لسانِ شیخ
1934ء کی ایک مبارک ساعت، حضرت سیّد پیر مہر علی شاہؒ کی
روح پرور محفل میں ایک نوجوان حاضر ہوا جو حافظ ِ قرآن بھی تھا۔ پیش کرنے والے مرید
ِ خاص نے عرض کیا:
‘‘
حضرت! اسے بیعت کر لیجئے لیکن یہ کچھ متردّد ہے ۔’’
حضرت شاہ صاحؒب نے فرمایا، میں متردّد کو بیعت نہیں
کرتا۔
دوسرے
روز محفل ِ سماع میں بختا قوال بغیر ساز کے نعت پڑھ رہا تھا اور حضرت مہر علی شاہؒ
آنکھیں بند کئے ذکرِ حبیبﷺمیں غوطہ زن تھے۔ یہ
نوجوان آج پھر ان کے روبرو تھا۔ حضرت شاہ صاحؒب نے اچانک آنکھیں کھولیں تو نگاہ سیدھی
اس پر پڑی۔
‘‘فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا ’’
اس
ایک نگاہ سے دل کی دنیا میں ایسی ہلچل مچی کہ بے قرار ہو کر آگے بڑھا ، شاہ صاحؒب
کا ہاتھ تھام لیا اور بیعت کی سعادت سے بہرہ ور ہوا۔
سات سال بعد 1941ء
میں جماعت اسلامی کے مرکز دارالاسلام پٹھانکوٹ میں ایک تربیتی کورس کا انعقاد ہوا۔
اس کورس کے انسٹرکٹر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی تھے
اور وہی نوجوان اب جماعت اسلامی چکوال کے امیر کی حیثیت سے اس کور س میں شریک تھا۔
اختتام پر شرکاء میں حسب ِ قابلیت اسناد تقسیم ہوئیں کہ فلاں صاحب فلاں شعبہ میں
تبلیغ کے اہل ہیں اور فلاں صاحب فلاں شعبہ میں۔تعلیم یافتہ طبقہ کے الگ مبلغ تجویز
ہوئے اور کاروباری طبقہ کے الگ لیکن اسے جو سرٹیفکیٹ ملا اس پر درج تھا کہ وہ بلا
کسی تخصیص کے ہر مکتب ِفکر اور ہر شعبہ میں تبلیغ کی اہلیت رکھتا ہے۔
یہ
تھے حافظ عبدالرزاقؒ جماعت اسلامی کے ابتدائی دور کے اہم رکن جنہیں اس کورس کی تکمیل
پر راولپنڈی ڈویژن کا قیّم مقرر کرتے ہوئے پوری ڈویژن میں دوروں کی ذمہ داری سونپی
گئی۔ یہ ذمہ داری اپنی جگہ، لیکن حافظ عبدالرزاقؒ حضرت مہر علی شاہؒ کی روح پرور
محفل کی جھلک فراموش نہ کر سکے ۔ ان لمحوں کی یاد نے ستایا تو ان کے جانشین کو خط
لکھا، حضرت! مجھے اللہ، اللہ کرنا سکھائیں
لیکن اس کا شاید ابھی وقت نہیں آیا تھا،خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ بہرکیف وہ جوت جو ایک
عارف باللہ نے ان کے دل میں جگائی تھی سلگتی رہی اور کسی اللہ والے کی تلاش جاری
رہی ۔
1960ء میں حافظ عبدالرزاقؒ چکوال ڈگری کالج میں بطور لیکچرر
تعیّنات تھے اور بطور قیّم جماعت اسلامی ان کی دیگر سرگرمیاں بھی جاری تھیں لیکن اکثر شامیں
مقامی سکول کے عربی ٹیچرمولوی سلیمان اور دیگر چند دوستوں کے ہمراہ شطرنج کھیلنے میں
بسر ہوا کرتیں۔زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ یکایک ان کا پارٹنر مولوی سلیمان
شطرنج کی بیٹھک سے غائب ہو گیا۔اس سے قبل مولوی سلیمان کا سرسری ذکر کیا جا چکا ہے
۔ وہ تلہ گنگ کے ایک مدرسے میں عربی کا استاد تھا۔ حضرت جؒی دو مرتبہ اس کے ہاں
تشریف لے گئے ۔ وہ آپؒ کی علمیت سے انتہائی متأثر ہوا۔ 1956ء میں حضرت جؒی نے
مناظرہ بلکسر میں خطاب فرمایا تو حاضرین میں مولوی سلیمان بھی تھا۔ ان دنوں وہ
چکوال میں تعیّنات تھا۔ اس نے آپؒ سے درخواست کی کہ چکوال سے گزرتے ہوئے اسے حسب
سابق ملاقات کا شرف بخشا جائے۔ اس کے بعد حضرت جؒی کا معمول بن گیا کہ چکوال سے
گزرتے ہوئے آپؒ اس کے ہاں کچھ دیر کے لئے تشریف لے جاتے۔
1960 ء میں حضرت جؒی تین روز کے لئے بلکسر تشریف لائے تو اطلاع پا کر
مولوی سلیمان بھی حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت جؒی نے اپنے چہرۂ مبارک پر کپڑا ڈال رکھا
تھا اورحالت ِ مراقبہ میں تھے۔ مولوی
سلیمان کی آمد پرچہر ے سے کپڑا اٹھایا تونگاہ مولوی سلیمان پر پڑی۔ مولوی سلیمان
اس نگاہ کی تاب نہ لا سکا اور ہوش جاتے رہے۔ حضرت جیؒ نے یہ حالت دیکھی تو ہاتھ
پکڑا اور فرمایا :
‘‘
آگئے ہو، باہر چلو ۔’’
باہر
آکر علیحدگی میں لطائف بتائے۔ پھر فرمایا، کشمیر جا رہا ہوں واپسی پر توجہ دوں گا
۔ حضرت جؒی کا یہ ضلع باغ (آزاد کشمیر) کا وہ دورہ تھا جس میں حضرت امیرالمکرم
پانچ دن تک آپؒ کے شریک سفر رہے۔ واپسی پر چکوال پہنچے تو حسب ِوعدہ مولوی سلیمان
کو ذکر میں بٹھایا اور توجہ دی۔ مولوی سلیمان کے اس پہلے ذکر میں حضرت امیر المکرم
بھی حضرت جؒی کے ساتھ تھے۔ مولوی سلیمان حضرت جؒی کی توجہ برداشت نہ کر سکا اور
ہفتہ بھرحالت غیر رہی۔ شطرنج کا رسیا تھا لیکن اس پہلی توجہ کے ساتھ ہی یہ شغل
تمام ہوا۔
شطرنج
کی بیٹھک سے مولوی سلیمان کی مسلسل غیر حاضری حافظ عبدالرزاقؒ کے لئے حیران کن تھی۔
سبب دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک اللہ والے سے تعلق قائم ہوچکا ہے جس کے بعد
ان مشغلوں کی احتیاج باقی نہیں رہی۔ اللہ والے کی تلاش تو حافظ صاحؒب کو بھی تھی گلہ
کیا کہ انہیں کیوں نہیں بتایا۔ مولوی
سلیمان نے جواب دیا :
‘‘
پروفیسروں کو اللہ والوں سے کیا غرض ؟’’
پروفیسر صاحؒب نے انتہائی دکھ سے کہا :
‘‘مجھے
بتا کے تو دیکھا ہوتا !’’
حضرت جؒی کی چکوال آمد پرحافظ عبدالرزاقؒ حاضر
خدمت ہوئے لیکن پہلی نظر میں آپؒ کی سادگی دیکھ کر متأثر نہ ہو سکے ۔ عام زمینداروں
کا سا لباس زیب تن تھا اور وضع قطع سے عالم نظر آتے تھے نہ پیر۔ کچھ دیر بعد علمی
گفتگو چھڑ گئی تو سمجھ آئی کہ حضرت جؒی تو علم کا انسائیکلو پیڈیا تھے لیکن جس بات
نے حافظ صاحبؒ کے دل کی دنیا کو تہہ وبالا کر دیا وہ کوئی فلسفہ ٔ حکمت و دانش نہیں
بلکہ تین لفظوں پر مشتمل ایک سادہ سا جملہ تھالیکن معانی اور کیفیات سے بھرپور۔
اس وقت حضرت جؒی کی محفل میں دو صاحبان پہلے سے موجود تھے،
ایک نوعمر دیہاتی (ملک خدا بخشؒ) اور دوسرے ایک لمبے
تڑنگے جوانِ رعنا (حضرت امیرالمکرم) جن کے انداز گفتگو میں غضب کی بے تکلّفی اور
اپنائیت تھی۔ حضرت جؒی سے کہنے لگے :
‘‘ حضرت! ایہہ (ملک خدا بخشؒ) تے ہک ململ دا
چولا تُساں دو واریں تَھبوکیا تے چٹا سفید ہو گیا ۔ ایہہ بھورا (اپنے متعلق) جے تُساں
کھمب کیتا تے تاں منساں۔’’
(ملک خدا بخش تو ایک ململ کا کرتہ تھا، دو
ہاتھ لگنے سے سفید ہو گیا اس بھورے کو بھی یعنی مجھے بھی سفید کر دیں گے تو مانوں
گا ۔)
اس
وقت ملک خدا بخشؒ کے انکشافات شروع ہو چکے تھے لیکن حضرت امیرالمکرم کے ہاں یہ
صورت نہ تھی۔ حضرت جؒی ان کی ا س بے تکلفی سے بہت محظوظ ہوئے اور مسکراتے ہوئے
فرمایا :
‘‘ اللہ قادر ہے ۔’’
حافظ صاحؒب سوچ میں پڑ گئے کہ یہ کیسے حضرت ہیں کہ ‘‘اللہ
قادر ہے’’ کہہ کر اپنی ذات کی مکمل نفی کر دی۔یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ میں کوشش
کروں گا لیکن انہوں نے تو سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا۔ گویا اپنے ہاتھ میں توکچھ ہے ہی نہیں۔ تین الفاظ میں تصو
ّف کی حقیقت بیان کر دی۔ یہی تو ہے حقیقتِ توحید، یہی مقام فنا فی اللہ اور یہی
مقامِ رضا ہے یعنی اپنے اختیار سے دستبردار ہو کر اپنی باگ ڈور مکمل طور پر اللہ
کے سپرد کر دو جو ہرچیز پر قادر ہے۔
حافظ
عبدالرزاقؒ ابھی تک حضرت جؒی کے اسی جملے میں کھوئے ہوئے تھے کہ مولوی سلیمان نے
عرض کیا :
‘‘حضرت!
یہ پروفیسر صاحب بھی اللہ، اللہ سیکھنا چاہتے ہیں ۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘چھوڑو مولوی جی پروفیسراں نوں کی لگے اِنہاں
گلاں نال (مولوی صاحب چھوڑیں پروفیسروں کو ان باتوں سے کیا سروکار)۔’’
حافظ صاحب دینی اور دنیوی، دونوں علوم سے مالا مال تھے۔
انتہائی بذلہ سنج اور حاضر جواب، علمی گفتگو میں دلائل کا سیلاب رواں ہوتا جس کے
سامنے کوئی ٹھہر نہ سکتا۔ اس پر طرہ یہ کہ جماعت اسلامی کے اساسی رکن اور راولپنڈی
ڈویژن کے قیّم لیکن ایک اللہ والے کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے درخورِ اعتناء ہی
نہ سمجھا۔ اہل اللہ کے معاملات بھی عجیب ہوتے ہیں۔ شفقت فرمانے پر آتے ہیں تو عامی
بھی نوازے جاتے ہیں لیکن بے نیازی ایسی کہ نگاہ کبھی خواص کی طرف بھی نہیں اٹھتی ۔
یہ بے نیازی بھی اکثر عطاء کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اور جس دل میں عُجب کی صورت
خودپرستی موجود ہو، اس کے لئے معرفت کا پہلا سبق ثابت ہوتی ہے۔
حضرت جؒی کے یہ الفاظ دل کے بتکدے پر ضربِِ ابراہیمی ثابت
ہوئے۔ جس قلب میں اپنا ہی بت بٹھا رکھا ہواور انسان اس کی پرستِش میں لگا رہے خواہ
یہ علمی فضیلت کا بت ہو،ورع و تقویٰ کا یا عبادت گزاری کا اس کا ذکرِ الٰہی سے کیا
سروکار! ان بتوں کی موجودگی میں قلب، اللہ کا مسکن نہیں بن سکتا۔ حضرت جؒی کے یہ
الفاظ حسب ِ حال تھے کہ مکتب ِ طریقت میں داخلے سے پہلے بھول جاؤ کہ تم بڑے عالم
ہو زاہد ہو، اونچی شان و شوکت والے ہو، کوئی پروفیسر ہو یا اعلیٰ افسر ہو ۔ تم تو
عدم سے وجود میں آئے اور كُلُّ مَنْ
عَلَيْهَا فَانٍ oتمہارا انجام ہے، یہاں ذاتی
تفاخُر اور فضیلت کا بھرم کیسا؟ مولوی سلیمان نے اصرار کیا تو حضرت جؒی نے فرمایا
:
‘‘ انہیں شام کے ذکر میں بٹھا لینا ۔’’
شام کے حلقہ ٔ ذکر میں حافظ صاحؒب شریک ہوئے تو حضرت جؒی نے
خصوصی توجہ فرمائی۔ دل کے بت کدے پر زد پڑی تو اک زلزلہ سا آیا اور وجد طاری ہو گیا۔
کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی لیکن اس بات کا یقین ہو گیا کہ یہاں کچھ ہے
ضرور، اور یہ وہی تو ہے جس کی ایک مدت سے حافظ صاحؒب کو تلاش تھی۔ چھبیس سال قبل
حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے ان کے دل میں اللہ سے تعلق کا جو بیج بویا تھا، وہ حضرت
جؒی کی توجہ سے پھوٹ پڑا۔ جس طرح وہ ابتداء میں حضرت شاہ صاحؒب کے ہاتھ پر بیعت
کرنے سے متردّد تھے لیکن اک نگاہِ پُر اثر کے نتیجے میں لپک کر ان کا ہاتھ تھام لیا،
اسی طرح آج بھی وہ حضرت جؒی کی سادگی دیکھ کر پہلی نظر میں تو متردّدتھے لیکن
دورانِ ذکر توجہ ملی تو حضرت جؒی کے دامن کو ایسا تھاما کہ پھر اسی چوکھٹ کے ہو کر
رہ گئے۔
منارہ کے بعد اب چکوال میں مولوی سلیمان اور
حافظ عبدالرزاقؒ پر مشتمل دوسرا حلقہ ٔ ذکر قائم ہوا ۔ یہ دونوں حضرات چکوال کی
معروف شخصیات میں سے تھے۔ شطرنج کی بیٹھک سے اٹھے اور ذکرِالٰہی کی محفل سجا لی تو
حلقہ ٔ یاراں کو تعجب ہو ا کہ اس انقلاب کے پیچھے کونسا ہاتھ کار فرما ہے ۔ ان کے
اس تجسس نے یہ رنگ دکھایا کہ حضرت جؒی چکوال تشریف لاتے تو ایک نیا شخص چشم براہ
ملتا تاکہ خود اس انقلاب آفریں ہستی سے مل کر اپنا تجسّس دور کرسکے لیکن جو بھی آیا،
متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس طرح چکوال کے حلقہ ٔ ذکر میں رفتہ رفتہ مزید احباب
شامل ہو تے چلے گئے۔
اسی سال حضرت جؒی کو دعوتِ عام کا اذن ملا تو چکوال میں
کھلے بندوں محافل ِ ذکر منعقد ہونے لگیں۔ ابتداء حافظ صاحؒب کے پر اثر اور مدلّل
خطاب سے ہوا کرتی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد حافظ عبدالرزاقؒ کا ڈگری کالج جہلم میں
تبادلہ ہو گیا۔ اب وہ حضرت جؒی کے حکم پر ہر ہفتے چکوال آتے اور محافلِ ذکر میں
حسب ِ معمول خطاب کرتے ۔ 1963ء
میں انہیں حضرت جؒی کی مشہور تصنیف ‘‘دلائل السلوک’’ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی
گئی۔ 1964ء
میں دلائل السلوک کی اشاعت ہوئی تو شعبہ تصنیف مستقل طور پر حافظ صاحؒب کے سپرد ہوا جس کے بعدوہ حضرت
جؒی کے افکار کی اشاعت میں دن رات اس طرح مصروف ہو گئے کہ تصنیف و تالیف ان کی
زندگی کا عنوان بن گیا۔1979ء
میں انہوں نے حضرت جؒی کی قومی سطح پر معروف کتاب ‘‘نفاذِ شریعت اور فقہِ جعفریہ’’
کو مرتب کیا۔اس میں فقہِ جعفریہ کی تاریخ کے حوالے سے حافظ صاحؒب کی طرف سے ایک
اضافی باب بھی تھا جو حضرت جؒی کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ آپؒ یہ دیکھ کر انتہائی
خوش ہوئے اور فرمایا:
‘‘مشائخ کو ایسے آدمی اللہ
کریم کی طرف سے ملتے رہے جو ان کی لسان ہوتے جیسے حضرت شمس تبرؒیز کو مولانا رومؒ
عطا ہوئے۔ اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ مجھے تُو عطا کیا گیا۔’’
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔