ANTI-ADBLOCK JS SYNC تصانیف ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

تصانیف

تصانیف

            حضرت جؒی کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہی کہ مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح کیونکر ہو؟ اس کے لئے جہاں آپؒ نے مناظروں کے میدان میں بے مثل جدوجہد فرمائی، اس کے ساتھ ساتھ اصلاح ِعقائد کے لئے شعبۂ  تصنیف میں بھی عہد ساز خدمات سرانجام دیں۔
            1956ء تک آپؒ کی تصانیف‘ایمان باالقرآن’، ‘ایجاد ِمذہب ِشیعہ’، ‘شکست اعدائے حسینt اور‘‘ دامادِ علیt’’  شائع ہو چکی تھیں۔ اسی سال آپؒ کی تصنیف ‘‘مسئلہ امامت’’ منظر ِعام پر آئی۔         مولوی اسماعیل گوجروی کی کتاب ‘‘براہین ماتم’’ کے جواب میں ‘‘حرَمت ِماتم’’ اور ملا علی نقوی لکھنوی کی کتاب ‘‘متعہ اور اسلام’’ کے جواب میں آپؒ نے ‘‘تحقیق حلال و حرام’’ کے عنوان سے جامع رسائل تحریر کئے۔
            1957ء میں آپؒ کی تصانیف ‘‘اعتقادات ِشیعہ’’ اور ‘‘الجمال و الکمال بوضع الیمین علی الشمال’’ شائع ہوئیں۔ آپؒ نے جب اس دور کے مشہور علمی اورتحقیقی رسالہ ‘‘الفاروق’’ کی ادارت سنبھالی تو ان موضوعات پر اس رسالے میں آپؒ کے گراں قدر مضامین بھی شائع ہوئے۔یہ وہ دور ہے جس میں حضرت جؒی کی زیادہ تر توجہ عقائد باطلہ کے خلاف جہاد پر مرکوز تھی اور یہی آپؒ کی ان تصانیف کا مرکزی مضمون بھی تھا۔
          1960ء کی دہائی میں حضرت جؒی کی توجہ ترویج ِسلسلہ ٔعالیہ کی طرف مرکوز ہوئی تو ذکر و فکر کے ساتھ ساتھ تحریر کو بھی آپؒ نے عمومی دعوت کا ذریعہ بنایا۔ 1964ء میں آپؒ کی معرکہ آرا تصنیف             ‘‘دلائل السلوک’’ شائع ہوئی جو اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ علمی مباحث کے ساتھ ساتھ یہ کتاب عام فہم ہے جس سے ہر شخص بخوبی استفادہ کر سکتا ہے۔ اس کتاب کو سلسلہ ٔعالیہ کی ترویج میں سنگ ِمیل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس لئے اس کا تفصیلی ذکر ایک الگ باب کی صورت میں کیا جا چکا ہے۔جنوری 1977ء میں ‘‘دلائل السلوک’’ کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا اور اب اس کا پشتو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔‘‘دلائل السلوک’’  کا موجودہ ایڈیشن حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کی شر ح کے ساتھ انتہائی آسان فہم بنا دیا گیا ہے۔
            1970ء میں حضرت جؒی فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے گئے تو واپسی پر تصو ّف و سلوک کے موضوع پر آپؒ کی دوسری اہم کتاب ‘‘اسرار الحرمین’’ شائع ہوئی۔ یہ کتاب احوال باطن سے متعلقہ اسرار و رموز کا خلاصہ ہے جو نفس ِمضمون کے اعتبار سے شاہ ولی اللہؒ کی اسی موضوع پر کسی بھی تحریر سے کم نہیں۔ حضرت جؒی نے اس کتاب میں مناصب اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین، امورِ باطنیہ اور مناقب اولیاء اللہ کے تذکرہ کے ساتھ اولیائے کرام کی مخالفت کےانجام سے بھی خبردار کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں مبشرات کے عنوان کے تحت اسرار و رموز پر مشتمل حضرت جؒی کے مشاہدات اور آقائے نامدارﷺ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراr اور صحابہ کرام]  سے روحانی کلام کا کچھ حصہ نقل کیا گیا ہے۔ ‘‘اسرار الحرمین’’ جہاں کیفیات کا خزینہ ہے، اس کی جامعیت اہل ِنظر کو تحقیق کی دعوت بھی دیتی ہے۔ اس میں مضامین کا وہ بحر ِبیکراں پنہاں ہے جس پر دفاتر رقم کئے جا سکتے ہیں۔
            1970ء کے بعد اگرچہ آپؒ کی مناظرانہ سرگرمیاں ختم ہو چکی تھیں لیکن آپؒ نے محسوس کیا کہ اس میدان میں تحریر کی صورت میں علماء کی معاونت کی ضرورت ہے۔ آپؒ اکثر فرمایا کرتے:
‘‘علماء کے ہاں اب تحقیق کا عمل مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ وہ مآخذ کا براہ راست مطالعہ نہیں کرتے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ان کی رہنمائی کے لئے تحریری شکل میں اس قدر حوالہ جات اکٹھے کر دیئے جائیں کہ وہ مآخذ کتب کے مطالعہ کے بغیر معترضین کا جواب دے سکیں۔’’
            چنانچہ حضرت جؒی نے اپنی مبارک زندگی کے آخری دَور میں ‘‘تحذیر المسلمین عن کیدالکاذبین’’ ‘‘الدِین الخالص’’ اور ‘‘ایمان بالقرآن’’ جیسی معرکہ آرا کتب تصنیف فرمائیں جن میں وہ مضامین بھی شامل کر دیئے گئے جو رسالہ ‘‘الفاروق’’ میں شائع ہوئے تھے۔اپریل 1979ء میں ‘‘الدین الخالص’’ شائع ہوئی جبکہ اسی سال اکتوبر میں ‘‘تحذیر المسلمین عن کیدالکاذبین’’ شائع ہوئی۔ 1979ء میں ملکی سطح پر نفاذ ِشریعت کے حوالے سے ایک مہم کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر آپؒ کی تصنیف ‘‘نفاذ ِشریعت’’ نے جو بوجوہ امان اللہ لک کے نام سے شائع ہوئی تھی، عمائدین مملکت اور قانون دان حضرات کی رہنمائی کی جس کا تذکرہ ایک الگ باب کی صورت میں کیا جا چکا ہے۔ اس کتاب میں عشر و زکوٰة کے موضوع پر بات نہ ہوئی تھی۔ یہ کمی پوری کرنے کے لئے امان اللہ لک نے ‘‘نفاذ عشر و زکوٰة میں ایک تاریخی غلطی’’ کے نام سے ایک پمفلٹ حضرت جؒی کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کیا۔ آپؒ نے مکمل پمفلٹ سنا اور اس کی توثیق فرمائی۔ اب یہ پمفلٹ اصل کتاب کا حصہ بن چکا ہے۔ 1980-81ء میں آپؒ کے رسائل‘‘مناظرہ بغداد کا جواب’’ اور        ‘‘بناتِ رسولﷺ’’  شائع ہوئے۔
             مذاہب ِباطلہ کی تحقیق کے لئے سابقہ دور کی تصانیف اپنے دقیق علمی اسلوب کے باعث عوام الناس کی سمجھ سے بالا ہیں۔ اس کے برعکس اس موضوع پر حضرت جؒی کی تصانیف تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین،  الدین الخالص، ایمان بالقرآن، نفاذ شریعت، تفسیر آیات اربعہ، بنات رسولﷺ، عقیدہ امامت اور اس کی حقیقت وغیرہ  نہ صرف موجودہ دور کی ضرورت کے مطابق عام فہم ہیں بلکہ ان موضوعات پرمستقبل کے لئے دائمی کتب ِ حوالہ جات Reference Books کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ حضرت جؒی کا ارشاد ہے:
‘‘ ان کتب کے مطالعہ کے بعد ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص عقائد کی گمراہی کا شکار ہو جائے، ہاں جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے!’’
            اواخر 1978ء میں ایک تجویز پیش ہوئی کہ سلسلۂ عالیہ کا ایک ماہنامہ ہونا چاہیئے جو متوسلین کے مابین رابطے کا ذریعہ ہو۔ ڈیکلریشین وغیرہ کی ضروری کارروائی کے بعد دسمبر 1979ء میں ‘‘المرشد’’  کا پہلا شمارہ طبع ہوا۔ رسالہ کی تمام ذمہ داری ادارت سے ترسیل تک حافظ عبدالرزاقؒ کے ذمہ تھی۔ 1980ء میں انہیں     لیبر کورٹ کی طرف سے ایک نوٹس ملا کہ اس رسالے کے لئے کام کرنے والے سٹاف کے کوائف دیئے جائیں کہ انہیں کس مشاہرہ پر ملازم رکھا گیا ہے، اوقاتِ کار کیا ہیں اور سال میں تعطیلات کس قدر ملتی ہیں۔         حافظ صاحبؒ نے جب عدالت کو بتایا کہ ایڈیٹر سے لے کر پروف ریڈر، اکاؤنٹنٹ اور ڈسپیچر تک تمام کام وہ خود کر رہے ہیں، تنخواہ نہ چھٹی تو عدالت کے لئے یہ باور کرنا مشکل تھا کہ اتنا مستحکم رسالہ سٹاف کے بغیر کس طرح چل رہا ہے! بالآخر اعتراف کرنا پڑا کہ مقصد کی لگن اور جذبہ سلامت ہو تو کوئی کام بھی مشکل نہیں۔ اس طرح سلسلۂ عالیہ کا رسالہ ‘‘المرشد’’ حضرت جؒی کے افکار ِزرّیں کو احباب تک پہنچانے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوا۔
            آخری دور میں حضرت جؒی نے عقائد کی دنیا میں اٹھتے ہوئے ایک خطرناک فتنہ کی بیخ کنی کے لئے تحریری جہاد کیا۔ حیاتُ النبیﷺ سے انکار کا یہ فتنہ آقائے نامدارﷺ اور عصر حاضر کے درمیان اس قدر بُعد پیدا کردیتا ہے جس کے بعد ایمان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ حضرت جؒی نے اس دور میں لاتعداد خوش قسمت ساتھیوں کو دربار ِنبویﷺ میں پیش کیا اور عالم ِبیداری میں روحانی طور پر آقائے نامدارﷺ کے دست ِ ِمبارک پر ان کی روحانی بیعت سے یہ عملاً ثابت کر دیا کہ آپﷺ کی نبوت اور برکات ِصحبت کا فیضان آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے، حضورﷺ کا آج بھی اپنی امت کے ساتھ وہی تعلق ہے جو صحابہ کرام]  کے مبارک دور میں تھا، البتہ فرق صرف اس قدر ہے کہ اس وقت آپﷺ عالمِ ِآب و گِل میں تشریف رکھتے تھے اور آج عالم ِبرزخ میں تشریف فرما ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ وہ خوش نصیب ساتھی جنہیں دربار ِنبویﷺ میں اپنی حاضری کو نگاہ ِباطن سے دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی، مراقبہ کے بعد بے اختیار پکار اٹھے :
‘‘کہاں ہیں وہ مسند ومنبر نشیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ا س عالم میں دربار ِنبویﷺ میں حاضر ی ممکن نہیں، کاش میں انہیں اس حاضری کا منظر دکھا سکوں۔’’
            زندگی کے آخری دور میں مسئلہ حیاتُ النبیﷺ کے موضوع پر حضرت جؒی کے ہاں ایک مشن اور جہاد کی صورت نظر آتی ہے حتیٰ کہ اپنے آخری خطاب میں آپؒ نے پوری قوت اور استدلال کے ساتھ اسی موضوع پر بات کی۔
            حضرت جؒی نے تحریر و تصنیف کی صورت میں بھی منکرین حیاتُ النبیﷺ کے اعتراضات کا جواب دیا۔ اس موضوع پر آپؒ کی پہلی معرکہ آرا کتاب ‘‘حیات برزخیہ’’ ہے جس میں دور ِحاضر کی اس منفی فکر پرکہ موت اختتامِ زندگی اور عدمِ حیات کا نام ہے، جارحانہ گرفت فرماتے ہوئے آپؒ نے قرآن و حدیث سے      حیات برزخ کے اثبات میں بھرپور دلائل دیئے۔ اسی موضوع پر اپنی دوسری کتاب ‘‘سیف ِاویسیہ’’ میں ان دلائل کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جبکہ اس تحریری جہاد کی آخری کڑی آپؒ کی معرکہ آرا کتاب              ‘‘حیاتُ النبیﷺ’’ہے جو اس موضوع پر نہ صرف حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے بلکہ یہ آپؒ کی آخری تصنیف بھی ہے۔‘‘حیاتُ النبیﷺ’’ کے متعلق حضرت جؒی کا ارشاد ہے کہ یہ کتاب لکھنے کے لئے آپؒ کو مشائخ  کی طرف سے خاص طور پر مامور کیا گیا۔  ان کتب کا مطالعہ ہر مسلمان کے لئے انتہائی ضروری ہے تاکہ رسالت پر ایمان کے بارے میں اعتقادی گمراہیوں سے حفاظت ہو سکے۔
                حضرت جؒی کی ذات سے تعلیم و تبلیغ، اصلاح عقائد اور باطنی تربیت کا جو عظیم کام سرانجام پا رہا تھا، اس پر شیطانی قوتوں کا صف آرا ہو جانا قدرتی امر تھا۔ آپؒ کی مخالفت میں جو حربے استعمال کئے گئے اس میں بے سروپا منفی پروپیگنڈا سرفہرست ہے۔ آج بھی حضرت جؒی کے تذکرہ میں جب آپؒ کے مولد چکڑالہ کا نام آتا ہے تو بعض حلقوں کی جانب سے چکڑالوی فتنے سے ربط قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ عبداللہ چکڑالوی کے انکار سنت کے فتنہ پر سب سے کاری ضرب حضرت جؒی ہی نے لگائی۔ اسی طرح عذاب و ثواب قبر اور حیات برزخیہ کے اثبات میں آپؒ کی کتب بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں لیکن بددیانتی کی انتہا ہے کہ منفی پروپیگنڈا کرنے والوں نے آپؒ کو اس کا منکر قرار دے دیا۔ حضرت جؒی کی تصنیفات کے ذریعہ اس منفی پروپیگنڈا کا قلع قمع ہوا لیکن وہ لوگ جوان کتب کو پڑھے بغیر محض جہالت کی بنا پر بات کر جاتے ہیں، بدترین اخلاقی بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
             یہاں مولانا ابوسعید حمید احمد دہلویؒ کے ایک خط کا تذکرہ حسب حال ہوگا جو انہوں نے دسمبر 1974ء میں تبلیغی مرکز رائے ونڈ سے پروفیسر حافظ عبدالرزاقؒ کے نام لکھا اور کچھ احباب کی طرف سے حضرت جؒی کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کو واہیات قرار دیتے ہوئے اپنی تشفی کا اعتراف کیا۔ شاید یہ خط اس مرکز سے وابستہ ایسے دیگر حضرات کے لئے بھی مفید ہو جو سلسلۂ عالیہ کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں اور مساجد میں ذکر اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ حافظ عبدالرزاقؒ نے حضرت جؒی کو یہ خط سنانے کے بعد حضرت دہلویؒ کی طرف سے دعا کی درخواست کی اور آپؒ کی ہدایت کے مطابق اُن کے نام جواب ارسال کیا۔
از بندہ ابوسعید حمید احمد دہلوی
١٧ ذیقعد١٣٩٤ھ، رائے ونڈ
برادرم حافظ عبدالرزاق صاحب ایم اے
            بعد سلام مسنون،مزاج شریف۔کتاب ‘‘دلائل السلوک’’ اور ‘‘ حیات برزخیہ’’ تمام تو نہیں ہاں کہیں کہیں سے دیکھی ہے۔ دیگر احباب نے بالانصاب پڑھی ہے۔ اب تک سلوک و تصوف و برزخ کے بارے میں ایسی مبسوط، جامع، محقق مدلّل کتاب اپنی ناقص سمجھ کے اعتبار سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ ماشاء اللہ!
            احباب مولانا اللہ یار خان صاحب کے متعلق ایسی ایسی باتیں سناتے ہیں کہ بہت پریشانی ہوتی، بالخصوص عذاب قبر کے بارے میں نکیر ثابت کرتے تھے مگر کتابیں پڑھ کر تو وہ سب باتیں واہیات معلوم ہوئیں۔ آپ براہِ کرم چیدہ چیدہ اقتباسات اپنے مسلک دیوبند کے متعلق رسالہ و جرائد میں طبع کرائیں۔ اس سے ایک تو لوگوں کی غلط فہمی دور ہو جائے گی، دوئم وہ رجوع کر کے تائب ہوں گے و دیگر لوگ محفوظ رہیں گے۔ دوسرے تعارف حاصل ہونے پر استفادہ کی صورتیں انشاء اللہ پیدا ہوں گی۔ تیسرے مصنف محترم کی ذات سے بھی فیض رسانی کی شکلیں نکھر کر سامنے آ جائیں گی۔ چوتھے علمی حلقوں کی رائے اور تصدیق و توثیق سے تصنیف میں چار چاند لگ جائیں گے۔ اگرچہ آپ کا مقصد شہرت نہ ہے مگر عوام کو تو نفع پہنچے گا۔ بھائی! ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر ذرا غور کر لیجئے گا۔ مولانا سے ملاقات کی کیا صورت ہو سکتی ہے، اس کی تفصیل بھی لکھ بھیجیں۔دعا کی درخواست ہے۔       والسلام
حافظ صاحؒب نے خط کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے تحریر کیا:
‘‘اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ دینی جرائد و رسائل، اکثر گروہی تعصب کا شکار ہیں۔ میں نام نہیں لینا چاہتا۔ بہت سے مدیرانِ جرائد نے دلائل السلوک کےساتھ یہی معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔’’
            حافظ صاحبؒ نے تبلیغی جماعت کے اولین دور کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا جب اصلاحِ باطن کو تربیت کا لازمہ سمجھا جاتا تھا:ـ
‘‘مجھے وہ منظر یاد ہے کہ حضرت مولانا الیاسؒ اپنے آدمیوں کو حضرت مدنیؒ کے پاس بھیجا کرتے تھے کہ حضرت ان کے اعمال تو کچھ بن گئے ہیں، آپ ان کی باطنی اصلاح فرما دیں اور حضرت مدنیؒ ادھر بھیجتے تھے کہ ان کا باطن کچھ بن گیا ہے، ان کے اعمال درست کر دیں، یہ تھی للہیت۔’’
            حافظ صاحبؒ نے حضرت دہلویؒ کو چکوال آنے کی دعوت بھی دی تاکہ حسب خواہش حضرت جؒی سے ملاقات کے لئے حاضر ہو سکیں لیکن وہ تشریف نہ لا سکے۔
          حضرت دہلویؒ نے تو صرف مسلک دیوبند کے متعلق اقتباسات کو شائع کرنے کی خواہش کی تھی لیکن اس موضوع پر حضرت جؒی کی مدلل تصنیف ‘‘عقائد و کمالات علمائے دیوبند’’ یہ ثابت کرتی ہے کہ     فی زمانہ جو لوگ خارجیوں اور کرامیوں کے عقائد کو مسلک دیوبند کے نام سے پیش کر رہے ہیں، وہ متقدمین     علمائے دیوبند کے مسلک کے خلاف ہیں۔ حضرت جؒی نے اس کتاب میں عقائد پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ صحابہ کرام]   اور اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کے امور خرقِ عادت، روح سے     اخذِ فیض اور بالخصوص ‘‘حیات النبیﷺ’’  عین دیوبند کا متفق علیہ اجتماعی عقیدہ ہے۔
            حضرت جؒی کی کتب میں عربی اور فارسی کی صدیوں قبل لکھی گئی مآخذ کتب سے لاتعداد حوالہ جات ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر علماء بھی ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ آپؒ تراجم پر انحصار نہ کرتے بلکہ اصل زبان میں مآخذ کتب کا مطالعہ کرتے جو عربی اور فارسی میں عبور کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ایک مرتبہ حضرت جؒی سے سوال کیا گیا کہ آپ انتہائی قلیل مدت میں ایک کتاب کس طرح تصنیف فرمالیتے ہیں جبکہ اس میں سینکڑوں حوالہ جات کا ذکر ہوتا ہے جن کے مطالعہ کے لئے طویل مدت درکار ہے؟ آپؒ نے فرمایا:
‘‘میں جب کسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ کرتا ہوں، تمام حوالہ جات میرے سامنے آ جاتے ہیں۔’’
            ایک مرتبہ ایک عالم نے سوال کیا، حضرت! دینی اور علمی موضوعات پر تو آپ کا حتمی رائے کا اظہار فرمانا سمجھ میں آتا ہے لیکن اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ آپ خالصتاً دنیوی موضوعات پر بھی حتمی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ حضرت جؒی نے جواب دیا:‘‘میرے اوپر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ جب میں کسی دنیوی موضوع کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہوں تو اللہ پاک اس کی اصل حالت منکشف فرمادیتے ہیں۔’’
            یہ ہے علم لَدُنِّی کی حقیقت، جس سے اللہ کریم نے آپؒ کو وافر مقدار میں نوازا تھا۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو