ANTI-ADBLOCK JS SYNC دورۂ باغ (آزاد کشمیر) ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

دورۂ باغ (آزاد کشمیر)

دورۂ باغ (آزاد کشمیر)

               حضرت جؒی کا مناظرانہ دور بیسوی صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی ختم ہوا۔  آپؒ کا دورۂ باغ  (آزاد کشمیر) اس دور کی آخری کڑی ہے۔ اس سفر میں امیرالمکرم حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی بھی حضرت جؒی کے ساتھ شریکِ سفر رہے۔ آپؒ نے باغ کا یہ دورہ 1960ء میں فرمایا۔ اس زمانہ میں باغ (آزاد کشمیر) میں اہل سنت کا دستور تھا کہ ہر سال محرم میں تین روزہ مشترکہ جلسہ منعقد کرتے جس کے آخر میں تعزیہ کا جلوس بھی مسجد سے نکالا جاتا۔ ذاکر مسجد میں تقاریر کرتے جن میں صحابہ کرام] پرلعن طعن بھی کرتے اور یہ سب کچھ باہمی رواداری کی پالیسی کے تحت برداشت کر لیا جاتا۔ کشمیر میں ان دنوں مفتی حضرات تحصیل و ضلع کی سطح پر سرکاری ملازم ہوا کرتے تھے اور اس نوع کے مشترکہ پروگرام ان کی کارکردگی کا ثبوت قرار دیے جاتے۔
            حضرت جؒی کو بھی اسی طرح کے ایک جلسہ میں مدعو کیا گیا۔ ان دنوں راولپنڈی سے کشمیر کے لئے پہلی بس علی الصبح روانہ ہوتی تھی جس پر حضرت جؒی اور حضرت امیر المکرم نمازِ فجر کے بعد روانہ ہوئے۔ بس جب فیض آباد سے گزری تو حضرت جؒی حالت ِمراقبہ میں تھے۔ اچانک ایک عجیب نقشہ سامنے آگیا۔ آپؒ نے دیکھا کہ سڑک کے ساتھ ساتھ جنگل مختلف بہائم سے اٹا پڑا ہے جو اشغال جنسی میں مشغول ہیں۔ آپؒ چونک اٹھے اور حضرت امیر المکرم سے دریافت فرمایا، یہاں کون سی بستی ہے جو اس نوع کے احوال منکشف ہوئے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا، حضرت بستی تو کوئی نہیں فی الحال جنگل ہے لیکن اس جگہ صدر ایوب نے دارالحکومت تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
رؤیتِ اَشکال
          اہل اللہ کے سامنے احوال کس طرح مُتشکِّل ہوتے ہیں، اس کے لئے مولانا احمد علی لاہوریؒ کاایک مشہور قول بطور مثال پیش کرنا کافی ہو گا جو زمانہ قریب کے مشہور صاحبِ کشف بزرگ گزرے ہیں۔ انہوں نے رؤیتِ اَشکال کی اپنی ایک کیفیت اس طرح بیان فرمائی:
‘‘شیرانوالہ گیٹ (لاہور) میں کھڑا ہوتا ہوں تو بندر بھیڑیے اور مختلف درندوں اور بہائم کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں یہاں تک کہ انسانی شکل دیکھنے کو ترس جاتا ہوں۔’’
            اس کیفیت کو رؤیتِ اَشکال کہتے ہیں جس کا حضرت جؒی نے حالتِ استغراق میں مشاہدہ کیا اگرچہ اس کا تعلق مستقبل کی بے راہروی سے تھا۔ ایک مرتبہ حضرت جؒی احباب کے ساتھ تشریف رکھتے تھے اور راقم بھی اس موقع پرموجود تھا۔ دورانِ گفتگو ایک ساتھی حاجی بختیار احمد خان نے مراقبہ رؤیتِ اَشکال کے متعلق سوال کیا تو حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘حاجی صاحب! میرے قلب پر خیال کریں اور چلیں میرے ساتھ، اب نیچے خیال کریں۔’’
حاجی صاحب نے عرض کیا:
‘‘حضرت! بیل کثرت سے نظر آتے ہیں۔ بازاروں میں مختلف بہائم کو دیکھ رہا ہوں، خوردونوش میں مشغول ہیں۔ کچھ درندے، بندر اور خنزیر وغیرہ بھی ہیں۔’’
حضرت جؒی نے وضاحت فرمائی:
‘‘حاجی صاحب یہ مراقبہ رؤیتِ اَشکال ہے۔ روح انسانی شکل پر ہوتی ہے لیکن اعمالِ بد سے اس کی صورت مسخ ہو جاتی ہے۔ آپ لوگ ارواح کو ان کی اصلی شکل پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ جو حلال چوپائے بیل وغیرہ نظر آ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کا ایمان تو سلامت ہے لیکن زندگی چوپاؤں کی سی گزار رہے ہیں لیکن جو شکلیں درندوں وغیرہ کی ہیں ان کا  ایمان بھی سلب ہو چکا ہے اور جس نوعیت کے برے اعمال ان کی زندگی کا وطیرہ بن چکے ہیں، اس کے مطابق ان کی ارواح بھی متشکِّل نظر آ رہی ہیں۔’’
            حضرت امیرالمکرم سے ایک مرتبہ رؤیت اشکال کے متعلق دریافت کیا کہ ارواح مسخ ہونے کے بعد جو مختلف بہائم کی شکلیں اختیار کر لیتی ہیں تو ان کی شکلوں میں وجۂ تفریق کیا ہے؟ حضرت امیر المکرم نے فرمایا:
‘‘ جہاں زندگی کا وطیرہ مخلوق کی ایذاء رسانی بن چکا ہو، روح بھیڑیے کی شکل پرنظر آتی ہے۔ اگر شراب خوری وظیفۂ شب و روز ہو تو ریچھ کی شکل اور جہاں بدکاری کا عنصر غالب ہو تو روح مسخ ہو کر خنزیر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ان جانوروں کی فطرت بھی اسی طرح کے اعمال کے مطابق ہوتی ہے۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہ!’’
حضرت جؒی نے سوال کیا:
            ‘‘حاجی صاحب کہیں روشنی بھی نظر آ رہی ہے؟’’
حاجی بختیار صاحب نے عرض کیا:
            ‘‘جی حضرت! ایک جگہ پر بہت روشنی ہے۔’’
فرمایا: 
‘‘یہ اہل اللہ کی وجہ سے ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ لوگ اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں۔’’
            اسی طرح محفل ذکر کے بعد مولانا نورالامین فارغ التحصیل جامعہ اشرفیہ لاہور کے ساتھ ایک بازار سے گزر ہوا۔ ایک کام سے ان کو گاڑی میں چھوڑا اور تھوڑی دیر بعد جب واپس لوٹا تو مولانا کو پریشان حال دیکھا۔ کہنے لگے:
‘‘آپ نے کچھ دیکھا؟ اس بھرے بازار میں ایک خنزیر سائیکل پر سوار گزرا ہے۔’’
            دراصل محفلِ ذکر کی برکات سے ان پر لحظہ بھر کے لئے رؤیتِ اَشکال کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ جب حقیقت بیان کی تو ان کی پریشانی دُور ہوئی۔ حضرت جؒی اکثر فرمایا کرتے:
‘‘روح روزِ اوّل سے عاقل و بالغ ہے۔ اسی لئے تو یومِ الست اس نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی گواہی دی لیکن اس عالمِ آب و گل میں روح بدن کے تابع ہے ۔ اعمالِ بد کی بدولت جب روح کی حالت مسخ ہوجاتی ہے تو اسے اس کی اصلی حالت میں لانے کے لئے کسی مردِ کامل کی توجہ کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔’’
اپنے ایک مکتوب میں حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘انسان اپنی اصلی شکل پر محال ہی اور بمشکل ہی موجود ہیں اور یہ حال تو عام ہے۔ ہم نے تو بندروں اور ریچھوں کو انسان بنانا ہے، اس سے گھبراہٹ نہ پیدا ہو۔ انسان کو انسان بنانا تو کمال نہیں، درندوں کو انسان بنانا کمال ہے۔’’
            پھر دنیا نے دیکھا کہ حضرت جؒی نے کس طرح درندوں کو پھر سے انسان بنایا اور اسفل السافلین کی صورت میں اتھاہ پستیوں میں گرنے والوں کو پھر سے احسن تقویم کی رفعتوں سے ہمکنار کیا۔
باغ میں حضرت جؒی کا خطاب
  حضرت جؒی باغ پہنچے توسرکاری علماء نے آپؒ کے خطاب کا حدوداربعہ متعین کرنا چاہا۔ حق گوئی و بے باکی کو مصلحتوں کی آڑ میں پابندِ سلاسل کرنا ممکن نہ تھا۔ یہ لوگ حضرت جؒی کو قائل نہ کر سکے کہ آپؒ بھی مقامی  دستور کے مطابق شیعہ ذاکرین کے ساتھ مسجد میں خطاب فرمائیں اور وہ اپنی تقاریر میں جو کچھ بھی کہیں، اس پر خاموش رہیں۔ تین روز تک حضرت جؒی کو آمادہ کرنے کی کوشش ہوتی رہی لیکن آپؒ نے جلسہ سے خطاب نہ فرمایا۔ لوگوں کی ان حرکات سے تنگ آ کر آپؒ علماء سے الگ تھلگ وائرلیس پولیس کے ایک سپاہی کے ہاں منتقل ہو گئے جو آپؒ کا شاگرد رہ چکا تھا اور ان دنوں باغ میں تعینات تھا۔ چونکہ اعلان ہوچکا تھا کہ پنجاب کے ایک جیّد عالم اور مشہور خطیب اس سہ روزہ اجلاس میں خطاب فرمائیں گے، اس لئے تین روز تک لوگ آپؒ کے خطاب کے منتظر رہے۔ مقامی علماء کے مسلسل اصرار اور آپؒ کے مسلسل انکار کی خبر بھی عام ہو چکی تھی۔ بالآخر شہر کے بااثر لوگ حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جاننا چاہا کہ آپ اس مشترکہ جلسہ میں شرکت کیوں نہیں فرما رہے۔
            حضرت جؒی نے عقائد کا اختلاف اور مروّجہ خرابیوں، بالخصوص اہانت ِ صحابہ کرام]  کا ذکر تفصیلاً فرمایا اور اس کی تائید میں مشہور و مستند کتبِ روافض سے حوالے دیئے۔ شہر کے عمائدین پر جب حقیقت واضح ہوئی تو چوتھے روز حضرت جؒی کے لئے الگ سے جلسہ رکھا گیا۔ آپؒ نے نہایت بے باکانہ انداز میں فریقین کے عقائد پر ان کی مستند کتابوں کے حوالوں سے روشنی ڈالی اور حق و باطل میں فرق کو واضح کیا۔ اس طرح باغ کے لوگوں پر جب حقیقت حال واضح ہوئی تو اس سے مقامی علماء کی بھی خوب سبکی ہوئی جو اب تک مقامی حکام کو خوش کرنے کے لئے رواداری برتتے ہوئے اخفائے حق کا ارتکاب کر رہے تھے۔
            حضرت جؒی پانچویں روز باغ سے روانہ ہوئے تو جو کچھ پاس تھا وہ طویل قیام کے اخراجات کی نذر ہوچکا تھا۔ علماء الگ سے ناراض تھے، واپسی کا کرایہ بھی نہ دیا۔ حضرت جؒی کے طبع شدہ کچھ رسالے      حضرت امیرالمکرم ساتھ لائے تھے تاکہ دورانِ جلسہ مفت تقسیم کئے جائیں لیکن یہاں کے حالات دیکھتے ہوئے مجبوراً ہدیہ وصول کرنا پڑا۔ اس طرح یہ رسالے بیچ کر واپسی کے لئے کرایہ اور زادِ راہ کا بندوبست ہو سکا۔
            راولپنڈی واپسی پر شام ہو چکی تھی۔ قیام کی نیت سے رتہ امرال میں ایک عزیز کے ہاں پہنچے۔ اس کا مکان لئی کے کنارے واقع تھا جبکہ لئی کی دوسری طرف راولپنڈی کا بدنامِ زمانہ علاقہ ڈھوک دلال تھا۔ بدکاری کی نحوست کے اثرات لئی کے اس پار بھی حضرت جؒی کے مزاجِ باصفا کو پریشان کر رہے تھے۔ بے آرامی کی اس کیفیت میں جب نصف رات گزر گئی تو حضرت جؒی نے تانگہ منگوایا اور مریڑحسن کے پاور ہاؤس کے قریب اپنے جاننے والے ایک خطیب کے ہاں منتقل ہو گئے۔ اگلی صبح حضرت جؒی حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کے ہمراہ چکوال واپس روانہ ہوئے۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو