ANTI-ADBLOCK JS SYNC مکہ مکرمہ سے دو خط ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

مکہ مکرمہ سے دو خط

مکہ مکرمہ سے دو خط

            حضرت جؒی کے نام یہ خطوط حکیم گلزار احمد شاہ نے سفرِ حرمین کے دوران تحریر کئے۔یہ صاحب 1979ء میں سلسلۂ عالیہ سے منسلک ہوئے تھے اور فن ِطب میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔اسی زمانے میں حضرت جؒی کے دونوں گھٹنوں میں تکلیف شروع ہوئی اورپھر ایک وقت ایسا آیا کہ آپؒ کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے سے قاصر ہو گئے ۔ ان دنوں حضرت جؒی کی اقتداء میں نماز اور خاص طور پر نماز ِفجر میں آپؒ کی ر ِقت آمیز قرأت ایک خواب کی طرح محسوس ہوا کرتی۔آپؒ ملتان کے دورہ پر تشریف لائے تو گلزار احمد شاہ کو علاج کا موقع ملا جو قریباً ایک ماہ جاری رہا۔ ملتان سے لوٹے تو گھٹنوں کی تکلیف کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔ راولپنڈی کے اجتماع میں اس وقت احباب کی خوشی قابلِ دید تھی جب ایک طویل عرصہ کے بعدحضرت جؒی کومصلیٰ پر کھڑے دیکھا اور آپؒ کی امامت میں نماز ِظہر نصیب ہوئی۔اس خصوصی علاج پر حکیم گلزار احمد شاہ بھی نوازے گئے اور دورانِ علاج حضرت جؒی کی مسلسل توجہ کے نتیجہ میں تیز مشاہدات عطا ہوئے اور  روحانی کلا م میں انہوں نے حضرت جؒی سے تربیت پائی۔
            1981ء میں حکیم گلزاراحمد شاہ اور سلسلۂ عالیہ کے چند احباب نے حرمین شریفین کی حاضری دی۔ اس دوران شاہ صاحب نے اپنے مکاشفات پرمشتمل دو خط حضرت جؒی کے نام ارسال کئے۔ احباب کی محفل میں جس وقت آپؒ یہ خط بآواز بلند پڑھ رہے تھے،  ایک ساتھی نے ٹیپ ریکارڈر آن کردیا ۔ اس طرح حضرت جؒی کی آواز میں یہ دونوں خطوط محفوظ ہوگئے۔
            نفس ِمضمون کا تعلق روحانی ادراکات سے ہے، انہیں انسان کی ظاہری حالت پر محمول نہ کیا جائے۔ انبیاءعلیہم السلام  کا معاملہ تو روح کے ادراکات سے بھی کہیں آگے ہے۔یہاں صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ خیر و شر کی کشمکش سے، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور کسی دور میں بھی ہو، وہ لاتعلق ہیں نہ ہم ان کی دعاؤں سے محروم کہ یہی تو انبیاءعلیہم السلام کے شب و روز کا ماحصل تھا۔ چونکہ حضرت جؒی بھی انہی کے مقدس فریضہ کی ادائیگی پر مامور تھے اس لئے یہ روحانی رابطہ اور انبیاءعلیہم السلام کی جانب سے تشفی کے پیغامات قابل ِفہم ہیں۔
            اس مختصر تمہید کے ساتھ یہ خطوط من و عن پیش کئے جاتے ہیں۔قوسین میں درج شدہ الفاظ حضرت جؒی کے ہیں جو خط پڑھتے ہوئے آپؒ نے بطور وضاحت ادا فرمائے۔
بخدمت شیخ الامام الفقیہ العالم السالک مکرم
            السلامُ علیکم ور حمۃ اللہ وبرکاتہ: امید ہے آپ جناب خیریت سے ہوں گے۔ خط میں اس لئے دیری ہوئی ہے کہ مکمل باطنی حالات کی تکمیل نہ ہوئی تھی۔ اب حالات خدمت عالیہ میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ ہم یہاں 6ستمبر کو ہفتہ کی شام بخیریت مکۂ مکرمہ پہنچ گئے اور عمرہ ادا کیا۔ باطنی حالات مندرجہ ذیل ہیں۔
            سب سے پہلے اتوار کی صبح طواف کے لئے مسجد حرام میں داخل ہوئے تو پہلی ملاقات حضرت اسمٰعیلp  سے ہوئی۔ آپp  طواف فرما رہے تھے مگر آپp  کا طواف مطاف ِقدیم پر تھا (اب بڑھایا ہے، اس میں نہیں، اس پرانے میں تھا) یعنی بیت اللہ کی دہلیز کے مقابل طواف ہو رہا تھا۔ میں نے آپ جناب کی طرف سے (میری طرف سے) السلام و علیکم و دعا کی درخواست کی۔ آپp  نے فرمایا کہ انہوں نے ملت ِابراہیمیp کو باقاعدگی سے قائم و دائم رکھا ہوا ہے اس لیے ہماری دعائیں ہر وقت ان کے ساتھ ہیں اور حضرت اعلیٰ کو اس بات کی مبارکباد دے دینا کہ آپ کی جماعت محافظ ِحرم ہے۔ دوسرے دن حضرت اسمٰعیلu اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام عصر کے بعد طواف فرما رہے تھے۔ طواف مطاف ِقدیم پر تھا۔ طواف کے بعد میں نے عرض کیا کہ آپp  کے مسکن کے متعلق اختلاف ہے۔ اصل صورتحال واضح فرمائیں۔ آپp  نے فرمایا کہ میری مرقد جو حطیم میں معروف ہے، وہی صحیح ہے (لیکن فرق یہ ہے کہ حطیم کو کم کر دیا گیا ہے) نشاندہی فرمائی۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی قبر مبارک پرنالہ کے نیچے ہے۔ یہ فرمانے کے بعد میں نے عرض کیا کہ مجھے یہاں رہنے کا شوق ہے، آپ میری مدد فرمائیں تو فرمایا یہاں ایمان نہیں رہے گا۔ یہ لوگ بے دین ہو چکے ہیں۔
            منگل کو تہجد کے وقت ہم تمام ساتھی مسجد ِحرام میں آئے تو حضرت داؤدp  طواف فرما رہے تھے۔ آپ جناب کی طرف سے (میری طرف سے) السلام علیکم و دُعا کی درخواست کی تو فرمایا! ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، فکر کی ضرورت نہیں۔ جس دین کی ان کو فکر ہے (یعنی میرے متعلق) وہی ان کا محافظ بھی ہے۔ اس کے بعد وہ تشریف لے گئے۔
            بدھ کی صبح تہجد کے طواف میں حضرت سلیمانp  طواف فرما رہے تھے ، سلام عرض کیا گیا اور دُعا(میری طرف سے)۔ انہوں نے وہی جواب دیا جو اسمٰعیلu نے دیا تھا۔ اس کے بعد میں نے عرض کی کہ یہودی آپp  کے ہیکل مبارک کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرمایا، جہاں وہ کھدائی کر رہے ہیں، وہاں میری قبرنہیں۔ یہاں ان کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
            اتوار کی صبح کو ہم تمام ساتھی جبل ِرحمت پر گئے جہاں حضرت آدمu کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ وہاں یوشع بن نونu (موسیٰu کے پہلے خلیفہ) کی قبر تھی۔ جب مراقبہ کیا گیا تو انوار کی دیواریں بن گئیں اور حد ِنگاہ تک کچھ نظر نہیں آتا تھا (انوار اتنے تیز ہیں) سرخ رنگ کے انوارات تھے۔ واپسی پر مسجد ِنمرہ میں حاضر ہوئے، نفل پڑھے، اس کے بعد شرقی دیوار کی طرف انوارات کی بوچھاڑ شروع ہوئی جہاں جنوبی کونہ تھا اور سیڑھی اوپر کو جاتی ہے ( نشان پورا لے لیاہے)۔ ہم وہاں پہنچے تو یہ حضرت یونسu کی قبر تھی جو دیوار کے ساتھ ہے۔ وہاں بھی انوارات کی وہی شدت تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ میں حج کے لیے تشریف لا رہا تھا کہ عرفات میں آکر میرا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد جب ہم مسجد ِخیف میں پہنچے تو نوحu اور آدمu سے ملاقات ہوئی۔ مسجد ِخیف کا پرانا نقشہ اب بالکل تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کوئی آثار قدیمی باقی نہیں رہے۔ تمام مسجد شہید کرکے نئی تعمیر شروع ہے۔ یہ حالات ہیں جو میں نے آپ کی خدمت میں تحریر کردیئے ہیں۔
یہ خط پڑھنے کے بعد حضرت جؒی نے دوسرا خط پڑھنا شروع کیا:
دوسرا خط
            بخدمت حضرت شیخ الامام الفقیہہ العالم السالک السیّدی و مرشدی
            السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اماّ بعد:اس سے پہلے خدمت عالیہ میں کچھ معروضات پیش کر چکے ہیں۔ امید ہے کہ مل گئے ہوں گے۔ دیگر حالات حاضر خدمت ہیں۔
            اس خط میں دہلیز اسمٰعیلu کی مرقد مقدس کی تحریر میں سہواً یہ لکھا گیا ہے کہ ان کے پاؤں مبارک[1] (یعنی پہلے خط میں غلطی سے لکھ بیٹھا)۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ایسا نہیں، میرا سر مبارک رکن ِیمانی کی طرف ہے اور پاؤں مبارک حطیم کی دیوار کے کونے میں ہیں۔ یہ تصحیح انہوں نے خود فرمائی ہے۔
            حضور! یہاں حرمِ پاک میں چار قسم کی مخلوق پائی گئی ہے۔ ریچھ، بندر، چترے، خنزیر اور پانچویں قسم انسان۔سو میں سے تیس انسان ہیں (انسان صرف تیس ہیں)۔ حجر ِاسود پر پہلے بندر آتے ہیں، وہ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اوپر سے چیتا آتا ہے، پھر ریچھ آتا ہے۔ چیتے اور ریچھ کی لڑائی ہوتی ہے۔ خنزیروں میں سے ابھی تک حجر ِاسود پر کوئی نہیں آیا (شکلیں خنزیروں والی ہیں، بندروں والی ہیں، ریچھوں والی ہیں، چترے والی ہیں، ہیں بندے، انسانوں کی بات کر رہے ہیں۔ روئیت ِاشکال کے مراقبے میں دکھایا جاتا ہے۔ بعض ساتھیوں کو ویسے ہی ہو جاتاہے۔ انسانی شکلوں میں بیٹھے ہو ں تو پتا چلتا ہے خنزیر ہے، ریچھ ہے، بندر ہے۔ خنزیر ہوا، ریچھ ہوا، بندر ہوا، یہ کافر ہیں، مسلمان نہیں، ایمان پر نہ مریں گے۔ باقی حلال جانور کی شکل پر ہو تو وہ ایماندار ہے۔ انسانی شکل پر ہو، مرنے کے بعد فوری طور پر تبدیل ہو جائے گا، اسی شکل پر ہوگا)۔
  آج بروز بدھ چاشت کے وقت کیپٹن مقبول کے ہمراہ طواف کے لئے بیت اللہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ السلام  طواف فرما رہے تھے۔ عجیب قسم کی رقت طاری ہو گئی جو یہاں بیان سے باہرہے۔ آنجناب کے متعلق دعائے صحت، عمر درازی کی درخواست کی (میرے متعلق کی گئی)۔ آپp  نے فرمایا! جاؤ میری طرف سے انہیں مبارک باد پیش کرنا کہ جس کھیتی کوکاشت کیا ہے،یہ حق ہے۔ جس طریقہ سے اس کی آبپاشی کی جارہی ہے،یہ حق ہے۔ عنقریب اس کھیتی کے درخت ملتِ ابراہیمی اور حرم ِپاک کے محافظ ہوں گے، یہی دینِ ابراہیمیu ہے۔ دو وقت صبح و شام ان سے ہماری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے پھر اپنی مرقد بتائی۔ حضرت ِاعلیٰ کی صحت اور خاتمہ اکمل الایمان (یہ میں نے کہلا بھیجا تھا کہ میرے خاتمہ بالایمان کے لئے دعا کریں) کے متعلق نہایت ہی گریہ وزاری سے دعا کر رہے تھے کہ آواز آئی، دعا تو قبول ہے کب تک میرے سینے پر سوار رہو گے (نیچے قبر تھی،         پیغمبر تھے) ۔ فوراً ہم نے دیوار کو چھوڑ دیا اور استغفار کی۔
            حضرت اسمٰعیلu  کا فرمان ہے کہ یہاں صبح شام ہماری توہین ہوتی ہے اور دین ابراہیمیu کی توہین ہوتی ہے۔ ہم ان سے تنگ ہیں۔
            حضرت جؒی کے ریکارڈ شدہ کیسٹ میں اس خط کے مندرجات کا صرف یہاں تک تذکرہ ہے۔ اس خط کے یقیناًکچھ اختتامی فقرے بھی ہوں گے جو ریکارڈ نہ ہوسکے یا شاید پڑھے نہ گئے ہوں۔


[1]ـ  پہلے خط میں ‘‘پاؤں مبارک’’  کا تذکرہ نہیں۔ ممکن ہے کسی اور خط میں کیا گیا ہو جو دستیاب نہ ہو سکا یا حکیم گلزار شاہ کو اشتباہ ہوا ہو کہ ایسا لکھا گیا۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو