ANTI-ADBLOCK JS SYNC دلائل السلوک ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

دلائل السلوک

دلائل السلوک

            1963ء کو ترویجِ سلسلۂ عا لیہ کا سا ل قرار دیاجا سکتاہے۔ ڈھلی، چکوال، موہڑہ کورچشم اور ڈھلوال میں احباب کی کثیرتعداد صبح وشام اجتماعی ذکرمیں شریک ہوتی ۔ جو شخص بھی ذکر کا آغاز کرتا،اس کی زندگی کی روش اچانک تبدیل ہوجاتی ۔ مولوی اکرام الحق، حافظ عبدالرزاقؒ اور مولوی سلیمان جیسے اہلِ علم جب حضرت جؒی کے عقیدت مندوں کی صف میں نظر آنے لگے تو لوگوں کے تجسّس میں اور بھی اضافہ ہوا۔ لوگ تصو ّف کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جن میں علماء بھی شامل تھے۔
            سوال علمی ہو تے یا جاہلانہ، حضرت جؒی قرآن و حدیث سے دلائل کے ساتھ ہر شخص کی تشفّی فرماتے۔ جس کے دل میں حق کی ذرہ بھربھی طلب ہوتی، وہ آپؒ کی محفل سے نامرادنہ اٹھتا۔ گفتگو کے بعد محفلِ ذکر ہوتی جس میں اکثر خوش نصیب ذکراللہ کی برکات کا انوارات و تجلیات کی صورت خود مشاہدہ کرتے۔ بارہا ایسابھی ہواکہ اعتراض کرنے والوں کو حضرت جؒی کی توجہ ملی توعین الیقین کی کیفیت لے کر اٹھے اور دعوت کا ذریعہ بن گئے۔ایسے ہی ایک شخص ظہور شاہ کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔
             ذاکرین اگرچہ اپنے اپنے حلقہ ٔ اثر میں دعوت اور ترویج سلسلہ کا مؤثر ذریعہ تھے لیکن ہر ذکر کرنے والا یہ اہلیت نہیں رکھتا تھا کہ ذکر وفکر اور سلوک کے بارے میں لوگوں کے اشکال دور کر سکے۔ چنانچہ سلسلۂ عالیہ کی روز افزوں ترویج کے ساتھ یہ ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ حضرت جؒی کی تعلیمات کو تحریری طور پر عوام الناس اور طلبِ حق رکھنے والوں تک پہنچایا جائے۔1963ء میں حافظ عبدالرزاقؒ کی روحانی بیعت ہوئی تو انہیں دربارِ نبویﷺ سے ‘‘قلم’’ عنایت فرمایا گیا۔اس موقعہ پر حضرت جؒی نے فرمایا :
‘‘معلوم ہوتا ہے آپ سے کوئی تحریری کام لیا جائے گا۔’’
          کچھ عرصہ بعد آپؒ نے خبر دی کہ مشائخ (حضرت سلطان العارفیؒن) کی طرف سے ہدایت ملی ہے کہ سلوک پر ایک ایسی کتاب لکھی جائے جسے اس موضوع پر سند کا درجہ حاصل ہو ۔آپؒ نے       حافظ صاحؒب سے فرمایا:
            ‘‘مشائخ کا حکم مل گیا،اب لکھنا شروع کرو۔’’
             اس ہدایت کے بعد حضرت جؒی نے سلوک کے حوالے سے مواد اکٹھا کرنا شروع کر دیا جو ساتھ ساتھ ایک رجسٹر میں درج کرتے گئے۔ یہ حوالہ جات قرآن و حدیث اور سلف صالحین کی تحریروں سے سلوک کے موضوع پرایسے دلائل تھے جنہیں یکجا کرنا ضروری تھا تاکہ ہر شخص بآسانی استفادہ کر سکے۔
            ماضی میں مختلف مذاہبِ فقہ سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ہر شخص کسی نہ کسی سلسلۂ تصو ّف سے بھی وابستہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین کی تصانیف میں سلوک کی تعلیم کا ذکر تو ملتا ہے لیکن ان ادوار میں اس کے جواز پر بحث کی ضرورت پیش آئی نہ دلائل اکٹھے کئے گئے۔ سلوک کے معترضین میں کئی بڑے نام بھی ہیں لیکن علمی اور عقلی دلائل کی بجائے ان کے اعتراضات کا عملی جواب اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی وسیع جماعت اور ایک مؤثر خانقاہی نظام تھا جہاں سلوک کی تربیت دی جاتی۔ آج کا دور جب سلوک کا سرے سے انکار کر بیٹھا اور قلب سے زیادہ عقل پر انحصار کیا جانے لگا تو حضرت جؒی نے سلف صالحین کی طرح نہ صرف عملی سلوک کا نقشہ پیش کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کے اِشکال رفع کرنے کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل کی زبان میں بھی بات کی۔
            دلا ئل السلوک کو مرتب کرنے کی ذمہ داری حافظ عبدالرزاقؒ کے سپرد ہوئی۔ حضرت جؒی نے انہیں کتاب کا مواد دیا اور خود ابواب قائم کئے۔ حافظ صاحؒب ان ملفوظات کو ترتیب دینے کے بعد آپؒ کو سناتے اور حسب ِ ضرورت آپؒ اس میں اضافہ و تبدیلی فرماتے۔حافظ صاحؒب نے مختلف مقامات پر حواشی کا بھی اضافہ کیاجو حضرت جؒی کی منظوری کے بعد کتاب میں شامل کئے گئے۔
            اُن دنوں حافظ عبدالرزاقؒ  گورنمنٹ ڈگری کالج جہلم میں تعینات تھے اور دلائل السلوک کی پروف ریڈنگ کا کام بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ اسی کالج میں ایک نئے لیکچرر سیّد بنیاد حسین شاہ آئے  تو  حافظ صاحؒب کے طریقۂ ذکر کے بارے میں معترض ہوئے اور حضرت جؒی کی خدمت میں جانے کی خواہش ظاہر کی تاکہ اشکال دور کر سکیں۔ چکڑالہ میں آپؒ سے ملاقات ہوئی تو ان پر گھٹن سی طاری ہو گئی۔ عشاء کی نماز میں حضرت جؒی کی قرأت سنی تو وہ گھٹن جاتی رہی اور تمام اشکال بھی رفع ہو گئے۔ حضرت جؒی کی قرأت میں وہ تاثیر تھی جس کے نتیجہ میں قلوب کی حالت بدل جاتی۔ بنیاد حسین شاہ کی تبدیلی کا باعث بھی   حضرت جؒی کی پرسوز اور روح پرور قرأت تھی۔ واپس لوٹے تو حافظ صاحبؒ کے ساتھ وہ بھی            ‘‘دلائل السلوک’’ کی پروف ریڈنگ میں شریک ہو گئے۔
            کالج کے پرنسپل اشرف صدیقی نے اُن کو پروف ریڈنگ کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے، تم اس فن کے آدمی نہیں، یہ کام میں کروں گا۔ پروف ریڈنگ کے دوران  مناصب کے بارے میں عبارت نظر سے گزری تو انہوں نے حافظ صاحؒب سے دریافت کیا، آپ کے شیخ کس منصب پر ہیں؟ حافظ صاحؒب نے لاعلمی کا اظہار کیا تو کہنے لگے، میں بتاؤں، وہ قطب ِ وحدت ہیں۔جب یہ بات حضرت جؒی کی خدمت میں عرض کی تو آپؒ نے فرمایا، بڑا ذہین آدمی ہے اس نے کتاب پڑھ کر سمجھ لیا۔ اشرف صدیقی، حضرت جؒی کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے تو داڑھی کو زیب ِ چہرہ کر لیا۔ نہ صرف صوم و صلوٰة کے پابند ہوئے بلکہ اپنے کمرے میں حافظ صاحؒب کی اقتداء میں نمازِ تراویح کا بھی اہتمام کیا اور یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ انہیں مکمل قرآن سننا نصیب ہوا۔ جلد ہی وفات پائی لیکن دلائل السلوک کی پروف ریڈنگ ان کی نجات کا ذریعہ بن گئی۔
            دلائل السلوک کا پہلا ایڈیشن 1964ء میں طبع ہوا تو یہ کتاب ترویجِ سلسلۂ عالیہ کا انتہائی مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی۔جیساکہ نام سے ظاہر ہے، اس میں حضرت جؒی نے سلوک کے موضوع پر قرآن و حدیث، اقوال سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ دلیل کے ساتھ ساتھ حضرت جؒی کی تحریر میں وہ اعتماد اور تیقّن بھی شامل ہے جو ذاتی مشاہدے اور حق الیقین کے بغیر ممکن نہیں۔ آپؒ چونکہ ان دونوں سے مالامال تھے، دورانِ مطالعہ کتاب کی اثر پذیری بذات خود ایک دلیل کی صورت محسوس کی جا سکتی ہے۔
            جس چیز کی سمجھ نہ آئے اس پر اعتراض کرنا عام دستور ہے۔ ایسے ہی ایک معترض نے             حافظ عبدالرزاقؒ سے خط و کتابت شروع کر دی اور ہر جواب کے بعد نیا اعتراض وارد ہو جاتا۔ یہ صاحب ایک بزرگ کے مجاز بھی تھے۔ دلائل السلوک میں ‘‘شیخ ِ کامل کی پہچان’’ کے معیار پر خود کو پرکھا تو اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ یہ شاید ان کی تنقیص میں لکھا گیا ہے۔ حضرت جؒی کو علم ہوا تو آپؒ نے فرمایا، کیوں ایک عرصہ سے اس کے ساتھ الجھ رہے ہو اور اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ آج میں ایک خط لکھواتا ہوں جس کے بعد اعتراضات کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ اس کو میری طرف سے لکھو:
‘‘ میرا آپ کے ساتھ مناظرہ ہو گا۔ مقام منارہ ہو گا۔ ثالث آپ مقرر کریں گے۔ ملک کے جس عالم سے چاہیں مدد لیں مگر مناظرہ میں بولنا صرف آپ کو ہو گا۔ دوسری طرف سے صرف میں بولوں گا اور کسی سے مدد نہیں لوں گا۔ موضوع مناظرہ یہ ہو گا کہ میں آپ سے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مفہوم پوچھوں گا اور علومِ الٰہیہ کی رُو سے آپ کے جواب پر جو اعتراض ہو سکتے ہیں،  وہ کروں گا۔ اگر آپ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی بتانے میں کامیاب ہو گئے تو میں ہار مان لوں گا۔’’
          اس خط کے بعد اعتراض برائے اعتراض کا یہ سلسلہ ختم ہوا، تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ حضرت جؒی نے دلائل السلوک کے دوسرے ایڈیشن میں کافی اضافے کئے اور ساتھ ہی مختلف اعتراضات کے جواب بھی شامل کر دیٔے تاکہ اگر کوئی شخص تصوف کے بارے میں ذہنی الجھنوں کا شکار ہو تو اس کی رہنمائی ہو سکے۔
          حضرت جؒی کی ایک ریکارڈ شدہ کیسٹ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ دلائل السلوک کا ایک نسخہ سلسلۂ عالیہ کے ساتھی محمد اصغر پٹھان کے ذریعے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک پہنچا تو کہنے لگے، میں نے یہ کتاب دیکھی ہے۔ ہندوستان کی سرحد میں تین دینی تحریکیں چلی ہیں۔ پہلی دفعہ شیخ سرہندیؒ نے چلائی تھی، پھر شاہ ولی اللہؒ کی تحریک۔ چونکہ وہ قلمی تھی اس لئے کامیاب نہیں ہوئی اور پھر اس شخص (حضرت جؒی) نے آکر۔ یہ میں مانتا ہوں کہ شیخ سرہندیؒ سے یہ تحریک کم نہیں ہے مگر اس میں تصو ّف ہے۔ اگر تصو ّف نہ ہوتا تو یہ تحریک چلتی۔
            مولانا مودودی کی اس رائے کا تذکرہ کرنے کے بعد حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘تصو ّف کے بغیر نہ تحریک چلتی ہے، نہ کامیاب ہوتی ہے۔ جس کا جی چاہے کر کے دیکھ لے۔ سوائے اس کے خلوص نہیں ہوتا۔’’
            دلائل السلوک میں تحریر ہے کہ جب حضرت ہودu کی قوم ہلاک ہو گئی تو وہ اہل ِ ایمان اور   اہلِ خانہ کو لے کر مکہ مکرمہ پہنچ گئے جہاں ان کا وصال ہوا اور بیت اللہ کے دروازے کے نیچے ان کی قبر مبارک ہے۔ اس پر ایک شخص نے حضرت جؒی پر اعتراض کیا کہ ہودu کی قبر اب بھی وہاں موجود ہے جس جگہ وہ پیدا ہوئے اور جہاں ان کی قوم ہلاک ہوئی لیکن آپؒ نے حوالہ دیا ہے کہ وہ بیت اللہ کے دروازے پر ہے۔ حضرت جؒی نے جواب دیا:
‘‘میں اندھوں کی بات نہیں کر رہا، میں آنکھوں والوں کی بات کر رہا ہوں۔ تم تو اندھے ہو، تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ پوری امت محمدیہﷺ کا اتفاق ہے کہ حضورﷺ کے مدفن کے علاوہ کسی نبی کی قبر کا علم نہیں۔ دنیا میں جس طرح حضورﷺ مبعوث ہوئے،سورجِ محمدیﷺ چمکا، تمام انبیاءعلیہم السلام کی شریعتیں ختم ہوگئیں، برزخ میں جب آپﷺ پہنچے سب کی قبریں وہاں سے ختم ہوگئیں۔ باقی معاملہ یہ ہے کہ میں اپنی بات کر رہا ہوں، آپ کی بات تو نہیں کر رہا۔ ہم نے سینکڑوں قبریں دیکھیں جن میں کوئی چیز نہیں۔ لوگ قبریں بنا بیٹھے ہیں۔ پختہ کرنے اور جھنڈے بلند کرنے کے بعد پوجا پاٹ شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے لئے ذریعہ معاش بنا لیتے ہیں۔ لوگوں کی بات اور ہے۔’’
            نومبر 1976ء میں پہلی مرتبہ دلائل السلوک کا انگریزی ترجمہAn Objective Appraisal of the Sublime Sufi Path کے نام سے شائع ہوا۔ اب اس ترجمہ کا تیسرا ایڈیشن (TASAWWUF by Abu Talha) کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ دلائل السلوک کے اس ترجمہ کو مغرب میں تصوف کے موضوع پر ایک سند کی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی نے 2011ء میں دارالعرفان کے سالانہ اجتماع میں دلائل السلوک کی  مکمل شرح بیان فرمائی جو اب حضرت جؒی کے اصل متن کے ساتھ شائع ہو چکی ہے۔ اس طرح دلائل السلوک کو عام قارئین کے لئے بھی انتہائی آسان فہم بنا دیا گیا ہے۔
          دلائل السلوک حضرت جؒی کی ایسی نادر روزگار کتاب ہے جو سلوک کے منکرین کے لئے برہان قاطع کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں خالص اسلامی تصوف کے حق میں قرآن اور احادیث سے دلائل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ متقدمین اور متآخرین اہل اللہ اور علمائے ربانی کے واقعات اور حالات اس انداز سے پیش کئے گئے ہیں کہ اس سے قبل ایسی تحقیق تاریخ تصوف میں نہیں ملتی۔ حضرت جؒی نے           ‘‘دلائل السلوک’’ کے ذریعہ اسلامی تصوف کے ما لہٗ و ماعلیہ کا مکمل احاطہ کر دیا ہے کہ نہ صرف یہ ایک جامع تحقیق ہے بلکہ اس موضوع پر آئندہ جب بھی تحقیق کے لئے قلم اٹھایا جائے گا تو ‘‘دلائل السلوک’’ کی متعین کردہ حدود سے باہر نکلنا ممکن نہ ہوگا۔
          آپؒ نے اس کتاب میں اسلامی تصوف کی حقیقت، تصوف کا ثبوت، بحثِ قلب، روح، نفس، منازل سلوک، ذکر الٰہی، تصرف شیخ، آداب شیخ،مناصب اولیاء اللہ،  کشف و الہام، حضورﷺ سے روحانی بیعت، کلام بالارواح، رؤیۃ انبیاء و ملائکہ اور تصوف سے متعلق دیگر موضوعات پر ایسے دلائل جمع کر دیئے ہیں جن کا رد ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ اس موضوع پر معترضین کے اعتراضات کا دلائل سے قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیا ہے جو ہر صاحب عقل و فہم کی دسترس میں ہے۔ اس اہم ترین موضوع کو انتہائی عام فہم انداز میں صفحۂ قرطاس پر لانا حضرت جؒی کا ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو