ANTI-ADBLOCK JS SYNC ردِّ پرویزیت ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

ردِّ پرویزیت

ردِّ پرویزیت

            1966ء میں حکومتی سرپرستی کے زیرِاثر فتنہ ٔ پرویزیت خوب زوروں پر تھا۔ اس مکتبہ ٔ فکر نے نماز اور قرآن کے بارے میں یہ گستاخانہ شوشہ چھوڑا کہ قرآن پاک عربی میں پڑھنے کی بجائے اپنی زبان میں پڑھیں تاکہ مفہوم سمجھ میں آسکے۔ اس مذموم نظریہ کے فروغ کے لئے ‘‘نورانی قرآن’’ کے نام سے عربی متن کے بغیر ترجمہ کے نسخے ملک بھر میں پھیلائے جا رہے تھے۔ حضرت جؒی کے نام ایک خط میں حافظ غلام قادری نے اس فتنہ کا تذکرہ کیا تو آپؒ نے خط کا جواب اس حالت میں تحریر فرمایا کہ گھر میں والدہ ماجدہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا لیکن گوارا نہ کیا کہ جواب میں ایک روز بھی تساہل ہو۔
            حضرت جؒی کا تحریر کردہ یہ مکتوب ملاحظہ ہو جس میں علمی دلائل کے ساتھ ساتھ حمیت ِدینی اور عشق کی حد تک فریضہ ٔ  اقامت ِدین کی بجاآوری کی تڑپ نظر آتی ہے۔
‘‘بیماری کی وجہ سے کمزوری بھی ہے اور والدہ صاحبہ آج رات فوت ہو گئیں ان کی میت کو غسل نہیں دیا گیا مگر غیرتِ قرآنی سے بیٹھاجواب لکھ رہا ہوں۔
مسئلہ: قرآن مجید کے وہ تراجم جو کہ صرف اردو یا انگریزی میں شائع ہو رہے ہیں، اس کو قرآن نہ کہا جائے۔ ذرائع اوروسائل حکمِ مقاصد میں داخل ہوتے ہیں۔ علمائے دیوبند نے مدت سے یہ فتویٰ دیا ہے۔ حضرت مولانا تھانویؒ نے تو ایک مستقل تحریر میں جو نومبر1965ء  میں ‘‘الابقاء ’’ میں شائع ہوئی، ان تراجم کا خریدنا حرام فرمایا۔
            اب ذرا سنو! قرآن و حدیث میں فرق الفاظ سے ہے۔ قرآن کے الفاظ اور معانی خدا کی طرف سے پیغمبرﷺ پر نازل ہوئے۔ الفاظِ حدیث میں اختلاف ہے کہ آیا الفاظِ حدیث رسول اکرمﷺ سے ہیں یا کہ جبرائیلu کے ہیں۔ جس طرح قرآن قلبِ رسولﷺ پر نازل ہوا، اسی طرح حدیث بھی قلب رسولﷺ پر اتاری گئی جس کو قرآن نے حکمت سے تعبیر فرمایا ہے۔
قال اللہ تعالیٰ:
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ آيٰاتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ ط
ترجمہ: اس چیز کو یاد رکھو جو گھروںمیں پڑھی جاتی ہیں خدا کی آیات اور حکمت سے۔
            معلوم ہوا حکمت وہ چیز ہے جو تلاوت کی جاتی ہے۔ اللہ کی آیات کے علاوہ چونکہ الفاظِ حدیث خدا کی طرف سے نہیں اس لئے حدیث پڑھنے سے نماز جائز نہ ہوگی۔ کیونکہ حدیث وحی متلو، وحی مقرو نہیں بلکہ وحی غیر مقرو اور غیر متلو ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید کو وحی جلی و وحی مقرو اور متلو سے تعبیر کیا جاتاہے اور حدیث شریف کو وحی خفی و وحی سری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اب ان سے پوچھو! یہ اردو کے الفاظ قرآن سے تعبیر کئے جاتے ہیں تو کیا ان سے نماز درست ہو گی؟
            خوب جان لو! قرآن کو مُحَرَّف اور غیر مُعبَّر بنانے کا یہی طریقہ ملحدین نے سوچا ہے۔ یہ انگریز کی چال تھی۔ جس وقت الفاظ اُڑ گئے، اردو یا انگریزی ترجمہ رہ گیا تو ترجمہ میں جس کا جی چاہے اپنی من مانی بات داخل کر سکے گا۔ کون کہے کہ یہ ترجمہ غلط ہے جبکہ     الفاظِ قرآن تو موجود ہی نہیں ہیں۔ صحت متکلم کی، مُعَرَّف تو قرآن پاک کے الفاظ میں تھی، جو اٹھ چکا ہے۔ العیاذ باللہ!
            تورات، انجیل اور زبور کی تباہی و بربادی اور ان کے حاملین کو قرآن کریم نے گدھے سے تعبیر فرمایا ہے۔ وجہ یہی تھی کہ اصل الفاظ تورات، انجیل، زبور وغیرہ آسمانی کتب کے عبرانی یا سریانی میں تھے وہ اڑ گئے۔ جب اصل کتبِ سماوی دنیا سے نابود ہو گئیں تو ان میں جو دین تھا وہ بھی نابود ہو گیا۔
خوب سمجھ لو! خدا تعالیٰ جو متکلم الفاظِ قرآنی ہے، اس کی ہیبت، عزت، عظمت اور رعب تمام قرآنی الفاظ میں ہے۔ قاری کے دل و دماغ اور بدن پر جو ہیبت طاری ہوتی ہے اور جو عزت و عظمت ِ باری تعالیٰ تمام بدن پر چھا جاتی ہے وہ تو صرف الفاظِ قرآن میں بند ہے۔ ان الفاظ کا ترجمہ خواہ کسی زبان میں کردو، یہ چیز ہر گز حاصل نہ ہوگی۔ قرأتِ قرآن سے مقصود عظمت و عزتِ معبود ہے کہ دل میں پیدا کی جائے۔ وہ تمام دنیا کی زبانوں میں مفقود ہے۔ اب آگے خیال کرنا۔
            حدیث شریف میں حضرت ابن عباسt سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے ایک حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، پھر فرمایا          ابن عباسt نے کہ ایک حرف نہیں بلکہ تین حرف ہیں۔ گویا میں تیس نیکیاں ہیں۔یہ الفاظِ قرآنی میں اثر ہے، اردو ترجمہ میں کہاں؟
            نیز جماعت صوفیاء فرماتی ہے کہ الفاظِ قرآنی کی قرأت سے جو انوار پیدا ہوتے ہیں وہ قلوب کو منور کرتے ہیں۔ آئندہ خود مراقبہ کر کے دیکھ لینا۔ انوارِ قدیم کا نزول شروع ہو گا۔ یہی تو بڑا ہتھیار ہے جو ہمارے رب نے عطا فرمایا ہے۔ محدثین ایک حدیث کو موضوع کہتے ہیں اور صوفیاء صحیح کہہ دیتے ہیں اور صوفیاء موضوع کہہ دیتے ہیں اور علماء ظواہر صحیح کہہ دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حدیث میں حضور اکرمﷺ  کے انوار ہوتے ہیں۔ جب حدیث پڑھی جاتی ہے تو الفاظِ حدیث سے سبز انوار کی روشنی معلوم ہوتی ہے اور موضوع حدیث پڑھی جائے تو انوار کی بجائے ظلمت ہوتی ہے۔
            صوفیاء کی صحت سقم انوار کے مشاہدے اور علماء کی جرح و تعدیل، اسماء الرجال پر ہے۔ گو کشف قطعی نہیں مگر جرح و تعدیل محدثین بھی ملتی ہے۔ ان انوار کا اقرار خود محدثین کو بھی کرنا پڑا ہے۔ مقّربین محدّثین کو، جیسا کہ فتح العلم شرح صحیح مسلم صفحہ (120-140) پر بیان ہے۔
            والدہ کے غسل کی تیاری ہوئی، آدمی آگئے، بس کرتا ہوں۔
                                                                  والسلام
                                                            ناچیز: اللہ یار خان

وہ عظیم ہستی
            حضرت جؒی کی والدہ ماجدہ کا مختصراً ذکر ابتدائی ابواب میں گزرا ہے۔ یہاں یہ تذکرہ حصولِ سعادت کے لئے ہے۔ حضرت جؒی کی والدہ ماجدہ کا نام عالم خاتون تھا۔ بچپن میں والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو انہوں نے کھیتی باڑی اور گھریلو ذمہ داریوں سے بخوبی عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت جؒی کی تربیت پر بھرپور توجہ دی۔ بیوگی کے مشکل دن گزارتے ہوئے یہ امید رہی کہ بیٹا بڑا ہو کر سہارا بنے گا لیکن جب یہ وقت آیا تو حضرت جؒی نے ملازمت چھوڑ دی اور تحصیلِ علم کے لئے رخصت مانگی۔ والدہ ماجدہ کے لئے نہ صرف زمینوں کی دیکھ بھال اور گھریلو ذمہ داریوں کا بار انتہائی گراں تھا، بلکہ محبوب بیٹے کی جدائی بھی مزید صدمہ کا باعث تھی لیکن انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے آپؒ کو بصد شوق دشت ِ علم کی سیّاحی کے لئے روانہ کیا۔ کئی سال بعد حضرت جؒی واپس لوٹے تو آپؒ کی شادی ہوئی۔ یہ خوشیاں دیکھنے کا زمانہ تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اہلیہ محترمہ کا وصال ہو گیا۔ اس مرتبہ حضرت جؒی نے حصولِ طریقت کے لئے رخصت مانگی تو اس عظیم ہستی نے حضرت جؒی کے کم سن بچوں کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی اور آپؒ کو بخوشی رخصت کیا۔ حضرت جؒی نے سالہا سال لنگر مخدوم میں قیام فرمایا لیکن یہ والدہ ماجدہ کی قربانیاں تھیں کہ آپؒ گھریلو تفکرات سے آزاد رہے۔ ان عظیم ماؤں کو سلام جو کبھی کم سن عبدالقادر (شیخ عبدالقادر جیلانیؒ) کو دین کی راہ میں خوشی خوشی رخصت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں تو کبھی حضرت جؒی کی عظیم والدہ کی صورت بڑھاپے میں اپنے کندھوں پر گراں بار ذمہ داریاں سنبھالے نظر آتی ہیں تاکہ بیٹوں کی تربیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ ان عظیم ماؤں پر اپنی ان گنت اور کبھی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا نزول فرماتے ہوئے ہر ساعت بلندیٔ درجات عطا فرمائے۔ آمین۔
          2 دسمبر 1966ء کو حضرت جؒی کی عظیم والدہ کا جنازہ گھر میں پڑا تھا لیکن آپؒ قرآن کے خلاف پرویزی فتنہ پر گرفت فرما رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اُس روز بھی یہ عظیم خاتون آپؒ کے راستے کی رکاوٹ نہیں، بلکہ باعث ِ تقویت تھیں۔ محبوب والدہ کی میت تدفین سے قبل گھر میں رکھی ہے، تعزیت کے لئے آنے والوں کا ہجوم ہے، اعزہ و اقارب کا گِریہ الگ ہے، لیکن باطل کی بیخ کنی میں ذرہ بھر تاخیر بھی گوارا نہیں فرمائی۔
            حضرت جؒی فتنۂ پرویزیت کو خوب سمجھتے تھے جس کے تانے بانے ماضی کے فرقِ باطلہ سے جا ملتے ہیں۔ آپؒ نے جب کبھی پرویزیت پر گرفت فرمائی، دلائل کے ساتھ ساتھ لہجہ میں سخت گیری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ 1968ء میں حضرت جؒی نے چند روز رسالپور میں قیام فرمایا تو آپؒ کے شاگرد رشید کیپٹن غوث نے اپنے  بڑے بھائی قاری دوست محمدکو ٹیلی گرام بھیجی کہ فوراً رسالپور پہنچیں۔ یہ صاحب عالمِ دین ہونے کے باوجود پرویزیت کا شکار ہوگئے اور ایک وقت آیا کہ غلام احمدپرویز کے نائبین میں شمار ہونے لگے۔ جب معلوم ہوا کہ حضرت جؒی سے ملاقات مقصود ہے تو سخت ناراض ہوئے کہ خواہ مخواہ میرا وقت ضائع کیا،بھلایہ میرے سوالات کا جواب کیوں کر دے سکیں گے۔
            عصر کے بعد حضرت جؒی کی محفل شروع ہوئی تو آپؒ دوران گفتگو  از خود فرمانے لگے:
‘‘دین وہ جو رسول اللہﷺ لے کر آئے۔ بعد میں لوگوں نے مفہوم بدل دیا۔ اب دیکھیں،صحابہ کرام] ، جن کی مادری زبان عربی تھی،وہ قرآن کامطلب آپﷺ سے پوچھتے۔ اب چودہ سو سال بعد گڑھی شاہو لاہورکاایک آدمی کہتاہے کہ قرآن سمجھاتو میں نے سمجھا اور چودہ سو سال میں کوئی اور نہیں سمجھ سکا۔ آج اس کی بات مانیں یا رسول اللہﷺکی ۔’’
            حضرت جؒی نے یہ الفاظ اس قدر جلال سے فرمائے کہ سیدھے کیپٹن غوث کے بھائی کے دل میں اتر گئے۔ ضبط نہ کر سکا اور پکار اٹھا:
            ‘‘پرویز جھوٹاہے۔’’
            محفل ختم ہوئی تو اُن صاحب سے پوچھا گیاکہ آپ کے پاس تو مسئلہ جبر وقدر سمیت آٹھ سوالات کی فہرست تھی جس کے متعلق دعویٰ تھا کہ کوئی بھی ان کا جواب نہ دے سکے گا لیکن حضرت جؒی سے یہ سوالات کیوں نہیں کئے؟ کہنے لگے:
‘‘چھوڑو یا ر ! مذہب ہی جھوٹا نکلا، سوال کیاپوچھتا۔’’
            مغرب کے بعد ذکر شروع ہوا اور حسب ِمعمول لائٹ آف کردی گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد یکدم شور مچا،دیوار گر گئی! دیوار گر گئی! یہ شور مچانے والے یہی صاحب تھے جن کے دل میں کچھ ہی دیر پہلے پرو یزیت کا بت ٹوٹا تھا۔دورانِ ذکر انہوں نے سمجھا کہ دائیں طرف والی دیوار گر گئی ہے اور باہر سے تیز روشنی نظر آنے لگی ہے۔ آنکھیں کھولیں تو دیوار بھی موجود تھی اور لائٹ بھی بدستور آف تھی۔ دراصل یہ حضرت جؒی کی توجہ کے طفیل انوارات کی تیز بوچھاڑ تھی۔ دائیں طرف اچانک روشنی دیکھ کر انہوں نے سمجھا کہ دیوارگر گئی ہے اور باہر سے روشنی آرہی ہے۔
            1973ء میں غلام احمد پرویز کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں اس نے تصو ّف کے حوالے سے اپنے ناکام تجربہ کا ذکر کیا تھا۔ حضرت جؒی کے ایماء پر حضرت امیر المکرم نے اسے تصوّف کے ذریعے اصلاحِ احوال کی دعوت دی۔ اس نے حضرت امیرالمکرم کے نام 3 ستمبر 1973ء کے ایک خط کے ذریعے جواب دیا کہ جب اس کی زندگی میں شکوک و شبہات کا دور آیا تو سابقہ خیالات و اعتقادات (تصوف کے بارے میں) سب ختم ہو گئے۔ گویا اصلاحِ احوال کے اس ذریعہ کا بھی منکر ہوا لیکن اتمام ِحجت کا حق ادا ہو گیا۔


Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو