مناظرانہ
دَور
ذرائع
اِبلاغ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ جدید ترین اِبلاغِ عامہ کے موجودہ دور سے
کچھ ہی عرصہ قبل کتب ورسائل اور اخبارات معلومات کا اہم ذریعہ تھے لیکن بیسویں صدی
کے آغاز میں یہ سہولت بھی عوامی سطح پر میسر نہ تھی۔ علماء کے ہاں قلمی نسخوں کا
رواج تھا اورعوام الناس کے لئے علماء کے بصیرت افروز خطبات دین سے واقفیت کا معروف
ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ مذاہب ِباطلہ کے مقابل اِحقاقِ حق کے وہ جلسے،جن میں فریقِ
مخالف کو بھی دلائل کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا،مناظرے کہلاتے جو
ایک طویل عرصہ تک عوامی سطح پر خاصے مقبول رہے۔
قادیانی فتنے کا ظہور ہوا تو اس کے مقابل حضرت مہر علی شاہؒ
اور حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جیسی قدآور ہستیاں میدان میں اتریں۔ انہوں نے جلسوں
اور مناظروں کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایمان پر شبخون مارنے والے اس باطل
ٹولے کی خباثت اور بدنیتی سے متنبہ کیا اور کذاب مدعی ٔ نبوت کو متعدد بار مباہلہ
کے لئے للکارا۔ اسی طرح فتنۂ روافض کے خلاف مناظرے بھی اس دور کی ایک اہم دینی
ضرورت تھے۔
حضرت
جؒی کی خطابت کے جوہر طا لبعلمی کے زمانہ میں ہی تسلیم کئے جاچکے تھے۔ سہل اندازِ
خطابت، عام فہم دلائل مگر ایسا زورِ خطابت کہ اس کی کاٹ باطل کو دونیم کر دے۔ آپؒ
نے ڈھیری سیّداں کے مقام پر نماز سے متعلق ایک فقہی مناظرے میں حصہ لیا جس کا
موضوع تھا، قیام کے دوران ہاتھ باندھنے ا ور چھوڑنے کی فقہی حیثیت۔یہ 1932ء کا واقعہ ہے جب آپؒ ڈلوال میں دورہ حدیث کر رہے
تھے۔ مدرسہ کے دوسرے طلبا کے ہمراہ آپؒ بھی ڈھیری سیّداں کے اس مناظرے میں تشریف
لے گئے۔ دورانِ مناظرہ جب آپؒ نے دیکھا کہ اہل سنت کے مقرر مولوی لال حسین شاہ (دھرمیال
والے) لاجواب ہو گئے ہیں تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے او ر موضوع پر سیرحاصل دلائل دئے ۔یہ
پہلا موقع تھا کہ حضرت جؒی کے جوہرِ خطابت، طرزِ استدلال اور وسعتِ علمی کا عوامی
سطح پراعتراف کیا گیا۔
قبل ازیں آپؒ کی غیرتِ ایمانی کا تذکرہ گزر چکا ہے جب
دورانِ ملازمت داروغہ جیل کے سر پر وزنی چابیوں کا گچھا اس لئے دے مارا تھا کہ وہ
قیدیوں کا راشن خردبرد کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ دینی تعلیم کے بعد اب اس غیرت
وحمیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ آپؒ نے اگرچہ مناظروں میں حصہ لینا شروع نہیں
کیا تھا لیکن صحابہ کرام] کی مقدس جماعت کے خلاف کوئی بات سننے کے روادار
نہ تھے۔
حضرت
جؒی کا دورِ طالب علمی مکمل ہوا تو آپؒ نے اپنے ایک طالبعلم ساتھی حبیب خان کی
درخواست پر کچھ عرصہ کے لئے اس کے گاؤں چک 66جنوبی، بھلوال ضلع
سرگودھا میں قیام فرمایا۔ا س دوران آپؒ کی اہلیہ بھی ہمراہ تھیں اور یہ آپؒ کی
ازدواجی زندگی کا اوائل دور تھا۔ حضرت جؒی نے ابھی تک میدانِ سلوک میں قدم نہیں
رکھا تھا اور آپؒ کی پہچان محض ایک تازہ فارغ التحصیل عالم دین کی تھی۔
چک66کی
تمام آبادی اہل سنت افراد پر مشتمل تھی لیکن ایک گھرانہ اہل تشیع کا بھی تھا جو ہر
سال مجلس کے لئے باہر سے ذاکر بلواتا۔ اہلِ سنت حضرات بھی اس مجلس میں شریک ہوتے
اور نام نہاد رواداری میں صحابہ کرام] کے خلاف شیعہ ذاکرین کی دشنام طرازی برداشت
کرتے۔ حضرت جؒی کو مجلس کی اطلاع ملی تو آپؒ نے اسی وقت حبیب خان کو بلوا بھیجا۔
آنے میں تاخیر پرخود ہی اس کے ڈیرے کی طرف چل دیئے۔ آپؒ اس وقت انتہائی جلال میں
تھے۔ راستے میں ملاقات ہوئی تو فرمایا:
‘‘یہ ذاکر اپنی مجلسوں میں
صحابہ کرام] کے خلاف ہر طرح کی خرافات بکتے ہیں جسے
کوئی بھی غیرت مند گوارا نہیں کر سکتا۔ حبیب خان!میری موجودگی میں یہ مجلس ہرگز نہ
ہوگی۔’’
حضرت جؒی کی سرکردگی میں حبیب خان اور کئی اہلِ دیہہ مجلس میں
جاپہنچے۔ آپؒ لاٹھی اٹھائے ہوئے سب سے آگے تھے۔یہ غیر متوقع صورت حال دیکھ کر باہر
سے آئے ہوئے ذاکر رات کے اندھیرے میں فرار ہو گئے۔ مجلس منعقد کرنے والے شخص نے
حضرت جؒی سے معافی مانگی ا ور آئندہ کے لئے وعدہ کیا کہ چک 66کی بجائے وہ لوگ خود اہل تشیع
کے ہاں جا کر مجلس سن لیا کریں گے۔ اس کے بعد دوبارہ اس گاؤں میں کوئی مجلس منعقد
نہ ہوئی۔ ہونا بھی یہی چاہیٔے کہ اس قسم کی مجالس اپنی آبادی تک محدود رکھی جائیں
اور ایک آدھ گھرانے کی موجودگی کو بنیاد بنا کر اکثریت کی دل آزاری سے اجتناب کیاجائے۔
دشنام طرازی بہر حال کسی صورت بھی درست نہیں۔
چک 66جنوبی
(سرگودھا) کا یہ واقعہ غالباً 1935ء
کا ہے۔ حضرت جؒی کا مناظرانہ دور اس کے قریباً پندرہ سال بعد شروع ہوا جب آپؒ کو
مراقبۂ فنا فی الرسولﷺ میں عقائدِ روافض کی یلغار کے
مقابل سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان و یقین کے تحفظ کا فریضہ سونپا گیا۔ آپؒ نے اگرچہ
زندگی بھر اس نصب العین کو مقدم رکھا لیکن 1950ء سے 1960ء تک آپؒ کی مصروفیات میں
مناظرانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔
1942ء
میں اہلیہ کی وفات کے بعد حضرت جؒی خانیوال کے چک 13 سے مستقل طور پر چکڑالہ منتقل ہو چکے
تھے۔چکڑالہ میں آپؒ کی مصروفیات کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ یہاں کی چِٹی مسجد آپؒ
کی علمی سرگرمیوں اور درس وتدریس کا مرکز تھی۔ ایک روز آپؒ حسبِ معمول درس وتدریس
میں مشغول تھے کہ چکڑالہ کا ایک شیعہ مبلّغ جعفر شاہ آن وارد ہوا۔ اس شخص کا یہ
معمول تھا کہ ہر نئے مولوی کے سامنے مسئلہ باغِ فدک چھیڑ دیتا۔
یہ لوگ ان مسائل سے ناواقفیت کی بنا پر جواب دینے سے قاصررہتے اور جعفر شاہ کو بات بنانے اور تشہیر کا موقع مل جاتا۔ یہی
حربہ اس نے حضرت جؒی پر بھی آزمانے کی کوشش کی۔ باغِ فدک کا مسئلہ چھیڑتے ہوئے اس
نے اپنے مذہب کی ایک ضخیم کتاب حضرت جؒی کے سامنے رکھتے ہوئے مطالبہ کیا کہ آپؒ اس
کی عبارت پڑھ کراعتراض کا جواب دیں۔ ایران کی طبع شدہ قدیم عربی کتاب اور بغیر
اعراب کے عبارت، حضرت جؒی تو یقیناً پڑھ لیتے لیکن کم علم مولویوں کے لئے اس کا
پڑھنا ممکن نہ تھا۔ یہی وہ کمزوری تھی جس کا فائدہ جعفر شاہ اٹھایا کرتا۔ آپؒ اس کی
چال کو سمجھ گئے ۔آپؒ کو یہ بھی معلوم تھا کہ چکڑالہ کے اس ذاکر کے لئے اس عبارت
کا پڑھنا ممکن نہ ہو گا ، فرمایا:
‘‘تم کیسے معترض ہو، اعتراض بھی میں ہی پڑھوں
اور پھر جواب بھی میں ہی دوں؟ معترض کے لئے لازم ہے کہ وہ خود اعتراض پیش کرے، جواب
میں دوں گا۔’’
ایک دو بار تکرار ہوئی لیکن جعفر شاہ کے لئے عربی عبارت
پڑھنا ممکن نہ تھا۔ حضرت جؒی جلال میں آ گئے ا ور وہی کتاب اٹھا کر جعفر شاہ کے
سرپر دے ماری۔ کتاب وزنی اور ضرب کاری تھی، مار کھا کر رفوچکر ہوا۔
چکڑالہ کے سخت گیر ماحول میں علم اور دلیل کے بغیر اعتراض کرنے والے کے لئے شاید
اس سے بہتر جواب ممکن نہ تھا لیکن حضرت جؒی
نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اہلِ تشیع کے مرکز میں جلسہ رکھ دیا۔ مسئلہ باغِ فدک
کو عام فہم انداز میں شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا اور جعفر شاہ کے اعتراض کا
جواب بھی دیا۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ سرجال قبیلے کے اس جری زمیندار
سے الجھ سکے جس کی بات میں وزن تھا اور زورِ بازو
آزمایا ہوا۔ چکڑالہ اور اس کے گرد ونواح میں اس واقعہ کا خوب چرچا ہوا اورحضرت جؒی
کو ایک عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بطور مناظر بھی علاقہ بھر میں پہچانا جانے لگا۔
اس
سے قبل چکڑالہ میں کئی سال سے یہ دستور چلا آ رہا تھا کہ محرم میں اہل سنت اور
اہلِ تشیع مناظرانہ جلسے منعقد کرتے جن میں باہر سے مقررین بلائے جاتے۔ اہل سنت کی
طرف سے اکثر محمود شاہ ہزاروی کو مدعو کیا جاتا تھا لیکن ایک مرتبہ فریق مخالف نے
ان پر تشدد کیا جس کے بعد ہزاروی صاحب نے چکڑالہ آنا چھوڑ دیا۔ اہلِ تشیع کے جلسے
البتہ اسی طرح جاری رہے جن میں لکھنؤ تک سے ذاکرین بلائے جاتے۔ حضرت جؒی چکڑالہ آئے
تو اہلِ تشیع کی جانب سے حسبِ سابق باہر سے کسی مقرر کو بلوایا گیاجس نے میدان خالی
سمجھتے ہوئے اہلِ سنت پر خوب اعتراضات کئے۔ اس کی بدقسمتی کہ اس روز حضرت جؒی
چکڑالہ میں تشریف رکھتے تھے اور جعفر شاہ والا واقعہ بھی کچھ ہی عرصہ پہلے پیش آیا
تھا۔ اگلی نشست ہوئی تو حضرت جؒی مجمع میں تشریف لے گئے۔ ساتھ کتابیں بھی تھیں جو
قریبی چارپائی پر حوالہ جات کی نشاندہی کے لئے رکھ دی گئیں۔ اعتراضات کا سلسلہ
شروع ہوا تو آپؒ کھڑے ہو گئے اور مقرر کے اعتراض کا جوا ب دینے لگے۔ اس نے حضرت جؒی
کے پیش کردہ حوالے کی صحت سے انکارکیا تو آپؒ نے متعلقہ حوالہ نکالا اور کتاب مقرر
کے سامنے رکھ دی۔ عبارت پڑھنے کے باوجود اس نے مجمع سے مخاطب ہو کر کہا:
‘‘مولوی صاحب نے جو حوالہ
دیا ہے، کتاب میں تو وہ کہیں موجود نہیں۔’’
دن دہاڑے مقرر کی اس دیدہ دلیری نے حضرت جؒی کو حیران کر دیا۔
کتاب واپس لی اور اچانک اس کی گردن پر دے ماری۔ وار کاری اورغیر متوقع تھا،
گھبراہٹ میں نیچے گرا تو آپؒ نے لاتوں اور گھونسوں کی بارش برسا دی۔ اس کے حمایتی
اٹھنے لگے تو حضرت جؒی کے ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ سلطان سرخرو نے، جس کا ذکر
پہلے گزر چکا، مجمع کو للکارا۔ ‘‘خبردار! اوپر اٹھنے والا سر گولی کا نشانہ بنے
گا۔’’ سرجال قبیلہ بھی ساتھ تھا جو اگرچہ دین میں حضرت جؒی کی پیروی تو نہ کر سکا
تھا لیکن قبائلی غیرت اور حمیت میں پیش پیش تھا۔ ان حالات میں کسی کو مقابل آنے کی
ہمت نہ ہوئی۔آپؒ واپس لوٹے اور ساتھ ہی اہل چکڑالہ کو یہ سبق دے آئے کہ اس مردِ جری
سے دلیل کی زبان میں تو بات کی جا سکتی ہے لیکن یاوہ گوئی اور بیہودگی برداشت نہیں
کی جائے گی۔
اس کے بعد علاقہ بھر میں جہاں کہیں مناظرہ ہوتا، حضرت جؒی
کو مدعو کیا جاتا۔ جاہل ذاکر آپؒ کے نام سے ہی خوفزدہ تھے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ آپؒ
کے سامنے علمی دلائل کے بغیر بات نہ بن سکے گی ا ور جہاں کسی نے من گھڑت حجتوں کا
سہارا لینے کی کوشش کی تو اس دلیر زمیندار عالم دین کے جارحانہ وار کے سامنے
ٹھہرنا ممکن نہ ہو گا۔ چنانچہ روایتی ذاکر اور مناظر حضرت جؒی کا نام سنتے ہی میدان
سے بھاگ جاتے۔
شیعہ مناظربالعموم علمی دلائل کی بجائے ایسے
اعتراض کرتے جن کا جواب علماء کے لئے مشکل ہوتا۔ علماء اگر علمی مباحث کا سہارا لیتے
تویہ طرزِ استدلال دیہاتی سامعین کی سمجھ سے بالا تر ہوتا۔ دوسری طرف شیعہ مناظر
نوک جھونک اور چبھتے ہوئے سوالات کے ذریعہ انہیں خوب زچ کرتے۔ حضرت جؒی کا معاملہ
اس کے برعکس تھا۔ آپؒ معترض کے اعتراض کو جارحانہ انداز میں اسی پر لوٹا دیتے اور
اس طرح یہ لوگ اپنے ہتھیار سے خود ہی شکار ہو جاتے۔
حضرت جؒی ایک مرتبہ صحابہ کرام]
کی باہمی محبت
اورقرابت داری بیان فرما رہے تھے۔ اس ضمن میں آپؒ نے حضرت اُمِ کلثومr بنت حضرت فاطمہr اور حضرت عمرt کی شادی کا تذکرہ کیاتو مقابل نے کہا:
‘‘بات
قرآن وحدیث کی کریں۔’’
آپؒ نے فرمایا:
‘‘قرآن
و حدیث کی ہی بات کر رہا ہوں۔’’
اس نے کہا:
‘‘یہ
شادی قرآن سے ثابت کریں۔’’
آپؒ نے فرمایا۔
‘‘بالکل۔’’
وہ بولا:
‘‘میں
قرآن لا رہا ہوں آپ کو حوالہ دینا ہو گا۔’’
آپؒ نے فرمایا:
‘‘لے
آؤ قرآن۔’’
قرآن لایا گیا تو آپؒ نے کہا:
‘‘
خود ہی کھولو میں آیت بتاتا ہوں۔’’
اس نے پوچھا، کون سی سورة ؟ تو فرمایا:
‘‘جہاں حضرت فاطمہr اور حضرت علیt کے نکاح کا ذکر ہے، اس سے اگلی آیت میں حضرت عمرt اور حضرت اُمِّ کلثومr کی شادی کا بیان ہے۔’’
اس
طرح حضرت جؒی نے فریق مخالف کے وار کو اسی پر لوٹا دیا۔ بات جب صحابہ کرام] کی باہمی محبت اور قرابت داری کی ہو رہی تھی تو
اس موقع پر اس کج بحثی کا جواب اس جارحانہ رنگ میں ہی دیا جا سکتا تھا۔یہ واقعہ بیان
کرتے ہوئے حضرت جؒی فرمایا کرتے:
‘‘اگر میں یہ کہتا کہ کیا
قرآن کوئی نکاح رجسٹر ہے جس میں شادیوں کا ذکر ہو تو سامعین، جن کی اکثریت سیدھے سادھے
دیہاتی لوگوں پر مشتمل تھی، خیال کرتے کہ
مولانا اللہ یار
خانؒ تو قرآن سے ثابت نہیں کر سکے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ کہہ دوں، ہاں! قرآن
میں موجود ہے۔’’
حضرت جؒی نے کچھ یہی حشر بشیر نامی مناظر کا بھی کیا۔
پاکستان بننے سے پہلے ٹمن (تلہ گنگ) میں ایک مناظرہ ہوا، جس کا موضوع تو خالص علمی
نوعیت کا تھا، رفع یدین اور نماز میں ہاتھ باندھنے کی شرعی حیثیت، لیکن بشیر مناظر
نے علمی دلائل کی بجائے ڈھکوسلوں سے کام لیا۔ حضرت جؒی کے جارحانہ سوالات شروع
ہوئے تولاجواب ہو کر رہ گیا۔اس پر مقامی زمینداروں نے اس کی خوب گت بنائی اور بے نیل
و مرام رخصت کیا۔ اس تلخ تجربے کے بعد وہ آپؒ کا نام سن کر ہی راہ ِفرار اختیار کر
لیتا ۔
ایک طویل مدت کے
بعد اسے تحصیل فتح جنگ میں مصریال کے علاقے میں بلایا گیا تو وہاں کے لوگ حضرت جؒی
کے پاس چلے آئے۔ آپؒ اگرچہ اس زمانے میں مناظرے چھوڑ چکے تھے لیکن بشیر مناظر کو پتا چل گیا کہ حضرت جؒی
سے رابطہ کیا گیاہے۔ سالوں پرانی تلخ یادیں اس کے ذہن پر حاوی تھیں۔ وہ تلہ گنگ تک تو آیامگریہ بتا کر واپس چلا گیا کہ گھر میں بیماری
ہے اس لئے مناظرہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ خفت چھپانے کے لئے یہ بھی کہلا بھیجا کہ
تلہ گنگ تک اس لئے آیا ہوں تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ حضرت جؒی کی وجہ سے بھاگ گیاہے۔
1950ء
تک شیعہ مناظر مولوی اسمٰعیل گوجروی (ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) بہت شہرت حاصل کر چکا
تھا۔یہ شخص کچھ عرصہ دیوبند میں پڑھتا رہا، بلاکا شاطر اور حاضر جواب تھا جس کی
وجہ سے اکثر علماء اس کے مقابل آنے سے کتراتے۔ مناظروں کے میدان میں حضرت جؒی کی
شہرت ہوئی تو مولوی اسمٰعیل کے مقابلے میں اکثر آپؒ ہی کو مدعو کیا جانے لگا۔ آپؒ
نے بھی اسے اپنا فرض سمجھا کہ اس شخص کا طلسم توڑنے کے لئے ہر ایسے مناظرے میں خود
حصہ لیں جس میں مولوی اسمٰعیل کو بلایا گیا ہو۔چند مناظروں میں مولوی اسمٰعیل کے
ساتھ بھی جب بشیر مناظر والا معاملہ پیش آیا تو وہ بھی آپؒ کے مقابل آنے سے کترانے
لگا۔ 1955ء
میں چکوال کے نواحی قصبے بلکسر میں مناظرے کا اہتمام صحنِ مسجد میں کیا گیا تھا
جہاں دونوں فریق ایک ساتھ موجود تھے۔ مولوی اسمٰعیل کی تقریر کے جواب میں حضرت جؒی
نے خطاب شروع کیا توکچھ دیر بعد آپؒ پر جلال کی کیفیت طاری ہو گئی۔ آواز میں وہ
کڑک اور دبدبہ تھا کہ اچانک مولوی اسمٰعیل کی حالت غیر ہوئی اور متلی شروع ہو گئی
چنانچہ جوابی تقریر کئے بغیر اسے فی الفور وہاں سے نکلنا پڑا۔ اکثر کہا کرتا، مولوی
صاحب کے مقابلے میں تقریر تو کر لوں لیکن ان کی روحانی قوت کا مقابلہ نہیں کر
سکتا۔
بعض
اوقات اہل دیہہ کے سامنے حق وباطل کا فرق واضح کرنے کے لئے اہل سنت خود مناظروں کا
اہتمام کرتے اور اپنے خرچ پر شیعہ مناظرین کو مدعو کرتے۔ اسی طرح کے ایک مناظرے کے
لئے مخدوم صدر الدین نے کوٹ میانہ
میں مولوی اسمٰعیل کو مدعو کیا۔ حضرت جؒی ان دنوں معمول کے مطابق لنگر مخدوم آئے
ہوئے تھے لیکن اس علاقہ میں ابھی تک آپؒ کی مناظرانہ شہر ت نہیں پہنچی تھی۔ مخدوم
صاحب نے حضرت جؒی سے درخواست کی کہ مولوی اسمٰعیل چونکہ مشہور شیعہ مناظر ہے، اس
کے مقابلے کے لئے کسی بڑے عالم اور چوٹی کے مناظر کا پتا دیں۔ حضرت جؒی نے فرمایا،
آپ تاریخ مقرر کریں بندوبست ہوجائے گا۔ مخدوم صاحب کے مسلسل اصرار پر آپؒ کی زبان
سے نکل گیا:
‘‘اگر وہ مناظر میں ہی بن جاؤں تو!’’
یہ سن کرمخدوم صاحب کو حیرت تو ہوئی لیکن اعلان کر دیا کہ کوٹ
میانہ میں فلاں تاریخ کو مولوی اسمٰعیل شیعہ مناظر اور حضرت جؒی کے مابین
مناظرہ ہو گا۔ لوگ دُور دُور سے آئے لیکن مولوی اسمٰعیل
آپؒ کا نام سننے کے بعد مقابل آنے کی ہمت نہ کر سکا۔ اس طرح مناظرہ تو نہ ہوسکا البتہ
حضرت جؒی نے معمول کے مطابق خطاب فرمایا۔ اگر کسی وجہ سے مناظرہ نہ ہوتا تو آپؒ
اصلاحی موضوعات پر خطاب فرماتے اور مدح صحابۂ کرام]
ہر تقریر کا جزوِ لازم ہوتی۔ کوٹ میانہ میں اس کے بعد
کسی مناظرہ کی ضرورت نہ رہی کیونکہ اس علاقے میں لوگوں کے سامنے مولوی اسمٰعیل کے
فرار کے ساتھ ہی سچائی واضح ہو چکی تھی۔
جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط (حق
آگیا اور باطل مٹ گیا) ۔
اس
کے بعد کئی بار ایسا ہوا کہ مولوی اسمٰعیل کو بھگانے کے لئے حضرت جؒی کی آمد کا
اعلان کر دیا جاتا اور مناظرے کے بغیر ہی میدان صاف ہو جاتا۔ ایسا بھی ہوا کہ مولوی
اسمٰعیل کسی جگہ مناظرے کے لئے پہنچا لیکن جب معلوم ہوا کہ مدِّمقابل حضرت جؒی ہیں
تو وہاں سے کھسک گیا۔
کلرکہار
کے نزدیک کھنڈوے کے مقام پر اس شخص کو مدعو کیا گیا تو مقامی لوگ حضرت جؒی کی خدمت
میں حاضر ہوئے ۔ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے آپؒ چکڑالہ سے کلرکہار پہنچے تو رات ہو
گئی۔ رات یہیں قیام فرمایا اور علی الصبح کھنڈوے پہنچ گئے۔ مولوی اسمٰعیل کو اطلاع
ہوئی تو بیٹی کی بیماری کا بہانہ بنا کر رفوچکر ہو گیا۔ مناظرہ تو نہ ہو سکا لیکن
حضرت جؒی نے حسبِ معمول اصلاحی تقریر فرمائی۔
مولوی
اسمٰعیل کے ساتھ حضرت جؒی کا ایک اور مناظرہ حشمت مرالی ضلع ملتان میں بھی ہوا۔ اس
مناظرہ میں حضرت علیt کی خلافت بلافصل کا ثبوت مولوی اسمٰعیل کے ذمہ
تھا۔ اس نے ان روایات کو پیش کیا جس میں لفظ ‘‘من
بعدی’’ آتا تھا۔ حضرت جؒی نے مطالبہ کیا کہ وہ روایت پیش کرو جس میں ‘‘من
بعدی بلافصل’’ کے الفاظ آئیں کیونکہ‘‘من
بعدی’’ اتصال کو نہیں چاہتی۔ مولوی اسمٰعیل حضرت جؒی کے اس مطالبہ کو پورا کرنے
سے قاصر رہا اور مناظرہ میں خلافت بلافصل ثابت کرنے میں ناکام ہوا۔
1957ء میں حضرت جؒی کو مولانا عبدالستار تونسوی اور سید
احمد شاہ بخاری کے ہمراہ پِنن وال،ضلع جہلم میں مناظرہ کے لئے مدعو کیا گیا۔ حفظ
امن کا انتظام نہ ہونے کے وجہ سے مناظرہ تو نہ ہوسکا لیکن فضائل صحابہ ]
اور شہادت حضرت حسینt کے موضوعات پر جلسے ہوتے رہے۔
24 مارچ 1957ء کو حضرت جؒی نے ڈومیل، ضلع کیمبل
پور (اٹک) کے عظیم الشان جلسہ میں خلافت کے موضوع پر خطاب فرمایا جس میں خلافت
خلفائے ثلاثہy پر قرآن و حدیث سے زبردست
دلائل پیش کئے۔ آپؒ کی یہ مکمل تقریر ‘‘الفاروق’’ میں شائع ہوئی۔ حضرت جؒی نے تقریر
کا آغاز آیت استخلاف کی تلاوت سے فرمایا:
وَعَدَ
اللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْارْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْص
وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ
مِنْم بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاط
جولوگ
تم میں سے ایمان لائیں اور نیک کام کریں اللہ ان سے وعدہ فرماتے ہیں کہ (اتباع کی
برکت سے) ان کو ملک میں ضرور حکومت عطا فرمائیں گے جیسا ان سے پہلے (اہل ہدایت)
لوگوں کو حکومت بخشی تھی اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے ان کے لئے پسند فرمایا ہے
ضرور مستحکم (اور پائیدار) فرمائیں گے اور خوف کے بعد ضرور امن بخشیں گے۔ (سورة
نور، آیت 55)
تفسیر بیان کرنے کے بعد آپؒ نے فرمایا:
‘‘میں نے اس آیت کو سات مناظروں میں پیش کیا
ہے اور جواب طلب کیا ہے مگر حضرات اہل تشیع کی طرف سے کسی کو صحیح جواب دینے کی
ہمت نہیں ہوئی اور آئندہ ہو بھی نہیں سکتی۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ
تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
میں
آج بھی شیعہ علماء کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور وہ ذریعہ بتائیں جس سے خلفاء
ثلاثہy کی
خلافت کے انکار کے بعد اس آیت پر ایمان رہ سکتا ہے تو میں شیعہ ہونے کا اعلان کر
دوں گا۔
هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ
اِنْ كُنْتُمْ صَادِقِيْنَ O
اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل
پیش کرو (سورة البقرہ آیت 111)’’
اس کے بعد حضرت جؒی نے قریباًدس مختلف روایات بیان کیں اور
ہر روایت سے نمبر وار کئی نتائج اخذ کرتے ہوئے اصحاب ثلاثہy کی خلافت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔
ایک
مرتبہ حضرت جؒی مناظرہ کے لئے سندھ گئے۔ آپؒ نے ہدایت فرمائی کہ مولوی اسمٰعیل کو یہ
ہرگز نہ بتایا جائے کہ اس کے مقابل کون آرہا ہے۔ سٹیشن پر آمنا سامنا ہوا تو حضرت
جؒی اسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے گئے ا ور فرمایا:
‘‘تم تو عالم ہو، تمہیں
تو پتا ہے کہ حقیقت ِ حال کیا ہے، پھر اپنی آخرت کیوں برباد کرتے ہو؟’’
اس نے جوا ب میں کہا:
‘‘مولوی جی! آپ کو بھی خوب معلوم ہے کہ اہلِ
سنت کیا دیتے ہیں، یہاں تو ہر طرح سے خاطر مدارت ہوتی ہے۔’’
حضرت جؒی فرمایا کرتے، اس جواب سے میں نے سمجھ لیا کہ اس کی
اصلاح ممکن نہیں۔ مولوی اسمٰعیل نے کئی
مرتبہ یہ اعتراف بھی کیاکہ وہ حضرت جؒی سے صرف اس لئے شکست کھا جاتا ہے کہ آپؒ ایک
صوفی ہیں۔
ایک مرتبہ بہاولپور ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر مولوی
اسمٰعیل حضرت جؒی کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ یہاں مجالس کروانے کے بعد واپس جانے کے لئے
گاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ حضرت جؒی کی نظر پڑ گئی۔ آپؒ نے اس کے عقب میں جا کر
دونوں ہاتھ سے ‘چولا’ (لمبا کرتا) کمر سے اوپر اٹھا دیا۔ مولوی اسمٰعیل یکدم بدک
اٹھا۔ مڑ کر حضرت جؒی کو دیکھا تو حیرت سے پوچھا، آپ نے سرِعام یہ کیا حرکت کی ہے؟
حضرت جؒی نے جوا ب دیا:
‘‘تم نے تو ماتم کرا کرا
کے لوگوں کی کمریں زخمی کروا دیں۔ میں دیکھ رہا تھا،کوئی نشان تمہاری کمر پر بھی
ہے؟’’
مناظروں
کی دنیا میں حضرت جؒی نے مراقبۂ فنا فی الرسولﷺ
میں ملنے والے ایک اشارے کے تحت قدم رکھا تھا۔ اپنے اس فرض منصبی کی انجام
دہی میں آپؒ نے جس طرح مشقتیں اٹھائیں، اس ضمن میں آپؒ کے مناظرانہ دور کے شروع کا
ایک واقعہ نقل کیا جا تا ہے۔
حضرت جؒی کو تلہ گنگ خوشاب روڈ پر واقع مشہور قصبہ جھاٹلہ میں
مدعو کیا گیا۔ مناظروں میں حوالہ جات کے لئے کتابوں کی
ضرورت بھی ہوا کرتی تھی۔ چکڑالہ سے روانہ ہوئے تو آپؒ کے ہمراہ ضخیم کتابوں سے
بھرا ہوا ایک وزنی صندوق الگ سے تھا۔ جھاٹلہ پہنچنے پر بس سے اترے ، دو آدمیوں کی
مدد سے بھاری صندوق سر پر اٹھایا اور گاؤں کی طرف چل دیئے۔ وضع قطع سے آپؒ کوئی
عالم نہیں، بلکہ ایک عام دیہاتی نظر آتے تھے لیکن حقیقت میں دربارِ نبویﷺ کے ملازم تھے، ڈیوٹی
پرمامور، جو ادائیگی ٔ فرض کے دوران اپنا وزن خود
اٹھائے چلے آ رہے تھے۔ استقبال کرنے والوں کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ یہی ہیں حضرت
مولانا اللہ یار خانؒ، جن کے لئے پورا گاؤں کئی ر وز
سے چشم براہ تھا۔
مناظرانہ دور کے آخری سالوں میں حضرت جؒی کے ساتھ اکثر حضرت
امیرالمکرم شریک سفر ہوا کرتے اور آپؒ کی حفاظت کا فریضہ بھی سرانجام دیتے۔ مناظرہ کالووال کے اختتام پر حضرت جؒی پر
قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس کے بعد حضرت جؒی سنتِ نبویﷺ کے مطابق مسلح سفر کرتے
اور 32بور
کا ریوالور ساتھ رکھتے۔ اواخر عمر میں آپؒ نے یہ ریوالور بکمال شفقت راقم کو مرحمت
فرما دیا تھا۔
1961ء
میں حضرت جؒی تحصیل چکوال میں ایک غریب شخص کی دعوت پرجلسہ کے لئے گئے تو حضرت امیر
المکرم بھی آپؒ کے ساتھ تھے۔ جلسہ تین دن تک جاری رہا۔ حضرت جؒی روزانہ بیان
فرماتے اور باقی وقت ملاقات کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ غریب دیہاتی حضرت جؒی
کے قیام کا ٹھیک سے انتظام بھی نہ کر سکا۔ آپؒ کے لئے ایک کھردری چارپائی
پر دری اور تکیہ تھا تو حضرت امیر المکرم کے لئے فرش خاکی۔ چوتھے روز وہاں سے روانہ
ہوئے لیکن کسی نے زادِراہ کا نہ پوچھا۔ جب بس میں سوار ہونے لگے تو ایک دیہاتی نے
دس دس روپے کے دونوٹ حضرت امیر المکرم کو تھما دیئے جس سے بمشکل کرایہ پوراہوتا۔
حضرت امیرالمکرم کے چہرے کے تأثرات کچھ زیادہ خوشگوار نہ تھے جنہیں دیکھ کر حضرت
جؒی نے فرمایا، کیا بات ہے؟
حضرت امیر
المکرم نے عرض کیا:
‘‘ حضرت! یہ انہوں نے بیس روپے دیے ہیں۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘شکر کرو انہوں نے کرایہ
تو دے دیا ورنہ ہم تو اللہ کی رضا کے لئے کام کر رہے ہیں، روپیہ ہمارا مقصد نہیں۔
اگر وہ یہ بھی نہ دیں تو کرایہ جیب سے خرچ کر کے دین کا کام تو کرنا ہے۔’’
حضرت جؒی کے دس سالہ مناظرانہ دور میں ان گنت مناظرے ہوئے۔ اس
دوران آپؒ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر، حتیٰ کہ ذکروفکر کی
پُرکیف ساعتوں کو خیر باد کہتے ہوئے اس فرضِ منصبی کی بجاآوری کے لئے پہنچتے۔ ایک
طر ف کھنڈوے اورکوٹ میانہ جیسے چھوٹے چھوٹے دیہات تھے تو دوسری طرف ملتان، جہلم
اور کئی دوسرے بڑے شہر۔ اپنے وسائل پر سندھ اور کشمیر تک کا طویل سفر کیا۔ اسی دور
میں حضرت جؒی نے سید احمد شاہ بخاریؒ، مولانا عبدالستار تونسوی اور مولانا عنایت
اللہ گجراتی کے ہمراہ پنن وال ضلع جہلم کا بھی دورہ کیا اور 24تا 26جنوری 1957ء کے تین روزہ اجلاس میں مختلف
موضوعات پر خطاب فرمایا۔
حضرت جؒی جہاں بھی گئے، مدِّمقابل مولوی اسمٰعیل ہوتا یا
لکھنؤ اور دور دور سے بلائے گئے چوٹی کے مناظر، میدان ہمیشہ آپؒ کے ہاتھ رہا۔ اس
فتحِ مسلسل کے باعث تھوڑے ہی عرصہ میں حضرت جؒی عوامی
سطح پر ‘فاتح اعظم’ کے خطاب سے انتہائی مقبول ہو چکے تھے۔ آپؒ کی آمد پر ‘فاتح
اعظم’ کے فلک شگاف نعروں سے پنڈال گونج اٹھتا
اور مناظرہ ختم ہونے پر یہی نعرے آپؒ کی فتح کا اعلان بھی ہوا کرتے تھے۔ 1956ء
میں اہل سنت کے پندرہ روزہ ترجمان ‘‘الفاروق’’ کا اجراء ہوا تو اس رسالہ کے سرورق پربطور معاون
مدیر حضرت جؒی کے نام کے ساتھ ‘‘فاتح اعظم’’ کا خطاب بھی ہوتا۔
الفاروق
حضرت جؒی مختلف مذاہب کی مآخذ کتب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ
عصرِحاضر کے رسائل کا بھی مطالعہ فرماتے۔ لکھنؤ سے مولانا شاہ محمد عبدالشکور
فاروقی کی زیرسرپرستی رسالہ ‘‘النجم’’ کا
اجراء ہوا تو آپؒ باقاعدگی سے یہ رسالہ منگوایا
کرتے۔ اسی دور میں شیعہ مناظر مولوی اسمٰعیل جب مناظروں میں حضرت جؒی
اور سیّد احمد شاہ بخاریؒ سے زچ ہونے لگا تو اس نے گوجرہ سے ‘‘صداقت’’ کے نام سے ایک
رسالہ جاری کیا جس میں حقائق و دلائل کو توڑ مروڑ کر ان مناظروں کی غلط رُوداد پیش
کی جاتی۔ اس کے تدارک کے لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ ‘‘النجم’’ کی طرز پر اہل سنت
کا بھی ایک ترجمان رسالہ ہو۔ سیّد احمد شاہ بخاریؒ کی زیر ادارت دارالھدیٰ چوکیرہ
ضلع سرگودھا سے یکم نومبر1956ء
کو پندرہ روزہ ‘‘الفاروق’’ کا اجراء ہوا
تو اس کی مجلسِ عاملہ نے حضرت جؒی سے معاونت کی درخواست کی جو آپؒ نے قبول فرمائی
اور ‘‘الفاروق’’ کے پہلے شمارے سے لے کر 15 جولائی 1960ء کے آخری شمارے تک مسلسل مدیرِمعاون
کے فرائض سرانجام دیئے۔
‘‘الفاروق’’ کے اجراء سے قبل حضرت جؒی کی تصانیف ایمان
بالقرآن، ایجاد مذہب شیعہ، شکست اعدائے حسینt
اور ،دامادِ علیt، شائع ہوچکی تھیں۔ ‘‘الفاروق’’ کی ادارت سے
منسلک ہونے کے بعد آپؒ کے بیش قیمت علمی مضامین اس رسالے کی زینت بنے۔ طوالت کی
بنا پر بعض مضامین قسط وار بھی شائع ہوئے اور بعد میں اضافہ و ترامیم کے ساتھ کتب
کی صورت طبع ہو ئے یا آپؒ کی تصانیف ‘‘الدّین الخالص’’ اور ‘‘تحذیر المسلمین’’ وغیرہ
کاحصہ بنے۔ رسالہ ‘‘صداقت’’ میں شائع ہونے والے قابلِ گرفت مضامین پر تبصرہ بھی آپؒ
ہی فرمایا کرتے۔‘‘الفاروق’’ میں متعدد اقساط میں آپؒ کے مضامین ‘مسئلہ امامت’، ‘اعتقاداتِ
شیعہ’، ‘نص اور شُوریٰ’، ‘الجمال والکمال بوضع الیمین علی الشمال’، ‘ماہ محرم اور
مسلمان’، تحقیق حدیث ثقلین اور قارئین کے سوالات کے جوابات بیش قیمت علمی خزانہ کی
حیثیت رکھتے ہیں۔ 24مارچ
1957 ء کو آپؒ نے ڈو میل ضلع کیمبل پور (اٹک) میں ‘خلافت’ کے موضوع پر ایک
معرکہ آرا تقریرفرمائی جو ‘‘الفاروق’’ میں شائع ہوئی۔ مولوی اسمٰعیل گوجروی نے جب اپنی
کتاب ‘‘براہین ماتم’’ کو علمائے اہل سنت کے نام ایک کھلی چٹھی کی صورت بطور چیلنج
پیش کیا تو اس کے جواب میں حضرت جؒی نے ‘حرمت
ماتم’ تحریر فرمائی جو کتابی صورت کے علاوہ ‘‘الفاروق’’ میں بھی شائع ہوئی۔
علمائے اہل سنت جوق در جوق رسالہ ‘‘الفاروق’’ کی سرپرستی
قبول فرماتے اور ان کے ناموں کی طویل فہرست ‘‘الفاروق’’ کے شماروں میں اکثر دیکھنے
میں آتی۔ اپریل 1957ء
میں مفتی غلام صمدانی نے بھی 35 علماء کے ساتھ رسالہ ‘‘الفاروق’’ کی سرپرستی قبول کی۔ حضرت جؒی سے
ان کا یہ ابتدائی تعلق تھا جس کے نتیجے میں کچھ عرصہ بعد وہ آپؒ کے حلقۂ ارادت میں
بھی شامل ہوئے۔ ‘‘الفاروق’’ کی ادارت کے دوران حضرت جؒی مسلسل چند ماہ دارلھدیٰ
چوکیرہ میں قیام فرماتے اور کئی شماروں کوترتیب دے کر واپس چکڑالہ آجاتے۔ 15 مارچ 1957ء
کے شمارہ میں حضرت جؒی نے چیلنج کیاکہ ایمان بالقرآن کتب شیعہ سے ثابت کیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی آپؒ کی طرف سے یہ اعلان بھی شائع ہوا:
‘‘مولوی اللہ یار خان
چکڑالوی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ قرآنِ کریم کا محفوظ ہونا بغیر تغیر تبدل، کمی
زیادتی، تحریف ِ لفظی،کتب ِ شیعہ سے تواترسے ثابت نہیں ہوتا۔ اگر تمام علماءِ
روافض مل کر تواتر طبقاتی سے قرآن کامحفوظ ہونا ثابت کر دیں تو جو انعام مانگیں گے
ہم دیں گے اور اسی وقت تبدیلی ٔ مذہب کا اعلان کردیں گے۔’’
اگست اور ستمبر 1957ء
کے شماروں میں حضرت جؒی کامعرکہ آرا طویل مضمون ، داعیانِ حسینt
و قاتلانِ حسینt کون تھے؟، شائع ہوا۔ آپؒ نے دو قسطوں میں
مستند تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ کوفہ کے داعیانِ حسینt ہی دراصل قاتلانِ حسینt
تھے۔ اس وقت
تو مضمون پر کوئی ردِعمل نہ ہوا کیونکہ حضرت جؒی نے تاریخی حقائق بیان فرمائے تھے
لیکن تین سال بعد اسی مضمون کو بنیاد بناتے ہوئے گورنر پنجاب جنرل موسیٰ کے حکم سے،
جو متشدد رافضی تھا، رسالہ ‘الفاروق’ بند کر دیا گیا۔ اس دور کی یاد تازہ کرنے کے
لئے سرورق کا عکس پیش کیا جاتا ہے جس پر حضرت جؒی کا نام آپؒ کے عوامی خطاب ‘‘فاتح
اعظم’’ کے ساتھ بطور معاون مدیر نظر آتا ہے۔
فن مناظرہ میں علماء کی تربیت
مناظروں کے ابتدائی دور میں مقامی علماء کے ہاں ادیانِ
باطلہ کے بارے میں کماحقہ معلومات کا فقدان تھا۔ایک فریق لکھنؤ جیسے دور دراز
شہروں سے ذاکرین کو مدعو کرتا تو ان کے مقابل مقامی لوگ اپنی بساط کے مطابق ایسے
علماء کو مدعو کر لیتے جو ادیانِ باطلہ سے ناواقفیت کی بناء پر اِحقاقِ حق کی ذمہ
داری ادا نہ کر پاتے۔ مقامی علماء کی اس کمزوری کے پیشِ نظر حضرت جؒی نے اپنی
انتہائی مصروفیات کے باوجود فنِ مناظرہ میں علماء کی تربیت کو مقدم سمجھا۔ سفر و
حضر میں، آپؒ جہاں بھی ہوتے، اس فن کے متلاشی آپؒ کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ گھنٹوں
بھر گفتگو جاری رہتی اور علماء نادر حوالوں اور دلائل کو اپنی بیاضوں میں محفوظ
کرتے چلے جاتے۔
1950ء کے عشرہ میں حضرت جؒی کا کئی سال معمول رہا کہ آپؒ
ماہِ صیام کے دوران راولپنڈی کے مدرسہ تعلیم القرآن میں تشریف لاتے جہاں روافض اور
قادیانیت کے بارے میں علماء کرام اور طلباء کی تربیت فرماتے۔ آپؒ کے ان تلامذہ میں
مشہور دینی سکالر ڈاکٹر خالد علویؒ بھی شامل تھے۔
1956ء میں ‘‘الفاروق’’ کے اجراء کے بعد مناظرانہ سرگرمیوں
کو اجتماعی سطح پر استوار کرنے کا موقع ملا جس کے بعد مناظروں میں علماء بالعموم
وفد کی صورت شریک ہوتے۔ حضرت جؒی اور سیّد احمد شاہ بخاریؒ مدیر الفاروق ان علماء کی تربیت کرتے۔ 1957ء
تک ملک کے مختلف گوشوں سے مناظروں اور جلسوں کے دعوت ناموں میں خاصہ اضافہ ہو چکا
تھا لیکن کوئی ایسا ادارہ نہ تھا جو یہ روز افزوں ضرورت پوری کر سکتا۔ جولائی 1957ء
میں سیّد احمد شاہ بخاریؒ مدیر الفاروق کی زیر سرپرستی چوکیرہ (ضلع سرگودھا) میں
دارالمبلغین کا قیام عمل میں آیا تو اس ادارے کے ذریعہ فنِ مناظرہ میں علماء کی
باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیاگیا اور یہی ادارہ ملک بھر کے لئے مبلغین کی فراہمی کا
بندوبست کرتا۔ حضرت جؒی کا اس ادارے کی تشکیل اور انتظام و انصرام میں انتہائی فعّال
کردار تھا۔ جن دنوں یہاں تربیتی پروگرام منعقد ہوتے، آپؒ چوکیرہ میں طویل عرصہ قیام
فرماتے اور مبلغین کو فنِ مناظرہ کی تعلیم دیتے۔ دارلمبلغین میں تربیتی پروگراموں
کے علاوہ چکڑالہ میں بھی علماء کی تربیت کا سلسلہ بدستور جاری رہتا۔ اگرچہ آپؒ کے
محدود وسائل علماء حضرات کے قیام و طعام کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے لیکن اس کے
باوجود چکڑالہ میں علماء کی آمد و رفت ایک مستقل معمول تھا۔
1960ء
کے بعد حضرت جؒی مناظروں میں خود شرکت کی بجائے مناظر حضرات کی رہنمائی اور تربیت
فرمایا کرتے۔ یہ حضرات مناظروں میں حصہ لینے سے قبل آپؒ کی خدمت میں چکڑالہ حاضر
ہوتے اور موضوع کے مطابق آپؒ سے دلائل،
جوابی دلائل اور حوالہ جات کے سلسلہ میں رہنمائی حاصل کرتے۔ حوالہ جات
بالعموم قدیم شیعہ کتب سے ماخوذ ہوتے جو عام کتب خانوں میں دستیاب نہ تھیں۔ حضرت جؒی
کا کتب خانہ چونکہ قدیم شیعہ مآخذ کتب کے لئے شہرت رکھتا تھا، علماء اور مناظر اُن
کتب سے استفادہ کے لئے آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ساتھ ہی اپنے علمی اِشکال بھی
دور کرتے۔
1976ء کے ایک مکتوب میں آپؒ
نے چکڑالہ میں ان مصروفیات کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا:
‘‘اب صرف قرآنِ کریم کی
تفسیر اور ترجمہ شروع کرایا ہے۔ شیعہ کے خلاف دلائل بیان کرتا ہوں۔ مرزائیوں سے زیادہ
شیعہ کی خاطر، باہر سے بھی مولوی صاحبان آئے ہیں مناظرہ کی تعلیم کے لئے۔’’
یہ سلسلہ حضرت جؒی کی زندگی کے آخر تک جاری رہا۔ 1980ء کے ایک مکتوب میں آپؒ نے تحریر فرمایا:
‘‘درس وتدریس کے لئے
راولپنڈی کے تمام علماء جن کا بندہ سے ذرہ بھر بھی تعلق تھا، وہ وفد کی شکل میں
آئے کہ شعبان میں ہم کو وقت دو۔ تحریفِ قرآن کا مسئلہ، مذہب شیعہ کے عقیدے،
مناظرانہ شکل میں بتائیں۔ میں نے عرض کیا کہ اب نہ میرا دماغ کام کرتا ہے ا ور نہ
آنکھیں، نہ حافظہ ہے اور مولویوں کو صرف دو وعظوں کی ضرورت ہے۔ میں کسی کو مناظرہ
کی تعلیم نہیں دوں گا۔ تمام نے یک زبان وعدہ کیا کہ 80 عالم وفقیہہ طلبا پیش کریں
گے۔ قیام جماعت کے پاس کروں گا رات کو، دن کو مخصوص و محدود وقت دوں گا علماء کو۔
مولانا نذیر احمد صاحب مناظر شیعہ بھی ہمراہ ہو گا۔ غالباً مولانا محمد فاتح اور
پروفیسر عبدالرزاق بھی ہمراہ ہوں گے۔’’
علماء
کی اس تربیت کا اہتمام مولانا ریاض احمد اشرفی مرحوم نے فرمایا تھا جو روزنامہ جنگ
میں مستقل کالم کی صورت میں دینی مسائل کے جوابات دیا کرتے تھے۔
مشہور مناظر مولانا عبدالستار تونسوی اور مولانا نذیر
احمد مخدوم بھی حضرت جؒی کے تربیت یافتہ ہیں۔ 1981ء میں احباب ِ سلسلہ کی
درخواست پر مولانا تونسوی مدظلّہ العالی ملتان کی ایک محفل ِ ذکر میں شریک ہوئے تو
نہایت فخر سے بتایا:
‘‘صرف تم ہی اپنے آپ کو
ان کا شاگرد نہ سمجھو، ہم نے بھی مناظرے کی الف بے ان سے سیکھی ہے۔’’
مولانا
نذیر احمد مخدوم نے حضرت جؒی کے زیر تربیت رہتے ہوئے چکوال اور علی پور چٹھہ کے
مقام پر شیعہ مناظر خادم بخاری، تاج الدّین حیدری اور اسمٰعیل گوجروی کے مقابل مختلف مناظروں میں حصہ لیا۔ مناظروں
میں انہیں جن اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا، حضرت جؒی کی خدمت میں پیش کرتے۔
آپؒ عصر سے مغرب تک مولانا مخدوم کے ساتھ خصوصی نشست فرماتے، ہر سوال کا جواب مع
حوالہ جات بغیر کتاب دیکھے بیان فرماتے چلے جاتے، گویا علم و فضل کا ایک ٹھاٹھیں
مارتا ہوا بحرِ بیکراں فیوض و برکات بکھیر رہا ہو۔ ایسی ہی ایک محفل میں مخدوم
صاحب نے حضرت جؒی سے سوال کیا:
‘‘بخاری شریف اور صحاح ستہ میں یہ حدیث موجود
ہے کہ آقائے نامدارﷺ نے وصال سے قبل حالت ِ مرض میں فرمایا تھا:
فَقَالَ مُرُوْا اَبَابَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ
فَقِیْلَ لَہ اِنَّ اَبَابَکْرٍ رَّجُل رَقِیْقُ الْقَلْبِ اِذَا قَامَ مَقَامَکَ
لَمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یُّصَلِّیَ بِالنَّاسِ وَاَعَادَ فَاَعَادُوْا لَہ فَاَعَادَ
الثَّالِثَۃَ فَقَالَ اِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ مُرُوْا اَبَابَکْرٍ
فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ فَخَرَجَ اَبُوْبَکْرٍ یُّصَلِّیْ۔ اَوْ کَمَا قَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ
آپﷺ
نے حکم دیا
ابوبکر t سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہr نے عرض کیا کہ ابوبکرt دل کے نرم ہیں وہ جب آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو
رنج کے مارے رو دیں گے، لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ آپﷺ نے پھر وہی حکم دیا، پھر وہی عرض
کیا گیا، پھر تیسری بار آپﷺ نے وہی حکم دیا اور (اپنی بیبیوں سے)فرمایا تم تو یوسفu پیغمبرکی
ساتھ والیاں ہو، ابوبکرt سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آخر ابوبکرt نماز پڑھانے کے لئے نکلے۔
اس
حدیث کی شرح میں مفسرین کرام نے تشبیہ کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں، آپ فرمائیں کہ
ازواجِ مطہرات کی جو تشبیہ مصر کی عورتوں کے ساتھ دی گئی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟’’
حضرت جؒی یہ سوال سن کر مسکرائے اور فرمایا:
‘‘بیٹا! مجھے بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ایک دن میں
نے رسول اکرمﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ مصر کی عورتیں حضرت یوسفu کو ایک بات کہتی تھیں۔ اگر یوسفu ان کی بات مان لیتے تو انہوں نے گنہگار بھی
ہوجانا تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا نافرمان بھی، اس طرح اگر میں تمہاری بات مان
کر بجائے ابوبکر صدیقt کے کسی اور
کو مصلیٰ پر کھڑا کر دوں تو میں گنہگار ہوجاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کا نافرمان بھی۔’’
اس کے بعد حضرت جؒی نے قرانِ حکیم کی یہ آیت تلاوت کی:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ
الْهَوٰىO اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰىO
اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں۔ ان کا
ارشاد تو وحی ہے جو (ان کی طرف) بھیجی جاتی ہے۔(النجم۔3-4)
ان شاگردوں کی خوش بختی کا کیا کہنا، جنہوں نے اس ہستی سے تربیت
پائی، جسے اویسی طریقے سے آقائے نامدارﷺ سے بھی رہنمائی حاصل تھی۔ تاریخِ
تصوف میں ایسی ہستیاں معدودے چند ہیں۔ شاہ
ولی اللہؒ کا یہ قول تاریخ میں ثبت ہے کہ
انہوں نے قرآنِ حکیم آقائے نامدارﷺ سے پڑھا۔ اس طرح حضرت جؒی کا یہ اعزاز
بھی خصوصی ہے کہ آپؒ نے اس حدیث کے اشکال کو رفع کرنے کے لئے اویسی طریقے سے براہِ راست آقائے نامدارﷺ سے رہنما ئی حاصل کی۔
ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ
يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُط
یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہیں عطا فرما دیں۔(المآئدہ۔54)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔