آخری دورہ
1983ء
میں خرابی ٔ صحت کی بنا پر حضرت جؒی طویل دورے نہ فرماسکے۔ تاہم نومبر میں آپؒ
نے فیصل آباد، کراچی، ملتان، لاہور، اسلام آباد اور ضلع ہزارہ میں سم الٰہی منگ کا
پندرہ روزہ دورہ فرمایا جو آپؒ کی مبارک زندگی کا آخری دورہ ثابت ہوا۔ آپؒ 11 نومبر 1983ء
کو چکڑالہ سے فیصل آباد پہنچے۔ اگلے روز ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ساتھیوں کا اجتماع تھا۔
آپؒ نے یہاں بھی ایک رات قیام فرمایا اور اگلے روز فیصل آباد آگئے جہاں سے شام کی
فلائٹ کے ذریعے کراچی پہنچے۔
کراچی میں آپؒ کے چھ روزہ قیام میں ذکر و اذکار کے پروگرام
چلتے رہے۔ روزانہ نئے احباب ملاقات کے لئے آتے ۔ ایک روز قریباً ساٹھ نئے احباب نے
آپؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 14 نومبر کوایک آسٹریلین پی ایچ ڈی ڈاکٹر نے آپؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول
کیا اور آپؒ نے اس کا نام محمد عبداللہ رکھا۔
شاہ بلیغ الدین کی آپؒ سے دو
ملاقاتیں ہوئیں۔ عائشہ باوانی ٹرسٹ کے مولانا آصف نے ملاقات کی۔ اسماعیلی مذہب کے مشہور سکالر ڈاکٹر پنجوانی نے
آپؒ سے ملاقات کے دوران شمالی علاقہ جات میں اسرائیلی طرز پر ایک اسماعیلی ریاست قائم
کرنے کی درپردہ بیرونی سازش کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
19 نومبر کو حضرت جؒی کراچی سے ملتان پہنچے اور ساتھیوں کے ساتھ ایک
رات قیام فرمایا۔ یہیں پر آپؒ کو اپنے دیرینہ رفیق اور خادم بابا نور محمؒد کے
وصال کی اطلاع ملی تو تدفین کے لئے کھاوڑوں والی زمین میں جگہ کا تعین فرمایا۔ آپؒ
نے اس موقع پر موجود احباب کو بتایا کہ یہی جگہ آپؒ کی بھی جائے تدفین ہوگی۔ اس
وقت موجود احباب یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ یہ سانحہ عنقریب وقوع پذیر ہونے والا
ہے۔ اگلے روز لاہور تشریف لائے جہاں آپؒ کا دو روزہ قیام تھا۔
22 نومبر 1983ء
کو لاہور سے اسلام آباد آمد ہوئی۔ یہاں فضل کریم بٹ کے ہاں نہ صرف مقامی ساتھی بلکہ
دوسرے شہروں کے احباب کی اس قدر بڑی تعداد جمع تھی جو اس سے قبل راولپنڈی کے کسی
اجتماع میں نہ دیکھی گئی۔
علماء کے ساتھ آخری نشست
23 نومبر1983ء کو حضرت جؒی اسلام
آباد سے سم الٰہی منگ تشریف لے گئے ۔ جب آپؒ دریائے سرن پر سم الٰہی منگ کے پل کے
قریب پہنچے تو علمائے کرام اور علاقہ بھر سے آئے ہوئے لوگوں نے استقبال کیا۔ اس
دورہ کا مقصد مرحوم ہارون بادشاہ کے پس ماندگان سے اظہار ِتعزیت بھی تھا۔ آپؒ نے
مرحوم کو توجہ دی اور اقربیت تک اسباق طے کرائے جس پر اس نے حسرت کا اظہار کرتے
ہوئے کہا، اگر یہ سب معلوم ہوتا تو حضرت جؒی کا غلام بن کر تمام عمر آپؒ کی خدمت میں
گزارتا۔
اظہار
تعزیت کے بعد علماء کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک مولوی صاحب نے
سوال کیا کہ جب کوئی شخص کسی ایک پیر سے وابستہ ہو جاتا ہے تو پھر عمر بھر اس کی
صحبت میں گزار دیتا ہے لیکن بعض اوقات کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ اس عمومی طرز عمل
کے بارے میں آپؒ نے فرمایا:
‘‘صوفیائے کرام اسے شرک
سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ شخصیت پرستی ہے۔ ایک جاہل دوسرے جاہل کی کیا رہنمائی کرے
گا، اس لئے جاہل پیر کی بیعت حرام ہے۔’’
حضرت جؒی نے
اپنے متعلق فرمایا:
‘‘یہ کوئی رسمی یا روایتی
پیری مریدی یا گدی نشینی نہیں۔ میں نے اس کام میں بڑی مدت صرف کی اور صوفیاء کی یہ
جماعت بڑی محنت اور جانفشانی سے تیار کی ہے۔ میرا سارا کام اللہ کی رضا اور خالصتاً دین کے لئے ہے۔ اگر میرے
پاس دس کروڑ یا دس ارب بھی ہوں تو میرے دل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مجھے اس
دولت کی طرف بالکل رغبت نہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت ہے۔ میں نے تعلیم
و تدریس، تبلیغ و مناظرہ، تحریر و تصنیف، اور تربیت سلوک میں ہمیشہ رضائے باری
تعالیٰ ہی کو پیش نظر رکھا ہے۔
نہ
شیخی
و مشیخیت را طلبگار
نہ
اوراد و وظائف را خریدار
مجھے
جتنا رُوحانی فائدہ ہوا، سارے کا سارا ناموسِ صحابہ کرام ] کی حفاظت اور ان کی جوتیوں سے ملا ہے۔’’
ایک مولوی صاحب کے سوال پر کہ آپ کسی مشہور مذہبی اور سیاسی
جماعت سے وابستہ کیوں نہیں ہو جاتے، آپؒ نے فرمایا:
‘‘پاکستان بننے کے بعد مختلف جماعتوں نے اپنی
جانب سے دعوت دی۔ بڑی بڑی تنخواہوں اور مراعات کا لالچ دیا مگر میں اکیلا، تن تنہا
دین کا کام کرتا رہا۔ عالم ربانی کو سوائے اللہ کے، کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ تن
تنہا اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے۔ جس وقت تک اس کی ڈیوٹی ہے، اللہ اس کی حفاظت فرمائے گا۔ وہ ڈیوٹی پوری ہوئی تو پنشن دے کر بلا لیا
جائے گا۔ اہل اللہ اور علمائے ربانی کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی مخلوق کو جو اس سے کٹ چکی ہے، پھر اسی سے جوڑ دیا جائے۔ شریعتِ مطہرہ کی
تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ غیراللہ سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑ جاؤ،
اس کے ہو جاؤ۔ حضرت مولانا جامیؒ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آدمی
کو چاہیے کہ وہ ایسے کامل کی تلاش کرے جو اسے نیک نامی کے کوچے میں لے جائے اور ہر
نیکی میں اس کی امداد کرے۔ اگر ایسا کامل
رہبر کسی کو مل جائے تو پھر اس کے قدموں کی خاک بن جانا چاہیے۔ اس کے دامنِ دولت کو ہاتھ سے نہ چھوٹنے دے۔ ایسا
شخص جو سلوک کی منازل طے کرا دے، بڑی مشکل سے ملتا ہے اور پھر اس سے فائدہ اٹھانا
بھی ہر شخص کا کام نہیں۔’’
دنیاوی مصروفیات کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں
فرمایا:
‘‘میں اپنے کسی شاگرد کو دنیا کے کام کاج سے
نہیں روکتا خواہ وہ سلوک کے کیسے ہی منازل سے گزر رہا ہو۔ مختلف پیشوں کے لوگ اپنے
اپنے پیشہ کے مطابق کام کریں اور ملازمت پیشہ افراد اپنے فرائض ِمنصبی نہایت خوش
اسلوبی سے ادا کریں۔ صرف خرافات سے بچیں۔ صبح و شام گھنٹہ بھر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ذکر
الٰہی میں مصروف ہوں اور احکام شریعت مطہرہ کی پابندی کریں۔ حضورﷺ
نے اپنے صحابہ] کو کام کاج سے منع نہیں فرمایا، صرف ان پیشوں
سے روکا جو شرعاً ناجائز ہیں۔’’
ایک مولوی صاحب نے پوچھا کیا راہِ سلوک کے لئےشیخ کی
ضرورت ہے؟ حضرت جؒی فرمانے لگے:
‘‘لسانی اذکار اور عبادات نافلہ کی بجا آوری کے
لئے صرف جاننا کافی ہے۔ کسی شیخ مقتداء کی
تربیت و صحبت کی ضرورت نہیں لیکن راہِ سلوک میں بغیر شیخ کامل کی توجہ کے چلنا
محال ہے۔ مقامِ احدیت پچاس ہزار سال کی مسافت ہے، دنیا کی تو اتنی عمر نہیں۔ لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ شاید تسبیحات و اذکار کی خاص تعداد پڑھ لینے یا خاص خاص اوراد و
وظائف پورا کر لینے سے ہی سلوک کے مقامات حاصل ہو جائیں گے۔ مخلوق خدا کو دھوکے میں
نہ رکھیں۔ صاف کہہ دیں ہم سلوک سے واقف نہیں، کسی کامل کی تلاش کریں۔ یہ درست ہے
کہ تسبیحات اور اوراد و وظائف کا پڑھنا نیکی ہے اور کارِ ثواب ہے۔ جن امور کا تعلق
علوم سے ہے انہیں تو ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ اس میں مومن و کافر کی تخصیص نہیں۔
کفار بھی دینِ اسلام پر اعتراض کی غرض سے علوم سیکھتے ہیں لیکن ان علوم کے ساتھ انوارِ نبوت کا جمع کرنا یہ مومن
متقی کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ میرے پاس جو لوگ آتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ
ان کے بارے مجھ سے پوچھا جائے گا۔ اس لئے میں خطوط کے جوابات میں اور ملاقاتیوں سے
بھی یہی کہتا ہوں کہ اتباع شریعت، اتباع سنت، نماز کی پابندی، حلال و حرام کی تمیز،
ذکر اللہ دوام کی تلقین کرو۔ ہماری ہمیشہ
کوشش ہوتی ہے کہ اللہ کریم سلف صالحین
کے راستے سے نہ ہٹائے۔ صحابہ کرام] ، تبع تابعین، سلف صالحین کا
راستہ ہی صراط مستقیم ہے، اسی راستے
پر چلو۔’’
ایک مولانا نے علوم باطنیہ کی سند کے بارے میں دریافت
کیا تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘جس طرح علومِ ظاہریہ تواتر کے ساتھ ہمیں
پہنچے اسی طرح پیغمبرﷺ کے علومِ باطنیہ (اسرار و معارف) بھی ہمیں تواتر کے ساتھ
پہنچے ہیں۔ یہ معاملہ بڑا نازک ہے۔ ساری جماعت غور سے سن لے، اتباع شریعت آقائے
نامدارﷺ کے بغیر کوئی چیز نہیں مل
سکتی۔ وہ لوگ جاہل و مجہول اور گمراہ ہیں جو یہ کہتے ہیں، شریعت اور چیز ہے اور طریقت
اور ہے۔ شریعت کا نچوڑ تصوف اور احسان ہے، شریعت بیج کی مانند ہے اور طریقت اس
کا ثمر۔ جب بیج ہی نہ ہوگا تو پھل کہاں سے آئے گا۔’’
ایک سوال کے جواب میں فرمایا:
‘‘امام
احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا گیا کہ متأخرین کی نسبت صحابہ کرام] سے کرامات کا ظہور کم کیوں ہوا؟ جواب دیا کہ
صحابہ کرام] سے کرامات کی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ تو نبوت کے
رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام] کے دور میں انوارِ نبوت جلوہ فگن تھے۔ خورشیدِ
نبوت کی موجودگی میں چراغوں کی کیا ضرورت تھی! چراغ اندھیرے میں جلائے جاتے ہیں،
دن میں روشن نہیں کئے جاتے۔ صحابہ کرام] کا وجود ہی بذات خود ایک کرامت کا درجہ رکھتا
تھا لیکن یہ حقیقت بھی اپنے مقام پر ناقابل تردید ہے کہ صحابہ کرام] سے بکثرت کرامات کا ظہور ہوا۔’’
بالاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک قاضی صاحب کے سوال
کے جواب میں ارشاد فرمایا:
‘‘اِنَّ الْمُلُوكَ اِذَا
دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوهَا (نمل۔34)
صوفیائے کرام اس آیت کی یہ بھی تعبیر لیتے ہیں کہ انسان اپنے بدن اور دل کو ایک
ملک یا سلطنت تصور کرے۔ اس میں حُبِّ جاہ، حُبِّ مال و حسد و تکبر، وغیرہ وغیرہ ہر
قسم کی برائیاں موجود ہیں اور یہ سب اپنے اپنے مقام پر خود مختار، حاکم یا بادشاہ
بنے ہوئے ہیں لیکن جس وقت رب العالمین کا ذکر اس ملک (یعنی دل) میں داخل ہوتا ہے
اور ان پر حملہ آور ہوتا ہے تو انہیں ذلیل کر کے وہاں سے نکال دیتا ہے۔ اپنے آپ تو
کوئی اپنے ملک و طن،مال و جاہ کو نہیں چھوڑتا، اس کے لئے جہاد او رمجاہدہ کرنا
پڑتا ہے۔ اسی لئے صوفیاء فرماتے ہیں کہ جب تک لطائف پر پورا مجاہدہ نہ کیا جائے دل
سے یہ چیز نہیں نکلتی۔ سلسلۂ عالیہ میں بھی ترقی اس کو ملتی ہے جو مجاہدہ زیادہ
کرتا ہے۔ تزکیۂ باطن کے دو رکن ہیں: (1)خلوص
دل اور ریاضت و مجاہدہ (2) مکمل
اتباع شریعت۔ کمالات کے دروازے بند ہو چکے ہیں سوائے اتباع محمدیﷺ کے کوئی دروازہ
کھلا ہوا نہیں ہے۔ گوہر مراد حضورﷺ کی اتباع اور آپﷺ کی جوتیوں
کے صدقہ سے ملتا ہے۔ تزکیہ حاصل کیے بغیر خواہ کتنا ہی بڑا عالم ہو، اس کے علم میں
پختگی نہیں پیدا ہوتی۔ جب تک وہ اللہ اللہ کرنے
والا نہ ہو حرام حلال کی تمیز نہیں کر سکتا، صرف بیان کر سکتا ہے کہ یہ چیز حلال
ہے اور یہ حرام ہے۔ یہ چیز نورِ نبوت سے اکتساب فیض کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ذکر
الٰہی جب پوری طرح قلب میں راسخ ہو جائے تو پھر کسی طرح بھی رذائل اس میں نہیں رہ سکتے۔ مختصراً یوں سمجھئے
کہ دل ایک ہے، دوسرا نہیں، رب
العالمین کسی غیر کو اس میں دیکھنا پسند نہیں کرتا۔’’
شنکیاری
سے آئے ہوئے علمائے کرام کی ایک جماعت نے متعدد سوالات کئے اور حضرت جؒی بغیر کسی
توقف کے نایاب کتب کے حوالہ جات اور صفحات تک کی نشاندہی کرتے ہوئے مسائل کے جواب
دیتے رہے۔ ایک سوال کے جواب میں فرمانے لگے:
‘‘میرا اَصل مقصد اصلاحِ
خلق ہے اور تجربہ کر کے دیکھا گیا ہے کہ بغیر ذکرِ الٰہی کے اصلاحِ
نفس مشکل ہے۔ اس طریق ذکر سے ان کی قدرے اصلاحِ ہو جاتی ہے۔ ادنیٰ درجۂ احسان اور اصلاح و تزکیہ حاصل ہو
جائے تو نجات کی پوری امید ہے۔ یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ زمانہ حال میں یہ لوگ شیخ
عبدالقادر جیلانیؒ اور بایزید بسطامؒی تو نہیں بنتے لیکن نمازی بن جاتے ہیں، تہجد
گزار بن جاتے ہیں، کبائر سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ احکامِ خداوندی اور فرامینِ رسالتﷺ
کی عزت اور قدر ان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔
جنت
میں جانے کا سبب دو ہی چیزیں ہیں، اللہ کے احکام اور اوامرو نواہی کی دل میں تعظیم
و عزت ہو اور اس کی مخلوق کے لئے دل میں شفقت ہو۔ اللہ کی مخلوق پر سب سے بڑی شفقت یہ ہے کہ انہیں اُخروی عذاب
سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ احکامِ الٰہی کا پابند بنایا جائے۔ اَلْحَمْدُ
لِلّٰه یہ دونوں چیزیں ذکرِ
الٰہی کی برکت سے پیدا ہوتی ہیں۔
سینکڑوں متکبر اعلیٰ دنیوی مناصب پر فائز حضرات
کو حلقۂ ذکر میں داخل کیا گیا اور ان کی گردنوں میں ذکرِ الٰہی کی رسی ڈالی گئی
تو ان کی گردنیں بارگاہ ِالٰہی میں جھک گئیں۔ اطاعتِ رسولﷺ کے سامنے موم بن گئے۔ بارگاہِ خداوندی
میں سربسجود ہوئے۔ شراب خانوں کو لات ماری، بدکاری گئی، سگریٹ نوشی ختم، فلمیں، تھیٔٹر
اور کلب گھروں کو خیر باد کہا۔ ریشمی گدیلے ترک اور مسجد کی چٹائیوں پر جا لیٹے۔
داڑھی کی پابندی نصیب ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ ذکر کی برکات سے عقائد درست ہوئے۔
عبادات کی پابندی ہوئی۔ معاملات کی درستگی اور حرام سے دُوری کی کوشش ہونے لگی بعض
لوگ جنہوں نے حلقۂ ذکر میں شامل ہونے سے پہلے رشوت لی تھی، اس کا حساب کر کے رشوت
کی ساری رقم واپس کر دی۔ یہ تمام برکات ذکرِِ الٰہی کی ہیں۔ اولیاء کرام کی
صحبت اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک مجرب ذریعہ ہے۔ اولیاء اللہ سے دشمنی، خدا سے
دشمنی ہے۔ حضرت تھانویؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا، اولیاء اللہ سے
دشمنی کفر تو نہیں مگر توہین کرنے والے مرتے کفر پر ہیں۔’’
ابھی
یہ محفل جاری تھی کہ مؤذن نے ظہر کی اذان کہی تو سوالات کا سلسلہ بند ہوا
اور حضرت جؒی نے احباب کو پند و نصائح سے نوازا:
‘‘نماز کی پابندی پوری پوری کرنی چاہیے۔ اس کے
بعد پیٹ کو حرام لقمہ سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں۔ زبان کو جھوٹ سے بچائیں۔ نفی
اثبات لسانی ذکر لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کثرت سے چلتے پھرتے
اٹھتے بیٹھتے کریں۔ حضورﷺ پر کثرت سے درُود
شریف پڑھیں، ایک تسبیح استغفار کی روزانہ ضرور پڑھیں۔ درُود شریف کی کثرت سے
رزق میں فراخی حاصل ہو گی اور مصائب میں کمی ہوگی۔ زندگی کو غنیمت جانو، قضا شدہ
نمازوں کو لوٹاؤ، معاملات کی اصلاح کرو۔ میں رواجی قسم کا پیر نہیں ہوں، اپنا بوجھ
نہیں اٹھا سکتا تو دوسروں کا کیسے اٹھاؤں گا!’’
نماز
ظہر کی ادائیگی اور کھانے کے بعد علماء کے ساتھ حضرت جؒی کی محفل جاری رہی۔ اس
نشست میں علماء کے اکثر سوالات ‘‘حیات النبیﷺ’’ ، ‘‘حیات برزخیہ’’ اور ‘‘جسم مثالی’’ کے موضوع پر تھے۔ اس علاقہ میں
اس مکتبہ فکر کے علماء کافی تعداد میں ہیں جو عقیدۂ حیات النبیﷺ کے خلاف سرگرم تھے۔
حاضرین چونکہ علماء تھے، حضرت جؒی نے علمی دلائل کے ساتھ ان مسائل پر گفتگو فرمائی۔
ایک مولانا نے سوال کیا، حضرت! یہ جو یار لوگوں نے جسم مثالی کا ایک شاخسانہ چھوڑا
ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ آپؒ نے فرمایا:
‘‘جسم مثالی کے سلسلے میں جو کچھ یہ لوگ کہتے
ہیں اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اعمال تو اعمال، ایمان بھی اس طوفان کی
نذر ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ رسالت و نبوت رُوح کی صفت ہے یا
جسم کی یا رُوح مع الجسد کی؟ یہ کہتے ہیں کہ یہ صفت رُوح کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ
جب ان کے قول کے مطابق رُوح جسم مثالی میں چلی گئی تو جسدِ محمد رسول اللہﷺ
تو خالی رہ گیا مگر کس سے خالی رہا۔ ذرا کلیجہ تھام کر جواب دیجئے، نبوت اور
رسالت سے خالی ہوگیا۔ یعنی جو محمد رسول اللہﷺ
جسد مع الرُوح خاتم النبیّین تھے، وہ خاتم النبیّین
نہ رہے بلکہ نبوت و رسالت جسم مثالی میں منتقل ہوگئی (معاذ اللہ)۔ پھر یہ کہ جسم مثالی جسد محمد رسول اللہﷺ سے افضل ہو گیا،
بلکہ افضل کے مقابلے میں مفضول کی بھی کچھ حیثیت تو ہوتی ہے، ان کے قول کے مطابق جسدِ محمد رسول اللہﷺ فضول ہی ہوا (معاذ اللہ)۔ بات یہیں
ختم نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اس نَو ایجاد عقیدہ کو اپنی ذات تک محدود نہیں
رکھتے بلکہ فتویٰ کی صورت میں تکرار کرتے ہیں کہ جو شخص‘‘ حیاتِ انبیاء ’’ کا عقیدہ
رکھتا ہے، وہ مشرک ہے۔’’
حضرت جؒی نے تکفیر بازی کے رجحان کی سختی سے تردید
کرتے ہوئے اس ضمن میں فرمایا:
‘‘علمائے
ربانی نے اس قسم کا فتویٰ دینے سے پرہیز کرنے کے لئے بڑی تاکید کی ہے ۔ یہ کام اس
عالم کا ہے جو فقہ میں مہارت تامہ رکھتا ہو اور خوب چھان بین کرنے کے بعد اگر ضروری
سمجھے تو کسی کے متعلق کفر کا فتویٰ دے مگر یہ لوگ تو ایسے جری ہیں کہ ان کا مبلغ علم
خواہ اردو کی چند کتابوں تک ہی محدود ہو، کفر کا فتویٰ دینے کے لئے ان کی زبان قینچی
کی طرح چلتی ہے۔
ہمارے متقدمین فقہائے کرام نے عقائد، عبادات،
معاملات اور اخلاق یعنی دین کے ہر شعبے میں تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے لیکن اس کے
مقابلے میں یہ لوگ بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ ھُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَال
بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ قرآن فہمی میں ہم ان لوگوں سے کہیں آگے ہیں۔ یعنی
اہل حق و اہل ورع تقویٰ علمائے کرام نے قرآن سمجھا ہی نہیں اور یہ جو زکوٰة کے
ٹکڑوں اور قربانی کی کھالوں کی آمدنی پر پلے بڑھے ہیں، ان کو زیادہ بصیرت حاصل ہو
گئی ہے اور قرآن حکیم کی دولاکھ سے زائد تفسیریں درخور اعتناء ہی نہیں۔ یہ اسی
قرآن فہمی کے کرشمے ہیں کہ ملک میں جوزکوٰة و عشر کا قانون لاگو ہوا، اس کا م حمد رسول اللہﷺ سے کوئی تعلق نہیں۔ لادینی سیاست
کے تقاضے خواہ کچھ بھی ہوں، احکام الٰہی
کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دینا مناسب نہیں۔
جزا و سزا کے سلسلے میں یہ لوگ گل فشانیاں
کرتے ہیں۔ جزا و سزا کے لئے یہ شرط نہیں کہ جسم کی یہ ہیئت رہے جسم خواہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے متاثر ضرور ہوگا۔ حضرت ابراہیمu
کے واقعہ میں دیکھ لیجئے! مختلف پہاڑوں پر مختلف پرندوں کے اجزاء رکھوا کے
حکم دیا اب انہیں بلائیے یعنی جس کو آپ بلائیں گے اس کے اجزاء جہاں بھی ہوں گے’ آپ
کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے آئیں گے مگر یہ لوگ جو عقیدہ تیار کئے بیٹھے ہیں، یہ تو
ہندوؤں کا عقیدہ ہے۔ نئے نئے عقیدے ایجاد کر لینا اسلام نہیں، اسلام تو وہ ہے جو
نبی کریمﷺ نے اللہ کریم سے سیکھا، حضور اکرمﷺ
نے صحابہ کرام] کو سکھایا،
ان سے تابعین نے سیکھا اور ان سے تبع تابعین نے سیکھا۔ یوں نسلاً بعد نسل حضور اکرمﷺ
سے نقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا۔ اگر خیر القرون سے اعتماد
اٹھ جائے تو اسلام نہیں ملے گا۔ اسلام کے لیبل
کے ساتھ کفر کی بے شمار صورتیں ہو سکتی ہیں۔ میں مشورہ کے طور پر کہتا ہوں
کہ ہر مولوی کے پاس چار تفسیریں ضرور ہونی چاہیے: ابن کثیر، ابوسعود، تفسیر کبیر اور رُوح المعانی۔ ان
حضرات نے دین کا کوئی پہلو، کوئی شعبہ تشنہ نہیں چھوڑا۔’’
ایک مولوی صاحب نے جو بالا کوٹ سے آئے تھے، سوال کیا، یہ
حضرات کہتے ہیں کہ ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، اس سے کوئی شخص حتیٰ کہ نبی بھی
مستثنیٰ نہیں۔ پھر‘‘ حیات النبیﷺ’’ کی ترکیب
کہاں سے آئی؟ آپؒ نے اس کے جواب میں فرمایا:
‘‘کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ
الْمَوْتِ ہی پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آجاتی ہے جس سے
موت و حیات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں دو چیزوں کا بیان ہے، ایک ذائق اور
دوسرا مذوق، ایک چکھنے والا اور دوسرا جسے چکھا گیا ہو۔ اس میں نفس ذائق ہے، مذوق
موت۔ اب آپ بتائیں کہ جب آپ کسی چیز کو چکھتے ہیں تو کیا اس کا نتیجہ یہ نہیں
ہوتا کہ چکھنے والا باقی رہتا ہے اور وہ چیز معدوم ہو جاتی ہے جسے چکھا گیا ہو یعنی
ذائق باقی رہتا ہے اور مذوق فنا ہوجاتا ہے۔ اس اصول کو اس آیت کے مفہوم پر
منطبق کر کے دیکھئے! صاف ظاہر ہے کہ ذائق یعنی نفس کو فنا نہیں، مذوق یعنی موت کو
آخر فنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کو تو ہر شخص زود یا بدیر چھوڑ ہی دیتا ہے
مگر اس چھوڑ دینے کو فنا کہیں تو قرآن مجید کی وہ سینکڑوں آیتیں جو برزخی زندگی پر
دال ہیں، انہیں کیا آپ قران مجید سے نکال دیں گے۔ برزخی زندگی کے بازرے میں اختلافِ
امت کا نشان نہیں ملتا۔ قرآن مجید کی آیات، متواتر روایات اور اتفاقِ امت اس حقیقت
پر شاہد ہیں۔
اس
اختلاف کی ابتداء 445ھ میں ہوئی۔ اسلام کی
ابتدائی ساڑھے چار صدیوں میں برزخی زندگی میں کسی اختلاف کا نشان نہیں ملتا۔ سلجوقی
وزیر بیکندی نے 445ھ میں برزخی زندگی کے
انکار کی مہم چلائی۔ اس کے بعد کرامیہ نے اس کو اپنا لیا۔
کرامیہ بھی من حیث القوم ‘‘مماتی عقیدہ’’ نہیں رکھتے تھے۔
علامہ قشیریؒ نے ایک رسالہ لکھا ‘‘شکوۂ اہلسنت و الجماعت’’ اس میں انہوں نے تصریح
کر دی کہ من حیث الکُل کرامیہ کا یہ
عقیدہ نہیں تھا بلکہ کرامیہ ہی کے ایک گروہ نے اپنا لیا اور اس کی تشہیر کی۔ امام
سبکی کے بعد یہ مسئلہ دب گیا اور اب ہمارے عہد میں پھر اس کا احیاء کیا گیا اور اس
شدت سے اس کا پروپیگنڈا کیا گیا، گویا اصل دین یہی عقیدہ ہے۔
میں
ایک دفعہ ملتان گیا، ایک مولوی صاحب آئے اور اِنَّکَ
لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی اور اسی قبیل کی دوسری آیات پڑھ کر سنانے
لگے۔ میں نے پوچھا مولانا ذرا غور تو کریں، کیا یہ آیات موت پر دلالت کرتی ہیں؟ جو
مفہوم آپ لے رہے ہیں، وہی سمجھاجائے تو چشمِ تصور کے سامنے یہ منظر آتا ہے کہ
حضور اکرمﷺ قبرستانوں میں جا کر
مردوں کو تبلیغ کیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرمﷺ
کو بتایا کہ آپﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ جس کا
مطلب یہ ہوا کہ جس ہستی کو ربِِ کریم نے قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لئے ہادی
بنا کر بھیجا اس کو معاذ اللہ اتنی بھی سمجھ نہیں کہ تبلیغ مُردوں کو کرنی ہے یا
زندوں کو! اس سے بڑھ کر نبی کریمﷺ کی توہین
کی کوئی اور صورت بھی ہوسکتی ہے!
پھر انہوں نے بریلوی دیوبندی اختلاف کا مسئلہ چھیڑ
دیا۔ میں نے کہا، میں اس مسئلہ میں کبھی دخل نہیں دیتا کیونکہ میں بزدل ہوں۔ وہ
کہنے لگے وہ کیسے؟ میں نے کہا بس ایسے کہ یہ بحث کرنا دلیر آدمی کا کام ہے کیونکہ
ایک طرف کے انتہا پسندوں نے اللہ کے پلے میں کچھ نہیں چھوڑا اور دوسری طرف کے
بہادروں نے رسول اللہﷺ کے پاس کچھ نہیں چھوڑا۔ لہٰذا یہ اسی
سورما کا کام ہے جسے نہ خدا کی پرواہ نہ رسولﷺ
کی۔ میں بزدل ہوں لہٰذا اس بحث میں پڑتا ہی نہیں۔
دلائل کی تین قسمیں ہیں: نقلی، عقلی اور ذوقی۔ اللہ
کے فضل و کرم سے حیاتُ النبیﷺ کے سلسلے میں ہمارے پاس تینوں قسم کے دلائل
موجود ہیں پھر ان میں ذوقی دلائل کی حیثیت بھی عجیب ہوتی ہے۔ فرض کیجئے! ٹھیک دوپہر کے وقت دس اندھے ایک بینا کو دلائل دینے
لگیں کہ یہ رات کا وقت ہے تو کیا ان کے دلائل سن کر وہ اپنی سر کی آنکھوں کے سامنے
چمکتے ہوئے سورج کا انکار کر دے گا۔ یقیناً نہیں، تو میں حیاتِ برزخی کا انکار کیسے
کردوں جب کہ میں خود اہل برزخ کو دیکھتا ہوں، ان سے باتیں کرتا ہوں! یہ اندھے ایک دو تین نہیں، سینکڑوں بھی آجائیں تو میں ان
کی بات کیونکر مان لوں! پھر یہ لوگ ظلم یہ کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کو کفر و ایمان کا
مدار علیہ قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے ایک پہلوان نے دورانِ تقریب یہاں
تک کہہ دیا تھا کہ اگر ابوبکر صدیقt بھی حیاتُ
النبیﷺ کا قائل ہو تو وہ بھی مشرک ہے۔ (اَلْعَیَّاذ
بِاللّٰہ)۔
ان
کی اسی انتہا پسندی اور بدتمیزی کی وجہ سے ہمیں حق واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی
اور اس مسئلہ پر چار کتابیں لکھ دیں۔ نہایت دکھ کی بات ہے کہ ملک میں دو وبائیں اس
زور سے پھیل رہی ہیں کہ باید و شاید۔ ایک طرف خارجیت ہے اور ان کا سارا زوراس بات
پر ہے کہ یزید کو علیہ السلام کہو اور دوسری طرف یہ مماتی ہیں کہ دیوبندی کا لیبل
لگا کر تمام اکابر دیوبند کو مشرک کہتے ہیں۔ ان کا سارا زور اسی بات پر ہے کہ نبی
مر کے مٹی ہوگئے (معاذاللہ) اور جو یہ نہ مانے وہ کافر، مشرک۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ
اہل کوفہ نے ہزاروں خطوط لکھ کر حضرت حسینt کو کوفے بلایا
اور کوفہ ان کا اپنا گھر تھا۔ پھر انہی بلانے
والوں نے آپt کا راستہ روک دیا اور خود ان
لوگوں نے جنہوں نے خط لکھ کر بلایا تھا’ اپنے ہاتھوں سے شہید کیا۔ یہ درست ہے کہ شیعوں
کی کتابوں سے یزید کی برأت ثابت ہوتی ہے مگر اہل سنت و الجماعت کا مؤقف ان سے
بالکل مختلف ہے’ مثلاً امام احمد بن حنبلؒ یزید کو کافر کہتے ہیں’ قاضی ثناء اللہ ؒپانی
پتی ‘‘تفسیر مظہری’’ میں اس کو کافر لکھتے ہیں۔ علامہ قرطبیؒ نے کافر لکھا ہے’ شاہ
ولی اللہ محدث دہلویؒ اسے غالی را
فی الضلال لکھتے ہیں۔ علامہ وزیر خان ‘‘الروض الباسط’’ میں لکھتے ہیں کہ امام
ابوحنیفہؒ اسے مردُود لکھتے ہیں۔ امام مالکؒ اس کو ابلیس لکھتے ہیں۔ امام شافعیؒ
اسے شیطان لکھتے ہیں۔
ذوقی
دلیل کے سلسلے میں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ کشف و الہامِ ولی، مظہرِ احکام
ہے، مثبت احکام نہیں۔ یعنی شریعت کے احکام وہی ہیں جو قرآن و سنت سے ظاہر ہیں۔ کوئی
نیا حکم وضع نہیں ہوگا، ہاں احکام کے اسرار و رموز اس سے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ زرقانی
چھٹی جلد میں اس کی حیثیت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ کشف و
الہام مثبت احکام نہیں لہٰذا شریعت کے احکام وہی ہیں اور عمل انہی پر ہوگا جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ حضوراکرمﷺ
کی رُوح پرفتوح سے جو بات معلوم ہو اس سے شریعت کے احکام نہیں بدلیں گے۔ اسی
طرح اگر کوئی شخص کشفی طور پر حضور
اکرمﷺ کی زیارت کرتا ہے، وہ
صحابی نہیں بن جاتا کیونکہ صحابیت کے لئے جانبین کا مکّلف ہونا، دنیا میں موجود
ہونا اور دیکھنے والوں کا باایمان ہونا شرط ہے۔
حیات النبیﷺ کا مسئلہ ایسی حقیقت ہے جسے وہ
علمائے کرام تسلیم کر چکے ہیں جو ہمارے لئے مشعل ہدایت ہیں، مثلاً شاہ ولی اللہ
دہلویؒ،عبدالعزیز دہلویؒ، امام ربانی مجدد الف ثانؒی، مولانا رشید احمد گنگوہؒی، مولانا محمد قاسم
نانوتویؒ، مولانا حسین احمد مدنؒی،مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ۔
تمام اکابر دیوبند بلااختلاف اس مسئلہ پر متفق ہیں تو ان کے مقابلے میں قل اعُوذیوں کی حیثیت ہی کیا ہے! شاہ ولی اللہؒ
وہ ہستی ہیں کہ ان کا علم ایک پلڑے میں رکھا جائے اور براعظم کے تمام اکابر علماء
کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو شاہ صاحؒب کا پلڑا بھاری ہوگا۔ان کی کتابیں ‘‘انتباہ
فی سلاسل اولیاء اللہ’’ ‘‘تفہیمات’’ ، ‘‘ الفوزالکبیر’’ ، ‘‘خیرِ کثیر’’ دیکھئے۔
تفسیر میں وہ فرماتے ہیں، میں نے سارا قرآن نبی کریمﷺ سے پڑھا ہے، میں سیّد اویسی
ہوں۔ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فرمایا، میرے چند برس ایسے گزرے ہیں کہ میں نبی
کریمﷺ سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ مولانا انور شاہؒ سے گوجرانوالہ کے مولوی محمد چراؒغ نے سوال کِیا،
کیا اہلِ قبور سے اخذ ِفیض ہو سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا، محدثین نہیں مانتے لیکن میں
قائل ہوں۔
ہر
فن میں ماہر فن کی بات ہی سند ہوتی ہے۔ اس فن یعنی اجرائے فیض اور اخذِ فیض کے فن کے ماہر صوفیائے کرام ہی ہیں۔
ان میں وہ حضرات جو علم کے ستون ہیں، جب
وہ کہتے ہیں تو انکار کی مجال کس کو ہے!
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ‘‘تفہیمات الٰہیہ’’ اور ‘‘فیوض
الحرمین’’ میں تذکرہ کیا ہے کہ انہوں نے عالمِ بیداری میں حضورﷺ
سے بیعت کی اور فقہی مکاتب فکر، سلاسلِ
تصوف اور تقلید کے بارے میں رہنمائی حاصل کی۔ اسی طرح چھٹی صدی میں سیّد احمد رفاعؒی کا واقعہ پیش آیا’ نوّے ہزار
آدمی اس وقت موجود تھے جب قبر مبارک سے حضور اکرمﷺ
نے ہاتھ باہر نکالا اور سید احمد رفاعؒی نے بوسہ دیا۔ اسی قسم کا واقعہ اعظم شاہ بنوریؒ اور مولانا مدنیؒ کا ہے۔ غرض اکابر دیوبند میں کوئی ایک صاحب بھی
ان مماتیوں کے عقیدے کا نہیں۔ تمام علمائے دیوبند‘‘حیات النبیﷺ’’
اور‘‘حیات برزخیہ ’’کے قائل ہیں۔
جسم مثالی کی ترکیب ایجاد کر کے ان
لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور دوسروں کو گمراہ کیا جس کی اصل یہ ہے کہ قبر میں رُوح کی
شکل بعینہٖ وہی ہوتی ہے جو جسم کی ہوتی ہے یعنی رُوح کی یہ صورت مثالی ہوتی ہے۔
حضرت انور شاہ صاحؒب نے بھی یہی فرمایا ہے۔ رُوح پیدائشی طور پر عاقل بالغ ہوتی
ہے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے جواب میں ارواح کا بَلٰی کہنا اس کی بیّن دلیل
ہے۔ ہاں! جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو رُوح کو بدن کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ فلاسفہ نے
اس سے اختلاف کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ تخلیق مادے سے کی گئی۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ
صورتیں تھیں۔ صورت کا عند اللہ وجود ہوتا ہے جیسے انجینئر کے ذہن میں عمارت کی
صورت موجود ہوتی ہے، اسی کے مطابق وہ نقشہ بناتا ہے، پھر مکان تعمیر ہوتا ہے۔ اسی
بنا پر ہم کہتے ہیں کہ بچہ اگر کافر کا بھی ہے اور بلوغت سے پہلے وہ مر جائے تو وہ
کافر نہیں کیونکہ رُوح نے جو بَلٰی کہا تھا اس کا اقرار
ابھی تک اس کے ساتھ ہے۔ کل مولد یولد علی فطرتہ اسی حقیقت کا بیان ہے۔
جسم مثالی کا دھوکہ ایک اور وجہ سے بھی ہوا، وہ یہ کہ قبر میں رُوح نظر آتی ہے،
بدن نظر نہیں آتا اور رُوح کی شکل بالکل بدن کی طرح ہوتی ہے۔ غلطی سے سمجھ لیا گیا
کہ رُوح کو جسم مثالی مل گیا ہے۔ دین وہ ہے جو حضور اکرمﷺ نے صحابہ] کو سکھایا، حدیث وہ ہے جو دنیوی زندگی میں حضورِ
اکرمﷺ کی زبان مبارک سے نکلی۔
رہی بات رُوح اور باطنی دولت کی تو رُوح زندہ ہے۔ اس کا تعلق من
وجہ دنیا کے ساتھ ہے اور من وجہ آخرت کے ساتھ ہے۔ اسی
وجہ سے جب ایصال ثواب کیا جائے تو ان کو ملتا ہے۔ رُوح کا تعلق دنیا سے اس وقت
منقطع ہوگا جب پل صراط سے گزرے گی۔
عصر کی اذان کے ساتھ یہ طویل علمی محفل برخواست ہوئی اور
علماء نے نماز کی ادائیگی کے بعد حضرت جؒی سے اجازت لی۔
24 نومبر کو اسلام آباد واپسی ہوئی۔ حضرت جؒی کی آمد پر اسلام آباد میں
فضل کریم بٹ کے ہاں ایک بہت بڑے اجتماع کا سماں تھا۔ اگلے روز مسجد سول لائنز میں
حضرت امیر المکرم کا جمعہ کا خطاب تھا جس کے بعد دور دور سے آئے ہوئے احباب کی
واپسی ہوئی۔ حضرت جؒی نے 25-26 نومبر کی رات اسلام آباد میں بسر کی۔ عشاء کے بعد اجتماعی ذکر ہوا
جس کے دوران آپؒ انتہائی رقت کے ساتھ آیات ِقرآنی اور اشعار پڑھتے رہے۔ حضرت جؒی
بٹ صاحب کے ہاں اپنے مخصوص کمرے میں ذکر کرارہے تھے جہاں آپؒ کے ساتھ قریباً تیس
احباب تھے جبکہ ہال کمرہ ساتھیوں سے بھرا ہوا تھا۔
مراقبۂ دربار ِنبویﷺ کے دوران حضرت جؒی
نے راقم کا نام لے کر آگے بڑھنے کے لئے فرمایا۔ یہ آپؒ کی وساطت سے دربار ِنبویﷺ میں کسی شخص کی آخری حاضری
تھی۔ حضرت جؒی ساتھ ساتھ اس حاضری کی کیفیات بیان فرما رہے تھے۔ اس قدر شفقت فرمائی
گئی کہ بیان سے باہر ہے، حتیٰ کہ اس گنہگار کو ردائے رحمت کے نیچے چھپا لیا گیا۔
اُن
کا کرم بس اُن کا کرم ہے اُن
کے کرم کی بات نہ پوچھو!
حضرت جؒی نے فرمایا! ‘‘خدا خبر، کیا بات ہے؟’’ دُعا
ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے پر بھی اسی دامنِ رحمت میں چھپا لیا جائے۔
تہجد کے ذکر میں حضرت جؒی بالکل خاموش رہے۔
اسباق تبدیل فرمانے کے لئے صرف اگلے سبق کا نام لیتے جسے ایک صاحب مجاز ہال کمرے میں
ساتھیوں کے لئے دہراتے رہے۔ تہجد کے ذکر کا انداز یکسر مختلف تھا۔ حضرت جؒی نے
اپنے معمول کی بجائے آیات تلاوت کیں نہ اشعار پڑھے، صرف اسباق تبدیل کراتے رہے۔ یہ
انتہائی خاموش، پرسکون، کیفیات سے بھرپور اور مکمل یکسوئی کے ساتھ ذکر تھا۔ دم
ِآخریں توجہ مکمل طور پر رفیق اعلیٰ کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد میں حضرت
جؒی کے اس آخری ذکر میں کچھ یہی کیفیت نظر آرہی تھی۔
خیال
رہے کہ حضرت جؒی کی عمر اس وقت قریباً اسی سال تھی اور صحت اس قدر خراب کہ گاڑی میں
جھٹکے لگنے سے اختلاج ِقلب کی شکایت ہوجاتی اور تھکاوٹ سے بخار شروع ہوجاتا لیکن
آپؒ کے یہ سفر جن کی ادھوری جھلک ان اوراق میں پیش کی گئی، اس بات کا احساس دلا تے
ہیں کہ آپؒ نے آخر عمر تک اپنے آرام اور صحت کا خیال کئے بغیر اپنی تمام صلاحیتوں
کو ساتھیوں کی تربیت اور باالخصوص عقیدۂ حیاتُ النبیﷺ کے دفاع کے لئے وقف کر رکھا
تھا۔ حضرت جؒی نے اپنے سفر مسلسل کے متعلق ارشاد فرمایا:
‘‘میں جتنی کوشش کر رہا
ہوں رات دن، یہ اس واسطے ہے، میری یہ عمر نہیں کہ باہر سفر میں دھکے کھا رہا ہوں، یہ
محض اس واسطے کر رہا ہوں کہ الحاد اور بے دینی جو کہ آقائے نامدارﷺ
کے لائے ہوئے دین کو تباہ کرنا چاہتی ہے، الحاد اور بے دینی اور
سوشلسٹ، (اس کے بعد ایک سیکولر سیاسی پارٹی کا نام لیا)، ان کی روک تھام کے لئے
ہمارے پاس جماعت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقبولان کی جماعت ایسی ہو جائے جو دنیا
کہے، ہاں !مسلمان ایسے ہوتے ہیں۔’’
حضرت جؒی 26 نومبر
صبح سوا سات بجے اسلام آباد سے رخصت ہوئے اور آپؒ کا یہ دورہ اختتام پذیر ہوا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔