ANTI-ADBLOCK JS SYNC اندازِ بیاں ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

اندازِ بیاں

اندازِ بیاں

            حضرت جؒی کے مناظرانہ دور کا ذکر کرتے ہوئے مشہور عالم دین مولانا محمد لقمان علی پوری نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آپؒ نے کبھی بھی فریقِ مخالف کی گھنٹوں طویل تقریر کے نکات کسی کاغذ پر نوٹ نہیں فرمائے لیکن جوابی تقریر کے دوران اعتراضات کا اسی ترتیب سے جواب دیتے، کوئی نکتہ نگاہ سے اوجھل نہ ہوتا اور مقابل کے اعتراضات کا سیر حاصل جواب دینے کے بعد بیسیوں سوال ایسے کرتے جن کا جواب دینا فریقِ مخالف کے لئے ممکن نہ ہوتا۔ آپؒ کو فاتح اعظم کا عوامی خطاب بھی اسی وجہ سے ملا کہ آپؒ ہر مناظرہ میں ناقابلِ تسخیر رہے۔ اپنے خطاب کے دوران ہر سوال کاجواب مع اسناد، حوالہ جات، صفحہ اور سطر کی حد تک اس روانی سے بیان فرماتے چلے جاتے کہ آپؒ کے نائبین کے لئے ان حوالوں کوکتب سے تلاش کرنا مشکل ہو جاتا۔ یہ اندازِ بیاں یقیناً مناظروں کی دنیا کے فاتح اعظم ہی کا ہو سکتا تھا جس پر صرف مولانا محمد لقمان علی پوری ہی کو نہیں، ہر شخص کو حیرت ہوتی۔
            اس سے پہلے مناظرۂ جہلم کی ایک جھلک پیش کی جا چکی ہے جس سے بخوبی عیاں ہے کہ حضرت جؒی کا اندازِ بیاں خالصتاً علمی ہوا کرتا تھا۔ آپؒ کبھی مفروضوں پر بات نہ کرتے ، نہ کسی کی دلآزاری کرتے اور نہ ہی شخصیات کو ہدفِ تنقید بناتے۔ آپؒ  محض اِحقاقِ حق اور اصلاحِ احوال و عقائد کی نیت سے ان مناظروں میں حصہ لیتے تھے لیکن جب دیکھا کہ مناظروں میں علمی استدلال کی بجائے نوک جھونک، سوقیانہ اندازِ بحث اور طعن و تشنیع کا رنگ چھا چکا ہے تو آپؒ ان سے متنفر ہو گئے۔ اس دور کا ذکر کرتے ہوئے ایک  مرتبہ آپؒ نے فرمایا کہ میں نے مناظرے اس لئے چھوڑ دیئے کہ ان سے دل ٹوٹتے ہیں، جڑتے نہیں۔ آپؒ   کا یہ فرمان ان مناظروں کے بارے میں تھا جو اس وقت عالمانہ مباحث کی بجائے محض فرقہ واریت کی علامت بن چکے تھے۔
فرقہ واریت
            حضرت جؒی کی تقاریر کا مقصد اصلاحِ عقائد ہوتا نہ کہ تکفیر و تذلیل۔ آپؒ فرقہ واریت او رگروہ بندی کو انتہائی ناپسند فرماتے۔ مئی 1958ء میں حضرت جؒی کو ڈپٹی کمشنر کیمبل پور (اٹک) کی طرف سے ایک مراسلہ ملا جس میں اس نے تلہ گنگ کے دورہ کے دوران آپؒ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ 23 مئی کو ملاقات ہوئی تو اس نے حضرت جؒی کا ازحد احترام کرتے ہوئے مزاج پرسی کے بعد دریافت کیا، ‘‘کیا آپ کو علم ہے کہ میں نے آپؒ کو ملاقات کی زحمت کیوں دی ہے؟’’ حضرت جؒی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے کہا:
‘‘میں آپ سے امداد کا طالب ہوں۔ میں نے مسلمانوں میں باہمی اختلافات ختم کرنے کے لئے اتحاد کمیٹیاں قائم کی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ علماء اپنی تقاریر میں اختلافی مسائل بیان نہ کریں جن سے دوسرے فریق کی  دل آزاری ہوتی ہے اور جو سارے فساد کی جڑ ہے۔’’
اس نے حضرت جؒی سے اپنی بات کی تائید چاہی تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘اتفاق اور اتحاد کی طاقت سے اسلام پھیلا۔ اگر صحابہ کرام اور اہل بیت عظام ]  کے درمیان اتفاق نہ ہوتا تو ہم تک اسلام نہ پہنچتا۔ آج بھی مسلمانوں کے باہم اتفاق کی سخت ضرورت ہے اور آپ نے جو نسخہ تجویز کیا ہے، انشاء اللہ بہت جلد شافی ثابت ہوگا۔ آج ملک میں جو شیعہ سنی اختلاف پیدا ہو رہا ہے، سخت مہلک ہے اور اس کو ختم کرنے سے ہی ملک میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس اختلاف کے وسیع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات کے مذہب میں خلفائے ثلاثہy پر طعن و تشنیع کارِ ثواب ہے جس کے نتیجہ میں خلفائے ثلاثہy کے عقیدت مندوں کے دل مجروح ہوتے ہیں اور وہ مجبوراً جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنے ضلع میں شیعہ علماء کو مطاعن صحابہ]  بیان کرنے سے روک دیں تو فضا بدل جائے گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر شیعہ مبلغین مطاعن صحابہ]  بیان کرنے سے رک جائیں گے تو میں ہر گز ان سے نہیں الجھوں گا۔’’
            حضرت جؒی کی یہ گفتگو سن کر ڈپٹی کمشنر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپؒ جب بھی کیمبل پور (اٹک) میں جلسہ کے لئے تشریف لائیں تو مجھے پیشگی اطلاع کر دیں تو میں آپؒ کی تقریر ضرور سنوں گا۔ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘میں ضرور آپ کو اطلاع دیا کروں گا اور تقریر بھی وہ کروں گا جس سے اتفاق و اتحاد پیدا ہو۔ میں انشاء اللہ تعالیٰ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام]  کا آپس میں اتفاق بیان کروں گا جس کے نتیجہ میں باہمی اتفاق اور اتحاد پیدا ہو گا۔’’
            اس میٹنگ کے دوران شیعہ مذہب کے ایک وکیل اور ذیلدار بھی موجود تھے جنہوں نے حضرت جؒی کے خلاف بات کرنے کی کوشش کی لیکن ڈی سی نے کوئی توجہ نہ دی اور وہ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ‘‘الفاروق’’ نے ڈی سی کیمبل پور کے اس جذبہ کو سراہا۔ آج بھی شیعہ سنی فساد سے بچنے کے لئے اسی جذبہ کی ضرورت ہے۔ حضرت جؒی نے اس مسئلہ کا جو حل تجویز فرمایا تھا، اگر آج بھی فریقین  اس پر عمل کریں اور حکومت اس امر کو یقینی بنائے تو باہم اشتعال کی صورت پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔  1976ء میں آپؒ نے ایک شاگرد کو تحریر فرمایا:
‘‘صوفی خالی علم نہیں، عمل ہے۔ صوفی صرف بدنِ اسلام نہیں بلکہ روحِ اسلام ہے۔ بیٹا!  علم ظاہریہ میں تحقیقی مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور ہمیشہ عقائد و اعمال میں سلف صالحین کی طرف خیال رکھنا، 320 سال تک جو ہوئے ہیں۔ بعد میں اختلافات، عنادات   و  ضد پیدا ہوئی، فرقہ بازی پیدا ہو گئی۔ آج بیٹا! کہیں دنیا میں جو تبلیغ ہو رہی ہے سب کی سب، تمام کی تمام ،گروہ بندی اور جماعت بندی کی ہو رہی ہے، نہ خالص اسلام کی۔ کوئی شخص نہیں ملتا جو مسلمانوں کو عمل کی طرف متوجہ کر کے عامل بنائے۔ باعمل مسلمان بنیں۔ اگر ہم نے مسلمانوں کو باعمل مسلمان بنانے کی پوری جانفشانی سے کوشش کی تو علماء و جہلاء دکاندار صوفیوں کو سخت دکھ ہوگا مگر پرواہ  نہ کرنا۔ بھروسہ و توجہ علی اللہ رکھنا۔ ولی اللہ کو ایک اللہ کافی، کسی کی حاجت نہیں ہے۔دوتین سال بعد، بشرطیکہ میرے رب نے میری زندگی رکھی، تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ صوفی اسلام کا کس قدر بول بالا کر کے دکھائیں گے۔ مخلوق کی اصلاح کرو، گروہ بندی سے دوری  اختیار کرو۔’’
ایک مرتبہ حضرت جؒی کے سامنے ایک فروعی اختلافی مسئلہ اٹھایا گیا تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘میری زبان اور میرے قلم سے میری زندگی میں امت کے اختلافات اور فروعی مسائل پر کوئی مواد نہ پاؤ گے،اس لئے کہ میں امت کو تفریق در تفریق  سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔ بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث، ان سب کو میں اختلافات کے باوجود اسلام میں دیکھتا ہوں۔’’
          حضرت جؒی کی شفقت، وسعتِ ظرفی اور رواداری کا نتیجہ تھا کہ آپؒ کے دامن میں بلا امتیازِ مسلک، ہر طا لب کو جگہ ملی۔ آپؒ کے عقیدت مند کبھی اختلافات زیرِ بحث نہ لاتے۔ اللہ اللہ کرنے کی برکت سے نہ صرف فروعی اختلافات خود بخود  ختم ہو جاتے بلکہ عقائد بھی درست ہو جاتے۔ اہل اللہ کی تبلیغ کا ہمیشہ یہی انداز رہا ہے۔
الزامی جوابات
          مناظروں یا مباحثوں میں اکثر یہ د یکھنے میں آیا ہے کہ اگر ایک فریق  دوسرے فریق پر کوئی الزام لگاتا ہے تو اسی الزام کو جواب کی صورت میں پہلے فریق پر لوٹا دیا جاتا ہے، جیسے  شیخینy  پرکوئی اعتراض کرے تو جواباً اسی اعتراض کو حضرت علیt  پر لوٹا دیا جائے جس کے بعد معترض فریق کے لئے اپنے ہی عائد کردہ الزام پر اصرار ِکرنا ممکن نہ رہے۔ حضرت جؒی کے ہاں الزامی جوابات کا یہ طرزِ استدلال کبھی دیکھنے میں نہ آیا۔ آپؒ نے اس طرزِ استدلال کی تنقیص میں پشاور کے علماء کے سامنے اپنا ذاتی واقعہ بیان فرمایا کہ ایک مناظرے کے دوران دل میں صرف خیال گزرا کہ فریقِ مخالف کے الزام کو اگر اس پر ہی لوٹا دیا جائے تو اسے اپنے الزام سے دستبردار ہونا پڑے گا ۔ اس خیال کے آتے ہی قلب پر سخت گھبراہٹ طاری ہوئی اور اسی لمحہ یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ الزامی جواب کا انداز غیرتِ الٰہی کو گوارا نہیں۔ حضرت جؒی کو یہ فہم   و  ادراک اللہ تعالیٰ کے ساتھ خصوصی تعلق کی وجہ سے نصیب  تھا، وگرنہ جو لوگ منجانب اللہ، اس رہنمائی سے محروم ہیں وہ اکثر مناظروں اور مباحثوں میں محض ضد اور فریقِ مخالف کو زچ کرنے کے لئے الزامات اور پھر الزامی جوابات میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، جیسے توحید بیان کرتے ہوئے مقامِ رسالت زد میں آجائے یا مدح رسولﷺ کا وہ انداز اختیار کیا جائے جس سے دوسرے انبیاءعلیہم السلام کی شان میں کمی آتی ہو  ۔ یہ اسی قبیل کی مختلف صورتیں ہیں جواللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔
            چکڑالہ میں آپؒ نے ایک جلسہ کی صدارت فرمائی جو غالباً 1968ء کا واقعہ ہے ۔مولانا عبدالمجید ندیم  نے  بعد از جلسہ آپؒ سے  سوال کیا:
‘‘حضرت! آپ کایزید کے بارے میں کیاخیال ہے؟’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘اس مسئلہ کو رہنے دو، اب تو لوگوں نے یزید علیہ السلام کہنا شروع کر دیا ہے ۔اس کا یہ جرم کیا کم ہے کہ اس کے دور میں نواسۂ رسولﷺ کو شہید کیا گیا۔یہ مسئلہ سٹیج کا نہیں۔’’
اسی طرح ملتان میں مولانا محمد الفاروقی النعمانی نے حضرت جؒی سے سوال کیا:
‘‘حضرت! یزید کے بارے میں علماء کہتے ہیں، جہنمی ہے، برا بھلا کہتے ہیں۔ آپ نے کبھی کچھ نہیں کہا۔’’
آپؒ نے پوچھا:
‘‘کیا تم مناظرہ کرنے آئے ہو؟’’
نعمانی صاحب نے فوراً عرض کیا:
‘‘نہیں حضرت، میں تو سیکھنے آیا ہوں۔’’
آپؒ نے فرمایا:
‘‘میں نے اس کا معاملہ اپنی کسی کتاب میں نہیں چھیڑا لیکن یہ سن لو! وہ اس معاملے میں بری نہیں ہو سکتا۔’’
            حضرت جؒی دقیق علمی موضوعات پر جب عام دیہاتی سامعین کے سامنے خطاب فرماتے، تو اندازِ بیان انتہائی سہل ہوتا لیکن جب انہی موضوعات  پر علماء کی محفل میں بات کرتے تو عالمانہ رنگ نمایاں ہوتا۔ یہاں آپؒ کا ایک خط پیش کیا جاتا ہے جو آپؒ نے فنِ مناظرہ میں اپنے شاگرد مولانا نذیر احمد مخدوم کے اِشکالات رفع کرنے کے لئے تحریر فرمایا۔ اس خط میں آپؒ کا عالمانہ طرزِ استدلال غالب نظر آتا ہے۔
بخدمت عزیزم حضرت  مولانا حافظ نذیر احمد صاحب
            السلام علیکم!
‘‘یا علی انت خلیفۃ بعدی بلا فصل۔’’ عمدة القاری تو کجا رہی، کسی کتاب میں کوئی روایت موجود نہیں ہے البتہ فتح الباری 106:8 مصری میں یوں الفاظ موجود ہیں:
   عن سلیمان انہ قال قلت یا رسول اللہ ان اللہ تعالیٰ لم یبعث نبیا الابین لہ من یلی بعدہ فھل بین لک قال نعم ہو علی بن ابی طالب۔ 
دوم:   عن سلیمان قال قلت یا رسول اللہ من وصیک قال وصیی و موضع سری و خلیفتی علی اھلی و خیر من اخلفہ بعدی علی بن ابی طالب۔
سوم: عن ابی ذر رفعہ قال رسول اللہ انا خاتم النبین و علی خاتم الاوصیاء  عن ابی بریدہ عن ابیہ رفعہ قال رسول اللہ لکل نبی وصی و ان علیا وصیی وولدی۔
        اوردھا العقیلی وغیرہ ابن الجوزی فی الموضوعات اور  اللاٰلی المصنوعة فی الاحادیث الموضوعہ کی جلد 1  ص    326 پر علامہ سیوطی نے عن انس مرفوعا ان اخی ووزیری و خلیفتی من بعدی فی اھلی و خیر من اترک بعدی یقضی دَینی وینجز موعودی موضوع آفتہ مضمر اس میں راوی   عبید اللہ بھی ہے۔ قال فی میزان الاعتدال ھذا موضوع والمتعلم بہ مظھر فان عبیداللہ ثقۃ شیعی 
اور‘‘آکام المرجان فی احکام الجان’’(مصری) ص 48 اور  ص 49  پر ابن مسعود نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ خلیفہ مقرر کر دیں۔ جواب دیا کس کو؟   عرض کیا، ابوبکر کو،  آپﷺ نے اعراض کیا، اسی طرح عمر، عثمان  نے اعراض کیا قلت استخلف قال من؟ قلت ابوبکر فسکت، قال قلت استخلف قال من؟ قلت عمر فسکت قال قلت استخلف قال من؟ قلت علی قال اما والذی نفسی بیدہ لئن اطاعوہ یدخلون الجنۃ اجمعین
اور دوسری روایت اسی آکام المرجان فی احکام الجان  ص 52 عن ابی عبداللہ الجدلی عن ابی مسعود پھر اسی مضمون کی روایت اوّل صدیق پھر عمر فاروق بعد حضرت علی فقلت یا رسول اللہ الا تستخلف علیا قال ذاک والذی لا الہ غیرہ۔ لوبایعتموہ واطعتموہ  ادخلکم الجنۃ۔ اجمعین اس کا اوّل راوی یحییٰ بن یعلی ہے۔
            ‘‘تھذیب التھذیب’’ میں  جلد 11 ص 304 پر ہے  کوفی یغیض الشیعۃ اور  دوم راوی ابی عبداللہ الجدلی۔ میزان الاعتدال جلد 3 ص 367   پر ہے  شیعی یبغض اور تہذیب التہذیب ج 12 ص 148پر کان شدید التشیع 
             نمبر 10 پہلی روایت بھی اَللّآَلِی المصنوعہ ص325  الحمل فیہ علی مینا مولیٰ عبدالرحمن بن عوف غال فی التشیع لیس بثقۃ
      بہرحال خیال کرنا مسئلہ امامت و خلافت عند الشیعہ اصول  دین سے ہے اور اصول قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہوں اپنے مدلول مطا بقی پر۔ غیر مدلول جن کے مقابل ان کی مثل کوئی معارض دلیل نہ پائی جائے۔ نص صریح قرآنی یاحدیث متواتر مع اپنی مدلول امامت و خلافت بلا فصل پر قطعی الدلالۃ ہو۔ خلیفہ پر بھی ناشی ہوں اور خلافت بلا فصل پیش کریں۔ نص صریح یا حدیث متواتر جو مدلول پر قطعی الدلالۃ ہو۔
                              ترمذی شریف و نسائی میں۔ ان علیّا منی وانا منہ وھو ولی کل مومن من بعدی قال الترمذی ھذا حدیث غریب لا نعرفہ الا من حدیث جعفر بن سلیمان۔
                              میزن الاعتدال ج 1 ص 190 قال ابن عدی جعفر شیعی۔ اور یزید بن ھارون عن ابیہ قال بعثنی ابی الی جعفر بن سلیمان الصبحی فقلت لہ انک تسب ابابکر و عمر قال اما السب فلا ولکن البغض ماشئت فاذا ھورافضی مثل الحما
            اور    یزید بن زرین قال من اتی جعفر بن سلیمان و عبدالوارث فلا یقربنی وکان عبدالوارث ینسب الی الاعتدال و جعفر ینسب الی الرفض۔ و قال ابن سعد ثقۃ وکان فیہ ضعف و کان فیہ تشیع  اور ایک راوی اس حدیث کی سند میں اجلح بھی ہے۔ میزان 37:1 پر       قال ابو حاتم لیس بالقوی و قال ابن عدی شیعی و قال الجوز جان الاجلح ثقۃ اور   جماعۃ الدعاة شیعہ کی152:1پر ہے کہ جعفر بن سلیمان شیعہ ہے۔
نوٹ خاص:   جن جن روایات میں لفظ      من بعدی آ جائے ان سے نہ گھبرانا۔ مناظرۂ مرالی میں اس نے یہ حدیثیں پیش کی تھیں اور مناظرۂ سندرال[1] میں، میں نے جواب دیا تھا کہ حدیث ِمتواتر ہو    لفظ     من بعدی بلا فصل ہو  تو اس نے   بعدی سے اخذ کیا تھا۔ میں نے کہا     بعدی اتصال کو نہیں چاہتی،  غور کریں۔قال تعالٰی:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَا مِنْ مبَنِيْ اِسْرَاءِ يْلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰى
                                                                        (البقرة۔ 246) 
            حضرت موسیٰu کے بعد متصل بلا فصل یوشع بن نون خلیفہ ہوا تھا،
 نہ کہ ملاء بنی اسرائیل۔   قال تعالیٰ
یَاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُط
            یہ قول حضرت عیسیٰu کا حضور انورﷺ کے حق میں ہے چلو مولوی اسمٰعیل صاحب آپ کو قرآن سے عداوت ہے تو اپنی کتاب درة النجفیہ  ص 190 مطبوعہ ایران روی عن النبی انہ اخبرنی ان بنی امیۃ تملک الخلافۃ من بعدی۔ بتاؤ بنو امیہ خلیفہ بلا فصل تھے۔
            میں نے جو کچھ آپ کو لکھا ہے اس کو کسی کاپی پر ضبط کر لیں ضائع نہ کرنا۔ ایک خیال کرنا! من کنت مولاہ فعلی مولاہ کو متواتر کہا ہے حوالہ مرقاة شرح مشکوٰة حافظ         عطاء الدین فضل اللہ، اربعین میں بھی متواتر کہا اور تفسیر میں سیوطی نے متواتر کہی، اللمعات میں بھی اشارہ ہے علامہ ضیاء الدین نے اسی کو کتاب الحارث مسوعدة میں کتاب زین المفتی میں متواتر کہا۔ حافظ نورالدین حلبی نے استان العیون میں متواتر کہا۔ حافظ ذہبی نے متواتر کہا۔
میرا جواب: چلو میں چند منٹوں کے لئے اس کو متواتر مان لیتا ہوں۔ خوب سنیں، قرآن پورا ایک ایک لفظ اس کا متواتر ہے مگر آپ مدلول پر تمام آیات قرآنی قطعی الدلالۃ نہیں۔اگر من کنت مولاہ کو متواتر مان لیں تو بتاؤ یہ اپنے مدلول جو امامت و خلافت علی بلا فصل ہے، اس پر قطعی الدلالۃ ہے؟
            حدیث کا متواتر ہونا اپنی جگہ اور چیز ہے اس سے خلافت بلا فصل ثابت کرنا اور چیز۔ بتا! اس کے کون سے لفظ سے خلافت بلا فصل ثابت کرتے ہیں، خلافت کا اس میں اشارہ بھی نہیں۔ یہ حدیث خود اپنے ثبوت میں محتاج دوسرے دلائل کی ہے کہ مولیٰ کا معنی کیا ہے۔ جو حدیث اپنی ذات میں خود  محتاج ہے، اس سے دلیل خلافت پر پیش کرنا؟ مولابمعنی اولیٰ پھر اولیٰ کو مقید کریں  بالتصرف کے پھر تصرف کو مقید کریں ۔ چلو بالفرض لفظ متواتر مان لیں مگر مدلول پر قطعی نہیں۔ لفظ کا متواتر ہو جانا اور چیز، اس کا کسی مدعا پر دال ہونا اور چیز ہے۔’’
            حضرت جؒی کے اس خط کو سمجھنا ماشما کے بس کی بات نہیں۔ شاید عبارت کا بغیر اعراب کے پڑھنا بھی مشکل ہوگا۔ آپؒ نے اس میں جن کتب کے حوالہ جات بیان فرمائے ہیں وہ ہر ایک کی دسترس میں نہیں۔ اکثر کا نام بھی شاید بعض علماء کی نظر سے نہ گزرا ہو۔ حضرت جؒی کے کتب خانہ میں یہ ساری حوالہ جاتی کتب موجود تھیں جن میں کثرت سے قدیم عربی و فارسی کتب بھی ہیں۔ یہ تمام اس وقت حضرت جؒی کی تحقیق ا ور تصنیف کے مآخذ کے طور پر دارالعرفان کی لائبریری میں محفوظ کر لی گئی ہیں۔



[1]۔ یہ خوشاب کے نزدیک ایک قصبہ ہے۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو