باطنی اعجاز
حضرت جؒی کے ہمعصر مناظرین میں
بڑے بڑے نام ملتے ہیں ۔یہ حضرات اس دور کے جید ّعلماء اور فن ِمناظرہ کے مانے ہوئے اساتذہ تھے لیکن حضرت جؒی اس لحاظ
سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں کہ آپؒ کو ناموسِ صحابہ کرام]
کے دفاع کے
لئے مامور فرمایا گیا۔ اپنی اس خصوصیت کے باوجود آج آپؒ کی پہچان ایک مجددِّ طریقت کی ہے لیکن روافض کے
مقابلے میں بطور ایک مناظر آپؒ کی زندگی کی کم و بیش ایک دہائی، وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی بہت کم لوگ
جانتے ہوں گے کہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانیؒ کی روحانی عظمت ان کے دور میں فتنۂ روافض کے تدارک کے لئے مؤثر ترین ہتھیار
ثابت ہوئی تھی۔
حق و باطل کی کشمکش میں ہمیشہ سے اہل
اللہ کا ایک منفرد کردار رہا ہے جو اسباب و علل کی دنیا میں اگرچہ اس قدر نمایاں
نظر نہیں آتا لیکن حقیقت میں اسے فیصلہ کن مقام حاصل ہوتا ہے۔ جب کسی بھی دور میں
شر سے پیدا ہونے والی ظلمت حد سے بڑھ جائے توان ذواتِ قدسیہ کی روحانیت سے بپا
ہونے والے اثرات، خیر و شر کے مابین بگڑے ہوئے توازن کو پھر سے درست کر دیتے ہیں۔ یہ نظام
تکوینی یا باطنی نظام کا حصہ ہے جو بقائے عالَم کے لئے ناگزیر ہے۔
1984ء میں راقم کو ایک مرتبہ حضرت
امیر محمد اکرم اعوان رحمہ اللہ کے
ہمراہ سفر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تو
انہوں نے اس نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
‘‘حق وباطل کی جنگ میں
بظاہر کچھ قوتیں برسرِپیکار نظر آتی ہیں جن کے مابین وسائل کے اعتبار سے کوئی نسبت
نہیں ہوتی لیکن مشیّتِ ایزدی کی طرف سے فیصلہ اسباب ظاہری سے قطعاً مختلف ظہور میں
آتا ہے۔ اس کے پسِ پردہ وہ روحانی عوامل ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے سے اہلِ دنیاکی
نگاہ قاصر ہے۔ ظلمت اور نورانیت میں ایک حد تک توازن سے وجودِ کائنات قائم ہے۔ جب یہ
توازن بگڑنے لگتا ہے تو اس دور کے شیخ کو اس قدر عالی مقام عطا کیاجاتا ہے کہ اس
کا وجود ظلمت ونورانیت کے مابین توازن کا ذریعہ بن جاتا ہے۔پھرایک دور ایسا بھی
آئے گا جب دنیا پر چھا جانے والی ظلمت کو قطع کرنا کسی بڑے سے بڑے ولی کے بس کی بات نہ ہو گی۔ حضرت اما م مہدیؒ کا
وجود اپنے منصب اور بلندیٔ منازل کے باوجود قاصر ہو گا کہ نور اور ظلمت کے مابین
بگڑے ہوئے توازن کو پھر سے درست کر سکے۔ اس وقت نظامِ ہستی کو رواں دواں رکھنے اور
ظلمت کے مقابلے کے لئے ولی سے بڑھ کر ایک نبی کے وجود کی ضرورت ہو گی۔ یہ وہ دور
ہو گا جب حضرت عیسیٰu دنیامیں
دوبارہ تشریف لائیں گے[1]۔’’
باطنی نظام کے اس دستور کی روشنی میں یہ
سمجھنا قطعاً مشکل نہ ہو گا کہ بلند پایہ ہم عصر مناظرین کے ہوتے ہوئے حضرت جؒی کے
ذمہ جب دربارِ نبویﷺ سے ناموس صحابہ کرام] کی حفاظت کا فریضہ سونپا گیا تو
علمیت اور خطابت کے اعتبار سے فوقیت کے ساتھ ساتھ اپنے ہم عصر مناظرین پر آپؒ کی
اصل فوقیت روحانی قوت کی صورت تھی۔ دربارِ نبویﷺ کے ایک کارندے کی حیثیت سے آپؒ کی
ذات میں وَمَا رَمَيْتَ اِذْ
رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىج (جب
آپ نے (خاک کی مٹھی) پھینکی تو آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی۔ سورة
انفال۔ 17)
والی کیفیت پائی جاتی تھی۔ حضرت جؒی نے قربِ الٰہی اور معیت ِ باری تعالیٰ
میں بسر ہونے والی خلوتوں کو چھوڑ کر بستی بستی اور قریہ قریہ بڑے بڑے مناظروں میں
حصہ لیا۔ عوام الناس میں اب آپؒ کی پہچان ایک ایسے مناظر کی تھی جس کے سامنے اُس
دور کے چوٹی کے شیعہ مناظر بھی آنے سے کتراتے تھے۔
تاریخ شاہد ہے کہ سیّدنا عبدالقادر جیلانیؒ
کا دور بھی ظلمتوں کے عروج کا دور تھا جن میں روافض کا فتنہ زوروں پر تھا لیکن آپؒ
کے مقامات ِعالی اور منصب ِ جلیلہ کے دم قدم سے یہ ظلمتیں قطع ہوئیں۔ حضرت جؒی کا
دور بھی ظلمت اور نحوست کے حوالے سے مختلف نہ تھا۔ اس وقت اگرچہ بہت سی شمعیں
فروزاں تھیں لیکن اب پھر روحانی اعتبار سے اسی قدر روشن چراغ کی ضرورت تھی جس کے سامنے اس دور میں چارسُو
پھیلی ہو ئی ظلمت ماند پڑ جائے۔ یہ کام حضرت جؒی سے لیا گیاجو اس دور میں نورانیت اور ظلمت کے توازن کو برقرار رکھنے میں سیّدنا
عبدالقادر جیلانیؒ کے ساتھ ایک طرح کی مماثلت رکھتے ہیں۔
جس
طرح آج حضرت جؒی کی پہچان آپؒ کی ذات کے روحانی پہلو تک محدود ہے، 1950-60ء
کے عشرے میں لوگ
آپؒ کو صرف ایک عالم اور مناظر کی حیثیت سے پہچانتے تھے۔ تاہم مناظرانہ دور
کے آخر میں حضرت جؒی کی شخصیت کا باطنی پہلو بھی ظاہر ہونے لگا۔
ملتان کے نواحی قصبہ شاہ جیونہ میں ایک
مناظرہ ہوا تو آپؒ کی زبان مبارک سے کچھ ایسے
کلمات نکل گئے جو مناظروں کی دنیامیں
قطعاً نئی بات تھی:
‘‘نبوت کے دو پہلو ہیں ظاہری اور باطنی، ظاہر والا حصہ
علمائے ربانی نے سنبھال رکھا ہے تو باطن والا حصہ اولیائے کرام نے۔ صرف ظاہری حصہ
میں مسلم و غیرمسلم، سبھی شریک ہو سکتے ہیں جیسے پنڈت بھی قرآن ِمجید کے کچھ حصے یاد
کر لیتے ہیں جس کے لئے ایمان شرط نہیں لیکن باطنی حصہ صرف مخلصین، متقین اور متبعین
کو ہی نصیب ہو سکتا ہے۔
آپ
لوگ اسلام کے دعویدار تو ہو لیکن عقائد و نظریات سب من گھڑت، کلمے سے لے کر تجہیز
وتکفین اور جنازہ تک سب مصنوعی اسلام بنا کر پیش کر رہے ہو۔ چونکہ آپ لوگوں
کااسلام اصلی نہیں، ایمان خالص نہیں، اس لئے تمہارے گروہ میں کوئی ولی اللہ نہیں
ہو سکتا۔’’
مخالفین
نے اس کے جوا ب میں چند نام گنوائے تو آپؒ
نے فرمایا:
‘‘ان میں سے کوئی بھی ولی نہیں اور اگر ہے بھی تو ان کی
وفات کے بعد ان کے مزارات کو تم لوگوں نے محض بھنگ چرس کا اڈا بنا لیاہے۔ اگر ماضی
میں ولی ہوئے ہیں تو آج کوئی زندہ بھی تو ہو گا۔ کسی زندہ ولی کو تلاش کر کے میرے
تین سوالات کا جواب اس سے پوچھ کر بتاؤ۔ سال بھر کی مہلت ہے ایران پھرو، قُم جاؤ،
شام و لبنان کے چکر کاٹو، کہیں سے جواب
لادو۔
پہلا سوال: فنا بقاء کا مراقبہ مقامِ ولایت میں ایک
مشہور مراقبہ ہے، یہ پوچھ کر آؤ کہ یہ مراقبہ کس روحانی مقام پر کروایاجاتا ہے؟
دوسرا سوال: اس مراقبہ کے دوران روح پر کیا کیفیات طاری
ہوتی ہیں؟
تیسرا سوال: اس مراقبے کی حالت میں مراقبہ کرنے والا
کائنات پر کیا کیفیات محسوس کرتا ہے؟
لیکن یاد
رکھو! ان سب چیزوں کا تعلق قال سے نہیں،
حال سے ہے۔ کتابوں میں ان سوالات کے جواب نہیں ملیں گے۔ جس کو یہ نعمت نصیب ہو،
صرف وہی اپنی کیفیات بیان کر سکتا ہے۔’’
اگلے سال شاہ جیونہ کے سالانہ مناظرہ میں
جب دوبارہ آمنا سامنا ہوا تو حضرت جؒی نے جوابات کا مطالبہ کیا لیکن جواب کہاں سے
ملتا۔ آپؒ نے فرمایا:
‘‘آؤ!میں تمہیں حقانیت کا مشاہدہ کرا دوں۔چھ آدمی
منتخب کرو۔ میں انہیں چھ ماہ تک اپنے پاس رکھوں گا، کھانا اپنی مرضی کا دوں گا اور
وہ مجاہدہ میرے کہنے پرکریں گے۔ اِنْ شَاءَ اللّٰه میں انہیں دکھا دوں گا کہ آج بھی
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان اور حضرت علی]
دربار نبویﷺ میں حضورﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آؤ اور
خود مشاہدہ کر لو۔’’
لیکن حق کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے بھرے
مجمع میں کسی کو بھی حضرت جؒی کی یہ دعوت قبول کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ ایک اور
موقع پر حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘مجھے اپنے چار آدمی دو،
عمر 30سال
سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ نمازی ہوں،تبرّ ے باز نہ ہوں۔ کچھ مدت ساتھ ر کھوں گا۔
پھر انہیں حضورﷺ سے دریافت
کرادوں گا، وہ خود ابوبکر و عمر و عثمان و
علی] کو حضورﷺ کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے دیکھ لیں
گے۔امام باقر ؒ اور امام جعفرؒ سے دریافت کرا دوں گا۔’’
یہ چیلنج بھرے مجمع میں کیا گیا۔یہ اتنا
بڑا دعویٰ تھا جو باطنی تصرف کے بغیر نہیں
کیا جا سکتا تھا لیکن مخالفین کو چونکہ اپنے مؤقف پر یقین ہی نہ تھا، اس چیلنج کو کون قبول کرتا؟ یہ چیلنج حضرت جؒی کے
اپنے الفا ظ میں ریکارڈ شدہ موجود ہے اور
قیامت تک اخوتِ صحابہ کرام] کے ثبوت میں آپؒ کی ایک کرامت کے طور پر قائم
رہے گا۔
اہل اللہ کے ہاں بارہا یہ صورت ملتی ہے
کہ دلائل کے بعد ان کی زبان سے اللہ تعالیٰ ایسی بات کہلوا دیتا ہے جس کی لاج
رکھنا بھی اسی کے قبضہ ٔ قدرت میں ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی کسی اللہ
والے کی زبان سے اس طرح کی بات کہلوا دی گئی، کسی کو مقابل آنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
اہل اللہ کی یہ کرامت مباہلہ ہی کی ایک صورت ہے۔
اسی ضمن میں حضرت جؒی اکثر حضرت امداد
اللہ مہاجر مکؒی کا مشہور واقعہ بیان فرمایا
کرتے تھے جس میں اُن کی طرف سے علماء نے
پادری فنڈر کو چیلنج کیا تھا کہ اسلام اور عیسائیت کے مابین حقانیت کے ثبوت
میں علمی مناظرہ کے بعد عملی مناظرہ بھی ہو گا۔
چونکہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام ہی تمام انبیاءعلیہم
السلام کا دین ہے اور اس طرح وہ حضرت عیسیٰu کے حقیقی وارث ہیں، اس لئے وہ پادری فنڈر کے ساتھ ایک بوسیدہ قبر پر کھڑے
ہو کر قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ کہیں
گے اور جس کے کہنے پر مردہ زندہ ہو گیا، وہی حضرت
عیسیٰu کا اصل جانشین ہو گا کیونکہ نبی کا معجزہ
مثل ِ کرامت، حقیقی جانشین کو وَرثہ
کی صورت میں منتقل ہوتا ہے۔ عیسائی مبلغ خوب جانتا تھا کہ جب اللہ کا ایک ولی اس
طرح کا دعویٰ کر گزرتا ہے، اس کے پیچھے اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے ا ور یقیناً اسی
طرح ہو کر رہتا ہے۔ چنانچہ وہ عملی مناظرے کی شرط سے خائف ہو کر مقابلے سے ہی دستبردار ہو گیا۔
حضرت جؒی نے بھی ایک جلسہ میں مرزا قادیانی
کے باطل مذہب کے رد میں دلائل دینے کے بعد یہ چیلنج کیا تھا کہ
اس وقت مرزا قادیانی کے ساتھ قبر میں جو گزر رہی ہے، آپؒ اس کا مشاہدہ کرا سکتے ہیں۔
اس وقت تو کسی کو اس مشاہدہ کی ہمت نہ ہوئی اگرچہ بعد میں قادیانیت سے تائب ایک
خوش نصیب فوجی افسر نے چشمِ باطن سے اس حقیقت کا مشاہدہ کیا۔
موجودہ
شیخ ِ سلسلہ حضرت امیر المکرم نے 1958ء
میں موضع پدھراڑ کے مناظرہ میں حضرت جؒی
کے اس باطنی پہلو کی ایک جھلک دیکھی تو یہی ان کے لئے آپؒ کی اصل پہچان کا واسطہ بنی۔ اس کے بعد
انہوں نے آپؒ کا دامن ایسا تھاماکہ پھر کبھی نہ چھوٹا،حتیٰ کہ حضرت جؒی برزخ میں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپؒ کے مشن کو سنبھال لیا۔
یہ باطنی اعجاز حضرت جؒی کی وہ خصوصیت
تھی جس کے ساتھ آپؒ کو ناموسِ صحابہ کرام]
کے دفاع کا فریضہ سونپا گیا۔
[1]ـ مشہور عالم ِدین ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک نے 1990ء میں حضرت امیر المکرم
سے اولین ملاقات کے دوران کئی ایک سوالات پوچھنے کے بعد آخری سوال یہ کیا کہ حضرت
عیسیٰu دنیا میں دوبارہ تشریف کیوں لائیں گے؟ آپ نے جب مندرجہ بالا حقیقت
بیان فرمائی تو ڈاکٹر صاحب نے اعتراف کیا کہ اس حقیقت کو بیان کرنا کسی اور کے بس
کی بات نہ تھی۔اسی وقت ڈاکٹر صاحب نے اپنے بیٹے محمد زید کے ہمراہ حضرت امیرالمکرم
کے ہاتھ پر بیعت کی اور سلسلہ ٔ عالیہ میں داخل ہو گئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔