ANTI-ADBLOCK JS SYNC نفاذ ِشریعت ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

نفاذ ِشریعت

نفاذ ِشریعت

            مناظرانہ دور میں حضرت جؒی کی شہرت عام ہوئی تو بعض دینی جماعتوں نے آپؒ کو نہ صرف شمولیت کی دعوت دی بلکہ مالی تعاون اور عہدوں کی پیشکش بھی کی لیکن آپؒ نے عمر بھر کسی جماعت سے کوئی سروکار نہ رکھا۔ احباب ِسلسلہ کی معیت پسند فرماتے۔ اہل برزخ سے اکثر رابطہ رہتا جو حضرت سلطان العارفینؒ کے ارشادکے مطابق آپؒ کی جماعت تھے۔ کئی مرتبہ آپؒ کی معیت میں سفر نصیب ہوا۔ان دوروں کے احوال یہ ہوا کرتے تھے کہ اہل اللہ کی ارواح کا قافلہ ہمراہ چلتا۔ آپؒ ان سے کلام فرماتے جس میں بعض اوقات احباب کو بھی شریک فرما لیتے لیکن اکثر محویت کا عالم طاری رہتا۔
            شب و روز کے ان احوال کے باوجود حضرت جؒی نے جب کبھی محسوس کیا کہ ملکی حالات کے پیش ِنظر قومی دھارے میں آپؒ کی شمولیت ناگزیر ہے تو ہمیشہ مؤثر کردار ادا کیا۔ عوامی سطح پر حضرت جؒی سے لوگوں کی بے پناہ عقیدت کی وجہ سے آپؒ کی رائے خاص اہمیت رکھتی جسے مقامی انتظامیہ بھی نظر انداز نہ کر سکتی تھی۔     صدر ایوب کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو ڈی سی میانوالی نے آپؒ سے تعاون کی درخواست کی۔    حضرت جؒی نے حضرت امیر المکرم کے نام 4دسمبر 1968ء کے ایک مکتوب میں مقامی انتظامیہ کی اس درخواست کا تذکرہ انتہائی ناپسندیدگی سے فرمایا۔ 1977ء میں بھٹو کی لا دینی حکومت کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰﷺ کا آغاز ہوا تو آپؒ نے اس کی بھرپور حمایت کی جس کا اظہار اس دور میں آپؒ کی تقاریر سے ہوتا ہے۔
            5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو منارہ سکول میں سلسلۂ عالیہ کا سالانہ اجتماع جاری تھا۔ ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے آگاہی کے لئے کئی احباب با قاعدگی سے خبریں سنا کرتے۔ حضرت جؒی تک خبروں کی آواز پہنچتی توساتھیوں سے تفصیلات دریافت کرنے کے بعد تبصرہ بھی فرمایا کرتے۔ بھٹو دور کے خاتمے پر آپؒ نے مسرت کا اظہار فرمایا اور جنرل ضیاء الحق کی کامیابی کے لئے دعا کی۔   جنرل صاحب کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں فرمایا کرتے اور نفاذِ شریعت کی توفیق کے لئے دعا گو رہتے۔ ملکی حالات پر نگاہ رکھنے کے باوجود معصومیت کا یہ عالم تھا کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ریڈیو پر خبریں سنیں تو فرمانے لگے:
‘‘تم لوگ توکہتے تھے بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن خبریں سنانے والی عورت تو وہی ہے جو کل بھٹو کی خبریں سنا رہی تھی!’’
            اگرچہ وقتی طور پر ملک گیر فسادات کا خطرہ تو ٹل گیا تھا لیکن مارشل لاء کانفاذ تحریک ِنظامِ مصطفیٰﷺ کا منطقی انجام نہ تھا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں برسرِاقتدار آنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی مجبوری تھی کہ       نفاذِ شریعت کی سمت کچھ پیش رفت کی جائے۔ 1979ء میں حدود سے متعلقہ قوانین نافذ ہوئے تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خاص مکتب ِفکر نے انہیں یہ باور کرا دیاکہ اب پاکستان میں فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے ساتھ ساتھ فقہ جعفریہ کے نفاذ کا بھی اعلان کر دیا جائے۔ اس موقعہ پر اسلام آباد کے گھیراؤ کی صورت میں فقہ جعفریہ کے نفاذ کے لئے جنرل ضیاء الحق پر شدید دباؤ ڈالا گیا۔
             جنرل ضیاء الحق فقہ حنفی کے متعلق تو شاید واجبی علم رکھتے ہوں لیکن دیگر مذاہب کے تقابلی جائزے کی استعداد سے محروم تھے۔ اس مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے مختلف مکاتب ِفکر کے علماء اور قانون دان حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی اور سفارشات مرتب کرنے کے لئے ایک تاریخ مقرر کردی۔ کمیٹی میں نامزد علماء سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان حضرات کی معلومات بھی صرف فقہ حنفی تک ہی محدود تھیں اور وہ پاکستان میں فقہ جعفریہ کے نفاذ کے عملی مضمرات کا احاطہ کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ چند مشہور علماء نے انتہائی سادگی سے یہ رائے بھی دی کہ جب چار مختلف فقہوں پر کسی کو اعتراض نہیں تو اب پانچویں فقہ نافذ کرنے میں کیا حرج ہے! گویا یہ حضرات عقائد کے اختلافات کی بجائے فقہ جعفریہ کو بھی باقی چاروں فقہوں کی طرح صرف جزویات کے اختلافات تک محدود سمجھتے تھے۔ صورت ِحال کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی گئی کہ جنرل صاحب کی تشکیل کردہ کمیٹی میں شامل علماء اور دیگر ممبران کے علاوہ ملک بھر کے اہل ِدانش حضرات اور عوام کو ان اختلافات کی اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔
            اسی ضرورت کے پیش نظر اہل ِسنت کے قانونی نمائندے اسحٰق ظفر نے اپنے ساتھی امان اللہ لک ایڈووکیٹ سے دریافت کیا کہ ان کی نگاہ میں کوئی ایسی شخصیت ہے جو فوری طور پر کمیٹی کی معاونت کر سکے ؟ اس وقت پورے ملک میں حضرت جؒی کے علاوہ، جو فقہ جعفریہ پر مکمل عبور رکھتے تھے اور عمر ِعزیز کے قریباً دو عشرے تحریر و تقریر کے ذریعے عوام الناس کو اس کے خدوخال سے آگاہ کر تے رہے، شاید ہی کوئی اور شخصیت اس اہم دینی ضرورت سے کماحقہٗ عہدہ برآ ہو سکتی تھی۔ امان اللہ لک نے یہ معاملہ حضرت جؒی کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ نفاذ ِشریعت کمیٹی کے ممبران کی رہنمائی کے لئے فقہ جعفریہ اور فقہ ا ہل ِسنت کے تقابلی جائزہ کی صورت میں ایک عام فہم لیکن جامع کتابچہ تحریر فرمائیں جو کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں تقسیم کیا جا سکے۔
            صورت حال کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے آپؒ نے یہ ذمہ داری قبول فرمائی اور احباب ِسلسلۂ عالیہ کو ہدایت فرمادی گئی کہ ان دنوں ملاقات کے لئے کوئی شخص چکڑالہ آئے نہ خط و کتابت کرے۔ حضرت جؒی نے اپنی تمام مصروفیات مؤخر کرتے ہوئے شب و روز کتب خانے کی نذر کردیئے جہاں آپؒ کی معاونت          حافظ عبدالرزاقؒ اور آپؒ کے داماد حافظ عبیداللہ کرتے۔ فقہ جعفریہ کی مآخذ کتب سے حوالہ جات تلاش کرنے کے بعد انہیں بغیر کسی تبصرہ کے اس طرح پیش کیا گیا کہ خاص وعام فقہ جعفریہ اور فقہ اہلِسنت کا تقابلی جائزہ لے سکیں۔ قریباً دو ہفتوں میں یہ ابتدائی کام مکمل ہوا تو اس کتابچہ کی کاپیاں کمیٹی کے ممبران میں تقسیم کر دی گئیں۔ ممبران نے کتابچہ سے بھرپور استفادہ کیا اور مختلف اور متضاد فقہی قوانین کے نفاذ کے مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے فقہ جعفریہ کے نفاذ کا معاملہ تعطل میں ڈال دیا۔
            کتابچہ کی افادیت دیکھتے ہوئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اس چھوٹے سے پمفلٹ کو کتاب کی صورت میں شائع کیا جائے۔ فقہ جعفریہ پر یہ تحریر اصل حوالہ جات اور ان کے تراجم پر مشتمل تھی جس میں حضرت جؒی نے اپنی جانب سے ایک جملہ کا بھی اضافہ نہیں فرمایا تھا۔ اس صورت اشاعت میں قانونی طور پر تو کوئی قباحت نہ تھی لیکن متعلقہ مکتب ِفکر کے سیخ پا ہونے اور بااثر ہونے کی وجہ سے منفی ہتھکنڈے بروئے کار لانے کی توقع کی جاسکتی تھی جس سے حضرت جؒی کے معمولات، احباب ِ سلسلہ کی تربیت اور اجتماعات کا متأثرہونا لازم تھا۔ان خدشات کے پیش ِنظر اکثر احباب کی رائے تھی کہ اس کتابچہ کو حضرت جؒی کے نام سے شائع نہ کیا جائے۔ صورت حال پر غور و فکر کے لئے 28 مئی 1979ء کو حضرت امیر المکرم اور دیگر صائب الرائے احباب راولپنڈی میں اکٹھے ہوئے۔ امان اللہ لک نے تجویز پیش کی کہ یہ کتاب ان کے نام سے شائع کی جائے اور وہ اسے ملک کے اربابِ دانش کے سامنے پیش کرتے ہوئے قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ سوال اٹھائیں گے کہ آیا اس پانچویں فقہ کا، بنیادی نوعیت کے اختلافات کے باوجود، فقہ اہل سنت کے ساتھ نفاذ ممکن بھی ہو سکے گا یانہیں؟احباب نے تجویز سے اتفاق کیا اور اسی نہج پر کتاب کی تدوین و طباعت شروع ہوئی۔ امان اللہ لک نے ‘‘عرضِ مدعا’’ کے عنوان کے تحت انتہائی مؤثر انداز میں یہ سوال ہر ذی فہم شہری کے سامنے اٹھاتے ہوئے غور و فکر کی دعوت دی لیکن حضرت جؒی نے اگلے صفحات میں فقہ جعفریہ کے خدوخال کے تعین کے لئے جو ابواب باندھے تھے، ان کے مطالعہ کے بعد اس کا جواب واضح تھا کہ دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔
            صوبہ سرحد میں سلسلۂ عالیہ کے امیر حاجی الطاف احمدؒ نے پشاور سے کتابچہ شائع کرنے کی ذمہ داری لی۔ دورانِ طباعت حافظ عبدالرزاقؒ کی موجودگی بھی ضروری تھی تاکہ وہ خود پروف ریڈنگ اور حسب ِ ضرورت مسودّہ کی اصلاح کر سکیں۔وہ چکوال سے پشاور روانہ ہوئے تو انتہائی تیز بخار تھا، گاڑی میں لیٹ کر سفر کیا اور پشاور پہنچ کر بخار ہی کی حالت میں پروف ریڈنگ اور طباعت کی نگرانی کرتے رہے۔کتاب کے آغاز میں حافظ صاحؒب نے ‘‘تاریخ ِفقہ جعفریہ’’ کے عنوان سے ایک باب کا اضافہ اپنی طرف سے کیا۔ یہ باب حضرت جؒی کو پڑھ کر سنایا گیا تو آپؒ بہت خوش ہوئے اور حافظ صاحؒب کے متعلق فرمایا:
‘‘مشائخ  کو ایسے آدمی اللہ کریم کی طرف سے ملتے رہے جو ان کی لسان ہوتے جیسے   حضرت شمس تبرؒیز کو مولانا رومؒ عطا ہوئے۔ اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ مجھے تُو عطا کیا گیا۔’’
            ابھی تک حضرت جؒی سے اجازت نہ لی گئی تھی کہ یہ کتاب ان کی بجائے امان اللہ لک کے نام سے شائع کی جائے گی۔ متوقع اجازت کے پیشِ نظر طباعت تو مکمل ہو چکی تھی لیکن کتاب کی تقسیم سے قبل حضرت جؒی کی توثیق بھی ضروری تھی۔
            چکڑالہ پہنچ کر مدعا عرض کیا لیکن حضرت جؒی نے اس سے اتفاق نہ کیا۔ جب کوئی اور صورت نہ بن سکی تو عرض کیا گیا:
‘‘حضرت! جیل جانا پڑے گا۔’’
آپؒ نے جواب دیا:
‘‘میں جیل وی جاساں (میں جیل بھی جاؤں گا)’’
‘‘تساں جیل گئے تے اساں کی کرساں (آپ جیل گئے تو ہم کیا کریں گے)’’
            حضرت جؒی کو ان کے نام سے کتاب کی اشاعت کی صورت میں پیش آنے والے ممکنہ مسائل سے آگاہ کیا گیا جن کے نتیجہ میں احباب کی تربیت کا متأثر ہونا لازم تھا۔ بادلِ نخواستہ حضرت جؒی نے آمادگی کا اظہار فرمایا اور اس طرح آپؒ کی یہ کتاب امان اللہ لک کے نام سے منظر ِعام پر آئی۔
            احبابِ سلسلۂ عالیہ نے فی الفور کتاب کی تقسیم شروع کی اور اس کی کاپیاں جنرل ضیاء الحق کی تشکیل کردہ نفاذِ شریعت کمیٹی کے ارکان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جج صاحبان، ماہرین قانون، مختلف مکاتب فکر کے علماء، ملک بھر کے چیدہ چیدہ ارباب دانش اور مقتدر طبقہ تک پہنچا دیں۔ اسلوب ِتحریر میں فرقہ واریت کی بجائے محققانہ رنگ تھا۔ ہر طبقہ فکر نے بغیر کسی تحفظ اور تعصّب کے اس کتاب کا مطالعہ کیا جس کے بعد یہ باور کرنا مشکل نہ تھا کہ مختلف فقہوں کے نفاذ کی صورت میں ملک فقہی خلفشار کا شکار ہو جاتا جس کے نتیجہ میں ملک کا عدالتی نظام بھی بری طرح متأثر ہوتا ۔یہ صور ت حال اربابِ حکومت کے لئے ہرگزقابل ِقبول نہ تھی۔ اس طرح متضاد فقہی قوانین کے نفاذ کی تجویز پر عملدرآمد نہ ہو سکااور ملک ایک فقہی اور قانونی خلفشار سے محفوظ رہا۔ حضرت جؒی نے ‘‘نفاذِ شریعت اور فقہ جعفریہ’’بروقت تحریرفرما کر وہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس کے باعث پاکستان نہ صرف فقہی خلفشار سے بچ گیا بلکہ اس کا عدالتی نظام بھی متضاد قوانین کے نفاذ سے محفوظ رہا۔
            احباب نے اس کتاب کی اشاعت کے نتیجہ میں حضرت جؒی کی خدمت میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ درست نکلے۔ امان اللہ لک کے خلاف اگست 1979ء میں گجرات کے تھانہ صدر میں سرکارکی طرف سے پرچہ درج ہوا۔ دورانِ تفتیش حضرت جؒی نے اپنی ذاتی لائبریری سے حوالہ جات کی نشاندہی کے ساتھ مآخذ کتب گجرات بھجوا دیں جو اس کتابچہ کی حقانیت کا تحریری ثبوت تھیں۔ ان حوالوں کی خوب چھان بین ہوئی لیکن پوری کتاب میں قطع و برید کی کوئی مثال ملی نہ کوئی منفی تبصرہ مل سکا۔
            مقدمہ کی سماعت کے دوران امان اللہ لک نے بطور اس کتاب کے مصنف اور ملزم عدالت کے سامنے تین سوال رکھے:
(1)      اس کتابچہ میں جن کتابوں کے حوالہ جات دیئے گئے ہیں کیا وہ فقہ جعفریہ کی مستند اور بنیادی کتابیں نہیں ہیں؟
(2)      ان کتابوں سے جو اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، کیا ان کی عبارت غلط ہے یا ترجمہ ٹھیک نہیں یا کہ وہ سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کئے گئے ہیں؟
(3)      اگر اس کتابچہ میں درج کتابیں فقہ جعفریہ کی بنیادی کتابیں نہیں ہیں تووہ کون سی کتابیں ہیں جن پر انحصار کرتے ہوئے فقہ جعفریہ کے علیحدہ نظام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے؟
          ان سوالات کا جواب دینے کے لئے فقہ جعفریہ کے اکابرین اور مبلغین کو عدالت کی طرف سے 28 اگست 1979ء  سے لے کر 15جنوری 1981ء تک موقع دیا گیا لیکن کسی کو سوالات کا جواب دینے اور حقائق کی تردید کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ چنانچہ 20جنوری 1981ء  کو یہ مقدمہ عدم ثبوت کی بنا پر واپس لے لیا گیا اور امان اللہ لک کو باعزت طور پر بری کر دیا گیا۔اس فیصلہ سے حضرت جؒی کی شہرۂ آفاق تصنیف ‘‘ نفاذِ شریعت اور فقہ جعفریہ’’کو عدالتی تحفظ بھی حاصل ہو گیا،اگرچہ یہ کتاب ابھی تک جناب امان اللہ لک کے نام سے ہی شائع ہو رہی ہے۔
امان اللہ لک
          1976ء میں حضرت جؒی گجرات کے مشہور قصبہ پھالیہ کے نواحی گاؤں ‘‘لک’’ تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے تو آپؒ سے ملاقات کے لئے گاؤں کی ایک معمر خاتون لاٹھی ٹیکتی ہوئی پہنچی اور کہنے لگی کہ میں تو اس بزرگ کی زیارت کے لئے آئی ہوں جس نے،لک نوں ڈھایا،(امان اللہ لک کو زیر کیا)۔ مغرب کا وقت ہوا تو لک صاحب کی کوٹھی پر اذان ہوئی اور لان میں نماز کے لئے صفیں بچھ گئیں۔ اسی اثناء میں کوٹھی کے گرد کچھ مقامی لوگ اکٹھے ہوگئے اور حیرت کا اظہار کرنے لگے ‘‘ایہ ویکھو، لک دی کوٹھی تے اذان’’(یہ دیکھو امان اللہ لک کی کوٹھی اور اذان)۔
            بات بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ امان اللہ لک پیپلزپارٹی کے رہنما اور گجرات کے مشہور وکیل تھے جو اپنے اکھڑ مزاج اور سخت گیر ہونے کے حوالے سے علاقہ بھر میں اپنی پہچان رکھتے تھے۔ وہ کسان موومنٹ کے صدر اور پنجاب اسمبلی کے سینئر لیڈر حزب ِاختلاف رہ چکے تھے لیکن زبردست شخصیت اور بھرپور مصروفیات کے باوجود سکونِ قلب سے محروم تھے۔ ایک روز پنجاب اسمبلی میں بیٹھے تھے ۔گردوپیش پر نگاہ ڈالی تو معاً اس سوچ میں ڈوب گئے کہ کتنے ہی لوگ ان کرسیوں پر بیٹھے اور زیرِزمین چلے گئے،آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں۔ امان اللہ لک بے چین ہوگئے اور اسی سوچ میں پیپلز ہاؤس واپس پہنچے تو نڈھال ہو چکے تھے۔اسی اثناء میں سلطان محمود آشفتہ جو ان دنوں ریڈیو پاکستان سے منسلک تھے، ملاقات کے لئے آئے اور وجہ ِ پریشانی دریافت کی۔امان اللہ لک نے اپنی حالت بیان کی تو انہوں نے حضرت جؒی کا ایک خط پڑھنے کے لئے دیا اور آپؒ کا غائبانہ تعارف بھی کرایا۔
            امان اللہ لک، حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ پہنچے تو سکونِ قلب نصیب ہوالیکن اس پہلی ملاقات میں یہ شرط پیش کردی کہ ذکر کریں گے نہ داڑھی رکھیں گے، صرف اپنے متعلقین میں شامل فرمایا جائے۔ حضرت جؒی کی صحبت کے نتیجہ میں نہ صرف ذکر نصیب ہوا بلکہ داڑھی رکھنے کی سعادت بھی ملی اورآپؒ ہی کی تصنیف ‘‘نفاذ شریعت اور فقہ جعفریہ’’ کے حوالے سے ملک بھر میں پہچانے گئے اگرچہ اس کے لئے انہیں قربانیوں کی گھاٹی سے بھی گزرنا پڑا۔لک صاحب ہی کے ایماء پر حضرت جؒی نے سلسلۂ عالیہ کی مستقل رہنمائی کے لئے وصیت نامہ تحریر فرمایااور آپؒ کا تاریخی انٹرویو ریکارڈ ہوا جو ‘‘حیات جاوداں’’ میں شامل متعدد واقعات کا اہم ترین مآخذ بھی ہے جس پر حضرت جؒی نے خود روشنی ڈالی۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو