لذتِ آشنائی
ترکِ
دنیا تصوف کالازمہ ہے اورنہ ہی اسے اہل اللہ کے ہاںمستحسن خیال کیا جاتا
ہے اگرچہ عوام الناس میں یہ تصور عام ہے کہ گوشہ نشینی عین تصوف بلکہ انتہائے ولایت
ہے۔ اس عمومی سو چ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ منازلِ سلوک میں ترقی کے ساتھ ساتھ
امورِ دنیا سے لاتعلقی اور تخلیہ پسندی کا
رجحان بعض اوقات غلبہ اختیار کر لیتاہے جسے دیکھتے ہوئے گوشہ نشینی کو قربِ الٰہی
کا مظہر سمجھ لیا جاتا ہے۔
حقیقت
یہ ہے کہ قرب ِالٰہی کے جو اعلیٰ مدارج صحابۂ کرام] کی مقدس
جماعت کونصیب ہوئے ان کا حصول بعد میں آنے والوں کے بس کی بات نہیں لیکن صحابہ] کی زندگیاں خلوت کی بجائے اجتماعیت اورعملی زندگی
کی بہترین مثال ہیں۔ تصوف کے مروّجہ تصور کے مطابق اگر یہ نفوس ِ قدسی اللہ تعالیٰ
سے لو لگا کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے تو کرۂ ارض پر ترویجِ دین کا عمل بری طرح
متأثر ہوتا۔
اسی
طرح صحابہ] کے بعد بھی
صاحب ِعزیمت وہی کہلایا جو ان کے نقشِ
پا پر چل سکا۔ وہی شیخ اور رہبر ٹھہرا اور اسی کو ولایت ِعظمیٰ نصیب ہوئی جس نے اپنی ذات سے ایک تحریک بپا کی، زمانے کو متأثر کیا
اور تجدید و احیائے دین کا حق اس طرح ادا کیا کہ وقت کی دست برد اس کے ثبت کئے ہوئے نقوش کو کھرچنے میں ناکام
رہی۔
مدارجِ سلوک طے کرتے ہوئے البتہ ایک
دور ایسا بھی آتا ہے جب تعلق باللہ اور
قربِ الٰہی کا ادراک باقی ہر تعلق اور احساس پر غلبہ اختیار کر لیتا ہے ۔ کیف ومحویت
کے اس عالم میں صورت یہ ہوتی ہے :
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ
دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
حضرت جؒی کے الفاظ میں:
‘‘دل چاہتا ہے ایک میں
ہوں اور ایک میرا رب ہو، ہمارے درمیان دوسرا کوئی
حائل نہ ہو۔’’
صرف
ایک تمنا باقی رہ جاتی ہے، قرب و وصال کے
یہ لمحات ابد ہو جائیں اور تصورِ جاناں میں کوئی مخل نہ ہو۔ سلوک کی ایک منزل کے بعد اگلی منزل کی جستجو اور قرب ِمزید کی تڑپ دو آتشہ ہو جاتی ہے۔
فَفِرُّوْآ
اِلَی اللّٰہِط (پس دوڑو اللہ کی طرف) قربِ الٰہی کا راستہ
کٹتا چلا جاتا ہے لیکن جہاں منزل لامکان ہو، حصولِ منزل ممکن نہ اختتامِ سفر ۔ اس
راستے کا ہر نشان سستانے کی بجائے مہمیز کا تقاضا کرتا ہے ۔ وہی مسافر اس راہ کا
شاہسوار ہے جس نے اکیلے سفر کی بجائے کارواں کی رہنمائی کی، گرنے والوں کو تھام لیا،
بھٹکنے والوں کو منزل کی پہچان عطا کی اور رکنے والوں کو پھر سے عازم ِسفر کیا۔
لذتِ آشنائی کے سرور وکیف میں سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو سنبھالنا کارے دارد، جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔اس مقامِ عزیمت
پر خال خال ہستیاں فائز نظر آتی ہیں جو آج بھی میرِ کارواں ہیں۔ ان میں حضرت جؒی ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
حضرت جؒی کے روحانی سفر کی ایک جھلک ‘‘رہ نوردِ شوق’’ کے
عنوان کے تحت پیش کی جا چکی ہے۔ آپؒ کے اس سفر کا ادراک اگرچہ ہمارے بس کی بات نہیں،
تاہم یہ جان لینا کافی ہو گا کہ تاریخ ِ تصوف میں جو بلندیٔ منازل اصحاب ِعزیمت کو اواخر عمر میں نصیب ہوئیں،
حضرت جؒی اپنے ابتدائی دور میں ان منازل سے گزر چکے تھے۔ پھر ایک مقام ایسا بھی آیا
جس کے بعد براہِ راست اللہ تعالیٰ کی توجہ نصیب ہوئی۔ قرب ِالٰہی کی اس مسافت کے
دوران لذتِ آشنائی بھی بلندیٔ منازل کے
ساتھ ساتھ روز افزوں تھی جس نے حضرت جؒی کو دو عالم سے بے نیاز کر رکھا تھا۔
یہ
1947ء کے بعد کا دور تھا جب حضرت جؒی کا مستقل قیام
چکڑالہ میں تھا۔ درس وتدریس کی مصروفیات سے فراغت کے بعد زیادہ وقت ذکروفکر میں
بسر ہوتا۔ نماز باجماعت کے لئے مسجد چلے آتے لیکن فرائض کی ادائیگی کے فوراً بعد
ذاتی حجرہ میں تشریف لے جاتے جہاں ذکروفکر کے دوران اکثر حالت استغراق طاری رہتی۔
زیادہ وقت مراقبات میں اور بالخصوص مراقبہ
فنا فی الرسولﷺ میں گزرتا۔
ایک وہ زمانہ تھا جب حضرت جؒی نے عبداللہ چکڑالوی کے فتنہ
انکارِ حدیث کی اس طرح بیخ کنی فرمائی تھی کہ چکڑالوی مذہب ہمیشہ کے لیے نابود ہو
گیا تھا لیکن اب چکڑالہ اور اس کے گردونواح، بلکہ خطہ پوٹھوہار اوروادیٔ سون سکیسر
میں ایک نیا فتنہ زور پکڑ رہا تھا۔ یہ فتنۂ روافض تھا جس نے شہروں میں علماء کے
ہاتھوں ناکامی کے بعد دور افتادہ دیہات کا رخ کیا تھا تا کہ مناظروں کے ذریعہ سادہ
لوح دیہاتی مسلمانوں کا ایمان خراب کیا جا سکے۔ ان دیہات میں بہت کم علماء مذاہب
ِباطلہ کی معلومات رکھتے تھے جس کی وجہ سے مناظروں میں علمی دلائل کی بجائے پھبتیوں
اورڈھکوسلوں کا سہارا لیا جاتا۔ روافض
چونکہ اس فن کے ماہر تھے، ان کے مقابلے میں مقامی علماء بری طرح زچ ہوتے اور جواب
دینے سے قاصر رہتے جس کے نتیجہ میں روافض کا پلڑا بھاری نظرآتا۔ ان مناظروں میں
اِحقاقِ حق صرف ان علماء کے بس کی بات تھی جو عقائد و تعلیماتِ اسلامی کے ساتھ ساتھ مذاہب ِباطلہ اور بالخصوص
تاریخ ِروافض اور ان کے عقائد نامرضیہ پر مکمل عبور رکھتے ہوں اور نہ صرف فنِ
خطابت کے ماہر ہوں بلکہ کج بحثیوں اور
حجتوں کے برجستہ جواب کے لئے بلاکے حاضر
دماغ بھی ہوں۔
حضرت جؒی اگرچہ زمانہ
طالب علمی میں یہ جوہر منوا چکے تھے لیکن اب یہ آپؒ کی زندگی کا وہ دور تھا جب شب وروز عالمِ جذب وشوق میں گزر
رہے تھے۔ یہ مکمل خودسپردگی وخود فراموشی کا زمانہ تھا۔ حضرت جؒی کے الفاظ میں:
‘‘ایک میں ہوں ایک میرا رب ہو، ہمارے درمیان
کوئی دوسرا حائل نہ ہو۔’’
لیکن
یہ سکون دراصل ایک تلاطم کا پیش خیمہ تھا۔ لذتِ آشنائی کے اس پرکیف دور میں حضرت جؒی
کی خلوتوں میں تلاطم برپا کرنے اور پھر اصلاحِ احوال کے لئے میدانِ عمل میں اترنے کا سبب دربارِ نبویﷺ سے ملنے
والا ایک پیغام بنا جو آپؒ کی زندگی کا اہم ترین موڑ تھا۔ایک روز مراقبۂ سحرگاہی
کے دوران حضرت جؒی حسب ِمعمول بارگاہِ رسالت مآبﷺ
میں حاضر ہوئے تو محسوس کیا کہ آپﷺ
بغیر کسی کو براہِ راست مخاطب کئے
ناصحانہ انداز میں فرما رہے تھے جس کا
حضرت جؒی کے الفاظ میں مفہوم کچھ اس طرح سے تھا:
‘‘دین کی بربادی اور
اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ میرے صحابہ کو ہدفِ تنقید بنایا
جا رہا ہے۔ اس کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود لوگ ذاتی نقصان کا سوچ کر
خاموش تماشائی ہیں۔ سوچ لیں کل محشر میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔
دین
کی یہ عمارت بنی بنائی آسمان سے نہیں اتری۔
اس کی تعمیر میں اینٹوں کی جگہ میرے صحابہ کی ہڈیاں اور گارے کی جگہ میرے صحابہ کا
گوشت لگا ہے۔ پانی کی جگہ میرے صحابہ کا خون استعمال ہوا ہے۔’’
یہ الفاظ سنتے ہی
حضرت جؒی چونک گئے۔آپؒ نے سمجھا کہ یہ پیغام
میرے لئے ہے۔ اس کے بعد آپؒ عمر بھر آرام
سے نہیں بیٹھے۔ خطابت، زورِ قلم، مالی وجانی وسائل کے ساتھ اور ہر میدان اور ہر
محاذ پر آپؒ نے روافض کا بھرپور مقابلہ کیا۔
یہ مناظروں کا دور تھا۔ پورا پورا گاؤں مناظرانہ جنگ کے نتیجہ
میں اپنے عقائد سے تائب ہو جاتا اور کسی گولی یا لاٹھی کی ضرورت پیش نہ آتی۔ فریقین
ایک ہی میدان میں آمنے سامنے بیٹھ کر مناظرہ سنتے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرتے لیکن
جو فریق میدان مار لیتا اس کی فتح پورے علاقے میں اس کے برحق ہونے کی دلیل سمجھی
جاتی۔ ان حالات میں حضرت جؒی نے مناظروں کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر کچھ ہی عرصہ
میں میانوالی سے لے کر ملتان، حیدر آباد، جہلم، حتیٰ کہ آزاد کشمیر تک روافض کے
مقابلے میں اِحقاقِ حق کی دلیل بن گئے۔
اس بات کا تعین مشکل ہو گا کہ حضرت جؒی کی زندگی میں
یہ عہد ساز واقعہ کب پیش آیا۔ حالات
وقرائن کے مطابق یہ 1950ء
سے کچھ عرصہ قبل کا زمانہ ہو گا، البتہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مناظروں کے میدان
میں 1955ء تک ‘‘فاتح اعظم’’ کا خطاب حضرت جؒی کی پہچان بن
چکا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔