ANTI-ADBLOCK JS SYNC دارُالعرفان ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

دارُالعرفان

دارُالعرفان

            حضرت جؒی کی دُوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ نسبتِ اویسیہ کو ایک طویل عرصہ تک ترسیل ِبرکاتِ نبویﷺ کا واسطہ بننا ہے جس کے لئے ایک مضبوط مرکز اور جامع تنظیم سازی کی ضرورت ہو گی۔چکڑالہ حضرت جؒی کا مَولِد تھا، عمر ِعزیز کا بیشتر حصہ یہیں بسر ہوا اور آج چکڑالہ ہی کے نواح میں آرام فرما ہیں لیکن یہاں کے انتہائی گرم و سرد موسم اور محل ِ وقوع کے پیش نظر آپؒ نے کبھی بھی اس جگہ کو سلسلۂ عالیہ کے مرکز کے طور پر پسند نہ فرمایا۔
            1961ء میں سلسلۂ عالیہ کا پہلا سالانہ اجتماع عام آبادی سے دور حضرت امیر المکرم کے ڈیرہ ڈھوک ٹلیالہ پر منعقد ہوا جس کے بعد ان کی میزبانی میں سالانہ اجتماعات کا مقام بدلتا رہا۔ 1970ء سے 1980ء تک یہ اجتماعات منارہ سکول میں منعقد ہوئے اور اس طرح منارہ کو سلسلۂ عالیہ کے تربیتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اگرچہ چکوال میں کبھی کوئی سالانہ اجتماع منعقد نہ ہوا تھا لیکن یہاں حافظ عبدالرزاقؒ شعبہ ِنشرواشاعت چلا رہے تھے اور ساتھیوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے ماہ رمضان میں اعتکاف کے چند پروگرام بھی ہوئے۔ اس طرح چکوال کو بھی کچھ عرصہ تک مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ 1978ء کے سالانہ اجتماع کے دوران حضرت جؒی نے منارہ کو مستقل مرکز مقرر کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘اس کے بعد رہ گیا یہ مقصد کہ مرکز پہلے چکوال تھا۔ پھر بھی کوشش کی وہاں رکھیں لیکن کسی خاص وجہ سے وہاں نہیں رکھا گیا۔ کیونکہ حافظ صاحب نے کہا ہے کہ مرکز یہی (منارہ) ہونا چاہیے، اس واسطے اب مرکز مقرر ہو گیا۔’’
            حضرت جؒی نے ہدایت فرمائی کہ ایک وسیع مسجد اور رہائشی کمروں پر مشتمل ایک مستقل مرکز تعمیر کیا جائے جس کا نام دارُالعرفان ہو۔ تعمیل ِارشاد میں حضرت امیر المکرم نے چکوال خوشاب روڈ پر معدنی کوئلہ کی منڈی نوری پیڑہ میں 17کنال اراضی پیش کر دی جس میں حضرت امیرالمکرم کے پانچ کنال میں تعمیر شدہ کول مائنز کے دفاتر تھے جبکہ مزید 12کنال جگہ اپنی قیمتی زرعی اراضی کے عوض حاصل کی گئی۔ دارالعرفان کے لئے مجوزہ جگہ کو دیکھنے کے لئے حضرت جؒی نوری پیڑہ تشریف لے گئے اور حضرت امیر المکرم کی اس پیشکش کو انتہائی پسندیدگی سے قبول فرمایا۔
            1978ء کے سالانہ اجتماع کے دوران دارُالعرفان کی تعمیراتی منصوبہ بندی ابتدائی مراحل میں تھی۔ میجراحمدخانؒ کی زیرنگرانی ایک پارٹی تشکیل دی گئی جس نے اس جگہ کو جھاڑ جھنکار اور پتھروں سے صاف کیا اور دارالعرفان کے مختلف حصوں کی حدبندی کی۔ مسجد سے ملحقہ باغیچہ کے لئے جو جگہ مخصوص کی گئی تھی، اس میں 30جولائی 1978ء کو کلرکہار سے پھلدار پودے منگوا کر پہلی شجرکاری کی گئی۔   
            ایک اہم مسئلہ مسجد کے لئے سمت ِقبلہ متعین کرنے کا تھا۔ ستاروں کے ذریعے سمت معلوم کرنے کا پروگرام بنتا رہا لیکن کئی روز تک آسمان ابرآلود رہنے کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا۔ 30/31 جولائی کی شب آسمان اچانک صاف ہوا تو میجر احمد خانؒ اور ان کی پارٹی منارہ سکول سے نوری پیڑہ پہنچی اور قطب ستارے کی مدد سے مسجد و محراب کے نشان لگائے۔ اگلے روز حضرت جؒی کی خدمت میں گذشتہ شب کی کاروائی پیش کی گئی تو آپؒ نے فرمایا کہ وہ نمازِ عصرنشان زدہ جگہ پر ادا کریں گے۔
            رات کی کاروائی قاضی جؒی نے بھی سنی جو اس وقت تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھے۔ وہ تلاوت کرتے ہوئے اچانک پریشانی کے عالم میں اٹھے اور کہنے لگے:
‘‘ سنگیو! تم نے قبلہ کا جو تعین کیا ہے، وہ ٹھیک نہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس مرکز نے قیامت تک چلنا ہے، اپنا قبلہ درست کر لو۔’’
            قاضی جؒی کی یہ بات حضرت جؒی تک بھی پہنچ گئی۔ پروگرام کے مطابق آپؒ دارالعرفان کی مجوزہ جگہ پر تشریف لے گئے تو قاضی جؒی بھی ہمراہ تھے۔ حضرت جؒی نے ان سے فرمایا :
‘‘قاضی جی خیال کریں، محراب کا رخ کس طرف ہے۔’’
قاضی جؒی نے عرض کیا:
‘‘ حضرت! حطیم پر۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘کیا حطیم بیت اللہ کا حصہ نہیں !’’
قاضی جؒی نے اعتراف کیاکہ انہیں غلطی لگی تھی۔
          اس طرح حضرت جؒی نے دارالعرفان کے رخ کی درستگی کی توثیق فرما دی۔ پتھروں سے نشان زدہ مسجد کی ناہموار زمین پر صفیں بچھ گئیں اور حضرت جؒی کی اقتداء میں دارُالعرفان میں پہلی نماز ادا ہوئی۔ نماز ِعصر ادا کرنے کے بعد محراب کی بنیاد میں دست ِمبارک سے تین مرتبہ سیمنٹ ڈالتے ہوئے حضرت جؒی نے 31جولائی[1] 1978ء بمطابق 25شعبان المعظم 1398ھ بروز سوموار  دارالعرفان کی تعمیر کا افتتاح فرمایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰه! اس موقع پر حضرت امیر المکرم اور احباب ِخاص کے بعد راقم کو بھی حضرت جؒی کی اقتداء میں محراب کی بنیادوں میں سیمنٹ ڈالنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
            دعا کے بعد حضرت جؒی نے ارشاد فرمایا:
‘‘اس مرکز کو ظہور ِمہدی تک قائم رہنا ہے۔ یہ جماعت خوب پھیلے گی اور حضرت مہدیؒ کی نصرت کرے گی، اِنْ شَاءَ اللّٰه!’’
            قاضی جؒی مسجد دارالعرفان کی نشان زدہ وسیع و عریض جگہ کو دیکھتے ہوئے فرمانے لگے:
‘‘میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ جگہ آنے والے وقت میں کم پڑ جائے گی[2]۔’’
قاضی جؒی نے اس موقع پر مزید فرمایا:
‘‘میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک وقت آئے گا جب یہ جگہ دنیا بھر کا مرکز بنے گی۔[3] ’’
             1979ء  میں منارہ سکول کی بجائے دارالعرفان کی کھلی فضا میں اجتماع منعقد کرنے کا مشورہ ہوا تو حضرت جؒی نے ہدایت فرمائی کہ یہاں مسجد کی تعمیر سے قبل اجتماع منعقد نہ کیا جائے۔ چنانچہ اُس سال باَمر ِمجبوری سالانہ اجتماع منارہ سکول ہی میں منعقد ہوا۔ 1980ء کے سالانہ اجتماع کا آغاز بھی حسب ِسابق منارہ سکول میں ہوا لیکن دورانِ اجتماع جب حضرت جؒی کے کمرے، لائبریری اور لیڈیز روم کی تعمیر مکمل ہوئی تو یکم ستمبر بعد از نمازِ فجر حضرت جؒی احباب کے ہمراہ منارہ سکول سے دارالعرفان منتقل ہوگئے۔ دارالعرفان میں سلسلۂ عالیہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع تھا۔
            1980ء کے سالانہ اجتماع میں شرکت کرنے والے احباب کو دارالعرفان کی تعمیر میں بھرپور حصہ لینے کی سعادت ملی۔ محراب کی اینٹیں خود تراشیں، فرش کے لئے روڑی کوٹی اور ایک مزدور سے معمار تک تمام کام خود کئے۔ اس میں چھوٹے بڑے، افسر ماتحت، خاص و عام میں کوئی فرق نہ تھا۔ چھت پر لینٹر ڈالنے کے لئے لفٹر خراب ہوا تو حضرت امیر المکرم ٹریکٹر کے ذریعے ٹرالی کے رسوں کو کھینچتے نظر آئے۔ کچھ احباب نے رضاکارانہ طور پر تعمیراتی اخراجات میں اپنا حصہ مقرر کیا۔
            13 اکتوبر 1980ء کو لنگر مخدوم کے سالانہ اجتماع میں حضرت جؒی نے مشائخ کی طرف سے یہ اعلان فرمایا کہ منارہ (دارالعرفان) مستقل مرکز رہے گا۔ 14 نومبر 1980ء کو حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ کی ماہانہ حاضری تھی۔ اس موقع پر آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ اس جماعت کو بڑی دور تک بفضلہٖ تعالیٰ چلنا ہے۔‘‘المرشد’’ نومبر 1981ء کے شمارہ میں اعلان شائع ہواکہ اب دارالعرفان سال بھر کھلا رہے گا اور راشن اور باورچی کا انتظام ہو گا۔
            ایک مرتبہ دارُالعرفان میں سالانہ اجتماع کے دوران ایک عالمی شہرت یافتہ قاری تشریف لائے تو احباب نے تلاوتِ قرآنِ حکیم کی دعوت دی۔ حضرت جؒی اپنے کمرہ میں تشریف فرما تھے کہ تلاوت کی آواز سنائی دی۔ سریلی آواز کا جادو جگانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی تھی۔آپؒ کچھ دیر تک سنتے رہے، آخر رہا نہ گیا اور فرمانے لگے:
‘‘یہ کون قرآن پڑھ رہا ہے؟ پڑھتا قرآن ہے اور نحوست ٹپک رہی ہے۔’’
            کلامِ الٰہی کو اس کے آداب کی بجائے خودنمائی کے لئے سروں کے ساتھ پڑھنا دراصل قرآنِ حکیم سے حصولِ برکات کی بجائے گستاخی ہے جو کہ اس دور میں ایک رواج بن چکا ہے۔
  دارُالعرفان کی بہاریں حضرت جؒی کی ذات سے وابستہ تھیں۔ یوں محسوس ہوتاکہ یہ بہاریں اسی طرح قائم رہیں گی، حضرت جؒی ہوں گے اور دارُالعرفان ۔ آپؒ کی جدائی کا خیال کبھی کسی ساتھی کے دل میں آیا نہ کوئی اس کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ ہر دل میں نہاں یہ سوچ مشترک تھی کہ حضرت جؒی کے وجود سے دارُالعرفان یونہی آباد رہے گا اور ساتھیوں کو یہاں آپؒ کی توجہ ہمیشہ نصیب رہے گی۔ اپنی مبارک زندگی میں یہاں موجودگی کی صورت اور حیاتِ برزخیہ میں یہاں آپؒ کے مرقد کی صورت۔ ہر شخص جذباتی طور پر دل کے ہاتھوں مجبور یہی سوچ رکھتا تھا اگرچہ نسبت ِاویسی حصول ِتوجہ اور فیض کے لئے زمان و مکان کی پابندیوں کے تابع نہیں۔
            حضرت امیر المکرم سے زیادہ اس حقیقت کا ادراک کسے ہو سکتا تھا لیکن اپنے شیخ سے بے پناہ محبت کے ہاتھوں وہ بھی یہی سوچ رکھتے تھے۔1983ء میں لاہور سے آتے ہوئے ایک سفر کے دوران فرمانے لگے:
‘‘حضرت غوث سیّد علی ہجویریؒ (قلعہ والے) کی خدمت میں عرض کی تھی کہ حضرت جؒی کے بعد دارُالعرفان کا کیا ہوگا تو انہوں نے فرمایا: ‘مشاہدہ کر لو’ اس کے ساتھ ہی یہ صورت سامنے آئی کہ دارُالعرفان میں حضرت جؒی کے کمرے کا فرش اکھاڑا جا رہا ہے۔’’
             اس وقت یہ سمجھا گیا کہ دارالعرفان میں حضرت جؒی کے کمرے کو آپؒ کی آخری آرام گاہ بننا ہے لیکن یہ سعادت مرشد آباد کو نصیب ہوئی۔
            حضرت جؒی کے وصال کے بعد جولائی اگست 1984ء میں سالانہ اجتماع منعقد ہوا تو شریک ہونے والوں کی تعداد میں ناقابل ِفہم اضافہ حیرانی کا باعث تھا۔ اس اجتماع میں کئی ایسے لوگ بھی شریک ہوئے جنہیں ایک عرصہ سے ذکر و فکر کی دعوت دی جا رہی تھی لیکن انہیں حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری کی سعادت نہ مل سکی لیکن اس اجتماع میں وہ کشاں کشاں پہنچے۔ حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت جؒی کی صورت ایک مرکز کی تھی جس کے گرد اندرونی دائرہ میں صرف وہی حضرات داخل ہو سکے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سعادت ِعظمیٰ نصیب ہوئی۔ اس کے بعد آنے والے بیرونی دائرے کے افراد ہیں۔ اس جواب سے یہ عقدہ بھی کھلا کہ 1983ء میں حضرت جؒی کی معیت میں دارُالعرفان کے آخری سالانہ اجتماع میں کوئی روحانی بیعت نہ ہوئی کیونکہ آپؒ کے ذریعے جن خوش قسمت احباب کو یہ سعادت ملنا تھی ان کی تعداد مکمل ہو چکی تھی لیکن اگلے سال حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی کے ذریعے کتنے ہی لوگ اس شرف سے مشرف ہوئے بلکہ ایک روز 29 احباب کی روحانی بیعت ہوئی۔
            اس اجتماع کے بعد ایک مرتبہ دارُالعرفان حاضرہوا تو اجتماع کی رونقوں کے برعکس یہ اداس سی شام تھی۔ حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی چند ملازمین کے ہمراہ یہاں موجود تھے اور کچھ دیر بعد گھر لوٹنے والے تھے۔ فرمانے لگے، اس جگہ کو ہمہ وقت آباد رہنا چاہیے۔ عرض کیا حضرت یہاں ایک مدرسہ قائم کر دیا جائے تو فرمایا، پورے ملک میں مدرسوں کی کوئی کمی ہے! میں چاہتا ہوں کہ یہاں ایک ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد ڈالی جائے جو دینی اور دنیوی تعلیم کا حسین امتزاج ہو۔ چنانچہ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کے افکار کی روشنی میں آرمی ایجوکیشن کور کے کرنل طیّب سے مل کر صقارہ نظام تعلیم کے خدوخال متعین کئے گئے۔ 1981ء میں دارُالعرفان مسجد کی عمارت مکمل ہونے کے بعد 12 جون کو صدرِپاکستان جنرل ضیاء الحق نے افتتاح کے لئے یہاں آنا تھا لیکن اچانک مصروفیات کی بنا پر انہیں اس وقت یہاں کی حاضری نصیب نہ ہوسکی۔ حضرت جؒی کے وصال کے بعد 1987ء میں جنرل صاحب یہاں آئے اور صقارہ اکیڈمی کا افتتاح کیا۔ یہ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کے مجوزہ نظامِ تعلیم کی جانب پہلا قدم تھا۔
            دارالعرفان سالکین کے لئے مرکز ِرشد و ہدایت ہے۔ اس کی حیثیت سلوک کی تربیت گاہ کی ہے لیکن کچھ چاہنے والوں نے دارالعرفان سے اس قدر ٹوٹ کر پیار کیا کہ مرنے کے بعد بھی یہیں کے ہو رہے۔ ان میں حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی کے والد گرامی ملک فیروز خانؒ تھے جنہیں اواخر ِعمر اس عالم میں دیکھا کہ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی اپنے کمرہ میں تشریف فرما احباب کو ذکر کرار ہے ہوتے اور وہ کمرہ سے باہر دیوار سے پیوست مجسم ذکر و فکر بیٹھے رہتے۔ ایک قبر کرنل محبوبؒ کی ہے جو سالانہ اجتماع میں شریک ہوئے، چند روزہ علالت کے بعد وفات پائی اور اپنی وصیت کے مطابق یہیں دفن ہوئے۔ ایک قبر چوہدری فقیر اللہ بؒٹر کی ہے جو ایک زمانے میں ممبر قانون ساز اسمبلی تھے۔ دارُالعرفان سے وابستہ ہوئے تو اجتماعات میں شروع سے آخر تک پیرانہ سالی اور خراب صحت کے باوجود شریک رہتے اور وصیت کے مطابق دارُالعرفان ہی اُن کا آخری مسکن بنا۔ ان بزرگوں کے حالات اکثر احباب کے علم میں ہیں لیکن یہاں ایک شخصیت ایسی بھی ہے جس کا نام ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ ان کا تذکرہ خود حضرت جؒی نے فرمایا جو ایک کیسٹ میں ریکارڈ ہو چکا ہے۔
          ایک سالانہ اجتماع کے موقع پر وہ حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر تھے۔ بیٹھنے کا انداز ایسا کہ    بے حس و حرکت، نگاہ اٹھا کر شیخ کی طرف نہ دیکھتے۔ ہمہ تن گوش، اس سے قطع نظر کہ حضرت جؒی کی زبان نہ سمجھتے۔ عمر کم و بیش ایک سو سال لیکن اس بڑھاپے اور ضعف کے باوجود حضرت جؒی کی خدمت میں ہمیشہ تشہد کی حالت میں بیٹھتے اور پہلو تک نہ بدلتے، مجسم آداب ِشیخ۔ حضرت جؒی نے ایک شفقت بھری نگاہ ان پر ڈالی اور فرمانے لگے:
‘‘ان کا قوم قبیلہ سارا جہاد میں مصروف ہے اور یہ یہاں سے کمک بھیج رہے ہیں۔ مجاہد تیار کر کے بھیج رہے ہیں۔ چندہ کر کے بھیج رہے ہیں۔ یہ پشتو جانتے ہیں یا فارسی، ہماری زبان کوئی نہیں جانتے۔’’
ایک ساتھی نے جہاد کے متعلق استفسار کیا تو حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘افغانستان کے لئے یہ مجاہد بھیج رہے ہیں۔ چندہ بھی بھیجتے ہیں ان کا اپنا قبیلہ سارا لڑ رہا ہے۔ کابل سے تعلق ہے، رہتے پشاور میں ہیں۔ پشاور میں ایک بستی ہے، وہاں رہتے ہیں۔ وہاں درس و تدریس کا کام کرتے ہیں۔ کسی وقت ایک بزرگ نے انہیں احدیت کرائی تھی لیکن بعد میں ہوتی کوئی نہیں تھی۔ اتفاقاً پشاور گیا تو میرے پاس آکر بیٹھ گئے، معاملہ پھر شروع ہوگیا۔ اس کے بعد آنے لگے۔ اب اس حالت میں ہیں۔ منارہ میرے پاس کافی عرصہ رہے، پھر چلے گئے، پھر آگئے۔ اب میں منارہ آرہا تھا تو پھر آگئے۔ اس عمر میں دیکھ لو۔ ان کو کسی کے ساتھ باتیں کرتے نہیں دیکھا، نہ زبان سمجھتے ہیں، ہر وقت مراقب رہتے ہیں۔ اسی طرح قاضی جی کی حالت ہے۔ سرحد کے پورے دورے میں ساتھ رہے۔ جہاں میں جاتا تھا وہاں پہنچتے۔’’
          حضرت جؒی کی زبان مبارک سے یہ تذکرہ مولانا عبدالباقؒی  کا تھا جو افغانستان کے ایک مدرسہ میں شیخ الحدیث تھے۔ روسی حملہ کے بعد پاکستان ہجرت کی اور پشاور کوہاٹ روڈ پر ،متنی، نامی قصبہ کی ایک مسجد میں پیش امام مقرر ہوئے۔ مسجد کے حجرہ میں رہائش تھی لیکن مقامی مہاجر کیمپوں میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ جذبۂ جہاد بیدار رکھتے۔ علم اور زہد و عبادت کی وجہ سے نہ صرف افغان مہاجرین بلکہ مقامی آبادی کی نظروں میں بھی خصوصی مقام رکھتے تھے۔ حضرت جؒی کے صوبہ سرحد کے دوروں اور منارہ کے اجتماعات میں اہتمام سے شریک ہوا کرتے۔
            حضرت جؒی کے وصال کے کچھ عرصہ بعد کوہاٹ سے پشاور لوٹتے ہوئے راقم نے نماز ِعصر ان کی اقتداء میں ادا کی۔ اس وقت تک انہیں حضرت جؒی کے وصال کا علم نہ تھا۔ خبر سنی تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ مقتدی حیران تھے کہ افغانستان میں عزیزوں کی پے در پے شہادت کی خبروں پر ان کی یہ حالت کبھی نہ دیکھی تھی لیکن آج کونسا صدمہ ٹوٹ پڑا ہے!
            حضرت جؒی کے بعد مولانا عبدالباقیؒ دارُالعرفان کے اجتماعات میں باقاعدہ شریک ہوا کرتے۔ ایک اجتماع کے دوران شدید بیمار ہوئے تو انہیں واپس پشاور پہنچانے کی سعادت راقم کے حصہ میں آئی۔        خرابی ٔ صحت کے باوجود ایک لگن تھی جو انہیں دارُالعرفان کھینچ لاتی۔ مولانا عبدالباقیؒ اگلے اجتماع میں پھر پہنچ گئے۔ ایک روز اشراق کے بعد وضو کیا تو جائے وضو پر ہی دراز ہو گئے۔ احباب متوجہ ہوئے تو روح قفس ِعنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ تدفین کے لئے کچھ احباب نے پشاور لے جانا چاہا۔ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی نے توجہ فرمائی تو وہ عرض کر رہے تھے کہ میں خود کو یہاں تک لے آیا، اب اس سعادت سے محروم نہ فرمائیں۔ حضرت امیرالمکرم نے ان کی خواہش کے مطابق دارُالعرفان ہی میں تدفین کے انتظامات کئے اور احباب کے ہمراہ قبر کی کھدائی میں خود بھی شریک ہوئے۔ یہ دارُالعرفان میں بننے والی پہلی قبر تھی۔
            دارُالعرفان میں اور کون خوش نصیب مستقل جگہ پائیں گے۔ بالخصوص جس مقام کی نشاندہی   حضرت غوث سیّد علی ہجویریؒ فرما چکے ہیں، وہاں کون ہستی آرام فرما ہوگی؟ واللہ اعلم!



[1]ـ حضرت جؒی کے دست مبارک سے اس افتتاح کی یاد میں حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی نے 17  اگست 2012ء بمطابق 28 رمضان المبارک 1433ھ کو     سنگ افتتاح تنصیب فرمایا۔
[2]ـ    31جولائی 1978ء کو دار العرفان کے افتتاح کے موقع پر حضرت جؒی کے ہمراہ موجود ساتھیوں کی تعداد پچاس سے زائد نہ ہوگی۔ علاقہ بھر میں سب سے بڑی مسجد کا افتتاح کیا جا رہا تھا اور قاضی جؒی فرما رہے تھے کہ آنے والے وقت میں دارالعرفان کی وسعت ساتھیوں کے لئے کم پڑ جائے گی۔ 25مئی 2012ء بمطابق 3 رجب المرجب 1433ھ بروز جمعۃ المبارک کو جب حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی نے دارالعرفان کے توسیعی منصوبے کا افتتاح فرمایا تو 34 سال قبل حضرت جؒی کے دست مبارک سے دارالعرفان کے افتتاح کا منظر سامنے آگیا اور قاضی جؒی کے ان الفاظ کی بازگشت بھی کہ یہ جگہ آنے والے وقت میں کم پڑ جائے گی۔ حضرت جؒی کے ارشاد کے مطابق اس مرکز کو ظہور مہدیؒ تک قائم رہنا ہے اور اس وقت تک جانے کتنے اور توسیعی منصوبوں پر کام ہوگا۔ واللہ اعلم!
[3]ـ     آج دارالعرفان کو دنیا بھر میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی دارالعرفان سے ہر شب ذکر کراتے ہیں تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سلسلۂ عالیہ کے متوسلین بذریعہ انٹرنیٹ ان کے ساتھ ذکر میں شریک ہوتے ہیں۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو