ANTI-ADBLOCK JS SYNC اجتماعات ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

اجتماعات

اجتماعات

            حضر ت جؒی کی تعلیمی، تبلیغی اور مناظرانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اجتماعات بھی زندگی کامعمول بن چکے تھے لیکن سلسلۂ عالیہ کی نسبت سے جس پہلے اجتماع کا ذکر ملتا ہے وہ لنگر مخدوم میں 1947ء میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں آپؒ کے ساتھ قاضی جؒی کے علاوہ دوسا تھی اور بھی تھے جن کے نام معلوم نہیں ہو سکے۔
            آپؒ کے ارشادکے تحت قاضی جؒی نے لیٹی میں مسجد تعمیر کی تو کبھی کبھی آپؒ یہاں قیام فرماتے۔ذکروفکر کے لئے جنگل کا یہ سماں حضرت جؒی کو بہت پسند تھا۔احبابِ سلسلہ آپؒ کے ہمراہ ہوتے تو یہاں بھی اجتماع کی صورت پیدا ہو جاتی۔اسی طرح آپؒ ڈھلی تشریف لے جاتے تو حاجی محمد خانؒ کے زیر اثر چند مقامی لوگ بھی ذکرمیں شریک ہو جاتے۔ اس کے علاوہ چکڑالہ میں ساتھیوں کی حاضری بھی ایک مستقل معمول بن چکا تھا۔ احباب کی خواہش ہوتی کہ حضرت جؒی کے تبلیغی اورمناظرانہ دوروں میں بھی شریک ہو ں لیکن مقامی لوگوں کے محدود وسائل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپؒ اس کی اجازت نہ دیتے یا ہدایت فرماتے کہ اپنا کھانا ساتھ لائیں۔
            حضرت امیرالمکرم 1958ء میں حضرت جؒی سے وابستہ ہوئے توچکڑالہ کے شدید گرم موسم کے برعکس وادیٔ ونہار میں سطح سمندر سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر موضع سیتھی کے مضافات میں ان کا ڈیرہ ڈھوک ٹلیالہ اپنے خوشگوار موسم اور جنگل کے پرسکون ماحول کی وجہ سے اجتماعات کے لئے انتہائی موزوں جگہ تھی۔ 1960ء سے قبل چونکہ ترویج ِ سلسلہ کاآغاز نہ ہوا تھا اس لئے ابتداء میں حضرت جؒی یہاں تنہا تشریف لاتے،البتہ     حضرت امیرالمکرم کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ملک خدا بخشؒ  کو بھی آپؒ کی صحبت میں ذکروفکر نصیب ہو جاتا۔
            چکوال میں حلقۂ ذکر قائم ہوا تو یہاں محدود پیمانے پر اجتماعات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مقامی ساتھی زیادہ ہوتے جن کے لئے طعام و قیام کے انتظامات کی بھی ضرورت نہ تھی جبکہ باہر سے آنے والے چند احباب مسجد میں قیام پذیر ہوتے۔ 1960ء میں ترویجِ سلسلہ کے اذنِ عام کے بعد احباب کی تعداد میں اس قدرتیزی سے اضافہ ہوا کہ ان کی اجتماعی تربیت کے لئے باقاعدہ اجتماعات کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔
سالانہ اجتماعات کا آغاز
            حضرت امیر المکرم کا ڈیرہ ڈھوک ٹلیالہ اگرچہ آبادی سے ہٹ کر تھا لیکن خوشاب چکوال روڈ پر اڈہ نور پور سے پانچ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہونے کے باعث احباب کی دسترس میں تھا۔ حضرت جؒی نے عام اجتماعات کے لئے اس جگہ کو پسند فرمایا تو 1961ء میں یہاں سلسلۂ عالیہ کاپہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا۔ حافظ عبدالرزاقؒ، مولوی سلیمان اور خود حضرت امیر المکرم کاتعلق چونکہ شعبۂ تعلیم سے تھا اس لئے یہ اجتماع گرمیوں کی تعطیلات میں دس روز تک جاری رہا جس میں قریباً پندرہ ساتھی شریک ہوئے۔ جنگل کا سماں، پرسکون فضا اور حضرت جؒی کے ہمراہ شب وروز کے ذکر و اذکار سے اگلے وقتوں کے صوفیاء کی یاد تازہ ہو جاتی۔ پتھروں، کچی اینٹوں اور گارے سے تعمیر شدہ اس ڈیرہ سے ملحق ایک بڑا سا جوہڑ تھا جس میں بارشوں کے موسم میں ذخیرہ شدہ پانی سال بھر کے لئے کافی ہوتا۔ حضرت جؒی اور احباب یہی پانی وضو کے لئے استعمال کرتے اور دیہی طریقے سے صفائی کے بعد یہی پانی کھانا پکانے اور پینے کے کام آتا۔
            1962ء کا اجتماع بھی اسی ڈیرہ پر منعقد ہوا لیکن 1963ء میں حضرت امیرالمکرم کی تبدیلی ڈھلوال ہو گئی تو آئندہ دو سال کے اجتماعات ڈلوال میں منعقد ہوئے جن میں منارہ، چکوال، موہڑہ کورچشم اورمضافاتی علاقوں کے علاوہ لاہور تک سے احباب شریک ہوئے۔ ان اجتماعات کی میزبانی کا شرف بھی حضرت امیر المکرم کے حصہ میں آیا۔1964ء میں حضرت امیر المکرم جب نور پور سیتھی واپس آ گئے تو آئندہ اجتماعات        حسبِ سابق ان کے ڈیرہ پر منعقد ہونے لگے۔ 1965ء سے 1968ء تک سالانہ اجتماعات اسی ڈیرہ پر منعقد ہوئے جن کا دورانیہ دس سے پندرہ روز اور شرکاء کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہوتی۔
             آپؒ کے ہاں چکڑالہ میں احباب کی آمد و رفت خاصی بڑھ چکی تھی۔ اکثر ساتھی شب ِ جمعہ یہاں گزارتے تاکہ آپؒ کے ساتھ مغرب ا ور تہجد کا ذکر مل جائے اور جمعۃ المبارک کا خطاب بھی سن سکیں لیکن ملازم پیشہ حضرات عموماً اتوار کی چھٹی سے فائدہ اٹھاتے۔ اس طرح ہفتہ میں دو مرتبہ چکڑالہ میں اجتماع کی صورت پیدا ہو جاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ مناظرانہ اور علمی سرگرمیوں کے سلسلے میں علماء کی آمد و رفت الگ سے جاری رہتی۔ حضرت جؒی چکڑالہ کے زمینداروں میں شمار کئے جاتے تھے لیکن بارانی زمین کی پیداوار اس قدر نہ تھی کہ احباب کی مستقل آمد و رفت کے اخراجات پورے ہو سکیں۔آپؒ      کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ اخراجات کے لئے کبھی چندہ اکٹھا نہ کیا۔
البتہ حضرت امیر المکرم مدظلہٗ العالی سے اس طرح کا کوئی تکلف نہ تھا۔ حضرت امیر المکرم اخراجات کے لیے خود بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے، ضرورت پڑنے پر حضرت جیؒ اپنی اولاد کی طرح ان سے منگوا بھی لیا کرتے تھے۔
     اللہ تعالیٰ نے حضرت امیر المکرم کے کاروبار میں اس قدر برکت عطا فرمائی کہ 1969ء میں کاروباری انتظامات کے لئے نور پور اڈہ پر باقاعدہ دفتر قائم کیا گیا۔یہ دفتر برلبِ سڑک ہونے کی وجہ سے احباب کی آمدورفت کے لئے انتہائی موزوں تھا اور جگہ بھی خاصی کشادہ تھی۔ ڈھوک ٹلیالہ میں پانی کا مسئلہ تو تھا ہی لیکن نئے احباب کے لئے جنگل میں پہنچنا بھی دشوار تھا۔ چنانچہ 1969ء کا سالانہ اجتماع ڈھوک ٹلیالہ کی بجائے نور پور اڈہ پر منعقد ہوا جو 18جون سے 2جولائی تک جاری رہا۔
اجتماع منارہ
                    نور پور اڈہ میں یوں تو احباب کو ہر طرح کی سہولت میسر تھی لیکن جنگل کے ڈیرہ جیسا سکون کہاں؟ ساتھیوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو چکا تھا کہ اجتماع کا انعقاد نورپور اڈہ پر بھی ممکن نہ رہا۔نئے احباب کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں اور ملک کے دور دراز علاقوں بشمول کراچی اور بلوچستان سے تھا۔ ان کے لئے اجتماع کا دورانیہ طویل رکھا گیا تاکہ وہ اپنی سہولت اورمصروفیات کے مطابق شروع، درمیان یاآخر میں، جب چاہیں شریک ہوسکیں۔ البتہ یہ بات طے شدہ تھی کہ سالانہ اجتماع موسم گرما کی تعطیلات میں منعقد ہوا کرے گا اوراس کی میزبانی ہمیشہ حضرت امیرالمکرم کے حصہ میں آئے گی۔
1970ء کے سالانہ اجتماع کے لئے مڈل سکول منارہ پر نظر پڑی توحضرت امیر المکرم کے اثرورسوخ سے دوران تعطیلات سکول کی عمارت کے استعمال کی اجازت مل گئی۔ 1970ء میں 4 جولائی سے 19 جولائی تک منارہ سکول میں پہلا اجتماع منعقد ہوا ۔ منارہ سکول کی عمارت کا درمیانی اور نسبتاً چھوٹا کمرہ حضرت جؒی کی رہائش کے لئے وقف تھاجس کے ایک کونے میں آپؒ کے لئے وضو کا انتظام ہوتا اوردروازے اورکھڑکی کے مابین آپؒ کی چارپائی ہوتی۔ اجتماعی اذکار اور دیگر مصروفیات کے دوران جب بھی موقعہ ملتا، حضرت جؒی کے گرد    


ساتھیوں کااس قدر ہجوم ہو جاتاکہ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے احباب کو دروازے کے سامنے برآمدے میں بیٹھنا پڑتا۔ دن کے اذکار حضرت جؒی کے کمرے سے متصل بڑے کمرے اور برآمدوں میں ہوتے۔ سورج ڈھلتا تو آپؒ سکول کے صحن میں تشریف فرما ہوتے اور اسی جگہ مغرب کے بعد ذکر کے لئے صفیں ڈال دی جاتیں۔
            سکول کا صحن ناہموار تھا،  زمین پتھریلی اور جا بجا ابھرے ہوئے نوکیلے پتھر لیکن ذکر کے دوران اونچی نیچی جگہ اور نوکیلے پتھروں کا احساس تک نہ ہوتا البتہ ذکرختم ہونے پرمعلوم ہوتا کہ ضربوں کے نتیجے میں جسم کے بعض حصے زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ ذکر کی برکات تھیں کہ ان نوکیلے پتھروں پر ساتھیوں کو وہ سکون ملتا کہ نمازِ عشاء کے بعد اسی جگہ بستر کے بغیر سوجاتے۔
            منارہ سکول میں قیام اوّل تا آخر ایک مجاہدہ تھا۔ جون، جولائی کی مختصر راتیں، عشاء سے تہجد تک بمشکل نیند پوری ہوتی۔تہجد کے نوافل ادا کرنے کے بعد نمازِ فجر تک ذکرکی طویل نشست ہوتی۔نماز فجر کے بعد اشراق تک حضرت امیر المکرم کا درس قرآن ہوتاجس کااپنا ہی ایک انداز تھا،لفظی نہ مروّجہ سلیس ترجمہ۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں قرآنِ حکیم کا مفہوم اس طرح بیان کرتے جوسیدھا دل میں اتر جاتا۔
            تہجد سے اشراق تک کے معمولات منارہ سکول سے قریبی جامع مسجد میں ہوتے۔ واپسی پر سکول میں ایک پیالی چائے اور رات کی بچی کھچی روٹی کے ایک آدھ ٹکڑے کے ساتھ ناشتہ، چاشت کے بعد طویل ذکر اور گیارہ بجے کے قریب طعام جو قلت نوم کے بعد قلت طعام کانمونہ پیش کرتا۔ روٹی اورشوربے میں دال کے چند دانے یا سبزی کی ایک آدھ قاش، یہی کھانا حضرت جؒی بھی تناول فرماتے۔ وہ احباب اپنے آپ کو انتہائی خوش نصیب سمجھتے جنہیں حضرت جؒی کی چارپائی سے متصل جگہ ملتی اور آپؒ کی چھوڑی ہوئی ترکاری یا روٹی کا ایک آدھ نوالہ مل جاتا۔
            سنتِ نبویﷺ کی اتباع میں حضرت جؒی حفظ مراتب کا خیال رکھتے اورخاص طورپر آپؒ کے ہاں یہ اہتمام کھانے کے موقع پر نظر آتا۔ بطور اکرام بعض احباب کو حضرت جؒی کی طرف سے بلاوا آتا اورانہیں آپؒ کے قریب دسترخوان پربٹھایا جاتا لیکن کھانا انہیں بھی وہی ملتا جو باہر دوسرے احباب میں تقسیم کیا جاتا۔ پانی کے لئے بڑے بڑے کٹورے تھے جنہیں بیک وقت کئی ساتھی استعمال کرتے۔ الگ برتنوں کاکوئی تصور تھا نہ احباب میں کوئی امتیاز، سب ساتھی کہلاتے البتہ ہرشخص ان احباب کی دلی عزت کرتا جو سلسلۂ عالیہ کے سابقون میں شمار ہوتے۔ ان کی طرف سے بھی نئے احباب کے لئے بے پناہ شفقت کا اظہار ہوتا، وہ ایک ایک ساتھی کوالگ سے وقت دیتے اور اسباقِ سلوک پختہ کرنے میں دن رات ان کے ساتھ محنت کرتے ۔
            دن کے کھانے کے بعد قیلولہ، لیکن فرشی بسترپر گرمی اور پنکھے نہ ہونے کی وجہ سے مکھیوں کی بھرمار کے باوجود سخت مجاہدوں کے نتیجے میں ایسی نیند آتی کہ نمازِ ظہر کے لئے جاگنا مشکل ہوجاتا۔ نماز کے بعد حضرت جؒی کی خدمت میں صحبتِ شیخ کا پیریڈ ہوتا اور اسی دوران چائے بھی تقسیم کی جاتی۔ اس کے بعد ذکر، تلاوتِ قرآن اوردیگر معمولات، جو نمازِ عصر تک جاری رہتے۔ نماز کے بعد پھر ذکر، گویا سارا دن محافلِ ذکر جاری رہتیں، کبھی اجتماعی اورکبھی انفرادی لیکن اس مصروف پروگرام کے دوران انتہائی قیمتی وقت وہ ہوتا جوحضرت جؒی کی صحبت میں گزرتا۔ صحبتِ شیخ میں اگر کوئی عالم موجود ہوتا تو اس کے ساتھ حضرت جؒی کی گفتگو خالص علمی نوعیت کی ہوتی لیکن عام ساتھیوں کے لئے آپؒ کی خاموش توجہ جاری رہتی جس کے طفیل صدیوں کے روحانی فاصلے پل بھر میں طے ہو جاتے۔ ایسی ہی ایک نشست میں حضرت جؒی نے ایک ساتھی کو ہاتھ کا اشارہ کیا کہ وہ کھڑکی کی چٹخنی اوپرچڑھا دے لیکن روحانی طورپر توجہ کایہ عالم تھا کہ جونہی آپؒ نے ہاتھ اوپر اٹھایا، اس ساتھی کی روح ایک ہی جست میں سالک المجذوبی طے کر گئی۔
            یہ غالباً 1976ء کے سالانہ اجتماع کی بات ہے، حضرت جؒی نے دنیا اور آخرت کے اوقات کا تقابل کرتے ہوئے سورة البقرہ کی آیت 259 میں اللہ تعالیٰ اور حضرت عزیرu کے مابین گفتگو کا حوالہ دیا:
قَالَ كَمْ لَبِثْتَ (پوچھا تم (اس حال میں) کتنی مدت رہے۔)
قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍط(کہا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ)
قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ (فرمایا بلکہ تم ایک سو سال (اس حال میں) رہے)
قاضی جؒی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ فوراً بول اٹھے:
‘‘حضرت جؒی! میں نے حضرت عزیرu سے پوچھا تھا کہ آپ نے جو یہ جواب دیا تھاکہ میں دنیا میں ایک دن یا اس کا حصہ رہا جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سو سال تک رہے تو انہوں نے جواب دیا، مجھے غلطی لگی۔ میں نے آخرت کے وقت کے حساب سے جواب دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وقت کے حساب سے سوال پوچھا تھا جس کے مطابق سو سال گزر چکے تھے۔’’
حضرت جؒی نے قاضی جؒی سے فرمایا:
‘‘آپ نے ٹھیک دیکھا۔’’
            حضرت جؒی کی محفل سے اٹھے تو ساتھیوں نے قاضی جؒی کو گھیر لیا۔ ایک ساتھی نے حضرت عزیرu کے حلیہ مبارک کے متعلق پوچھاتو کہنے لگے، لاہور کے فلاں ساتھی (نام لیا) سے ملتا ہے۔
‘‘اچا جیا، وتنا رہنا، پتلی پتلی داڑھی اے۔’’
            (وہ ساتھی لمبے قد کا ہے، آتا رہتا ہے، داڑھی گھنی نہیں ہے۔)
حضرت عیسیٰu کے اٹھائے جانے کا ذکر چھڑا تو قاضی جؒی کہنے لگے:
‘‘چوتھے آسمان پر ہیں، مقام خفی پر ملتے ہیں۔’’
پھر کہنے لگے:
‘‘آہستہ آہستہ مختلف مقامات کرتا رہتا ہوں۔ ہر مقام پر کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں۔ بھول جاتا ہوں، ان پڑھ ہوں، مولوی تو نہیں ہوں۔’’
ایک ساتھی نے انبیاء علیہم السلام  سے رابطہ کی بات کی تو کہنے لگے:
‘‘انبیاء علیہم السلام سے کبھی رابطہ ہو جاتا ہے۔ ان کے مقام پر روح چلی جاتی ہے۔ گاہے گاہے موسیٰu، ابراہیمu، نوحu، بڑی ہستیوں سے گاہے گاہے تعارف ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم پڑھتے ہوئے ہو جاتا ہے۔ جن انبیاء علیہم السلام  کا ذکر قرآن میں آیا ہے، ان میں کسی کی جانب توجہ کریں تو ان تک انوارات کی قطار بن جاتی ہے۔ یہ سارا نُور ہی نُور ہے، گل آکھنے دی کوئی نئیں۔’’
کسی نے سوال کیا،  کیا آپ نے جنت کی بھی سیر کی ہے؟ تو قاضی جؒی کہنے لگے:
‘‘کبھی نہیں گیا، دیکھتا ہوں۔ اس سے اوپر جگہ ڈھونڈ لی ہے۔ خزانے پر جاتا ہوں۔’’
          ایک ساتھی نے وضاحت چاہی، جنت کے اوپر وہ کون سی جگہ ہے تو قاضی جؒی بے ساختہ ہنس پڑے اور کہنے لگے:
‘‘یہ تو ظاہر اور حاوی ہے، خدا کی ذات، رب العالمین۔ اس لئے کسی چیز کی طرف اب کبھی توجہ نہیں کی۔ روح کی رفتار بڑی تیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سلامت رکھے۔ میں سو رہا ہوں، باتیں کر رہا ہوں، میں اس وقت آپ سے باتیں کر رہا ہوں، میرا ساتھی یہیں بیٹھا ہے۔    کلمہ شریف پڑھا کرو۔ لَا یہاں کہو، اِلَّااللہ وہاں کہو، محمد رسول اللہﷺ روضۂ اطہر پر کہو،   اللہ تعالیٰ کے سامنے کون سی حالت ٹھیک ہے۔ ادھر کوئی سمجھ نہیں آتی، انسان کا وجود جب آخر وہاں پہنچتا ہے، پہلے مقامات پر پتا چلتا ہے، روح نظر آتی ہے، ادھر روح بھی نظر نہیں آتی۔’’
            یہ باتیں عالمِ سُکر میں تھیں اور اکثر ساتھیوں کی سمجھ سے بالا، محفل پر خاموشی چھاگئی۔
(اتفاقاً یہ تمام گفتگو ریکارڈ کر لی گئی)
            منارہ سکول ہی کے ایک اجتماع میں قاضی جؒی معمول کے مطابق حوائج ِ ضروریہ کے لیے قریبی کھیتوں میں گئے۔ استعمال کے لئے زمین سے مٹی کا ڈھیلا اٹھایا لیکن اسے دیکھتے ہی فوراً پھینک دیا۔ دوسرا ڈھیلااٹھایا پھر تیسرا،غرض جس ڈھیلے کو اٹھاتے اسے واپس زمین پر پھینک دیتے۔ قاضی جؒی کی پریشانی بڑھتی گئی۔ حضرت جؒی نے دور سے یہ ماجرا دیکھ کر ساتھیوں سے کہا، ذرا دیکھو آج قاضی جؒی کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ قاضی جؒی آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا، حضرت! استعمال کے لئے جو ڈھیلا اٹھاتا ہوں، اسے تسبیح کرتے ہوئے پاتا ہوں۔ حضرت جؒی نے فرمایا۔ قاضی جؒی، آپ کو معلوم نہیں ہر چیز خواہ جاندار ہو یا بے جان،  اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ آج آپ نے کشفاً ان کی تسبیحات کو سن لیا۔
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰاتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّط وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلَكِنْ لَّا تَفْقَهُونَ  تَسْبِيْحَهُمْ ط
ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے (سب) اس کی پاکی بیان کر رہے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہےلیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل۔44)
  علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ کنکروں کی تسبیح پڑھنے کو اکثر حضورﷺ کا معجزہ بیان کیا جاتا ہے حالانکہ یہ آپﷺ کا معجزہ نہیں کیونکہ کنکر تو ہروقت تسبیح پڑھتے ہیں۔ آپﷺ کا معجزہ تو اس سے بڑا ہے کہ انسانی سماعت کو ان کی تسبیحات کا سننا نصیب ہو گیا۔ قاضی جؒی کے معاملے میں مٹی کے ڈھیلوں کا تسبیح پڑھنا اس فرمانِ الٰہی کے عین مطابق تھا لیکن کرامت یہ ہوئی کہ اجتماعی ذکر اور حضرت جؒی کی مسلسل توجہ سے قاضی جؒی نے کشفاً ان کی تسبیحات کو سن لیا۔ اسی طرح جب حضرت جؒی مراقبۂ  عبودیت کرواتے تو وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِo (اور بُوٹیاں اور درخت، (اسی کو) سجدہ کر رہے ہیں۔ الرحمٰن۔6) کی تلاوت کے ساتھ ہی ساتھیوں کی ایک کثیر تعداد چشمِ بصیرت سے مشاہدہ کرتی کہ کائنات کی ہر چیزاللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہے۔
            نمازِ عصر کے بعد احباب کو حضرت جؒی کی صحبت میں زیادہ دیر بیٹھنے کا موقع نہ ملتا کہ شام کے کھانے کا اعلان کر دیاجاتا جس کی صورت دن کے کھانے سے مختلف نہ ہوتی۔ یہ کھانا مغرب سے قبل تناول کیا جاتا اور نمازِ مغرب کے بعد حسب معمول محفل ذکر،  نمازِ عشاء اور آرام۔ منارہ کے اجتماع میں یہ شب و روز کے معمولات کی ترتیب تھی۔
            منارہ سکول کے ان اجتماعات میں پانی کی شدید قلت بھی مجاہدے کی ایک صورت ہوا کرتی۔ فرض نماز کے علاوہ وضوکی اجازت نہ تھی اور اکثر احباب ایک ہی وضو سے ظہر سے عشاء تک کے معمولات ادا کرتے۔ گرمی کے اس موسم میں غسل کا تصور محال تھا البتہ غسل ِواجب کی صورت میں صرف تین کوزے پانی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ ہر ساتھی پانی کے استعمال میں خود ان ضوابط کو اپنے اوپر نافذ کرتا۔ مسجد کے خادم بھی اگرچہ احباب پر نظر رکھتے لیکن اکثرساتھیوں کو یہ علم ہی نہ ہوتا کہ وہ ان کی نگرانی کررہے ہیں البتہ کوئی نیا ساتھی پانی کے استعمال میں اسراف کرتا تو ان کی تلقین سے پتا چلتا کہ یہاں کوئی نگران بھی ہے۔
            حضرت امیرالمکرم بعض اوقات ٹرک کے ذریعے کلرکہار کے چشموں سے پانی منگوا تے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا کہ پانی کے تمام ذخیرے ختم ہو جاتے۔ ایسی صورت میں مسجد سے اعلان کیا جاتا کہ بستی والے ذاکرین کے لئے وضو کے پانی کا انتظام کریں۔ ایسے موقع پر محلہ والوں کا ایثاردیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مرد، عورتیں، بچے اپنے اپنے گھروں سے پانی لئے مسجد پہنچتے اور ٹینکی میں اپنا حصہ ڈال کرمہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرتے۔اگر کسی گھر میں پانی کی قلت ہوتی تو وہاں سے کوئی بچہ ایک کٹورے میں تھوڑا سا پانی لئے اپنا حصہ ڈالنے ضرور آتا۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ذاکرین کی یہ جماعت بستی والوں کے لئے کوئی بوجھ تھی ۔ پانی کی شدید قلت کی صورت میں منارہ کے لوگ اس بات کا انتظار کرتے کہ کب یہ اللہ اللہ کرنے والے اجتماع کے لئے منارہ کے سکول میں اکٹھے ہوں اور ان کی آمد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بارشوں کا نزول ہو اوراکثر یہی ہوا کرتا۔ سالانہ اجتماع کے دوران نہ صرف پانی کی ضرورت ہمیشہ پوری ہوتی بلکہ لوگ آئندہ بارشوں تک پانی ذخیرہ بھی کر لیتے۔
مستجاب الدعوات
  ایک مرتبہ منارہ کے اجتماع کے دوران بارش نہ ہونے سے قحط سالی کا سماں تھا اور پانی دور دور تک نہیں ملتا تھا۔ مقامی لوگ حضرت جؒی کی خدمت میں دعا کے لئے حاضرہوئے۔ آپؒ کی دعا کے کچھ ہی دیر بعد افق پر بادل امڈ آئے اور بارش سے ہرچیز جل تھل ہو گئی۔ حضرت جؒی مستجاب الدعوات تھے۔         حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ آپؒ کے ساتھ 25 برس کا طویل ساتھ رہا اور جب کبھی کوئی بظاہر ناممکن کام درپیش ہوتا، عرض کر دیتے۔ حضرت جؒی پریشان ہوجاتے اور چہرہ مبارک پر فکرمندی کے تاثرات نمایاں ہوتے۔ آپؒ تفکر فرماتے لیکن جواب نہ دیتے۔ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپؒ نے جواب دیا ہو لیکن وہ      کام ہو جاتا اور جب کوئی کام نہ ہونا ہوتا، باوجود خواہش کے حضرت جؒی سے بات کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ حضرت جؒی کا یہی معاملہ سلسلۂ عالیہ کے عام رفقاء کے ساتھ بھی تھا۔ ہر ایک کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتے اور فکرمند ہوتے۔ آپؒ کی خدمت میں انتہائی ذاتی معاملات پیش کئے تو آپؒ نے پوری توجہ فرمائی اور بعض اوقات آنے والی مشکلات کے بارے میں فکرمندی کا اظہار بھی فرمایا۔ اکثر احباب کو اس بات کا تجربہ ہے کہ پریشانی کے عالم میں حضرت جؒی کی خدمت میں جب کبھی دعا کے لئے خط لکھا گیا تو خط مکمل ہوتے ہی اطمینان حاصل ہوجاتا اور آپؒ تک خط پہنچنے سے قبل  اللہ تعالیٰ مشکل حل فرما دیتے۔
             1976ء کے سالانہ اجتماع کے ختم ہونے میں ابھی کچھ روز باقی تھے۔ حضرت جؒی خطبۂ جمعہ کے بعد نماز کے لئے مصلے پر تشریف لائے لیکن پھر منبر پر واپس چلے گئے اور ہدایات فرمانا شروع کر دیں کہ اجتماع سے واپسی پر کن چیزوں کا خیال رکھا جائے۔ قریباً ایک ہفتہ قبل یہ ہدایات غیرمتوقع تھیں لیکن دو ہی روز بعد شدید بارشو ں کا آغاز ہو گیا اور اجتماع قبل از وقت برخواست کرنا پڑا۔ ساتھیوں کے لئے حضرت جؒی کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ اجتماع برخواست کرنے کے باوجود آپؒ نے ایک ہفتہ منارہ ہی میں قیام کیا تاکہ اس دوران اگر کوئی ساتھی آجائے تو وہ مایوس نہ ہو۔
            منارہ کے ابتدائی چند اجتماعات میں روشنی کے لئے مٹی کے تیل کی لالٹینوں پرگزارا ہوتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت امیر المکرم نے جنریٹر کا انتظام کر لیاتو بجلی کے قمقموں سے نہ صرف سکول میں روشنی ہوتی بلکہ سکول سے مسجد تک کا راستہ بھی روشن کردیا جاتا ۔
            جولائی 1970ء میں منارہ سکول میں منعقد ہونے والے سلسلۂ عالیہ کے پہلے سالانہ اجتماع کا دورانیہ صرف دو ہفتے تھا لیکن تاریخی اعتبار سے یہ اجتماع خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس اجتماع کے ساتھ ہی منارہ کو       علم و عرفان کی روشنی پھیلانے والے ایک مینارۂ نور کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ قریباً ایک عشرہ تک منارہ سکول کو سالانہ اجتماعات کے انعقاد کی سعادت ملی جس کے بعد اسی علاقہ میں دارالعرفان کی صورت میں سلسلۂ عالیہ کا مستقل مرکز قائم ہوا۔ اسی اجتماع کے دوران دربارِ نبویﷺ میں حضرت جؒی نے حج کا معاملہ پیش کیا تو صرف بلاوا ہی نہیں آیا بلکہ حاضری کیلئے حکم ملا خواہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے۔
            1971ء کے اجتماع کے دوران حافظ عبدالرزاقؒ کو شدید بیماری نے آن گھیرا، یہاں تک کہ انہیں حضرت امیر المکرم کے گھر منتقل کر دیا گیا۔ کئی روز بعد بیماری کا زور ٹوٹا تو حضرت جؒی تشریف لائے اور ایک روحانی منصب ملنے پر مبارک دی۔ حافظ صاحؒب نے رو کر عرض کیا:
‘‘حضرت! میں اس کا اہل کہاں ہوں؟ نہ قابلیت، نہ علم،نہ معرفت، نہ عمل۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
دادِ اُو را قابلیت شرط نیست
بلکہ شرطِ قابلیت دادِ اوست

(قبولیت کیلئے استعداد شرط نہیں بلکہ استعداد قبولیت سے مشروط ہے۔)
            1972ء میں منارہ کے سالانہ اجتماع کا دورانیہ ایک ماہ تھا۔ جس کا آغاز 15جولائی کو ہوا۔ حضرت جؒی کے ایک مکتوب کے مطابق اس اجتماع میں تقریباً دو ہزار احباب شریک ہوئے جن میں سے بعض پورا عرصہ مقیم رہے جبکہ ساتھیوں کی آمد و رفت مستقل جاری رہی، کوئی چار دن رہا کوئی کم و بیش۔ اس سال جو انعاماتِ باری کی بارش رفقاء پر ہوئی وہ اس سے پہلے نہ ہوئی تھی۔ حضرت جؒی نے اس اجتماع کے متعلق فرمایا کہ تمام مناصب باقی سلاسل سے منتقل ہو کر ہمارے سلسلہ میں آگئے ہیں اور اسی سال حضور کی طرف سے عمرہ کی صورت میں دوسری مرتبہ حاضری کی ہدایت ملی۔
            اسی سال ایئرفورس کے ایک افسر ہادی حسین شاہؒ کے ذریعے پشاور میں سلسلۂ عالیہ کی ترویج ہوئی اور وہاں سے ایک جماعت نے ان کے ہمراہ اجتماع میں شرکت کی۔ اسی طرح مردان (گڑھی کپورہ) کے    صوبیدار محمد اسحٰقؒ کے ہمراہ مردان اور اس کے گرد و نواح کے لوگ ایک جماعت کی صورت شریک اجتماع ہوئے۔ بلوچستان کے ضلع لورا لائی سے بھی ایک جماعت آئی۔ کاغان سے مولانا فضل الرحمٰن نے اجتماع میں شرکت کی جن کی واپسی پر ان کے ہمراہ مولوی سلیمان اور حافظ عبدالرزاقؒ نے کاغان کا دورہ کیا اور اس علاقے میں سلسلۂ عالیہ کا حلقہ قائم ہوا۔ اس اجتماع میں آزاد کشمیر کے مفتی بھی شریک ہوئے ۔ ان کے ایماء پر اجتماع کے بعد احبابِ سلسلہ نے آزاد کشمیر اور گلگت کے دورے کئے جہاں سلسلۂ عالیہ کی ترویج ہوئی۔
            1973ء سے سالانہ اجتماع کا دورانیہ پہلی مرتبہ چالیس روز مقرر کیا گیا۔ چونکہ گلگت اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بھی سلسلۂ عالیہ کے حلقے قائم ہو چکے تھے، اس اجتماع میں بلوچستان کی جماعت کے علاوہ حضرت جؒی کے الفاظ کے مطابق ‘‘چین اور روس کی سرحدوں’’ سے بھی ساتھی شریک ہوئے۔ اجتماع کا آغاز 19جولائی کو ہوا جس کے اختتام پر حضرت جؒی نے کاغان کا دورہ فرمایا۔
            1961ء سے 1970ء تک سالانہ اجتماع کے انعقاد کے لئے مقامات کی تبدیلیوں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ میزبان کی موجودگی کو مدنظر رکھا گیا۔ حضرت امیر المکرم جہاں موجود ہوتے، اجتماع بھی اسی جگہ منعقد ہوتا۔ اس طرح میزبانی کی جو سعادت روزِ اوّل ان کے حصہ میں آئی، وہ مستقل ان کا ہی امتیاز رہی۔ ساتھیوں کی خدمت سے ان کی لگن کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ وہ گرم سالن کا بڑا سا دیگچہ سر پررکھے، ایک ہاتھ سے اسے تھامے اوردوسرے ہاتھ پر روٹیوں کی ایک بڑی سی چنگیراٹھائے چلے آرہے تھے کہ ایک ساتھی نے آگے بڑھ کر ہاتھ بٹانا چاہا۔ حضرت امیر المکرم جو ایثار کی علامت ہیں، خدمت کے معاملے میں کسی اور کی شرکت پرآمادہ نہ ہوئے اوریہ کہہ کر انکار کردیا:
‘‘ تم سمجھتے ہو کہ میں کیلا چھیل کر اب تمہارے منہ میں ڈال دوں گا!
 یہ بوجھ میں خود ہی اٹھاؤں گا۔’’
خیرٌفقیر[1]
            حضرت امیر المکرم نے 1959ء میں اپنے عزیز ملک خدا بخشؒ  کو حضرت جؒی کی خدمت میں پیش کیا تو وہ کم عمر تھے اور دعوتِ عام کی ابھی اجازت نہ ملی تھی لیکن سفارش ایسی تھی کہ آپؒ نے انہیں بھی سلسلۂ عالیہ میں قبول فرمایا۔ ذکروفکر کی وجہ سے ان کی شخصیت میں اس قدر تبدیلی آ چکی تھی کہ دین سے گہرا لگاؤ بچپن میں طے شدہ رشتہ کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا۔ حضرت جؒی نے یہ صورتحال دیکھی توچکوال کے           حافظ غلام جیلانیؒ کے گھرانے کی دینداری دیکھتے ہوئے ملک خدا بخشؒ کی نسبت ان کے ہاں طے کردی۔ ایک ایسا خاندان جہاں غیروں میں رشتے ناتے کا تصور بھی نہ ہو، سلسلۂ عالیہ کی نسبت سے طے پانے والے اس رشتہ کو کس طرح برداشت کرتا۔ اہل ِخاندان کی طرف سے شدید ردِ عمل کا اظہار ہوا اور ان کے گھرانے کا ایک طرح سے مقاطعہ ہو گیا ۔ساتھ ہی یہ دھمکی بھی ملی کہ اگر یہ شادی خاندان سے باہر ہوئی تو دیکھیں گے کہ خدا بخشؒ کی ہمشیرہ کی شادی کس طرح خاندان میں ہوسکے گی۔
  حضرت جؒی کو معلوم ہوا تو آپؒ نے فرمایا کہ اب دونوں کی شادی سلسلۂ عالیہ ہی میں ہو گی۔  ملک خدا بخشؒ کی بات توطے شدہ تھی لیکن ان کی ہمشیرہ کا رشتہ کہاں ہو گا؟ یہ بات واضح نہ تھی اگرچہ اس امر میں
 کسی کو شک نہ تھا کہ آپؒ کا یہ فرمان پورا ہو کر رہے گا۔ منارہ میں 1970ء کا اجتماع منعقد ہوا توحسب ِدستور میزبان حضرت امیرالمکرم ہی تھے جبکہ کھانا ملک خدا بخشؒ کے ہاں تیار ہوا۔ اس طرح ان کی ہمشیرہ کو بھی حضرت جؒی اور ساتھیوں کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔ انہی دنوں ان کے رشتے کے لئے چند پیغام آئےلیکن ہر مرتبہ قاضی جؒی کی زبان سے بے ساختہ نکل جاتا:
‘‘اس بی بی کا ستارہ بہت بلند ہے۔ یہ رشتہ اس کی شان کے مطابق نہیں۔’’
             اجتماع کے دوران جب ملک خدا بؒخش کا عقد حافظ غلام جیلانیؒ کی دختر سے ہوا تو حضرت جؒی نے اس موقعہ پر ان کی ہمشیرہ کے لئے حضرت امیرالمکرم کا نام تجویزفرمایا۔ حضرت امیر المکرم پہلے سے شادی شدہ تھے اور صاحبِ اولاد بھی۔ ملک خدا بخشؒ کی ہمشیرہ مُتَردِّد تھیں کہ ان حالات میں یہ رشتہ کیوں کر ممکن ہے جبکہ سیتھی کے لوگ سخت مزاج بھی مشہورتھے۔دیہاتی زندگی اور اعوان برادری کے مزاج کومدنظررکھتے ہوئے ان کے یہ خدشات بجا تھے لیکن حضرت جؒی کا فرمان بھی مقدّم تھا۔ تاہم حضرت جؒی کی خدمت میں جب ان خدشات کا اظہار کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘یہ رشتہ توہو کر رہے گا لیکن اس میں جو آسودہ حالی اور دنیا و آخرت کی خیریں ہیں،
 ان کا وقت آنے پر ہی پتا چلے گا۔’’
             رشتہ طے پانے میں کچھ پس وپیش ہوئی لیکن آخر کار حضرت جؒی کا فرمان پورا ہو کر رہا۔ منارہ میں  حضرت امیر المکرم نے 1970ء کے اجتماع کے فوراً بعد اپنی ذاتی رہائش گاہ تعمیر کی اور چند ماہ بعد ان کا عقد ثانی ہو گیا۔ دوسری شادی پر اہل خاندان کی طرف سے بھی سخت ردِّ عمل ہوا لیکن حضرت امیر المکرم نے اس کا ذرّہ بھر اثر نہ لیا۔ وہ صرف یہ جانتے تھے کہ یہ رشتہ شیؒخ کا تجویز کردہ ہے اور ملک خدا بخشؒ کی ہمشیرہ کو حضرت جؒی نے اپنی عزیز ترین بیٹی سمجھ کر ان کے عقد میں دیا ہے، اب اس رشتے کو خاندان میں وہی عزت و تکریم ملنی چاہئے جو اس کے شایانِ شان ہے اور پھر ایسا ہو کر رہا۔ حضرت امیرالمکرم کو حضرت جؒی اپنا محبوب روحانی بیٹا کہا کرتے تھے لیکن اب معاملہ چہیتی بیٹی کے گھر کا بھی تھا، چنانچہ اس خوش بخت گھرانے پر آپؒ کی توجہ ہمیشہ سایہ فگن رہی۔
            یہ عقد اس امر کا بھی اعلان تھا کہ قبیلے، خاندان، ذات پات، حسب و نسب اور شہرت و امارت کی دنیا میں، جہاں رشتوں کی بنیاد صرف دنیوی پیمانے بن چکے ہیں، اس رشتہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ عظیم تعلق تھا جو سلسلۂ عالیہ کی نسبت سے دونوں گھرانوں کو عطا ہوا۔اس رشتہ کے بعد سلسلۂ عالیہ میں کئی خاندانوں کے مابین عقد ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں۔
طیّب رزق
          مناظرانہ دور میں حضرت جؒی نے ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں میں قیام فرمایا تو آپؒ کے سامنے جو کھانا پیش کیا گیا،  وہ کسی بے نمازی عورت کا پکا ہوا تھا۔ آپؒ کے انکار پر کئی لوگوں نے کھانا پیش کرنا چاہا  لیکن حضرت جیؒ نے فرمایا، میں انسان ہوں اور کھانا تو کھانا ہےمگر میری مجبوری ہے کہ کھانا نمازی عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا کھاتا ہوں۔  ایسا کوئی گھر نہ مل سکا جہاں کوئی ایک خاتون بھی نمازی ہو۔ یہ واقعہ گاؤں والوں کے لئے ایسا عبرت آموز ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنے گھر کی خواتین کو نماز کا پابند بنا دیا۔ خوراک کے بارے میں حضرت جؒی کی اس قدر احتیاط کے بعد یہ کیسے ممکن تھا کہ اجتماعات میں ذاکرین کو ایسا کھانا ملے جو حلال اورطیّب کے معیار سے کسی طرح بھی کم ہو۔
            حضرت جؒی نے جب کبھی علمی دلائل کے بعد چیلنج فرمایا کہ آپؒ فریقِ مخالف کوان حقائق کا مشاہدہ بھی کراسکتے ہیں تو اس کے ساتھ یہ شرط بھی عائد فرمایا کرتے کہ چیلنج قبول کرنے کی صورت وہی کچھ کھانا ہو گا جو آپؒ کھلائیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حلال اور طیّب رزق کے بغیر کیفیات، کشف اور مشاہدہ ممکن نہیں۔ اسی طرح سلوک طے کرنے کے لئے بھی رزق حلال شرطِ لازم ہے۔ رزق جائز ذرائع سے حاصل کیا جائے، حلال کمائی سے گوشت خریدا جائے اور ذبیحہ کی تمام شرائط بھی پوری ہوں لیکن کھانا پکانے والے بے دین ہوں، کھانا مستعمل برتنوں میں کھایا جائے یا بازارسے کھانے کی ایسی چیز منگوائی جائے جس پر بازاری ماحول کے اثرات ہوں تو ایسا رزق حلال ہونے کے باوجود طیّب کے معیار پر پورا نہیں اتر تا۔
             اجتماعات کے دوران ذکر و فکر کے ساتھ ساتھ اس بات کا پورا اہتمام کیا جاتا کہ ساتھیوں کو جو کھاناملے وہ حلال ہو اور طیّب بھی۔ اناج، دالیں اور سبزیاں، حضرت امیرالمکرم کی خود کاشت کردہ ہوتیں۔ دودھ اپنے مویشیوں کا ہوتا اور کھانا پکانے والے بھی ذاکرین ہوتے۔ 1970ء کے اجتماع میں کھانا ملک خدا بخشؒ کے گھر تیار ہوا لیکن پکانے والی ان کی ہمشیرہ تھیں جو خود ذاکرہ تھیں۔ 1971ء اور اس کے بعد منارہ سکول کے تمام اجتماعات میں کھانا پکانے کی سعادت ہمیشہ ان کے حصہ میں آئی لیکن اب صورت یہ تھی کہ   حضرت امیر المکرم کھانا تیار کرنے میں خود ان کی مدد کرتے، کبھی لکڑیاں سلگاتے اور کبھی کھانا پکانے میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ اجتماعات میں احباب کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں صوفی فیروزالدین اور روشن دین بھی کھانا پکانے میں مدد کرتے ۔یہ بزرگ بھی سلسلۂ عالیہ سے وابستہ تھے۔
            منارہ کے اجتماعات میں گوشت بہت کم پکایا جاتا البتہ جب کبھی حضرت امیرالمکرم شکار کے لئے جاتے تو واپسی پر ہرن کے گوشت سے ساتھیوں کی ضیافت کرتے۔ ان اجتماعات میں کثرتِ مشاہدات کا ایک سبب وہاں کی پاکیزہ خوراک تھی جس کے لئے حضرت امیرالمکرم کے خصوصی اہتمام اور ان کی اہلیہ محترمہ  کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
الوداعی خطاب
            اجتماعِ منارہ کے اختتام پر حضرت جؒی احباب سے خطاب فرماتے جس کے بعدرقت سے بھرپور اجتماعی دعا ہوتی۔ آپؒ کا خطاب احبابِ سلسلۂ عالیہ کے لئے عمومی ہدایات پر مشتمل ہوتا۔ یہاں حضرت جؒی کے 1978ء کے سالانہ اجتماع کا الوداعی خطاب من و عن پیش کیا جاتا ہے جو مستقل افادیت کا حامل ہے اور آنے والے ادوار میں بھی سلسلۂ عالیہ کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ
وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ ط
تم بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے واسطے ظاہر کی گئی ہے تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ (آل عمران۔110)
میم واؤ میم نون تشریف نیست
لفظ مومن جز پئے تعریف نیست

(میم واؤ میم نون میں کوئی خوبی نہیں، لفظ مومن ایک تعریف کے سوا اور کچھ نہیں)
ایں آن سعادت است کہ حسرت بُرَد برآں
جویانِ تختِ قیصر و ملکِ سکندری

(یہ وہ سعادت ہے کہ اس کی حسرت ان لوگوں کو بھی ہے
جو تخت قیصر و ملکِ سکندری کی تلاش میں سرگرداں ہیں)
دوا میں اثر نہیں، بولنے کی قوت نہیں، عرض اتنی ہے:
            امتِ محمدیہ ساری کی ساری، قرآن کریم کی اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ ساری کی ساری امت محمدیہﷺ کو دنیا میں اس لئے بھیجا گیا کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کرے، دوسروں کو دین کی طرف رہنمائی کرے اور دین کی طرف ان کو دعوت دے۔     تَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ  تمہیں دنیا میں اس لئے بھیجا گیا تاکہ لوگوں کو اچھے کام بتاؤ اور برے کاموں سے روکو کیونکہ تم خود ایماندار ہو اور مومن ہو۔
            ہم جو یہاں اکٹھے ہوتے ہیں، یہاں ہماری کوئی زمین نہیں، ہمارے مکان کوئی نہیں، یہاں رشتہ بھی ہمارا کوئی نہیں، قوم بھی ہماری کوئی نہیں۔ یہاں کیوں آتے ہیں؟ گھر بار چھوڑتے ہیں، بیوی بچوں کو چھوڑتے ہیں،  کاروبار چھوڑتے ہیں، خرچ کرتے ہیں، پتھروں پر پڑے رہتے ہیں، ان پتھروں پر کیوں پڑے رہتے ہیں؟ محض اللہ کی رضا کے واسطے، اللہ کو راضی کر لیں، اللہ ہم سے راضی ہو جائے، رسول اللہﷺ راضی ہو جائیں۔ ہماری عاقبت درست ہو جائے، سنور جائے، ٹھیک ہو جائے۔
            اس واسطے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ سال ابھی باقی ہے، آئندہ اجتماع سال بعد ہوگا۔ اس کوشش میں سارے ساتھیوں کا یہ فرض ہے کہ جو کچھ یہاں سے لے کر جا رہے ہیں، اسے ضائع نہیں کرنا۔اسٹیشن ماسٹر کا کام ہوتا ہے ٹکٹ دے دینا لیکن مسافر کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی حفاظت خود کرے۔ ٹکٹ ملے تو پھر اس کی حفاظت خود کرنی ہوتی ہے نہ یہ کہ وہ (سٹیشن ماسٹر) ساتھ چلے اور اس کی حفاظت کرے۔ جو کچھ حاصل کیا ہے اس کی حفاظت کریں۔
حفاظت ساری کی ساری بند ہے اتّباعِ شریعت میں۔آقائے نامدارﷺ
 کی جوتیوں کی دھول میں سے ملے گی،اس کے بغیر کہیں سے نہیں ملے گی۔
               نماز کی بڑی پابندی کریں، سخت پابندی کرنی ہے۔ نماز نہیں چھوڑنی اور ارکان میں بڑا اعتدال رکھا کریں، میں بار بار سمجھاتا بھی رہتا ہوں۔ اس کے بعد آپ لوگوں کو بھی دعوت دو، تبلیغ کرو، ذکرِ الٰہی کے بغیر ہم نے کوئی حیلہ نہیں دیکھا کہ انسان کی اصلاح ہو سکے۔
جب باطن خراب ہوتا ہے تو اس کا اثر آہستہ آہستہ
ظاہر پر پڑتا ہےاور ہوتے ہوتے ظاہر خراب ہو جاتا ہے۔
 اس واسطے ذکرِالٰہی بتایا گیا ہے۔ لطائف، جنہیں قلب حاصل ہے وہ قلب کرتے رہیں۔ جنہیں باقی لطائف حاصل ہیں، لطائف زور سے کریں اور ہمیشہ کرتے رہیں۔ اس کے بعد رہ گئے اوپر والے مقامات، آہستہ آہستہ، اسی طرح ہیں ۔جو طریقہ آپ کو بتایا گیا ہے وہی بتاؤ۔
            اور ہر علاقے کا، ہر ایک جگہ کا جو امیر ہے یہ اس کا فرض ہے کہ لطائف کرانے کے بعد مراقباتِ ثلاثہ،  سیرِ کعبہ تک۔ اگر زیادہ نہیں تو مراقباتِ ثلاثہ، دوائرِ ثلاثہ کرانے کے بعد میرے پاس آئے۔ یہ ہر امیر کا، ہر اس صاحب ِمجاز کا فرض ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے اور وہ صاحب ِمجاز ہے۔ جہاں جہاں بھی کوئی آدمی ہو، یا (ذکر) کراتا ہے اور اس کو یہ قوت حاصل ہے تو وہ اس طریقہ سے کرے۔
            اس کے بعد رہ گیا یہ قصّہ کہ مرکز پہلے چکوال تھا۔ پھر بھی کوشش کی کہ وہیں رکھیں لیکن کسی خاص وجہ سے وہاں نہیں رکھا گیا۔ کیونکہ حافظ صاحؒب نے کہا کہ مرکز یہی (منارہ) ہونا چاہئے، اس واسطے اب مرکز مقرر ہو گیا۔ اِدھر سے آؤ تو سیدھے یہیں چلے آؤ، اُدھر سے آؤ تو سیدھے یہیں چلے آؤ۔ سارے ایک بھائی بن کررہو۔ انگلیاں علیحدہ علیحدہ،  سر علیحدہ، ناک علیحدہ، کان علیحدہ علیحدہ، منہ ہے، پیر ہیں، ہاتھوں کی انگلیاں ہیں لیکن بدن کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارے بدن کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہی آقائے نامدار        محمد رسول اللہﷺ کا فرمان ہے۔ ایک انگلی کو تکلیف پہنچتی ہے، سارا بدن بے آرام ہو جاتا ہے۔ آپ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ (آپس میں رحمدل) کا نمونہ پیش کریں۔ بھائی بھائی ہو۔ جہاں رہو، آپس میں پیار اور محبت۔ ایک کو اگر تکلیف پہنچے، نقصان ہو جائے تو اس کی امداد کرو۔ اگر وہ غلطی کر بیٹھا تو اس غلطی سے ہٹاؤ۔ تم سے برا ہوا، اس طرح نہ کر، اس طرح کر۔ اس وجہ سے میں نے اتنی گزارش کر دی ہے، سب سے پہلی چیز اتّباعِ شریعت ہے۔
            جو ساتھی نئے آئے ہو، جو ترقی نہیں ہوتی ہے یا نقصان ہو جاتا ہے تو سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ جو شرائط تصوف اور سلوک کی ہیں، ان کی سمجھ کوئی نہیں ہوتی، پتا نہیں ہوتا۔ سب سے بڑا رکن تصو ّف کا، سلوک کا، منازلِ سلوک کا، یہ تو موت کے بعد معلوم ہو گا کہ یہ کیا چیز ہے؟ وہ شعر جو میں نے پڑھا تھا یہ وہ چیز ہے، یہ وہ سعادت، کامیابی اور نیک بختی ہے کہ کسریٰ، قیصر اور سکندر ذوالقرنین کے تخت کے چاہنے والے بھی اس چیز کی تلاش میں تڑپ تڑپ کر گئے کہ اللہ کرے ہمیں بھی مل جائے۔ حقیقت بھی یہی ہے، یہ اتنا مستغنی کر دیتی ہے اگر پوری طرح حاصل ہو جائے۔
 سب سے بڑی چیز دنیامیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علومِ شریعت عطا کر دے، اس کے بعدپورا پورا علمِ باطنی عطا کر دے۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر حکومت کوئی نہیں، اس سے بڑھ کر دولت کوئی نہیں، اس سے بڑھ کر کامیابی کوئی نہیں۔
            افسوس ایسے لوگ دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں اور ان کی زندگی میں،ان کی موجودگی میں لوگ فتوے کفر کے دیتے رہتے ہیں، برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ لوگ قریب نہیں لگتے۔ جب مر جاتے ہیں تو ابلیس کہتا ہے ان کی قبر پوجو، یہ بڑا ولی اللہ ہے۔
تو سب سے پہلے کوشش یہ کرنی ہے، اِتّباعِ شریعت۔
 یہ سمجھ رکھو خواہ نجباء ہوں، خواہ نقباء ہوں، خواہ اوتاد ہوں، خواہ ابدال، خواہ قطب ہوں تو خواہ غوث ہو۔ خواہ قیوم، خواہ فرد ہوں۔ خواہ قطب ِوحدت ہو تو خواہ صدیق ہو۔یہ مناصب سارے کے سارے جو قربِ الٰہی کے مناصب ہیں، یہ میرے آقاﷺ کی جوتیوں کی دھول میں سے ملتے ہیں، باہر سے کوئی نہیں ملتے۔ بالکل یہ خیال رکھنا۔
 دوسری چیز یہ ہے کہ تصو ّف میں شیخ کے ساتھ خلوصِ قلبی ہو، دل میں کدورت نہ رہے۔ خلوصِ قلبی کی وجہ سے (فیض) پہنچے گا۔ اگر دل میں کدورت ہو تو ہزار سال لگے رہو، کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ یہ معاملہ بہت نازک سا ہے۔
            اب ہمارے حالات، مناصب میں تغیر و تبدل پیدا ہو چکا ہے۔ ترقی بڑی شروع ہو چکی ہے بفضل اللہ۔ ابتدائی دور میں ہوئی یا اب، فتوحات شروع ہو چکی ہیں۔ تو میرے واسطے بھی سب دعا کریں۔  دعا یہ کریں اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور میری عمر کو دراز کرے … آمین! اس کی وجہ یہ ہے کہ جس روز میں دنیا سے رخصت ہوا،
تساں لوگ وت ڈانگو ڈانگ نہ ہو ونجو۔
جس دیہاڑے میں دنیا تو وہنا گیا، تساں وت ڈانگو ڈانگ نہ ہو ونجو کدیں۔
(جس روز میں دنیا سے رخصت ہوا، تم لوگ کہیں دست و گریبان نہ ہوجاؤ)
انتشار نہ پیدا ہو جائے۔ میری موجودگی میں ایک تسبیح کے منکوں کی طرح سارے جُڑے ہوئے ہو۔ اکٹھے اس طرح بیٹھے ہو، تو جس وقت میں درمیان سے نکل گیا، اس وقت پھر یہ حالت نہ رہے گی۔ ہر ایک کے دماغ میں آنے لگتا ہے کہ وہ بھی استادوں کاشاگرد ہے جی! وہ بھی استادوں کا شاگرد ہے۔ یہ بھی سمجھ لو،مثلاً چوٹی والے آدمی ہیں  اکرم صاحب ہو گئے، حافظ صاحؒب ہو گئے، کرنل صاحب ہو گئے، بیگ صاحب ہو گئے یا اور چند ایک ساتھی بڑے قابل قابل ہیں، یہ بھی تمہارے بڑے بھائی ہیں۔ جس طرح تم ہو اسی طرح یہ بھی ہیں۔ یہ بڑے ہیں ان کا احترام تمہارے اوپر ضروری ہے۔ بڑا بھائی کاروبار کرتا ہے، چھوٹوں کو پیش کرتا ہے، مال پہنچاتا ہے، رزق پہنچاتا ہے لیکن باپ نہیں بن جاتا۔ وہ بھی بھائی، تم بھی بھائی، تم چھوٹے ہو وہ بڑا ہے۔ احترام والد کی طرح کرنا پڑتا ہے، بڑے بھائی کا احترام ضروری ہے۔ احترام نہ ہو تو فیض نہیں ہوتا۔ اس واسطے جو شخص بھی فیض لینا چاہتا ہے، جس شخص نے تمہیں توجہ شروع کی، باہر رہتے ہو، باہر معمول کوئی کراتا ہے، اس کا احترام ضروری ہے۔ بغیر احترام، تصوف سارے کا سارا ہے ہی ادب، اس میں دوسری کوئی چیز نہیں۔ احترام اور ادب کے بغیر یہ چیز ملتی ہی نہیں لیکن تم اٹھ کر کہو یہ فعل کر۔جیسے نبی کریمﷺ نے ایک لشکر بھیجا تو امیر ان سے لڑ پڑا۔ اس نے آگ جلا کر کہا اس میں چھلانگ لگاؤ تو سارے تیار ہو گئے۔ ایک نے اٹھ کر کہا، اسی آگ سے بھاگ کر تو ہم نے محمد رسول اللہﷺ کا دامن پکڑا، اب یہ پھر آگ ہی میں گراتا ہے، ہم بالکل داخل نہیں ہوں گے۔ نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کریں گے۔
            ایک شخص فعل ِ ناجائز کرتا ہے، کوئی شخص بھی اٹھ کر جو میں بتا چکا ہوں اس کے خلاف بتاتا ہے۔ اسے کہیں، میاں ایسا نہیں۔ منتر پڑھو، جنتر پڑھو، کچھ کرو، الگ پڑھتے رہو۔ معمول یہی کچھ ہے۔
 لطائف عبادات میں داخل ہیں۔ مراقبات عبادات میں داخل ہیں۔ آگے سالک المجذوبی یہ ساری کی ساری عبادات میں داخل ہے۔ اس سے اوپر جس قدر چلتے چلے جاؤ،  سب عبادات میں داخل ہے۔ پتا عبادات کا لگے گا جب تمہاری موت ہوگی۔
            اس کے بعد رہ گیا قصّہ۔ وقت ہے، قرآنِ کریم کی تلاوت کرو، نفی اثبات    لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکثر ت سے کرو۔ درود کی کثرت کرو، پیغمبرﷺ پر درود بھیجو۔       استغفار پڑھو۔ اگر اکٹھی سو مرتبہ نہیں پڑھی جاتی، صبح کے ساتھ 20 مرتبہ پڑھ لو،      20 ظہر کے ساتھ، 20 عصر کے ساتھ، 20 مغرب کے ساتھ، 20 عشاء کے بعد، 100 ہو جائے گی، استغفار پڑھو۔ سوتے وقت لازمی طور پر دس بار، بیس بار لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھ لو اور ساتھ سورة اخلاص پڑھو، بس یہی طریقہ۔ہاں! اگر کسی شخص کو تنگدستی کی صورت پیش آئے تو میری طرف سے اپنی پوری جماعت کو اجازت ہے:
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم
          درود شریف اوّل جتنا پڑھ سکو آخر پڑھ سکو، یہ پڑھتے رہو۔ کچھ مدت کے بعد       ان شاء اللہ یہ تمہاری تکلیف رفع ہو جائے گی۔
وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ
اجتماعی دعاکریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ
وَالْصَلٰوةُ وَالْسَّلاَمُ عَلٰی    رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
  اللہ تُو اسلام کا بول بالا فرما، اللہ تُو ہمیں اسلام کاخادم بنا، اللہ تُو ہمیں دین پراستقامت عطا فرما، اللہ تُو ہمیں آقائے نامدار محمد رسول اللہﷺ اور صحابہ کی جوتیوں کا خادم بنا۔ اللہ تُو ہمیں سلف صالحین کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما ۔اللہ تُو اپنی(کچھ دیر سکوت کی حالت رہی پھر حضرت جیؒ پر رقت طاری ہو گئی)ہمارے ساتھ اللہ تُو وہ فعل کر جس کا تُو مستحق ہے۔ ہمارے ساتھ وہ نہ کر جس کے ہم مستحق ہیں تُو ہمارے حال پر رحم فرما، اللہ ہمیں دین کا خادم بنا، اللہ جب تک زندہ ہیں تیرے دین کے خادم رہیں، اللہ زندہ رہیں تیرا نام لیتے رہیں اور تُو ہمیں طاقت دے، توفیق دے کہ ہم غیروں کو، دوسروں کو، جو شیطان کے چنگل اور پنجے میں آ چکے ہیں، تجھ سے ٹوٹ چکے ہیں، اللہ ان کو جوڑنے کی، تیرے ساتھ جوڑنے کی ہمیں توفیق عطا فرما۔اللہ ہم کمزور ہیں تُو خود ہمارے حال پر رحم فرما۔ الٰہی ہم کمزور ہیں، اللہ ہم کمزور ہیں، تُو ہمارے حال پر رحم فرما۔ ہم گنہگار ہیں، بدکار ہیں، تُو حال پر رحم فرما۔
اَللَّھُمَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا عَلیٰ اِتَّبَاعِ نَبِیِّنَا وَ اِتِّبَاعِ خُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ وَالْمَہْدِیِیْن
لطائف کی اہمیت
          حضرت جؒی ساتھیوں کو اکثر تاکید فرماتے کہ لطائف پر خوب محنت کیا کریں۔ اس خطاب میں بھی آپؒ نے فرمایا، لطائف زور سے کریں اور ہمیشہ کرتے رہیں۔ دورانِ ذکر لطائف کراتے ہوئے حضرت جؒی فرمایا کرتے، تیزی اور قوت۔ آپؒ خود بھی معمول کرتے ہوئے مراقبات سے قبل لطائف پر کچھ وقت ضرور لگاتےاور یہ عمل مستقل جاری رہا۔ ایک مرتبہ ایک صاحبِ کشف ساتھی سے فرمانے لگے،        حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ نے بہت طویل عمر پائی ہے، ایک سو بیس سال کی عمر میں وصال ہوا، ان سے دریافت کریں، آپ نے کب تک معمولات جاری رکھے؟ وہ فرمانے لگے کہ مرض الموت کے آخری چار ایام میں معمولات رہ گئے جو کر نہ سکا اور یہ کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے۔
          کہاں حضرت جؒی اور حضرت سلطان الہندؒ کے ہاں معمولات میں یہ ہمیشگی اور کہاں ھما شما جو شیخ کے وسیلے سے سلوک کے چند مقامات طے کر لینے کے بعد خود کو لطائف پر محنت سے بے نیاز سمجھ لیتے ہیں!
          اسی طرح حضرت جؒی نماز میں خشوع و خضوع کے لئے بھی اکثر تلقین فرماتے ہوئے کہا کرتے کہ لوگ نماز کے دوران حرکات کا خیال نہیں رکھتے۔ نماز کے دوران اگر ایک دفعہ حرکت کی تو کوئی حرج نہیں جبکہ دوسری دفعہ حرکت سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے اور تیسری دفعہ کی حرکت سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
            1980ء کا سالانہ اجتماع منارہ سکول کا آخری اجتماع تھا۔ حضرت جؒی 21اگست کو بعد از نماز فجر احباب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ اس موقع پر آپؒ نے دورانِ گفتگو فرمایا:
‘‘اس امت میں ابھی تک صرف دو صدیق گزرے ہیں، امام احمد بن حنبلؒ اور امام غزالیؒ۔ مشائخ ِ برزخ آگے چلنے کے متمنی ہیں۔ حضرت رفاعیؒ مقامِ تسلیم اور حضرت غوث بہاؤالحؒق بھیرہ والے مقامِ رضا پر پہنچ کر قانع ہو گئے۔ حضرت پیر صاحؒب (غوثِ اعظم) کی پرواز قوی ہے اور ساتھ چلتے ہیں۔ حضرت امام حسن بصریؒ، جن کی منازل اس امت میں سب سے بلند ہیں، تیسرے حجابِ الوہیت میں فوت ہوئے ہیں۔مجھے تمام کے تمام حجابات طے کرتے ہوئے پندرہ برس لگے اور یہ تمام مصائب و آلام سے پُر ہیں۔دورِ حاضر کے علماء میں سےمفتی محمد شفیؒع، مولانا ادریس کاندھلویؒ اور مولانا غرغشیؒ کے حالاتِ برزخ بہت اچھے ہیں۔’’       یکم ستمبر 1980ء کو سالانہ اجتماع، منارہ سکول سے دارالعرفان منتقل ہوا۔
اجتماعات لنگر مخدوم
            تاریخ ِتصو ّف میں بلند ترین منازل حاصل کرنے کے باوجود حضرت جؒی کی اپنے اولین مکتب ِطریقت سے جذباتی وابستگی عمر بھر قائم رہی۔ 1942ء سے 1945ء تک لنگر مخدوم میں آپؒ کے مستقل قیام کا عرصہ ہے لیکن اس کے بعد بھی یہ معمول رہا کہ سال میں ایک ماہ حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر قیام فرماتے۔ عموماً یہ دینی مدارس میں چھٹیوں کے دن ہوا کرتے تھے۔ چکڑالہ کی چٹی مسجد میں حضرت جؒی کے زیر تعلیم طلباء سال کے اسباق مکمل کرنے کے بعد گھروں کو چلے جاتے تو آپؒ پوری تعطیلات لنگر مخدوم میں بسر کرتے۔ بعد میں احباب نے آپؒ کی معیت میں یہاں آنا شروع کر دیا تو قیام کی مدت پہلے ہفت روزہ اور پھر سہ روزہ کر دی گئی۔
            طالب والا پتن سے حضرت جؒی کے ہمراہ ایک مختصر سی جماعت سامان سروں پر اٹھائے پانچ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرتے ہوئے مزار تک پہنچتی۔ اجتماع کے عرصہ کے لئے سامان خوردونوش بھی ساتھ ہوتا۔ آپؒ تاکید فرماتے کہ مخدوم حضرات یا مقامی لوگوں کو آمد کی خبر نہ کی جائے تاکہ کسی قسم کی مہمان نوازی یا ملاقاتوں کا سلسلہ شروع نہ ہو جائے اور جو عرصہ مشائخ کی معیت میں مزار پر بسر ہو، ہمہ وقت ذکر الٰہی میں گزرے۔ 1960ء میں اذنِ عام کے بعد اگرچہ احباب کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا لیکن لنگر مخدوم آنے کی اجازت صرف ان احباب کو تھی جن کی روحانی بیعت کی توثیق کے لئے حضرت سلطان العارفینؒ کی خدمت میں حاضری ضروری ہوتی یا وہ احباب جنہیں آپؒ خصوصی طور پر طلب فرماتے۔
            اپریل 1964ء میں حضرت جؒی لنگر مخدوم تشریف لائے تواس اجتماع میں پہلی مرتبہ دس پندرہ احباب شریک تھے۔ یہ اجتماع ترویجِ سلسلۂ عالیہ کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل تھا۔ حضرت سلطان العارفیؒن نے حضرت جؒی کو 1945ء میں اپنامجاز مقرر کیا تھا لیکن اب ترویجِ سلسلہ کے اذنِ عام کے بعد ضرورت محسوس کی گئی کہ آپؒ کی اعانت کے لئے مزید مجازین کا تقرر ہو۔ حضرت امیر المکرم مسلسل چھ سال سے آپؒ کے زیرتربیت تھے جبکہ چکوال کے مولانا سلیمان، حافظ عبدالرزاقؒ اور مولوی اکرام الحق قریباً تین چار سال سے ذکر کر رہے تھے۔ مؤخر الذکر تینوں صاحبان کے پاس علمِ ظاہری تھا جبکہ حضرت امیر المکرم نے براہِ راست حضرت جؒی کی صحبت میں رہ کر نہ صرف علمِ ظاہری حاصل کیا تھا بلکہ آپؒ کی توجہ میں رہتے ہوئے روحانی تربیت پائی تھی۔حضرت جؒی نے ان احباب کو حضرت سلطان العارفیؒن کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اجازتِ خلافت طلب کی۔ان چاروں حضرات کے بارے میں حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘یہ چار اشخاص مشائخ کے مقرر کردہ ہیں جس طرح میں مشائخ کا مقرر کردہ ہوں۔ فرق یہ ہے کہ یہ بالواسطہ ہیں، میں بلاواسطہ ہوں مگر سلسلہ کو آگے چلانے میں میرا شریک بنا دیا ہے۔’’
            ان کے بعد کسی کو حضرت سلطان العارفیؒن کا مجاز مقرر کئے جانے کی سعادت نہ مل سکی۔حضرت جؒی نے حضرت امیر المکرم کے نام اپنے ایک مکتوب میں اس حاضری کی روداد ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
‘‘جس دن اس عاجز نے آپ کو اور مولانا سلیمان کو حضرت سلطان العارفیؒن کی خدمت میں اجازتِ توجہ کے لئے پیش کیا تھا تو عرض کی تھی کہ یہ بچہ نوجوان ہے، جرار بھی ہے، تو جواب ملا تھا کہ یہ سلسلہ کے لئے چٹان ہے۔ اِنْ شَاءَ اللّٰه! اس چٹان کو ابلیس کی قوت نہ ہلا سکے گی۔ یہ جواب تھا کہ یہ بچہ ہے۔
       جراری کا جواب قوتِ توجہ میں ظاہر فرمایا۔ آپ کو قوت عطا ہوئی وہ مولانا کو نہیں دی گئی باوجودیکہ وہ عالم تھے، نیک و صالح تھے، گو میرے بعد مشائخ نے بشرطِ زندگی[2] ان کو سلسلے کا شیخ مقرر فرمایا تھا مگر قوتِ توجہ بندہ کے بعد آپ کو عنایت فرمائی ہے۔’’
            حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی کی توثیقِ بیعت تو لنگر مخدوم میں 1964ء کے اس اجتماع سے قبل ہو چکی تھی لیکن باقی احباب کی توثیقِ بیعت اسی موقع پر ہوئی۔حافظ عبدالرزاقؒ نے جب تینوں احباب کے مقابلے میں اپنی حالت پر غور کیا تو حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کیا:
‘‘حضرت میں اس قابل کہاں؟ بدنام کنندہ، نیکو نامے چند۔’’
حضرت جؒی نے قدرے سکوت کے بعد فرمایا:‘‘حضرت سلطان العارفیؒن فرماتے ہیں کہ یہ اب انسان بنے ہیں،اللہ تعالیٰ کی دین (عطا)کا نقشہ آگے دیکھیں۔’’
            اسی اجتماع میں ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا۔ مولانا عبدالحق جوہر آبادیؒ کچھ عرصہ سے حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری کے باوجود اشکال کا شکار تھے۔ حضرت جؒی لنگر مخدوم سے متصل چنگڑانوالہ قبرستان میں خود بھی تشریف لے جاتے اور احباب کو بھی ہدایت فرماتے کہ وہاں خواجہ قطبؒ  کی خدمت میں ضرور حاضری دیں۔ مولانا عبدالحق جوہر آبادیؒ اس اجتماع میں شریک ہوئے تو حضرت جؒی نے نور پور کے ایک شخص بابا رمضان کو ہدایت فرمائی کہ وہ مولانا کو خواجہ قطبؒ کی خدمت میں پیش کرے۔ بابا رمضان نے قبر کے سامنے پہنچ کر خیال کیا تو حضرت قطبؒ علیین میں اپنے مقام پرتھے۔ بابا رمضان کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا:
            ‘‘قبر میں تو نہیں ہیں۔’’
            مولانا عبدالحؒق کے دل میں فوراً خیال گزرا کہ پھر وہی کشف کا کھیل لیکن اسی لمحے کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان سے ایک ستارہ سا ٹوٹا اور سیدھا قبر میں اتر گیا، اس کے ساتھ ہی بابا رمضان نے کہا، ہاں اب آ گئے ہیں۔
            مولانا کا قلب تو وساوس کی زدّ میں تھا لیکن شاید طلبِ صادق کام آگئی۔ اس مشاہدے کے بعد اللہ تعالیٰ نے عین الیقین کی صورت میں نہ صرف استقامت عطا فرمائی بلکہ اس کے بعد انہیں خود بھی کشف نصیب ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کے معاملات بھی نرالے ہیں۔ اس عالم دین کو حضرت خواجہ قطبؒ کی خدمت میں پیش کرنے اور پھر ان کی نگاہِ بصیرت وا ہونے کا سبب بننے والا شخص بابا رمضان نور پور کا کورا ان پڑھ دیہاتی تھا۔
لنگر مخدوم اجتماع پہ ٹھہرے ہوئے تھے کہ راجہ یوسف نے اجتماع کے بعد ملتان  اپنے بہنوئی          راجہ یعقوب خان جو ملٹری ڈیری فارم میں آفیسر تھا، سے ملنے جانا تھا۔ انہوں نے حضرت جیؒ سے اجازت مانگی کہ اپنے سات امیر المکرم مدظلہٗ العالی اور حاجی خدا بخش صاحب  کو بھی لے جائیں حضرت جیؒ نے اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت غوث بہاؤالدینؒ کی خدمت میں حاضری دیں تومیرا سلام عرض کریں۔ یاد رہے کہ راہِ سلوک میں چوتھے عرش سے نویں عرش تک کا سفر حضرت جؒی نے حضرت غوث بہاؤالدینؒ کی معیّت میں طے کیا تھا ۔ جب حضرت جؒی کا سلام پیش کیا گیا تو انہوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور سلسلۂ عالیہ کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت ترقی دے گا۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ 1964ء کے اس اجتماع میں حضرت جؒی کے ساتھ صرف درجن بھر ساتھی تھے لیکن 1983ء کے اجتماع میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ بسیں اور گاڑیاں اس قدر تھیں کہ مزار کے قرب و جوار میں پارکنگ ممکن نہ تھی اور لنگرمخدوم گاؤں کے آس پاس خصوصی انتظامات کرنا پڑے۔
حضرت بہاؤالدین زکریاؒ کے مزار پہ حاضری کے بعد امیر اکمکرم مدظلہٗ العالی اور راجہ یوسف حضرت رکن الدین عالمؒ کے مقبرے پہ گئے۔ مزار کے مغرب کی طرف جگہ خالی تھی اور اس طرف ایک محراب سی بنی ہوئی تھی۔ امیر المکرم اس محراب میں تشریف فرما ہو کر مراقب ہو گئے۔ راجہ یوسف مزار پہ چلے گئے اور حضرت رکن الدین عالمؒ سے پوچھا کہ ملتان میں آپ کے پائے کا کوئی اور ولی بھی ہے؟ وہ نہایت جلال والے بزرگ ہیں۔ غصے میں فرمانے لگے ‘‘ اگر میرے پاس آ گئے ہو تو دوسروں کو بھی دیکھ لو۔’’ راجہ یوسف بددل ہو کر امیر المکرم کے پاس آئے اور واقعہ سنایا۔ حضرت امیر المکرم مدظلہٗ العالی ان کے ساتھ مزار پر تشریف لے گئے اور قبر کے تعویذ پہ جو مسہری سی بنی تھی اس کے پائے کو پکڑ کر فرمایا: آپ کے پاس محض سلام کرنے آئے ہیں، فیض لینے نہیں۔ فیض دینے کے لیے زمیندار ہی کافی ہے۔’’حضرت جؒی کے حوالے کے ساتھ ہی صورتِ حال تبدیل ہو گئی۔ شفقت سے پیش آئے اور فرمایا، معلوم نہ تھا آپ ان کے سلسلہ سے ہیں، ان سے دعا اور مزید ترقی کی درخواست کریں۔
              1965ء کے اجتماع میں احباب کی تعداد خاصی بڑھ چکی تھی۔ قریباً بیس ساتھی سرگودھا بس اڈا والی مسجد میں اکٹھے ہوئے اور بذریعہ بس لنگر مخدوم سٹاپ تک پہنچے۔ وہاں سے حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار تک تقریباً پانچ کلومیٹر کا سفر حضرت جؒی اور ساتھیوں نے پیدل طے کیا۔ حسب ِسابق کھانے وغیرہ کا انتظام خود ہی کیا گیا۔اس سال حضرت جؒی نے خصوصاً تاکید فرمائی تھی کہ کوئی ساتھی لنگر مخدوم جائے نہ کسی مقامی شخص کو آپؒ کی آمد کی اطلاع دے لیکن حکیم بشیر سے اس حکم کی خلاف ورزی ہو گئی۔ مغرب کی نماز کے بعد ذکر کا پروگرام تھا لیکن وہ گاؤں میں چائے وغیرہ کے لئے گیا تو مخدوم صاحبان کو حضرت جؒی کی آمد کی اطلاع ہو گئی اور لوگ ملاقات کے لئے آنے لگے۔ آپؒ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور صرف دو رات قیام کے بعد اجتماع برخواست کر دیا۔
            7 ستمبر کی صبح یہ اجتماع برخواست ہوا تو مزار کے بالکل قریب سے لڑاکا جہاز گزرے جو ایک غیر معمولی صورت تھی۔اس وقت یہ خبر نہ تھی کہ ہندوستان 6 ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر چکا ہے۔ سرگودھا پہنچے تو حالات معلوم ہوئے۔ واپسی پر حضرت جؒی نے چند ساتھیوں کے ہمراہ جوہر آباد میں مولانا عبدالحقؒ کی مسجد میں ایک رات قیام فرمایا اور یہاں کے احباب کو خصوصی وقت دیا۔
            لنگر مخدوم کے سالانہ اجتماعات عموماً ستمبر اکتوبر میں منعقد ہوا کرتے۔ عموماً چاند راتوں کا خیال رکھتے ہوئے پروگرام اس طرح سے طے کیا جاتا کہ تہجد کے معمولات کے لئے پچھلے پہر کی چاندنی میسر ہو۔ انتظامی دشواریوں کی وجہ سے ابتداء میں صرف مخصوص ساتھیوں کو پروگرام سے مطلع کیا جاتااور احباب اپنا کھانا خود پکاتے۔مقامی لوگوں کو ان اجتماعات کی خبر تک نہ دی جاتی اور اگر کسی صورت پتا چل بھی جاتا تو حضرت جؒی ان لوگوں کو کھانے وغیرہ کی تکلیف دیتے نہ ملاقاتیں پسند فرماتے۔ اِس وقت مخدوم صاحبان یہاں آنے والے زائرین کی جو خدمت کرتے ہیں، ابتدائی دور میں یہ صورت نہ تھی۔
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
  اسی علاقے کے مولانا نذیر احمد مخدوم نے حضرت جؒی سے مناظرانہ دور میں فن ِمناظرہ کی تربیت حاصل کی تھی۔کئی مناظروں میں انہوں نے کتابوں سے حوالہ جات پیش کرنے میں آپؒ کی معاونت کی بلکہ 1956ء کے مناظرہ کالووال میں نوٹس لینے کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد تھی۔مولانا  کا تعلق دیوبند کے ایک ایسے مکتبِ فکر سے تھا جس نے بدعت اور شرک کی مخالفت میں حیات النبیﷺ اور حیاتِ برزخیہ تک کا انکار کر دیا تھا اور دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیؒب جیسی علمی شخصیت کے ذاتی دورے اور افہام و تفہیم کی کوششوں سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا تھا۔ دورانِ تعلیم مولانا نذیر احمد مخدوم کے سامنے حضرت جؒی کی زبان مبارک سے بعض اوقات ایسی بات نکل جاتی کہ میدانِ بدر میں یہ واقعہ اس طرح سے ہوا یا فلاں صحابی سے آپؒ نے یہ سوال کیا تو اس کا یہ جواب ملا، لیکن آپؒ کے مداح ہونے کے باوجود مولانا کے دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہونے لگتے۔
            1958ء میں وہ دارالمبلغین سرگودھا میں بطور استاذ تعینات ہوئے لیکن حال یہ تھا کہ عشاء اور فجر کی نماز کی پروا تک نہ کرتے ۔ ایک دن ان کے والد نے مشورہ دیا کہ کسی اللہ والے سے تعلق قائم کر لو تو یہ حالت بدل جائے گی۔ یکے بعد دیگرے تین معروف گدّیوں سے رشتۂ بیعت استوار کیا لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ مایوسی میں زبان سے نکل گیا کہ دنیا میں کوئی حالت بدلنے والا ہے ہی نہیں۔ ان کے والد نے حوصلہ دیا، اللہ والوں سے زمین خالی نہیں، چنگڑانوالہ جاؤ، مخدوم برہان الدینؒ کے مزار پر تلاوت کرو اور استخارہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرو۔
            والد کے حکم کو مقدم جانتے ہوئے مولانا نذیر احمدمخدوم بادلِ نخواستہ چنگڑانوالہ تو چلے آئے لیکن ان کی متشددانہ سوچ میں اس بات کی قطعاً گنجائش نہ تھی کہ مخدوم برہان الدینؒ کے مزار پر تلاوت کے بھی کوئی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تین دن بعد مولانا نے خواب میں دیکھا کہ مخدوم خاندان کے پانچوں بزرگ قبروں سے باہر نکلے۔ عین اسی وقت حضرت جؒی سرخ گھوڑے پر سوار مغرب سے تشریف لائے۔ ان بزرگوں نے مولانا کا ہاتھ حضرت جؒی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے عرض کیا:
‘‘یہ ہمارا بیٹا ہے، اس کی اصلاح فرمائیں۔’’
            گھر آکر والد کو خواب سنایا تو انہوں نے حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری کے لئے کہا۔ ان دنوں حضرت جؒی کا لنگر مخدوم آنے کا پروگرام تھا۔ معلوم ہوا کہ آپؒ 15 شعبان کو ظہر کی نماز بس اڈہ والی مسجد میں پڑھائیں گے۔ جس کے بعدمختلف مقامات سے آنے والے احباب کے ہمراہ لنگر مخدوم روانہ ہوں گے۔
            مولانا نذیر احمد حضرت جؒی سے ملاقات کے لئے سرگودھا پہنچے تو اس وقت آپؒ مسجد کے اندر تشریف رکھتے تھے۔ مولانا نے صحن میں نماز ادا کی۔ حضرت جؒی کے متعلق دل میں طرح طرح کے شکوک اور وساوس تھے۔ حفاظت کے لئے اپنے اوپر آیت الکرسی کا دم کیا اور حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؒ نے ہاتھ پکڑ کر ساتھ بیٹھنے کو فرمایا تو مولانا نے پیچھے ہٹنا چاہا۔ حضرت جؒی نے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر فرمایا:
‘‘میں تجھے پہلے سے جانتا ہوں لیکن اس وقت جن پانچ مشائخ نے تمہیں میرے پاس بھیجا ہے، مجھے ان کی بڑی حیا ہے۔’’
            حضرت جؒی کا یہ ارشاد سنا تو مولانا نذیر احمد مخدوم پسینہ پسینہ ہو گئے، دل کی پہلے جیسی حالت رہی نہ وہ متشدد انہ نظریات۔ کسی دلیل کی ضرورت پیش آئی نہ کوئی سوال باقی رہا۔ مولوی تو ایک عرصہ سے تھے لیکن اب حقیقت شناس بنے کہ دین کی اصل تزکیۂ باطن ہی ہے، آقائے نامدارﷺ کا فیض جاری و ساری ہے اور اسے بانٹنے والے اہل اللہ کے وجود سے زمین کا سینہ کسی لمحہ بھی خالی نہیں ہوتا۔ حضرت جؒی کے ساتھ وہ بھی 1968ء کے اجتماع میں شریک ہوئے۔ آپؒ نے انہیں خود لطائف بتائے اور توجہ دی۔ سحری کے ذکر میں دیکھا کہ آسمان سے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر ان کی گود میں گر رہے ہیں۔ اس مشاہدے کے ساتھ ہی نگاہِ بصیرت روشن ہو گئی۔
            مولانا نذیر احمد مخدوم کے سلسلۂ عالیہ میں آنے کے بعد لنگر مخدوم کے اجتماع میں یہ تبدیلی آئی کہ مقامی لوگ بھی ذکر و فکر میں شریک ہونے لگے۔ مخدوم خاندان کے سرکردہ افراد نے اجتماع میں حاضری دینا شروع کر دی اور پھر کچھ عرصہ بعد اجتماعات کے انتظامی امور خود سنبھال لئے۔
             سلسلۂ عالیہ حضرت جؒی کو منتقل ہونے کے بعد 1972ء میں منارہ کے سالانہ اجتماع میں کثرت سے احباب کی روحانی بیعت ہوئی جن کی توثیق کے لئے اب انہیں حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر پیش کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ تاہم اس سال لنگر مخدوم کا اجتماع حسبِ سابق منعقد ہؤا لیکن آئندہ سال اجتماع نہ ہو سکا۔ 1974ء میں بھی یہی صورت پیش آئی تو ایک ساتھی کو خواب میں حضرت سلطان العارفیؒن نے فرمایا:
‘‘حضرت نے میرے پاس بھنگی چرسی چھوڑ دیئے، خود نہیں آتے۔’’
            حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کیا گیا تو 1975ء سے ان اجتماعات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ اجتماع کے لئے باہر سے آنے والے ساتھی سرگودھا میں بس اڈہ کی مسجد میں اکٹھے ہوتے اور ایک بس کی سواریاں مکمل ہونے کے بعد لنگر مخدوم کے لئے روانہ ہوجاتے۔ یکے بعد دیگرے بسوں کی روانگی کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔ حضرت جؒی جمعرات کو لنگر مخدوم پہنچتے اور سیدھے حضرت سلطان العارفیؒن کے مرقد پر حاضری دیتے۔ کچھ دیر مراقبہ کی صورت رہتی جس کے بعد مسجد کے صحن میں حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی قبر پر حاضری دیتے۔ ہفتہ کی صبح جب اجتماع برخواست ہوتا تو مشائخ کی قبروں پر حاضری کا یہی عمل دہرایا جاتا۔
             ہر شہر اور علاقے کی جماعت حضرت سلطان العارفیؒن کی خدمت میں اجتماعی صورت میں بھی حاضری دیتی۔جماعتوں کو پیش کرنا پرانے احباب اور بالخصوص ان ساتھیوں کی ذمہ داری تھی جو نگاہِ بصیرت رکھتے تھے۔ بعض احباب کے لئے حضرت سلطان العارفیؒن خصوصی ہدایات بھی فرماتے جس کا تعلق بالعموم روحانی معاملات سے ہوتا لیکن کبھی کبھی کسی ذاتی پہلو کے بارے میں بھی تاکید فرمائی جاتی جس سے پیش کرنے والے صاحب بھی لاعلم رہتے جبکہ ان کے ارشاد کا اصل مفہوم صرف متعلقہ آدمی ہی سمجھ سکتا۔ دن کے اوقات میں احباب ٹولیوں کی صورت میں چنگڑانوالہ قبرستان میں حضرت خواجہ قؒطب، مخدوم برہان الدینؒ اور دیگر اہل اللہ کی خدمت میں بھی حاضری دیتے۔
            ان اجتماعات کے دوران لنگر مخدوم میں دو شب کا قیام حضرت جؒی کا مستقل معمول رہا۔ مغرب اور تہجد کے طویل اجتماعی ذکر آپؒ خود کراتے لیکن باقی اوقات میں بھی احباب انفرادی یا اجتماعی طور پر ذکر کا سلسلہ جاری رکھتے۔ کئی ساتھی پوری رات ذکر میں بسر کرتے۔ لنگر مخدوم میں ایک شب راقم کو قاضی جؒی کے قریب بستر لگانے کا اتفاق ہوا۔ مشکل سے نصف شب گزری ہو گی کہ قاضی جؒی نے ذکر شروع کر دیا۔ اِکا دُکا ساتھی شریک ہوتے رہے۔ قاضی جؒی مراقبات کے ساتھ ساتھ اکثر بے خودی کے عالم میں جو کچھ دیکھ رہے ہوتے، بیان کرنا شروع کردیتے۔ منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے ایک ایک مقام کی منظر کشی ہو رہی تھی۔ مقامات بدلتے رہے لیکن قاضی جؒی کے ساتھ کون چل سکتا تھا۔ ان منازل سے اپنی ہستی پر نظر ڈالی اور فرمانے لگے:
‘‘ تم کیا ہو،  گنہگار، بدمعاش، کمینے ہو، ذلیل ہو’’
            اس کے بعد بہت دیر تک اپنی تحقیر کرتے رہے ا ور اللہ تعالیٰ کی عطاؤں کا تذکرہ کرتے رہے۔
               جمعۃ المبارک کی نماز مزار کے ساتھ وسیع احاطہ میں ادا کی جاتی جس کی وسعت مسلسل اضافے کے باوجود ہر سال تنگ پڑ جاتی۔ان اجتماعات کا ایک اہم پروگرام حضرت امیرالمکرم کا پہلی رات کا خطاب ہوا کرتا تھا۔
            واپسی پر حضرت جؒی مخدوم صاحبان کے ہاں ایک رات کوٹ میانہ میں قیام فرماتے۔ یہاں کے مخدوم مختار احمد ایک عرصہ سے نشہ کی علّت میں اس بری طرح گرفتار تھے کہ اکثر گلیوں میں گرے پڑے ملتے۔ ہر طرح کے جتن کئے گئے لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔ ان کی والدہ نے حضرت جؒی سے دعا کی درخواست کی تو آپؒ نے فرمایا کہ 1975ء کے سالانہ اجتماع پر بھیج دو۔ دس بارہ روز منارہ میں رہے۔ واپس لوٹے تو نہ صرف نشہ کی علّت ختم ہو چکی تھی بلکہ ذکر شروع کر دیا اور چہرہ پر سنت ِ خیرالانامﷺ سجانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ مخدوم مختار احمد کے نشہ چھوڑنے کا چرچا ہوا تو ایک شیعہ نوجوان کے لئے بھی درخواست کی گئی۔ جب بہت اصرار ہوا تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘بھجے ہوئے دانے وی کدی جمے نیں؟’’(کیا بھنے ہوئے دانے بھی کبھی اگتے ہیں؟)
            اجتماعات لنگر مخدوم کے حوالے سے یہاں ایک ایسے واقعہ کا تذکرہ غیر مناسب نہ ہوگا جو اگرچہ حضرت جؒی کے وصال کے بعد کاہے۔ 1994ء کے اجتماع میں مشہور دینی عالم ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملکؒ نے حاضری دی تو حضرت امیر المکرم نے انہیں مشائخ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے کہا۔ ساتھیوں کے ہجوم کی وجہ سے ڈاکٹر صاحؒب کو جوتا نہ ملا تو ننگے پاؤں ہی چل پڑے کہ اس وجہ سے حاضری میں تاخیر کیوں ہو! ذکر کے بعد انہیں حضرت سلطان العارفیؒن کی خدمت میں پیش کیا تو ان پر گریہ کی حالت طاری ہوگئی۔ اس حاضری کے دوران محسوس ہوا کہ حضرت سلطان العارفیؒن ان سے کچھ فرما رہے ہیں۔ مزار سے اٹھے تو راقم نے         ڈاکٹر صاحؒب سے دریافت کیا کہ حضرت سلطان العارفیؒن نے غالباً عربی میں آپ سے کچھ فرمایا تھا۔ کہنے لگے:
‘‘بتا دوں، انہوں نے آقائے نامدارﷺ کا یہ ارشاد بیان فرمایا تھا:
ھُمُ الْجُلَسَاءُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔
یہ ان لوگوں کی مجلس ہے جس میں بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہ سکتا۔’’
حس ِلطافت
            ان اجتماعات میں گرانقدر علمی محافل اور حضرت جؒی کے بصیرت افروز فرمودات کے ساتھ ساتھ آپؒ کی شگفتہ مزاجی اور حس ِلطافت کا بھی اظہار ہوتا۔ 1977ء یا 1978ء کے لنگر مخدوم کے اجتماع میں حضرت جؒی احباب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ذرا فاصلے پر قاضی جؒی، جن کی عمر اس وقت 125 سال سے کم نہ ہوگی، پیوند لگے ہوئے جائے نماز پر حالت ِ مراقبہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت جؒی فرمانے لگے، قاضی جؒی نے بائیس سال میں لطیفہ ٔ قلب کیا لیکن آگے بتانے والا کوئی نہ تھا، اب دیکھو خواجہ خضر بنے بیٹھے ہیں۔ اس وقت سالک المجذوب ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قاضی جؒی کے نفس کی بات چل نکلی۔ قاضی جؒی نفس کے ساتھ جو سلوک کرتے تھے، حضر ت جؒی نے اس قدر شگفتہ انداز میں بیان فرمایاکہ محفل بار بار کشت ِزعفران بنی۔ اتفاقاً یہ گفتگو ریکارڈ ہو گئی جس سے حضر ت جؒی کی حس ِ ّ لطافت کو خوب محسو س کیاجا سکتا ہے۔ آپؒ کے الفاظ میں:
‘‘قاضی جی نے اپنے نفس کے متعلق بتایا، میں سارے روزے اِیساں سُکَّا ٹُکر دِتَّا(اس کو سوکھی روٹی کھلائی) ایس آکھیا چاء( اس نے کہاچائے) ۔میں کیاچا گھِن، سُکَّا ٹُکر دیساں چاء منگدا! ( میں نے کہا یہ لو، سوکھی روٹی دوں گا، چائے مانگتا ہے!)
            جب قاضی جؒی سے پوچھا یہ سوکھی روٹی کھاتے کس طرح تھے تو کہنے لگے، چکا دودھ گھِن کے، پانی چاء نمک ڈالتا، سارے آکھدے مٹھا پا، آکھیا اے منگدا، میں ایساں نہیں دینا (سب کہتے میٹھا ڈالو، میں کہتا چونکہ نفس مانگتا ہے اسے نہیں دوں گا)۔’’
اس پر احباب کافی دیر تک محظوظ ہوتے رہے۔ حضرت جؒی پھر فرمانے لگے:
‘‘ میں نے قاضی جی سے کہا، چنگا ہو یا، ایساں چنگے ٹکرے او (خوب، آپ نے اس سے خوب سلوک کیا)۔ ہن کھچ مریندے او، میدانِ قیامت ایہہ تساں پکڑنا، ایہہ خدا کول پٹ سی، مینڈے تے ظلم ہونا۔ (اب تو شغل لگا رکھا ہے، میدانِ قیامت میں یہ آپ کو پکڑے گا، خدا سے فریاد کرے گا میرے اوپر ظلم ہوا)۔
            قاضی جی نے میری اس بات کا جواب دیا، نئیں ایہہ خرکیا جی، میں بوؤں دینا، ایساں میں بوؤں رجینا، بوؤں دانہ پائیے تے ول ٹیٹنے مرینا(نہیں جی یہ خرمستیاں کرتا ہے، میں اسے بہت دیتا ہوں، بہت کھلاتا ہوں، زیادہ دانہ ڈالیں تو پھر دولتیاں جھاڑتا ہے)۔
            اس پر حاضرین ایک بار پھر خوب محظوظ ہوئے۔
            احباب کے ساتھ ایک محفل میں تصو ّف کے موضوع پر گفتگو کا سلسلہ خاصی دیر سے جاری تھا۔ نام نہاد تصو ّف اور مروّجہ پیری مریدی کی خرابیوں کا ذکر آیا تو حضرت جؒی نے ایک پیر کی مثال دی جس سے تمام احباب محظوظ ہوئے۔ آپؒ فرمانے لگے:
‘‘سرگودھا کے پاس ایک جگہ ہے، ادھر خنزیر فصل اجاڑتے تھے۔ وہاں ایک پیر گیا داڑھی منڈا، نماز روزہ کوئی نہیں، بھنگ وغیرہ پیتا تھا۔ اسی طرح کے اس کے مرید تھے۔ گاؤں والے آئے اور کہنے لگے، پیرا، ادھر رات کو خنزیر آتے ہیں، فصل نہیں چھوڑتے۔ مہربانی کرو کوئی تعویذ دو ادھر باندھ دیں۔ خنزیر فصل خراب نہ کریں۔ پیر نے کہا، تعویذ خنزیروں کو نہیں روکتے تم کوئی بُلہی کتے (Bull Dog) رکھو۔ گاؤں والے کہنے لگے، پیرا ہمارے لئے بُلہی بھی تو اور تازی بھی تو۔’’
            حضرت جؒی کی خدمت میں ایک مولوی صاحب حاضر ہوئے جنہیں سوئے حافظہ کی شکایت تھی۔ حضرت جؒی سے عرض کیا کہ انہوں نے تفسیر ابن کثیر شروع کی ہے اور مطالعہ بھی کرتے ہیں لیکن ذہنی کمزوری کی وجہ سے بھول جاتے ہیں۔ کوئی وظیفہ ارشاد فرمائیں۔ حضرت جؒی نے فرمایا :
‘‘ ہر نماز کے بعد سر پر دایاں ہاتھ رکھ کر 11 مرتبہ پڑھیں  یَا حَافِظُ یَاحَافِظُ.....’’
            اور سب سے بڑا علاج ہے ترک المعاصی۔ امام شافعیؒ کے شیخ نے سوئے حافظہ کے علاج کے لئے بتایا، گناہ چھوڑ دو کیونکہ علم اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا نُور ہے۔ اللہ کا فضل شامل حال نہیں ہوتا معاصی کے ساتھ۔
            اور اس کے بعد منقّہ اور بادام کے پانچ پانچ دانے، رفتہ رفتہ دس تک بڑھا دیں، سوتے وقت۔ منقہ کا بیچ نہ نکالیں، ساتھ ہی کھالیں۔ اِنْ شَاءَ اللّٰه  دماغ ٹھیک رہے گا۔’’
اس کے بعد کچھ دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ بات ختم ہوئی تو مولوی صاحب نے دوبارہ دریافت کیا:
‘‘ حضرت منقہ ّکے سات دانے؟’’
حضرت جؒی اس سوال پر خوب محظوظ ہوئے اور فرمانے لگے:
‘‘ایک مرتبہ جلسہ کے لئے پوٹھوہار گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب استادوں           (حضرت خواجہ عبدالرحیؒم) کی خدمت میں ابھی حاضر نہ ہوا تھا، پرانی بات ہے۔ وہاں ایک پیر تھے، رکناں والے۔ پیرصاحب کہنے لگے، استاد جی! آپ کو ایک تماشہ دکھائیں، یہ مولوی صاحب آگئے ہیں۔ وہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ پیر صاحب نے    مولوی صاحب سے پوچھا، آپ کا نام کیا ہے؟
اوہ بھلی گچھااِی (اوہ! بھول گیا ہوں)
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت جؒی فرمانے لگے:
‘‘ابھی منقّہ کا بتایا تھا اور ابھی بھلی گچھے ای’’
اعتکافِ رمضان المبارک
            1975ء تک چکوال میں سلسلۂ عالیہ کے ایسے احباب کی تعداد خاصی بڑھ چکی تھی جو اپنے اپنے محلے کی مسجد میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں سنّت اعتکاف کرتے۔ ان احباب نے رمضان المبارک سے قبل طے کیا کہ الگ الگ مساجد میں اعتکاف کی بجائے کسی ایک ہی مسجد میں معتکف ہوا جائے تاکہ ذکر و اذکار بھی اجتماعی صورت میں کئے جا سکیں۔ دوسرے شہروں کے ساتھیوں کو اطلاع ہوئی تو وہاں سے بھی کئی احباب اعتکاف کیلئے چکوال پہنچے اور اس طرح 1975ء میں چکوال کی مسجد مجددّیہ میں قریباً 25 احباب اجتماعی اعتکاف میں شریک ہوئے۔ حضرت جؒی نے اسے پسند فرمایا اور 1978ء کے اعتکاف میں ایک یوم کے لئے خود بھی تشریف لائے۔
            اسی سال حضرت جؒی نے چکوال کی بجائے منارہ کو سلسلۂ عالیہ کا مرکز مقرر فرماتے ہوئے احباب کو ہدایت فرمائی کہ وہ آئندہ کسی بھی پروگرام کے لئے آئیں تو براہِ راست منارہ پہنچیں۔اس سے قبل 1970ء سے منارہ سکول میں سلسلۂ عالیہ کے سالانہ اجتماعات کا آغاز ہو چکا تھا۔ اب حضرت جؒی کے اس اعلان کے بعد لازم ٹھہرا کہ رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف بھی منارہ ہی میں کیا جائے۔ حسب سابق طعام اورانتظامی امور حضرت امیرالمکرم کے ذمہ تھے لیکن اجتماع کی نسبت معتکف حضرات کی تعداد چونکہ کم تھی، انہوں نے یہ ذمہ داری اہلِ خانہ کے سپرد کی اور خود بھی معتکف ہو گئے۔
            اسی اثناء میں اطلاع ملی کہ حضرت جؒی منارہ آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو حضرت امیر المکرم نے اعتکاف ختم کیا اور آپؒ کو چکڑالہ سے لانے کیلئے روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت جؒی کا مستقل معمول رہا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ منارہ ہی میں گزارتے۔ اگرچہ آپؒ حضرت امیرالمکرم کے گھراپنے مخصوص کمرے میں قیام فرماتے لیکن معتکف احباب کے ساتھ مسجد میں بھی خاصا وقت بسرکرتے۔ حضرت جؒی لاٹھی ٹیکتے ہوئے حضرت امیر المکرم کے گھر سے مسجد کی جانب قدم بڑھاتے تو معتکف احباب حدود مسجد میں استقبال کے لئے قطار در قطار کھڑے ہوتے۔ آپؒ کی آمد پر ذکر کیلئے صفیں بن جاتیں اور پھر مراقبات کے دوران ساتھیوں کی ارواح غول در غول اس طرح عالمِ بالا کی طرف پرواز کرتیں کہ متقدمین اولیاء کرام بھی حیرت زدہ ہوتے، یہ کون لوگ ہیں جن کی راہ میں اس عالم کے حجابات بھی حائل نہیں۔
            سنت اعتکاف کے لئے ساتھیوں کی تعداد چالیس پچاس سے شروع ہوئی لیکن بعد میں قریباً تین سو تک پہنچ گئی۔ آخری عشرہ میں نفلی اعتکاف کی نیت سے مختلف شہروں سے اجتماعی صورت میں احباب کی آمدو رفت بھی جاری رہتی، بالخصوص حضرت جؒی کی اقتداء میں نمازِجمعۃ المبارک اور جمعۃ الوداع کی ادائیگی کے لئے احباب کی بہت بڑی تعداد منارہ پہنچ جاتی۔ 1982ء میں سالانہ اجتماع منارہ سکول کی بجائے دارالعرفان میں منعقد ہوا تو اس سال سے اجتماعی اعتکاف کا سلسلہ بھی وہیں منتقل ہو گیا۔ دارالعرفان کا اعتکاف پردوں اور چادروں کے مابین بٹی ہوئی کسی مسجد کا نقشہ نہیں بلکہ حرمین شریفین میں اعتکاف کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ یہاں ہر ساتھی معتکف ہوتا ہے سوائے ان احباب کے جنہیں انتظامی ذمہ داریوں کی وجہ سے سنت اعتکاف کی بجائے نفلی اعتکاف کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ احباب فارغ اوقات میں نفلی اعتکاف کی نیت کر لیتے ہیں لیکن زیادہ وقت احباب کے لئے سحری و افطاری کے وسیع انتظامات میں صرف کرتے ہیں۔
            اس اعتکاف میں ہر ساتھی ایک اجتماعی پروگرام کے تابع ہوتا ہے۔ طویل ذکر و اذکار کے ساتھ قرآن، حدیث اور فقہ پر مشتمل دینی تعلیمات کے کورسز بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ آخر میں ان کورسز کے شرکاء کا امتحان ہوتا ہے اور کامیابی حاصل کرنے والوں کو حضرت امیرالمکرم اسناد عطا کرتے ہیں۔ دورانِ اعتکاف کثرتِ ذکر و فکر، قلّتِ کلام اور قلّتِ نوم کا لازمی نتیجہ مشاہدات و کیفیات قلبی کی صورت میں نکلتا ہے جو ہر ساتھی کو حسب استطاعت نصیب ہوتی ہیں۔ دورانِ اعتکاف کئی احباب کو لیلۃ القدر کے ادراکات بھی نصیب ہوتے ہیں۔
            اگرچہ ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن دارالعرفان کا اعتکاف آج بھی حضرت جؒی کے زمانے کے اس اعتکاف کا نقشہ پیش کرتا ہے جو منارہ کی مسجد میں منعقد ہوا کرتا تھا۔
اجتماعات چکڑالہ
            ابتدائی دور میں حضرت جؒی کی خدمت میں حضرت امیرالمکرم چکڑالہ میں اکثر حاضر ہوا کرتے اور گاہے گاہے لیٹی سے قاضی جؒی اور ڈھلیاں سے حاجی محمد خانؒ بھی آجاتے۔ یہ دیکھتے ہوئے چند مقامی لوگ بھی ذکر میں شریک ہونے لگے۔ ایک مرتبہ حضرت جؒی کے ساتھ حضرت امیرالمکرم کے علاوہ چکڑالہ کے یہ ساتھی بھی ذکر میں شریک تھے۔ ذکر مکمل ہوا تو حضرت جؒی نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ دن بھر تم کن لوگوں کے ساتھ رہتے ہو کہ آج ذکر میں ان کی نحوست کی وجہ سے میرا بدن ٹوٹ گیا۔ بعد میں ان لوگوں نے    حضرت امیرالمکرم کو بتایا کہ وہ ایک تاریخ پر میانوالی گئے تھے تو سارا دن کچہری میں گزرا اور بازار سے کھانا بھی کھایا۔ حضرت جؒی کو یہ معلوم ہوا تو وہ اور بھی خفا ہوئے۔ اس پر جب ان لوگوں نے حضرت امیرالمکرم پر خفگی کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا، تم نے مجھے بتایا ہی کیوں تھا!
          ان امور کی شیخ سے پردہ داری جن کے بارے میں دریافت فرمایا گیا ہو یا وہ شیخ سے متعلقہ ہوں! یہ روش سلوک کے منافی ہے، چہ جائیکہ شیخ سے دانستہ جھوٹ بولا جائے اور سالہا سال درپردہ منفی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔ ایسے ایک دو نہیں، کئی اشخاص کو نشانِ عبرت بنتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جن لوگوں سے میل جول رکھا جائے، ان کی نحوست اثر انداز ہوتی ہے۔   حضرت جؒی کی ہدایت تھی کہ احباب مسجد میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد سنن اور نوافل الگ سے پڑھیں۔
            ابتدائی دور میں ساتھیوں کو کثرت سے مشاہدات نصیب ہوتے۔ چکڑالہ میں حضرت جؒی روحانی کلام میں ان کی تربیت بھی فرماتے۔ آپؒ کے گھر کے پاس قبرستان میں کچی سی چاردیواری کے اندر ایک قبر ہے جس کے متعلق مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ ڈھیری والے فقیر کی ہے۔ وہ صاحب کشف ساتھی جن کی برزخ  تک رسائی ہوتی، حضرت جؒی انہیں فرماتے، چلو ڈھیری والے فقیر کے پاس، تمہیں برزخ کی زبان سکھائیں۔ اس فرمان کے ساتھ حضرت جؒی کی توجہ میں ساتھی ڈھیری والے فقیر سے روحانی کلام کرتے اور اس کو سمجھنے میں آپؒ اُن کی راہنمائی فرماتے۔
            ڈھیری والے فقیر کے متعلق حضرت جؒی نے فرمایا کہ یہ بزرگ  تلہ گنگ شہر کے رہنے والے تھے۔ اس تلاش میں کہ کوئی شخص سلوک میں ان کی تربیت کر سکے، دہلی تک پیدل سفر کیا۔ وہاں ان کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جن کے پاس سولہ سال تک اللہ اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ فنا فی الرسولﷺ نصیب ہوا۔ اس کے بعد شیخ نے واپسی  کی اجازت دی کہ وہ اگلے اسباق نہیں کرا سکتے۔ رخصت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ واپس اپنے گھر، اپنے علاقہ میں نہ جانا ورنہ جو کچھ حاصل ہوا ہے، ضائع کر بیٹھو گے۔ وہ مختلف علاقوں میں پھرتے رہے، یہاں تک کہ چکڑالہ میں ان کا وصال ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ حضرت امیرالمکرم نے ڈھیری والے فقیر کے یہ حالات سنے تو عرض کیا:
‘‘حضرت! اگر یہ کام اتنا ہی مشکل ہے تو ہم باز آئے، یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہمارے لئے آپ کی صحبت، آپ کی زیارت اور آپ سے تعلق ہی کافی ہے۔’’
حضرت جؒی ہنسے اور فرمانے لگے:‘‘تم یہ کام ضرور کرو، تم فقیری بھی کرو گے اور بادشاہی بھی کرو گے۔’’
ایک محفل میں حضرت امیرالمکرم یہ تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور فرمانے لگے:
‘‘حضرت جؒی کے ان الفاظ کو پچاس برس بیت گئے، نصف صدی گزر گئی۔ اللہ کریم نے بے پناہ نعمتیں دی ہیں، یہ اللہ کریم کا احسان ہے۔’’
            ترویج سلسلہ کے اِذن عام کے بعد ساتھیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تو چکڑالہ میں احباب کی آمد و رفت بڑھ گئی۔ حضرت جؒی کی اقتداء میں نمازِجمعہ ادا کرنے کے لئے احباب کی خاصی تعداد جمعرات کو ہی چکڑالہ پہنچ جاتی جبکہ کچھ ساتھی اتوار کی چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہفتہ، اتوار یہاں گزارتے، اس طرح ان ایام میں ایک اجتماع کی صورت بن جاتی۔ باقی ایام میں بھی حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری کے لئے ساتھیوں کی آمدورفت جاری رہتی۔ ابتدائی دور میں حضرت جؒی کا معمول تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد محلہ کی مسجد میں طویل ذکر کرتے۔ باہر سے آنے والے احباب کوشش کرتے کہ وہ مغرب کے ذکر میں آپؒ کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ اس ذکر کے لئے مسجد کا جنوب مشرقی کونہ مخصوص تھا جہاں آپؒ نے اکیلے اور احباب کے ہمراہ سالہاسال ذکر کیا۔ آپؒ فرمایا کرتے، اگر میں موجود نہ بھی ہوں تو اس جگہ ذکر کرنے سے اسی طرح فائدہ ہوگا جس طرح میرے ساتھ ذکر کرنے میں فائدہ ہے۔ محلہ کی اس مسجد کی امامت، جملہ انتظامات اور اخراجات بھی آپؒ ہی کے ذمہ تھے۔
            1970ء تک چکڑالہ میں احباب کی آمدورفت خاصی بڑھ چکی تھی۔ حضرت جؒی کے ہاں کوئی ملازم نہ تھا اس لئے اکثر اوقات خود ہی ساتھیوں کی تواضع فرماتے۔ جب تک آپؒ کی صاحبزادی اُمِ کلثوم کم سن تھیں وہ آپؒ کا ہاتھ بٹاتیں لیکن بعد میں یہ فریضہ بابا نور محمؒد نے سنبھال لیا۔
            کھانے کے علاوہ ساتھیوں کے لئے بستر وغیرہ کا انتظام بھی کیا جاتا۔ ایک ساتھی موسمِ سرما کی نصف شب چکڑالہ پہنچے تو اس وقت حضرت جؒی کو رات گئے اطلاع کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ یہاں کی شدید سردی کی وجہ سے اپنے گرد مسجد کی صف لپیٹ کر رات بسر کی۔ حضرت جؒی کو صبح خبر ہوئی تو آپؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا، اس موسم میں نصف شب یہاں پہنچیں اور ساتھ کمبل بھی نہ لائیں تو یہی ہونا چاہئے تھا۔ ساتھیوں کی روز افزوں تعداد کے باوجود حضرت جؒی نے کبھی ان کی آمدورفت کا برا منایا نہ آپؒ کی شفقت میں کوئی کمی آئی بلکہ بسا اوقات میانوالی کے ‘‘مکھڈی حلوے’’ سے بھی تواضع کرتے۔
            1976ء میں میجر عبدالقادر (ستارۂ جرأت) چنداحباب کے ہمراہ پہلی مرتبہ چکڑالہ آئے تو    حضرت جؒی نے انہیں اس طرح چائے پیش کی کہ ایک ہاتھ میں چائے دانی تھی اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں چائے کے کپ پرو رکھے تھے۔چائے پیش کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
‘‘جب یہاں چائے مل ہی جانا تھی تو راستے میں نحوست والی چائے پینے کی کیا ضرورت تھی؟’’
            دورانِ سفر ان لوگوں نے چکوال کے قریب راستے کے ایک ہوٹل سے چائے پی تھی۔میجر عبدالقادر، حضرت جؒی کے بارے میں براہِ راست معلومات حاصل کرنے کے لئے پہلی مرتبہ چکڑالہ آئے تھے۔خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت جؒی پر ان کے سفر کا حال منکشف ہو گیاجس کے بعد مزید کچھ جاننے کی ضرورت نہ رہی۔
            اوائل 1976ء میں معمول کے مطابق احباب کی چکڑالہ آمد پر آپؒ نے فرمایا:
‘‘ مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ شیخ کی خدمت میں حاضری بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔
گھڑی کی چابی کی طرح، اس سے باطنی استعداد پھر سے بحال ہو جاتی ہے۔’’
            چکڑالہ میں احباب کی مسلسل آمدورفت اورتعداد میں اضافہ کی وجہ سے انتظامی مسائل پیدا ہونے کے علاوہ حضرت جؒی کا تصنیف و تالیف کا کام بھی متأثرہورہاتھا۔چنانچہ آپؒ کے اس ارشاد کی روشنی میں طے پایا کہ چکڑالہ میں اجتماعی حاضری کیلئے ہر مہینے کا دوسرا اتوار مقرر کر لیا جائے، احباب ہفتہ کی شام چکڑالہ پہنچ جائیں اور اتوار کی صبح اجتماعی دعا کے بعد واپسی ہو۔اس طرح یہ ماہانہ اجتماع مختلف علاقوں سے آنے والے احباب کے مابین نہ صرف رابطہ کا ذریعہ ہو گا بلکہ باہمی مشاورت سے مختلف اجتماعی امور اور حضرت جؒی کے تبلیغی دوروں کے پروگرام بھی یہیں طے پا سکیں گے۔ حضرت جؒی نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور 13، 14 مارچ 1976ء کو چکڑالہ کا پہلا ماہانہ اجتماع منعقد ہوا لیکن اس کے باوجود انفرادی طور پر چکڑالہ میں احباب کی آمدورفت کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ حضرت جؒی دوسرے تمام پروگراموں پر اس اجتماع کو فوقیت دیتے اور اگر چکڑالہ سے باہر جانے کا پروگرام ہوتا تو اجتماع کے اختتام پر دورے کا آغاز فرماتے۔ اسی طرح دوروں کو چکڑالہ کے ماہانہ اجتماع سے کچھ روز قبل ختم کر دیا جاتا تاکہ حضرت جؒی واپس آکر اس کے لئے انتظام کر سکیں۔
حضرت جؒی کی رہائش گاہ
            حضرت جؒی کے گھر کا وسیع احاطہ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ بیرونی حصہ ساتھیوں کے لئے مخصوص تھا جبکہ اندرونی حصہ ذاتی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا۔ بیرونی حصہ کے اطراف میں دو کچے کمرے ہوا کرتے تھے جو باہر سے آنے والے احباب کے تصرف میں ہوتے اور کمروں کے درمیان وسیع صحن احباب کی نشست گاہ کے طور پر استعمال ہوتا۔ گھر کے اندرونی حصہ میں داخلے کا دروازہ بھی اسی صحن میں کھلتا تھا۔
            باہر والے صحن میں کھجور کے پٹھوں سے بنی ہوئی ایک کھردری چارپائی پڑی ہوتی۔ احباب کی آمد پر حضرت جؒی عموماً اسی چارپائی پر تشریف رکھتے لیکن بستر یا تکیہ وغیرہ سے بے نیاز۔ چارپائی سے متصل صفیں بچھ جاتیں لیکن بعض ساتھی قریب ہی درخت کے کٹے ہوئے ایک تنے پر بیٹھ جاتے جسے اس محفل میں صوفہ کی حیثیت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ ضلع ہزارہ کے علاقے ڈاڈر کی مشہور شخصیت اور پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر ہارون بادشاہ نے حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری دی تو اسے بھی وہیں بیٹھنا پڑا۔ حضرت جؒی نے تصو ّف کے بارے میں اس کے اشکال کو رفع فر مایا لیکن آپؒ کے حلقہ ٔ ارادت میں اس کی شمولیت کا باعث اس نشست گاہ کی یہی سادگی تھی جس کا اس نے واپسی پر اعتراف کیا۔ کسی شان و شوکت کا اظہار نہ کسی معروف شخص کی آمد پر خصوصی اہتمام، جو اکثر روایتی گدیوں اور آستانوں پر نظر آتا ہے۔
            چکڑالہ میں ماہانہ اجتماعات شروع ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد محسوس کیا جانے لگا کہ ساتھیوں کی رہائش کے لئے مزید کمرے تعمیرکرنے کی ضرورت ہے۔ طلوعِ آفتاب کے تھوڑی ہی دیر بعد دھوپ کی تمازت میں اس قدر اضافہ ہو جاتا کہ صحن میں حضرت جؒی کے ساتھ نشست زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکتی ۔ مشورہ ہوا کہ احباب کے زیرِ تصرف بڑے کمرے کو گرا کر مزید وسعت کے ساتھ پختہ تعمیر کر دیا جائے۔ حضرت جؒی سے اس کی اجازت طلب کی گئی تو آپؒ نے یہ شرط عائد کر دی کہ تعمیر پر اٹھنے والے تمام اخراجات آپؒ خود برداشت کریں گے۔ ساتھیوں کا بڑا کمرہ تعمیر ہوا تو اس سے متصل لائبریری کو بھی اس جواز پر پختہ کر لیا گیا کہ اس طرح کتابوں کا نایاب ذخیرہ دیمک وغیرہ سے محفوظ ہو جائے گا لیکن لائبریری سے متصل حضرت جؒی کے ذاتی کمرے کی باری آئی تو آپؒ نے سختی سے روک دیا:
‘‘خبردار! آگے میرا کمرہ ہے، یہ کچا ہی رہے گا۔اس عارضی دنیا میں پختہ عمارت تعمیر کرنا میرے نزدیک دانش مندی نہیں۔’’
            حضرت جؒی کا یہ ذاتی کمرہ سادگی اور قناعت کا فقید المثال نمونہ تھا۔ سرکنڈوں کی چھت اس قدر نیچی تھی کہ ہاتھ اوپر اٹھائیں تو اس سے ٹکرا جائے۔ چھت کو سہارا دینے کے لئے درمیان میں درخت کے نا تراشیدہ تنے کا ایک ستون ایستادہ تھا۔ اس ستون اور دیوار کے درمیان صرف اس قدر جگہ تھی جہاں ایک چارپائی سما سکے۔ چارپائی کے سرہانے کی جانب دیوار میں ایک طاقچہ سا بنا ہوا تھا جس میں دو تین کتابیں اورکچھ ادویات پڑی ہوتیں۔ کمرے کی دیواروں میں ہوا اور روشنی کے لئے کوئی کھڑکی تھی نہ روشن دان۔ ستون کے دوسری طرف ذکر و فکر اور نوافل کے لئے جگہ مخصوص تھی جہاں کھجور کے پٹھوں سے بُنا ہوا ایک جائے نماز پڑا ہوتا۔احباب جب کبھی آپؒ کی خدمت میں جائے نماز کا تحفہ پیش کرتے، وہ اسی پر ڈال دیئے جاتے۔ اس طرح یہاں ہرن کی کھال کے جائے نماز بھی نظر آتے اور مخمل کے روایتی جائے نماز بھی جو احباب حج یا عمرہ سے واپسی پر آپؒ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کرتے۔ تعداد میں اضافہ ہو جاتا تو حضرت جؒی یہ جائے نماز ساتھیوں میں تقسیم فرما دیتے لیکن کھجور کے پٹھوں والا جائے نماز وہیں پڑا رہتا۔
            حضرت جؒی کے اس ذاتی کمرے میں بہت کم احباب کو جانے کا موقع مل سکا۔ آپؒ کے اہل ِخانہ اس کمرے کی جھاڑ پونچھ یا لپائی کے لئے کہتے تو آپؒ اس کی بھی اجازت نہ دیتے۔ اہل ِ خانہ نے درخواست کی کہ لائبریری کے بعد اس کمرہ کو بھی پختہ کرنے کی اجازت دی جائے توآپؒ نے سختی سے منع فرما دیا۔
‘‘میں خود کچا، میرا کمرہ بھی کچا رہنے دو۔’’
            ایک مرتبہ حضرت جؒی کی اہلیہ محترمہ نے اس کمرے سے حضرت جؒی کے لگاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب آپؒ گھر سے باہر دوروں پر تشریف لے جاتے ہیں تو وہاں قیام کے بہترین انتظامات اور تمام سہولتوں کے باوجود اپنے ذاتی کمرے میں واپسی کے لئے بے تاب رہتے ہیں جہاں آپؒ نے قربِِ الٰہی کی اکثر منازل طے کیں۔ آپؒ نے اس کمرے میں اپنا بیشتر وقت ذکر و فکر اور مراقبات میں بسر کیا اور آخر دم تک یہی پسند فرمایا کہ اس کمرے کی فضا کو جوں کا توں رکھا جائے، حتیٰ کہ یہاں کی مٹی کی جھاڑ پونچھ کی جائے نہ باہر سے مٹی لا کر اس کی لپائی کی جائے۔ یہ کمرہ حضرت جؒی کی سادگی کا عکس تھاجو آپؒ کے ہاں زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتی۔
            ایک مرتبہ آپؒ کراچی کے دورہ پر روانہ ہونے لگے تو جو لباس زیب تن تھا، اس میں پیوند لگا ہوا تھا۔ اہل خانہ نے یہ جوڑا تبدیل کرنے کے لئے عرض کیا تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘رہنے دو، ہمیں یہ عزت لباس سے نہیں، دین کی نسبت سے ملی۔’’
وہ کمبل پوش!
               چکڑالہ کے ماہانہ اجتماعات کے ابتدائی دور میں خرابی ٔ صحت کے باوجود حضرت جؒی کی انتہائی کوشش ہوتی کہ تہجد کا ذکر احباب کے ساتھ کریں۔ بڑے کمرے کی تعمیر کے کچھ ہی عرصہ بعد چکڑالہ کے ایک ماہانہ اجتماع کا ذکر ہے کہ راقم جب تہجد کے لئے بیدار ہوا تو دیکھا کہ ایک کمبل پوش دائیں کونے میں مراقب ہیں جبکہ احباب کی اکثریت ابھی تک خوابیدہ ہے۔ حیرت ہوئی کہ یہ کون ساتھی ہیں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے اور اب اس انہماک کے ساتھ مراقبات میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ساتھی ایک ایک کر کے تہجد کے لئے بیدار ہوئے اور نوافل سے فارغ ہو کرصفوں

میں بیٹھ گئے تاکہ حضرت جؒی تشریف لائیں تو ذکر شروع ہوسکے۔ اس حالت میں اچانک آپؒ کی آواز سنائی دی!
سُبْحَانَ اللّٰہ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ  ............
            وہ کمبل پوش حضرت جؒی تھے جو اس وقت سے یہاں مراقب تھے جب کہ احباب ابھی تک بیدار نہ ہوئے تھے۔ ہم کیا اور ہمارے ذکر و فکر کی کیا بساط! یہ حضرت جؒی کے اشک تھے، یہ آپؒ ہی کا نالۂ نیم شب اور مجاہدات تھے جو ہماری بھی عاقبت سنوارنے کا ذریعہ بن گئے۔
            تہجد کے طویل ذکر کے بعد حضرت جؒی کی اقتداء میں نمازِ فجر ادا ہوتی لیکن اس حالت میں کہ قرأت کے دوران آپؒ کی آواز رقت میں ڈوب جاتی۔ ایک ہی آیت کو بار بار دُہراتے، کبھی ایک ہی لفظ کی تکرار ہوتی اور کبھی زبان سے پورا لفظ بھی ادا نہ ہو پاتا۔ گریہ کو دبانے کی کوشش کرتے تو ہچکیوں سے گلا رندھ جاتا۔ حضرت جؒی کی اقتداء میں نماز اد ا کرتے ہوئے ان کیفیات میں سے احباب نے بھی حسب ِ مقدور اپنا حصہ وصول کیا اور اس طرح یہ نمازیں زندگی کی متاعِ عزیز بن گئیں۔ حضرت جؒی کی مسلسل بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے چکڑالہ کے ماہانہ اجتماع میں آپؒ کے ساتھ تہجد کا ذکر اور آپؒ کی اقتداء میں نماز فجر کی یہ بہاریں آخری چند سالوں میں صرف یادوں کی صورت باقی رہ گئیں۔ اگرچہ حضرت جؒی کے بغیر تہجد کا ذکر ہوتا لیکن اس دوران آپؒ کی توجہ مسلسل حاصل رہتی۔
            نوافلِ اشراق کی ادائیگی کے بعد حضرت جؒی گھر کے اندرونی دروازے سے نمودار ہوتے لیکن اس حالت میں کہ عصا کے علاوہ کسی ایک ساتھی کا سہارا بھی لیاہوتا۔ آپؒ کے لئے تھوڑا سا راستہ چھوڑ کر تمام ساتھی مل کر بیٹھتے لیکن استقبال کے لئے کسی کو کھڑا ہونے کی اجازت نہ تھی۔ گھنٹہ دو گھنٹے صحبت شیخ کی نشست ہوتی جس کے دوران بابا نور محؒمد ساتھیوں کی چائے سے تواضع کرتے۔ ایک خاص نسبت سے گڑ اور چینی کی آمیزش سے تیار اس چائے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ چائے کے لئے گڑ صوبہ سرحد سے منگوایا جاتا اور آپؒ ہدایت فرماتے کہ گڑ خریدنے سے پہلے چائے بنا کر دیکھ لیں کہ اس سے دودھ پھٹ نہ جائے۔ مردان کا گڑ آپؒ کے معیار کے مطابق تھا جس کی فراہمی کی ذمہ داری کئی سال تک راقم کے سپرد رہی لیکن حضرت جؒی نے ہمیشہ اس کی قیمت خود ادا فرمائی۔
علماء مکتب طریقت میں
            ان اجتماعات میں علماء کی حاضری ایک مستقل معمول تھا۔ حضرت جؒی ان کے ساتھ دیر تک علمی موضوعات پر گفتگو فرماتے اور علماء کے اٹھائے ہوئے نکات پر خوب روشنی ڈالتے۔ یہاں تین ایسے اجتماعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن میں حضرت جؒی کی خدمت میں علما ء نے حاضری دی اور اجتماع کے آخر میں ظاہری بیعت کی سعادت سے بہرہ ور ہو کر لوٹے۔
            قاری سیّد ابراہیم شاہ ایک صاحب ِدل اور متّقی عالم تھےجو کئی سال پشاور میں خالد بن ولید باغ سے ملحق کور ہیڈکوارٹرز کی مسجد میں خطیب رہے۔ ایک مرتبہ اس شک میں مبتلا ہو کر خود کو سیّد کہلانا ترک کر دیا کہ وہ سیّد ہیں بھی یانہیں لیکن خواب میں حضورﷺ کی طرف سے تشفّی ملی تو دوبارہ سیّد کہلانے لگے۔       شاہ صاحب حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ کے اجتماع میں حاضر ہوئے تو عقائد کے موضوع پر بات چل نکلی۔ان کے دل میں اچانک خیال آیا کہ حضرت جؒی اتنے بڑے عالم ہیں، یہ تو دین کا بہت بڑا کام کر سکتے تھے لیکن خواہ مخواہ تصوف کے چکر میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں۔ عین اس موقع پر حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘میں نے بڑے مناظرے کئے، بڑے مقابلے کئے، بڑے وعظ کئے لیکن لوگوں کو اس تیزی سے رشد و ہدایت نہیں ملی، جس قدر تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ذریعے عطا ہوئی۔’’
            یہ جواب سنا تو فوراً تشفی ّہوگئی اور حضرت جؒی سے ظاہری بیعت کے بعد واپس لوٹے۔ قریباً بیس سال بعد حضرت جؒی کی سوانح کے سلسلہ میں شاہ صاحب کے گاؤں میں حاضر ہوا تو ان سے دریافت کیا:
‘‘شاہ صاحب! آپ تو ہمیشہ سے ناقدانہ ذہن رکھتے تھے لیکن کس چیز نے آپ کو اس قدر متأثر کیا کہ پہلی ہی صحبت میں حضرت جؒی کے ہاتھ پر بیعت کے لئے تیار ہوگئے۔’’
فرمانے لگے:
‘‘لطیفہ ٔ قلب، حضرت بادشاہ گل (اکوڑہ خٹک )سے حاصل کیا لیکن آگے نہ چل سکا کہ وہ فوت ہو گئے۔ مختلف جگہوں پر گیا لیکن رہنمائی نہ ملی لیکن جب حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوا تو صرف آپؒ کی صحبت میں بیٹھنے سے ہی تمام لطائف جاری ہو گئے۔ جس لطیفہ پر نگاہ ڈالتا، اسے اللہ اللہ کرتے ہوئے پاتا۔ ساتوں لطائف مل گئے جو اب تک ہیں۔ ذکر اب غذا بن چکا ہے۔’’
شاہ صاحب کو اگلے اسباق طے کرنے کے لئے کہا تو فرمانے لگے :
‘‘حضرت جؒی سے لطائف مل گئے، اب انہی پر قانع ہوں۔ اگلے اسباق کی طلب نہیں۔’’
            اسی طرح فاضل درس نظامی قاری محمد طیّب جن کا تعلق فوج کے شعبۂ مذہبی امور سے تھا، حضرت جؒی کی خدمت میں پہلی مرتبہ چکڑالہ کے اجتماع میں حاضر ہوئے تو دل میں طرح طرح کے سوالات تھے مثلاً ان لوگوں کے ہاں مکاشفات کا بہت چرچا ہے، آقائے نامدارﷺ کے ہاتھ پر روحانی بیعت کا ذکر کرتے ہیں اور وہ بھی اس دور میں! طریقہ ٔ ذکر میں زور زور سے سانس لینا اور جسم کو حرکت دینا، اس کے پیچھے کون سی سند ہے؟
            قاری صاحب کے دل میں پہلا سوال کشف کے بارے میں تھا لیکن پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی ۔ حضرت جؒی نے دورانِ گفتگو انکشافات کے متعلق ایک شعر پڑھا:
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر پشتِ پائے خود نہ بینم

(کبھی تو اونچے مقام پر فائز ہوتے ہیں اور کبھی اپنے پاؤں کا اوپر والا حصہ بھی نظر نہیں آتا)
            پہلا اعتراض تو ختم ہوا کہ یہاں کشف کو محض ثانوی حیثیت دی جا رہی ہے، کبھی ہے اور کبھی نہیں، جس کا انحصار اللہ تعالیٰ کی عطا پر ہے اور اہل کشف خود اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتے۔
             روحانی بیعت کی بات چلی تو حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘چھوٹا بچہ ہو، وہ نکاح وغیرہ کیا سمجھے گا! جو مادر زاد اندھا ہو اسے کیا سمجھایا جا سکتا ہے جب صلاحیت ہی نہیں! میں کہتا ہوں میرے ساتھ چالیس دن رہے، مجاہدہ وہ کرے جو میں کروں، وہ رزقِ حلال کھائے جو میں کھلاؤں۔ چالیس روز بعد اس کا سوال رہ جائے تو وہ کامیاب،  میں ناکام۔’’
            اس کے بعد حضرت جؒی نے روحانی بیعت کے حق میں علمی دلائل بھی دیئے لیکن قاری صاحب کے لئے اب ان دلائل کی ضرورت نہ تھی۔ وہ صلاحیت والی بات خوب سمجھ چکے تھے جس کے بغیر انہیں اعتراض کا استحقاق نہ تھا۔اگریہ بات سمجھ لی جائے تو تصو ّف سے نابلد لوگ اس موضوع پر اعتراضات کو بازیچہ ٔ اطفال نہ بنائیں۔
            طریقہ ٔ ذکر پر بات ہوئی تو حضرت جؒی نے فرمایا :
‘‘میں کب کہتا ہوں اس طرح ذکر کرو، میں کہتا ہوں ذکر کرو۔ بدعت تب بنے گا جب میں کہوں ذکر اسی طرح کرو ورنہ ذکر نہ ہوگا۔ اس طریقہ ٔ ذکر میں سانس اور جسم کی حرکت تو ممد و معاون ہے جس طرح آٹا گوندھتے ہوئے جسم کی حرکت ایک فطری عمل ہے۔’’
            حضرت جؒی دیر تک اس موضوع پر بات کرتے رہے لیکن جب موضوع بدلا تو اس وقت تک       قاری صاحب کے دل کی حالت بھی تبدیل ہوچکی تھی۔
            دورانِ گفتگوحضرت جؒی نے قاضی جؒی کے ایک مکاشفہ کا ذکر کیا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ ایک بزرگ سبز لباس پہنے ہوئے حضورﷺ کی خدمت میں عرض گزار ہیں کہ انہیں اب جانے کی اجازت دی جائے۔ قاضی جؒی کا یہ مکاشفہ بیان کرنے کے بعد حضرت جؒی فرمانے لگے:
‘‘میں نے قاضی جؒی سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو ان کا جواب تھا کہ یہ اسلام ہے جو عرب سے نکلنے کی اجازت مانگ رہا ہے لیکن میں نے انہیں کہا، قاضی جی ایسا نہیں، اسلام تو عرب سے کب کا نکل چکا، اب پاکستان سے نکلنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔’’
 اس کے بعد حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘جب نظر اٹھاتا ہوں، ساری دنیا کو خالی پاتا ہوں۔ صرف پہاڑی علاقے کابل[3] کی طرف روشنی نظر آتی ہے ۔’’
            موضوع بدلا اور حضرت جؒی فرمانے لگے کہ متقدمین میں سے ایک بہت بڑے صوفی کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ معاً دل میں خیال آیا کہ بہت بڑے بزرگ ہوں گے لیکن برزخ میں خیال کیا تو معذَّب نظر آئے، بول بھی نہیں سکتے تھے۔ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضری کی اجازت مانگی اور عرض کیا کہ انہوں نے تو بہت کتابیں لکھی ہیں اور ہم ان کو بہت اللہ والاسمجھتے رہے ہیں لیکن ان کی یہ حالت! فرمایا گیا کہ ان سے پوچھو یہ حالت کیوں ہوئی؟ ادھر متوجہ ہوا تو وہ بہت نقاہت سے بولے:
‘‘ اپنے کشف پر بہت اعتماد تھا، جب فرشتہ آیا اور روح قبض کرنے لگا تو دو راستے سامنے آگئے، میں نے اپنے کشف پر اعتماد کرتے ہوئے ایک راستے پر چلنے کے لئے قدم اٹھایا تو تمام مقامات سلوک سلب ہو گئے کہ وہ راستہ غلط تھا۔ اگر اس راستے پر قدم رکھ دیتا تو ایمان بھی سلب ہو جاتا۔ تذبذب کی وجہ سے اب تک گرفتار ہوں۔ ’’
اس کے بعد حضرت جؒی فرمانے لگے:
‘‘میں نے حضورﷺ سے درخواست کی تو آپﷺ نے توقف فرمایا، پھر آپﷺ نے اس کی طرف ایک نظر کی تو عذاب اٹھ گیا۔ اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ خوب محنت کی اور انہیں فنا فی الرسولﷺ تک مراقبات کرائے۔ اس کے بعد پوچھا کہ آگے بھی چلاؤں توکہنے لگے کہ آپ کا بہت بڑا احسان ہے، آگے جانے کی میرے اندر سکت نہیں۔’’
            قاری صاحب کے اندر مولوی والی رگ پھڑک اٹھی۔ خیال آیا کہ یہ تو اپنی بڑائی کی بات کی جا رہی ہے۔ معاً حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘میں گناہگار، لَاشَے، دنیا میں سب سے گیا گزرا، کچھ بھی نہ تھا.........’’
            اور اس کے بعد حضرت جؒی بہت دیر تک اپنی عجز و انکساری کا اظہار کرتے رہے۔ اس اجتماع میں قاری محمد طیّب حضرت جؒی کے بالکل روبرو بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے اپنے الفاظ میں حالت یہ ہوئی :
‘‘جسم میں اس قدر حدّت محسوس ہونے لگی کہ دل چاہا تمام کپڑے پھاڑ ڈالوں۔’’
            قاری صاحب دل میں اعتراضات لے کر آئے تھے لیکن ظاہری بیعت کا موقع آیا تو وہ حضرت جؒی کے ہاتھ پر بیعت میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔
            مولانا ریاض احمد اشرفؒی، جو روزنامہ جنگ میں دینی مسائل کے جواب دیا کرتے تھے، 1980ء کے موسم سرما میں راولپنڈی کے احباب کے ہمراہ حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دورانِ سفر  احباب سے کہنے لگے کہ انہوں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ سے مسلسل بارہ سال ظاہری اور باطنی علوم حاصل کئے ہیں اور ان کی اکثر کتب کا مطالعہ کیا ہے لیکن چند ایسے اشکال ہیں کہ تلاش بسیار کے باوجود کوئی شخص نہیں ملا جو تشفّی کرا سکے۔ یہی ان کا حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری کا مقصد بھی تھا، چنانچہ احباب سے کہہ دیا کہ انہیں بیعت کے لئے نہ کہا جائے۔ قریباً سہ پہر کے وقت حضرت جؒی کے ہاں پہنچے تو آپؒ چند اہل علم احباب کے ساتھ علمی گفتگو فرما رہے تھے۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے مولانا اشرفؒی نے حضرت جؒی سے شریعت اور طریقت کے بارے میں رہنمائی کے لئے درخواست کی۔ حضرت جؒی فرمانے لگے:
‘‘شریعت نام ہے کل اور مجموعہ احکام کا۔ سارے کے سارے احکام شریعت ہیں خواہ ان کا تعلق امور باطنیہ سے ہو یا امور ظاہرہ سے ہو۔ علماء متقدمین اور تمام صوفیاء اس بات پر متفق ہیں کہ شریعت کا لفظ فقہ کے مترادف ہے کیونکہ امام اعظم ابوحنیفؒہ نے فقہ کی تعریف ہی یہ فرمائی ہے۔
مَعَرَفْۃُ النَّفْسٍ مَالَھَا وَمَا عَلَیْھَا
(نفس کی پہچان کہ اس کا نفع یا نقصان کس چیز میں ہے)
 اس لئے جملہ احکام ظاہری اور باطنی اس میں آگئے۔ متآخرین علماء نے احکام ظاہری پر فقہ کا اطلاق کر دیا اور جن امور کا تعلق باطن سے ہے ان پر تصوّف کا اطلاق کر دیا لیکن اسلام سے باہر کوئی چیز نہیں۔ یہی شریعت ہے اور یہی حقیقت ہے۔
            طریقت ان وسائل، ذرائع اور طریقہ کا نام ہے جن کے ذریعہ سے احکام ظاہری یا احکام باطنی حاصل کئے جائیں۔ مثلاً درس و تدریس، پڑھنا پڑھانا، تصنیف کرنا، تبلیغ کرنا، کسی سے پوچھ لینا، یہ سارے راستے اور ذرائع ہیں احکام شریعت تک پہنچنے کے جنہیں طریقت کہا جاتا ہے۔ طریقت کہتے ہی رستے کو ہیں یعنی اس راہ پر چل کر کسی چیز کو حاصل کرنا۔ انسان ہمیشہ کسی مقصد کے لئے حرکت کرتا ہے، اسی لئے باطنی امور یعنی تصوف میں لطائف و  مراقبات کئے جاتے ہیں۔
            اصل تصوف رضائے الٰہی کا نام ہے، اللہ کی رضا حاصل کی جائے، اللہ کی محبت حاصل کی جائے۔ اس کی رضا کس امر میں ہے اور وہ ناراض کس بات میں ہوتا ہے، اس کے مطابق عمل کیا جائے، اسی کو تصوّف کہتے ہیں۔ تصوّف اس کو نہیں کہتے کہ کوئی چیزیں دیکھ لے یا کشف ہو گیا، الہام ہو گیا تو آدمی یہ سمجھنے لگے کہ میں صوفی ہوگیا میں تو کوئی بڑی چیز بن گیا۔ نہیں بلکہ تصوّف کی حقیقت یہ ہے کہ رضائے الٰہی حاصل کی جائے۔ اللہ کی رضا اس کی عبادت اور حضرت محمدﷺ کی اتباع میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ
 وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ط وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ o
اگر آپ اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہیں تو میرا اتباع کریں اور یہی طریقت ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ اہلسنت کا مدار شریعت اور طریقت پر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منکرین تصوّف اہل سنت و الجماعت میں داخل نہیں۔ اہل سنت اور صوفیائے محققین نے تصوّف اورعقیدہ تصوّف کو کتاب و سنت سے وراثتاً پایا ہے اور یہی صوفیائے کرام کا اجتماعی مسلک ہے۔ اسلامی عقائد، فقہی جزئیات اعمال، اخلاق اور عبادات اسلام کا قالب ہیں مگر اس کا قلب اور روح اخلاص و احسان یعنی تصوّف ہے۔ مولوی علم ہے اور صوفی عمل ہے۔    مولوی قالب ہے صوفی قلب ہے۔ مولوی جو چیز خواب میں دیکھتا ہے صوفی عالم بیداری میں بذریعہ کشف دیکھتا ہے۔ اس لئے صوفی کو ایک طرح کی ملائکہ سے مشابہت ہے۔
            علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ظاہر شریعت پر عمل کر لینا کافی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ تزکیۂ باطن کے بغیر شریعت پر کماحقہ عمل ہو ہی نہیں سکتا۔عالم ظاہر بین نوربصیرت سے محروم ہے۔ یہ دولت انبیاء علیہم السلام کے ہاں سے صحیح ورثاء علمائے ربانیین اور صوفیائے کرام کو ملی مگر فی زمانہ سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ علم اٹھتا جا رہا ہے اور علماء ختم ہو رہے ہیں، خصوصاً فن تصوّف، اس کا علم تو بالکل ہی کمیاب ہو رہا ہے اور لوگ انکار میں مبتلا ہیں۔ کتاب اللہ کی ساری تعلیمات دنیا سے چھڑا کر متوجہ الی اللہ کرتی ہیں مگر بدنصیبی یہ ہے کہ اسی شے کا انکار کیا جا رہا ہے۔ اصل مصیبت یہ ہے کہ لوگوں سے یہ علم اٹھ گیا ہے اور جہالت کی بنا پر اس کا انکار کر دیتے ہیں۔
            اس انکار کرنے والوں کے مقابل ایک اور گرو ہ ہے جو ‘‘رنگ نما’’ اور رنگ فروش ہے۔ دعویٰ کرتے ہیں مگر افسوس کہ عملاً کچھ نہیں کر پاتے۔ رنگ ساز نہیں ہیں۔ عوام کا یہ حال ہے بیچارے رہبر اور رہزن میں تمیز سے عاری ہیں، یہ دوا فروش اور طبیب کے فرق کو نہیں جانتے اور مریض کے لئے معالج کے پاس جانے کے سوا چارہ نہیں اور آج کل تو تقریباً سارے ہی مریض دل کی مختلف بیماریوں کا شکار ہیں، اِلا ماشاء اللہ۔
   تصوّف میں تین مدارج ہیں: پہلا درجہ ذکر لسانی کا ہے۔ زبان سے ذکر کرے، اللہ اللہ کرے، سُبْحَانَ اللّٰہ، لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، درود و استغفار پڑھے، مختلف وظائف پڑھے، یہ ایسا درجہ ہے کہ جیسے ادویات کو کوٹا چھانا جاتا ہے، یہ استعمال کی تیاری ہے۔ اگر یہیں بس کر دے تو شفاء کا حصول محال ہے۔ اس سے آگے ذکر قلبی اور لطائف ہیں جو دوسرا درجہ ہے۔ جب لطائف کرنے لگا تو گویا دوا کا استعمال شروع ہوگیا۔ اب جیسے جیسے دوا کھاتا جائے گا اس میں صلاحیت آتی جائے گی اور جب صحت ہو گی تو چلے پھرے گا، گویا منازل سلوک میں سیر شروع ہو جائے گی۔ اس دوا کے ساتھ مضر اغذیہ سے پرہیز بھی حصول صحت کی شرائط میں سے ہے کہ جن گھروں میں اللہ کا ذکر ہو، انہیں غیر پسندیدہ چیزوں سے پاک رکھا جائے اور اتباع شریعت کے ساتھ اجتناب عن المعاصی کا اہتمام ہو۔ تخلیہ ہو، شوروغل سے ہٹ کر تمام تر توجہ اللہ کی طرف لگائے۔ آقائے نامدارﷺ تخلیہ کے لئے غارِ حرا تشریف لے جاتے تھے، سو یہ سنت انبیاء ہے۔ جہاں ذکر کیا جائے وہ جگہ پاک و صاف ہو۔ سیدنا موسیٰu کو جب شرف ہمکلامی سے نوازا گیا تو فرمایا گیا کہ آپ ایک پاک و صاف جگہ پر ہیں، جوتے اتار دیں۔ جس قدر انقطاع عن الدنیا حاصل ہوگا اسی قدر دل کی توجہ کامل ہوگی۔ یہی توجہ اور ذکر الٰہی دل سے انوار کے فوارے نکالیں گے۔  تجلیات باری تعالیٰ کا یہ آب مصفّٰی جو دل سے نکلے گا، صاف ستھرا اور خلائق دنیا سے خالی ہوگا۔ پھر اس کی برکات کا اندازہ نہیں، یہ ایک عالم کے دلوں کو دھو ڈالے گا اور جو بھی اس سے اپنا دل روشن کرنا چاہے گا یہ اسے بھی منور کرتا چلا جائے گا۔ انہی قلوب کی نگاہ کام کرے گی جو منور ہوں گے اور اسی کو اصطلاح میں کشف کہا جاتا ہے۔’’
            کشف کی بات ہوئی تو مولانا اشرفؒی نے سوال کیا کہ کیا کشف کافر کو بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ ہندو جوگی اس قسم کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘میری تحقیق یہ ہے کہ کشف کا تعلق نورِ ایمان سے ہے جسے یہ حاصل نہ ہو اس پر کشف کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ کشف سے مراد عالم بالا، ارواح اور فرشتوں کانظر آنا، عالم برزخ اور آخرت کے حقائق کو دیکھ لینا ہے یعنی کوئی ایسی چیز جو مشینی قوت سے دیکھی جاسکتی ہے، بغیر مشین کے دیکھ لینا، جیسے دوسرے شہروں کی خبر موسمی حالات وغیرہ۔ اس کے لئے اعمال صالحہ کی ضرورت ہے کہ نورِ ایمان یہ استعداد پیدا کرتا ہے اور اس میں کمالات اعمال صالحہ کی وجہ سے آتے ہیں۔ جیسے آنکھوں کے ڈیلے (Eye Balls) اپنے اندر ایک نور رکھتے ہیں جو نظر کا سبب ہے یا جیسے لاؤڈسپیکر کہ پس پردہ کوئی بولنے والا بھی ہے جو خود نہیں بول رہا، اس طرح محض قلب نہیں دیکھ سکتا بلکہ اعمال صالحہ کا نور، نورِ ایمانی سے مل کر قوت اور کمال کو پیدا کرتا ہے اور قلب کو بینائی عطا کرتا ہے اور کافر کے پاس نہ تو نورِ ایمانی ہے اور نہ اعمال کا نور۔ رہی بات ان لوگوں کی جو باوجود کافر ہونے کے بعض عجیب باتیں بیان کرتے ہیں تو یہ لوگ محض بھوک پیاس اور کڑی مشقّت سے جسم کو کمزور کرتے ہیں جس سے خون میں کمی آجاتی ہے اور دل میں سفیدی ہو جاتی ہے۔ اب اس میں وہ چیزیں جو دنیا میں دیکھے جانے کے قابل ہیں، دور سے بھی منعکس ہونے لگتی ہیں۔ خود آئینہ انہی اوصاف کا حامل ہے مگر شیشے میں جنات، فرشتے اور ارواح نہیں دیکھی جاسکتیں، عذاب و ثواب، قبر جنت و دوزخ نظر نہیں آسکتے۔ اسی طرح کوئی لطیف شے جس کا عکس نہ ہو نظر نہ آئے گی۔ یہی مثال کافر کے دل کی ہے کہ سفیدی تو پیدا ہو سکتی ہے، چمک تو آسکتی ہے مگر کسی لطیف شے کو نہیں دیکھ سکتی۔ لوگ اس چمک پر بھول گئے اور کہنے لگے کہ کافر کو بھی کشف ہوتا ہے لیکن یہ سب غلط ہے۔ اس کے لئے قلب سلیم کی ضرورت ہے اور قلب سلیم صرف مومن کا حصہ ہے۔
               ہمارے سلسلہ میں بفضلہٖ تعالیٰ سینکڑوں صاحب حال، صاحب کشف موجود ہیں جو ارواح اور ملائکہ سے کلام کی اہلیت رکھتے ہیں، جو عذاب و ثو اب اور برزخ کو دیکھ سکتے ہیں مگر اس سب کے لئے اتباع سنت اور اس دین کی ضرورت ہے جو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام] کو سکھایا کہ وہ دین کے امین اور ستون ہیں۔ انبیاء کے بعد جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور جہاں غروب ہوتا ہے وہاں تک کوئی صحابہ کرام]  کے رتبے کو نہیں پا سکتا۔’’
            دو ہی سوالوں کے جواب میں مولانا اشرفؒی کے اکثر اشکال رفع ہو گئے۔ آتے ہوئے ساتھیوں کو روک دیا تھا کہ انہیں بیعت کے لئے نہ کہیں لیکن اب خود ہی یہ موضوع چھیڑ دیا۔ بیعت کے بارے میں پہلے سوال کا تعلق ہمارے ہاں پائی جانے والی عمومی غلط فہمی سے تھا کہ پیر فوت ہو جائے تو سابقہ بیعت کسی اور جگہ بیعت کرنے سے مانع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر پیر فوت ہو جائے تو کیا دوسری جگہ بیعت جائز ہے۔ حضرت جؒی نے جواب دیا:
‘‘خدا کے بندو! پہلے اتنا غور کرو کہ بیعت بجائے خود مقصد نہیں بلکہ ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ مقصد صرف اللہ کی رضا ہے اور بیعت ذریعہ ہے تاکہ ایک کامل کی شاگردی اختیار کر کے یکسو ہو کر تعلیم حاصل کرتا رہے اور ترقی کرتا چلا جائے۔ اگر پیر کے فوت ہو جانے پر کوئی دوسرا استاد تلاش نہ کرے گا تو ظاہر ہے کہ اوّل تو اپنا نقصان کرے گا اور اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے پیش نظر رضائے الٰہی کا حصول نہیں بلکہ وہ شخصیت پرستی کا شکار ہے۔
            اگر ایمان عزیز ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا مقصود ہو تو معقولیت کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی معالج روحانی کو تلاش کرے کیونکہ روحانی طبیب کے بغیر صحت اور تزکیہ باطن اور تعلق مع اللہ پیدا ہونا محال ہے۔ اسلامی تصوّف و سلوک محض شجرہ خوانی، ٹوپی اوڑھنے، خرقہ پہننے، لمبی تسبیح ہاتھ میں رکھنے، عرس منانے، قوالی سننے، وجد اور ناچنے کودنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے حصول کے لئے اتباع شریعت لازمی ہے۔ اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ توحید کا عقیدہ دل میں راسخ ہو اور اتباع سنت نبویﷺ اس کامل درجہ کی ہو کہ اس میں بدعات کا مطلق دخل نہ ہو۔ شرک و بدعت کی ہوا بھی مانع فیض ہے۔’’
اگلا سوال یہ تھا کہ ذکر وا ذکار کے لئے کسی ولی کامل کی بیعت ضروری ہے تو حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘محض ذکر کے لئے کسی شیخ کی ضرورت نہیں، اذکار مسنونہ بہت ہیں، بے شک پڑھا کرے اور ذکر کیا کرے مگر حصول معرفت کے لئے طالب کو شیخ کی ضرورت ہے۔ منازل سلوک بغیر شیخ کی رہنمائی کے کوئی نہیں پا سکتا بلکہ یہ ضرورت ایسی ہے جیسے کسی اندھے کو رہنمائی کی۔ اس راہ میں بے شمار سخت گھاٹیاں ہیں جن میں سے کسی میں بھی گرنا سخت ہلاکت اور تباہی کا سبب ہے اور سالک خود تو اس راہ سے آشنا نہیں اس لئے ضروری ہے کہ کوئی اس راہ کو جاننے والا اس کی رہنمائی کرے اور نشیب و فراز سے بچاتا ہوا نکال لے جائے۔ شیخ کا اتباع کامل طو رپر کرے جیسے مردہ بدست زندہ، جیسے اندھا جو پہاڑ کی چوٹی پر چل رہا ہو وہ کبھی رہنما کے نقش قدم سے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس میں اس کی بربادی اور ہلاکت ہے۔ منازلِ سلوک میں انسان کتنی بھی بلندی پر چلا جائے، ربط شیخ ہی اس کی اساس و بنیاد ہے جیسے پتنگ کتنی بھی بلندی پر چلی جائے، ڈور اس کی ضرورت ہے۔ اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ اڑنے کی بجائے گرنا شروع ہو جائے گی اور بالآخر درختوں اور جھاڑیوں میں الجھ کر برباد ہو جائے گی۔ طالب کی مثال ایک بیمار کی سی ہے جو دوا اور غذا کے معاملہ میں ڈاکٹر کے تابع ہے۔ ڈاکٹر ہی جان سکتا ہے کہ اس کی دوا کیا ہے اور کس شے سے پرہیز اس کی صحت کے لئے ضروری ہے۔ اس مریض کی طرح جو صحت کی طلب میں تلخ دوائیں پیتا اور مرغوب غذاؤں سے پرہیز کرتا ہے، طالب کے لئے شیخ کی اطاعت ضروری ہے۔
            مگر مولانا! ہر کسی کو شیخ بھی نہیں بنایا جا سکتا، لوگ جہلاء کے پیچھے چل کر تباہ ہو رہے ہیں۔ یاد رکھیں! شیخ کے لئے عالم ہونا ضروری ہے۔ جاہل کی بیعت حرام ہے۔ ہاں، یہ ضروری ہے کہ مروجہ نصاب تعلیم پڑھا ہوا ہو۔ صحابہ کرام]  اور اکثر تابعین کتب پڑھے ہوئے نہ تھے بلکہ ارشادات نبویﷺ کے جاننے والے تھے۔ جو آپﷺ نے ارشاد فرمایا انہوں نے ازبر کر لیا۔ اسی طرح اگر کوئی اردو پڑھ کر ہی مسائل سیکھ لے یا سن کر ہی یاد کرلے، کوئی بھی صورت ہو ضروریات دین سے واقف ہونا ضروری ہے اور یہی مسلک اہل سنت والجماعت کا ہے۔ صرف عالم ہونا ہی شرط نہیں بلکہ عالم کے ساتھ         متبع شریعت بھی ہو۔ فرائض، واجبات اور سنت مطہرہ کا پابند ہو۔ اگر نوافل نہ پڑھتا ہو تو کم از کم فرائض و سنت کو ترک نہ کرتا ہو۔ اگرچہ نوافل ضروری نہیں مگر شیخ کو چاہیے کہ ضرور پڑھے کہ اس سے قلب کی نگہداشت بھی ہوتی ہے اور قرب الٰہی کا سبب بھی ہیں۔ سب سے ضروری ہے کہ فن سلوک کا ماہر بھی ہو۔ ممکن ہے کوئی طالب شیخ سے زیادہ متقی ہو مگر جس علم کا وہ طالب ہے اس میں شیخ کا ماہر ہونا ضروری ہے۔’’
            حضرت جؒی نے مولانا اشرفؒی کے سوالات کے سیرحاصل جوابات دیئے لیکن ایک سوال پر آپؒ نے محسوس کیا کہ اس میں اعتراض کا عنصر بھی شامل ہے۔ آپؒ نے جواب دینے کے بجائے اشرفی صاحؒب سے دریافت کیا:
‘‘آپ یہاں کیا مقصد لے کر آئے ہیں؟’’
انہوں نے فوراً عرض کیا:
‘‘حضرت! بیعت کے لئے حاضر ہوا ہوں۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘پھر بطور معترض سوال نہ کریں بلکہ بطور سائل اپنا شک رفع کریں۔’’
            مولانا اشرفؒی مقصد تو کچھ اور لے کر چکڑالہ آئے تھے لیکن شیخ کامل کی صحبت نے اپنا اثر کر دکھایا، دل کی حالت بدل گئی اور ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے عرض کیا، حضرت مجھے اپنے دست اقدس پر بیعت فرمائیں۔ حضرت جؒی نے نہایت شفقت سے ہاتھ بڑھاتے ہوئے مولانا کو سلسلۂ عالیہ میں بیعت کا شرف بخشا۔ اس کے بعد آپؒ نے فرمایا:
‘‘مولانا صاحب! میں کوئی گدی نشین پیر نہیں ہوں اور نہ ہی یہ لوگ میرے مرید ہیں۔ میں تو صرف استاد ہوں اور یہ سارے میرے شاگرد ہیں۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے بہت بڑی زمین دی ہے۔ اس میں گندم چنے وغیرہ اتنے ہو جاتے ہیں کہ ساتھی سارا سال آتے رہتے ہیں اور میرے گھر والے اور پڑوسی بچیاں کھانا تیار کرتی رہتی ہیں۔ ساتھی اگر کوئی کھانے وغیرہ کی چیز لے آئیں تو وہ بھی اس لنگر میں ڈال دی جاتی ہے ورنہ ساتھیوں کو سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ تحفے تحائف ہر گز نہ لائیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی۔ سامنے دیوار پر میری واسکٹ لٹک رہی ہے، جب بھی گھر والوں کو گھریلو استعمال کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اس میں سے نکال لیتے ہیں۔ یہ اللہ اللہ کرنے کی برکت ہے کہ روزی کی تنگی سے اللہ آزاد فرما دیتے ہیں۔’’
            مولانا صاحؒب نے واپسی پر بتایا کہ ان کے دل میں شک گزرا تھا کہ شاید ساتھی یا جنات واسکٹ کی جیپ میں کچھ ڈال دیتے ہوں لیکن ابھی یہ شک دل ہی میں تھا کہ حضرت فرمانے لگے:
‘‘اللہ کے رسولﷺ نے روزی کمانے کے چار معروف ذرائع بتائے ہیں، ان کے علاوہ روزی حاصل کرنا حرام ہے۔ یہاں تو عجیب بات ہے کہ ساتھی دور دراز سے آتے ہیں اور کبھی واپسی کا کرایہ بھی مانگ لیتے ہیں۔ ابھی کل ہی پشاور سے ایک ساتھی تشریف لائے، رات کو قیام کیا اور صبح جاتے وقت کہنے لگے، حضرت واپسی کا کرایہ میرے پاس نہیں ہے۔ یہ ساتھی آخر یہاں گاؤں والوں سے تو نہیں مانگ سکتے، یہ ان کا اپنا گھر ہے۔ یہاں پر الْحَمْدُ لِلّٰه کھانا پکانے والی تمام عورتوں کیلئے سختی سے پابندی ہے کہ باوضو ہو کر کھانا تیار کریں۔ یہاں کسی امیر غریب میں کوئی امتیاز نہیں ہے، تمام ساتھی برابر ہیں۔’’
          مجلس برخواست ہوئی تو حضرت جؒی نے مکھڈی حلوہ سے تواضع فرمائی۔ رخصت فرماتے ہوئے حضرت جؒی نے احباب کو تلقین فرمائی:
‘‘اپنے پیٹ کو لقمہ حرام سے بچائیں، اپنے گھر والوں کو پاکی ناپاکی کے مسائل سے ضرور آگاہ فرمائیں اور اپنے اہل خانہ کو بھی ذکر اذکار کی محفل میں ضرور شریک کریں اور دوزخ کی آگ سے بچائیں۔ عورتیں عموماً طہارت کے مسائل سے ناآشنا ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھوں کی پکی ہوئی غذا کے اثرات اولاد پر پڑتے ہیں۔ عمل مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن خلوص دل سے ادا کریں تو اس کا اجر ضرور نصیب ہوتا ہے۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے اور نیتوں کی صفائی کے لئے ذکر کی محفل کو لازم پکڑو۔’’
            واپسی پر مولانا ریاض احمد اشرؒفی کہنے لگے، آئے تو تھے خریدنے لیکن اب خود ہی بک چکے ہیں۔ جسم تو واپس جا رہا ہے لیکن دل حضرت صاحب کے پاس ہی چھوڑ چلے ہیں۔ اب ہم آخری عمر میں پہنچ چکے ہیں اور اللہ نے کرم فرمایا جو اپنی منزل پہ پہنچا دیا۔
  چکڑالہ کے ماہانہ اجتماع میں حضرت جؒی کی خدمت میں آئندہ ماہ کے پروگرام منظوری کے لئے پیش کئے   جاتے۔ ایک مرتبہ ایک اشتہار کا تذکرہ ہوا جس میں آپؒ کی زیرِ صدارت ایک جلسہ کا پروگرام دیا گیا تھا۔ حضرت جؒی کے نام کے ساتھ کسی نے اپنی دانست کے مطابق ‘‘غوثِ زماں، قطب ِ دوراں’’ وغیرہ بطور القاب لکھ دیئے تھے۔ حضرت جؒی نے سنا تو مسکراتے ہوئے فرمایا:
‘‘ غوث اور قطب تو اس وقت میرے قدموں میں بیٹھے ہیں۔’’
            راقم نے ارد گرد نگاہ ڈالی تو یہی صورتحال نظر آئی۔
            ان روح پرور اجتماعات کے اختتام پر نئے آنے والے احباب حضرت جؒی کے ہاتھ پر ظاہری بیعت کرتے جس کے بعد اجتماع اختتام پذیر ہوتا۔ حضرت جؒی کے ساتھ چند ساعتیں گزارنے کے لئے احباب سینکڑوں میل کا سفر کرتے۔ آپؒ کی ہدایت تھی کہ دورانِ سفر ہوٹل کے کھانوں سے اجتناب کیا جائے کیونکہ بازاری اشیاء، ناپاک برتن، مشکوک ذبیحہ اور بے نمازی کھانا پکانے والوں کی نحوست کے اثرات اس سفر کی برکات سے محرومی کا ذریعہ بن سکتے تھے۔ احباب گھر سے کھانا پکا کر ساتھ لاتے یا راستے میں پھل وغیرہ پر گزارا کرتے۔
            ایک مرتبہ چند نئے ساتھیوں کی وجہ سے راستے کے ایک ہوٹل میں کھانے کے لئے رک گئے۔ یہ محرم کا پہلا عشرہ تھا۔ کھانے کے دوران ٹیپ ریکارڈر آن ہوا تو ہوٹل والوں کے عقائد کا پول کھل گیا۔ نحوست کے اثرات اس صورت ظہور میں آئے کہ حضرت جؒی کے گھر میں رات گزارنے کے باوجود تہجد کے لئے ایک بھی ساتھی بیدار نہ ہو سکا اور بمشکل طلوع آفتاب سے کچھ دیر قبل نماز ِفجر ادا کی۔ یہ چکڑالہ میں حضرت جؒی کی خدمت میں اپنی نوعیت کی انوکھی حاضری تھی جس میں تہجد نصیب ہو سکی نہ اجتماعی ذکر۔ اسی وجہ سے سالک کے لئے ضروری ہے کہ خوراک کے معاملے میں انتہائی احتیاط برتے اور صرف رزقِ حلال ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ طیّب رزق کا بھی اہتمام کرے۔
            چکڑالہ کے ان اجتماعات میں حضرت جؒی کی صحبت میں چند ساعتوں کی قدر و منزلت کا اندازہ صرف وہی شخص لگا سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نگاہ ِباطن سے نوازا ہو۔ اس حاضری کے لئے دور دراز کے شہروں سے چکڑالہ کا طویل اور دشوار سفربظاہر دیوانگی نظر آتا ہے لیکن حقیقت کا ادراک نصیب ہو تو اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی صحبتِ شیخ کی چند ساعتیں عمربھر کا اثاثہ نظر آتی ہیں۔
یک زمانہ صحبتِ با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بےریا




[1]۔ اس ذیلی عنوان پر احباب کی رائے تھی کی سورۃ القصص میں ‘‘خیرفقیر’’ کا استعمال جن حالات میں کیا گیا ہے، حضرت امیرالمکرم کے حالات ان سے میل نہیں کھاتے۔ اس ضمن میں جو متبادل عنوان سامنے آئے ان میں سے کوئی بھی دل کو نہ لگا۔خود کو ‘‘فقیر’’ کہلانا مشائخ رحمۃ اللہ علیہم کو بہت محبوب تھا۔ حضرت جؒی اپنے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :
‘‘بحمدللہ کہ اس فقیر کو اب بھی حضورﷺ کی روح پرفتوح سے فیض حاصل ہو رہا ہے۔ (دلائل السلوک صفحہ 287، ایڈیشن 1995ء)’’
                    حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ ہمیشہ اپنے نام سے پہلے ‘‘فقیر’’ تحریر فرماتے۔ اسی طرح حضرت امیرالمکرم دستخط کرتے ہوئے اکثر اپنے نام سے پہلے ‘‘فقیر’’ تحریر فرماتے اور شاعری میں ‘‘سیماب’’ کے علاوہ آپ کا تخلص ‘‘فقیر’’ بھی ہے۔
[2]ـ مولوی سلیمان کی سلسلۂ عالیہ سے علیحدگی اور پھر حضرت جؒی ہی کے زمانے میں وصال کو دیکھتے ہوئے یہاں ‘‘بشرطِ زندگی’’ کے الفاظ بہت معنی خیز نظر آتے ہیں، جبکہ 1983 ء میں حضرت امیرالمکرم کو یہ مقام سونپا گیا تو اللہ تعالیٰ کی شان، اس وقت آپؒ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا نہ ہوئے۔
[3]ـ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں روس کی شکست اور خلافت کا قیام کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو