ANTI-ADBLOCK JS SYNC فاتح اعظم ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

فاتح اعظم

فاتح اعظم

            مذہبی تحقیق کے لئے دنیا بھر میں مناظروں کی روایت زمانۂ قدیم سے چلی آرہی ہے۔ قرآنِ حکیم میں سیّدنا ابراہیمu اور نمرود کے مابین جن سوال و جواب کا ذکر ملتا ہے وہ مناظرانہ شکل میں تھے۔ بغداد جب علم کا مرکز بنا تو وہاں مناظروں کی صورت علمی اور فقہی بحث و مباحث کا خوب رواج ہوا جن کا انعقاد کبھی حکومت کی سرپرستی میں ہوتا اور کبھی عوامی سطح پر۔ برصغیر میں وسط بیسویں صدی  عیسوی کے قریباً دو عشروں پر محیط مناظروں کا دور نظر آتا ہے۔
            یہ مناظرے آج کی فرقہ وارانہ جنگ سے قطعی مختلف، خالصتاً دینی اور علمی مباحث ہوا کرتے تھے۔مناظرہ شروع کرنے سے پہلے فریقین شرائطِ مناظرہ طے کرتے، اُسلوبِ  بحث کا تعین ہوتا اور اپنا اپنا صدرِ مناظرہ  نامزد کیا جاتا۔ مقامی عمائدین میں سے ایک ایک سرپرستِ مناظرہ بھی ہوتا۔ اس طرح دو صدور اور دو سرپرست مل کر جلسہ گاہ میں نظم و ضبط قائم رکھتے اور مقررین کو طے شدہ ضوابط کا پابند بناتے۔ فیصلہ کے لئے منصفین بھی اتفاق رائے سے مقرر کئے جاتے  تھے لیکن اصل منصف عوام ہوا کرتے۔ مناظرہ مسجد میں ہوتا یا جلسہ گاہ میں، فریقین ایک ساتھ بیٹھتے اور دورانِ مناظرہ لوگوں کی داد و تحسین سے واضح ہو جاتا کہ کس فریق  کا پلڑا بھاری رہا۔
            ان مناظروں میں حضرت جؒی بعض اوقات مروّجہ موضوعات سے ہٹ کر خطاب فرماتے، خاص طور پر ان حالات میں جب فریقِ ثانی ہار تسلیم کر لیتا یا مقابل آنے سے کتراتا۔ آپؒ کی مناظرانہ تقاریر قرآن و حدیث کے حوالوں اور علمی دلائل کا مخزن ہوا کرتیں لیکن افسوس اس بیش قیمت علمی ورثہ کو محفوظ نہ کیا جا سکا۔
مناظرہ جہلم
            حضرت جؒی کے مناظروں میں سے مناظرہ جہلم کو بہت شہرت ملی۔ اس مناظرہ میں مشہور شیعہ مناظر مرزا احمد علی امرتسری (متوفی 1390ھ) اور فیض مکھیالوی (متوفی 1371ھ) آپؒ کے مقابل تھے۔ موضوع بھی انتہائی اہم تھا یعنی ایمان، قرآن اور خلافت۔ اس مناظرہ کی بعض تفاصیل علماء کے ہاں اب بھی محفوظ ہیں۔ دارالمؤلفین کراچی  کے جناب محمد الفاروقی النعمانی کے ذریعہ جو معلومات حاصل ہو سکی ہیں، ان سے اس دور کے مناظروں کے علمی معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف قرآن و حدیث سے دلائل نظر آتے ہیں تو دوسری طرف حوالہ جات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر تحریف ِ معنوی  اور دجل و فریب کی چالیں بھی صاف دکھائی دیتی ہیں۔
            مسئلہ تحریف ُ القرآن پر بحث شروع ہوئی توحضرت جؒی نے اس موضوع پر مشہور شیعہ کتاب       ‘فصل   الخطاب’ سے یہ الفاظ پڑھے:
وَھُوَ عِنْدَالْحُجَّۃِ عَجَّلَ اللّٰہُ فَرَجَہ... وَیَاْمُرُھُمْ بِقِرَآء تِہ وَھُوَ مُخَالِفُ لِھٰذَالْقُرْآنِ الْمَوْجُوْدِ  مِنْ حَیْثُ التَّالِیْفِ وَتَرْتِیْبِ الْسُوَرِ وَالْاٰیَاتِ بَلِ الْکَلِمَاتِ ... فصل الخطاب ص 97
          یعنی جس قرآن کوحضرت علیt نے حضورﷺ کی وفات کے بعد  بنفسہٖ جمع کیا تھا، وہ اب     امام مہدیؒ کے پاس ہے۔ جب وہ آئے گا تو لوگوں کو اسی قرآن کے پڑھنے کاحکم دے گا اور وہ قرآن اس موجودہ قرآن کے بالکل خلاف ہے، سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے بھی اورآیات وکلمات کے لحاظ سے بھی۔
  مرزا احمد علی سے  حضرت جؒی کے اس پیش کردہ حوالے کا جواب تو نہ بن پڑا مگر دجل و فریب سے لوگوں کے سامنے قرآن شریف کی مندرجہ ذیل آیت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ جس طرح اس آیت میں‘‘هٰذَا الْقُرْآنَ’’ کے الفاظ ہیں، اسی طرح زیرِ بحث حوالے میں بھی‘‘هٰذَا الْقُرْآنَ’’کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوْرًاO
بیشک میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کر رکھا تھا۔ (الفرقان۔30)
حضرت جؒی نے فرمایا :
‘‘میں قرآن شریف کے الفاظ کے متعلق نہیں پوچھ رہا بلکہ‘فصل الخطاب’ میں        هٰذَا الْقُرْآنَ’ کے جو الفاظ  ہیں، ان کے متعلق پوچھ رہا ہوں۔ میرے ہاتھ میں  آپ لوگوں کی یہ  مشہور کتاب ‘فصل الخطاب’ ہے۔’’
            مرزا احمد علی اس کاکوئی جواب نہ دے سکا کیونکہ ‘فصل الخطاب’ جیسی کتاب کے اس حوالے کے بعد ایمان بالقرآن کا ثبوت ان کی اپنی مآخذ کتب سے تلاش کرنا ممکن نہ تھا۔
             جب وہ اس موضوع پر لاجواب ہو گیا تو رخ بدلتے ہوئے میزان الاعتدال سے یہ عبارت پیش کی:
‘‘یَا حُذَیْفَۃُ بِاللّٰہِ اَنَا مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ’’
یعنی حضرت عمرt  نے حضرت حذیفہt  سے کہا:
‘‘اللہ کی قسم،  میں منافقین سے ہوں...’’  معاذ اللہ
حضرت جؒی نے میزان الاعتدال کھولی اورمرزا احمد علی کی پیش کردہ عبارت سے متصل یہ الفاظ پڑھے:
‘‘وَھُوَ مُحَالٌ اَخَافُ اَنْ یَّکُوْنَ کَذِبًا’’
(حضرت عمر فاروقt کی زبان سے ایسے الفاظ نکلنا محال ہے، مجھے  اندیشہ ہے کہ یہ روایت جھوٹی ہے۔)
          فریق مخالف ہی کی کتاب سے اس کے خلاف دلیل دینا صرف اسی صورت ممکن تھا جب اپنی کتب کے علاوہ ان کی کتب پر بھی مکمل عبور حاصل ہو۔ حضرت جؒی خوب جانتے تھے کہ میزان الاعتدال سے عبارت کا اصل حصہ عمداً چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ تو اسی طرح ہے کہ کوئی شخص قرآن حکیم کی ایک آیت کا جُزو، لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ (نماز کے قریب مت جاؤ) پڑھنے کے بعد اصرار کرنے لگے کہ نماز پڑھنے سے روکا جا رہا ہے جبکہ اس آیت کے اگلے جزو    وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی(اور تم نشے کی حالت میں ہو)کو عمداً چھوڑ دے۔ اسے دجل و  فریب اور کتمان کہتے ہیں یعنی دھوکہ دینے کے لئے عبارت کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا،یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دینا۔
            اسی موضوع پر مرزا احمد علی نے ابن کثیر کا حوالہ پیش کرتے ہوئے بھی دجل وفریب  سے کام لیا اور صرف یہ الفاظ پڑھے:
‘‘قَالَ عُمَرُ لِحُذَیْفَۃَ۔  اَمِنْھُمْ اَنَا’’
حضرت عمرt نے حضرت حذیفہt سے پوچھا، کیامیں منافقین سے ہوں؟
حضرت جؒی نے جواباً ابن کثیر ہی سے مرزا احمد علی کی پیش کردہ عبارت سے متصل یہ الفاظ پڑھ دیئے:
‘‘قَالَ لاَ  ’’
حضرت حذیفہt  نے فرمایا، ہر گز نہیں۔
            یعنی حضرت حذیفہt  کا جواب تھا کہ حضرت عمرt  منافق نہیں لیکن مرزا احمد علی نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے یہ  الفاظ عمداً چھوڑ دیئے تھے ۔
          صحابۂ کرام]  اور نفاق؟ یہ تو ایسے ہی تھا جیسے جمع ضِدّین، لیکن اس کے ثبوت میں دلیل کہاں سے آئے! مرزا احمد علی لاجواب ہوا   تو اس کی مدد کے لئے مُلّافیض اٹھا اور بغیر کسی ثبوت  یا کوئی عبارت پیش کئے یہ بڑ ہانکی: ‘‘اصحابِِ  ثلاثہ منافق ہیں’’  نعوذ باللہ۔
حضرت جؒی نے جواباً یہ آیت پڑھی:
لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَآ اِلَّا قَلِيْلًا O
(اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺ کوفرماتے ہیں)  ہم ضرور آپ کو ان کے پیچھے لگا دیں  گے پھر یہ آپ کے پڑوس میں کم  ہی رہ  پائیں گے۔   (الاحزاب 60)
            حضرت جؒی نے اس آیت کی تفسیر میں شیعہ کتاب ‘‘تفسیر صافی و منہج الصادقین’’سے اقتباس پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ان شیعہ مفسرین نے اس آیت کا  ترجمہ یہ کیا ہے:
ہر آئینہ ترا بقتال ایشاں تحریص کنیم و بعد ازاں
مجاورت و ہمسائیگی نکنند با تو در مدینہ مگر زمانہ اندک
یعنی ہم آپﷺ کو یقیناً ان منافقین کے قتل کرنے اور جلاوطن کر دینے کا حکم کریں گے اور یہ منافق آپ ﷺ کے ساتھ مدینہ میں نہیں رہیں گے مگر تھوڑا عرصہ۔
اس کے بعد حضرت جؒی نے شیعہ مناظرین سے پوچھا:
‘‘اب بتائیے اگر بقول آپ لوگوں کے اصحاب ثلاثہ منافق تھے(نعوذ باللہ) تو       رسول  اللہﷺ نے پھر ان کے قتل کاحکم کیوں نہ دیا؟ اور ان کے لئے آپﷺ نے  جلاوطنی کااعلان کیوں نہ کیا؟’’
            اس کے جواب میں مُلّا فیض اور مرزا احمد علی کچھ دیر تو خاموش رہے بالآخر یہ تاویل پیش کی کہ     خلفائے ثلاثہ ان منافقین میں سے تھے جوایذاء نہ دیتے تھے اور آیت میں جو حکم  ہے وہ ایذاء دینے والے منافقین کے بارے میں ہے۔
حضرت جؒی نے اس کے جواب میں فرمایا:
‘‘قرآن شریف سے ذرا وہ الفاظ  تو پیش کریں جن سے تمہاری بیان کردہ تخصیص  ثابت ہوتی ہے۔ آیت قرآنی میں تو عموم ہے اور یہ حکم  تو سب منافقین کے لئے  ہے۔’’
            حضرت جؒی کے اس مطالبے کے جواب میں دلیل کہاں سے لاتے!  آیت میں تو عموم تھا، تخصیص کیسے ثابت کرتے؟ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَط ان کی  خاموشی گویا اعترافِ شکست تھا۔
            اس کے ساتھ ہی جہلم کی فضا  ‘فاتح اعظم زندہ باد’ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی اور یہ مشہور مناظرہ برخواست ہوا لیکن ایک عرصہ تک اس کی  بازگشت سنائی دیتی رہی۔ اپنی نجی محفلوں میں حضرت جؒی  جب کبھی مناظرہ جہلم  کا تذکرہ فرماتے، مُلّا فیض اور مرزا احمد علی کے لاجواب ہونے اور چپ  سادھ لینے کا ذکرکرتے ہوئے خوب محظوظ   ہوا کرتے۔
بلکسرضلع چکوال کے مناظرے
          مناظرہ جہلم کی رُوداد سے حضرت جیؒ کے طرزِاستدلال میں علمی انداز غالب نظر آتا ہے جس کی وجہ  یہ تھی کہ آپؒ کے مقابل بھی شیعہ مذہب کے مشہور عالم تھے۔ اس کے برعکس بلکسر کے مناظروں میں ایک منفرد طرزِاستدلال نظر آتا ہے جس میں علمی دلائل کی بجائے فریقِ مخالف کی جہالت کو بطور دلیل استعمال کیا گیا۔
            قیامِ پاکستان کے بعد حضرت جؒی کا پہلابڑا مناظرہ چکوال کے مشہور نواحی قصبے بلکسر میں ہوا۔ بلکسر اور اس کے گردونواح کے پندرہ سولہ دیہات سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد پنڈال میں جمع تھی۔ مناظرانہ دور کا ذکر کرتے ہوئے آپؒ نے بارہا اس دلچسپ مناظرہ کا تذکرہ فرمایا جس کی رُوداد سے ساتھی خوب محظوظ ہوا کرتے۔ اس مناظرہ میں حضرت جؒی اور شیعہ مناظر کے مابین جو دلچسپ مکالمات ہوئے وہ قریب قریب آپؒ ہی کے الفاظ میں پیش کئے جاتے ہیں:
حضرت جؒی نے پہل کرتے ہوئے سوال کیا:
‘‘مولوی صاحب! لفظ مناظرہ نظیر سے مُشْتَق ہے یا نظر سے؟ نظر سے بنائیں تو کیا مطلب بنے گا  ا ور اگر نظیر سے لیں تو کیا مفہوم ہو گا؟’’
            مولوی صاحب تو روایتی سوال و جواب کے عادی تھے۔ یہاں صرف و نحو کے میدان میں چل نہ سکے۔ گھبراہٹ کے عالم میں کبھی ایک لفظ بتاتے اور کبھی دوسرا لیکن اپنی کم علمی کو چھپانے سے قاصر رہے۔
            حضرت جؒی نے مولوی صاحب کی علمی سطح دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ بغیر اعراب کے عربی عبارت پڑھنا ان کیلئے ممکن نہ ہوگا۔ آپؒ نے نہج البلاغہ کھول کر سامنے رکھتے ہوئے فرمایا:
‘‘اس کتاب کی چار سطریں پڑھ کر معنی تو بیان کر دیں (ساتھ ہی واسکٹ کی جیب سے 80 روپے نکال کر میز پر رکھ دیئے) عبارت اور معنی ٹھیک ہوں تو یہ رقم آپ کا انعام ہے۔’’
            مولوی صاحب پریشان کہ آج برے پھنسے۔ جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگے کہ یہ لوگ تو مجھے صرف نبی کریمﷺ کی پیدائش اور وفات کے دن کے بارے میں تقریر کے لئے لائے تھے لیکن اس دن میں بھی اختلاف ہے۔
حضرت جؒی نے سوال کیا:
‘‘کیا نبی کریمﷺ کی حیات ووفات کا دن پہچاننا فرض ہے؟’’
مولوی صاحب نے فوراً جواب دیا:
‘‘فرضِ عین ہے۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘میرا دعویٰ ہے کہ حضورﷺ کی ذات کا پہچاننا بھی فرضِ عین نہیں بلکہ آپﷺ کے دعویٰ کو پہچاننا فرض ہے کیونکہ آپﷺ کی ذات کو تو قریش ویہود سب پہچانتے تھے، عرب خوب جانتے تھے۔ پیغمبر جو بھی دعویٰ کرتا ہے اس کو ماننا اور تسلیم کرنا تو ضروری ہے لیکن آپ نے کہاں سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ آپﷺ کی حیات و وفات کے دن کو پہچاننا فرض ہے؟’’
اب مولوی صاحب نے موضوع بدلنے کی کوشش کی اور حضرت جؒی سے سوال کیا:
‘‘پانچ نمازیں جو پڑھتے ہو اس کو قرآن سے ان اوقات پر ثابت کرو۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘آپ کو تو میں نے عالم سمجھا تھا لیکن آپ مطلق جاہل ہیں۔ میں نے انکار اس بات کا کیا تھا کہ حیات ووفات کا دن پہچاننا فرض ہے نہ واجب بلکہ سنت بھی نہیں۔ میں نے چونکہ آپ کے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا تو دعویٰ کا ثبوت پیش کرنا آپ کے ذمہ تھا جو آپ نے نہیں کیا۔ اب اگر تم پانچ نمازوں کا انکار کرتے ہو تو پھر ثبوت میرے ذمہ ہے۔
            اچھا یہ تو بتاؤ، شیعہ اگر نمازوں کا انکار کرے تو کافر ہوتا ہے یا مسلمان؟’’
مولوی صاحب نے جواب دیا:  ‘‘ کافر۔’’
حضرت جؒی نے برجستہ فرمایا:
‘‘تو کرو پھر پانچ نمازوں کا انکار تا کہ میں ثبوت دوں۔’’
            مولوی صاحب ایک مرتبہ پھر لاجواب ہو  گئے ۔ اگر حضرت جؒی سے ثبوت طلب کرتے ہیں تو اس کے لئے نمازوں کا انکار شرط ہے اور اگر انکار کریں تو کفر لازم آتا ہے۔ ایک بار پھر موضوع سے فرار کا راستہ اختیار کیا اور نماز میں ہاتھ کھولنے اور باندھنے کے متعلق بات شروع کر دی:
‘‘حضرت ابوبکرt ہاتھ سینے پر باندھتے تھے اور کہتے تھے میرا دل قابو میں رہے، حضرت عمرt  پیٹ پر ہاتھ باندھتے کہ پیٹ قابو میں رہے اور حضرت عثمانt  نیچے باندھتے تھے کہ نفس قابو میں رہے حضرت علیt  چونکہ ہر چیز سے پاک تھے اس لئے وہ کھلے رکھتے۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘اس کا ثبوت پیش کریں کیونکہ یہ تو صرف دعویٰ ہے۔ نیز مناظرے میں ثبوت کے ساتھ اس کی سند بھی پیش کی جاتی ہے۔’’
مولوی صاحب بولے: ‘‘بخاری شریف۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘بخاری شریف سے اس کی سند پیش کرو۔’’
مولوی صاحب نے جان چھڑاتے ہوئے کہا:
‘‘میرے پاس تو بخاری شریف ہے ہی نہیں۔’’
حضرت جؒی کہنے لگے:
‘‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ لڑائی کے لئے جانے والا سپاہی اسلحہ گھر رکھ  جائے۔بخاری شریف میں منگوا لیتاہوں لیکن اگر یہ مسئلہ نہ نکلا تو !
            شرط ہمارے ہاں ناجائز ہے لیکن اب آپ سے بات کرتے ہیں، سند مل گئی تو میں سو روپے دوں گا اور ساتھ ہی ترکِ مذہب کا اعلان کروں گا  لیکن  اگر بخاری شریف میں ثبوت نہ ملا تو سو روپے آپ کو دینے ہوں گے اور ترکِ مذہب کا اعلان بھی کرنا ہو گا۔’’
            حضرت جؒی نے بات کو یہاں ختم نہیں کیا بلکہ سرِعام یہ شرط لکھ دی گئی۔ اب مولوی صاحب نے ایک اور پینترا بدلا اور مطالبہ کیا کہ بخاری شریف نارنگ والی چاہیے۔
حضرت جؒی نے جھاڑ پلاتے ہوئے کہا:
‘‘نارنگ کوئی پیغمبر ہوا ہے جو وہاں کی بخاری ہو گی، بخاری  شریف تو مدینہ منورہ کی ہے، رسول اللہﷺ کی زبان سے نکلی ہے۔’’
            ہزاروں کے مجمع کے سامنے جب یہ درگت بنی تو مولوی صاحب نے ایک طرح سے اعترافِ شکست کرتے ہوئے مشہور شیعہ مناظر مولوی اسمٰعیل کو بلانے کے لئے وقت مانگا۔
            حضرت جؒی نے فرمایا، اس کو بھی بلا لو۔ اس طرح یہ مناظرہ وقتی طور پر ملتوی ہو گیا۔
            مولوی اسمٰعیل کی آمد پر اس کو بتایا گیا کہ یہ مولوی صاحب بخاری شریف سے اپنے مؤقف کے مطابق نماز میں ہاتھ باندھنے اور کھولنے کا ثبوت  نہ ملنے کی صورت میں ترکِ مذہب اور سو روپیہ ادا کرنے کی شرط مان چکے ہیں۔ حضرت جؒی نے مولوی اسمٰعیل سے مطالبہ کیا کہ اب آپ بخاری شریف سے یہ ثبوت پیش کریں۔
مولوی اسمٰعیل نے جواب دیا:
‘‘یہ تو جاہل ہے، میں بھی جاہل بن جاؤں۔’’
اس کے بعد مولوی صاحب کو ڈانٹ پلاتے ہوئے مولوی اسمٰعیل نے کہا:
‘‘تم نے کیسے یہ شرط مان لی،بخاری شریف میں یہ مسئلہ تو کہیں نہیں۔’’
حضرت جؒی نے فوراً کہا:
‘‘چلو مولوی صاحب سنی نہیں ہوتے تو نہ سہی، سو روپے تو ادا کر دیں۔انجمن کے فنڈ میں جمع کرا دیتے ہیں۔’’
            مولوی صاحب کو مجبوراً سو روپیہ ادا کرنا پڑا جو کہ ایک طرح سے حضرت جؒی کے مقابلے میں اظہارِ شکست تھا۔ اس کے ساتھ ہی فریقِ مخالف کی ہوا اکھڑ گئی اور مولوی اسمٰعیل کی کوشش کے باوجود یہ مناظرہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔
          اس مناظرے کے بعد بلکسر اور اس کے گردونواح کے لوگ حضرت جؒی کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ آپؒ کو ہر سال یہاں مدعو کیا جاتا۔  اکثر مناظروں میں مدِمقابل مولوی اسمٰعیل ہوتا لیکن 1956ء کے بعد وہ آپؒ کے مقابل آنے سے عموماً گریز کرتا۔ حضرت جؒی اپنے سالانہ جلسہ میں زیادہ تر اصلاحی خطاب فرمایاکرتے۔
            حضرت جؒی اور مولوی اسمٰعیل کے مابین 1956ء کے مناظرہ کی روداد بھی خاصی دلچسپ ہے۔ اس مناظرہ میں حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘اے لوگو! آج کا مقابلہ انتہائی اہم ہے اس لئے کہ آج کے بعد مناظرہ کی ضرورت نہ رہے گی۔ آج فریقین کے جانب سے تین تین سوال کئے جائیں گے۔ میری طرف سے       مولوی اسمٰعیل کو اجازت ہے کہ میرے سوالات کا کسی بھی مذہب کی کتب سے جواب دے۔ مولوی اسمٰعیل مجھ سے جو سوال کرے گا، میں ان کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ جس مکتب فکر سے کہیں گے میں جواب دینے کا پابند ہوں گا۔ اگر ہم میں سے کوئی ایک بھی کسی سوال کا جواب نہ دے سکا تو میں یہ چاقو میز پر رکھتا ہوں۔ اس سے خاموش رہنے والے کی زبان کاٹی جائے گی تاکہ وہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے۔’’
              یہ سن کر مولوی اسمٰعیل اپنی کتابیں سٹیج پر چھوڑتے ہوئے وہاں سے کھسک گیا۔
مناظرہ پونچھ
            ایک مرتبہ حضرت جؒی کو ضلع  پونچھ آزاد کشمیر میں مناظرہ کے لئے مدعو کیا گیا۔ یہ علاقہ آپؒ  کے لئے نیا اور فاصلہ بھی طویل تھا لیکن ایسے مواقع پر آپؒ نامساعد حالات یا طویل فاصلوں کی ہرگز پرواہ  نہ کرتے۔چکڑالہ  سے طویل اور کٹھن مسافت طے کرتے ہوئے آپؒ بوقت عصر ضلع پونچھ میں مناظرہ کے مقام پر پہنچے توعلم ہوا کہ شیعہ مناظر لکھنؤ سے آیا ہوا ہے اور مناظرہ باغِ فدک اور حضرت علیt  کی خلافت بلافصل کے موضوع پر ہو گا۔ یہ وہ مروّجہ موضوعات تھے جن پر فریقین کے مابین دلائل کا خوب مقابلہ ہوتالیکن  سیدھے سادھے مسلمان چونکہ ان علمی دلائل کو نہ سمجھ سکتے تھے، اس لئے اکثر ذہنی الجھاؤ کا شکار ہو جاتے۔
            حضرت جؒی نے سوچا کہ اس مرتبہ ان  الجھنوں کو پیدا ہونے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ مد ّ ِمقابل کی جانب سے مروّجہ موضوعات پر بے جا اِصرار دیکھتے ہوئے آپؒ    سمجھ گئے کہ اس کا علم چند رٹی رٹائی تقریروں تک ہی محدود ہے، چنانچہ اس کے لئے آپؒ نے وہ میدان منتخب فرمایا جس میں وہ طفل ِمکتب تھا۔ دوسرے روز فجر کے بعد شیعہ مناظر سے شرائط  ِ مناظرہ طے کرنے کے لئے ملاقات ہوئی   تو   آپؒ نے پوچھا:
‘‘مناظرہ کی تعریف کیا ہے؟ مناظرہ کس کو کہتے ہیں اور لفظ المناظرہ  پر جو الف لام داخل ہے، یہ الف لام کی مختلف اقسام میں سے ، جو علم ِنحو میں بیان کی گئی ہیں، کون سی قسم کاالف لام ہے؟’’
          اس کی خاموشی پر جب بار بار یہی سوال دہرایا گیا  تو خجالت آمیز لہجے میں آہستہ سے  بولا ، مجھے اس کاعلم نہیں۔
            یہ سنتے ہی شیعہ حضرات نے اپنے ہی مناظر کو  بر ُا بھلا کہا، حضرت جؒی سے  معذرت کی اور آپؒ کی علمی سطح کے پیش ِنظر مناظرہ سے دست بردار ہو گئے۔ حضرت جؒی نے حسب ِمعمول یہاں بھی اصلاحی نوعیت کے خطابات فرمائے۔
مناظرہ کالو وال (سرگودھا)
            حضرت جؒی کا مناظرہ کالووال ضلع سرگودھا اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے اختتام پر آپؒ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ حضرت جؒی کا مدِّمقابل آپؒ  کا روایتی حریف مولوی اسمٰعیل اور مناظرہ کے موضوع مسئلہ خلافت اور تحریف قرآن تھے۔ آپؒ نے فن ِمناظرہ میں اپنے زیر ِتربیت شاگرد مولوی نذیر احمد مخدوم کو ہدایت فرمائی کہ وہ دونوں اطراف کے دلائل اور حوالہ جات ِکتب تحریر کرتے چلے جائیں۔ اس مناظرہ میں بھی ہمیشہ کی طرح آپؒ ہی فاتح رہے اور مولوی اسمٰعیل حسب ِعادت رات ہی کو فرار ہو گیا۔حضرت جؒی علی الصبح کالووال سے گھوڑی پر سوار ہو کر لنگر مخدوم کے لئے روانہ ہوئے تو مخالفین کا ایک گروہ جو سیال موڑ کے قریب گھات لگائے بیٹھا تھا، لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے حملہ آور ہوا۔ آپؒ کو نرغے میں لینے کی کوشش کی لیکن گھوڑی منہ زور تھی، حصار توڑ کر سرپٹ بھاگی۔ حضرت جؒی نے اسے قابو میں رکھنا چاہا حتیٰ کہ لگام کھینچتے ہوئے آپؒ کے دونوں ہاتھ زخمی ہو گئے لیکن گھوڑی نے لنگر مخدوم پہنچ کر ہی دم لیا۔ حضرت جؒی پر قاتلانہ حملہ کا یہ واقعہ 1955ء میں پیش آیا۔ اس میں آپؒ  تو محفوظ رہے لیکن آپؒ  کارفیق ِسفر بری طرح زخمی ہو گیا۔ بعد میں حملہ آوروں پر مقدمہ بھی قائم ہوا لیکن آپؒ نے انہیں معاف کر دیا۔
مناظرہ باگڑ سرگانہ (عبدالحکیم ضلع خانیوال)
            سرگانہ قوم مذہبی طور پر دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی اور یہ لوگ چاہتے  تھے کہ اِحقاقِ حق کے ذریعے باہمی اختلافات ختم کئے جائیں۔ اسی جذبے کے تحت 15  اکتوبر 1956ء کو دو نشستوں میں مناظرے کا انعقاد ہوا۔  سامعین مختلف العقیدہ ہونے کے باوجود ایک ہی میدان میں جمع تھے لیکن اس کے باوجود نقص ِامن کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ ایک ہی سٹیج تھا جس پر شیعہ اور سنی حضرات کے نامز د صدور مل کر صدارت کر رہے تھے۔ اہل ِسنت کی صدارت حضرت جؒی نے فرمائی جب کہ شیعہ صدر مولوی امیر محمد تونسوی تھے۔فریقین کے مقررین مولانا عبدالستار تونسوی بمقابل مولوی اسمٰعیل تھے اور سرگانہ قوم کے دونوں سردار بطور سرپرست ِمناظرہ، صدور کے ساتھ سٹیج پر بیٹھے تھے۔
            مناظرہ کی پہلی نشست قبل از ظہر خلافت بلا فصل  کے موضوع پر منعقد ہوئی۔ یہ مولوی اسمٰعیل کا تجویز کردہ موضوع تھا اور قاعدے کے مطابق ثبوت بہم پہچانا بھی اسی کی ذمہ داری تھی۔ اس نے مختلف شیعہ کتب سے اس ضمن میں جو روایات پیش کیں، ان میں سے کسی ایک روایت میں بھی خلافت بلافصل کا تذکرہ نہ تھا۔ خلافت بلا فصل کے موضوع پر جب بات  نہ بنی تو اس نے درود کے مسئلے بیان کرنا شروع کردئے۔ صدورِ مناظرہ نے مداخلت کی توکہنے لگا:
‘‘لوگو! میں تم کو درود کے مسئلے نہ بتاؤں تو اور کیا بتاؤں؟ خلافت بلافصل میں  تو کوئی اختلاف نہیں۔’’
            دوسری نشست میں بھی یہی صورت پیش آئی  تومولاناعبدالستار تونسوی نے خلافت بلافصل کے جواب میں خلفائے ثلاثہy  کی حقانیت پر دلائل دئے۔ جواب الجواب کا موقعہ آیا تو  مولوی اسمٰعیل نے حسبِ سابق موضوع سے رو گردانی کی۔ اس پر  سرپرست مناظرہ نے کہا:
‘‘مولوی صاحب! آپ کے پاس دلائل کا جواب نہیں ہے۔ اگرکوئی جواب آپ کے پاس  موجود ہوتا تو یوں شرائط کی خلاف ورزی نہ کرتے       ۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘مہر صاحب! انہیں کچھ نہ کہو، موضوع مناظرہ چھوڑ کر جدھر جاتے ہیں جانے  دو     ۔’’
            اب اس نے ‘ابتال الباطل’ سے ایک عبارت پڑھی کہ اس میں خُم غدیر کی روایت میں لکھا ہے کہ     نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ علی(t) میرا خلیفہ بلافصل ہے۔ اس موقع پر صدر مناظرہ حضرت جؒی اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اس روایت میں لفظ ‘بلافصل’ ہرگز نہیں ہے۔ شیعہ مناظر اپنی جانب سے اس لفظ کا اضافہ کر رہے ہیں۔ پھر حضرت جؒی نے مولوی اسمٰعیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، ‘‘ کتاب ہمیں دکھاؤ، یہ لفظ اس کتاب میں نہیں ہے۔’’ حضرت جؒی چونکہ شیعہ مذہب کی کتب کے بارے میں مکمل علم رکھتے تھے،           مولوی اسمٰعیل کی یہ خیانت پکڑی گئی۔
          آخر میں مولوی اسمٰعیل نے مولانا عبدالستار تونسوی کی پیش کردہ مشہور شیعہ مآخذ         ‘‘تلخیص شامی’’ کی روایت کو اس طرح پڑھا کہ وہ حصہ جو اس کے موقف کے خلاف تھا، عمد اً چھوڑ دیا۔ اس پر فریقین کی جانب سے سرپرست حضرات نے کتاب دیکھ کر تصدیق کی کہ حوالہ پڑھنے میں خیانت کی جا رہی ہے۔ چوری پکڑی گئی تو مولوی اسمٰعیل نے سٹیج چھوڑ کرکتاب چھین لی اورپھاڑنے کی کوشش کی۔ مولانا عبدالستار تونسوی کی فوری مداخلت کے باعث وہ کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن اس کی اس حرکت کے ساتھ ہی مناظرہ ختم کردیا گیا۔
            اس مناظرہ کی تفصیلات ‘‘الفاروق’’ کے 1956-57 کے شماروں میں حضرت جؒی کے الفاظ میں محفوظ ہیں۔
شانِ حضرت امیر معاویہ t
            حضرت جؒی کے ریکارڈ شدہ ایک خطابِ جمعہ میں ایک مناظرہ کا تذکرہ ملتا ہے جو ایبٹ آباد کے قریب کسی پہاڑی قصبے میں منعقد ہوا تھا۔ فریقِ مخالف کی طرف سے حضرت امیر معاویہt کے ایمان کو مناظرہ کا موضوع بنایا گیا۔ حضرت جؒی نے اس مناظرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ایک مرتبہ، ایبٹ آباد کے قریب ایک مقام ہے پہاڑی علاقے میں،                   حضرت امیرمعاویہt  کے ایمان پر ایک مناظرہ رکھ دیا تھا شیعوں نے۔ انہوں نے حضرت مولانا احمد شاہ بخاری کو میرے متعلق لکھا کہ انہیں کہو،وہ آئیں۔ میں نے کافی دلائل جمع کئے تھے، جو قلمبند ہیں۔ ان میں قرآنِ کریم کی ایک آیت بھی لکھی جس کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباسt  اور حضرت علیt  کا آپس میں مناظرہ ہوا تھا۔ یہ دونوں بڑی ہستیاں ہیں قرآن کو سمجھنے والی۔ اس لئے بعض مفسرین کہتے ہیں، عبداللہ   ابن عباسt  سیدنا علی المرتضیٰt  کے شاگرد تھے۔ قرآنِ کریم ان سے سیکھا۔ یہ دونوں بہت فاضل تھے، قرآنِ کریم کے سمجھنے والے۔ اسی لئے قراء الاُمت کہا جاتا ہے      حضرت عبداللہ بن عباسt  کو۔ قرآنِ کریم کو سمجھنے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت بڑا ملکہ دیا تھا۔ آپس میں ان کی گفتگو ہوئی۔ اس دوران جب لڑائی شروع ہو گئی، جنگ صفین حضرت امیرمعاویہt کے اور حضرت علیt کے درمیان ہوئی، اس وقت          حضرت عبداللہ بن عباسt  نے کہا کہ قرآنِ کریم میں پیشین گوئی ہے کہ آخر یہ حکومت حضرت امیر معاویہt  لے لیں گے اور وہ غالب ہوں گے۔ حکومت ان کے پاس جائے گی، قرآن یہی کہتا ہے۔ حضرت علیt  نے کہا وہ آیت پیش کریں۔
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّط وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِط اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًاO
اس آیت کو آپ (عبداللہ بن عباسt) نے پیش کیا، کسی جان کو کسی نفس کو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ، اس نے قتل کیا ہے کر دو، زنا کیا ہے کردو، العیاذ باللہ، مرتد ہو گیا،  دین کو چھوڑ دیا قتل کردو۔ پھر فرمایا وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا۔ جو شخص مارا جائے، قتل ہو جائے، ظلم سے مارا جائے، جس طرح حضرت عثمانt  کا واقعہ ہوا ہے۔ فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا۔ ہم نے اس کے وارثوں کو پھر غلبہ دے دیا۔ حکومت دے دی ہے اس پر کہ آخر وہ کامیاب ہوں گے۔ فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ  فرمایا اسراف نہ کریں قتل میں، زیادتی نہ کریں، غلطی نہ کریں، کیوں؟ اس لئے، اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا ۔ آخر فتح یاب،  کامیاب، منصور یہی ہوگا۔ حکومت اسی کو ہی ملے گی۔ یہی کامیاب ہو گا۔ اس لئے، زیادتی نہ کرے قتل کے معاملے میں۔ تو حضرت عبداللہ  بن عباسt نے کہا کہ حضرت عثمانt  ظلم سے قتل ہوئے ہیں۔ کیوں؟ ان کے قتل کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مائی عائشہ صدیقہr سے پوچھا گیا تھا۔ فرمایا 36 ہزار مسلمان جب حضرت عثمانt کے بارے میں قتل ہوں گے اس کے بعد امن قائم ہو جائے گا۔ پوچھا 35ہزار ، 36ہزار؟ آپ  سے پوچھا گیا۔ انہوں نے فرمایا، نبی کی دیت ہے ستر ہزار آدمی بدلے میں قتل کیا جائے۔ اگر پیغمبر کو کوئی قتل کرتا ہے تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ مخلوق سے یوں لیتے ہیں کہ ستر ہزار آدمی اس کے بدلے میں قتل ہوتے ہیں، تب امن قائم ہوتا ہے اور نبی کا خلیفہ اس کے نصف تو ہونا چاہئے ناں۔ مسلمان 36 ہزار قریباً 35 ہزار قتل ہوا۔
  فرمایا، وہ ظلماً قتل ہوا ہے تو قرآن نے فیصلہ کر دیا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا۔ہم نے غلبہ اسی کو دیا ہے جو  اس کا والی ہے۔ حضرت امیر معاویہt  والی ہے۔ وہی مطالبہ قصاص کا کر رہا ہے۔ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا ۔  اللہ کا اعلان ہے کہ یہی فتح یاب ہو گا۔
 فتح اسی کی ہوگی۔ امیر معاویہt  آخر غالب ہوگا اور حکومت اس کے ہاتھ میں جائے گی۔ یہی غالب رہے گا حکومت آپؓ کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد موٹی بات ہے، امیر معاویہt  کاتب تھے، اچھا لکھتے تھے، سب سے بڑی امانت، سب سے بڑی چیز ہے، وحی پر امین ہونا۔ بہت بڑا منصب صحابہ میں یہ ہے کہ وحی کا کاتب ہونا اور وحی پر امین ہونا۔ حضرت محمدرسول اللہﷺ ان کو امین سمجھتے تھے۔ کاتبِ وحی تھے۔ انوارِ نعمانیہ میں موجود ہے (دو اور کتابوں کے حوالے دیئے) کاتب ِ وحی، وحی پر امین ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر اور کون سا مرتبہ ہو سکتا ہے۔’’
            بیسویں صدی کی چھٹی دہائی حضرت جؒی کے بھرپور مناظرانہ دور پر محیط ہے۔ فنِ مناظرہ  میں      مولانا عبدالستار تونسوی اور دوسرے علماء کی تربیت کے بعد حضرت جؒی مطمئن ہو گئے کہ اب یہ حضرات  مناظرانہ  ذمہ داریوں سے بخوبی عہدہ  برآہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپؒ نے صدر مجلس کی حیثیت سے چند مناظروں میں شرکت بھی  فرمائی۔ 1956ء  میں آپؒ کی صدارت میں باگڑسرگانہ (عبد الحکیم ضلع خانیوال) کامشہور مناظرہ  ہوا جس میں مولوی اسمٰعیل کے مقابل مولا نا عبد الستار تونسوی اہل سنت کے مقرر تھے۔


Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو