روحانی بیعت
انسان پوری عمر مجاہدوں میں گزار دے، ریاضتیں
کرے، وظائف کرتا رہے لیکن یہ اس کے بس کی بات نہیں کہ عالمِ بیداری میں روحانی طور
پر در ِ اقدسﷺ پر حاضری دے سکے جبکہ درمیان میں
برزخ کا لامتناہی فاصلہ حائل ہے۔ حضرت جؒی
کی توجہ سے زمان و مکاں کے سبھی فاصلے طے ہو جاتے اور آپؒ جس کا ہاتھ تھام لیتے اسے
دربار ِعالیﷺ میں حاضری کا پروانہ مل جاتا۔
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
جب
تک سلسلۂ عالیہ حضرت جؒی کو منتقل نہیں ہوا تھا، احباب کوروحانی بیعت کی توثیق کے
لئے لنگرمخدوم میں حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر پیش کیا
جاتا لیکن سلسلۂ عالیہ منتقل ہو نے کے بعد توثیق ِبیعت کی ضرورت باقی نہ رہی۔
روحانی بیعت کے وقت منارہ کے اجتماع میں ایسے
روح پرور نظارے دیکھنے میں آتے جو تاریخ ِتصو ّف میں خال خال ملتے ہیں۔ بیعت سے
قبل احباب کے ساتھ خوب محنت کی جاتی اور اجتماعی اذکار کے دوران حضرت جؒی کے قریب
بٹھایا جاتا۔ کشفاً خوب چھان پھٹک ہوتی لیکن اس کے باوجود بعض احباب کو روحانی بیعت
کے لئے پیش کرتے ہوئے حضرت جؒی محسوس کرتے کہ انہیں رد تو نہ کیا گیا لیکن ناپسندیدگی
کا اظہار فرمایا گیا۔ ایسی صورت میں حضرت جؒی بیعت کے بعد فرماتے کہ استغفار اور
اصلاح کی ضرورت ہے، بیعت کراتے ہوئے سخت تکلیف ہوئی ۔ایک مرتبہ آپؒ نے ایک شخص کو
بیعت کے لئے پیش کیا تو اسے واپس لوٹا دیا گیا۔آپؒ سخت متاسف ہوئے اور
فرمایا کہ اس شخص سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوا ہے جو مانع قبولیت تھا ۔ اس وقت اس شخص کی گریہ زاری کا یہ عالم تھا کہ حاضرین پر بھی
رقت طاری ہو گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ماضی میں اس کا تعلق ایک ایسے مکتب ِفکر سے
رہا تھا جن کے ہاں مقامِ رسالتﷺ کے بارے میں قرینۂ
ادب
ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور
ایک عرصہ ذکر کرنے کے باوجود دل کے کسی کونے کھدرے میں گستاخانہ عقائد
کے اثرات ابھی تک باقی تھے، العیاذ باللہ۔
روحانی
بیعت کے موقع پر احباب کو بارگاہ ِنبویﷺ سے
تحائف بھی عطا ہوتے جن کا تعلق بالعموم دینی خدمات سے ہوا
کرتا جیسے قائدانہ صلاحیتوں اور فروغ دین کی خدمات کے لئے اسلام کا جھنڈا عطا ہوتا،
تلوار عطا ہوتی جو طاغوتی قوتوں کے خلاف جہاد کی علامت ہے اور قرآنِ حکیم یا حمائل
شریف عطا فرمائے جاتے ۔ بعض احباب کو قلم عطا ہوا جس کے بعد انہیں علمی شعبہ میں
کام کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔روحانی بیعت مکمل ہونے کے بعد حضرت جؒی اکثر فرمایا
کرتے:
‘‘ہم نے اپنا کام مکمل کر دیا، اب ہر شخص خود
ذمہ دار ہے کہ وہ دربار ِنبویﷺ کے کارندے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرے۔’’
دعا سے پہلے حضرت جؒی سورة الفتح کی یہ آیت تلاوت
کرتے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا
يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَط يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيهِمْ ج فَمَنْ
نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖج وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ
عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيمًا o
بے شک جو لوگ آپ سے
بیعت کرتے ہیں وہ (واقعی میں) اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر
ہے تو (بیعت کے بعد) جو عہد کو توڑے، تو توڑنے والے کا وبال خود اسی پر ہے۔ اور
جوشخص اس بات کو پورا کرے گا جس کا (بیعت میں) اللہ سے عہد کیا ہے تو وہ اسے
عنقریب اجرِعظیم عطا فرمائیں گے۔(الفتح۔10)
حضرت
جؒی اس قدر سوز اور درد سے یہ آیت تلاوت فرماتے کہ روحانی بیعت کی سعادت سے بہرہ
ور احباب جواب دہی کے خوف سے کانپ اٹھتے۔کیا وہ روحانی بیعت کے بعد اپنی ذمہ داریوں
سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کوشاں ہیں؟ کیا ان کے شب و روز کے معمولات ایسے ہیں کہ
انہیں دربار ِنبویﷺ کے خادم اور ہرکارے تصور کیا جا سکے اور کہیں ایسا
تو نہیں کہ اس آیت کی رو سے وہ عذابِ الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں؟
روحانی
بیعت بالعموم منارہ کے سالانہ اجتماع میں نماز ِمغرب کے بعد یا رمضان المبارک کے
آخری عشرہ میں چاشت کے وقت اجتماعی ا ذکار میں کرائی جاتی۔ استثنائی صورت میں حضرت
جؒی نے پاکستان سے باہر جانے والی راولپنڈی کی ایک خاتون کی روحانی بیعت کے لئے
حضرت امیرالمکرم کو مامور فرمایا۔ اسی طرح 1974ء میں آپ نے حافظ
عبدالرزاقؒ کو مخدوم صدرالدینؒ کی صاحبزادی کو روحانی بیعت کرانے کے لئے کوٹ میانہ
بھجوایا جو حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے ساتھ اوائل عمر میں ذکر کیا کرتی تھیں۔
حضرت جؒی کا یہ معمول تھا کہ اجتماعی ذکر سے قبل
وضو تازہ فرماتے۔ اس اثناء میں احباب ذکرکے لئے صفیں بنالیتے اور آپؒ کی آمد تک
حالت ِمراقبہ میں رہتے۔ذکر شروع کرنے سے پہلے حضرت جؒی مندرجہ ذیل کلمات بآواز
ِبلند اسی ترتیب سے پڑھتے:
سُبْحَانَ اللّٰہِ
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
وَاللّٰہُ اَکْبَرْ
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ [1]
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ذکر میں شریک تمام اصحاب آپؒ کے ساتھ یہ کلمات آہستہ
آہستہ دہراتے جس کے بعد آپؒ فرماتے:
‘‘اللہ،اللہ،
اللہ ھو...... چلو قلب !’’
اور
اس کے ساتھ ہی ذکر شروع ہو جاتا۔
ان
مبارک محافل کی روداد الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ انوارات و تجلیات اور روح
پرور کیفیات جنہیں صرف قلوب محسوس کرتے اور کئی خوش نصیب ساتھی نگاہ ِبصیرت سے ان
کا مشاہدہ کرتے۔اس عالم میں حضرت جؒی کی پرسوز آواز دلوں میں تلاطم برپا کر دیتی۔
کبھی آپؒ کی زبان مبارک پر قرآنی آیات اور کبھی فارسی اشعار جاری ہو جاتے جس کے
بعد اکثرآپؒ کی آواز رقت میں ڈوب جاتی۔ ضبط و احتیاط ان محافل کا قرینہ تھا لیکن
جب احباب سے ضبط کا دامن چھوٹ جاتا تو حضرت جؒی بآواز بلند کہتے، اللہ! اللہ! اس
کے ساتھ ہی زبانوںپر پہرہ لگ جاتا اور صرف لطائف پر ضربوں کی آواز باقی رہ جاتی۔
1975ء کے منارہ کے اجتماع میں ایسی ہی ایک محفل کی روئیداد
اتفاقاً ریکارڈ کر لی گئی۔ عین ممکن ہے اس کے واسطے سے کسی قاری کو اس محفل کی کیفیات
کا کوئی شِمہ نصیب ہو جائے۔ ریکارڈنگ شروع ہوئی تو ذکر کا آغاز ہو چکاتھا اور لطیفۂ قلب پر ضربوں کی بھرپور آواز
سنائی دے رہی تھی جس سے احباب کے مجاہدے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں حضرت
جؒی کی آواز سنائی دی:
‘‘دوسرا لطیفہ’’
خاصی دیر تک اس لطیفہ پر اللہ ھو کی
ضربوں کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ آپؒ کی آواز پھرسنائی دی۔
‘‘تیسرا لطیفہ’’
لطائف تبدیل کرانے کا یہ سلسلہ جاری
رہا یہاں تک کہ ساتویں لطیفے کے بعد حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘چلو پہلا لطیفہ’’
حضرت جؒی کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ
ساتوں لطائف کی تکمیل کے بعد لطیفہ ٔ قلب کو دوبارہ اتنا ہی وقت دیا کرتے تھے جس
قدر ذکر کے آغاز میں یہ لطیفہ کراتے۔ لطائف کے دوران آپؒ اکثر فرمایا کرتے :
‘‘تیزی اور قوت’’
آپؒ کی اس عمومی ہدایت کے مطابق احباب
تیزی اور قوت کے ساتھ لطیفہ ٔ قلب پر ضربیں لگاتے رہے یہاں تک کہ آپؒ کی آواز سنائی
دی:
‘‘مراقبہ احدیت’’
لطائف والے دل پر خیال کر کے بیٹھ
جاؤ۔
فَاِذُّاللہ، مُنزہ ،بے چُون و چگوں
اِلٰھُکُمْ اِلٰہُ وَّاحِدْ ... وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَکَ یَا اَللّٰہ
زمیں زادہ برآسماں
تافتہ
زمین و زماں را پس انداختہ
زمین و زماں را پس انداختہ
(زمیں زادہ زمین و زماں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آسمانوں کی طرف محو پرواز
ہوا)
وَحْدَہٗ...............’’
پھر طویل خاموشی کے بعد
فرمایا:
‘‘اللہ ! اللہ! اللہ............’’
طویل خاموشی،پھر فرمایا:
‘‘ مراقبۂ معیت’’
چلو مولانا ...... چلو مراقبہ ٔ معیت، اللہ ھو.....’’
کافی دیر تک مراقبۂ معیت
جاری رہا جس کے بعد آپؒ نے فرمایا:
‘‘مراقبہ ٔ اقربیت’’
چلو مولوی صاحب..... چلو مولانا، اللہ
ھو........
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ o’’
اس کے بعد دوائر ثلاثہ کا آغاز ہوا اور آپؒ نے فرمایا:
‘‘ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ
يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ ط
‘‘ دائرہ محبت اوّل’’
اصل
دائرہ، اسمائے صفات میں سے اوپر نفس میرے
کے،
یُحِبُّھُم
وَیُحِبُّوْنَہٗ .........
مقامِ نفس کے گرداگرد، گول نورانی دائرہ ......
یُحِبُّھُم
وَیُحِبُّوْنَہٗ .........
‘‘دائرہ محبت دوم ’’
اصل اصل دائرہ، اسمائے صفات میں سے اوپر نفس میرے
کے
یُحِبُّھُم وَیُحِبُّوْنَہٗ
پہلے
دائرے کے اوپر دوسرا گول نورانی دائرہ
یُحِبُّھُم وَیُحِبُّوْنَہٗ .......
‘‘دائرہ
محبت سوم’’
اصل اصل اصل دائرہ، اسمائے صفات میں سے اوپر نفس میرے کے
یُحِبُّھُم
وَیُحِبُّوْنَہٗ .......
‘‘
مراقبۂ اسم ظاہر وا لباطن’’
هُوَ الاَوَّلُ وَالَّآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
وہی
دائروں کا نور دیکھ لو روح کے اندر اور باہر
ظاہر
اور باطن نور’ روح میں دیکھو.........
هُوَ الاَوَّلُ وَالَّآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
‘‘مراقبۂ عبودیت’’
وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ
يَسْجُدَانِ o
سُبْحَانَ ربِّیَ الْاَعْلٰی
سجدے میں پڑ جاؤ .........
سُبْحَانَ ربِّیَ الْاَعْلٰی۔
وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ
يَسْجُدَانِ o
آسمان کی طرف خیال کرو۔ زمین کی طرف، فرشتوں کی
طرف، تمام پہاڑوں اور درختوں کی طرف، سب سجدے میں ہیں، کسی طرف بھی دیکھو۔ ہر چیز
کا سجدہ علیحدہ علیحدہ دیکھ لو۔
وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ o سُبْحَانَ ربِّیَ الْاَعْلٰی
ہر ایک چیز کی زبان سے یہ نکل رہا ہے۔
سُبْحَانَ ربِّیَ الْاَعْلٰی..........
‘‘فنا فی اللہ’’
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ o ....ساری
چیزیں اٹھ گئیں۔
لاَ اِلٰہَ ...اس کے نیچے رکھ دو
سب، سب اٹھ گیا۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ o
اَلَآ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلاَ اللّٰہِ
بَاطِل
(سنو! ہر چیز اللہ کے سوا مٹ جانے والی ہے)
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامَحَالَۃَ زَائِل
(اور ہر نعمت یقیناً ختم ہونے والی ہے۔)
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ o
سب اٹھ گیا، اندھیری رات ہے۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ o... اَللّٰہ اَللّٰہ .....
یہ
ہے مخلوق کی حالت..... ہرفانی.....
ہمہ
نیستند آنچہ ہستی توئی ۔۔۔ (صرف توہی تو ہے ہمارا
کوئی وجود نہیں)
‘‘بقا باللہ’’
وَيَبْقٰى
وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْاِ كْرَامِo
وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْاِ كْرَامِ o.......
تجلیات ِباری سمندر کی لہروں کی طرح، ہر طرف
انوار ہی انوار، تجلیات ہی تجلیات، بے
کیف و بے ذاق.......
وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْاِ كْرَامِ o.......
اللہ
........
‘‘
سیرِکعبہ’’
اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ
چلومولانا
سیرِکعبہ، چلو مولوی عبدالقدوس صاحب
اللہ
ھو............
یہ
ہے سیرِ کعبہ.....
مقامِ
ملتزم پر کھڑے ہو جاؤ، دروازے کے نیچے.....
چلو
طواف .... وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ o.......’’
اس کے بعد زیر لب فارسی شعر پڑھتے ہوئے حضرت جؒی پر
رقت طاری ہو گئی۔
‘‘ اَللّٰھُمَّ
لَبَّیْکَ......
چلو مولانا بیت اللہ کے سامنے دروازے کے نیچے
کھڑے ہو جاؤ، دیکھو خیال کرو۔
‘‘روضۂ اطہر ’’
اللہ ھو ..........چلو مولانا ،
روضۂ اطہر کے اندر چلے جاؤ ............’’
روضۂ اطہرﷺکے مراقبہ میں حضرت جؒی بعض اوقات رقت میں ڈوبی
ہوئی پُرسوز آواز میں سورۃ النساء کی آیت نمبر 64 کا یہ حصہ بھی
تلاوت فرمایا کرتے:
وَلَوْ
اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ
وَاسْتَغْفَرَ
لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
اور اگر یہ لوگ جب اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے تھے تو آپ کی خدمت میں حاضر
ہوتے پھر اللہ سے معافی چاہتے اور پیغمبر بھی ان کے لئے معافی چاہتے تو ضرور اللہ
کو قبول کرنے والا رحمت کرنے والا پاتے۔
روضۂ
اطہرﷺ کا مراقبہ خاصا طویل تھا جس کے بعد حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘ مسجدِ نبوی’’
چلو مولانا، اندر چلو مولانا، اللہ
ھو....اور دیکھ لو سامنے’’
اس کے بعد حضرت جؒی نے رقت میں
ڈوبے ہوئے چند الفاظ زیر ِلب کہے جو واضح نہ ہونے کی وجہ سے ضبطِ تحریر میں نہیں
لائے جا رہے۔ اب ساتھیوں
کی روحانی بیعت کا آغاز ہوا اور آپؒ نے پہلے ساتھی کا نام لے کر فرمایا:
‘‘چلو ڈاکٹر ........ صاحب، چلو
بیٹھ جاؤ، سامنے حضورﷺ
کے بیٹھو اور سامنے دیکھ لو۔
چلو
حکیم ..... صاحب، ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، بائیں طرف، کھبی طرف،
چلو......،
ساتھ ہی بیٹھ جاؤ حکیم صاحب کے،
بیٹھ
جاؤ، کھبی طرف، بائیں طرف،
مولانا
آپ غور کریں۔’’
یہ
مولانا صاحب ِکشف تھے اور اس روز ان کو مسجد نبویﷺ تک مراقبات کرائے گئے تھے لیکن
روحانی بیعت کے لئے مزید وقت اور محنت کی ضرورت تھی۔ حضرت جؒی نے انہیں روحانی بیعت
کی اس کارروائی کو غور سے دیکھنے کی ہدایت فرمائی ۔
‘‘چلو ڈاکٹر ...... صاحب، آگے بڑھاؤ ہاتھوں کو،
دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو۔ حضورﷺ کا دایاں ہاتھ، سجا ہاتھ،بوسہ
دو، دیکھ لو، غور کرو نظر آئے گا، کچھ نہ کچھ تو ضرور آئے گا، بوسہ دو۔ چلو ان کے ساتھ ہی صدیق ِاکبرt بیٹھے
ہیں، دائیں طرف۔ پکڑ لو بازوان کا، ان کا ہاتھ پکڑ لو، بوسہ دو ہاتھ کو۔ چلو آگے،
چلو سّیدِنا علی المرتضیٰt کے پاس، بیٹھ جاؤ۔ ان کے سامنے بیٹھو، پکڑ لو ان کا ہاتھ، بوسہ دو
ہاتھ کو۔ چلو واپس آ جاؤ حضورﷺ کے پاس۔ اپنی جگہ پر آ جاؤ، لے لو
قرآن کریم، چھاتی سے لگا لو۔ آپ میں کچھ عیب ہیں، خیال رکھیں ان کو دور کریں، بیعت
میں بڑی تکلیف ہوئی ہے۔ پاسے ہو جاؤ۔
چلو حکیم ..... صاحب، آگے۔ دونوں ہاتھ آگے
بڑھاؤ، ہاتھ پر بوسہ دو۔ چلو ساتھ صدیق ِ اکبرt کے پاس۔ پکڑ لو ان کا ہاتھ، بوسہ دو ہاتھ کو۔ چلو آگے سّیدِنا علی
المرتضیٰt، دو آدمیوں کو چھوڑدو تیسرے آدمی۔ بیٹھ جاؤ پکڑ لو ان کا دایاں
ہاتھ۔ چلو واپس حضورﷺ کے پاس آ جاؤ۔ لے لو، آپ کو صرف
جھنڈا دیا جارہا ہے، جھنڈا پکڑ لو۔ اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے آخر تک۔
چلو........ جاں، چلو سامنے بیٹھو، سبحان
اللہ.......
پکڑ لو ہاتھ حضورﷺ کا،
بوسہ دو ہاتھ پر، سامنے دیکھو (معلوم ہوتا ہے اس موقع پریہ صاحب متوجہ
نہ رہ سکے) ساتھ ہی دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں، صدیق ِاکبرt کا ہاتھ پکڑ
لو، بوسہ دو ہاتھ پر۔ چلو آگے سّیدِنا علی المرتضیt کے پاس۔ جہاں میں جا رہا ہوں میرے پیچھے چلے آؤ، بیٹھ جاؤیہاں،
پکڑ لو ہاتھ دایاں، بوسہ دو ہاتھ کو۔ واپس آ جاؤ، لے لو، حمائل شریف دے رہے ہیں۔
چلو(چوتھے خوش نصیب کا
نام لیا)، تشہد کی صورت میں بیٹھو۔ ہاتھ دونوں آگے بڑھاؤ۔ سامنے خیال بھی کیا کرو
(ساتھی متوجہ نہ رہ سکا تو آپؒ نے تاکیداً فرمایا) بوسہ دو ہاتھ پر۔ چلو آگے صدیق
اکبرt کا ہاتھ پکڑ لو، بوسہ دو ہاتھ کو۔ چلو آگے سیدنا
علی المرتضیٰt کے
پاس،بیٹھ جاؤ، دونوں ہاتھ پکڑ لو، بوسہ دو۔ واپس آجاؤ، لے لو جھنڈا، جھنڈا دے رہے
ہیں، پکڑ لو اسلام کا جھنڈا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا
يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَط يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيهِمْ ج فَمَنْ
نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖج وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ
عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيمًا o
یہ،
یہاں تک ہمارا کام تھا جو کر دیا ہے۔ اب آپ کو علم ہو چکا ہے۔
اس
کے بعد اگر آپ کچھ غلطیاں کریں گے، یاد رکھنا! ……
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ،
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَالْعَاقِبَۃُ
لِلْمُتَّقِیْنَ وَالْصَلٰوۃُ وَالْسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم .......’’
اس محفل ِذکر کی ریکارڈ شدہ کیسٹ میں
لطائف کرتے ہوئے حضرت جؒی کی آواز کے علاوہ ایک اور شخص کی آواز بھی مسلسل سنائی دیتی
رہی۔ حضرت جؒی لطیفہ تبدیل کرانے لگتے تو ساتھ ہی وہ بھی اس قدر بلند آواز میں
پکارتا کہ آپؒ کی آواز اس کی آواز میں دب جاتی۔ کبھی ساتھیوں کو توجہ دینے کی کوشش
کرتے ہوئے کچھ اس طرح زور لگاتا کہ منہ سے ‘‘ہوں’’ کی آواز نکالتا اور اس ‘‘ہوں’’
کو زور کی مناسبت سے خوب لمبا کھینچتا۔ اس دوران ایک ساتھی کی زبان سے بے ساختہ یہی
آواز نکل گئی تو اسے ڈانٹ پلائی، اسے باہر نکالو جو آواز نکالتا ہے۔ ساتھ ہی توجہ
دینے کی کوشش میں اپنے منہ سے نکل گیا ‘‘ہوں’’ (خوب لمبا کھینچتے ہوئے)۔پانچویں لطیفے
کے دوران فارسی اشعار پڑھنے شروع کر دیئے۔ ساتویں لطیفے میں اللہ ھو کی بجائے نعرہ
لگایا ‘‘ھُواللہ...... فنا کر دو’’ اوراس کے ساتھ ہی بآواز بلند قرأ ت شروع کر دی،
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍo یہ آواز مولوی سلیمان کی تھی۔
صاف محسوس کیا جا سکتا تھا کہ حضرت جؒی کی موجودگی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا
رہی ہے کہ میں بھی کچھ ہوں لیکن کب تک؟ حضرت جؒی کے ساتھ نہ چل سکا اور راستہ بدل
لیا جس کا تذکرہ تلبیس ابلیس کے باب میں آرہا ہے۔
ہر دور میں اس صورت ِحال کا اعادہ ہوتا ہے اور
ہوتا رہے گا۔ شیخ بننے کی خواہش شیطان کے مختلف ہتھکنڈوں میں سے ایک مہلک وار ہے
جس کے سامنے کئی صاحب ِمنصب ڈھیر ہوئے۔ اگر کبھی کسی دل میں ایسی کوئی امنگ جنم لے
رہی ہوتو یہ خوش قسمتی ہو گی کہ ان صاحب کے تذکرے کو تنبیہ خیال کرتے ہوئے اپنی
عظمت منوانے کی خواہش کو دل سے نکال دیا جائے جو صرف ذات سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کو
سزاوارہے۔ حدیث قدسی کے الفاظ میں، الکبر ردائی(کبر میری چادر ہے)۔
ظاہری بیعت
حضرت
جؒی نے کبھی پسند نہ فرمایا کہ آپؒ کو شیخ یا پیر کہا جائے۔ آپؒ کی زندگی کا نصب
العین اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے بندوں کے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے استوار کرنا
تھا جس کے لئے آپؒ نے ذکر و فکر کا راستہ اختیار کیا۔ آپؒ ایک استاد کی طرح اپنے
متعلقین کی تربیت کرتے اور پسند فرماتے کہ آپؒ کا ذکر ایک پیر کی بجائے استاد ہی کی
حیثیت سے کیا جائے۔ آپؒ کی یہ خواہش محض کسر ِنفسی کی حد تک نہ تھی بلکہ دورانِ
گفتگو احباب نے آپؒ کا تذکرہ ہمیشہ ‘‘استاد’’ کے لقب سے کیا، خود کو ‘‘شاگرد’’ کہا
اور احباب کے باہمی تعلق کے اظہار کے لئے ‘‘ساتھی’’ کی اصطلاح استعمال کی۔
حضرت جؒی کی خدمت میں عوام بھی آئے اور خواص بھی۔ ایسے
احباب بھی تھے جن کے پاس کئی سلاسل کا خرقہ ٔ خلافت تھا اور وہ لوگوں سے بیعت لیتے
لیکن خود حضرت جؒی سے درخواست کرتے کہ آپؒ انہیں بیعت کریں۔ آپؒ کا ہمیشہ یہ جواب
رہا کہ میں بیعت لیتا نہیں، میں ایک معلم ّہوں، اسلامی تصوف اور سلوک کی تعلیم دیتا
ہوں جو دنیا سے ناپید ہو چکا ہے اور جب طالب میں استعداد پیدا ہوجاتی ہے تو اسے
براہ راست آقائے نامدارﷺ کے ہاتھ پر روحانی بیعت کرا دیتا ہوں جو
سارے جہاں کے پیر ہیں۔ قریباً تیس سال تک حضرت جؒی کا یہی معمول رہا۔ اس اثناء میں
کئی لوگ سالہا سال آپؒ کی صحبت میں گزارنے کے باوجود استعداد نہ ہونے کی وجہ سے
روحانی بیعت کی سعادت سے محروم رہے۔ حضرت جؒی چونکہ خود بیعت نہ لینے کے اصول پر
سختی سے کاربند تھے، ایسے حضرات روحانی بیعت سے محرومی کے ساتھ ساتھ سلسلۂ عالیہ
کی نسبت سے بھی محروم رہ جاتے۔
11 جولائی 1976ء کو سالانہ اجتماع کے
موقع پرحضرت جؒی کو دربار ِ نبویﷺ سے ظاہری بیعت لینے کا حکم ملا
تو نماز ِظہرکے بعد اٹھارہ احباب اس سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ ظاہری بیعت کا مقصد بیان
کرتے ہوئے حضرت جؒی نے ایک مرتبہ فرمایا:
‘‘ظاہری بیعت اب اس لئے لیتا ہوں کہ تجربہ میں
آیا ہے کہ تعلق اور نسبت سے کم از کم عقائد تو درست ہو جاتے ہیں، روحانی فیض کی تو
سب میں اہلیت نہیں۔’’
ظاہری
بیعت لیتے ہوئے آپؒ خطبہ مسنونہ کے بعد اکثر اوقات مندرجہ ذیل کلمات اسی ترتیب سے
پڑھا کرتے جنہیں بیعت کرنے والے ساتھی آپؒ کے ساتھ ساتھ دہراتے چلے جاتے:
تعوّذ،
تین مرتبہ۔
تسمیہ،
تین مرتبہ۔
درود
ِابراہیمی، تین مرتبہ۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ
رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ ، تین مرتبہ
اس کے بعد کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے
آپؒ بیعت کرنے والے ساتھی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر فرماتے:
‘‘میں نے آپ کو سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ میں بیعت
کیا اور اس کی نسبت آپ کو عطا کی۔’’
احباب جواباً کہتے ‘‘قبول’’ لیکن
اگر کوئی ساتھی ‘‘قبول’’ نہ کہہ سکتا تو حضرت جؒی یاد دہانی فرمایا کرتے:
‘‘کہو، قبول۔’’
یہ
الفاظ تو عام احباب کے لئے تھے لیکن 11 جولائی 1976ء کو منارہ میں حضرت جؒی نے جب پہلی مرتبہ ظاہری بیعت
لی تو ان 18 خوش نصیب
احباب میں حضرت امیرالمکرم اور چند صاحب مجاز حضرات بھی تھے۔ اس موقع پر آپؒ نے
صاحب ِمجاز حضرات کو بیعت فرماتے ہوئے نسبت کے بعد ‘‘اور قوت ِمجازی’’ کے الفاظ کا
اضافہ فرمایا۔اسی طرح صاحب ِمنصب احباب کی بیعت کے موقع پرفرمایا :
‘‘ میں نے آپ کو سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ میں بیعت
کیا اور قوت ِمنصبی اور قوت ِمجازی کے ساتھ اس کی نسبت آپ کوعطا کی۔’’
ایک
سے زائد احباب کی صورت میں آپؒ انہیں فرداً فرداً بیعت فرماتے لیکن تعداد زیادہ
ہونے کی صورت میں یہ احباب دائیں ہاتھ میں چادر وغیرہ تھام لیتے جس کا ایک کنارہ حضرت
جؒی کے ہاتھ میں ہوتا۔ خواتین کو بیعت کرتے ہوئے سنت ِنبویﷺ کے مطابق آپؒ ہمیشہ یہی
طریقہ اختیار فرمایا کرتے۔ بیعت مکمل ہونے کے ساتھ ہی اجتماعی دعا کی جاتی جس کے
بعد حضرت جؒی مختصر خطاب فرماتے۔ ایک موقعہ پر نئے ساتھیوں کو عمومی ہدایات دیتے
ہوئے آپؒ نے فرمایا:
‘‘جو آدمی بھی یہاں آئے، وہ اس ارادے سے آئے
کہ میں اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس طریقے پر چلنے کی کوشش کرے جس پر اللہ تعالیٰ
اور اس کا رسولﷺ راضی ہو۔ یہ میلہ ہی زندگی
کا ہے۔ کوئی کہے میرا بیٹا نہیں، کوئی کہے میرا مقدمہ ٹھیک نہیں چلتا، کوئی کہے میرا
رزق کوئی نہیں، میری دکان نہیں چلتی، بیٹے پاس نہیں ہوتے۔ ارادے یہ لے کر آئے اور
ادھر غوث اور قطب بنتا ہے۔ پہلے اپنی حالتوں کو درست کرو، جو بھی آئے۔ اب میں دیکھ
رہا ہوں، اَسی، اسی سال کے بزرگ یہاں بیٹھے ہیں، ستر، ستر سال کے بیٹھے ہیں، پچھتر، پچھتر سال کے بیٹھے ہیں، داڑھی کوئی نہیں۔
رسول اللہﷺ کے ساتھ دشمنی! برتن صاف نہیں تو
کہتے ہیں دودھ ڈال دو، گھی ڈال دو۔ برتن میں پہلے پیشاب ڈال رکھا ہے، اسی برتن میں
ساتھ دودھ بھی ڈال دو۔ پہلے اپنے برتنوں کو صاف کرو۔ اب جو شخص چالیس برس سے زائد
ہو جاتا ہے، پچاس برس سے زائد ہو جاتا ہے، اسے جنٹل مینی کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے!
پھر بھی جنٹل مین بنے، داڑھی نہ ہو، بالوں کی بودی ہونی چاہیے، پہلے اپنی حالتوں
کو درست کرو۔ ظاہری شریعت کے جو احکام ہیں ان کی پوری پوری پابندی کرو۔ اس واسطے یہ
(ظاہری بیعت) لے رہا ہوں۔
پہلی
چیز ہے نماز کی پابندی، زکوٰة یا حج متمولین کے اوپر، جو صاحب ِاموال ہیں ان کے
اوپر فرض ہے۔ نماز روزے کی پوری پابندی کرو گے۔ اس کے بعد شرعی احکام جو ہیں ان کی
پابندی کرو گے۔ زبان کو جھوٹ سے بچاؤ۔ پیٹ کو حرام سے بچانے کی کوشش کرو۔ مسلمان
کسی کے ساتھ دھوکہ نہیں کرتا، مکر نہیں کرتا، فریب نہیں کرتا۔ کسی کا مال نہ کھاؤ،
اپنا کھانے نہ دو۔ بزدل نہ بنو۔ کوئی تمہارا مال جبراً کھانا چاہتا ہے، نہ کھانے
دو۔ مار دو یا مر جاؤ۔ تمہارا مال جو کھانا چاہتا ہے اسے نہ کھانے دو۔ کسی کا مال
ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ۔ کسی کی عزت کو برباد نہ کرو۔ جو تمہارے پاس بیٹھے اسے دین
کے احکام کی تلقین کرو۔’’
حضرت جؒی نے ایک مرتبہ اپنے متوسلین کے بارے میں
ارشاد فرمایا:
میری روحانی اولاد تین صفات کی حامل ہے۔
(ا) میں نے اپنے کسی بچے کو جو سبق دیا، کوئی
صاحب برزخ یا کوئی اور شخص اسے سلب نہیں کرسکتا۔
(٢) میرا
روحانی بچہ جب چاہے گا، مجھ سے ملاقات کر سکے گا۔
(٣) میرا کوئی روحانی بچہ اِنْ شَاءَ اللّٰہ تنگی رزق کا شکار نہیں
ہوگا۔
راولپنڈی
کے ایک دورے میں حضرت جؒی نے خواتین کو بیعت فرمایا، لیکن ریکارڈنگ تاخیر سے شروع ہوئی۔
کیسٹ آن کرنے پر آپؒ کی آواز سنائی دیتی ہے:
‘‘پھرپڑھو
لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ
غالباً تیسری مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنے کے لئے
کہا گیا ہو گا ۔
تین دفعہ پڑھو:
اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
تین دفعہ درود شریف جو نماز میں پڑھا کرتی ہو۔
(خود بھی پڑھا اور خواتین نے بھی دہرایا)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
(خود پڑھا)
يَا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ
الصَّادِقِيْنَ o
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا
يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَط يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيهِمْ ج فَمَنْ
نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖج وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ
عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيمًا o
وَمَا تَوفِیْقِی اِلاَّ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ
اُنِیْب
وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ
وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ
کپڑے کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لو۔
میں نے آپ سب کو سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ میں بیعت
کیا اور سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ میں داخل کر کے سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کی نسبت آپ
کو عطا کی۔
سب کہیں قبول۔’’
خواتین نے ‘‘قبول’’ کہا تو حضرت جؒی نے ان سے پنجابی
میں خطاب فرمایا:
‘‘سب سے پہلی چیزجو ہے، وہ ہے نماز کا مسئلہ۔
انسان جو ہے الٹا درخت ہے۔ جس کی ٹانگیں کاٹی جائیں، بازو کاٹے جائیں، بچ رہتا ہے۔
زندہ رہ سکتا ہے۔ سر کاٹا جائے فوری ختم ہو جاتا ہے۔ درخت کی ٹہنیاں کاٹ دی جائیں،
درخت ٹھیک ٹھاک رہتا ہے ۔ جس وقت اس کی جڑ کاٹ دی جائے، اس کا تنا ختم ہو جائے، وہ
ختم ہوجاتا ہے۔ انسان الٹا درخت ہے۔ درخت کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں اس کی جڑ سر
ہے۔ نماز دین کا سر ہے۔ نماز سب سے پہلے میدانِ حشر میں جس وقت اللہ تعالیٰ
کی بارگاہ میں حاضر ہوگا یہ دن بھی آئے گا۔ تن تنہا کوئی بیٹی، کوئی بیٹا، کوئی خاوند،
کوئی بھائی، کوئی بہن، کوئی ماں، کوئی باپ، کوئی امداد نہ کرے گا۔ ایک اکیلا، تن
تنہا آدمی ہو گا۔ اگر کوئی امداد کرنے والی چیز تمہارے ساتھ ہو گی تو وہ اپنے عمل
ہوں گے۔ اپنا عقیدہ درست کیونکہ عقیدہ جب تک درست نہ ہوگا، عمل بیکار ہیں،
مقبول نہ ہوں گے۔ عمل مقبول نہیں ہوگا کرتے رہو جب تک اس میں خلوص نہیں، تقویٰ
کوئی نہیں۔یہ تینوں چیزیں بہت ضروری ہوتی ہیں۔پہلے عقائد کی درستی، ایمان ٹھیک ہو۔
ایمان کی درستی کے بعد اعمالِ صالح کی ضرورت ہے۔ اعمالِ صالح میں روح، تقویٰ ہے۔
اللہ
کی خاطر عمل کرنے، رضائے الٰہی کی خاطر۔ یہ خیال دل میں نہ رکھ کہ میں اس واسطے یہ
عمل کر رہی ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ جنت نصیب کر دے اور دوزخ سے بچا لے۔ نہیں،
ارادہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا ہے بس!
جنت اوردوزخ اس کا فضل ہے یا غضب ہے، بس! یہ
اس کی اپنی مرضی۔ اس لئے سب سے پہلے جو مسئلہ روزِ محشر میں پیش ہونا ہے، وہ
نماز ہوگا۔ اس وقت کوئی برادری، کوئی اولاد، کوئی مال، کوئی ماں باپ، کوئی
امداد کرنے والا نہ ہوگا۔ صرف اپنے عمل ہوں گے۔ یہ زندگی یوں سمجھو ایک خواب ہے۔
رات سوئے ہوئے خواب میں دیکھتا ہے، میرے اتنے اونٹ ہیں، گھوڑے ہیں، اتنی کاریں ہیں،
اتنی موٹریں ہیں، اتنی کوٹھیاں ہیں، اتنے باغات ہیں۔ صبح اٹھتا ہے صفر بٹا صفر،
کوئی شے نہیں۔ یہی حالت دنیا کی ہے۔ جس وقت روح قبض ہونے لگتی ہے، اس وقت اسے ہوش
آتا ہے، کاش! میں نے کچھ کیا ہوتا۔ اپنی گزری ہوئی زندگی پر ہی نگاہ ڈال لو، وہ
خواب کی طرح نظر آئے گی جیسے کل کی بات ہے۔ موت کے وقت بالکل یہی حالت ہوگی۔ جس
وقت روح قبض ہو جاتی ہے، اس وقت فریاد کرتے ہیں، رَبِّ
ارْجِعُونِ oلَعَلِّي اَعْمَلُ صَالِحًا
فِيمَا تَرَكْتُ ۔ اللہ ایک مرتبہ دنیا میں لوٹا دے، میں نے جو کمی کی
ہے یا اعمال میں مجھ سے جو غلطیاں ہوئی ہیں، میں نے برا کیا ہے جو کیا ہے۔ میرے رب
مجھے ایک مرتبہ لوٹا دے، میں اپنے اعمال پورے کر لوں۔ جواب ملے گا ‘‘کَلاَّ’’ہرگز نہیں۔ یہ نہ
ہوگا۔ ‘‘اِنَّھَا کَلِمَۃٌ’’۔ یہ بات ہے جو تم نے
کہہ دی۔ ‘‘وَمِنْ
وَّرَائِهِمْ بَرْزَخٌ’’ تمہارے اب دنیا میں جانے کے درمیان اور برزخ کے درمیان
حجاب حائل ہو چکے ہیں۔ موت کے بعد قیامت قائم ہو گی۔ میدانِ حشر میں جب پیش ہوں
گے۔ سب سے پہلے نماز کا سوال ہو گا۔ نماز اگر پوری ہو گئی، جان چھوٹ گئی۔ نماز میں
فرائض کی کمی، واجبات کی کمی، یہ سنت اور نفل جو ہم پڑھتے ہیں یہ ان کی تکمیل کے
لئے پڑھتے ہیں۔ ان میں جو کمی رہ گئی ان کو پورا کرتے ہیں۔ چار سو رکعت سنت اور
نفل ملا کر ظہر کے چار فرض بنتے ہیں۔ دو سو رکعت سے صبح کے فرض پورے ہوتے ہیں، اسی
طرح عصر کو لیں، مغرب کے تین سو رکعت کے ساتھ، عشاء کے چار سو رکعت کے ساتھ، وتر تین
سو رکعت کے ساتھ۔ ان کے ساتھ اگر کمی پوری ہوگئی، پھر بھی جان چھوٹ گئی۔ اگر کمی
پوری نہ ہوئی تو ایک رکعت کے بدلے ستر ہزار سال جہنم۔ یہ اس کی مرضی، تمام رکعت کے
بدلے دوزخ میں پڑا رہنے دے اور اس زندگی نے کبھی ختم نہیں ہونا۔ یہ زندگی ختم ہو
جائے گی۔ ہم نے عاریۃً مانگی ہوئی ہے۔ یہ کپڑا مانگ کر لے آؤ، دوبارہ جاؤ تو کہیں
گے واپس لوٹاؤ۔ ہماری یہ زندگی مانگی ہوئی ہے۔ عاریۃً اللہ تعالیٰ سے لی ہوئی ہے۔
جس وقت چاہے وہ اپنی چیز واپس لے جائے تو ہم آگے چل پڑیں گے۔ پھر کوئی والی وارث
نہیں بنتا۔ اس واسطے جو شخص میرے پاس آتا ہے، ایک نہیں، اب دنیا کا کوئی گوشہ نہیں
رہ گیا جہاں اب ساتھی نہیں پہنچے۔ ہر ایک کو یہی تلقین، سب سے پہلے نماز کی
پابندی کرو۔ اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دو، ان کو نماز سکھاؤ اور لسانی ذکر۔ وضو
ہو یا نہ ہو، لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کثرت کے
ساتھ پڑھو۔ اس میں دنیوی اور دینی فائدے
ہیں۔ دنیا میں یہ فائدہ کہ انسان گناہ سے متنفر ہونے لگتا ہے۔ تنفر پیدا ہونے لگتا
ہے۔ جس نے کثرت کے ساتھ
لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھا
ہوگا، میدانِ حشر میں اس کو قرب ِالٰہی حاصل ہو گا۔ عرشِ رب العالمین کا
سایہ نصیب ہوگا۔ میدانِ حشر میں کوئی سایہ نہ ہوگا۔ دونیزے پر سورج آجائے گا۔ قیامت
آئے گی تو یہ زمین لپیٹی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری بچھتی جائے گی۔ وہ زمین
جس پر کوئی گناہ نہ ہوا ہوگا، اس پر حساب ہوگا۔ پچاس ہزار سال دنیا کی عمر نہیں،
آدمu سے پہلے دوہزار سال جنوں کی حکومت رہی۔ ساری زمین پر جن رہے۔ جس
وقت آدمu پیدا ہوئے اور نسلِ انسانی چلی۔ جن اب پہاڑوں، درختوں پر اور
اردگرد ہیں۔ آبادی ان کے پاس نہیں چھوڑی گئی۔ آبادی انسانوں کو دے دی گئی۔ اب اس
طرح رہتے ہیں جیسے بھیڑیئے، لومڑ وغیرہ جنگلوں میں ہوتے ہیں، پرندے ہوتے ہیں۔ اس
طرح یہ بھی پھرتے رہتے ہیں۔ ان کی زمین کوئی نہیں۔ اس دور سے لے کر جب سے دنیا بنی
اور قیامت تک پچاس ہزار سال اس کی عمر ہے۔ پچاس ہزار سال ہم نے میدانِ حشر میں
رہنا ہے۔ سایہ کوئی نہ ہوگا۔ خوراک کوئی نہیں، پانی کوئی نہیں، یہی زمین ہو گی جسے
کھود کر کھاؤ گے۔
میدانِ
حشر میں جس آدمی کو عرش معلیٰ کا سایہ نصیب ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ کا قرب مل
جائے، نجات ہو جائے گی۔ اس کے یہ دو فائدے ہیں، نماز کے بعد حضورﷺ
پر درُود پڑھا کرو۔ اس کے بھی دو فائدے ہیں۔ ایک دنیوی،
رزق میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ مجھ سے اب ساتھی تنگدستی کی شکایت کرتے ہیں
تو میں کہتا ہوں درود کثرت سے پڑھا کرو اور استغفار۔ حادثات، مصائب، تکلیفیں، بیماریاں
کم ہو جاتی ہیں۔ میدانِ حشر میں آقائے نامدار محمد رسول اللہﷺ
کا قرب حاصل ہوگا۔ جس کو حضورﷺ کا قرب حاصل ہو گیا دوزخ میں نہیں جائے
گا۔ اس لئے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ سوتے ہوئے لازمی طور پر
دس گیارہ مرتبہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَآاِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہ، لَآاِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہ پڑھ کر سو جاؤ۔ گیارہ
مرتبہ کے ساتھ ملا لیں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہﷺ۔
اس کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ پاکی پلیدی کا
بڑا خیال رکھو۔ یہ جو پیشاب کی چھینٹیں ہوتی ہیں، گھروں میں چونکہ فرش ہوتے ہیں یہ
فرش سے اٹھتی ہیں۔ ہم دیہاتی لوگوں کے ہاں فرش وغیرہ کوئی نہیں، ہمارے ہاں خالی زمین
ہوتی ہے، مٹی ہوتی ہے اس سے پیشاب کی چھینٹیں نہیں اڑتیں۔ پیشاب کی چھینٹیں دوزخ
کا سبب بنتی ہیں۔ قبر کا عذاب زیادہ تر دو باتوں سے ہوتا ہے۔ ایک پیشاب کی چھینٹوں
سے ہوتا ہے، دوسرا چغلی۔ میری بات اس کو بتائیں، اس کی دوسرے کو، دوسرے
کی تیسرے کو۔ یہ بھی اسی طرح پلید ہے جس طرح پیشاب پلید ہے۔ یہ بات بھی اسی طرح پلید
ہے۔ ان دو چیزوں سے عذاب ِقبر ہوتا ہے۔ ان سے بچنے کی پوری پوری کوشش کیا کریں۔
عورتیں نہیں بچتیں۔ انہیں اس بات کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ بلکہ چھوٹے بچوں کے پیشاب سے بچنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ ہم نے دیکھا ہے
کہ آقائے نامدارﷺ کے ایک جلیل القدر صحابی، مستجابُ
الدعوات یعنی دعا کرتے تو آسمان پھٹ کر گر جائے، زمین پھٹ جائے لیکن اس کی دعا نہیں
ٹلتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا اس قدر مقبول بندہ، جس وقت وفات ہوئی ستر ہزار فرشتہ ان
کے جنازے میں شریک تھا۔ عرشِ معلی حرکت میں آگیا۔ جب دفن کر چکے تو آپﷺ نے فرمایا، رک جاؤ! ان کی قبر
تنگ ہو گئی ہے۔ دعا کرو۔ معلوم ہوا، حضورﷺ نے بتایاکہ پیشاب کی چھینٹوں
سے نہیں بچتے تھے۔ مجھے خود یہ خدشہ پیدا ہوا تھا کہ اگر پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں
بچتے تھے تو نمازیں کس طرح ہوتی تھیں۔ کپڑے جو پلید ہو گئے۔ بعد میں کتابوں کا
مطالعہ کرنے سے پتہ چلا کہ ان کے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ تھے۔ بھیڑ بکریوں کی عادت
ہوتی ہے کہ جب ان کا دودھ دوہا جائے تو پیشاب کر دیتی ہیں۔ ان چھینٹوں کی وجہ سے یہ
تکلیف ہوگئی۔ انسان کا اپنا پیشاب تو زیادہ پلید ہوتا ہے، اس واسطے اس سے بچنے
کی کوشش کی جائے اور بازاروں میں عام نہ پھریں۔ اس کا خیال رکھنا۔ یہ
اس وقت پتہ چلے گا جب قبروں میں پھینک کر چلے گئے۔
راولپنڈی میں بھی یہ بات سنی ہو گی۔ اخباروں نے
بھی شائع کی۔ چکوال تک پہنچی۔ میرے پاس ہر وقت آدمی آتے رہتے ہیں۔ میں نے راولپنڈی
والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے قبرستان جا کر معلوم کیا اور قبر کے
ساتھ بیٹھ کر آواز سنی۔ ایک شخص نے بتایا کہ ٹک ٹک ٹک ٹک ٹک کی آواز آتی تھی۔ بعض
نے کہا کہ ہم گئے تو آواز آرہی تھی بچاؤ، بچاؤ، بچاؤ، بچاؤ، بچاؤ۔ یہاں ایک بدکار عورت
دفن تھی۔ قبرستان میں جائیں تو وہاں داخل نہیں ہو سکتے۔ اگر آنکھیں ہوں تو! یہ تو
مادّی آنکھیں ہیں، یہ تو چوہوں، کتوں اور جانوروں کی بھی ہیں۔ اگر بصیرت کی آنکھ
ہو تو سمجھ آجاتی ہے۔ نگاہ ِبصیرت رکھنے والے لوگ دنیا سے نابود ہو چکے ہیں۔ اب میری
بات کا انکار اسی لئے کرتے ہیں۔ خود یہ چیز حاصل نہیں ہے، خود محروم ہیں تو دوسروں
پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ یہ (حضرت جؒی) کیوں بیان
کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں تم بھی آؤ اور سیکھ لو۔ میں زندہ ہوں۔ میں دنیا سے چلا
جاؤں تو گلہ کر سکتے ہو اور میرے بعد کہہ سکتے ہو۔ میں جو بیٹھا ہوں، میرے پاس آؤ۔
کوئی کام بھی ہو، سیکھے بغیر نہیں ہو سکتا۔ درزی کو دیکھے نہیں اور کہے میں درزی
بن جاؤں۔ موچی کو دیکھے نہیں اور کہے میں جوتیاں بنا لوں۔ اس طرح نہیں
ہوتا۔ ہم موٹا موٹا کام دیکھتے ہیں۔ ہماری مائیں،
بہنیں، بیٹیاں، دیکھتے ہیں آٹا گوندھ رہی ہوتی ہیں۔ پانی ناپتی نہیں ایسے ہی ڈال دیتی
ہیں۔ ہم ہوں تو لیوڑی بنا دیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ توے پر روٹی پکتی ہے، ہم پکائیں تو
بے ڈھب کی پکے گی۔
موٹا
کام نہیں کر سکتے تو باریکیاں خود بخود کیسے ہو جائیں گی۔ کسی فن والے کے پاس جاؤ
اور سیکھو۔
اس واسطے بدعات کا بڑا خیال رکھنا۔ عورتوں کی یہ
عادت ہوتی ہے کہ کوئی ساوی پیلی چیز دیکھیں تو اس کے پیچھے لگ گئیں۔ کسی قبرپر
جا کر سجدہ کرنا، حاجتیں مانگنا، چادریں چڑھانا، چراغ جلانا، یہ چھوڑ دو۔ توکّل علی
اللہ، بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو۔ شریعت کے جو احکام بتائے گئے ہیں ان پر
عمل کرو۔ جن سے منع کیا گیا ہے ان سے بچو۔ اس بات کا خیال رکھنا۔ میں دعا کرتا
ہوں تمہارے واسطے، اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے، خاتمہ بالایمان فرمائے۔ دنیا میں
تمہاری پریشانیاں اللہ تعالیٰ دور کرے۔ آمین
حضرت جؒی معاملات کی درستگی کے بارے میں اکثر ہدایت فرماتے۔
ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا کہ جب کسی قبرستان کے پاس سے گزرتا ہوں تو اکثر لوگوں کو
ماخوذ پاتا ہوں سوائے بچوں یا چند فاتر العقل لوگوں کے۔ اکثریت مالی معاملات میں
ماخوذ ہوتی ہے۔
ایک
مرتبہ سالانہ اجتماع کے موقع پر عام ساتھیوں کے ہمراہ چند علماء نے بھی ظاہری بیعت
کی تو عمومی ہدایات کے علاوہ حضرت جؒی نے خصوصی ارشاد فرمایا۔ آپؒ کا یہ خطاب یہاں
نقل کیا جاتا ہے۔
‘‘سب سے پہلی چیز ہے دین کی، سب سے اہم چیز
بلکہ دین کا فرض جو ہے وہ نماز ہے۔ میدانِ قیامت میں عبادات میں سب سے پہلے جو
مسئلہ پیش ہونا ہے، نماز کا ہے۔
روزِ محشر کہ جاں گداز
بود
اوّلیں پرسشِ نماز بود
اوّلیں پرسشِ نماز بود
‘‘نام نہند’’ ایک چھوٹی سی کتاب ہے فارسی کی،
اس میں فقہ کے مسائل ہیں۔ ابتدائی دور میں جس وقت طالب علم پڑھنا شروع کرتے ہیں۔
اس میں یہ مسئلہ ہے کہ ‘‘روزِ محشر کہ جاں گداز بود’’ میدان قیامت، جس میں جان پہ
سختی ہو گی، پوری مخلوق پسینے میں غرق ہوگی، اس وقت پہلے پہلے جو پرسش ہو گی، دریافت
جو اللہ تعالیٰ کرے گا، وہ نماز کے متعلق۔میدان بڑا سخت ہے۔
بگوئم اندراں ہر ساعت
خود ....... یا ربّ نفسی
بڑی ہستی اللہ کی مخلوق
میں سے اگر کوئی ہے تو انبیاء علیہم السلام کی ذات ِگرامی ہے لیکن وہ بھی نفسی نفسی
پکاریں گے۔
الحمد للہ! کہ امت ِمحمدیہ جسے دین کی بڑی
محبت ہے، میں دیکھ رہا ہوں مسلمانوں میں جذبہ ہے دین کا۔ خدا کے ساتھ تعلق پیدا
کرنے کا، رسول اللہﷺ
کو راضی کرنے کا،اللہ کو راضی کرنے کا، اپنی آخرت کو سنوارنے کا، اس کی درستگی
کا۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر پہلی بات، میں اس بات پر بہت حیران ہوتا ہوں، جو چیز انسان
کے وجود میں ہے وہ صحیح صحیح بتائے، میرے پاس یہ چیز ہے، یہ چیز نہیں، مخلوق کو
دھوکا نہ دے۔ قحط الرجال سے معاملہ آگے بڑھ چکا ہے۔ پوری دنیا میں جماعت پھیلی ہوئی
ہے۔ چند ملک ہیں جن میں ساتھی نہیں پہنچے لیکن ہر جگہ میں عموماً ساتھی پہنچ چکے ہیں
اور وہاں سے حالات لکھتے رہتے ہیں اور میں ان کو سمجھاتا رہتا ہوں کہ یہ چیز دنیا
میں نابود ہو چکی ہے، ختم ہوچکی ہے، کوئی آدمی نہیں ملتا۔ سب سے بڑا پاور ہاؤس، بڑا
ہیڈ کوارٹر جو ہے، وہ دربار ِ نبویﷺ ہے۔ ہمیں جو کچھ ملتا ہے مسلمانوں کو، جو
انوار و تجلیات باری تعالیٰ کی طرف سے آقائے نامدارمحمد رسول اللہﷺ
پر اترتے ہیں،
ان میں بعض بہت باریک باریک ہوتے ہیں۔ بال تو موٹے ہیں، بالوں سے بھی باریک انوار،
بالکل باریک۔ ہر مسلمان کے قلب کے پاس پہنچتے ہیں جن کی صورت قلب میں جو روشنی ایمانی
پیدا ہوتی ہے اس کی، اس میں تیل ڈالنے والی، روغن ڈالنے والی، وہ محمد رسول اللہﷺ کے سینہ مبارک سے نکلنے والے
انوارات ہیں۔ اگر یہ کٹ جائیں، ایمان لے کر دنیا سے نہیں جائے گا، ایمان ختم
ہو جائے گا۔ دوسری قسم کے انوار نکلتے ہیں جو اولیاء اللہ میں سب سے بڑی ہستی ہوتی
ہے مثلاً قربِ عبدیت[2]، ایک
منزل ہے جو انبیاء علیہم السلام کے درمیان اور صدیقوں کے درمیان آتی ہے۔ پھر بڑی
منزل ہے صدیق، صدیق کے بعد قطبِ وحدت، قطبِ وحدت کے نیچے ہیں افراد، افرادوں کے نیچے
قیوم، قیوم کے نیچے ہے غوث۔اس سلسلے کا جو آدمی سب سے پہلے نمبر پر ہے مثلاً قربِ
عبدیت میں جو شخص ہے، پہلے انوار حضورﷺ سے نکل
کر اسی پر جاتے ہیں، اس سے پھر نیچے، اس طرح چلتے چلتے دنیا میں پہنچتے ہیں۔ قطب
ِ ارشاد جو ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پر بڑی مہربانی ہوتی ہے۔ جو احکام شرعی کے
انوار ہیں، سارے کے سارے اس پر آ کر گرتے ہیں اور وہ آگے ارسال کرتا ہے۔ امور تکوینیہ
کے ساتھ جس کا تعلق ہے وہ قطب ِمدار ہے، اس پر آکر، پھر قطب ِ ابدال، قطب ِ ابدال
سے نیچے پھر ابدالوں اور پھر دنیا تک۔ پاور ہاؤس آقائے نامدار محمد رسول اللہﷺ۔
چونکہ مجھے اس میدان میں قدم رکھے بہت مدت ہو چکی
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں مجھے بہت ہی وسیع مہلت عطا فرمائی ہے۔ تصوف کا مالہٗ
ماعلیہ، نفع نقصان، اچھائی برائی، ساری چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مطلع کر دیا
ہے۔ میں سمجھتا ہوں۔ صحیح اسلامی تصوف چھانٹ کر
دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ مشائخ سے جو چیز آر ہی تھی، اس میں بھی کچھ چیزیں میں
نے دیکھی ہیں کہ نقصان دہ ہیں، ان کو کاٹ دیا ہے۔ رضائے الٰہی کا راستہ صحیح جو ہے،
سارے کا سارا وہ پیش کر دیا ہے۔ میں گنہگار ہوں، بدکار آدمی ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا
کہ ولی اللہ ہوں۔ میں اولیاء اللہ کی جوتیوں کی دھول ہوں۔ میں تم سب کا
نوکر اور غلام اور خادم ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے علوم عطا فرمائے ہیں ظاہری، ان کی
کوشش بھی کرتا ہوں، تبلیغ کی کہ لوگوں تک پہنچاؤں اور باطنی راستہ آپ کو دکھاتا
ہوں کہ اولیاء اللہ کی یہ راہ ہے۔ اس راستے پر چل کر شاید اولیاء اللہ کو آپ پا لیں۔
چلو اور نہیں تو ان کی جوتیوں میں جا کر بیٹھ جائیں۔ اس لئے شروع کیا ہے۔ جذبہ تو
آپ میں ہے، میں سمجھ چکا ہوں۔ جہاں میں جاتا ہوں مخلوق کا ہجوم اس قدر ہو جاتا ہے
جس کی حد نہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان میں جذبۂ اسلامی ہے، دینی ہے۔ نماز کی پابندی
سب سے پہلی چیز ہے، نماز کے بعد اچھی چیز یہ ہے کہ جو نمازیں آپ سے ترک ہو چکی
ہیں، آپ چھوڑ چکے ہیں، انہیں ہر نماز کے ساتھ لوٹانے کی کوشش کریں۔ بیوی بچوں
کو تبلیغ کریں۔ بچوں کو بتاؤ۔ اس کے بعد ذکر لسانی بھی کیا کریں۔ لَآاِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہ، لَآاِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہ، لَآاِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہ ۔ہر نماز کے بعد پیغمبرﷺ پر درُود بھیجیں۔ دیکھو
نا! سارا جہاں اٹھ کر اس جستجو میں لگ جاتا کہ جنت کیا ہے؟ دوزخ کیا ہے؟ اس حقیقت
تک رسائی ہماری نہ ہوتی۔ یہ آقائے نامدار محمد رسول اللہﷺ
نے آکر ہمیں بتایا۔ پیغمبرﷺ اگر ہمیں نہ بتاتے تو ہم جنت اور
دوزخ کی ماہیت اور حقیقت تک نہ پہنچ سکتے تھے۔ نہ ہماری رسائی ہوتی۔ اس لئے سب سے
بڑا انعام اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان عطا فرمایا بطفیل حضرت محمد رسول اللہﷺ۔
حضور اکرمﷺ ہمارے پاس شریعت لے کر آئے اور اس میں یہ چیز توحید ِ باری،
رسالت، قیامت، ملائکہ، کتب، تقدیر کا مسئلہ، جہاں کا حادث ہونا، مرنے کے بعد اٹھنا
وغیرہ ذالک۔ پوری دنیا میں رہ کر کے، طبعی عمر پانے کے بعد، تمام کاروبار چھوڑ کر
اگر ہم اس جستجو میں لگ جاتے تو یہ حاصل نہ ہوتا۔ یہ انعام ہے حضورﷺ
کی طرف سے۔ اللہ تعالیٰ نے آقائے نامدار محمد رسول اللہﷺ
کو بھیج کر ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم درود پڑھ کر حضورﷺ
کو پہنچائیں۔ پیٹ کو حرام سے بچانا، زبان کو جھوٹ سے بچانا،
دھوکہ بازی نہیں کرنی۔ کوشش کرنا صحیح مسلمان جس طرح ہوتے ہیں۔
میری
کوشش جس قدر ہے، میری عمر نہیں، تکلیف ہوتی ہے باہر آنے میں۔ باہر اس لئے آتا ہوں
کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق جو ہے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جائے۔ میرا بھی کوئی نجات کا
ذریعہ بن جائے۔میری غرض اتنی ہے۔ مسلمانوں کی ایک جماعت اس قسم کی پیدا ہو جائے کہ
دنیا میں لوگ کہیں کہ مسلمان اس طرح کے ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ تفسیر
ِمدرک القرآن میں لکھتے ہیں، محمد رسول اللہ ﷺ
کاایک صحابی ہزار آدمیوں میں اگر کھڑا ہوتا
تھا تو دنیا دیکھنے والی کہتی تھی کہ یہ محمد رسول اللہﷺ کا صحابی ہے۔ وضع قطع بدل گئی۔ اس لئے میں
چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی جماعت اس قسم کی ہو کہ دنیا دیکھ کر کہے کہ مسلمان اس
طرح کے ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ کوشش کرنا، ذکر ِلسانی، درُود شریف، پیٹ کو حرام سے
بچانا، زبان کو جھوٹ سے بچانا اور سوتے وقت، رات کو سوتے وقت چارپائی پر لیٹ کر لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ دس دفعہ، گیارہویں دفعہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللّٰہ ﷺ، قرآن اگر پڑھا
ہوا ہے تو سورة قُلْ يَا اَيُّهَا
الْكَافِرُونَo اور
سورة اخلاص قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌo اللّٰهُ
الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ ۵لا
وَلَمْ يُولَدْo وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌo کم از کم تین مرتبہ، سورة الکافرون ایک مرتبہ
پڑھ لیں، زیادہ پڑھی جائے تو بہت ثواب ہے۔
دوسرا
فائدہ جو میں بتانا چاہتا ہوں، آقائے نامدارﷺ
کی خدمت میں مائی فاطمۃ الزہراr آئیں۔ حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ غنیم کا دروازہ کھل چکا ہے۔
مجھے بھی ایک غلامن چاہیے جو میرے گھر کا کام کاج کرے، میرے ساتھ ہاتھ بٹائے تو آپﷺ
نے فرمایا کہ آپ سے زیادہ مستحق ہیں اصحاب ِصفہ، جو طالب علم باہر سے آئے ہوئے ہیں
پڑھنے کے لئے یہاں رہتے ہیں۔ سوتے وقت عشاء کی نماز کے بعد آپﷺ چلے گئے۔ یہ بخاری
جس کو ہم قرآن کے بعد مانتے ہیں اس میں ہے۔ آپﷺ
گئے، آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس لونڈی سے غلامن سے بہتر چیز آپ کو بتا
دوں، آپ کی تنگدستی چلی جائے، غربت اٹھ جائے، اللہ تعالیٰ آپ کے مال میں برکت ڈال
دے۔ فرمایا چارپائی پر لیٹ کر 33دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، 33
دفعہ
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ،
34 دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ ۔ نماز کے بعد یہ تسبیح
پڑھی جاتی ہیں۔ یہ بھی تنگدستی رفع کرنے کے لئے ہیں لیکن یہ خاص کر سوتے وقت جو
پڑھی جاتی ہیں، یہ محض اسی لئے ہیں۔ سیّد ِنا علی المرتضیٰt سے کسی نے
پوچھا تھا کہ یہ آپ پڑھتے رہتے ہیں؟ بخاری میں
موجود ہے، تو فرمایا جب سے میں نے محمد رسول اللہﷺ کی زبان سے یہ کلمات سنے ہیں
اس کے بعد میں نے چھوڑا نہیں ہے، ہمیشہ پڑھتا ہوں۔ پھر کسی نے سوال کیا کہ جنگ ِ
جمل اور جنگ ِصفین کی راتوں میں؟ فرمایا، ان راتوں میں بھی اس کو نہیں چھوڑا۔
پڑھتا رہتا ہوں۔ جو ساتھی میرے سامنے آکر شکوہ کرتا ہے تنگدستی کا اس کو میں کچھ
اور بھی بتاتا ہوں اور یہ تسبیح بھی بتاتا ہوں کہ رات کو سوتے وقت آپ پڑھ لیں۔
اتنا کافی ہے ۔
وَآخِرُ دَعْوٰانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ
رَبِّ الْعَالَمِينَ
[1]۔
حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی شروع میں ‘‘سبحان اللہ’’ الگ سے نہیں پڑھتے اور
تیسرے کلمہ کے بعد دوسرا کلمہ اور استغفار کی تلقین فرماتے ہیں جو اب احباب سلسلہ
عالیہ کا معمول ہے۔
[2] حضرت جؒی نے اگرچہ ‘‘مثلاً’’
کہتے ہوئے یہ بات سمجھانے کے انداز میں کی
ہے لیکن یہاں حضرت امیرالمکرم کے اس خطاب کا حوالہ دینا مناسب ہوگا جس میں حضرت جؒی
کے مقامات و مناصب کا تذکرہ ہے:
‘‘منصب صدیقیت کے بعد ایک
اور صرف ایک مقام ہے یا منصب ہے جسے قرب عبدیت کہتے ہیں’ اور وہ حضرت جؒی’ اللہ ان
پر کروڑوں رحمتیں برسائے’ کو نصیب تھا۔ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ
عَلٰی ذَالِکْ’’
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔