ANTI-ADBLOCK JS SYNC افواجِ پاکستان میں ترویج سلسلۂ عالیہ ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

افواجِ پاکستان میں ترویج سلسلۂ عالیہ

افواجِ پاکستان میں ترویج سلسلۂ عالیہ

            افواجِ پاکستان میں سلسلۂ عالیہ 1963ء میں متعارف ہوا جس کی سعادت حافظ غلام قادری کے حصہ میں آئی۔ چکوال میں حافظ غلام قادری کے دونوں بھائی حافظ غلام جیلانؒی اور غلام یزدانی حضرت جؒی کے حلقہ میں آئے تو انہوں نے قادری صاحب کو بھی ذکر کی دعوت دی۔ قادری صاحب کبھی کبھی محفل ِذکر میں شریک ہوجاتے لیکن زیادہ راغب نہ ہو سکے البتہ وہ اس بات سے متأثر تھے کہ غلام یزدانی حضرت جؒی کے حلقۂ ارادت میں آنے کے بعد دن بھر کھیتی باڑی میں گزارتے لیکن تھکاوٹ کے باوجود رات کا ایک حصہ تہجد اور ذکرِ الٰہی میں بسر ہوتا ۔ بھائی کی زندگی کا یہ نیا رخ قادری صاحب کے لئے حضرت جؒی کی خدمت میں حاضری کا محرّک بنا۔
            حافظ غلام قادری چکوال میں حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہاں بوچھال کا ایک ساتھی  محمد امین اور مشہور نومسلم پروفیسر غازی احمد بھی موجود تھے۔ اسی محفل میں ان کے یونٹ کا نائب صوبیدار   محمد شریف اپنی بیوی کی پریشانی لے کر حضرت جؒی کی خدمت میں پیش ہوا۔ محمد امین نے کشفاً بتایا کہ ایک چڑیل اس کی بیوی کی تکلیف کا باعث ہے۔ حضرت جؒی سے عرض کیا تو آپؒ نے فرمایا کہ میں کوئی عامل نہیں ہوں، جاؤ کسی عامل سے رجوع کرو۔
            ذکر شروع ہوا تو صوبیدار شریف کو شمولیت کی دعوت نہ دی گئی۔ ذکر ختم ہونے پر اس نے گلہ کیا۔ حضرت جؒی نے فرمایا کہ تم تو اس مقصد کے لئے آئے ہی نہ تھے۔ اس نے بار بار اصرار کیا تو حضرت جؒی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا، لطائف کی نشاندہی کی اور طریقۂ ذکر بتانے کے بعد فرمایا، اگر ذکر جاری رکھو گے تو تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے ورنہ میرا نقصان تو نہ ہوگا۔
            تین روز بعد یونٹ میں قادری صاحب کی صوبیدار شریف سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہواکہ پہلے روز ذکر کے دوران وہ چڑیل سامنے آگئی تھی جس کی وجہ سے ذکر چھوڑنا پڑا۔ سحری کے وقت ذکر شروع کیا تو لائٹ بھی آن رکھی لیکن وہ پھر سامنے آگئی۔ شدید گھبراہٹ کے باوجود جب ذکر جاری رکھا تو تھوڑی دیر بعد ایسی غائب ہوئی کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی۔ صرف چند روز ذکر کے بعد صوبیدار شریف کی حالت یہ تھی کہ ذکر کے دوران قلب پر ٹیوب لائٹ کی طرح روشنی نظر آتی جس میں اسم ذات اللہ جلی حروف میں نظر آتا۔
            قادری صاحب نے صوبیدار شریف کے یہ حالات دیکھے تو دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہو گئی کہ ذکر میں کوئی بات ضرور ہے۔ اب انہوں نے بھی ذکر شروع کر دیا جس کاآغاز صوبیدار شریف ہی کے گھر سے ہوا۔ مزید احباب کی شمولیت کے بعد فوج کا یہ پہلا حلقہ ٔ ذکر اگست 1963ء میں 502 ورکشاپ کی مسجد میں منتقل ہو گیا۔
            502 ورکشاپ کے علاقے میں ایک بزرگ مدفون ہیں جن سے دورانِ ذکر احباب کا روحانی رابطہ ہوا۔ فرمانے لگے کہ 35 سال میں حضرت بری شاہ لطیؒف سے مراقبات ثلاثہ طے کئے تھے۔ تم نے جو سال بھر میں مسجدِ نبویﷺ تک مراقبات حاصل کر لئے ہیں، یہ تم نے خود نہیں کئے بلکہ شیخ کی محنت کا نتیجہ ہیں جب کہ ہم نے خود محنت کی تھی۔
            502 ورکشاپ میں جو بھی ذکر شروع کرتا، شریعت ِمطہرہ پر عمل پیرا ہو جاتا، تہجد کی توفیق ملتی اور چند روز ذکر کے بعد داڑھی رکھنے کی سعادت بھی نصیب ہوتی۔ تھوڑی ہی مدت بعد داڑھی والوں کی ایک الگ قطار نظر آنے لگی جس پر تجسّس لازم تھا۔ تحقیق کے لئے صوبیدار ایڈجوٹینٹ کو ذمہ داری ملی لیکن ان کا احباب کے ساتھ ربط بڑھا تو خود بھی ذکر کرنے لگ گئے۔
کراچی
            پوسٹنگ فوجی زندگی کاایک معمول ہے۔ کچھ عرصہ بعد 502 ورکشاپ کے ان ذاکرین کی پوسٹنگ ہونے لگی لیکن وہ جہاں بھی گئے، دعوت ذکر کا ذریعہ بنے۔ نئے یونٹ کی مساجد میں پاس انفاس کے طریقہ ٔ ذکر کے بارے میں لوگوں کو تجسّس ہوتا اور عدم واقفیت کی بنا پر مخالفت بھی کی جاتی لیکن ہر نیا شخص ذکر شروع کرتا تو اس کی زندگی کا بدلتا ہوا نقشہ دوسروں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا کہ کچھ تو ہے جس نے بے نمازیوں کو شب بیدار بنا دیا، سینماگھروں سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے گھر بٹھا دیا اور سنت ِمطہرہ کی پابندی نصیب ہوئی۔
            1965ء میں قادری صاحب کا تبادلہ ماڑی پور، کراچی کی ایئرڈیفنس ورکشاپ میں ہو گیا۔ یہاں آئے تو کراچی کے ماحول پرنحوست کے شدید اثرات سے پریشان ہو کر حضرت جؒی کی خدمت میں صورتِ حال تحریر کی۔ آپؒ نے تلقین فرمائی کہ مندرجہ ذیل آیت کثرت سے تلاوت کیا کریں اور ساتھ ہی تسلّی دی کہ امانت سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں، وہ حفاظت فرمائے گا اور تجھ سے کوئی کام لیا جائے گا :
اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ اِلٰى مَعَادٍ o
بیشک جس (اللہ) نے آپ(ﷺ) پر قرآن (پر عمل اور اس کی تبلیغ کو) فرض فرمایا ہے وہ آپ(ﷺ) کو (آپؐ کے) اصلی وطن (مکہ مکرمہ) میں پھر ضرور پہنچائے گا۔(القصص۔85)
            کراچی میں مختلف مقامات پر ذکر کے مراکز قائم ہوئے۔ اسی دور میں حوالدار محمد صادق اور شیر علی حلقہ ٔ ذکر میں شامل ہوئے جنہوں نے آگے چل کر افواج میں ترویجِ سلسلہ کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ 1965ء میں بدین میں بھی حلقہ ٔ ذکر قائم ہو گیا۔
            1966ء میں حضرت جؒی کو کراچی مدعو کیا گیا تو آپؒ نے عوام ایکسپریس کی لوئر کلاس میں سفر کیا ۔ کراچی میں آپؒ کے ٹھہرانے کا مناسب انتظام بھی نہیں تھا۔ ایئر پورٹ کے قریب جے سی اوز کوارٹرز میں دس روز قیام فرمایا۔ اس دوران PNS ہمالیہ کی مسجد میں جمعہ کا خطاب فرمایا تو پاکستان نیوی میں بھی حلقہ ٔ ذکر قائم ہو گیا۔پاکستان نیوی کے حلقۂ ذکر میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے احباب کی خاصی تعداد تھی۔ ان میں سے حضرت جؒی نے مزمل حق کو صاحب ِمجاز مقرر فرمایا جو 1972ء میں بنگلہ دیش منتقل ہو گئے۔
دعائے حِزبُ البحر
            1966ء کے بعد حضرت جؒی کا یہ معمول رہا کہ سال میں دو مرتبہ کراچی تشریف لاتے اور یہ دورے عموماً بہار اور خزاں کے موسم میں ہوا کرتے۔ ایک دورہ کے موقعہ پر آپؒ سے دعائے حِزبُ البحر کے متعلق سوال کیا گیاتو فرمایا:
‘‘چلو علامہ شاذلیؒ سے دریافت کرلیتے ہیں۔’’
            آپؒ نے توجہ فرمائی اور ان واقعات کی تفصیل بیان کرنا شروع کردی کہ کس طرح مخالف ہوا کی وجہ سے کئی روز تک علامہ شاذلیؒ کی کشتی سمندر میں لنگر انداز  رہی یہاں تک کہ مصر سے جدہ تک حج کے لئے پہنچنا ممکن نہ رہا۔ ان حالات میں علامہ شاذلیؒ پر یہ دعا القاء ہوئی تو انہوں نے فرمایا، بادبان کھول دو۔ کشتی روانہ ہوئی اور دو ہفتوں کا سفر چند دنوں میں طے ہوا۔
            حضرت جؒی سے سوال کیا گیا کہ دعا کے ساتھ جو اعتکاف، روزہ اور جَو سے افطار کی شرائط ہیں، ان کی کیا حیثیت ہے۔ آپؒ نے فرمایا:
‘‘علامہ شاذلیؒ فرما رہے ہیں کہ یہ شرائط بھی میری طرف سے ہیں لیکن آپؒ جسے چاہیں بغیر ان شرائط کے اجازت دے دیں۔’’
          اس کے ساتھ ہی قادری صاحب کو، جنہوں نے یہ سوال پوچھا تھا، حضرت جؒی کی طرف سے شرائط کے بغیر دعا کی اجازت مل گئی۔ دعائے حِزبُ البحر کے متعلق حضرت جؒی نے فرمایا، موت کا لمحہ متعین ہے اور اگر وہ نہ آئی ہو تو اس دعا کی برکت سے توپ کا گولہ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ 1968ء میں          حوالدار صادق اور شیر علی کوئٹہ تبدیل ہوئے تو کوئٹہ انفینٹری سکول میں بھی حلقہ ٔ ذکر قائم ہوگیا۔
فوجی افسران میں ترویج سلسلہ
            1968ء میں کوئٹہ میں ایک فوجی افسر کے ہاں سلسلۂ عالیہ کے ایک دیرینہ ساتھی حکیم بشیر کو   لیفٹیننٹ احسن بیگ کی اقتداء میں نمازِ مغرب ادا کرنے کا موقعہ ملا۔ حکیم بشیر نے بیگ صاحب کے حسن ِ قرأت کے حوالے سے حسنِ باطنی کا تذکرہ چھیڑ دیا جس کے حصول کے لئے انہیں ذکرِ الٰہی کی دعوت دی گئی۔     محفلِ ذکر ہوئی تو اس میں لیفٹیننٹ احسن بیگ کے علاوہ کیپٹن محمد حنیف بھی شامل ہوئے۔ یہ پہلے فوجی افسر تھے جو حلقہ ٔ ذکر میں آئے۔
            1969ء میں ان دونوں کا تبادلہ رسالپور ہوا تو نہ صرف آرمی کی آفیسرز کلاس میں سلسلۂ عالیہ کی ترویج ہوئی بلکہ ایئر فورس میں بھی حلقہ ٔ ذکر قائم ہو گیا اور ایئرفورس کے آفیسر ہادی حسین شاہؒ سب سے پہلے حلقہ ٔ ذکر میں آئے۔ ان احباب کے ذریعے سلسلۂ عالیہ افواجِ پاکستان میں بہت تیزی سے متعارف ہوا اور جگہ جگہ حلقۂ ذکر قائم ہوئے۔ یہ احباب پوسٹنگ پر جس چھاؤنی میں بھی گئے، وہاں حضرت جؒی کو دوروں کے لئے مدعو کیا جاتا۔ آپؒ انتہائی شفقت فرماتے ہوئے ساتھیوں کے پاس چند روز قیام فرماتے جس کے دوران مقامی مساجد میں آپؒ کے جمعۃ المبارک کے خطاب ہوتے اورنئے احباب کو آپؒ کی توجہ میں ذکر نصیب ہوتا جو دل کی دنیا کے لئے انقلاب آفرین ثابت ہوتا۔
            حضرت جؒی کے الفاظ میں :
‘‘انہیں ڈنڈے سے منوایا گیا، بدمست اونٹوں کو نکیل ڈالی
اور شراب خانوں سے اٹھا کر ذکر کی محافل میں بٹھا دیا۔’’
            ان میں سے ہر ساتھی کے حلقہ ٔ ذکر میں آنے کا پس منظر ایک الگ داستان ہے، حیرت انگیز اور سبق آموز۔ لیفٹیننٹ جی ایم، کلب کے رسیا، تنبولا کے پنڈال میں خواتین اور مردوں کے درمیان ان کے بلند بانگ قہقہے سب پر حاوی ہوتے۔ حضرت جؒی رسالپور آئے تو اسے بھی ملاقات کی دعوت دی گئی۔
            وہ حضرت جؒی کی قیام گاہ پر پہنچا تو آپؒ وضو فرما رہے تھے۔ انتظار میں باہر کرسی پربیٹھ گیا اور حسب ِ عادت سگریٹ سلگا لیا۔ یہ لفٹین اپنی ہی ترنگ میں تھا۔ حضرت جؒی تشریف فرما ہوئے تو اسے پیش کیا گیا لیکن آپؒ نے توجہ نہ فرمائی۔ دوبارہ عرض کیا گیا، حضرت! یہ لیفٹیننٹ غلام محمد ہے۔ آپؒ نے اک شانِ بے اعتنائی سے فرمایا، اسے بٹھادو کہیں۔
            حضرت جؒی کے ان الفاظ سے جی ایم کی دنیا میں زلزلہ برپا ہو گیا۔
 جی ایم، لوگ جسے جانِ محفل کہتے ہیں، ایک اللہ والے کی نگاہ میں اس کی یہ عزت، بٹھا دو کہیں!
 تو یہ ہے جی ایم کی حیثیت کہ وہ درخور اعتنا ءبھی نہیں!
            ذکر شروع ہوا اور جی ایم اپنے آپ میں تحلیل ہوتا رہا ۔ذکر ختم ہوا تو انا کا بت ٹوٹ چکا تھا اور اب وہ پہلے والا جی ایم نہیں تھا ۔ کلب سے اٹھا اور محافل ذکر میں حاضری کو معمول بنا لیا۔
            کیپٹن غوث انوارات ومشاہدات کی باتوں کو افتراء پردازی قرار دیتا، ذاکرین کے ہوش وخرد کا مذاق اڑاتا اور ان پر پاگل پن کی پھبتیاں کستا۔ ایک روز خیال آیاکیوں نہ میں بھی اس محفل میں شرکت کروں جہاں، بقول ان لوگوں کے، انوارات کی بارش ہوتی ہے تاکہ ڈنکے کی چوٹ کہہ سکوں کہ انوارات، کشف، مشاہدات، یہ سب خالی باتیں ہیں۔
            اردلی سے شلوار قمیض تیار کرائی، ٹوپی پہنی اور ذکر کی محفل میں آن وارد ہوا۔ احباب نے دیکھا تو ششدر رہ گئے۔ آتے ہی مطالبہ کیا کہ وہ انوارات جن کاتم لوگ کثرت سے ذکر کرتے ہو،  مجھے بھی دکھاؤ۔
            اسے بتایا گیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، جس کو چاہے انوارات و تجلیات کا مشاہدہ کرا دے لیکن ذکر کے لئے آہی گئے ہو تو پہلے دو رکعت صلوٰةِ استغفار پڑھ لو۔ اس شرط نے اللہ کے بندے کو الجھن میں ڈال دیا، سابقہ گناہوں سے توبہ توکی جا سکتی ہے لیکن چھوڑنے پر وہ تیار نہ تھا۔اللہ اکبر کہا اور بارگاہِ الٰہی میں کھڑا ہو گیا:
            ‘‘یا اللہ! سابقہ گناہوں سے توبہ لیکن آئندہ پھر کروں گا۔’’
            شاید یہی ادااللہ تعالیٰ کو پسند آگئی،ذکر شروع ہوا تو اس کا قلب انوارات سے دُھل گیا، رقت طاری ہوئی اور وہ ایسا رویا کہ محفل ذکر میں ہردل پسیج گیا۔ واپس لوٹا تو بے خودی کاعالم تھا،بے خیالی میں سگریٹ نکال کر سلگانے کے لئے ہونٹوں سے لگایا تو اندر کا انسان چیخ اٹھا:
            ‘‘پھر وہی راستہ!’’
            سگریٹ اٹھاکر پھینک دئیے۔ اب اسے لیفٹیننٹ جی ایم نے سنبھالا دیا اور وہ اس کے ہاں ذکر وفکر کے لئے منتقل ہوگیا۔یہ انقلاب روزِروشن کی طرح احباب کی نگاہوں کے سامنے واقع ہوا توطلب ِ صادق رکھنے والوں کو انقلاب آفرین ہستی کی تلاش ہوئی۔ پھر جو بھی حضرت جؒی کی خدمت میں پہنچا اسے آپؒ کی شفقت ملی۔
            کیپٹن غوث ایک مرتبہ حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ حاضر ہوا تو آپؒ ظہر کے وقت وضو فرمارہے تھے۔ غوث نے باتوں باتوں میں اپنے مرحوم والد کاذکر کیا اور دعاکی درخواست کی۔ حضرت جؒی وضوکرتے ہوئے رک گئے اور جائے تدفین کے متعلق پوچھا، توجہ فرمائی اور دریافت کیا، وہ پولیس میں تو نہیں تھے؟عرض کیا،  پولیس میں ہی تھے ۔
            حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘جس نوعیت کاعذاب تھا وہ عموماً پولیس والوں میں دیکھا گیا ہے۔’’
غوث نے دکھ سے عرض کیا،حضرت کچھ کریں توآ پؒ نے فرمایا:
‘‘معاملہ کچھ کرنے سے اوپر جا چکا ہے، سیتھی چلے جاؤ۔ وہاںمیرا ایک شاگرد   مولوی محمد اکرم ہے، وہ آپ کی مدد کرے گا۔’’
ساتھ ہی ایک رقعہ حضرت امیر المکرم کے نام تحریر فرمایا جس میں لکھا تھا :
‘‘حامل عریضہ اپنے حلقہ میں ہیں، گو ایک ماہ سے داخل ہوئے ۔ ان کا والد فوت ہو گیا ہے۔میں نے ان سے کہہ دیا کہ وہ عذاب میں مبتلا ہے، اس وقت سے سخت پریشان ہیں۔ آپ دو تین گھنٹہ ان کو وقت دیں اور ان کے والد کو لطائف کرائیں۔’’
            حضرت امیر المکرم کی خدمت میں سیتھی پہنچ کر حضرت جؒی کا پیغام دیا۔ ان کے برادر عزیز عبدالستار کی اتفاقیہ موت کا سانحہ کچھ ہی عرصہ قبل پیش آیاتھااور لوگ تعزیت کے لئے آ رہے تھے۔ اگلے روز کسی عدالتی تاریخ کے سلسلہ میں چکوال جانے کا بھی پروگرام تھا۔ یہ حالات دیکھے تو غوث نے حضرت امیرالمکرم سے عرض کیا، حضرت میرے لئے کیا حکم ہے؟
            انہوں نے فرمایا:
‘‘جی ایچ کیو سے حکم لے آئے ہو اور اب پوچھتے ہو کیا ارادہ ہے! میرا کوئی ارادہ باقی نہیں رہا۔’’
             حضرت امیر المکرم اسی رات جوہر آباد پہنچے اور قبرستان گئے۔ ان کی آمد پرجنات قبرستان سے نکل گئے کہ یہ کس کی آمد ہے کہ سینہ  سے انوارات نکل رہے ہیں۔ قبر پر القاء کیا، ظلمت دور ہوئی تو بولنے کی سکت آئی۔ لطائف کرائے لیکن دیکھا کہ وہ رخ پھیر کر بات کر رہے ہیں۔ وجہ دریافت کی تو عرض کرنے لگے:
‘‘حیا آتی ہے۔ میں پولیس میں تھا، آپ گزر رہے تھے تو میں بدتمیزی کر بیٹھا تھا۔’’
حضرت امیر المکرم نے غوث کو تشفّی دی:
 ‘‘خوش قسمت ہو، ان کے پاس رائی برابر ایمان تھا۔  اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا تھا۔’’
             حضرت جؒی احباب کی ر وحانی حالت پر بھی نظر رکھتے تھے۔ غوث پر ایک وقت ایساآیا کہ ذکر چھوڑ بیٹھا تو آپؒ کا خط ملا:
‘‘بیٹا! میں چند دن سے دیکھ رہا ہوں، تمہاری روحانی حالت خراب ہے۔ انسان ذرا اپنے آپ پر غور کرے۔ گندے قطرے سے پیدائش، کیڑوں نے کھا جانا ہے۔ درمیان میں خدا کو بھول گیا۔ انسان کی حالت ایسی ہے جیسے روٹی کے نوالے کے پیچھے کتا دم ہلاتے ہوئے چلا جاتا ہے۔ میری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اسم بامسمٰی بنائے۔’’
            حضرت جؒی ایک ایک ساتھی کے لئے فکر مند رہتے۔ صرف غوث ہی کا نہیں، سبھی کا یہ معاملہ تھا کہ آپؒ کی دعا اور توجہ کے سہارے استقامت نصیب ہوتی۔ احباب کا آپؒ کس قدر خیال رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ چکڑالہ میں غوث کو چائے نہ ملنے کی وجہ سے سردرد کی شکایت ہوئی تو حضرت جؒی نے ہدایت فرمائی کہ فوجیوں کو چائے کی عادت ہوتی ہے اور اگر نہ ملے تو سردرد ہو جاتا ہے۔ آئندہ کھانے کے ساتھ چائے ضروربنائی جائے کیونکہ اکثریت فوجی اور شہری لوگوں کی ہوتی ہے۔
            1968-69ء کا عرصہ رسالپور چھاؤنی کے لئے انتہائی خوش نصیبی کا زمانہ تھا کہ حضرت جؒی یہاں متعدد بار تشریف لائے۔ اکتوبر 1970ء میں آپؒ چکڑالہ سے کیپٹن زین العابدین کی گاڑی میں رسالپور کے لئے روانہ ہوئے تو آپؒ کے ساتھ قاضی جؒی سمیت گاڑی میں سات آٹھ لوگ تھے۔دورانِ سفر تلہ گنگ کے قریب مراقبات شروع تھے کہ زین العابدین گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے خود بھی مراقبات میں شامل ہو گیا اور گاڑی سیدھی ایک درخت میں جا لگی۔ اس حادثہ میں حضرت جؒی کے ہونٹ اور ہتھیلی کی پشت پر چوٹ لگی۔ رسالپور پہنچ کر ساتھیوں نے ایکسرے کے لئے کہا تو قاضی جؒی نے بتایا کہ ایک ہڈی میں تھوڑا سا نشان ہے۔ جب ایکسرے کرایا تو واقعی Hair Line Fracture تھا۔ حضرت جؒی کو اس مرتبہ رسالپور میں 15روز قیام کرنا پڑا۔ دور و نزدیک سے احباب آپؒ کی مزاج پرسی کے لئے آتے اور ذکر و فکر کی محافل میں شریک ہوتے۔ اس طرح رسالپور میں ایک اجتماع کی سی صورت بن گئی۔ فوجی انٹیلی جینس والے بھی آنے لگے لیکن وہ یہ جان کر مطمئن ہو گئے کہ یہ لوگ کسی اور ہی دنیا کی بات کرتے ہیں۔
             حضرت جؒی احباب سلسلہ کے ہمراہ رسالپور میں تشریف فرما تھے کہ مفتی غلام صمدانی بھی سرگودھا سے بس کے ذریعے رسالپور پہنچ گئے۔ آتے ہوئے ان کے ساتھ روئیت اَشکال کا ایک واقعہ بھی پیش آیا تھا جو انہوں نے حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کیا۔ دورانِ سفر وہ حالت ِمراقبہ میں تھے کہ ان کا خیال بس کے سٹیئرنگ کی طرف چلا گیا اور یہ دیکھ کر ان کی چیخ نکل گئی کہ اس کے ساتھ ایک بندر لپٹا ہوا عجیب عجیب حرکتیں کر رہا ہے۔ بس کے مسافر حیران ہوئے کہ بابا جی کو اچانک کیا ہوا ؟ مفتی صاحب کو سٹیئرنگ کا نام بھی نہیں آتا تھا اور انتہائی سادگی سے وہ حضرت جؒی کو بتا رہے تھے کہ بس میں جو گول گول چیز ڈرائیور کے پاس ہوتی ہے، اس کے ساتھ ایک بندر عجیب عجیب حرکتیں کر رہا تھا۔مفتی صاحب کی اس سادگی سے حاضرین ِمجلس خوب محظوظ ہوئے۔
            تھوڑی دیر بعد نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر اترنے کا ذکر چھڑ گیا تو حضرت جؒی نے کہا چلیں انہی باباجی سے پوچھ لیتے ہیں جو بس کے سٹیئرنگ کو ‘‘گول گول’’ کہتے ہیں۔ آپؒ نے مفتی صاحب سے کہا کہ میرے قلب پر خیال کریں اور جس طرف انوارات جا رہے ہیں، بتاتے چلے جائیں۔ مفتی صاحب نے چاند گاڑی کا نقشہ کھینچا، خلاءنوردوں کی ایک ایک حرکت، ان کا مٹی اٹھانا، غرض جزئیات تک بیان کر دیں۔ ملٹری کالج آف انجینئرنگ کے پروفیسر   محمد اسلم جن کی پوری عمر انجینئرنگ پڑھانے میں بسر ہو گئی تھی اور وہ ‘‘Third Dimension Theory’’ کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے تھے، کہنے لگے کہ ان باباجی نے آرمسٹرانگ کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے کچھ ایسی تفصیلات بیان کی ہیں، جو خلاء بازوں نے بھی نہیں بتائیں۔ اس محفل کے بعد پروفیسر صاحب حضرت جؒی کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ مسلسل اصرار کے بعد آپؒ کو اپنے گھر لے آئے اور اہل و عیال سمیت بیعت کی درخواست کی۔ حضرت جؒی نے فرمایا، میں کوئی روایتی پیر نہیں ہوں، میں روحانی معلّم ہوں۔ اپنے شاگردوں کی روحانی تربیت کے بعد انہیں دربارِ نبویﷺ میں حضورِ اکرمﷺ کے دست اقدس پر    رُوحانی بیعت کراتا ہوں۔ پروفیسر صاحب کے گھر میں حضرت جؒی کے سامنے بھرپور لوازمات کے ساتھ چائے پیش کی گئی لیکن آپؒ نے صرف ایک چیز کھائی۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ یہ چیز میری بیٹی نے بنائی ہے جو       پابند ِ صوم و صلوٰة ہے جبکہ باقی سب اشیاء بازار سے منگوائی گئی ہیں۔
            کیپٹن غوث کو رسالپور میں بمشکل چند ماہ گزارنے کا موقع ملا کہ 1969ء میں کاکول پوسٹنگ ہو گئی۔ یہاں حلقہ ٔ ذکر قائم ہوا جس میں 50 سے زائد ذاکرین شامل تھے۔ کاکول سے کھاریاں اور پھر بھمبر تبادلہ ہوا جہاں فوجی حضرات کی خاصی بڑی تعداد سلسلۂ عالیہ میں شامل ہوئی۔ اس کے بعد اسے گوجرانوالہ چھاؤنی اور اوکاڑہ چھاؤنی میں ذکر کے اوّلین حلقے قائم کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی لیکن 1975ء میں سٹاف کالج کوئٹہ میں جس سطح پر کام کرنے کا موقع ملا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔
            1970 ء میں قادری صاحب کی پوسٹنگ جہلم ہوگئی تو جہلم اور آزاد کشمیر کے نواحی علاقوں برنالہ، اعوان شریف، جلال پور جٹاں اور بھمبر وغیرہ میں تعیّنات مختلف یونٹوں میں ذکر کے حلقے قائم ہوئے۔ جہلم میں ماسٹر غلام رسولؒ نے ذکر شروع کیا تو سول آبادی میں بھی فوجی احباب کی وساطت سے حلقہ ٔ ذکر قائم ہوگیا۔
             فروری 1971 ء میں حضرت جؒی کی فریضۂ حج سے واپسی ہوئی تو جہلم اور آس پاس کے تمام یونٹوں میں اطلاع ہوگئی۔بھمبر سے آنے والے احباب نے وزیر آباد سے جہلم تک آپؒ کے ساتھ سفر کی سعادت حاصل کی ۔ جہلم ریلوے سٹیشن پر احباب کی بہت بڑی تعداد جمع تھی۔ کچھ ساتھی عجلت میں یونیفارم میں ہی پہنچ گئے۔ ٹرین روانہ ہوئی تو یہ باوردی حضرات دور تک ٹرین کے ساتھ بھاگتے رہے اور پھر بہت دیر تک اشک بار نگاہیں ٹرین کا تعاقب کرتی رہیں۔
            افواجِ پاکستان میں ترویج ِ سلسلۂ عالیہ کا یہ باب کوئٹہ سٹاف کالج کورس 1975ء کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔
سٹاف کالج کورس (1975ء)
            افواجِ پاکستان میں ترویجِ سلسلۂ عالیہ کے لحاظ سے کوئٹہ سٹاف کالج کورس 1975ء نہایت اہم ہے جس کے شرکا ء میں میجر غوث بھی شامل تھے ۔ فوج کے منتخب آفیسرز یہ کورس کر رہے تھے جن کے پیش ِنظر سنہری مستقبل تھا اور ان میں سے ہر ایک سبقت لے جانے کے لئے دن رات کوشاں۔ اس ماحول میں دعوت کا عمل انتہائی مشکل تھا لیکن غوث کے ہاں پرلطف عصرانوں کے ساتھ محافل ِ ذکر شروع ہوئیں۔ سٹاف کالج کی ہمہ وقت پڑھائی اور بھاگ دوڑ میں یہ چند لمحے سکون بخش ملے تو اس کے بعد روز کا معمول بن گیا کہ کئی آفیسرز سرِشام ذکر کے لئے اکٹھے ہو جاتے۔اس کے اثرات بھی جلد ظاہر ہونے لگے۔ ہر آفیسر کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو رہا تھا۔کئی احباب نے داڑھیاں زیب چہرہ کرلیں۔ روزانہ ذکر کرنے والے احباب کی تعداد قریباً تیس تھی لیکن ہفتہ وار ذکر میں تعداد پچاس سے زائد ہوتی۔ ان میں مختلف یونٹوں کے فوجی ساتھیوں کے علاوہ خطیب حضرات، مولانا عبدالقادر ڈیرھوی، قاری یار محمد، بولان میڈیکل کالج کے پروفیسر صاحبان اور کئی سویلین احباب بھی شریک ہوتے۔ ایک مرتبہ ایک فوجی یونٹ کے خطیب بھی آگئے جو مسلک کے اعتبار سے تصوّف کے قائل تھے نہ کسی اور شخص کی اقتدا ء میں نماز پڑھنے کے روادار۔ نمازِ مغرب کی امامت کے لئے انہیں مصلیٰ ٔامامت پر کھڑا کر دیا گیا تو اس کے بعد انہیں ذکر میں بھی بیٹھنا پڑا۔ اگلے روز دوپہر کے وقت غوث کے ہاں آن پہنچے اورکہنے لگے۔رات خواب میں حضرت جؒی کی زیارت ہوئی حالانکہ اس سے پہلے ملاقات نہ تھی۔ ایڈریس لیا اورچکڑالہ میں حاضر خدمت ہوئے۔
            سٹاف کالج میں اتنے احباب کا روزانہ اکٹھا ہونا اور پھر نئی داڑھیوں کی نمود، ہفتہ وار اجتماعات، یقیناً ان غیر معمولی سرگرمیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کیپٹن صاحب کی ڈیوٹی لگی۔ کچھ عرصہ محافلِ ذکر میں بیٹھے تو خود بھی ذکر شروع کر دیا اور داڑھی زیب چہرہ کر لی۔ ایک دن کہنے لگے، سرکاری گاڑی پہ آتا ہوں لیکن اب آنے کا مقصد تبدیل ہو چکا ہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا، اپنا کام بھی جاری رکھو اور اسی گاڑی پر آتے رہو۔
            ایسے ایک دو نہیں، کئی واقعات ہیں۔ لوگ ان محافل میں سرکاری ڈیوٹی پر آتے لیکن یہاں اللہ کا ذکر ملتا، مراقبات کی بات ہوتی، برزخ اور عالمِ بالا کے حالات بیان کئے جاتے، انوارات و تجلیات کا ذکر ہوتا تو سوچنے لگتے کہ یہاں اس دنیا کی تو بات ہی نہیں کی جاتی۔ وہ خود بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہتے اور ذکر شروع کر دیتے۔
            حضرت جؒی مئی 1975ء میں کوئٹہ تشریف لائے تو ڈیری فارم کی مسجد میں دو ہفتے قیام رہا۔ سٹاف کالج سے احباب تہجد کے ذکر کے لئے اڑھائی بجے پہنچ جاتے اور نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد واپس لوٹتے۔ اسی طرح مغرب سے قبل حاضر خدمت ہوتے، شام کا ذکر کرتے اور نماز عشاء کے بعد واپس آتے۔ اس دورہ میں حضرت امیرالمکرم بھی حضرت جؒی کے ہمراہ تھے۔ ان کی ایک خصوصی نشست سٹاف کالج کے اساتذہ کے ساتھ ہوئی۔ سٹاف کالج میں آفیسرز کے علاوہ ان کے گھروں میں خواتین بھی ذکر کرتیں۔ ان کی خاطر ایک روز حضرت جؒی سٹاف کالج تشریف لائے اور خواتین کو ذکر کرایا ۔اس موقع پر غوث نے اپنی زوجہ کی دیرینہ بیماری کا ذکر کیا تو آپؒ نے توجہ کے ذریعے وہ بیماری سلب کی لیکن ساتھ ہی فرما دیا کہ مر ض کا سبب موجود ہے اس لئے کچھ عرصہ بعد دوبارہ پیدا ہو جائے گی۔ آپؒ کے ارشاد کے مطابق ایک سال تک افاقہ رہا جس کے بعد بیماری حسب سابق عود کرآئی۔
 سلبُ الامراض
               چکڑالہ کی ایک محفل میں بیماری سلب کرنے کا ذکر ہوا تو حضرت جؒی نے فرمایا کہ قوی توجہ کے ذریعے بیماری سلب تو کی جا سکتی ہے لیکن فوری طور پر اسے القاء کی صورت اپنے سے دور نہ پھینک دیا جائے تو مرض سلب کرنے والا خود بھی متأثر ہو سکتا ہے۔ اس توجہ کی اثر پذیری کا ایک واقعہ راقم کے ذاتی علم میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل منارہ میں حضرت امیرالمکرم کے برادرِ نسبتی ملک خدا بخشؒ  کو دل کا شدید دورہ پڑا تو انہیں اے ایف آئی سی میں داخل کرا دیا گیا لیکن ہر ممکنہ طبّی امداد کے باوجود سی سی یو میں حالت یہ تھی کہ مانیٹر پر نبض کی رفتار کبھی 60 ہوتی تو اگلے لمحے 160۔ کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود سینے میں درد کی شکایت بدستور تھی۔ موقع پر موجود ڈاکٹر سے دریافت کیا تو اس نے انتہائی مخدوش حالت بتائی۔  راقم نے حضرت امیر المکرم کو اطلاع دی تو اماں جی سے اکلوتے بھائی کی اس حالت پر ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے اصرار پر حضرت امیر المکرم نے توجہ فرمائی  لیکن مرض القاء کرتے ہوئے دارالعرفان میں پالتو بندریا کا خیال آگیا۔ اسی وقت خادم کو فون پر کہا، بندریاکی حالت دیکھ کر بتاؤ۔اس نے دیکھا تو ساکت بیٹھی تھی لیکن ہاتھ لگایا تو بے جان جسم لڑھک گیا۔ملک خدا بخشؒ نہ صرف صحت یاب ہوئے بلکہ اس کے بعد طویل عمر پائی۔ ایک طرف سلب الامراض کا یہ عالم لیکن اس کے برعکس ان ہستیوں کو مشیت ِالٰہی کے سامنے بے بس بھی دیکھا کہ مرض سلب کرنے کی توفیق بھی اذنِ الٰہی کے بغیر نہیں ملتی۔
               کوئٹہ کے اسی دورہ میں حضرت جؒی نے ڈیری فارم کی مسجد میں احباب کے ساتھ ایک نشست میں فرمایا:
‘‘1979ء میں روس افغانستان پر بھرپور حملہ کرے گا۔ وت روس ٹٹ جاسی تے منگ کے کھاسی (پھر روس ٹوٹ جائے گا اور مانگ کر کھائے گا)۔’’
            1975ء کی اس محفل میں اس وقت میجر غوث کے ساتھ میجر گلزار بھی تھے۔ حضرت جؒی کے اس دورے کے فوراً بعد سٹاف کالج میں ایک مینا بازار منعقد ہوا جس میں انہیں پامسٹ بننا پڑا۔ انہوں نے روس کے بارے میں حضرت جؒی کی پیشین گوئی میں رنگ آمیزی کی اور پامسٹری کے اسٹال پر بڑا سا پوسٹر لگا دیا:
THIRD WORLD WAR
1979
RUSSIA TAKES OVER AFGHANISTAN
WORLD UNITES TO FIGHT RUSSIA
RUSSIA BREAKS
THIRD WORLD WAR
            امریکی اور برطانوی آفیسرز اس پوسٹر میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔ پوچھنے لگے:
تم کیسے جانتے ہو؟
How do you Know?
جب یہ ہوگا تم دیکھ لو گے۔
You will see,
when it happens
یہ جنگ کون جیتے گا؟
Who will win this war?
یہ جنگ ہم جیتیں گے۔
We will win this war.
            آج روس کے بارے میں حضرت جؒی کے ارشاد کی تعبیر اقوامِ عالم کی تباہی کی داستانوں میں رقم ہو چکی ہے لیکن 1975ء میں سٹاف کالج کوئٹہ میں زیرِ تربیت امریکی اور برطانوی آفیسرز یقیناً اس مینا بازار کو یاد کرتے ہوں گے اور میجر گلزار کو بھی کہ اسے یہ خبر کس نے دی تھی؟
            کورس مکمل ہونے پر یہ افسران اہم ذمہ داریوں پر تعیّنات ہوئے اور افواج میں ترویجِ سلسلہ کا مؤثر ذریعہ بنے۔
            کچھ عرصہ بعد حضرت جؒی کھاریاں تشریف لائے تو روس کی افغانستان پر چڑھائی کی صورت سٹاف کالج میں حضرت جؒی کی پیشین گوئی کا ایک حصہ مکمل ہو چکا تھا۔ کھاریاں میں تعینات چند فوجی افسران آپؒ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے جن میں چار بریگیڈیئر صاحبان بھی تھے۔ ذکر و فکر کے موضوع پر بات چل رہی تھی۔ ایک بریگیڈیئر صاحب نے اچانک حضرت جؒی سے سوال کیا:
‘‘یہ سب محنت تو آپ کر رہے ہیں لیکن یہ سفید ہاتھی جو ہماری مغربی سرحدوں پر آ گیا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کر رہے ہیں؟’’
حضرت جؒی نے چند لمحے خاموشی اختیار کی اور پھر فرمایا:
‘‘ہمیں اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہیں۔ تم اپنا کام کرتے رہو، اللہ تعالیٰ اسے ختم کر دے گا۔’’
            یہ بریگیڈیئر صاحب اختلافِ رائے کا اظہار تو نہ کر سکے لیکن خندہ زن ہوئے۔ چند سال بعد  جب حالات نے پلٹا کھایا تو اُس محفل کے عینی شاہد کیپٹن حبیب اللہ نے انہیں یہ واقعہ یاد دلایا۔ کہنے لگے:
‘‘ہم تو مذاق کے موڈ میں تھے اور اس وقت یقین نہ تھا لیکن اب اپنی آنکھوں سے حضرت جؒی کی بات پوری ہوتے ہوئے دیکھ لی ہے۔’’

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو