جؒی کو آگاہ رکھتے اور ابتدائی تربیت کے بعد انہیں آپؒ کی خدمت میں پیش کر تے۔ ان احباب میں سے حکیم محمد صادق کو حضرت جؒی نے1964ء میں چکوال بلایااور استعداد دیکھتے ہوئے دربارِ نبویﷺ میں روحانی بیعت کے لئے پیش کر دیا۔ اس مبارک مجلس کی رُوداد نہ صرف احباب دیکھ رہے تھے بلکہ حکیم محمد صادق خود بھی مشاہدہ کررہے تھے کہ کس طرح انہیں دستِ اقدسﷺ کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی سعادت ملی، کس طرح سلسلۂ عالیہ کے جدامجد حضرت ابوبکر صدیقt سے مصافحہ کیا، کس طرح سیدنا حضرت علیt سے مصافحہ کی سعادت ملی اور پھر اس دربارِ عالی سے انہیں کیا کیا تحائف عطا ہوئے۔ لاہور میں سلسلۂ عالیہ کی ترویج میں شیخ محمد صدیق اور حفظ الرحمٰن نے مولوی فضل حسیؒن کی خصوصی معاونت کی۔
  مریدین کے سامنے اظہار حقیقت کے بعد مولوی فضل حسیؒن نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ پرآسائش زندگی         کو خیرباد کہہ کر ٹیکسی چلانا پڑی اور اہل وعیال کے حصہ میں فاقے آئے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب  حاضر خدمت ہوئے تو مولوی صاحؒب نے چائے تک نہ پوچھی۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ یہ کیسے اللہ والے ہیں جنہوں نے مسافر کا اکرام تک نہیں کیا کہ مولوی صاحؒب نے ان کے دل کی حالت کو بھانپ لیا اور کہنے لگے:
‘‘آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ابھی تک چائے تک نہیں پوچھی۔ جب تک تو پیر خانہ چلتا رہا، انواع واقسام کی دعوتیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب پورا گھر فاقے سے ہے۔’’
            یہ دنیوی نعمتیں تو گئیں لیکن ان کے بدلے میں مولوی فضل حسینؒ نے جو پایا، اس کی قدر و منزلت حضرت جؒی کے ان الفاظ کے بعد مزید کسی وضاحت کی محتاج نہیں جو آپؒ نے ان کی وفات پر پسماندگان کو تحریر فرمائے:
‘‘ آپ (مولوی فضل حسیؒن) عالم برزخ میں خوب اچھے حال پر ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰه!
مکن گریہ برگورِ مقبول دوست
بر اُو خُرّمی کُن کہ مقبولِ اوست
مقبولِ خدا کی قبر پر مت رو بلکہ خوشی کرو کہ وہ خدا کا مقبول بن گیا۔’’
لاہور قلعہ والے غوثؒ
            مولانا احمد علی لاہوریؒ کو کشفاً شاہی قلعہ کی فصیل کے نیچے ایک غوث کے مرقد کا مشاہدہ ہواتو انہوں نے لکھ دیا کہ اصلی سیّد علی ہجویؒری کا مرقد لاہور قلعہ میں ہے اور سیّد علی ہجویؒری وہ نہیں جو داتا صاحب کے نام سے معروف ہیں۔ حکیم محمد صادق نے ایک مرتبہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزارپر حاضری دی تو روحانی کلام کے دوران انہوں نے فرمایا کہ حضرت جؒی لاہور آتے ہیں، اس مرتبہ یہاں آنے کے لئے کہیں۔ حضرت جؒی کی لاہور آمد پر اس خواہش کا اظہار کیا تو رات کے وقت آپؒ مزار پر آئے اور چوتھے عرش سے آگے توجہ دی۔ یہاں سے حضرت جؒی شاہی قلعہ کے لئے روا نہ ہوئے اور براستہ ٹکسالی گیٹ قلعہ کے بڑے دروازے تک جا کر رک گئے، روحانی کلام فرمایا اور انہیں اگلی منازل پر توجہ دی۔ حضرت جؒی نے     مولانا احمد علی لاہوریؒ کے مشاہدہ کے متعلق فرمایا:
‘‘مولانا لاہوری کو غلطی لگی ہے۔ یہاں اور ہیں، وہاں اور ہیں۔ داتا صاحب اپنی جگہ پر موجود ہیں، نحیف و نزار ہیں، قطب ِمدار ہیں۔ قلعہ میں جو ہیں وہ اپنے وقت کے غوث تھے اور داتا صاحب سے قریباً ایک سو سال پہلے آئے۔ جسمانی طور پر بھاری بھرکم، سرخ داڑھی ہے۔ اصل میں دونوں ایک ہی جگہ اور ایک ہی خاندان کے تھے۔ غوث صاحب نے دریا کے کنارے آکر قیام فرمایا۔ اللہ سے دعا کی کہ میری قبر کو پرستش کی جگہ نہ بننے دینا[3]۔’’
 ڈھلوال میں حلقہ ٔ ذکر
            1963ء میں حضرت امیر المکرم ڈلوال (ضلع چکوال) کے مڈل سکول میں بطور مدرّس تعینات ہوئے۔وہاں کے عمائدین کو دعوتِ ذکر دی تو ان میں سے راجہ محمد یوسف اور راجہ عبدالمالک نے ذکر شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے ان کی زندگیوں میں ایسا انقلاب برپا ہوا جو دیکھنے والوں کے لئے باعث حیرت اور دعوت کا مؤثر ذریعہ بنا۔ یہاں کے ذاکرین میں سے ایک صاحب شراب کشید کیا کرتے تھے لیکن ذکر کی برکات کے سبب اس شغل سے جلد ہی تائب ہوگئے۔
            اس سے قبل ڈھلوال کو یہ شرف حاصل تھا کہ 1933ء میں یہاں حضرت جؒی کی دستار بندی ہوئی تھی لیکن اب ڈلوال کو یہ شرف بھی ملا کہ منارہ اور چکوال کے بعد یہ تیسری جگہ تھی جہاں احبابِ سلسلہ کے دو اجتماعات منعقد ہوئے۔
            1964ء میں حضرت جؒی ڈھلوال تشریف لائے تو لاہور سے حکیم محمدصادق بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوران محفل حکیم صاحب اپنے علاقہ کے مشہور بزرگ حضرت سلطان باہؒو کے متعلق سوچ رہے تھے کہ حضرت جؒی نے انہیں قریب بلایا اور فرمانے لگے:
‘‘کبھی سلطان باہو گئے ہو؟’’
            عرض کیا، کئی بار گیا ہوں۔
آپؒ نے فرمایا:
‘‘میرے دل پر خیال کرو۔ ’’
            حکیم صاحب نے اس طرح محسوس کیا جیسے رات کو ستارہ ٹوٹتا ہے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی دیکھا کہ دریا کے کنارے کھڑے ہیں اور سامنے تخت پر ایک بزرگ تشریف فرما ہیں۔ حضرت جؒی کے دریافت کرنے پر حکیم صاحب نے حلیہ بیان کیا تو آپؒ نے تصدیق فرمائی اور کہا، اپنا سلام پیش کرو۔ جواب ملنے پر آپؒ نے فرمایا، اب میری طرف سے سلام پیش کرو۔ اس پر وہ کھڑے ہو گئے، سلام کا جواب دیا اور پھر بیٹھ گئے۔ حضرت جؒی فرمانے لگے، تمہیں کلام کرانا مقصود تھا۔ حضرت جؒی کی عادت مبارکہ تھی کہ صاحب کشف ساتھیوں کا اہل برزخ سے رابطہ کراتے ہوئے روحانی کلام میں ان کی تربیت فرماتے۔
          حضرت امیر المکرم کے نور پور تبادلے کے بعد اجتماعات کا سلسلہ ان کے موضع سیتھی کے مضافاتی ڈیرے پر منتقل ہو گیا۔ اس کے بعد بھی حضرت جؒی کئی مرتبہ ڈلوال تشریف لائے اور احباب کے ہمراہ مختصر قیام فرمایا۔
کراچی اور کوئٹہ
            کراچی میں سلسلۂ عالیہ کے تعارف کا ذریعہ فوجی حضرات بنے جس کے نتیجے میں حضرت جؒی نے 1966ء میں یہاں کا پہلا دورہ کیا۔ ان واقعات کا تفصیلی ذکر الگ باب میں کیا جائے گا۔ جہاں تک کوئٹہ یا بلوچستان کے دیگر شہروں کا تعلق ہے، دعوت کی ابتدا علماء سے ہوئی جس کا مؤثر ترین ذریعہ دلائل السّلوک تھی۔ کوئٹہ میں چلتن مارکیٹ کی مسجد کے خطیب مولانا عبدالقادر ڈیرہوی تک دلائل السلوک اور سلسلۂ عالیہ کی دعوت پہنچی تو ان کی مسجد میں پہلا حلقہ ٔ ذکر قائم ہوا۔ مولانا ڈیرہوی کی دعوت پر حضرت جؒی 1967ء میں پہلی مرتبہ کوئٹہ تشریف لائے اور اسی مسجد میں قیام فرمایا۔ آپؒ کے اس دورہ میں ڈیری فارم مسجد کے خطیب قاری یار محمد بھی سلسلۂ عالیہ سے منسلک ہوئے۔ اس کے بعد آپؒ نے کوئٹہ کے دوروں میں ہمیشہ قاری صاحب کی مسجد میں قیام فرمایا۔
            1968ء میں حضرت جؒی نے کوئٹہ کا تیسرا دورہ کیا۔اس دورہ میں آپؒ نے ڈیری فارم کی مسجد میں نمازِ عصر پڑھائی تو راجہ محمدیوسف نے کشفاً دیکھا کہ کراماً کاتبین نے اس نماز کا اندراج کمتر درجہ میں کیا ہے۔ دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ واسکٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کیا تو آپؒ نے فرمایا کہ حدیث پاک کے مطابق گریبان بند کرنے کی تلقین ہے خواہ کانٹے ہی کیوں نہ لگانے پڑیں۔ اس کے بعد حضرت جؒی احباب کو اکثر تلقین فرمایا کرتے کہ نماز ادا کرتے ہوئے واسکٹ کے بٹن بند رکھا کریں کیونکہ لباس کو اس کے قاعدے کے مطابق پہننے کا حکم ہے۔
            حضرت جؒی اپنے دوروں میں اس بات کا اہتمام فرماتے کہ خوراک حلال اور طیّب ہو۔اسی دورے میں ایک فوجی صوبیدار کے گھر خواتین کے ذکر کا پروگرام بھی رکھا گیا۔ذکر کے بعد جب چائے پیش کی گئی تو آپؒ نے صرف ایک آدھ بسکٹ پر اکتفا کیا اور چائے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ آپؒ کی اتباع میں کسی بھی ساتھی نے چائے نہ پی۔ بعد میں قاری یار محمد نے تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ چائے بناتے ہوئے دودھ پھٹ گیا تھا اور عجلت میں قریبی یونٹ کے لنگر کادودھ استعمال کیا گیا ۔
            کوئٹہ کے اس دورہ کے دوران  ڈلوال ضلع چکوال کے ایک شخص عنایت اللہ نے حضرت جؒی کو کھانے پر مدعو کیا۔ آپؒ نے دریافت فرمایا، کیا کام کرتے ہو؟ اس شخص نے جب بتایا کہ بینک منیجر ہوں تو آپؒ نے اس کی دعوت قبول نہ کی اور فرمایا:
‘‘نوکری چھوڑ دو، میں دعا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ تمہیں دین کی سمجھ عطا کرے گا۔’’
            اگلے سال حضرت جؒی کوئٹہ تشریف لائے تو اس نے اپنی درخواست دوبارہ پیش کی۔ آپؒ نے پھر وہی سوال دہرایا لیکن جب معلوم ہوا کہ وہ بدستور بینک کی نوکری کر رہا ہے تو سختی سے فرمایا کہ نوکری چھوڑ دو، میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ تمہیں دین کی سمجھ عطا کرے گا۔ آپؒ کے ان الفاظ کا اس پر اس قدر اثر ہوا کہ بقیہ دورے میں آپؒ کے ساتھ رہا، ذکر شروع کر دیا، داڑھی کی سنت چہرے پر سجالی اور جب حضرت جؒی واپس لوٹے تو نوکری چھوڑ کر ایران سے ہوتا ہوا جرمنی چلا گیا۔ وہاں اسے بہت اچھی ملازمت مل گئی، میڈیکل کا ایک کورس بھی کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس قدر خوش حال کیا کہ جب کئی سال بعد واپس لوٹا تو ڈلوال میں تین دینی مدرسے قائم کئے، ایک عورتوں کے لئے اور دو مردوں کے لئے، جن کا نگران وہی سابق بینک منیجر تھا لیکن حضرت جؒی کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دی تھی۔
            1968ء کے دورہ میں ڈلوال ہی کا ایک 18 سالہ نوجوان راجہ منظور احمد، حضرت جؒی کے سامنے پیش ہوا۔ کوئٹہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں مقیم تھا لیکن اس کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا ایک عیسائی گھرانے میں تھا اور دین کی سمجھ تھی نہ عمل کی رغبت۔ اس کے حالات دیکھتے ہوئے حضرت جؒی اپنی چائے میں سے ایک دو گھونٹ اسے پلا دیتے یا باقی ماندہ کھانا اسے کھلا دیتے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ دو روز بعد گھر سے بستر اٹھا لایا۔ حضرت جؒی نے خود اس کے لئے مٹھائی منگوائی اور دینی تعلیم کے لئے قاری یار محمد کا شاگرد بنا دیا۔ حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ حاضر ہوتا رہا اور اقربیت تک منازل طے کیں۔ کالج کی ٹیم کے ساتھ سوات گیا لیکن وضو کرتے ہوئے دریا میں گرا اور شہادت پائی۔ حضرت جؒی سے عرض کیا گیا تو فرمایا:
‘‘جہاں ہے ٹھیک ہے، اسے تلاش نہ کریں۔’’
            یہی ہوا، اس کی تلاش میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا لیکن ہر کوشش بے سود رہی۔ زندگی کی مہلت تو طے شدہ تھی، حضرت جؒی کی صحبت نصیب ہوئی تو جواں عمری میں ہی ولایت سے سرفراز ہوا۔



[1]ـ سیر نظری کی مثال ایسے ہے جس طرح انسان کو اجرامِ فلکی کا مشاہدہ تو حاصل ہے اگرچہ وہ اس سے لامتناہی فاصلوں پر ہیں اور اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اسی طرح کسی مقام سلوک تک پہنچے بغیر صرف اس کا مشاہدہ نصیب ہو جائے تو اسے سیر نظری کہتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت جیؒ نے فرمایا کہ روح کی نظر کروڑوں میلوں تک نہیں، اربوں میلوں تک جاتی ہے۔
[2]ـ  ڈاکٹر فاروق عبدالحق جو بعض اوقات پرانے تشخص کے حوالے سے اپنا نام بطور‘‘Bob Crane   فاروق’’  لکھتے ہیں، اس وقت AMERICAN MUSLIM COUNCIL  کے روحِ رواں ہیں اور حضرت امیرالمکرم سے رہنمائی کے لئے ان کی خط و کتابت جاری رہتی ہے۔ 1991ء میں ناظمِ اعلیٰ کے دورہ امریکہ کے دوران ان کے تعاون سے امریکی مسلمانوں کے لئے سلسلہ ٔعالیہ کا مختصر تعارف THE NAQSHBANDIAH OWAISIAH ORDER By Abu Talhaلکھا گیا۔ اس وقت نیومیکسیکومیں Center for Civilizational Renewal Naqshbandiah Owaisiah Order  سے ڈاکٹر صاحب کا علمی اور تحریری کام جاری ہے ۔
[3]۔ یہ اس دعا کی قبولیت ہے کہ بہت کم اصحابِ مشاہدہ حضرت غوثؒ کی قبر کا تعین کر سکے اور انہیں بھی نشاندہی کی اجازت نہ تھی۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو