رہ نوردِ شوق
1942ء میں حضرت جؒی
معمول کے مطابق اپنے استاذ محترم سے ملاقات اورعلمی تحقیق کے لئے چک نمبر10 سرگودھا تشریف لے گئے جو دشتِ علم میں حضرت جؒی کی سیاحت کا آخری سفر
تھا لیکن رہ نوردِ شوق بننے کا پیش
خیمہ ثابت ہوا۔ اسی سفر کے دوران حضرت جؒی اپنے استاذ محترم کے بیلوں کی تلاش میں
لنگرمخدوم گئے تو حضرت خواجہ عبدالرحیؒم سے رابطہ ہوا۔ اس کے بعد چشم
فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ کچھ دیر پہلے جو نوجوان عالم سماع موتیٰ کے رد میں علمی
دلائل رکھتا تھا، حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ کے سامنے ارادت اور خودسپردگی کا اقرار کر رہا
ہے۔
اوراقِ ماضی پلٹتے ہوئے حضرت جؒی نے بیلوں کی تلاش میں لنگر
مخدوم کے اس سفر کا بارہا تذکرہ فرمایا لیکن اس کے بعد داستانِ حیات کا رخ ایسا
بدلا کہ بیلوں کا ذکر ادھورا رہ گیا۔ کیا آپؒ بیلوں کی تلاش میں کامیاب ہوئے؟ حضرت
جؒی نے اس سوال کا جواب دیا، نہ کسی کو پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ اس کے
بعد شروع ہونے والا باب اس قدر دلکش اور روح پرور تھا کہ بیلوں کی تلاش ذکر گم
گشتہ ہوئی۔ جس طرح قرآن حکیم میں حضرت موسیٰu
کے حالات میں آگ کی تلاش کا تذکرہ تمہید کی صورت ملتا ہے، اسی طرح بیلوں کی
تلاش میں حضرت جؒی کا لنگر مخدوم آنا بھی
دراصل آپؒ کی داستانِ حیات میں تصوف وسلوک کے باب کا پیش لفظ ہے۔
لنگر مخدوم سے واپس لوٹنے کو دل تو نہ چاہتا تھا لیکن
استاذِمکرم کو اطلاع دینا بھی ضروری تھا چنانچہ بادلِ نخواستہ واپس روانہ
ہوئے۔ چک نمبر10شمالی پہنچ کر ان کے
سامنے رودادِ سفر بیان کی اور کچھ دنوں کے
لئے چکڑالہ چلے آئے تا کہ جلد از جلد گھریلو ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد دوبارہ
خواجہ عبدالرحیؒم کی خدمت میں حاضر ہو سکیں۔ یہاں آکر کھیتی باڑی سے متعلقہ امور نبٹائے،
اہل وعیال کی کفالت کے لئے ضروری سامان بہم پہنچایا اور دوبارہ لنگر مخدوم کا رخ کیا
۔
یہ
لنگر مخدوم میں حضرت جؒی کے قیام کا دوسرا دور تھا۔ اس سے پیشتر 1925-30ء کے زمانے میں بھی حصولِ تعلیم کے لئے آپؒ یہاں
کچھ عرصہ قیام فرما چکے تھے۔ لنگر مخدوم میں اس مرتبہ حضرت جؒی کا قیام قدرے طویل
تھا جس کے دوران حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر سلوک کے ابتدائی اسباق حاصل کئے۔
کچھ عرصہ بعد اجازت ملی تو آپؒ دوبارہ چکڑالہ تشریف لے گئے تا کہ زمینداری اور گھریلو
امور سے متعلق انتظامات کر آئیں۔ واپس لوٹے تو حضرت سلطان العارفیؒن کی طرف سے حکم
ملا کہ اب آپؒ کا مستقل قیام لنگرمخدوم میں
ہو گا۔ تعمیل ِ ارشاد میں حضرت جؒی نے مسلسل ایک سال لنگر مخدوم میں قیام فرمایا
جس کے بعد ایک ماہ کے لئے چکڑالہ جانے کی
اجازت ملی۔ حسبِ سابق اہل خانہ کے لئے سال بھر کی ضروریات کا بندوبست کیا،
مزارعین کو ہدایات دیں اور واپس لنگر مخدوم تشریف لے گئے۔
لنگر مخدوم میں حضرت جؒی کے مسلسل قیام کا زمانہ تین سال پر
محیط ہے لیکن اس دوران گھریلو ذمہ داریوں
سے فراغت کے لئے ہر سال ایک ماہ کے لئے چکڑالہ جانے کی اجازت
ملتی۔ لنگر مخدوم میں یہ تین سالہ قیام راہِ سلوک پر آپؒ کا مسلسل روحانی سفر تھا
جو حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ
کی معیت میں طے ہوا۔
روح
جس راستے کی مسافر ہے، اس کا تعلق عالمِ
امر سے ہے جہاں اس کی رفتار کا تعین عقل وخِرد سے محال ہے۔ جس شخص پر اللہ تعالیٰ
کا فضل ہو اور اس کی روح یہ مسافتیں طے کر رہی ہو، وہ کچھ اندازہ کر
سکتا ہے کہ روح کی رفتار سے کیا مراد ہے۔ جہاں تک حضرت جؒی کی روحِ پُر فتوح کی
رفتار کا معاملہ ہے، اسے بیان کرنے کے لئے تطبیق ممکن ہے نہ اندازہ، صرف حیرت کا
اظہار کیا جا سکتا ہے۔
لنگر مخدوم میں حضرت جؒی کے قیام کا بندوبست مخدوم شیر محؒمد کے سپرد تھا جو حضرت خواجہ عبدالرحیؒم
کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ مخدوم خاندان کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے حضرت سلطان
العارفیؒن کے مزار پر حاضری دینے والوں کی
خدمت بھی انہی کے سپرد تھی۔ اس وقت حضرت جؒی
اگرچہ مکتب ِ طریقت کے طالب علم تھے لیکن آپؒ
کی حیثیت بطور عالم بھی مُسَلّمہ تھی۔
گردونواح کے دیہات سے لوگ حضرت جؒی کا جمعۃ المبارک کا بیان سننے کے لئے لنگر
مخدوم آتے اور آپؒ سے دینی اور معاشرتی مسائل، بالخصوص نکاح اور طلاق کے مسائل میں
رہنمائی حاصل کرتے۔
لنگر
مخدوم میں قیام کے دوران حضرت جؒی تہجد کا
ذکر اپنی رہائش گاہ پر کر تے اور فجر کی نماز گاؤں کی مسجد میں باجماعت ادا کرنے
کے بعد حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے ہمراہ حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر اشراق تک
دوبارہ ذکر کرتے۔چونکہ اس زمانے میں حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی عمر 85 برس سے زائد تھی اور وہ ضعف ِ پیری کا شکارتھے ، ان کے ہمراہ
ذکروفکر کا یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا۔
اکیلے
میں حضرت جؒی کے معمولات مجاہدے سے بھرپور
ہوا کرتے۔ آپؒ بوقت صبح ِ کاذب حضرت
سلطان العارفیؒن کے مزار پر چلے آتے اور تہجد کے نوافل وہیں ادا کرتے جس کے بعد
ذکر کی طویل نشست ہوتی۔ نماز ِ فجر ادا کرتے اور ذکر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو
جاتا۔ اشراق کے بعد کچھ وقفہ ہوتا، پھر طویل ذکر، جو دوپہر تک جاری رہتا۔ یہ حضرت
جؒی کے دن کے نصف اوّل کے معمولات تھے۔ لنگر مخدوم واپسی پر کھانا تناول فرماتے جس
سے قبل ناشتہ وغیرہ کا کوئی تصور نہ تھا۔ زوا ل کے فوراً بعد دوبارہ مزار پر چلے
جاتے، نماز ِظہر ادا کرتے اور عصر تک لطائف کرتے۔ ذکر کی یہ نشست بہت طویل اور
مجاہدہ سے بھرپور ہوتی، یہاں تک کہ پسینے سے کپڑے تربتر ہوجاتے۔ نماز ِعصر ادا
کرتے اور اس کے بعد مراقبات کی نشست سورج غروب ہونے تک جاری رہتی۔ نماز ِمغرب مزار
سے ملحق مسجد میں ادا کرتے اور اوّابین، جن کی تعداد عموماً بارہ ہوا کرتی تھی،
ادا کرنے کے بعد لنگر مخدوم واپس چلے جاتے۔
حضرت جؒی نے کثرت ِاوّابین کا عمر بھر اہتمام فرمایا۔ کم از
کم چھ نوافل ادا کرنے کی تاکید فرمایا کرتے لیکن وقت کی کمی کی صورت میں آپؒ کی
ہدایت تھی کہ فرائض کے بعد سنن کے ساتھ چار نوافل ادا کرلئے جائیں تاکہ سنن کے
شمار کے ساتھ چھ رکعت پوری ہو جائیں۔ حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پردن بھر کے معمولات کے بعدآپؒ لنگر مخدوم واپس آکر رات کا کھانا تناول کرتے
اور نماز عشاء کے فوراً بعد استراحت فرماتے۔
لنگر مخدوم میں تین سالہ قیام مکمل ہوا تو حضرت جؒی سالک
المجذوبی تک سلوک طے کر چکے تھے۔ حضرت سلطان العارفیؒن نے آپؒ کو اپنا صاحبِ مجاز
مقرر فرمایا اور واپسی کی اجازت دی۔ یہ 1945ء کا زمانہ تھا۔ حضرت جؒی اکثر فرمایا کرتے کہ حضرت سلطان
العارفیؒن نے اس موقعہ پر دو چیزوں سے منع فرمایا، اوّل سونا نہیں بنانا اور اگر
بنانا ہے تو اس وقت جتنا چاہے بنالو، دوم عملیات نہیں کرنا۔ آپؒ فرماتے کہ اگر میں
چاہوں تو سونا بنا سکتا ہوں لیکن میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا۔ اس کے بعد بھی کئی سال
تک آپؒ کا معمول رہا کہ لنگر مخدوم میں ہر
سال ایک ماہ مسلسل قیام فرماتے۔اس زمانے میں حضرت جؒی کو اگرچہ توجہ دینے کی اجازت
مل چکی تھی لیکن حضرت سلطان العارفیؒن نے سلسلۂ عالیہ بدستور اپنے ہاتھ میں رکھا۔
چکڑالہ واپسی پر حضرت جؒی نے حسبِ سابق چٹی مسجد میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔
عقدِ ثالث
حضرت
جؒی کی پہلی شادی 1921-22ء میں ہوئی تھی لیکن 1925ء کے قریبی زمانہ میں تحصیل علم کے آغاز سے قبل یہ رشتہ علیحدگی کی صورت میں ختم
ہوا۔ 1934-35ء
میں تحصیل علم کے بعد آپؒ نے عقدِ ثانی کیا۔ آپؒ کی ان زوجۂ
محترمہ سے بڑی صاحبزادی صغریٰ اور بیٹے عبدالرؤف کی پیدائش ہوئی۔ 1942ء میں چک نمبر 13 (خانیوال) میں ان کا انتقال ہوا
تو خانیوال میں ہی تدفین کے بعد آپؒ
چکڑالہ منتقل ہوگئے اور بچوں کی نگہداشت والدۂ ماجدہ کے سپرد کی۔ اسی سال
آپؒ نے راہِ سلوک پر قدم رکھاتوچکڑالہ
کو ایک بار پھر خیرباد کہنا پڑا۔ لنگر مخدوم میں تین سالہ قیام کے بعد واپس لوٹے
تومسافرت کا طویل دور ختم ہوا اور والدۂ ماجدہ کے اصرار پر آپؒ نے تیسری شادی کی۔
آپؒ کی یہ زوجہ پہلی اہلیہ کی بیوہ ہمشیرہ
اور صاحبِ اولاد تھیں لیکن خاوند کے انتقال کے بعد بے آسرا تھیں۔ اس عقد کے
ذریعہ آپؒ نے نہ صرف انہیں سہارا دیا بلکہ ان کی اولاد کو بھی اور کچھ عرصہ بعد ان
کے ایک بیٹے کی وفات ہوئی تو یتیم پوتے کو بھی۔اس طرح آپؒ نے ایک لاوارث خاندان کی
کفالت فرمائی اورکچھ ہی عرصہ بعداس خاندان کے ان افراد کو جو آپؒ سے کوئی صلبی
تعلق نہ رکھتے تھے، زمین کا خاصا حصہ مرحمت فرماکر خود کفیل بناتے ہوئے معاشرے میں
باوقارمقام عطا کیا ۔ حضرت جؒی کی اس شادی کے
پس منظر میں بیوگان اور یتیموں کی سرپرستی کا فقید المثال جذبہ کارفرما نظر آتا
ہے۔ ان اہلیہ محترمہ کے بطن سے آپؒ کی
چھوٹی صاحبزادی اُمِّ کلثوم کی پیدائش ہوئی۔ ایک صاحبزادہ امین الدّین بھی پیدا ہواجو صغرسنی میں انتقال کر گیا۔حضرت جؒی نے جب
کبھی اس صاحبزادے کا تذکرہ فرمایا، آپؒ کے لہجے میں شفقتِ پدری اور دکھ کی جھلک
نمایاں ہوتی۔اسی صاحبزادے کی یاد میں آپؒ نے اپنے نواسے کا نام امین الدّین رکھا۔
لنگر
مخدوم سے واپسی کے بعد حضرت جؒی کے روحانی
سفر کا اگلا مرحلہ حضرت سلطان شاہ بلاولؒ کی معیت میں طے ہوا۔
سیّد
احمد ہمدانی المعروف سلطان شاہ
بلاول
تلہ گنگـ میانوالی
روڈ پر دندہ شاہ بلاول حضرت سیّد احمد
ہمدانیؒ المعروف حضرت شاہ سخی نوری سلطان
بلاول ہمدانیؒ کے مزار کی نسبت سے ایک
معروف قصبہ ہے۔ کیا سلطان شاہ بلاولؒ کا
اصلی نام سیّد احمد ہمدانی ہی تھا؟ اس
بارے میں اشتباہ پایا جاتا ہے۔ یہ بات البتہ طے شدہ ہے کہ وہ سیّد علی ولی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ کی اولاد سے تھے جنہیں
کشمیر میں اشاعت اسلام کے لئے ایران سے ہجرت کا حکم ہوا۔ شاہ ہمدانؒ اپنے 600مریدین
کے ہمراہ 1379ء
میں کشمیر چلے آئے جہاں سری نگر کے مقام پر سلطان قطب الدین نے ان کا استقبال کیا۔
تاریخی حوالوں کے مطابق 37ہزار غیر مسلم شاہ ہمدانؒ کے
ہاتھ پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ شاہ ہمدانؒ کی
اولاد اور مریدین نے برصغیر میں اشاعت اسلام کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ سیّد احمد ہمدانیؒ
بھی اسی مقصد کے لئے کشمیر سے نکلے ۔ دندہ پہنچنے پر استخارہ کیا تو حکم
ملا یہیں رک جاؤ۔ انہوں نے ایک غریب لیکن متقی شخص بابا بلاول لوہار کے ہاں قیام فرمایا۔ زیادہ وقت محو مراقبہ رہتے اس لئے کسی شخص کو
نام پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی البتہ بلاول
لوہار کے مہمان ہونے کی حیثیت سے لوگوں نے
انہیں شاہ سلطان بلاولؒ کہنا شروع کردیا۔ اسی نسبت سے یہ قصبہ دندہ شاہ سلطان
بلاول کے نام سے مشہورہوا جو انگریز کے دور میں صرف دندہ شاہ بلاول رہ گیا۔
حضرت
جؒی کے قول کے مطابق حضرت شاہ بلاولؒ کا
اصل نام لال شاہؒ تھا۔ آپؒ نے ان کا منصب قطب ِمدار بتایا۔ حضرت جؒی نے لنگر مخدوم
میں قیام کے تین سالہ دور میں سالک
المجذوبی تک سلوک طے کیا۔ چکڑالہ واپس آئے تو اگلی منازل سلوک میں آپؒ کو حضرت لال
شاہ ہمدا نیؒ کی
رفاقت حاصل ہوئی جو ابتدائی عرشی منازل
تک جاری رہی۔
چکڑالہ سے دندہ شاہ بلاول کا فاصلہ قریباً 13 کلو میٹر ہے۔ حضرت جؒی
کبھی کبھی دندہ شاہ بلاول آتے اور رات کا
قیام حضرت لال شاہ ہمدانیؒ کے مزار سے
ملحق مسجد میں فرماتے۔ حضرت جؒی اب سلوک کی ان منازل میں تھے جہاں ارواح کے باہمی
رابطے کے لئے کسی واسطے یا جسمانی حاضری کی ضرورت نہیں رہتی۔ حضرت جؒی جہاں بھی
ہوتے، مراقبات کے دوران آپؒ کو روحانی طور پر اس ہستی کی معیت حاصل رہتی جنہیں روحانی
سفر کے اس مرحلہ میں نشاندہی ٔمنازل کی
ذمہ داری تفویض کی جاتی۔
کچھ
ہی عرصہ بعد حضرت لال شاہ ہمدانیؒ کی مناز ل سے ماوریٰ مقاماتِ سلوک کی نشاندہی کی
ضرورت پیش آئی تو یہ ذمہ داری حضرت غوث بہاؤالدین زکؒریا کو تفویض ہوئی۔ اگلے مرحلہ میں حضرت جؒی کی
رہنمائی کا فریضہ حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانیؒ کے سپرد ہوا۔ حضرت جؒی فرمایا کرتے
تھے کہ ان بزرگ ہستیوں کے ذمہ صرف مقاماتِ سلوک کی نشاندہی ہوا کرتی تھی لیکن توجہ براہ راست آقائے نامدارﷺ
کی نصیب ہوتی۔ اس توجہ سے آپؒ کی روحِ پُرنور صدیوں کی منازل ایک جستِ نگاہ میں طے کرتی۔
مقامِ رضا کے بعد درمیانی واسطے تمام ہوئے اور حضرت جؒی کا
روحانی سفر براہِ راست آقائے نامدارﷺ کی خاص توجہ سے جاری رہا۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ خاص نصیب ہوئی۔ حضرت جؒی ان اعلیٰ منازل
کے بارے میں فرماتے ہیں:
‘‘مقامِ رضا کے بعد سالک
کو شیخ کی توجہ کی ضرورت نہیں رہتی اور فیض اس طریقہ سے ملتا ہے، جس طریقہ سے نبی کو فیض ملتا ہے۔ فرق اتنا ہے
کہ امتی کو نبی کے توسط سے فیض ملتا ہے۔’’
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
روحانی
منازل طے کرتے ہوئے جس قدر قربِ الٰہی میں اضافہ ہو رہا تھا اسی نسبت سے حضرت جؒی کی روح کی رفتار میں بھی تیزی آ رہی
تھی۔
شدید علالت
راہِ
سلوک میں ایک مقام ایسا بھی آیا جب حضرت جؒی طویل علالت کے مرحلہ سے گزرے۔ اس کا
تفصیلی ذکر کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا کہ یہ مرحلہ ‘‘تبدیلیٔ ملک کے دوران’’ پیش آیا
جس سے زمانے کا تعین ہوتا ہے یعنی 1947ء۔ حضرت جؒی
کی ریکارڈ شدہ گفتگو کے مطابق 1947ء میں آپؒ لنگر مخدوم تشریف لے گئے ا ور اپنے پہلے
شاگرد قاضی جؒی کو حضرت سلطان العارفیؒن
کی خدمت میں پیش کیا۔ اس موقع پر دو افراد اور بھی تھے جن کے نام معلوم نہیں
ہو سکے۔ لنگر مخدوم سے واپس چکڑالہ پہنچے تو آپؒ شدید بخار میں مبتلا ہوئے جو مسلسل نو دن جاری رہا۔ تین دن کے لئے افاقہ
ہوا لیکن پھر وہی حالت۔ بخار کی حدّت انتہائی شدید تھی جس پر کوئی دوا اثر نہ کرتی۔
حضرت جؒی خود بھی طبیب حاذق تھے لیکن
مختلف نسخے آزمانے کے باوجود بخار کا زور کم ہونے میں نہ آیا۔ سارا بدن بخار کی
حدّت سے جل گیا اور جلد پر سوزش ہو گئی جس کے اثرات زندگی بھر باقی رہے۔ انتِیس دن تک کھانا پینا موقوف رہا
سوائے عرق سونف کے جو تھوڑا تھوڑا دیاجاتا۔ زیادہ وقت بے ہوشی میں گزرتا لیکن اوقاتِ نماز میں
ہوش آنے پر اہلیہ سہارا دے کر چارپائی کے ساتھ مصلّے پر بٹھا دیتیں اور آپؒ بمشکل
فرائض ادا کر پاتے۔ شدید بیماری کی حالت میں حضرت جؒی نے قاضی جؒی کو مشائخ (حضرت
سلطان العارفیؒن)کے پاس بھیجا تو وہاں سے جواب ملا کہ یہ مجاہدہ کرایا گیاہے تا کہ
منازل بالا کے لئے استعداد پیدا ہو۔ بالآخر بخار کایہ سلسلہ اچانک ٹوٹا تو نور کے
ایک سمندر کا مشاہدہ کرایا گیا۔ آپؒ اس سمندر میں غوطہ زن ہوگئے اور جب باہر نکلے
تو اوپر پھینک دیئے گئے جس کے ساتھ ہی منازلِ بالا کا آغاز ہوا۔ حضرت جؒی نے ایک
مرتبہ اس علالت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
‘‘پرانے ساتھیوں کو
پہاڑوں کی طرح جم کر رہنا ہے، ان سے بہت لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ مجھ سے کتنے ہی
لوگوں کو فائدہ ہوا۔’’
اہل
اللہ کے ہاں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بلندیٔ مناز ل سے قبل بیماری اور مصائب کی
صورت مجاہدوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ فرمانِ نبویﷺ کے مطابق ایک مومن کو پہنچنے والی
ہر تکلیف اس کے لئے بلندیٔ درجات کا سبب ہوتی ہے اور یہ منازلِ سلوک بھی روحانی ترقی کی مختلف مدارج
ہیں جنہیں اس شعبہ کے ماہرین نے پہچان کے لئے مختلف منازل کا نام دے رکھا ہے۔ حضرت
جؒی کی یہ شدید علالت، منازلِ بالا طے کرنے سے قبل مجاہدہ کی ایک صورت تھی جس کے
ذریعے آپؒ کی روحِ پُرفتوح کو اس سفر کے لئے تیار کیا گیا۔
انوارات،
جہاں روح کو جِلا اور قلب کو سکون عطا کرتے ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تجلی
ٔ باری تعالیٰ سے طور سا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ کچھ یہی حال مادی بدن کا بھی
ہے۔ اگر شیخ ِکامل کی رہنمائی میسر نہ ہو تو کثرت ِا نوارات کی وجہ سے بسا اوقات
کمزور لوگ ہوش وحواس فنا کر بیٹھتے ہیں، ان کے قوائے باطنی جل جاتے ہیں اور وہ
مجاذیب کی صورت عشقِ الٰہی کی چوکھٹ کے دیوانے نظر آتے ہیں۔ البتہ وہ مردانِ جری جو روحانی طور پر انوارات وتجلیاتِ باری
تعالیٰ کے جذب کی اہلیت تو رکھتے ہیں لیکن ان کے ابدان روح جیسی قوتِ
برداشت نہیں رکھتے، حدتِ انوارات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔اس
ضمن میں حضرت منصور حلاجؒ کا تذکرہ ہوا تو حضرت جؒی نے فرمایا کہ فنا بقا کے
انوارات برداشت نہ کر سکے۔ میرے دور میں ہوتے تو میں انہیں فنا بقا سے نکال
کر اگلے اسباق میں چلا دیتا۔ آپؒ نے مزید فرمایا کہ انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ
غلط تھا چونکہ وہ مکّلف ہی نہ تھے۔
حضرت
جؒی کی مناز ل بالا کا آغاز تاریخ ِ تصوف کا ایک اہم واقعہ تھا جو خال خال اہل اللہ کے حصہ میں آئیں۔ آسمانِ تصوف
پہ چمکنے والے اَن گنت ستاروں میں سے چند ایک ہی
ان بلندیوں پر متمکن نظر آتے ہیں لیکن حضرت جؒی کو مستقبل میں حاصل ہونے
والی بلندمنازل کی نسبت سے
ان منازل کوابتدائی سنگ میل کہا جا سکتا ہے۔ حضرت جؒی فرماتے ہیں کہ جس روز ان منازل کی
ابتدا ہوئی اس روز دربارِ نبویﷺ میں تمام بڑی بڑی ہستیاں
حاضر تھیں۔ حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانؒی، حضرت معین الدین چشتؒی، مشائخ عظام
سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ اور دیگر بزرگ ہستیاں اس ذی شان مجلس کے
آداب اور اپنے اپنے مناصب کے مطابق اس وقت
موجود تھیں۔ حضرت جؒی کے منصب اور منازل کے متعلق فیصلہ ہوا۔ حضرت جؒی کی ریکارڈ
شدہ گفتگو کے مطابق تاریخ ِ تصوف کا یہ اہم واقعہ 1947ء میں پیش آیا۔
قربِ الٰہی کے اس روحانی سفر میں حضرت جؒی کن کن منازل سے
گزرے؟ سوانح کا یہ باب ان منازل کی نشاندہی اور تذکرہ کا متحمل ہے نہ راقم کے بس کی
بات ہے۔ ان کا تفصیلی ذکر سوانح کے آخر میں ‘‘حیاتِ جاوداں’’ کے عنوان کے تحت آئے
گا لیکن بروایت شیخ سلسلہ حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی، جن کا فرمایا ہوا اس
موضوع پر سند ہے۔
اجمالی
طور پر اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ روح کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔ اس جہانِ آب وگِل میں
آنے کے بعد روح اپنے اصلی مقام کی طرف مراجعت کے لئے قوتِ پرواز کی محتاج ہے جو
بجُز فیضان نبویﷺ ممکن نہیں۔ جس قدر فیضان نبویﷺ
کی دولت کسی کو نصیب ہوئی، اسی نسبت سے اسے قربِ الٰہی حاصل ہوا۔
حضرت جؒی نے اپنے
روحانی سفر کا آغاز لنگر مخدوم سے کیا جہاں حضرت سلطان العارفیؒن کی توجہ اس نعمت ِ غیرمُتَرقِّبَہ کے حصول کا واسطہ بنی۔
مسلسل تین برس حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر رہتے ہوئے ان کی براہ ِراست توجہ میں
منازلِ سلوک طے کیں۔ اس کے بعد اپنے روحانی سفر میں آپؒ کو جن مشائخ ِعظام کی معیت
حاصل رہی، ان کے ذمہ صرف مقامات کی تبدیلی اور منازل کی نشاندہی ہوا کرتی تھی۔
جہاں تک توجہ کا تعلق ہے، وہ آقائے نامدارﷺ سے براہِ راست ملتی۔
ان بزرگوں میں حضرت سیّد لال شاہ ہمدانیؒ کے علاوہ، جن کے مزار پر آپؒ گاہے گاہے جاتے رہے، باقی سب حضرات کی معیت محض روحانی تھی۔
حضرت سلطان العارفیؒن کے زیرتربیت رہتے
ہوئے حضرت جؒی کے اسباق مکمل ہوئے تو آپؒ کو برکات ِنبویﷺ بلاواسطہ بطریق
ِ اویسیہ حاصل ہوئیں۔
اب اوراقِ ماضی پلٹتے ہوئے اوائل گیارھویں صدی
ہجری میں چلتے ہیں تاکہ حضرت سلطان العارفین
خواجہ اللہ دین مدنی
کے حالات کا چشم ِتصور سے مشاہدہ کر سکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔